Saturday, December 14, 2024

Khoote Rishte

میں ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ میرے والد ایک معمولی مزارع تھے۔ بھلا ہم کہاں اور تعلیم کہاں… جب میں سولہ سال کی تھی، تو والد نے میری شادی اپنے ایک رشتہ دار کے بیٹے سے کر دی۔ یہ لوگ بھی ہماری طرح غریب تھے۔ سسر بوڑھے تھے اور شوہر ایک زمیندار کی زمین پر ہل چلاتا تھا۔ ہماری گزر بسر بمشکل ہوتی تھی کیونکہ سسر کی چھ بیٹیاں تھیں اور دو یتیم بھتیجیاں بھی ساتھ رہتی تھیں۔ اتنے بڑے کنبے کا بوجھ اکیلا میرا شوہر ہی اٹھاتا تھا۔ جس عمر میں میری شادی ہوئی، مجھے اپنے آپ کا بھی ہوش نہ تھا اور نہ اتنی عقل کہ زندگی کے مسائل سمجھ سکتی۔ میں تو زندگی کو بس ایک محنت و مشقت کی چکی ہی سمجھتی تھی۔ ہمارے پاس بوسیدہ کپڑے ہوتے تھے۔ صبح کسی سے روٹی ملتی اور دوپہر میں پیاز کے ساتھ کھانا۔ بس یہی کچھ ہمارے پاس تھا۔ البتہ رات کو دودھ کا ایک گلاس ہر ایک کو مل جاتا تھا کیونکہ ہمارے خاندان میں گائے کی حیثیت ایک فرد جیسی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں صرف تین دن تک دلہن بنی رہی۔ اس کے بعد وہی کھیتوں میں جاکر کام کرنا، کنویں سے پانی بھر کر لانا، گھاس کاٹنا اور تندور پر روٹیاں پکانا۔ جو کچھ میکے میں تھا، وہی سسرال میں ملا۔ ایک سال کے اندر اللہ نے ایک بیٹا بھی دے دیا۔ بیٹے کی پیدائش پر ساس بہت خوش تھی۔ اس نے اس کا نام کمال خان رکھا، لیکن گھر میں سب پیار سے اسے کملا کہتے تھے۔ کملا ایک سال کا تھا جب ایک روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں کنویں پر پانی بھرنے گئی ہوئی تھی۔ اس وقت کنویں پر کوئی بھی نہ تھا۔ یہ کنواں پگڈنڈی کے پاس تھا، جہاں سے سڑک آکر ملتی تھی۔ سڑک پر ایک کار کھڑی تھی اور دلاور خان کار سے اتر کر میری طرف آرہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے کہا، گھبراؤ نہیں، مجھے پانی چاہیے۔ اپنی گاگر میری کار کے پاس لے چلو۔ کار گرم ہوگئی ہے، اس میں پانی ڈالنا ہے۔

میں دلاور خان کو پہچانتی تھی۔ ایک بار وہ ہمارے زمیندار کے گھر بطور مہمان آ کر ٹھہرا تھا۔ اس وقت میں اسے روٹی دینے کے لئے اوطاق میں گئی تھی۔ تب میں چھوٹی تھی، مگر اس کے اجلے سفید براق کپڑے اور خوبصورت چہرہ میرے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ میں اس کی مسحور کن شخصیت سے بہت پہلے بچپن میں ہی مرعوب ہو گئی تھی۔ کار میں پانی ڈالنے کے بعد اس نے انجن بند کر دیا اور مجھ سے پوچھا، اس خدمت کے صلے میں تم کو کیا چاہیے؟ میں چپ کھڑی اپنا آنچل انگلیوں سے مروڑتی رہی۔ تو وہ بولا، کار میں بیٹھو گی؟ سیر کرو گی؟ یہ کہہ کر اس نے اپنی کار کا دروازہ کھولا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بھی ایسے اس کی گاڑی میں جا بیٹھی جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو۔ دلاور خان نے گاڑی چلا دی اور پھر نہ روکی۔ میں اسے پسند آ گئی تھی۔ اس نے اسی لمحے طے کر لیا تھا کہ جو بھی ہو، وہ مجھے حاصل کر کے رہے گا۔ وہ مجھے لے کر اپنے گھر آ گیا۔ وہ بہت بڑا زمیندار تھا۔ میرے رشتہ دار، والد، چچا، سسر اور شوہر کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس کے راستے میں آتے۔ انہوں نے تھانے میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی تو تھانے والوں نے انہیں آنکھیں دکھا کر بھگا دیا۔ یہ سارا علاقہ دلاور خان کا تھا۔ بھلا کون اس کے خلاف رپورٹ لکھتا؟ تھانے والوں کے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ ایک بڑا زمیندار ایک غریب مزارع کی لڑکی کو اپنے گھر کی زینت بنانے کے لئے اٹھا لے گیا تھا۔ دلاور خان کی حویلی دیکھ کر میں تو حیران رہ گئی۔ اس قدر شاندار گھر میں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ دیکھا تھا۔ اس کی بیوی بانجھ اور بیمار تھی۔ حالات میرے لئے بہت سازگار تھے۔ دلاور خان کو اولاد کی تمنا تھی۔ اس نے مجھ سے کہا، گوہر دیکھو! تم میرے گھر میں قدم رکھ چکی ہو، تمہارا واپس جانا اب میری بے عزتی ہے، یہ ناممکن ہے۔ میں تمہیں مذاق میں نہیں لایا۔ مجھے پہلی نظر میں ہی تم بھا گئی تھیں۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ یہ تمہارے لئے بڑی عزت کی بات ہونی چاہیے۔ البتہ ایک مسئلہ ہے، تمہارا بیٹا؟ اسے تمہیں بھلا دینا ہوگا۔ میں اس آدمی کو کیا کہتی، جبکہ وہ طاقتور تھا اور میں کمزور۔ وہ جو کہہ رہا تھا، اسے وہ جبر سے بھی منوا سکتا تھا۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ اس نے مجھے بیوی بنانے کا ارادہ کیا۔ اگر وہ یونہی دل لگی کر کے چھوڑ دیتا، تب بھی میں یا میرے والدین اس کا کچھ نہ بگاڑ سکتے تھے۔ میرے سسر، والد، اور شوہر کو بلوا کر اس نے اپنا ارادہ ان پر ظاہر کیا اور میرے شوہر کو حکم دیا کہ وہ مجھے طلاق نامہ لکھ دے۔ یہ سب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے سیدھے طریقے سے دلاور خان کی بات نہ مانی، تو وہ ان پر عرصۂ حیات تنگ کر سکتا تھا۔ غریب تو اپنی غربت سے مجبور ہوتا ہے، اور یہی میرے وارثوں کی بے بسی تھی۔ انہوں نے دلاور خان کی پیشکش قبول کر لی اور کافی رقم لے کر طلاق نامہ لکھ کر دے دیا۔ اب میں آزاد تھی۔ دلاور خان مجھ سے نکاح کر سکتا تھا۔ میں کمسن تھی اور وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا۔ اس کا رعب مجھ پر ایسا طاری تھا کہ جو وہ کہتا، میں بلا چون و چرا مان لیتی۔ نکاح کے بعد اس کے گھر میں میری جو حیثیت متعین ہوئی، اس کا تو میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ میں سارے گھر کی مالک تھی۔ دلاور خان مجھ پر جان نچھاور کرتا تھا۔ اس نے مجھے سونے سے پیلا کر دیا تھا۔ میں، جو کڑی دھوپ میں کھیتوں میں جلتی تھی، آج ٹھنڈی حویلی میں سکون اور آرام کی نیند سوتی تھی، اور نوکرانیاں میرے آگے پیچھے پھرتی تھیں۔ میں سچ مچ بھکارن سے ملکہ بنادی گئی تھی۔ بھلا ایسے نصیب کسی لڑکی کے ہو سکتے ہیں؟ شاید کروڑوں میں کوئی ایک ہی ایسی ہوتی ہو گی۔ میں جتنا اپنی قسمت پر ناز کرتی، کم تھا۔ میں غربت کے دہکتے ہوئے جہنم سے نکل کر دلاور خان جیسے بڑے آدمی کی عزت بن گئی تھی اور اس کے پیار کی چھاؤں تلے آ گئی تھی۔ میرے میکے والوں نے مجھ سے پھر کوئی ناتا نہ رکھا۔ ایک ماں تھی جس نے میرا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ چوری چھپے ملنے آ جاتی اور کبھی کبھی میرے بیٹے کملے کو بھی اپنے دوپٹے کی اوٹ میں لپیٹ کر لے آتی تھی۔ جب تک میں دلاور خان کے بچے کی ماں نہ بنی، دلاور نے میری ماں کے آنے جانے پر کوئی اعتراض نہ کیا، لیکن جب اس کے گھر میں، میں نے پہلے بیٹے کو جنم دیا تو پھر اس نے مجھے بتا دیا کہ مجھے اپنے میکے سے اب کوئی تعلق نہیں رکھنا ہے۔ خاص طور پر پہلے شوہر کے لڑکے کے لیے، اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ پہلے میں صرف دلاور خان کی محبوبہ تھی، اب اس کے بیٹے کی ماں بن چکی تھی اور یہ زنجیر باقی سب زنجیروں سے زیادہ مضبوط تھی۔ اب میں کملے کو یاد کر کے تڑپتی تھی مگر اس سے مل نہیں سکتی تھی۔ وہ میرا بیٹا تھا، میں اسے کیسے بھول سکتی؟ یاد کر کے تڑپتی مگر مل نہ سکتی تھی۔ وہ میرا اپنا تھا، میں اسے کیسے بھول سکتی تھی؟

میرا ایک بیٹا تو سونے کے پالنے میں جھول رہا تھا اور دوسرے کو زمین پر بچھانے کے لئے دری کا ٹکڑا بھی میسر نہ تھا۔ کملے کے لئے چوری چھپے کچھ نہ کچھ رقم بھیجا کرتی تھی، مگر اس سے میری تسلی نہ ہوتی تھی۔ وہ ہر دم یاد آتا تھا۔ اس سے جدائی کا مجھے بہت غم تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ غم تو اس بات کا تھا کہ وہ عسرت کے ہاتھوں ختم ہو رہا تھا اور میں مخملی بچھونوں پر سوتی تھی۔ شاید بعض غم تقدیر میں اٹل ہوتے ہیں، موت کی طرح۔ جتنی بھی خوشی ملے، وہ غم نہیں مٹتے۔ جب تک سانس چلتی ہے، ساتھ رہتے ہیں۔ ایسا ہی غم مجھے اپنے بیٹے کملے کی جدائی کا تھا۔ زندگی کے دن بسر ہوتے رہے۔ دلاور خان کے گھر مجھے ہر طرح کا سکھ اور آرام ملا۔ اس شخص نے کبھی کوئی دکھ نہ دیا۔ میری ہر خواہش اس نے پوری کی۔ میں نے بھی اس کے عوض اس کے ہر حکم کی تعمیل کی۔ ایک اطاعت گزار بیوی بن کر اس کے دل کو سکون اور آرام پہنچایا۔ یہاں تک کہ کملے کو بھی بھلا دیا اور اپنی ممتا کو بھی موت کی نیند سلا دیا تھا۔ دلاور خان کے گھر، میں نے پانچ بیٹیوں کو جنم دیا۔ میرے کالے بال ان کی محبتوں کی دودھیا روشنی میں سفید ہو گئے۔ دلاور خان نے ساری زمین اپنی زندگی میں ہی میرے نام کر دی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتا تھا، کیا خبر گوہر! تیرے لڑکے تجھ سے وفا کریں یا نہ کریں؟ اس لئے میں جائیداد ان کے نام نہیں کروں گا۔ میرے بعد تو خود ان میں بٹوارہ کرتی رہنا۔ دلاور خان عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے ہی موت کی راہوں کا مسافر بنا۔ اس کے مرنے کے بعد پتہ چلا کہ تنہائی اور بے چارگی کیا شے ہوتی ہے۔ جب تک وہ زندہ تھا، کسی بات پر پابندی نہ تھی۔ اب ہر بیٹے کی خوشنودی کی پروا کرنا پڑتی تھی۔ میرے سب بیٹے اپنے اپنے مشغلوں اور خوشیوں میں گم تھے۔ انہیں میری تنہائی اور بیوگی کا ذرا بھی احساس نہ تھا۔ بڑا بیٹا شادی کر کے الگ ہو گیا اور کبھی کبھار ہی میرے پاس آتا۔ اس سے چھوٹا بھی اپنی بیوی کا غلام بن گیا۔ تیسرا حیدر آباد اور چوتھا نواب شاہ میں پڑھتا تھا۔ پانچواں اور سب سے چھوٹا بیٹا گھر پر ہی رہتا تھا، مگر گھر بار اور کام کاج سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ سارا دن کار لے کر گھوما کرتا اور اکثر راتوں کو گھر سے غائب رہتا۔ دوستوں نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتا اور مجھ سے بھی سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ پڑھائی سے اسے کوئی رغبت نہ تھی۔ میٹرک بھی اس نے بڑی مشکل سے پاس کیا۔ جس قدر سکھ مجھے دلاور خان کی دولت اور ذات سے ملا، اتنا ہی دکھ اس کے بیٹوں نے پہنچایا۔

مجھے ان پانچوں سے بے حد محبت تھی۔ یہ میرے لخت جگر تھے۔ اب میں بوڑھی ہو چکی تھی۔ پانچوں بیٹے دلاور خان کی طرح ما شاء اللہ قد آور اور جوان تھے۔ میں انہیں دیکھ کر جیتی تھی۔ دل یہی چاہتا تھا کہ ایک پل کے لئے بھی یہ میری نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔ میرا ان کے سوا کون تھا؟ میکہ چھوڑے مدت گزر چکی تھی۔ وہ غریب مزارعے تھے، دلاور خان کی حویلی میں ان کے لئے جگہ کہاں تھی۔ میں ان کے لئے اور وہ میرے لئے مر چکے تھے۔ دولت کی تفریق نے سارے رشتے ناتے مدتوں پہلے ہی توڑ دیئے تھے۔ جب تک دلاور خان زندہ رہا، اس نے مجھے تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا۔ دلاور خان محبت کا ایک ایسا سمندر تھا جس میں ڈوب کر میں نے اپنا ماضی بھلا دیا تھا، یہاں تک کہ اپنی کوکھ کے جائے کو بھی بھلا بیٹھی تھی۔ حالانکہ وہ مجھے بھولتا نہ تھا۔ ہر لمحہ، قدم قدم پر کملے کی یاد میرے دل میں چٹکیاں کاٹتی رہتی تھی۔ مگر ان پانچوں بیٹوں نے مجھے اس کی جانب جانے نہ دیا۔ مجھے تو ان سے یہ بات بھی چھپانی پڑی تھی کہ ان کا ایک بھائی اور بھی ہے، کیونکہ وہ ان کے سوتیلے باپ کا بیٹا تھا، ایک غریب ہاری کا بیٹا تھا۔ وہ ہاری جو ان کے مزارعے ہوتے تھے۔ یہ کیسے کسی نوکر کو اپنا بھائی کہلوانا پسند کر سکتے تھے؟ وہ بیچارہ کیا ان کی برابری کرتا، لیکن میں ماں تھی، کب تک اپنے اندر کی عورت کی آواز کو دبا کر رکھتی۔ اب جبکہ یہ لڑکے میری پروا نہ کرتے تھے، مجھے اس بیٹے کی اور بھی زیادہ یاد ستاتی تھی جو مجھ سے ساری عمر جدا رہا تھا۔ میری کوئی بیٹی بھی نہ تھی جو غمگسار بنتی۔ بڑے بیٹے جو شادی شدہ تھے، وہ کبھی عید تہوار پر پل دو پل کے لئے آجاتے، ورنہ ان کے گھر بھی دور تھے۔ میں وہاں جا نہیں سکتی تھی۔ دلاور خان کی بھی ہدایت تھی کہ تم کبھی بہوؤں کے در پر خود چل کر نہ جانا۔ اس سے تمہارے رتبے میں کمی آئے گی اور وہ کسی دن تمہیں بے آبرو بھی کر دیں گی۔ چھوٹے تینوں بیٹے ہمیشہ اس وقت میرے پاس آتے جب انہیں رقم کی ضرورت ہوتی۔ بینک سے روپیہ نکلوانے کے لئے میرے دستخط ضروری تھے۔ بس اسی لمحے وہ میری خوشامد کرتے تھے، ورنہ وہ میرے دکھ سکھ کے ساتھی نہیں تھے۔ کچھ دنوں سے مجھے کملے کی یاد بڑی شدت سے آ رہی تھی۔ جب تک دلاور خان زندہ رہا، میں اس سے ملنے پر مجبور رہی کیونکہ وہ کسی ہاری، مزارع یا نوکر سے میرا رشتہ باقی نہ رہنے دینا چاہتا تھا۔ لیکن اب میں آزاد تھی۔ اب تو ہر دم یہی جی چاہتا تھا کہ کسی طرح پر لگ جائیں اور میں اُڑ کر کملے کے پاس جا پہنچوں۔ آخر کار ایک دن میں نے اپنے سارے بیٹوں کو بتا دیا کہ میں اب تمہارے بھائی کملے کے بغیر نہیں رہ سکتی اور اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ سارے لڑکے سیخ پا ہوگئے اور خفا ہونے لگے اور کہا کہ میں ایسی بات ہی منہ سے نہ نکالوں جو ان کے خاندان کے وقار کے شایان شان نہیں ہے۔ میں مایوس ہوگئی، سوچا کہ اس طرح تو کبھی اپنے کملے سے نہ مل سکوں گی۔ لہٰذا میں نے ان سب سے چھپ کر ہی کملے سے ملنے کا منصوبہ بنایا۔ جب پہلی بار اس کے سامنے گئی تو وہ ہکا بکا رہ گیا۔ جلدی سے چارپائی سے اُٹھ کر میرے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اس کے آنسو میرے پیروں پر گرنے لگے۔ وہ اتنا رویا کہ میرا دامن تر ہوگیا۔ بڑا دکھ ہوا۔ اس کی حالت دیکھ کر، میری ممتا نے خود سے شرما کر میرے ہی دوپٹے کے پلّو میں منہ چھپا لیا۔ کیسی ماں تھی کہ میں اتنے طویل عرصے تک اپنے لخت جگر کو فراموش کیے رہی، مگر کملے نے مجھے ایک لمحے کو نہ بھلایا۔ بھیگی آواز میں بتایا کہ میری حویلی کے اس نے ہزاروں چکر کاٹے، مجھ سے ملنے کو بڑے جتن کیے، خان کی زمین پر نوکر ہونے کی کوششیں کیں، سفارشیں کرائیں، مگر دلاور خان نے مجھ تک ان اطلاعات کو پہنچنے نہ دیا۔ میرے برے نصیب کہ وہ مجھ سے نہ مل سکا۔ ماں، میں تو تیری صرف ایک جھلک دیکھنے کو اپنی جان تک دے سکتا تھا۔ وہ سسک سسک کر فریاد کر رہا تھا اور میرے دل کے ہر زخم پر اس کی ہر سسکی پر لہو لہو ہو رہا تھا۔

اس روز میں بھی جی بھر کر روئی تھی۔ وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا، بار بار پاؤں پکڑ کر کہتا تھا: ماں… اللہ کے لیے اب تو نہ جا۔ میرے دل میں یہ بڑی حسرت ہے کہ تو اب میرے ہی ساتھ رہے اور میں عمر بھر تیرے قدموں میں بیٹھا رہوں۔ آخری دم تک تیری خدمت کروں۔ ماں، میں غریب ضرور ہوں، لیکن ہوں تو تیرا ہی بیٹا… تیرے لیے اتنا کما کر لے آؤں گا کہ تو آرام سے زندگی کے باقی دن گزارے گی۔ کملے کا پیار، اس کی باتیں، اس کی حسرتیں اور بھولا پن، ہر بات میرے دل میں ترازو ہو رہی تھی۔ اس کے میلے کچیلے، پھٹے پرانے کپڑے اور کھردرے ہاتھ پاؤں، اس کا دیہاتی پن، ہر شے میرے سینے میں زخم ڈال رہی تھی۔ میرے پانچوں بیٹے تو عیش و آرام میں تھے۔ ہر ایک کے پاس اپنی گاڑی، اپنا مکان، اپنی زمین تھی مگر میرے اس پھول کے تن پر کپڑے تک سالم نہ تھے۔ میں اس کی بدنصیبی پر حیران تھی کہ جس نے کملے سے ماں باپ کا پیار چھین لیا تھا، جس کو سخت مشقت کے باوجود پیٹ بھر کھانا نصیب نہ تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے مجھے جانے دیا۔ دور تک چھوڑنے پیچھے آیا۔ بار بار التجا کر کے کہتا: ماں، اللہ کے لیے اب نہ جا، میری غربت سے نہ ڈر۔ میں اتنی محنت کروں گا کہ تو سکھی رہے گی۔ میں گھر لوٹی تو میرے بیٹے مجھ سے دو دو ہاتھ کرنے آ گئے۔ ان کو علم ہو گیا تھا کہ میں کملے سے ملنے گئی تھی۔ سب ہی نے مجھ سے جھگڑا کیا اور اپنی جائیداد طلب کی جو ان کا باپ میرے نام کر گیا تھا۔ وہ اب میرا شرعی حق بھی مجھے دینا نہ چاہتے تھے۔ شاید ان کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ میں کہیں اپنے حصے کی جائیداد کملے کو نہ دے دوں۔ میں نے بغیر کسی حیل و حجت یہ بھی ان پانچوں میں تقسیم کر دی کیونکہ یہ ان کے باپ کا ورثہ تھا۔ میرے بعد بھی یہ انہی کو ملنا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں نے چونکہ ان کی عزت کا خیال نہیں کیا اور معمولی ہاری کے گھر چلی گئی، لوگوں کو بھی علم ہو گیا کہ ان کا سوتیلا بھائی بھی کوئی ہے جس کے باعث ان کی بے عزتی ہوئی۔ لہٰذا وہ اب میرے پاس نہیں آئیں گے۔ مجھے بڑا دھچکا لگا۔ میرے اپنے بچے، جن کو میں نے جنم دیا، پالا پوسا، آج دولت کے گھمنڈ میں مجھے ہی آنکھیں دکھا رہے تھے۔ اس لیے کہ میں آئندہ ہمیشہ کے لیے کملے کو بھول جاؤں اور کبھی دوبارہ اس سے ملنے کی جرات نہ کروں۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ جیسے میں ان کی ماں ہوں، ویسے ہی اس کی بھی ہوں۔ اب جب کہ میں اپنے پہلے بیٹے سے مل چکی تھی، ممتا کی مرجھائی کونپل پھر سے تازہ ہوگئی تھی۔ اب میں اس سے ملے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ جوانی میں نے اپنے ان بچوں کو دی، جو دلاور خان کے بچے تھے، تو بڑھاپا اپنے غریب بیٹے کو دوں گی۔ میں نے پھر بھی عید کے دن تک انتظار کیا۔ جب عید کے روز بھی یہ پانچوں میرے پاس نہ آئے تو دل بری طرح ٹوٹ گیا، اور پھر میں نے دلاور خان کے گھر کو چھوڑ دینے کی تیاری باندھ لی۔ جو نقدی اور زیورات تھے، وہ میں نے ان لڑکوں کے تایا کو بلا کر ان کے حوالے کیے کہ یہ پانچوں میں برابر تقسیم کر دیں تاکہ میرے بعد وہ ان چیزوں کے لیے بھی نہ لڑتے رہیں۔ میرا عمرہ کرنے کا ارادہ ہے اور زندگی اور موت کا پتا نہیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ امانتیں وارثوں کو پہنچ گئیں۔

میں دو جوڑے کپڑوں کے ساتھ کملے کے گھر آگئی اور پھر ہم عمرے پر چلے گئے۔ میرے بیٹے نے کچھ پیسے اپنی محنت سے جمع کیے تھے، وہ اپنی رقم سے میرے ہمراہ گیا۔ کملا تنہا رہتا تھا، اس کا باپ مر چکا تھا۔ اب اس کو میری اور مجھے اس کی ضرورت تھی۔ میں جانتی تھی کہ دلاور خان کی اولاد ہونے کے ناتے وہ اس غریب کو کبھی اپنا بھائی تسلیم نہ کریں گے، کیونکہ وہ کملے کی سماجی کمزور حیثیت کو اپنی عزت پر دھبہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا میں خود ان کو اس سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ کملے نے باپ کا پانچ مرلے کا گھر بیچ دیا اور ہم شہر آئے۔ یہاں اس نے محنت مزدوری کی، اور اپنی حلال کی کمائی سے میرا پیٹ پالنے لگا۔ میں جانتی تھی کہ میرے لڑکوں کا حصہ بھی آنا چاہیے، اور وہ ضرور ایک دن خود مجھ سے آ ملیں گے، مگر وہ نہ آئے۔ ان کی جدائی کا غم ضرور ہے، لیکن اب مجھے اپنی ممتا کی دولت اپنے غریب بیٹے پر نچھاور کرنی ہے تاکہ میں اس کے کچے گھر میں عزت اور سکون سے مر سکوں۔ یہ بھی ہے کہ ایک کھویا ہوا بیٹا مل گیا، لیکن میرے پانچ بچے کھو گئے۔ پہلے میں کملے کے لیے بے سکون تھی، اب ان کے لیے بے سکون رہتی ہوں۔ عورت کی بھی کیا قسمت ہے۔ اس کو کہیں سکون نہیں، خوش بھی ہو تو اولاد کا کوئی نہ کوئی دکھ لگا ہی رہتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS