میں شروع سے ہی حسن پرست واقع ہوئی تھی۔ من موہنی لڑکیوں کو سہیلیاں بناتی اور جو ذرا معمولی شکل و صورت کی ہوتیں، ان سے بات بھی نہ کرتی۔ بدصورتی تو کسی آنکھ کو بھی نہیں بھاتی لیکن مجھ سے تو بدشکل چہرے برداشت ہی نہ ہوتے تھے، آنکھیں بند کرلیتی جیسے کہ آنکھوں میں زخم پڑگیا ہو۔
جانے کیوں میرا ایسا خطرناک رجحان تھا حالانکہ شکل و صورت تو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہوتی ہے۔ کسی انسان کا چہرہ خوبصورت نہ ہو تو ضروری نہیں کہ اس کا دل خوبصورت نہ ہوگا یا سیرت اچھی نہ ہوگی۔ اصل خوبی تو اچھی سیرت ہوتی ہے۔
امی جان اکثر کہا کرتی تھیں۔ خدا جانے اس لڑکی کا کیا بنے گا… کہیں خوش شکل دولہا نہ ملا تو ڈر ہے زندگی ہی برباد نہ کرلے۔ ماں نے صحیح کہا تھا۔ اپنی نادانی اور کم عقلی سے بالآخر میں نے زندگی کو برباد کر ہی لیا، صرف حسین صورت کی خاطر۔
ان دنوں میٹرک میں پڑھتی تھی کہ میرے لیے ابو کے ایک دور کے کزن کے بیٹے سلیم کا رشتہ آگیا۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ اب میری تعلیم ختم ہوجانی چاہیے کیونکہ لڑکی کو زیادہ پڑھانے سے شادی کی عمر نکل جاتی ہے، پھر اچھے رشتے نہیں آتے۔
والدین کی دانست میں سلیم ایک بہترین لڑکا تھا۔ اس نے سی اے میں ٹاپ کیا تھا اور اب اعلیٰ عہدے پر فائز تھا، بہت اچھی تنخواہ لے رہا تھا۔ خوشحال گھرانے کا نور نظر اور اپنے خاندان سے تھا۔ اس میں کوئی برائی نہ تھی۔ کچھ کمی تھی تو یہ کہ معمولی شکل و صورت تھی۔ وہ حسین لوگوں میں شمار نہ ہوتا تھا۔
سلیم نے دراصل مجھے کسی رشتہ دار کے گھر شادی کی تقریب میں دیکھا تو اپنی والدہ سے کہا کہ میں اسی لڑکی سے شادی کروں گا، آپ میرا رشتہ لے کر مومنہ کے گھر جائیے۔
ان کی والدہ ہمارے گھر میرا ہاتھ مانگنے آگئیں۔ والدین نے ان سے ہاں کہہ دی، لیکن میں نے سلیم کو دیکھا تو میری چیخ نکل گئی۔ اُف اتنا کالا اور بدشکل لڑکا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا… شادی سے صاف انکار کردیا بلکہ کہہ دیا اگر میری شادی اس بدشکل سے ہوئی تو زہر کھالوں گی۔
اب گھر میں مسئلہ ہوگیا کیونکہ والدین ’ہاں‘ کرچکے تھے اور میں مسلسل انکار کررہی تھی۔ والدہ سمجھارہی تھیں کہ وہ اتنا بھی بدشکل نہیں ہے، کچھ سانولا ضرور ہے، نین نقش اچھے ہیں۔ صرف شکل ہی نہ دیکھو اور خوبیاں بھی تو دیکھو۔ ایسی خوبیاں کسی دوسرے میں نہ ملیں گی۔ بہت شریف لڑکا ہے، تمہارا خیال رکھے گا۔ ان کے گھر میں کسی شے کی کمی نہیں ہے۔
والدہ کی باتوں کو کیسے خاطر میں لاتی۔ میری نظروں میں تو گلفام سمایا ہوا تھا۔ یہ لڑکا ہمارے محلے میں رہتا تھا۔ بی اے تھرڈ ائیر میں تھا کہ اس کے والد فوت ہوگئے۔ تبھی پڑھائی چھوڑدی تھی اور اب ہمارے گھر کے سامنے جنرل اسٹور پر پر اکثر آیا کرتا تھا کیونکہ اسٹور کے مالک کے بیٹے سے دوستی تھی، اس سے سگریٹیں لے کر پیا کرتا تھا۔
میرا اور گلفام کا سامنا کئی بار ہوچکا تھا۔ اسکول جاتے ہوئے اسٹور سے کچھ خریدنے جاتی یہ موجود ہوتا اور مجھے تیکھی نظروں سے دیکھتا۔ بہت خوبصورت تھا۔ تبھی اس کی تیکھی نگاہیں میرے من کو بھائیں اور صورت دل میں سماگئی۔ سوچ لیا تھا کہ شادی کروں گی تو اسی سے کروں گی ورنہ کسی سے نہیں کروں گی۔
میرے بہت زیادہ رونے دھونے کا والد صاحب کے دل پر بہت اثر ہوا۔ بالآخر انہوں نے سلیم کے والدین کو رشتہ دینے سے انکار کردیا اور بہانہ یہ کیا کہ ہماری بیٹی ابھی میٹرک میںہے، جب بی اے کرلے گی تب کہیں شادی کا سوچیں گے۔
اس انکار پر سلیم کے گھر والے بہت افسردہ تھے کیونکہ سلیم افسردہ تھا۔ وہ مجھے دل سے پسند کرتا تھا لیکن جب لڑکی نہ ہو راضی تو کیا کرے گا قاضی۔
میں بہرحال بہت خوش تھی کہ اس کالے بدشکل سے جان چھوٹ گئی۔ میں پوری طرح گلفام کے خیالوں میں کھوگئی۔
جس کو دل پسند کرے، انسان اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ میں بھی بہانے بہانے اسکول آتے جاتے کبھی بسکٹ کا پیکٹ تو کبھی کاپی پینسل خریدنے جنرل اسٹور پر جانے لگی… لیکن تبھیجاتی جب گلفام وہاں بیٹھا نظر آتا ورنہ گھر کی راہ لیتی۔
میری دلچسپی کا راز اس نے پالیا اور اب وہ بھی صبح شام اسکول ٹائم پر اسٹور پر آکر بیٹھنے لگا۔ اس کا دوست زوہیب کہتا تھا یار دیکھو۔ ہماری دکانداری اور ہمسائیگی کا معاملہ ہے، کہیں دکان بند نہ کرادینا۔
ایک روز اسکول جاتے ہوئے لگا جیسے کوئی میرا تعاقب کررہا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گلفام تھا، دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ نزدیک آیا تو سرگوشی میں بولا۔ آج اسکول نہ جائو پارک میں چلتے ہیں۔ پہلے تو گھبرائی لیکن پھر اس کی باتوں میں آگئی۔ سوچا دو گھڑی پارک میں جاکر بات کرنے میں کیا ہرج ہے، اتنا خوبصورت ہے۔ ایسا خوبرو چاہنے والا، خوش قسمت لڑکی کو ہی ملتا ہے۔
ہم جاکر پارک میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر اس نے لگاوٹ بھری باتیں کیں۔ میں برقع لیتی تھی۔ اس نے نقاب ہٹانے کو کہا۔ چہرہ دیکھنے کی فرمائش کی۔ پھر کہا کہ تم تو چاند سے بڑھ کر حسین ہو، اچھا ہے نقاب کرتی ہو ورنہ جانے کتنے لوفر تمہارے پیچھے لگ جاتے۔ اس تعریف پر پھولی نہ سمائی۔ وہ بھی تو کم حسین نہ تھا۔
اس روز اسکول نہ گئی۔ پارک سے لوٹ کر گھر آگئی اور اپنے گھر میں جاکر آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی۔ اماں سے جلدی چھٹی ہوجانے کا بہانہ کیا تھا۔ وہ میرے دل کو اس قدر بھایا تھا کہ اب تو بس اسی کے سپنے دیکھا کرتی تھی۔
لگتا تھا کہ گلفام بِنا میری زندگی ادھوری ہے۔ ہر وقت اسی کے خیالوں میں کھوئی رہتی تھی۔ وہ بھی یہی ظاہر کرتا تھا کہ میرے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ بس یہی کہتا تھا کہ آسمان پر خدا ہے اور زمین پر تم ہو۔
اب پڑھائی میں دل نہ لگتا۔ ہر وقت اس کے ملنے کا انتظار رہتا تھا۔ کچھ دن تو ہم ایسے ہی پارک میں ملتے رہے لیکن پھر میں نے محسوس کیا کہ گلفام ویسا نہیں ہے جیسا میں سمجھتی تھی یا کہ جیسا میں اس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب میں نے اس کی کچھ فرمائشیں ردکیں تو اچانک اس نے اسٹور پر آنا کم کردیا۔
وہ اب ہفتہ میں ایک بار آتا۔ اتنی دوری بڑھادی کہ میں پریشان رہنے لگی۔ وجہ پوچھتی تو کہتا زیادہ ملنا ٹھیک نہیں ہے۔ کسی نے ہم دونوں کو پارک میں ملتے دیکھ لیا تو تمہاری رسوائی ہوجائے گی۔ کبھی کہتا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم پڑھائی مکمل کرلو اور روز اسکول جایا کرو، چھٹی نہ کیاکرو۔ میں نے بھی جاب کرلی ہے کچھ کمائوں گا تبھی تم سے شادی کرسکوں گا۔ پارک میں اب نہ ملیں گے، کسی دوسری محفوظ جگہ خوشی سے چلو گی تو لے جائوں گا۔
دوری سے بے قراری بڑھتی ہے یہ تو حقیقت ہے۔ میں بار بار اسے فون کرنے لگی اور وہ کہتا صبر کرو، آخر کو ملنا ہے، ملیں گے کسی نہ کسی دن۔
ایک دن اس کی یاد میں اداس بیٹھی تھی کہ فون آگیا۔ گلفام نے کہا ابھی ملو تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ میں تو بے قرار تھی ہی، فوراً امی سے سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ کرکے گھر سے نکل پڑی۔
گلی کے نکڑ پر وہ انتظار کررہا تھا۔ آج وہ گاڑی لایا تھا۔ مجھے دیکھ کر دروازہ کھول دیا اور میں جھپاک سے اس کے برابر والی نشست پر بیٹھ گئی۔
گاڑی چلاتے ہوئے دس منٹ تک وہ چپ رہا اور میں اس انتظار میں چپ تھی کہ وہ بولے تو میں بھی بات کروں۔ پھر ایک مکان کے سامنے اس نے کار روک لی۔ بولا اترو… یہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
مکان خالی تھا۔ وہاں کوئی ذی نفس نہیں تھا۔ مگر کم عقل میں تھی کہ اس پر بھروسا کرکے بے دھڑک اندر چلی گئی۔
تھوڑی دیر تک باتیں کرتا رہا اور میں اس کی مسحور کن گفتگو سنتی رہی۔ وہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے آیا اور انہیں میز پر رکھتے ہی دروازہ بند کردیا۔ وہ میرے بہت قریب ہونے لگا، تبھی مجھے ہوش آیا اور میں نے اسے تنبیہہ کی کہ دیکھو گلفام تم جیسے مجھے لائے ہو، ویسے ہی باہر پہنچادو۔ میں تمہاری ضرور ہونا چاہتی ہوں مگر ایسے نہیں… تمہیں بارات لانی ہوگی، مجھے دلہن بناکر گھر لے جانا ہوگا، تبھی میں تمہاری بنوں گی۔
میرا لہجہ سخت اور موڈ خراب دیکھ کر وہ مجھ سے دور ہوگیا۔ پاس سے اٹھ کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا۔ پھر کہا اچھا چلو اٹھو… میں ابھی تم کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ تم کو گھر جانے کا رستہ نہ ملے اور پھر دیر ہوجائے۔ تم ایک اچھی لڑکی ہو، میں تم کو برباد نہیں کرنا چاہتا۔
