Friday, September 20, 2024

Khojh | Episode 9

فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔ باہر ممالک میں کام میں ایمانداری ملتی ہے۔ ہمارے ملک میں مذہبیت، ﷲ کے اور رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے نام پر گردنیں کاٹ دیں گے مگر اسلام پر عمل نہیں کریں گے۔ ہم اسلام کو کام نہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم سارے ہیں، اُمتی کوئی نہیں۔
ذوقِ جنوں ستم کی حدوں سے گزر گیا
کم ظرف زندہ رہ گئے اِنسان مر گیا
تجربات کی یہ اذیتیں اب تلخیاں بن کر عبدﷲ کی زبان پر آچکی تھیں۔
وہ جتنا زیادہ کام کرنا چاہتا اُسے اتنی پریشانیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا، وہ ہر ایک سے اُمید لگاتا کہ وہ احسان excellence کے درجے پر کام کرے گا۔ جواب ظلم میں آتا تو عبدﷲ تلخ ہوجاتا۔
عبدﷲ باقاعدگی سے مفتی صاحب کے پاس جانے گا، کبھی کچھ پوچھ لیتا، کبھی صرف جو بھی بات چیت چل رہی ہوتی وہ سن کے آجاتا اور ڈائری میں لکھ لیتا۔ ایک دن مفتی صاحب کہنے لگے۔
’’ڈاکٹر صاحب زندگی کا مقصد ﷲ کی رضا ہے اور اگر حشر کے روز ہم ﷲ کو دیکھ کے مُسکرائے اور وہ ہمیں دیکھ کے مسکرائے تو یہ ہوگی کامیابی، اور یہ ہے وہ اصل کامیابی کہ جس پر فخر کیا جاسکے‘‘۔
عبدﷲ نے بات لکھ لی مگر سوچنے لگا کہ وہ ایسا کیا کرے کہ یہ نتیجہ نکلے۔
ایک دن مفتی صاحب سے پوچھا کہ انسان اور بندے میں کیا فرق ہے؟ اور بندگی کسے کہتے ہیں؟ ’’انسان وہ ہے جو کسی کو دکھ نہ پہنچائے جو آدمی غصے، عقل اور جنس کو کنڑول میں رکھ سکے وہ ہے انسان‘‘۔
اور بندگی نام ہے اپنے آپ کو معبود کے حوالے کر دینے کا، اب یہ الگ بات ہے کہ اس نے معبود کس کو چنا ہوا ہے۔
آج عبدﷲ پھر سے بجھ گیا آج بِلّو کو پھر پتہ تھا کہ رت جگا ہوگا۔
یاﷲ ! میں تو آج تک انسان بھی نہ بن سکا، نہ ہی عقل پر کنٹرول ہے، نہ ہی جنس پر نہ غصے پر، یہ کیا ہوگیا؟ میں تو بڑا خوش تھا کہ بڑے بڑے کام کر رہا ہوں۔ وژن ہے مگر میں تو بندہ بھی نہ بن سکا۔ میں نے تو اپنے آپ کو، میں کے حوالے کردیا ہے اور دن رات اسی میں مگن ہوں۔ مجھ سے زیادہ چالاک تو بلّو نکلی جو پہلے دن سے ہی اپنے آپ کی نفی کرتی آئی ہے۔
میرے ﷲ! پھر کوئی طوفان واپس ہے خیال رکھنا۔
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
اب عبدﷲ کے سوالوں میں تیزی آگئی تھی اور وہ ہر ملاقات میں مفتی صاحب پر سوالوں کی بوچھاڑ کردیتا۔ زندگی کسے کہتے ہیں مفتی صاحب؟
’’زندگی جل اٹھنے یا بجھ جانے کا نام نہیں ہے، یہ نام ہے سُلگتے رہنے کا‘‘
مفتی صاحب کیسے پتہ لگے کہ بندے کا ﷲ کے پاس کیا مقام ہے؟ بڑا آسان ہے، بندہ یہی دیکھ لے کہ ﷲ کا اس کے پاس کیا مقام ہے۔
’’اگر ﷲ کو ہر شے پہ فوقیت دیتا ہے کہ پہلے ﷲ پھر بیوی، پہلے ﷲ پھر جاب تو ﷲ کے یہاں بھی مقدم ہے اور اگر ﷲ کی پروا نہیں کرتا تو عین ممکن ہے کہ وہاں بھی اشرافیہ میں سے تو نہ ہوگا‘‘۔
اور پھر رت جگا۔۔۔۔ ﷲ! میں نے تو آج تک کوئی کام تیرے لیے کیا ہی نہیں، آج تک تیرا خیال ہی نہ آیا، تیرا نام لے کے کام اپنے لئے کرتا رہا، کمپیوٹر سائنس آتی ہے وہی پڑھائی اور طرہّ یہ کہ وژن کا لفافہ لپیٹ کر یہ سمجھ لیا کہ سب کچھ تیرے لیے ہے اور جب کہ ایسا نہیں ہے، بڑی خیانت ہوگئی میرے ﷲ، معافی دے دے۔ سوال دینے والے ﷲ، جواب بھی دے دے آمین!
