ان دنوں دس برس کی تھی کہ ابا کی ایک رشتہ دار عورت نے بتایا کہ فاروق، جو تجھ کو بیٹی کہہ کر پال رہا ہے ، وہ تیرا باپ نہیں ہے۔ اس عورت کے منہ سے نکلے یہ الفاظ مجھ پر انگارے بن کر برس گئے۔ میں جہاں بیٹھی تھی ساکت ہو گئی۔ وہ عورت تو چند الفاظ بول کر چلی گئی لیکن میری زندگی بھر کا سکھ چین لوٹ کر لے گئی۔ بابا گھر آئے تو میں نے روتے ہوئے پوچھا۔ کیا یہ سچ ہے بابا کہ میں آپ کی نہیں بلکہ کسی اور کی بیٹی ہوں ؟ ہاں بیٹی یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ حقیقت بہت دنوں تک چھپائی نہیں جاسکتی۔ دراصل تمہارے ماں باپ ایک ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے تھے۔ تم اس وقت محض ڈیڑھ سال کی تھیں۔ تمہارے والد میرے دوست تھے۔ جب مجھے علم ہوا میں اپنے دوست کے گھر گیا، وہ دفنائے جاچکے تھے اور تم ان کی گھریلو ملازمہ کی گود میں تھیں۔ تمہارے والدین کے رشتہ دار تم کو لینے پر آنا کانی کر رہے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ تم اس بچی کو رکھ لو۔ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو آگے بڑھ کر تمہیں اٹھا لیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ لوگ اس بچی کی ذمہ داری اٹھانے سے ہچکچا رہے ہیں تو اسے مجھ سونپ دیجئے۔ احمد میرا بچپن کا دوست تھا، میں اس کی بچی کو اپنی بیٹی سمجھ کر پالوں گا۔ چونکہ تمہارے والدین کے بہت قریبی عزیز یعنی سگے بہن بھائی نہیں تھے لہٰذا دور کے رشتہ داروں نے میری اس پیش کش کو غنیمت جانا، یوں میں تم کو ملازمہ سمیت اپنے گھر لے آیا۔ میری بیوی تم کو پا کر بہت خوش تھی کیونکہ ہم بے اولاد تھے۔ اس نے بڑے چائو سے تمہاری پرورش شروع کر دی مگر اس کی زندگی بہت مختصر تھی۔ جب تم چار سال کی تھیں تو بخار میں غلط انجکشن لگنے سے اس کی وفات ہو گئی۔ یہ قصہ سنا کر بابا جان رونے لگے۔ میں بھی رورہی تھی۔ واقعی بابا نے مجھے اتنا پیار دیا تھا کہ کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ میرے حقیقی والد نہیں ہیں۔ حقیقت جاننے کے بعد میں نے اس سچ کو قبول کر لیا اور ان سے میرے پیار میں کمی نہ آئی۔ وہ بھی بظاہر ایسے بن گئے ، جیسے یہ قصہ سنا کر بھول گئے ہوں۔ انہوں نے ایک بوڑھی بے سہار ا عورت کو گھر میں رکھ لیا تھا جو میر اخیال رکھتی اور مجھے ایک دادی کے جیسا پیار بھی کرتی تھی۔ ان کو میں دادی کہہ کر ہی بلاتی تھی۔ میں نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا، میری لیاقت اور ذہانت کے باعث مجھے کالج کی طرف سے اسکالر شپ ملنے لگا۔ اس بات کی بابا جان کو بہت خوشی تھی۔ ہمارے ساتھ لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ لائق ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ میں خوبصورت بھی تھی، تبھی اکثر کالج کے لڑکوں کی نگاہوں کا مرکز رہتی تھی۔ مجھ کو بابا جان کی عزت کا بہت خیال تھا تبھی میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ ایف اے تک میں نے کسی سے رابطہ نہ رکھا، البتہ ایک لڑکے احسان سے مرعوب رہتی تھی کیونکہ وہ کلاس میں اول پوزیشن لیتا تھا۔ وہ ایک بیوہ کا مغرور سا بیٹا تھا اور میری طرح کسی سے واسطہ نہیں رکھتا تھا۔ جن دنوں میں تھرڈ ایئر میں تھی ایک دن اچانک احسان نے مجھ سے سیدھے کہ دیا کہ میں تم سے شادی کی خواہش رکھتا ہوں لیکن تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ۔ قبل ازیں اس لئے بتا دیا ہے تا کہ تمہیں سوچ بچار کے لئے ٹائم مل جائے۔ اس کی دوٹوک لہجے میں اتنی اہم بات سن کر میں دم بخود رہ گئی۔ گمان بھی نہ تھا کہ اپنی آئندہ زندگی میں بطور شریک حیات وہ میرے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس دن یوں لگتا تھا جیسے آج چھٹی ہی نہیں ہو گی۔ وقت بڑی مشکل سے کٹنے لگا۔ گھر پہنچ کر بابا جان کو بتانا چاہا کیونکہ کالج میں داخلہ لیتے وقت انہوں نے وعدہ لیا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات ہو گی تو میں ان کو بتائوں گی اور بالکل بھی کوئی بات ان سے نہیں چھپائوں گی کہ جس سے ان کی عزت پر حرف آتا ہو۔ آنکھوں میں نئے خواب سجائے جب میں اپنی دھن میں گھر کے دروازے پر پہنچی تو وہاں منظر ہی کچھ اور تھا۔
ہمارے مکان کے سامنے بہت سے لوگ جمع تھے۔ ان کو دیکھ کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور میں بھاگ کر اندر گئی۔ گھر میں قدم رکھتے ہی میں پتھر کی ہو گئی۔ سامنے بابا کے تن مردہ پر سفید چادر پڑی تھی اور رشتے دار عور تیں اور محلے والی خواتیوں مجمع تھیں۔ کچھ آنسو بہار ہی تھیں اور کچھ رونی صور تیں بنائے افسردہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ پتا چلا کہ بابا جان کو دفتر میں دل کا دورہ پڑا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ میں اس وقت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے ؟ دل سے فریاد نکل رہی تھی کہ اے اللہ ! ایک بار میں اس بھری دنیا میں تنہا رہ گئی ہوں۔ اس واقعہ کے چالیس روز بعد ایک دن در پر دستک ہوئی۔ سامنے احسان کھڑا تھا۔ آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ خود مجھ تک آگیا ہے۔ میں نے اس کو کمرے میں بٹھایا اور چائے سے تواضع کی۔ اس نے پوچھا کب تک کالج آئو گی ؟ اب کالج کیسے آ پائوں گی ؟ میرے تعلیمی اخراجات اٹھانے والا تو چلا گیا ہے۔ اس نے کہا۔ اگر تم چاہو تو میں تمہارا سہارا بن جائوں۔ کون کسی کا سہار ابن سکتا ہے احسان ! اور کب تک ؟ اور یہ دنیا کیا کہے گی ؟ تم ٹھیک کہتی ہو کیونکہ اب تم دنیا میں اکیلی رہ گئی ہو اور عزت والا حل یہی ہے کہ میں تم سے شادی کر لوں۔ یقین کرو میں تم کو دنیا کی ساری خوشیاں دوں گا اور کبھی بے وفائی نہیں کروں گا۔ یہ ایک بڑا اہم اور سنجیدہ فیصلہ تھا۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ انیس برس تھی۔ میں بھلا تنہا اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر سکتی تھی تبھی میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا کہ یہ پہاڑی زندگی کیسے گزاروں گی۔ پہلے ہی اسے پسند کرتی تھی۔ احسان سے کہا کہ اپنی امی کو میرے پاس لے آئو۔ اگر وہ مجھے بخوشی گلے سے لگا لیں گی تو میں ”ہاں“ کہہ دوں گی۔ اس کے بعد احسان کی والدہ تقریب روز میرے پاس آنے لگیں۔ میں نے محلے والوں کو بتادیا کہ یہ میری سگی خالہ ہیں۔اب میں تنہا ہوں لہٰذا یہ روز آتی ہیں تاکہ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ نہ ملے۔ بابا جان کے انتقال کے چھ ماہ بعد میں نے احسان سے شادی کر لی۔ ان کا مکان بابا جان کے ایک بھتیجے نے لے لیا۔ اور بوڑھی اماں کو بھی جنہیں دادی کہا کرتی تھی، اپنے ساتھ لے آئی کیونکہ ان کا کوئی آسرا نہیں تھا۔ اس بزرگ خاتون کو بابا جان، لاوارثوں کو پناہ دینے والے ایک ادارے سے لائے تھے۔ احسان نے شادی کے چار سال بعد تک مجھے خوش رکھا اور کوئی تکلیف نہ دی لیکن جب ان کی ماں کا انتقال ہو گیا، تو ان کارویہ بدلنے لگا۔ بد قسمتی یہ کہ میرے کوئی اولاد بھی نہ ہوئی تھی، جس کی محبت میں کھو کر میں شوہر کی بے اعتنائی کو محسوس نہ کرتی ، تاہم ان کی مجھ سے یہ بڑھتی ہوئی بے اعتنائی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے نہیں تھی۔ اس کی وجہ کچھ اور تھی، جو میں نہیں جانتی تھی۔ یہی سمجھتی تھی شاید ان کا دل مجھ سے بھر گیا ہے کیونکہ اب تو ذرا ذرا سی بات پر احسان مجھے کہتے تھے کہ نور میں نے تم سے شادی کر کے جلد بازی میں غلطی کر لی ہے۔ خدا کے لئے اب میرا اب میرا پیچھا چھوڑ دو۔ ان کے ایسے الفاظ میرے دل پر تیر بن کر لگتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے اب تو جب بھی تمہاری صورت دیکھتا ہوں، میرا دل کرتا ہے کہ تم کو قتل کر دوں۔ میں پوچھتی کہ میرا کیا قصور ہے ؟ کہتے تھے کہ قصور تو کچھ نہیں ہے۔ میری خود سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کو دیکھ کر مجھے غصہ کیوں آتا ہے ؟ ایک تو یہ بھی پتا نہیں تم کون ہو ، کس کی اولاد ہو اور تمہارے بابانے تم کو کس سے لے کر پالا تھا ؟ میں نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ دن بدن اور سنگدل ہوتے گئے۔ ایک دن جب میں نے کھانا ان کے سامنے رکھا۔ انہوں نے صرف ایک لقمہ ہی چکھا اور زور سے ایک تھپڑ میرے منہ پر مار دیا۔ سالن کا ڈونگا بھی پرے پھینک دیا اور بولے کہ تم کو سالن پکانے تک کا ڈھنگ نہیں آیا ہے ابھی تک۔ کیا کھانا ایسے بناتے ہیں ؟ نمک کیوں اتنا زیادہ ڈال دیا ہے۔ میں اس اچانک حملے سے گھبرا گئی۔ تھپڑ منہ پر پڑنے سے آنکھوں کے آگے تارے سے ناچنے لگے اور پھر میں اس صدمے سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ میرے کانوں سے ان کے یہ الفاظ ٹکرائے میں تم کو ہمیشہ کے لئے چھوڑتا ہوں۔ جی چاہا خود کشی کرلوں مگر مردہ کی ہو کر زمین پر بیٹھ گئی ، رونا تک بھول گئی۔ وہ تو یہ کہہ کر گھر سے نکل گئے لیکن میں سوچتی رہ گئی کہ اب کہاں جائوں گی ؟
میرے ساتھ بابا جان کے گھر سے جو دادی اماں آئی تھیں ، وہ یہ سب سن رہی تھیں، انہوں نے کہا۔ بیٹی رومت۔ میں تمہارے بابا فاروق کے بھتیجے ارمغان کو سارا احوال جا کر بتاتی ہوں اور اس سے پوچھتی ہوں کہ اب تم نے کہا جانا ہے۔ ہم دونوں بابا فاروق مرحوم کے گھر آگئے۔ ارمغان گھر پر ہی تھا۔ مجھ کو اس قدر پریشان دیکھا تو کہا۔ آپا خیریت تو ہے ، آج اتنے عرصے کے بعد کیسے آئی ہو ؟ میں نے تمام حال اس کو بتادیا۔ وہ کہنے لگا۔ تم فکر مت کرو، یہ تمہارا ہی گھر ہے۔ تم آرام سے دادی اماں کے ساتھ یہاں رہو۔ میں خود تمہارے خاوند سے بات کرتا ہوں ، آخر وہ کیا چاہتا ہے۔ ارمغان نے احسان کے آفس جا کر بات کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں نور کو طلاق دے چکا ہوں۔ اس کے باوجود اگر وہ مالی پریشانی سے گھبرارہی ہے تو میں ہر ماہ اس کا خرچہ پہنچاتار ہوں گا لیکن اب واپس اس کو گھر میں نہیں لا سکتا۔ یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات برس پڑی۔ خدا نے ارمغان کے دل میں رحم ڈال دیا۔ اس نے مجھے تسلی دی۔ کہنے لگا کہ تم میرے چچا کی بیٹی ہو۔ ان کی عزت ہو تو ہمارے خاندان کی بھی عزت ہو۔ اس ناتے میں اس رشتے کو نباہوں گا، تم فکر مت کرو۔ جس وقت ارمغان نے یہ بات کہی، میرے سر سے جیسے منوں بوجھ اتر گیا۔ سوچا کہ اس برے وقت میں کوئی تو ایسا ہے جس کو رشتے داری کا پاس ہے۔ اگر آج ارمغان مجھ کو تسلی کے یہ دو بول نہ کہتا تو جانے میں کیا کرتی ؟ اپنے بابا جان کے گھر آکر میں دوبارہ خود کو محفوظ تصور کرنے لگی۔ اب مجھے یہ فکر ستارہی تھی کہ گزر بسر کیسے ہو گی ؟ گرچه ارمغان بر سر روز گار تھا اور کہتا تھا کہ آیا ! تم فکر مت کرو۔ میں جو کما کر لائوں گا، آپ کے ہاتھ پر رکھوں گا، لیکن میں اس چیز کو اپنی غیرت کے . تھی کہ اس کی کمائی پر گزر بسر ہو۔ اسی کشمکش میں دو تہ میں دو تین ماہ گزر گئے۔ میں نے احسان کی مالی مدد کو بھی ٹھکرادیا تھا۔ بھلا جس شخص نے مجھ سے آنکھیں بدل لیں اور بیچ منجدھار میں بلا قصور منافی سمجھتی تھی تنہا چھوڑ گیا، میں کیوں اس کے چند ٹکے قبول کرتی۔ اس سے تو بھو کے مر جانا اچھا تھا۔ میں بے شک بے آسرا تھی ، میرا کوئی نہیں تھا مگر خدا تو تھا۔ ابھی میرے غیرت مری نہیں تھی اور نہ ہی خدا پر میرا یقین متزلزل ہوا تھا۔ مجھے جلد ہی پتا چل گیا کہ احسان نے دوسری شادی کر لی ہے۔ دراصل وہ جس آفس میں کام کرتا تھا، وہ لڑکی وہاں ایک روز کسی کام سے آئی تھی، تبھی ان کی جان پہچان ہوئی تھی۔ یہ دونوں ملنے لگے اور احسان اس کے ٹھکانے پر جانے لگا۔ اس کا نام وحیدہ تھا۔ وہ دلکش تھی ، سو اس کی دلکشی میں گم ہو کر احسان نے باقی ہر شے کو بھلادیا تھا اور ہوش و حواس سے ہی بے گانہ ہو گئے تھے۔ ہوش آیا، آنکھیں کھلیں تو انہوں نے وحیدہ کو بے وفا پایا۔ جن عورتوں کا ایمان دولت ہو ، وہ وفا کو ایک بے وقوفی سمجھتی ہیں۔ وحیدہ بھی ان ہی عورتوں میں سے تھی۔ جب احسان سے بہتر اور زیادہ مالدار شخص نے اس کا ہاتھ تھاما اور یورپ کی سیر کا بیڑا بھی اٹھا لیا تو اس نے وہی کیا جو احسان نے میرے ساتھ کیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ احسان نے بے قصور مجھے چھوڑا تھا کیونکہ وحیدہ کی یہی شرط تھی کہ جب تک پہلی بیوی کو نہیں چھوڑو گے ، میں تمہارے بیوی نہیں بنوں گی اور وہ ہر حال اس حسینہ کو اپنا نا چاہتے تھے ، لہٰذا اس کی خاطر مجھ کو طلاق دی اور اب وہی بے وفا ان سے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی۔انسان کو اس کئے کی سزا تو ضرور ملتی ہے۔ جو دکھ مجھے احسان نے دیا، وہی وحیدہ کے ہاتھوں انہیں ملا۔ اس نے طلاق لے لی اور احسان کا گھر پھر سے ویران ہو گیا۔ جب عقل گم ہو جائے تو انسان چمکتی ہوئی چیزوں کی طرف ایک بچے کی طرح لپکتا ہے اور جب آنکھوں کی روشنی واپس آتی ہے پھر پچھتاوے کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے۔ اب احسان بھی بہت پچھتاتے اور وحیدہ کو گالیاں دیتے۔ ہر ایک سے کہتے کہ ایک بازاری عورت کی خاطر میں نے اپنی اتنی اچھی بیوی کو در بدر کیا حالانکہ نور کا تو کوئی قصور بھی نہ تھا اور بڑے دکھ کی بات یہ تھی کہ میرے سوا اس کا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس احساس ندامت نے ان کو بے چین رکھا۔ دن رات پچھتاوے کی آگ میں سلگنے لگے ، یہاں تک چین اور سکون حرام ہوا کہ پاگل سے لگنے لگے۔
مجھ کو محلے کی ایک عورت آکر ان کا حال بتایا کرتی تھی۔ میں ساری باتیں سنتی تھی اور چپ ہو جاتی۔ کیا جواب دے سکتی تھی۔ ان دنوں تو میں ملازمت کی تلاش میں بھٹک رہی تھی۔ چاہتی تھی کہ جلد از جلد خود اپنی کفالت کرنے کے لائق ہو جائوں۔ میں ارمغان کے دست نگر بھی نہیں رہنا چاہتی تھی۔ ایک دن میرے پاس احسان کی پڑوسن آئی اور یہ پیغام دیا کہ احسان نے کہا ہے کہ اگر آج چار بجے نور مجھ سے ملنے نہ آئی تو میں خود کشی کر لوں گا۔ جی چاہا کہ یہی جواب دوں کہ کر لو خود کشی۔ میں کیوں اب تم سے ملنے آئوں؟ میرا تم سے کیا واسطہ ہے مگر خدا جانے دل کے کون سے گوشے میں ابھی تک ان کی محبت چھپی ہوئی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں ان کو بتائی ہوئی جگہ پر چلی گئی۔ جب ان کی حالت دیکھی تو دل نے کہا کہ ان سے لپٹ کر اتنار وٹوں کہ سارا دکھ آنسوئوں میں بہہ جائے۔ ان کی آنکھوں میں جاگنے سے حلقے پڑے ہوئے تھے۔ کھانے پینے سے غفلت کرنے کی وجہ سے بیمار نظر آتے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میرا دل تڑپ گیا۔ انہوں نے میرے پیروں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ رورو کر معافی مانگی اور کہا۔ نور تم ایک بار پھر سے میری ہو جاؤ، ورنہ میں مر جائوں گا۔ تم سے بچھڑ کر ایک بار بھی میں نے سکھ کا سان نہیں لیا۔ انہوں نے دکھی ہو کر مجھ سے ایسی باتیں کیں کہ میں نے سوچا کہ میں انہی کی ہو رہوں گی، ورنہ ان کو کچھ ہو نہ جائے۔ میں وعدہ کر کے چلی آئی اور آتے ہی دادی اماں سے کہا۔ مجھے دوبارہ اپنے اسی گھر جانا ہے ، وہی میرا اصلی گھر ہے۔ میں کب تک بھائی کے پاس رہ سکتی ہوں۔ ارمغان میر اسگا بھائی تو نہیں ہے۔ دنیا بھی مجھے اس کے پاس رہنے نہیں دے گی۔ ارمغان کو دادی اماں نے بتا یا تو وہ بولا۔ آپا! ایک بار تم اس شخص کو آزما چکی ہو ، دوبارہ کیوں آزمانا چاہتی ہو ؟ اور طلاق کے بعد جب تک دوبارہ کسی سے شادی ہو کر پھر وہاں سے طلاق نہ ہو تو پہلے شوہر سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ بہتر ہے میری بہن کہ اس بے وفا کو بھول جائے اور اپنی زندگی کسی اور اچھے انسان کے ساتھ نئے سرے سے بسر کرنے کی تدبیر کرے۔ انسان کو اگر اپنے جذبوں پر اختیار ہو جائے تو وہ فرشتہ نہ ہو جائے۔ میں بھی احسان کی محبت سے مجبور تھی۔ ارمغان نے مجھے اداس دیکھا تو نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دکھوں کا مداوا کیا۔ اس نے اپنے ایک قابل بھروسہ دوست کے سامنے میر امسئلہ رکھا تو اس نے مدد پر آمادگی ظاہر کر دی۔ تبھی اس نے میرا اس کے ساتھ نکاح کرا دیا اور دو ماہ بعد میں نے اس شریف آدمی سے طلاق مانگ لی کیونکہ میرے دل کو سکون میسر نہیں تھا۔ انہوں نے بھی جانا کہ کوئی انسان کسی کے ساتھ مصنوعی زندگی نہیں گزار سکتا، انہوں نے مجھے طلاق دے دی۔ عدت کی مدت پوری ہو جانے کے بعد ارمغان نے احسان کو بلوا کر میرا اس کے ساتھ دوبارہ نکاح کروادیا۔ اس شرط پر کہ آئندہ وہ مجھے پھر کبھی کوئی تکلیف نہ دیں گے۔ نکاح سے پہلے ارمغان نے احسان کے سامنے یہ شرط بھی رکھ دی کہ وہ گھر کو بھی میرے نام کریں گے۔ اس شرط کو بھی احسان نے بلا چون و چرامان لیا۔ یوں میں ارمغان کی دعائوں کے ساتھ دوبارہ اس گھر میں جابسی، جو پہلے بھی میرا گھر تھا۔ احسان سے بے وفائی کی چوٹ کھانے کے بعد باوجود میں اس چوٹ کے درد کو بھول گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ میرا کھویا ہو اسکون دوبارہ مجھے مل گیا ہے۔ اب احسان کو سچ مچ میری قدر آئی اور وہ اب بہت پیار سے میرے ساتھ رہنے لگے۔ ان کی صحت بھی رفتہ رفتہ اچھی ہوتی گئی اور خوش نظر آنے لگے ، دوبارہ سے آفس بھی جوائن کر لیا۔ غم کے دن لمبے اور خوشیوں کے مختصر ہوتے ہیں لیکن ہم نے دوبارہ ایک ہو جانے کے بعد تیس سال اکٹھے خوش و خرم گزارے تاہم خوشیوں کا بھی کبھی نہ کبھی انت ہوتا ہی ہے تو ایک روز احسان مجھے روتا ہوا چھوڑ کر دنیا سے چلے اور میں آج بھی اس اس میں جی رہی ہوں کہ بعد مرنے کے میں ایک بار پھر ان سے ملوں گی۔