Thursday, February 20, 2025

Khud Ahtesabi

چھپتی دوپہر میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر اور صدر کا ہجوم ٹریفک کسی عذابِ الٰہی سے کم نہیں تھا۔ پیشانی پر آئی ہوئی پسینے کی بوندیں وہ کوٹشو پیپر سے صاف کر رہی تھی، اپنی قسمت سے نالاں اور زندگی سے ناراض تھی۔ شدت ضبط سے اس کی بھوری آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اس نے اکتائی ہوئی نظروں سے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ کالج یونیفارم میں ملبوس دو لڑکیاں سامنے بے زار بیٹھی تھیں، جبکہ برابر میں ایک ادھیڑ عمر عورت جو شاید اسکول ٹیچر تھی، بار بار اپنی بائیں کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ رہی تھی۔ الغرض ہر کوئی عجلت میں اور بے زاری کی حالت میں نظر آرہا تھا۔ یہ بے زاری بھی اب تو عادت سی بن چکی تھی۔ بس سے اتر کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی بلڈنگ کی طرف بڑھ گئی۔ لمحے بھر کو رک کر اس نے بلڈنگ کے تیسرے فلور پر واقع اپنے پرانے طرز کے دو کمروں کے گھر پر نظر ڈالی اور تھکے ہوئے قدموں سے اندر داخل ہو گئی۔ اف، ایک تو اس نیکلس نے تنگ کیا ہوا ہے۔ قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی چڑچڑاہٹ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ صبح سویرے کام پر نکل جاؤ، تھک ہار کر گھر واپس آؤ تو بجلی غائب! جھنجلاتے ہوئے اس نے زور سے دروازہ بند کیا۔ فریش ہو کر اس نے چائے بنائی اور کمرے میں آ گئی۔ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اسے ماں کی بارہا کی گئی نصیحت یاد آئی: خالی پیٹ چائے مت پیا کرو! ماں کی یہ سرگوشی دل و دماغ میں گونجنے لگی، جس سے اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ آنکھوں میں آئی نمی کو روک کر بیڈ سے اٹھی اور سائڈ ٹیبل سے بسکٹ نکال لائی۔ خیالوں میں گم ہوکر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ دن بھر کی تھکن سے وہ اتنی گہری نیند میں چلی گئی کہ شام رات میں بدل گئی۔ تقریباً نو بجے باہر ہونے والی ہلکی سی آواز پر اس کی آنکھ کھلی۔ نیند پوری ہوگئی ہو تو کھانا دے دو! واسع کی آواز نے اسے جھنجھوڑا۔ کھانا تو تم نے آج بتایا ہی نہیں تھا۔ جاؤ، بازار سے کچھ لے آؤ، آج میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ اپنی کوتاہی کو اس نے سرد لہجے میں چھپانے کی کوشش کی۔ جو بھی ہے، گھر میں کھانا بتاؤ! واسع نے سخت لہجے میں کہا اور فریش ہونے چلا گیا۔ سحر نے اس کی پشت کو ناگواری سے گھورا۔ یہ خود کو سمجھتا کیا ہے؟ اس نے غصے سے فون اٹھایا اور بریانی کا آرڈر دے دیا۔ واسع جب فریش ہو کر کمرے میں واپس آیا تو سحر کو بستر پر نیم دراز دیکھ کر اس کا خون کھول گیا۔ دن بھر محنت کر کے آتا ہوں اور تم مجھے ایک وقت کا کھانا بھی نہیں دے سکتیں؟ کڑے تیور لیے وہ سحر کے سر پر آن کھڑا ہوا۔ محنت صرف تم ہی نہیں کرتے، میں بھی دن بھر سر کھپاتی ہوں۔ فکر مت کرو، بریانی کا آرڈر کر دیا ہے۔ سحر نے سر جھٹکا اور اپنے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر بیڈ سے اٹھ گئی۔ واسع ہمیشہ کی طرح اس کی زلفوں میں الجھ کر رہ گیا، مگر اس بار اس نے اپنی نظروں کا ارتکاز بدل لیا۔ سامنے بیٹھی لاپروا نازک سی لڑکی اس کی بیوی تھی، جس سے وہ محبت کرتا تھا۔ ناراضی سے اپنی بات منوانے کا عادی واسع حیران تھا کہ آخر ان کے درمیان کیا ہو گیا تھا کہ شریر جملوں اور التفات کے بجائے سرد مہری نے جگہ لے لی تھی؟ قلیل عرصے میں زندگی کے رنگ آخر کیوں ماند پڑ گئے تھے؟ سحر، تم روز فضول خرچی کرتی ہو، ہر مہینے جو راشن لاتی ہو وہ پڑے پڑے خراب ہو جاتا ہے۔ واسع کا لہجہ اب کی بار دھیما تھا۔ نہیں ہے بہت تو کیا کروں، ویسے بھی راشن اپنے پیسوں سے لاتی ہوں، جنہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سحر نے تلخ جواب دیا۔ واسع نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے مگر خاموش رہ گیا۔ پھر ضبط کر کے وہاں سے اٹھ گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ گھر کا راشن اور دیگر ضروریات سحر اپنی تنخواہ سے پوری کرتی تھی۔ واسع کی محدود سی تنخواہ گھر کے کرائے اور بلوں میں خرچ ہو جاتی تھی، اور اوپر کے تمام اخراجات سحر پورے کرتی تھی۔ وہ ایک ہسپتال میں ریسیپشنسٹ تھی اور واسع کے ساتھ مل کر دونوں گھر چلاتے تھے۔ مگر جاب سے آنے کے بعد سحر دانستہ طور پر گھریلو معاملات سے جان چھڑاتی تھی۔ دونوں نے کھانا خاموشی میں کھایا، مختلف سوچوں میں گم۔ یہی کھانا خوشگوار ماحول میں بھی کھایا جا سکتا تھا، مگر ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہنا شاید دونوں کی عادت بن گئی تھی۔
☆☆☆

سحر، کیا بات ہے؟ آج کل تم بہت خاموش رہنے لگی ہو؟ کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے شیئر کرو۔ ماہا، جو کچھ ماہ پہلے ہی ٹریننگ کے لیے آئی تھی، ایک کم عمر مگر کھل مل جانے والی لڑکی تھی۔ ہاں؟ کچھ کہا تم نے؟ سحر نے چونک کر ماہا کو دیکھا۔ سحر، آپ اپ سیٹ کیوں ہیں آج کل؟ ماہا نے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔ ماہا، دعا کرو میرے مسائل حل ہو جائیں۔ سحر نے ایک لمبی سانس خارج کی۔ سحر، دعا کی اہمیت تو بے شک اپنی جگہ ہے، مگر دعا کے ساتھ دوا بھی ہو تو مرض جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ مسئلے حل تلاش کرنے سے ٹھیک ہوتے ہیں۔ ماہا نے مسکرا کر کہا۔ سحر نے غور سے ماہا کی بے ریا اور چمکتی آنکھوں کو دیکھا۔ یہ گہری بات تھی۔ ایکسکیوز می، ڈاکٹر باسط کی اپائنٹمنٹ کنفرم کرنی ہے۔ اس سے پہلے کہ سحر مزید کچھ سوچتی، وقت کی مصروفیات نے دونوں کو مصروف کر دیا-
☆☆☆

مسئلے حل ڈھونڈنے سے ٹھیک ہوتے ہیں۔ آج دن بھر ماہا کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی رہی۔ پہلے تو میرے لیے مسئلے کا تعین کرنا ضروری ہے، مسئلہ آخر ہے کیا؟ کیا میں اور واسع اب ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے، کیا ہماری محبت ماند پڑ گئی؟ سحر، میں یہ کھانا لایا ہوں، اوون میں گرم کر لو۔ آتے آتے ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ یہ کب تک خود کلامی کرتی رہتی، واسع کی آواز نے اسے چونکایا۔ یہ لو، تم گرم کرو، میں فریش ہو کے آتا ہوں۔ چھوڑو، میں فریش ہو کر خود گرم کر لیتا ہوں۔ واسع نے سحر کو اپنی جگہ کھڑے دیکھ کر ناگواری سے کہا۔ نہیں، میں کر رہی ہوں گرم۔ سحر نے دھیمی آواز میں کہا اور چکن کی طرف بڑھ گئی۔ واسع پیچھے حیران کھڑا رہ گیا تھا، آج اسے سحر کے چہرے پر اکتاہٹ کے بجائے کچھ عجیب سا احساس نظر آیا۔ کھانے کے دوران بھی سحر خاموش رہی، واسع سحر کے بدلتے رویے کو دیکھ کر کچھ پریشان ہو گیا۔
☆☆☆

آج ہسپتال میں معمول سے زیادہ رش تھا، کچھ دیر کی فرصت ملی تو دونوں کہنے لگیں -آج تو سر درد سے پھٹ رہا ہے، میں کچھ نہیں کھاؤں گی، بس چائے لوں گی۔ آپ کے لیے کیا لاؤں؟ ماہا اپنی رو میں بولی جا رہی تھی، پھر چونک کر سامنے کم گو سحر کو دیکھا۔ سحر… ماہا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ہاں۔ سحر، میں چائے لا رہی ہوں اپنے لیے، آپ کے لیے بھی لے آؤں؟ ہاں۔ مختصر سا جواب دے کر سحر نے اپنی بات ختم کر دی- ماہا پر نظر ڈال کر سحر نے کرسی کی پشت سے خود کو نکال لیا اور آنکھیں موند لیں۔ یہ لیں، گرما گرم چائے، میں نے خاص کہہ کر ترکی دودھ پتی بنوائی ہے۔ ٹی بیگ والی چائے سر درد کہاں دور کرتی ہے، سینڈوچ بھی لیں نا۔ ماہا ایک خوش مزاج اور بے تکلف لڑکی تھی۔ ٹھیک ہے۔ سحر بدقت مسکرائی اور چائے کا کپ اپنے سامنے کر لیا۔ سحر، مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ نے اپنی کوتاہیوں کو ڈھونڈ لیا ہے؟ ماہا عام انداز میں بات کر رہی تھی۔ تمہیں ایسا کیوں لگا؟ حیرانی سے سحر نے پوچھا۔ کیونکہ کل آپ پریشان تھیں اور آج بھی ہیں۔ سحر نے انتہائی حیرت سے سینڈوچ اور چائے سے انصاف کرتی اٹھارہ سالہ لڑکی کو دیکھا، جو خطرناک حد تک چہرہ شناس تھی۔ تم مجھے روز اپنی باتوں سے حیران کر رہی ہو۔ اب کی بار سحر کی آواز میں ہلکی سی کھنک تھی۔ آہاں، یہ تو میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ ماہا کھلکھلا کر ہنسی۔ دیکھو سحر، ہم انسان اپنی پریشانیوں کا گلہ اللہ سے کرتے رہتے ہیں، مگر یہ نہیں جان پاتے کہ یہ مصائب کا سلسلہ دراصل ہمارا ہی شروع کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے عمل، ہماری کوتاہیاں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔ جس دن ہم اپنی غلطیاں مان لیتے ہیں، اسی دن سے ہماری اندرونی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ جنگ ہماری انا اور ضمیر کے درمیان ہوتی ہے۔ انسان کی قوت ارادی پر منحصر ہے کہ وہ اپنی انا کو شکست دے کر اپنی غلطیوں کو سدھارتا ہے، یا پھر اپنی عمر اسی گرداب میں گزار دیتا ہے۔ ماہا! جن لوگوں کا دل کانچ کی طرح شفاف ہوتا ہے، اللہ انہیں دوسرے کے دل میں اترنے کے ہنر سے نوازتا ہے۔ پلیز اسے ہمیشہ شفاف رکھنا کیونکہ تم چہرہ شناس نہیں، بلکہ دل کے رازوں کو پڑھنے کا ہنر جانتی ہو۔ماہا نے فلسفیانہ انداز میں بات مکمل کی۔ کچھ فیصلے خاص لمحوں کے منتظر ہوتے ہیں، اور یہ خاص لمحہ واسع کی زندگی میں آ گیا تھا۔آج موسم قدرے بہتر تھا، آسمان پر چھائی بادل اور بجلی بھی خشک ہو رہی تھی۔ بالکونی میں کھڑی، وہ آج خود کو خاصا ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ جب دل پر چھائی گرد صاف ہو جائے تو ہر منظر اجلا لگتا ہے۔ اس کی نگاہ پڑی تو شام کے سات بج رہے تھے، اور واسع کے آنے میں کچھ وقت تھا۔ آج وہ واسع کو مس کر رہی تھی۔ اس نے حیران ہو کر اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔ شادی کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا تھا، لیکن وہ واسع کا انتظار کرتی رہتی تھی جیسے کوئی مشرقی ہوا کی طرح۔ نہ جانے کب کا چھوڑ چکی تھی۔ آخری دفعہ وہ پانی بائیں واقع کی بہن کی شادی پر تیار ہوئی تھی۔ مہنگائی نے زندگی کے رنگ ماند کر دیے تھے۔ تو خود کو سنوارنا اس کی مجبوری بھی بن گئی تھی۔ واسع کی تنخواہ میں گزر بسر مشکل ہو گئی تھی، اور وہ محنت کرتے کرتے بے زاری میں رچ بس گئی تھی۔ گھر لوٹنے کے بعد، وہ اپنی ساری بے زاری واسع پر الٹ دیتی۔ تیز ہوا کے جھونکے نے اسے سوچوں کے  گرداب سے نکالا  اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کچن میں آ گئی۔ کھانا بنا کر خود تیار ہونے لگی۔ اس نے سی گرین کار کا لان کا رائیڈ سوٹ پہنا، بالوں کو سیدھا کر کے انہیں کھلا چھوڑا، اور سامنے سے ہلکا سا میک اپ اور نازک سی جیولری پہن کر خود کو آئینے میں دیکھا۔ آج وہ خاصی خوبصورت لگ رہی تھی۔ لبوں پر مسکراہٹ لیے وہ واپس کچن میں آ گئی۔ دال چاول بن چکے تھے، اس نے جلدی سے سلاد بنایا۔ اتنے میں دروازے کا لاک کھلنے کی آواز آئی، اس کا دل آج پہلے کی طرح واسع کی موجودگی کا سوچ کر ایک الگ ہی دھڑکا۔ جلدی سے فریش ہو جائیں، میں کھانا لگا رہی ہوں، سحر نے آواز لگائی۔ واسع کے بڑھتے قدم اس تبدیلی پر حیرانی سے تھے مگر خوش فہمیوں کو جھلکتے ہوئے وہ فریش ہونے چلا گیا۔فریش ہو کر آیا تو دسترخوان پر اپنا من پسند کھانا اور  سنوری مسکراتی ہوئی سحر کو دیکھ کر اس کی ساری تھکن اور طبیعت پر چھائی گرانی پل بھر میں غائب ہوگئی۔ خیریت! آج میری یا تمہاری برتھ ڈے ہے؟ واسع نے خوش گوار حیرت سے پوچھا۔ جلدی سے کھانا کھائیں، لائٹ جانے والی ہے، سحر نے یاد دلایا۔واسع نے منہ بنایا۔ ایک تو یہ لائٹ… واسع کی بات پر سحر کی مدھر ہنسی سے ہر منظر جھوم اٹھا۔ واسع نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھا۔ اسی طرح مسکراتی رہا کرو، واسع کی بات نے سحر کی ایک بیٹ میں تھی۔ I’m sorry، کچھ لمحوں بعد سحر کی آواز نے کمرے میں چھائے سکوت کو توڑا۔ سوری کس لیے؟ پچھلے تمام تر رویوں پر میں بہت شرمندہ ہوں، سحر نے علامتی طور پر چور لہجے اور آنکھوں سے کہا۔ تم ایک ورکنگ وومن ہو، میں نے تم سے ایک گھریلو بیوی کی سی امید رکھی تھی۔ جب تم میرا گھر چلانے میں ہاتھ بٹا سکتی ہو تو میں گھر کے کاموں میں تمہارا ہاتھ کیوں نہیں بٹا سکتا ہوں؟ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے تو امیدیں وابستہ رکھتے ہیں مگر ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش نہیں کرتے۔ واسع کے چہرے پر شرمندگی و ندامت جھلک رہی تھی۔ واقعی، ہر رشتے کی کچھ ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کو سمجھیں تو ہم ان ڈیمانڈز کو پورا کر سکتے ہیں۔ بہت سے مسئلے محض ایک تحمیل کے منتظر ہوتے ہیں۔ خیر، چھوڑیں ان باتوں کو۔ آج کا ڈنر تو میرے لیے بہت خاص ہے، سحر نے کہا۔ کمرے میں ایک دم اندھیرا چھا گیا، واسع کا ہاتھ ڈش کی طرف جاتا رک گیا۔ اف، ایک تو لائٹ ! واسع کی جھنجلاہٹ بھری آواز پر سحر ہنس پڑی۔ نہیں، کچھ نہیں کریں، میں نے انتظام کیا ہوا ہے! کچھ دیر بعد کمرے میں روشنی سے چمک اٹھا۔ ارے واہ! آج کا ڈنر تو کچھ خاص ہے! واسع کی بات پر سحر نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ ارے، یہ تو کینڈل لائٹ ڈنر ہے! کمرہ قہقہوں سے بھر گیا۔

Latest Posts

Related POSTS