وہ مجھے گھر چھوڑ کر چلا گیا مگر اس کے بعد فون کیا، نہ ملنے کو کہا۔ جب فون کرتی وہ نہ اٹھاتا۔ ایک بار اٹھایا بھی تو بہت رکھائی سے بات کی اور پھر جلدی فون بند کردیا۔ یہ صورت حال میرے لیے اور زیادہ باعث پریشانی تھی۔ میں نے اسے اس کے جنرل اسٹور والے دوست کی معرفت پیغام بھجوایا… تو اس نے فون کیا اور کہا کہ کسی کے ذریعے پیغام رسانی تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے، آئندہ زوہیب کو کوئی پیغام نہ دینا۔ یوں بھی تمہیں مجھ سے پیار نہیں ہے تبھی تو اس دن دھتکار دیا تھا۔
اس کی یہ باتیں میرے دل کو زخمی کرنے لگیں۔ ایسی باتیں مجھے بری لگتی تھیں لہٰذا میں نے اس کو پھر فون کرنا بند کردیا۔
اب گل فام سے مکمل طور پر رابطہ ختم تھا۔ پھر بھی میرا دل اس کی یاد میں تڑپتا رہتا تھا اور اس کو یاد کرکے چھپ چھپ کر روتی تھی۔
جب بہت جی گھبراتا، بہانے سے جنرل اسٹور جاتی کہ شاید وہ وہاں زوہیب کے پاس بیٹھا ہو۔ زوہیب بھی میری بے قراری کو سمجھتا تھا لیکن کیا کرسکتا تھا۔ جب کوئی موجود نہ ہوتا تو سمجھاتا کہ نشاط اس کا خیال چھوڑدو، وہ اب نہیں آئے گا، ویسے بھی وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔
ایک روز چھٹی کے وقت اسکول سے آرہی تھی کہ رستے میں موٹرسائیکل پر زوہیب مل گیا۔ اس نے کہا تم پیدل ہو، اگر برا نہ لگے تو موٹر سائیکل پر بیٹھ جائو، میں تمہیں گھر کے نزدیک اتاردوں گا۔
اگر تم مجھے گلفام کے بارے میں سچ سچ بتادو وہ کہاں ہے اور کیوں ادھر آنا چھوڑدیا ہے تو میں تمہارے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتی ہوں۔
وہ ہمارا محلے دار اور ہمسایہ تھا۔ گل اور میرے پیار کا رازدار بھی تھا تو میں نے اس پر بھروسا کرلیا اور اس کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔
اس نے موٹر سائیکل گھر کی طرف لے جانے کی بجائے مخالف سمت میں موڑ لی تو میں نے کہا تم ادھر کیوں جارہے ہو۔ کہنے لگا تم ہی نے تو کہا ہے کہ گلفام کے بارے میں سب کچھ بتادوں، اسی لیے کہیں بیٹھ کر بات کریں گے۔
گلفام سے پیار نہ ہوتا تو کبھی زوہیب کے ساتھ نہ جاتی لیکن دل کے ہاتھوں
مجبور ہوگئی۔ وہ مجھے ایک مکان میں لے آیا۔ جب اس نے گھر کا دروازہ کھولا تو سامنے برآمدے میں ایک بوڑھی عورت بستر پر لیٹی تھی۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی تھی، تبھی مجھے لگا کہ سورہی ہے۔
آج گھر والے اسپتال میں ہیں کیونکہ میری بہن وہاں داخل ہے اور یہ میری دادی ہیں۔ ہم ان کو اکیلا نہیں چھوڑتے، تبھی میں نے کچھ دیر کے لیے دکان بند کردی ہے تاکہ دادی کے پاس رہوں۔
دادی کو گھر میں دیکھ کر تسلی ہوگئی اور میں اس کے ساتھ کمرے کے اندر چلی گئی۔ وہ کہنے لگا آرام سے بیٹھو، یہاں کوئی نہیں ہے، اب میں تم کو گلفام کے بارے میں آج بہت ساری باتیں بتائوں گا۔
میں اس کی یاد میں ہلکان تھی۔ ذہن میں اس کی خوبصورت شبیہہ کے سوا کچھ نہ تھا۔ زوہیب میرے نزدیک ہی صوفے پر بیٹھ گیا، تب بھی مجھے احساس نہ ہوا۔ وہ کہہ رہا تھا اچھا ہوا تمہارا اس بدمعاش سے پیچھا چھوٹا۔ سچ کہتا ہوں وہ اچھا آدمی نہ تھا۔