عبدﷲ نے بھرپور کوشش کی کہ جاب چلتی رہے اور وہ بہت دل لگا کے کام کرنے لگا، وژن کی بات اس نے تقریباً کرنی چھوڑ ہی دی۔ احمد صاحب اور امین صاحب سے تعلق بھی بس واجبی سا رہ گیا۔
عبداﷲ کی تیز طبیعت مفتی صاحب کی دھیمی طبیعت سے موافق نہیں تھی، وہ چاہتا تھا کہ اس کے سارے سوالوں کے جواب ایک نشست میں مل جائیں، مفتی صاحب کہتے تھے کہ اُمتّوں کا مزاج صدیوں میں بنتا ہے۔ تقویٰ اختیار کرو۔ یہ 4 چیزیں دیتا ہے،
تقویٰ سوال سکھاتا ہے
تقویٰ جواب دیتا ہے
تقویٰ علم دیتا ہے اور
پھر اس علم سے ملنے والے غرور کا سدِِّ باب بھی کرتا ہے۔
نوکری کے معاملات ٹھیک ہوئے تو عبدﷲ کو پھر سے جوابات کی تلاش ہوئی، جھوٹ کیا ہے؟
MPL کیسے پورے ہوں؟
vision پہ کام کیسے ہو؟
جن لوگوں کا vision نہ ہو اُن سے کیا معاملہ ہو؟
میری بِلّو جو پڑھائی کی ازلی دشمن ہے اُس سے ساتھ کیسے چلے؟
اب میری نئی TDL کیا ہو؟
عبدﷲ ان سوالوں کے جواب چاہتا تھا مگر مفتی صاحب سے نہیں۔ اُن کے پاس جانے سے نفس پر چوٹ پڑتی تھی اور یہ بات عبدﷲ جیسے پڑھے لکھے آدمی کو قبول نہیں تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کھونٹے سے بندھے بغیر سب کچھ سیکھ جائے اور سالوں کی منزلیں، دنوں میں طے کرلے۔ عبدﷲ کے ایک پروفیسر دوست اسے اپنے ساتھ جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں لے گئے ایک شیخ کے پاس، جن کے دنیا بھر میں لاکھوں مرید تھے۔ عبدﷲ نے وہاں پہنچ کر ملاقات کی کوشش کی مگر اُن کے کلا شنکوف بردار محافظین کی جماعت نے اسے ملنے نہ دیا اور کہا کہ مسجد میں جا کے بیٹھو۔
کوئی دو گھنٹوں بعد وہ حضرت تشریف لائے، نماز پڑھائی، ابھی عبدﷲ سنتیں پڑھ ہی رہا تھا کہ مجمع میں سے ایک شخص اس کے اوپر ٹانگ رکھتا ہوا گزر گیا۔ عبدﷲ نے سلام پھیرتے ہی اسے جالیا۔ اُوبھائی! کدھر بھاگ رہے ہو، انسان نظر نہیں آتا کیا؟ میں حضرت کے دِیدار کو جارہا ہوں۔ آؤ لائن میں لگ جاؤ، ہاتھ ملا لو، کئی روز سے رو رو کر اس دن کی دعا مانگی ہے۔
ﷲ کی مسجد میں، ﷲ کی نماز میں، رو رو کر کسی اور کو مانگتے ہو، شرم نہیں آتی۔ عبدﷲ کی آنکھوں میں انگارے بھر گئے تھے۔
حضرت سے مل لو، دو جہاں کامیاب ہوجائیں گے، وہ شخص تڑپا۔
بھاڑ میں گئے تمھارے حضرت، نہیں ملاتا ہاتھ۔، ساتھ جانیوالے دوستوں کے بڑے اصرار پر عبدﷲ نے ہاتھ تو ملا لیا مگر یہ اس کی حضرت کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔ واپسی پر وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اب کس کے پاس جائے۔
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے سلطانی بھی عیّاری
کچھ روز میں عبدﷲ کا کراچی میں جانا ہوا، ایک دوست اپنے ایک شیخ کے پاس لے گئے۔ عبدﷲ کمرے میں داخل ہوا تو درجنوں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ شیخ صاحب ایک نئے بندے کو ’’مریدنے‘‘ مرید بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے ہونے والے مرید سے پوچھا۔ یہ نیک لوگوں کی مجلس ہے۔ تم شراب تو نہیں پیتے؟ جی نہیں، جھوٹ؟ بالکل نہیں، غیبت؟ توبہ کریں جی! کوئی لڑکی وڑکی؟ اب مرید صاحب خاموش۔ عبدﷲ سے پھر صبر نہ ہوسکا اور پہنچ گیا ان دونوں کے سر پر، ارے مولوی صاحب، کیوں ڈھنڈورا پیٹتے ہو اُن چیزوں کا جنہیں خدا چھپالیتا ہے، اور مرید سے کہا کے بھاگ جا یہاں سے، کیوں زندگی برباد کرنے آیا ہے اور مولوی صاحب میری دعا ہے کہ ﷲ آپ سے یہ تمام گناہ کروائے جن کی کنفرمیشن آپ اس بچے سے چاہ رہے تھے۔
اور اس کے بعد ظاہر ہے نہ شیخ صاحب نے کچھ’’عنایت‘‘ کرنا تھی، اور تو اور ساتھ لے جانے والے ’’دوست‘‘ بھی زندگی بھر کو کنارہ کش ہوگئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبدﷲ کافی عرصے بعد مفتی صاحب کے پاس آیا وہ کسی سے بات کر رہے تھے۔
کہنے لگے، ’’اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ فلاں شخص اپنے اختیار، اثرو رسوخ یا دولت کی وجہ سے میرے حلقے میں آجائے یا میرا مرید بن جائے تو یہ بات طریقت میں شرک ہے‘‘۔
عبدﷲ تو گویا انتظار میں تھا، اس نے سوالوں کی پوٹلی پھر کھول دی۔
مفتی صاحب، جھوٹ کیا ہے؟
کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ’’میں‘‘ ہے۔ آدمی سارے بت توڑ دیتا ہے۔ علم کا، دولت کا، شہرت کا، امارت کا، عہدے کا، شرک کا، مگر اپنی ذات کا بت بنا لیتا ہے اور اِسے پوجنا شروع کردیتا ہے اور اس کا ٹیسٹ یہ ہے کہ خلافِ معمول کوئی کام ہوجائے، کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ کل سے کسی کو ﷲ کی طرف نہیں بلاؤں گا، دعوت نہیں دوں گا، پڑھاؤں گا نہیں، اپنے کرتوت ایسے اور نام ﷲ کا۔ یہ ہوا یوں کہ وہ پہلے روز سے ہی اپنا پیٹ بھر رہا تھا اور اپنے لئے ہی کام کر رہا تھا۔ ﷲ کے لئے تو تھا ہی نہیں۔ عبدﷲ کو دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی، وہ اُٹھ کے واپس چلا آیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ نے اپنے آپکو کچھ دنوں کے لیے کمرے میں قید کیا اور شروع سے ہر بات کا جائزہ لینے لگا کہ ہوا کیا ہے؟ اِسے احساس ہوا کہ اُس نے وژن بنا کے تمام ان لوگوں کی گردنیں اُتارنی شروع کردی تھیں جن کا وژن بظاہر کچھ نہ ہو اور وہ خود پرستی کے ایسے گرداب میں پھنستا چلا گیا جس کا اندازہ اِسے خود بھی نہ ہوسکا۔ مفتی صاحب کے دو جملے اس کے کانوں میں زہر گھول رہے تھے۔
’’مے کا نشہ ایک رات میں اُتر جاتا ہے’’میں‘‘ کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔‘‘
اور مرنے کے بعد سب سے پہلے جو چیز چھن جاتی ہے وہ اختیار ہے۔ ساری اَکڑ، فوں فاں، ٹاں ٹاں سب گئی، اب کرلو بات۔ جیسے جیسے عبدﷲ سوچتا گیا ویسے ویسے اس کی حالت غیر ہوتی چلی گئی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور بلّو اندر آئی۔ عبدﷲ کی حالت دیکھتے ہی بلّو نے پوچھا اب کیا ہے عبدﷲ، اب کیوں پریشان ہو؟ کس ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھاگ کر آئے ہو؟ اور عبدﷲ بچوں کی طرح بلک بلک کے رونے لگا۔ جذبات کا جوار بھاٹا تھما تو بِلّو نے کہا۔ دیکھو عبدﷲ، سب سے پہلے تو دھیمے ہوجاؤ، تربیت اسی کو کہتے ہیں۔ ’’میں کچھ نہیں‘‘ سے بہتری کا آغاز ہوتا ہے۔ اپنے آپ پہ کام کرو۔ جب بچہ جوان ہوجاتا ہے یا تو اُسے آکر ماں باپ کو بتانا نہیں پڑتا بلکہ محلے والے آ کر بتا جاتے ہیں۔
میرے خیال میں جب تم اس قابل ہوجاؤ گے کہ کام لیا جائے تو ﷲ کے یہاں سے بلاوا خود ہی آجائے گا، اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ لوگوں کو حقیر مت جانو، گنا ہگاروں کی عزت کرو، گناہ بھی تو ایک تعلق ہی ہے۔ اپنے رب سے، جس ﷲ نے تمہیں یہ مقام دیا ہے اسی ﷲ نے کسی کو کہیں اور رکھ چھوڑا ہے۔ خدائی کاموں میں علّت نہ ڈھونڈا کرو، اُس کا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں ہوتا۔
عبداﷲ! کبھی کبھی کوئی شخص کچھ نہ کرکے بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا ہے، اس کی مثال میچ کے اُس کھلاڑی کی سی ہوتی ہے جو پورا میچ کچھ نہیں کرتا جسے تمہارے جیسے لوگ vision less مخلوق کہتے ہیں، مگر پھر آخری بال پہ لگنے والا باؤنڈری کا چھکا اس کے ہاتھوں میں آکر گرتا ہے اور وہ سرخرو ہوجاتا ہے۔ عبدﷲ، گناہ بھی ﷲ کی نعمت ہوتے ہیں، یہ بندے کو بندہ بنا کر رکھتے ہیں۔ گناہ ہو ہی نہ تو بندہ او تار بن جائے۔ میں تو گناہگار بندی ہوں مگر پتہ نہیں کیوں لگتا
ہے کہ پُرسکون قلب والوں کی تہجد سے ندامت میں تڑپنے والوں کی راتیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں۔ عبدﷲ کان کھول کے سن لو، منزل تو بے وقوفوں کو ملتی ہے، عقلمند آدمی ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔
عبدﷲ کو بلو سے اس قسم کی گفتگو کی قطعاََ امید نہ تھی۔ وہ حیرت کے جھٹکے سے باہر نکلا تو کہنے لگا، ﷲ کی ولی تجھے یہ سب کس نے سکھایا؟ بلو نے ہنستے ہوئے کہا، کیوں کیا ﷲ صرف تمھارا ہے؟ کیا کسی اور کو مانگنا نہیں آتا؟ کیا کوئی کنواں دیکھا ہے جس میں پانی باہر سے ڈالتے ہوں؟ علم ہمیشہ اندر سے آتا ہے باہر سے تو معلومات ملتی ہیں اور مفتی صاحب بھی صرف تمہارے تھوڑا ہی ہیں ان کے لیکچرز میں نے تم سے زیادہ سنے ہیں۔
عبدﷲ! ایک کام کرو عمرے پہ چلے جاؤ، شاید تمہارا دل کچھ ہلکا ہو۔
عبدﷲ کو آج پہلی بار احساس ہوا کہ ہنستی مسکراتی شرارتیں کرتی بِلّو اندر سے کتنی گہری ہے اور اپنے آپ کی جستجو میں اس نے آج تک بِلّو کو دیکھا ہی نہیں ۔
کتنے سلجھے ہوئے طریقے سے
ہمیں اُلجھن میں ڈال جاتے ہو
آج عبدﷲ کا دن آفس میں اچھا نہیں گذرا، واپسی پر وہ سیدھا مفتی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور پوچھنے لگا۔ مفتی صاحب یہ لوگ اتنا تنگ کیوں کرتے ہیں؟ نہ کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ عبدﷲ جیسے پیسوں کی زکوٰۃ ہوتی ہے بالکل اِسی طرح ﷲ تعالیٰ کے فضل کی یا success کی بھی ایک زکوٰۃ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کا ظلم جھوٹ اور حسد برداشت کیا جائے اور یہ ایسے نہیں کہ سال دو سال میں کوئی واقعہ پیش آجائے۔ یہ ایسے برستا ہے جیسے کہ مون سون میں بارش، تم زکوٰۃ دئیے جاؤ ﷲ کا فضل بھی مینہ بن کے برسے گا۔
ہاں! مفتی صاحب مگر جو تن بیتے وہ تن جانے
یہ تو ہے عبدﷲ، پاکستان میں 3 چیزیں حرام ہیں۔ سور کا گوشت، پڑھنا اور سچ بولنا۔ ان تمام باتوں سے واسطہ تو پڑنا ہی ہے۔ اچھا ایک بات بتائیں یہ کیسے پتہ لگے کہ بندہ جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ صحیح راستے پر ہے بھی یا نہیں؟
جب کوئی بندہ صحیح راستے پر ہوتا ہے تو 3 میں سے ایک کام ہوتا ہے۔
1۔ ﷲ اُس کا دل کسی کام کے لیے کھول دیتا ہے اور پھر دنیا ایک طرف اور وہ ایک طرف۔ وہ صرف وہی کام کرتا رہتا ہے۔
2۔ اُس کا جس بندے سے تعلق ہوتا ہے وہ اُس سے جا کے پوچھتا ہے کہ کیا کروں تو ﷲ اس کے ٹیچر، شیخ کے دل میں کوئی بات ڈال دیتے ہیں۔ وہ اُسے
جاری ہے

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS