جب میں چھوٹی سی تھی تو اماں کہتی تھیں کہ یہ میری ننھی پری ہے۔ میرے دل کی ٹھنڈک اور آنکھوں کا نور ہے۔ کبھی اسے خود سے جدا نہ کروں گی۔ بچپن کا لااُبالی دور تھا، پلک جھپکتے گزر گیا اور میں دیکھتے دیکھتے سروقد ہوگئی۔ بچپن میں لوگ مجھے معمولی صورت کی کہتے تھے لیکن ایسا رنگ روپ نکلا کہ آئینہ بھی مجھے دیکھ کر روشن ہوجاتا۔ ماں کہتی گھر سے باہر مت نکلا کرو، زمانہ خراب ہے اور تمہاری صورت لاکھوں میں ایک ہے۔ اللہ نہ کرے کوئی بدنظر تجھ پر پڑے۔ تب میں سوچتی تھی یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ان کے دل میں اولاد کے لیے پیار کا ایسا سمندر ہوتا ہے کہ اولاد بدشکل بھی ہو تو ان کو خوبصورت لگتی ہے۔
میں مگر بدشکل نہ تھی۔ خالہ بھی کہتی تھیں کشمالہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ خالہ کی مجھ پر بچپن سے نظر تھی۔ حالانکہ ان کا بیٹا خالد ایک نکما لڑکا تھا۔ وہ مجھے بہو بنانا چاہتی تھیں اور امی ان کو تسلیاں دیتی رہتی تھیں۔ ہاں… ہاں کیوں نہیں تم ہی کو دوں گی مگر تمہارے لڑکے کا روزگار لگے تب نا۔ خالد کے برسرروزگار ہوتے ہی اس کی شادی کردیں گے۔ بے چارہ خالد کند ذہن تھا۔ ماں نے بڑی کوشش کی کہ پڑھ لکھ جائے۔ وہ میٹرک سے آگے نہ پڑھ سکا۔ تب باپ نے اپنے ایک دوست کی بیکری پر ملازم کرا دیا۔ اس کا کام مٹھائی تول کر گاہکوں کو دینا تھا۔ صبح سے شام تک وہ یہی کام کرتا تھا۔ کام اس کے لیے آسان تھا مگر رات کو تھک کر چور ہوجاتا کیونکہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کم نہیں ہوتی، وہ بھی تمام وقت کھڑے رہنا پڑتا تھا۔
وہ مجھ پر مرتا تھا۔ روز ماں کہتی تھی اگر کام نہ کرو گے تو کشمالہ کو ہم کیونکر دلہن بنا کر گھر لائیں گے۔ اس کی ماں نے یہی شرط رکھی ہے کہ خالد برسر روزگار ہوگا تو لڑکی دوں گی۔
خالد کو بیکری کی ملازمت کرتے چار ماہ گزرے تھے کہ کسی باعث ہڑتال ہوگئی اور لوگ جلدی جلدی دکانیں بند کرنے لگے۔ بیکری کا مالک ابھی گھر سے نہیں آیا تھا۔ خالد نے اسے فون کیا کہ نہ جانے کیا ہوا ہے کہ لوگ جلد جلد دکانیں بند کررہے ہیں، شٹر گرا رہے ہیں، آپ کا کیا حکم ہے۔ مالک نے کہا… میں راستے میں ہوں بس پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں تب تک تم کام کو جلدی جلدی سمیٹ لو۔ میں آکر دکان کو تالا لگا دوں گا۔
ابھی خالد نے فون بند کیا ہی تھا کہ دو افراد دکان میں گھس آئے، بولے… ابھی تک تمہاری بیکری کھلی ہوئی ہے، کیا دیکھا نہیں کہ اردگرد کی سب دکانیں بند ہوگئی ہیں۔ چلو جلدی نکلو اور ہاں جو کیش ہے ہمارے حوالے کردو… خالد گھبرا گیا۔ اس نے کہا کیش کی چابی تو مالک کے پاس ہوتی ہے۔ صبح کا ٹائم ہے، میرے پاس چند گاہک آئے ہیں اور کیش منیجر نے لیا ہے آپ اس سے لے لیں۔ مالک ابھی آتے ہی ہوں گے بس پانچ منٹ میں ہم دکان بند کئے دیتے ہیں۔
بکواس مت کرو، انہوں نے پستول تان لیا۔ ایک منیجر کی طرف لپکا۔ منیجر سے جانے کیا بات ہوئی کہ ٹھاہ کی آواز آئی اور وہ بے چارا ڈھیر ہوگیا۔ جونہی ایک نے گولی چلائی دوسرے نے بھی چلا دی جس نے خالد کو نشانے پر لے رکھا تھا۔ بے چارا میرا خالہ زاد ایک سے دوسری سانس نہ لے سکا اور اسی دم اللہ کو پیارا ہوگیا۔
اس کی میت آگئی۔ خالہ کے گھر کہرام برپا تھا۔ سب ہی افسوس کررہے تھے کہ نادان لڑکے نے ان لوگوں سے کیوں بحث کی، فوراً دکان بند کردینی چاہیے تھی۔ منیجر نے بھی بے وقوفی میں جان گنوا دی۔ ہر کوئی باتیں کررہا تھا لیکن خالہ کو ان باتوں سے کچھ سروکار نہ تھا وہ بے ہوش تھیں اور کوئی بے ہوش کیا کسی کی آواز سن سکتا ہے۔
گھائو کتنا ہی گہرا ہو، وقت اسے مندمل کر دیتا ہے۔ خالہ کو صبر بنا چارہ نہ تھا۔ امی کو بھی صبر آگیا۔ اب مرحوم بھانجے کو بھلا کر انہیں میری شادی کی فکر لگ گئی۔ وہ جو کہتی تھیں کہ ہر گز اپنی اس ننھی پری کو خود سے جدا نہ کروں گی، خالد کے جانے کے بعد مجھے خود سے جدا کرنے کو بے قرار رہنے لگیں۔
بیٹی، اللہ دے تو ان کی اتنی محبت مائوں کے دل میں نہ ڈالے کہ جدائی کے خیال سے راتوں کی نیند اڑ جائے۔ لیکن وقت پر اچھا رشتہ نہ ملے تب بھی مائوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں یہ عجب دستور ہے زمانے کا۔ اماں رات دن دعا کرتی تھیں یا اللہ کشمالہ کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ بھیج دے۔ میری بیٹی کو ایسا گھر دینا کہ کسی چیز کی کمی نہ ہو، پیار کرنے والا شوہر ہو، خوشیوں بھری زندگی بسر کرے۔
ماں کی دعا قبول ہوگئی۔ ایک رشتہ آگیا۔ لڑکا پائلٹ تھا۔ وہ امیر لوگ تھے۔ ان کا کوئی مطالبہ نہ تھا۔ صرف شریف گھرانے کی خوبصورت اور نیک طینت لڑکی درکار تھی۔ قیصر کی والدہ مجھے دیکھنے آئیں پہلی نظر میں پسند کرلیا۔ امی نے خالہ سے صلاح کی، وہ بولیں… ہاں کردو۔ آخر کشمالہ کو بیاہنا ہے۔ میری قسمت میں نہ تھی اب ساری عمر تو بن بیاہی نہیں رہے گی۔ امی نے کہا، تم ساتھ چلو ان کی کچھ چھان بین کرلیں۔
چھان بین کرنے میں کہیں یہ اچھا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ بس اللہ پر بھروسہ کرکے ان لوگوں کوہاں کہہ دو۔ ایسے رشتے بار بار نہیں آتے۔
خالہ کی آشیرباد ملتے ہی والدہ نے ہاں کہہ دی اور میں سہاگن بن کر قیصر کے گھر آگئی۔ قیصر میرے تصور سے بڑھ کر نکلے۔ محبت کرنے والے، میرا ہر طرح سے خیال رکھنے والے، میں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھنے لگی۔ اس گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی، ہر سکھ تھا۔ ساس اور نند بھی اچھی تھیں۔ خواہ مخواہ مجھ سے نہ الجھتی تھیں۔ اگر کوئی مسئلہ تھا تو وہ دیور تھا۔
دیور کا رشتہ بھابھی سے پیارکا ہوتا ہے۔ وہ چھوٹے بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن میرا دیور کچھ مختلف طبیعت کا تھا۔ پہلے ہی دن مجھے وہ عجیب سا لگا۔ بال الجھے ہوئے اپنے آپ سے بے نیاز۔ اس نے میرے آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور نہ کوئی ڈھنگ کی بات کی۔ دور سے سلام کیا اور گھر سے باہر چلا گیا۔
تین دن تک دوبارہ اس کی صورت نہ دیکھی۔ میں سمجھی کوئی ایسی ڈیوٹی کرتا ہوگا کہ روز گھر نہ آسکتا ہوگا۔ ساس اور نند سے پوچھا۔ قیصر سے پوچھا۔ شہباز کیا کام کرتا ہے۔ بولے… کوئی کام نہیں کرتا۔ پھر دنوں کہاں رہتا۔ بولے نہیں معلوم… تم اس کے بارے میں زیادہ سوالات نہ کیا کرو۔ وہ جہاں بھی رہے، جب آئے جائے، یہ اماں کا معاملہ ہے تمہیں اس کے بارے تجسس میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شوہر کے منہ سے ایسا کسیلا جواب سن کر خاموش ہوگئی۔ دوبارہ کچھ پوچھنے یا شہباز کے بارے میں بات کرنے کی مجھ کو جرأت نہ ہوئی۔
جب کوئی اپنے گھر کا فرد لاتعلق، بے خبر سا… لاپروا ہو… صرف کھانا کھانے تک گھر والوں سے غرض رکھے، کئی کئی دن غائب ہوجائے، تب تجسس تو ہوتا ہے۔ ساس سے بالآخر پوچھ ہی لیا۔ شہباز کہاں چلے جاتے ہیں۔ وقت پر کھانا بھی نہیں کھاتے، تب انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا تو میں نے سمجھ لیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے حالات چھپ نہیں سکتے۔ تبھی ایک روز یہ راز فاش ہوگیا۔ ایک رات شہباز نشے میں دھت گھر آگیا اور ماں سے جھگڑنے لگا۔ میرے شوہر دوڑے گئے اور انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو کمرے میں بند کرکے سلا دیا۔ اور باہر سے تالا لگا کر ماں سے کہا اب صبح کھولنا۔ شہباز نے غالباً زیادہ نشہ کر لیا تھا کہ وہ رات بھر بے خبر سوتا رہا اور دوسرے روز دوپہر کو اپنے کمرے سے باہر آیا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور سرخ تھیں۔ چہرہ سنولا گیا تھا اور ہونٹ سیاہ ہوچکے تھے۔
تمام کہانی سمجھ میں آگئی۔ وہ شراب تو کبھی کبھی پیتا تھا مگر چرس کا عادی تھا اور روز چرس پیتا تھا اسی لیے دوستوں کے پاس سو رہتا۔ شروع میں ماں اور بھائی نے بہت سمجھایا۔ چاہا کہ نشہ نہ کرے اور سیدھی راہ پر آجائے مگر بدقسمتی اس کا مقدر بن چکی تھی۔ سیدھی راہ پر نہ آسکا اور نشے کا عادی ہوگیا۔ تب مایوس ہوکر گھر والوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
یہ گھرانہ ہر لحاظ سے اچھا تھا بلکہ آئیڈیل تھا۔ سب لوگ اچھے تھے اور میرے شوہر تو فرشتہ صفت تھے۔ لیکن برے وقت نے شہباز کی صورت میں اس خوبصورت چمن میں ایک جھاڑ کا کانٹا بودیا تھا جس سے الجھنے میں اپنا ہی دامن تار تار ہوتا تھا۔
مجھے شہباز کا دکھ تو تھا مگر میں تو بھابھی تھی۔ جب ماں، بہن، بھائی نے سہ لیا تو میرے افسوس میں رہنے سے کیا ہوتا۔ مجھے اپنے شوہر سے غرض تھی، جنہوں نے اتنا پیار دیا کہ پھر کسی کے پیارکی حاجت نہ رہی۔ امی جان کی محبت کو بھی بھلا بیٹھی۔ قیصر کہتے تھے تم ہو ہی پیار کے لائق… تمہیں اللہ نے ایسی صورت دی ہے کہ نظر نہیں ٹکتی… چودہویں کا چاند ہو تم… ان کی زبان سے اپنی تعریف سنتی تو پھولے نہیں سماتی تھی۔ زندگی کی حقیقی خوشیاں شادی کے بعد جو ملیں تو اور بھی نکھر گئی۔
نند کی شادی ہوچکی تھی۔ گھر میں ساس تھی یا میں۔ بہت جلد احساس ہوگیا کہ میرا دیور اچھا انسان نہیں ہے۔ جب کبھی وہ مجھ پر نظر ڈالتا میرے اندر ایک خوف کی لہر دوڑ جاتی۔ مجھے اس کی نشے میں ڈوبی آنکھوں سے بہت خوف آتا تھا۔ شہباز جب بھی چڑھا کر گھر میں قدم رکھتا۔ سارے گھر میں ایک عجیب سی ناگوار بو پھیل جاتی۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں چلی جاتی اور دروازہ بند کرلیتی۔ اس حالت میں مجھے اس کا گھر میں آنا بے حد ناگوار گزرنے لگا مگر ساس کے ڈر سے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکال سکتی تھی۔ جانتی تھی کہ نشہ کرنے والے بیٹے کو بھی وہ اتنا ہی چاہتی ہیں جتنا دوسرے بچوں کو۔ اللہ کی قدرت یہ ممتا بھی عجیب چیز ہے۔
کبھی کبھی شہباز ترنگ میں ہوتا تو ساس سے لاڈ کرنے لگتا۔ ماں کے ساتھ ہنسی مذاق یا پھر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتا، کہتا۔ ماں میرے بالوں میں ہاتھ پھیرو مجھے سکون ملتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ مجھ سے بھی اب بات کرنے لگا۔ کبھی بڑے پیار سے کہتا۔ بھابھی آج اچھی سی چائے بنا دو۔ بہت دنوں سے اچھی چائے نہیں پی ہے۔ یوں تو دیور بھابھیوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسی فرمائشیں بھی کرتے ہیں مگر میں شہباز سے ڈرنے لگی تھی۔ اس کا انداز مجھے خوفزدہ کرتا تھا اس کی بے باک نظروں کی تاب نہ لاکر اس کی باتوں کو سنی ان سنی کرکے اپنے کمرے میں چلی جاتی تھی۔
شادی کو چار ماہ ہوچکے تھے۔ میکے آئی تو امی نے پوچھا، بیٹی سب لوگ اچھے ہیں نا… بے اختیار منہ سے نکل گیا ہاں ماں سب ہی اچھے ہیں، بس ایک کے سوا۔
کیا مطلب… وہ کون ہے؟
شہباز… وہ نشہ کرتا ہے۔ مجھے اس سے خوف آتا ہے جب نشہ میں نہیں ہوتا۔ ادب سے بات کرتا ہے۔ نظریں جھکائے رکھتا ہے یا پھر بات کرتا ہی
نہیں۔ لیکن کبھی کبھی جب اس کی آنکھیں لال ہوتی ہیں اور منہ سے بو محسوس ہوتی ہے تو اس کے دیکھنے کا انداز بدل جاتا ہے۔
ایسی بات سوچنا بھی نہیں بیٹی… دیور بھابھیوں سے پیار کرتے ہیں۔ یہ مقدس رشتہ ہوتا ہے۔
ہاں ماں… کبھی اس کی نظریں مجھ پر ٹک جاتی ہیں بلکہ میرے زیورات پر… میں نے اپنے سونے کی چین اور جھمکے اتار کر رکھ دیے ہیں۔ کلائیوں سے چوڑیاں قیصر نہیں اتارنے دیتے۔ کہتے ہیں… تم سہاگن ہو چوڑیاں نہیں اتارنا۔ مجھے تمہاری کلائی میں سونے کی چوڑیاں اچھی لگتی ہیں۔
کیا وہ تمہاری چوڑیوں کو تاکتا ہے۔ ہاں ماں… کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ میری چوڑیوں کو تاک رہا ہے۔ پتا نہیں کلائیوں کو دیکھتا ہے یا چوڑیوں کو۔ سمجھ میں نہیں آتا کچھ بھی ہو۔ بس جب وہ گھر میں ہوتا ہے مجھے اچھا نہیں لگتا۔ بے چینی سی محسوس کرتی ہوں۔ قیصر تو فرشتہ سیرت ہیں لیکن جب وہ گھر سے جاتے ہیں جی گھبرانے لگتا ہے۔
ساس تمہارا خیال رکھتی ہے تو پھر کیا بات ہے کشمالہ… آج کل کے ماحول میں نوجوان نشے میں پڑتے جارہے ہیں۔ گھر والے بے چارے کیا کریں۔ اب اسے گھر سے تو نہیں نکال سکتے۔ ورنہ پھٹے حالوں کسی دن فٹ پاتھ پر پڑا ملے گا۔ اسی کارن تمہاری ساس اس کو سنبھالے ہوئے ہے، بیٹا ہے اس کا بے چاری کیا کرے۔
اماں کی بات ٹھیک تھی۔ زندگی میں کبھی ایسا آدمی دیکھا نہ تھا، تبھی ڈر گئی تھی۔ ورنہ شہباز کسی سے کچھ کہتا نہ تھا۔ خاص طور پر مجھ سے تو زیادہ تر دور ہی رہتا تھا۔ لگتا تھا اس سے ڈرنا بس میرا اپنا وہم ہے۔
ایک روز امی جان ملنے آئیں تو میں خوش ہوگئی کہا۔ امی اچھا ہوا آپ آگئیں۔ مجھے آج بڑا ڈر لگ رہا تھا۔ کس سے؟ گھر میں تو کوئی نہیں ہے۔
ہاں… قیصر ڈیوٹی پر گئے ہیں اور ساس اپنی بہن کے گھر ہیں۔ میں آج اکیلی ہوں۔
بیٹی تو پھر ڈرنا کیسا… یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔ یہاں تمہیں اکیلے بھی رہنا پڑے گا۔ کیا شہباز گھر پر ہے؟
نہیں وہ تو دو دن سے نہیں آیا۔ ساس شام تک آجائیں گی یہی کہہ کر گئی تھیں، تب تک آپ رکیے میرے ساتھ۔ قیصر کی ڈیوٹی لمبی ہے وہ آئیں گے چار دن بعد۔ اس بار ان کی ڈیوٹی انٹرنیشنل فلائٹ پر لگی ہے میں تنہا ہوئی اور شہباز آگیا تو؟
کیسی باتیں کرتی ہو کشمالہ… وہم کو دل سے نکال دو۔ میں سارا دن تو تمہارے گھر نہیں بیٹھ سکتی۔ چھ سات ماہ ہوچکے ہیں تمہاری شادی کو۔ اس نے آج تک تو تم سے کچھ نہیں کہا ہے تو آئندہ کیوں کہے گا۔ خاطر جمع رکھو اگر اتنا ہی خوف آتا ہے ایک نشئی ہونے کے ناتے تو پھر وہ آئے دروازہ مت کھولنا۔ جب تک تمہاری ساس گھر لوٹ کر نہ آجائیں۔
امی چلی گئیں۔ شہباز نہیں آیا۔ شام کو میری ساس گھر لوٹ آئیں تو میری جان میں جان آگئی، جانے کیوں مجھے وہم ہوگیا تھا کہ میرے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ جب دو روز بعد ساس دوبارہ بہن کی طرف جانے لگیں تو میں نے کہا ماں جی… آپ مت جائیں مجھے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے۔
کس سے ڈر لگتا ہے بھئی، وہ بولیں۔ جنوں بھوتوں کا وہم کرتی ہو کیا؟
نہیں ماں جی… ویسے ہی۔
تو کیا، میں کہیں نہ جائوں، گھر میں قید ہو کر رہ جائوں۔ آپا بیمار ہیں، اسپتال میں داخل ہیں۔ بیٹی میرا جانا ضروری ہے۔
مجھے شہباز سے ڈر لگتا ہے، ان کو بالآخر بتانا ہی پڑا۔ ان کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔ کان کھول کر سن لو بہو، میں ہر بات برداشت کرسکتی ہوں مگر یہ برداشت نہیں کرسکتی تم میرے لخت جگر پر کوئی الزام دھرو… یہ اس کا بھی گھر ہے اور اس نے یہیں رہنا ہے۔ اس قسم کی باتیں کرکے کبھی بھائیوں کو آپس میں جدا کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ شہباز تاریکیوں میں ڈوب جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ سر پر چادر ڈال کر چلی گئیں۔
اس روز شہباز دوپہر کو آگیا۔ میں نے در نہ کھولا۔ وہ دستک دے دے کر چلا گیا۔ شام کو اس نے ماں سے شکایت کی کہ میں نے بہت دیر تک در بجایا کسی نے نہیں کھولا۔ مجھے سخت بھوک لگی تھی۔ گھر کے اندر کیوں نہیں آنے دیا مجھے۔ یہ سنتے ہی ساس آگ بگولہ ہوگئیں، مجھے سخت برا بھلا کہا۔ تنبیہ کی، خبردار آئندہ ایسی حرکت کی تو گھر سے باہر کردوں گی۔ میرا بیٹا بھوکا پیاسا آیا اور تم نے در نہ کھولا۔ غضب خدا کا… غرض ایسا جھگڑا کیا کہ میں لرز گئی۔ اس بار قیصر چھ ماہ کی ٹریننگ پر چلے گئے تھے۔ ساس نے میکے میں جاکر رہنے کی اجازت نہ دی۔
ایک روز ماں جی بیٹی سے ملنے حیدرآباد چلی گئیں اور میری امی کو فون کردیا کہ بیٹی کے پاس چکر لگا لینا۔ میں ایک روز بعد آئوں گی۔ ماں جی کے جاتے ہی شہباز آگیا۔ آج ساس کے ڈر سے میں نے درکھول دیا۔ اس کی نظر میری کلائیوں پر پڑی تو وہیں ٹھہر گئی۔ میں نے سونے کی چوڑیاں پہن رکھی تھیں ان کو دیکھ کر شہباز کی نگاہوں میں ایسی چمک جگمگائی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
اس نے کھانا مانگا… میں نے کچن سے گرم کرکے لا کر دے دیا۔ ٹرے اس کے سامنے رکھی تو فوراً میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا… بھابھی، آپ کی چوڑیاں بہت خوبصورت ہیں۔ یہ میں لے لوں۔
میں حیرت اور خوف سے اسے دیکھنے لگی۔ ڈریئے نہیں، بھابھی ماں کی جگہ ہوتی ہے۔ میں آپ کو ماں جیسا ہی سمجھتا ہوں۔ امی گھر پر نہیں ہیں اور مجھے سخت ضرورت آپڑی ہے۔ اگر امی سے اس وقت جو بھی مانگتا حوالے کردیتیں، بات ہی کچھ ایسی ہے۔ پولیس پیچھے لگی ہے ابھی جاکر ان کو رقم نہ دی تو جیل جانا پڑے گا۔ میری اچھی بھابھی، اماں نے ہی یہ چوڑیاں بری میں دی تھیں نا… ایسی اور آجائیں گی۔ ابھی انکار مت کرنا۔ میری جان پر بنی ہے۔
میرا اندیشہ درست تھا۔ اس کی نظروں سے خوف، اس سے ڈرنا میری چھٹی حس جو کہتی تھی وہ ہوگیا۔ عافیت اسی میں جانی کہ چوڑیاں اتار کر حوالے کردوں۔ نہ کرتی تو کیا پتا کیا کر گزرتا۔ چوڑیاں بچانے کے بجائے جان بچانا زیادہ عقل مندی تھی۔ میں نے خاموشی سے اتارکر اس کے حوالے کردیں۔ اس نے کھانا بھی نہ کھایا اور گھرسے چلا گیا۔ اللہ جانے کیا معاملہ تھا۔ واقعی اس کی جان پر بنی تھی یا بہانہ تھا نشے کے لیے ۔ ہوسکتا ہے جوا کھیلتا ہو۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا۔ لیکن اس کے گھر سے نکلتے ہی میں نے دروازے کی کنڈی چڑھالی… اور اپنے بیڈ روم میں جاکر لیٹ گئی دعا کرنے لگی دوبارہ نہ بجے۔
ایک گھنٹہ بے سدھ پڑی رہی، در پر دستک ہوئی۔ پہلے سوچا در نہیں کھولوں گی خواہ کوئی ہو۔ گمان ہوا اگر قیصر آئے ہوں تو… تبھی اٹھ کر گئی۔ پوچھا کون ہے۔ جواب ملا۔ میں ہوں تمہاری ماں۔ در کھولو کشمالہ۔ میرے مردہ تن میں جان پڑ گئی۔ اور میں نے ترنت در کھول دیا۔ اس وقت مجھے اس ہستی کی جس قدر ضرورت تھی اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ وہ اندر آگئیں تو ان کے گلے لگ کر رونے لگی۔ امی گھبرا گئیں۔ پوچھا کیا ہوا ہے بیٹی کیوں رو رہی ہو۔
امی اچھا ہوا آپ آگئیں ورنہ میں تو مرنے لگی تھی۔ ان کو سارا حال بتایا۔ بولیں صبر کرو… تمہاری ساس آجائے تو بات کرتی ہوں۔ ایک نشئی گھر میں ہے اور بہو کو اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی ہیں کیا بیٹے کے کرتوت جانتی نہیں۔
شام کو ساس کا فون آگیا۔ پوچھا خیریت ہے سب… کیا قیصر آگیا۔ میرے بجائے امی نے بات کی… قیصر تو نہیں آیا شہباز آیا تھا تمہاری بہو کی کلائی سے چوڑیاں اتار کر لے گیا ہے۔
اچھا… میں آتی ہوں، ابھی روانہ ہورہی ہوں تب تک آپ رکیے کشمالہ کے پاس اور اس بات کا ذکر کسی سے مت کیجیے گا۔ قیصر آجائے تو اس سے بھی نہیں۔
تین گھنٹے بعد ہماری ساس تشریف لے آئیں۔ آتے ہی امی سے معذرت کرنے لگیں، بولیں۔ ایسی میری چوبیس چوڑیاں تھیں۔ چھ بیٹی کو دے دیں۔ اور چھ بہو کو… باقی بارہ میرے پاس موجود ہیں۔ سوچا تھا چھ اپنے لیے رکھ لوں گی اور شہباز کی جب شادی کروں گی اس کی دلہن کو پہنا دوں گی۔ پھر مجھے پچکارنے لگیں۔ بیٹی کشمالہ، دکھ مت کرو، تم کو چوڑیاں دیتی ہوں پہن لو مگر قیصر سے اس واقعہ کا ذکر مت کرنا۔ شہباز ایسا کرنے والا نہیں تھا۔ ضرور کوئی مسئلہ تھا جو میرے آنے تک نہیں ٹھہرا۔ میں اسے سمجھادوں گی وہ آئندہ ایسا نہ کرے گا۔
اس وقت تو میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ مگر نشئی کا کیا اعتبار جس کی غیرت مر جاتی ہے اور نشے کے کارن حمیت بھی۔ جب قیصر آئے تو میں نے تمام واقعہ ان کے گوش گزار کردیا۔ بتادیا کہ میں پہلے دن سے اسی وجہ سے ڈرتی تھی آپ کے بھائی سے۔ وہ ایسی نظروں سے مجھے تکتے تھے کہ خوف آتا تھا۔ نگاہوں نگاہوں میں میرے زیور کو تاکتے تھے جیسے جھپٹ لینا چاہتے ہوں۔
قیصر سر جھکائے نادم سے بیٹھے تھے۔ اسی قدر کہا۔ اماں سے کہتا تھا کہ اس کے لگام ڈالو، تمہاری محبت اسے اور بگاڑ رہی ہے۔ نشے کے لیے رقم نہ دیا کرو، جواب دیتیں کہ میں رقم نہ دوں گی تو چوریاں کرے گا۔ حوالات جائے گا۔ جیل جائے گا تو کون چھڑانے جائے گا۔ پھر تم ہی جائو گے نا۔ رشوت الگ بھروگے اور رسوائی الگ، آہ… کاش یہ راہ راست پر آسکتا مگر وہ انسان نہ رہا، نشے نے اسے گدھ بنا دیا تھا۔
قیصر سے امی نے مطالبہ کردیا کہ میری بیٹی کو الگ گھر میں رکھو۔ اپنے نشئی بھائی کو گھر نہ آنے دو ورنہ ہم کشمالہ کو لے جائیں گے۔ قیصر نے ماں جی کی مخالفت کے باوجود مجھے فلیٹ لے کر دیا جو میری امی کے گھر کے نزدیک تھا۔ انہوں نے اپنی ماں کی ناراضی مول لے لی۔ کیونکہ وہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔ مجھے چھوڑنا نہ چاہتے تھے، گھر میں اب ماں اور بیٹا رہ گئے۔
کچھ دن گزرے کہ یہ افسوس ناک واقعہ ہوگیا جس کو رقم کرتے ہوئے ہاتھ لرز رہے ہیں… شہباز نے ایک دن نشے کے لیے ماں سے رقم کا مطالبہ کیا۔ وہ نہ دے سکیں تو ان کو چھرا گھونپ دیا۔ پولیس پکڑ کر لے گئی اور میری ساس بے چاری بیٹے کے ہاتھوں زندگی ہارگئیں۔ (س… راولپنڈی)