ایک بادشاہ کے کئی لڑکے تھے ان میں سے ایک شہزادہ پست قد اور معمولی شکل و صورت کا تھا اور اس کے دوسرے بھائی قد آور اور وجیہہ تھے۔ ایک دفعہ بادشاہ نے اپنے کم رو فرزند کو نفرت اور حقارت سے دیکھا، شہزادہ اپنی خداداد فراست سے باپ کے رویے کا سبب سمجھ گیا۔ اس نے کہا ابا جان! چھوٹے قد والا عقل مند بلند قامت احمق سے بہتر ہے۔ جو چیز قد و قامت میں چھوٹی ہے ہو سکتا ہے کہ وہ قیمت میں زیادہ ہو ۔ جیسا کہ الشاة نظيفة والفيل جيفة ( بکری حلال ہے اور ہاتھی حرام ہے ) باپ ہنس پڑا اور سلطنت کے امراء و وزراء نے اس خیال کو پسند کیا۔ البتہ اس کے بھائی اس بات پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس واقعہ کے چند روز بعد ایک طاقتور دشمن نے بادشاہ پر چڑھائی کر دی۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے اور لڑائی کے لیے پر تولے تو سب سے پہلا جو شخص میدان رزم میں آیا وہ وہی پست قد شہزادہ تھا اس وقت وہ یہ رجز پڑھ رہا تھا-
“میں وہ نہیں ہوں کہ لڑائی کے دن تو مجھے بھاگتے ہوئے دیکھے۔ میں تو وہ ہوں کہ تو جس کے سر کو خاک، اور خون میں لتھڑا ہوا پائے گا۔ جو شخص جنگ لاتا ہے وہ اپنے خون سے کھیلتا ہے اور جو میدان سے بھاگتا ہے وہ اپنی فوج کے خون سے کھیلتا ہے۔”
یہ شہزادہ دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑا۔ اور اس کے کئی بہادروں کو مار گرایا۔ جب باپ کے پاس واپس آیا تو زمین بوس ہو کر کہا کہ آپ نے جب تک میرے ہنر کو اچھی طرح سے دیکھ نہ لیا مجھے حقیر جانا۔ سچ تو یہ ہے کہ دبلا پتلا سبک رفتار گھوڑا ہی لڑائی کے دن کام آتا ہے نہ کہ موٹا تازہ بیل۔ کہتے ہیں کہ دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں بادشاہ کی فوج تھوڑی تھی۔ ایک گروہ اپنی کم تعداد دیکھ کر جی چھوڑ بیٹھا اور اس نے بھاگنے کا ارادہ کیا۔ بہادر شہزادہ ان کے تیور بھانپ گیا اور اس نے للکار کر کہا اے بہادر و ہمت سے کام لو اور عورتوں کا لباس مت پہنو۔ شہزادے کے جوش دلانے پر سواروں کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور انہوں نے مرنے مارنے کا تہیہ کر کے دشمن پر بڑے زور کا حملہ کیا۔ دشمن اس ہولناک یلغار کا مقابلہ نہ کرسکا۔ اور بھاگ کھڑا ہوا۔ بادشاہ نے فرطِ مسرت سے شہزادے کے سر و آنکھوں کو چوما، گلے سے لگایا اور اس کے بعد اس پر بے حد مہربان ہو گیا۔ یہاں تک کہ اسے اپنا ولی عہد نامزد کر دیا۔ اس کے بھائیوں کو حسد پیدا ہو گیا اور ایک دن موقع پاکر اس کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ شہزادے کی بہن نے کھڑکی سے ان کی یہ حرکت دیکھ لی۔ شہزادے نے جوں ہی زہر آلود کھانے کا لقمہ اٹھایا۔ اس نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، شہزادہ متنبہ ہو گیا۔ اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور کہا، یہ مشکل ہے کہ اہل ہنر مرجائیں اور بے ہنر ان کی جگہ لے لیں۔ بادشاہ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو اس نے حاسد بھائیوں طلب کیا۔ اور انہیں مناسب سزا دی پھر ہر ایک کے لیے آس پاس کے علاقوں میں سے ان کی مرضی کے مطابق حصہ مقرر کر دیا تا کہ فساد کی جڑ کٹ جائے اور جھگڑے کا احتمال نہ رہے کیوں کہ داناؤں کا قول ہے کہ دس درویش ایک گدڑی میں سو سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک ملک میں نہیں سما سکتے۔