پیار بھرے لہجے میں تسلیاں دینے لگا۔ میرے ذہن کو سکون ملا۔ میں بھی دل سے اس بے وفا کی یاد بھلانا چاہ رہی تھی۔ شاید کہ اس کے غم سے فرار ڈھونڈ رہی تھی جو کہ میرے دل کو کھارہا تھا۔ باتیں کرتے کرتے وہ یکدم بدل گیا۔ اب زوہیب کا بھی ویسا ہی رویہ ہوگیا جیسا اس دن گلفام کا تھا لیکن… میری تنبیہہ پر اس کو حجاب آگیا تھا اور اس نے مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ اس نے کہا تھا تم ایک اچھی لڑکی ہو، میں تم کو برباد نہیں کروں گا مگر آئندہ کبھی کسی کے ساتھ ایسے اکیلے میں نہیں جانا… اور یہ شخص جو خود کو بہت اچھا اور شریف ظاہر کرتا تھا جس نے اپنی دادی کی موجودگی کا احساس دلا کر خالی گھر میں میرے بیٹھنے کے خوف کو دور کیا تھا، وہ گلفام سے بدتر نکلا۔
خبر نہ تھی کہ اس کی دادی کو فالج ہے، وہ سن سکتی ہے اور نہ بول سکتی ہے۔ آواز بھی دو تو اٹھ کر مدد کو نہیں آسکتی۔ تبھی میں بے بسی سے پھڑپھڑا کر رہ گئی کیونکہ زوہیب شاطر نے مجھے قفس میں لاکر سب در بند کردیئے تھے۔
یوں خوبصورت چہروں کے تعاقب میں اندھیروں میں جاگری تھی۔ گھر آکر آئینہ دیکھا تو صورت اُجڑی ہوئی اور چہرہ زرد تھا۔ امی نے پوچھا۔ کیا ہوا ہے تم کو… میں نے کہا کہ سڑک پر ایکسیڈنٹ دیکھا تو ایسی حالت ہوگئی، کسی کی لاش کچلی گئی تھی، جس کو دیکھ کر متلی ہونے لگی ہے۔
میں نے میٹرک کے پرچے بہت مشکل سے دیئے۔ اس کے بعد گھر سے قدم نکالنا بھی چھوڑدیا۔ زوہیب نے آخری بات جو کی تھی، وہ یہ تھی کہ اب تم گلفام کو بھول جائو، وہ تم سے محبت نہیں کرتا تھا اور جہاں ماں باپ کہیں شادی کرلینا ورنہ تم جیسی لڑکیوں کا انجام خراب ہوتا ہے۔
میرے میٹرک کرنے کے بعد ایک بار پھر سلیم کے والدین آئے تھے۔ منت سماجت کرکے رشتہ کے طلب گار تھے۔ ان کو دیکھ کر آنسو نکل آئے۔ امی نے کہا ۔ بہن لڑکی نہیں مان رہی، میں کیا کروں، بے بس ہوں… تبھی امی کو بلا کر میں نے اسی وقت ہتھیار ڈال دیئے۔
میں مان گئی ہوں امی… آپ ان سے انکار نہ کریں۔
ماں کی خوشی دیدنی تھی۔ انہوں نے مجھے گلے لگا کر ماتھا چوما اور کہا کہ بیٹی میری دعا ہے خدا تیرے نصیب اچھے کرے۔ تو نے ہمارا مان رکھ لیا ہے۔ اللہ تمہاری عزت بڑھائے گا۔
ماں کی دعا قبول ہوگئی۔ سلیم اور ان کے گھروالوں نے مجھے اتنا پیار دیا کہ میں ماضی کی تلخ یادوں کو بھول گئی۔
سلیم خوبصورت نہیں مگرخوب سیرت تھے، وہ خوبصورت دل کے مالک تھے۔ انہوں نے خود بھی عزت کی اور سب گھر والوں سے بھی میری عزت کروائی۔ آج دعا کرتی ہوں خدا ان جیسا جیون ساتھی سب کو دے۔ وہ مجھے دنیا کے ہر مرد سے زیادہ حسین لگتے ہیں اور جن لوگوں کے حسن پرناز تھا، آج ان کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی… کہ ان یادوں سے دلِ ناداں کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔
(ث… لاہور)