سعدیہ اور سعود ایک ہی محلے میں پلے بڑھے اور پروان چڑھے۔ ان کی محبت بالکل انگور کی جنگلی بیلوں کی طرح تھی، ایسی صاف ستھری دوستی جیسے بہتی ندی کا شفاف پانی ہوتا ہے۔ آخر گھر والوں کو بھی سن گن ہو گئی۔ سعود کی ماں سعدیہ کی امی کی سہیلی تھی ، ان کا بھی پچپن کا ساتھ گزرا تھا۔ ان دونوں کے بارے باتیں سنیں تو آپس میں صلاح و مشورہ کرنے بیٹھ گئیں۔ ایک نے دوسری سے کہا۔ بہن ! زمانہ ہمارے بچوں کے بارے باتیں بنا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی بے پر کی اڑائے، کیوں نہ ہم سہیلیوں کے ساتھ سمندھنیں بھی بن جائیں۔ یہ کہہ کر وہ دونوں ہسنے لگیں۔ ماں اور خالہ کی زبانی سعدیہ نے بھی یہ فقرہ سنا، وہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی تھی۔ اس کا بھی سارا وجود مسکرا اٹھا۔ تبھی اسے ہر شے مسکراتی نظر آنے لگی۔ آج تو سونے آنگن میں لگی کیاری کے پھول بھی ہنستے دکھائی دے رہے تھے۔
اسی روز سعود خوان پوش سے ڈھکی ٹرے لے کر آگیا، جس میں باداموں کا حلوہ تھا اور خالہ نے بہت اہتمام سے بھجوایا تھا۔ امی کچن میں تھیں۔ سعدیہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑی اور بے اختیار ہنس دی۔ تب وہ بولا۔ کیا ہو گیا ہے؟ کہیں پاگل تو نہیں ہو گئی ہو۔ اگر بتادوں گی کہ کیوں ہنس رہی ہوں، تو تم بھی ہنسنے لگو گے۔ یہ کہہ کر سوال کا انتظار کئے بغیر وہ شرماتے ہوئے بولی۔ تمہاری میری شادی ہو رہی ہے نا! میں نے اماں اور خالہ کو یہ کہتے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ یہ تو واقعی خوشی والی بات ہے۔ یہ کہہ کر سعود بھی خوشی سے ہنس دیا۔ وہ سعدیہ کے گھر روز سودا سلف پہنچانے آیا کرتا تھا کیونکہ ان کے گھر میں کوئی مرد نہ تھا۔ سعدیہ کے والد اور بھائی دونوں ہی سعودی عرب کمانے کی خاطر گئے ہوئے تھے اور سعود سے کہہ گئے تھے کہ ہمارے پیچھے تم گھر کا خیال رکھنا۔ جب کہ اس کی ماں کی ہدایت بھی تھی کہ دن میں ایک بار خالہ بتول کے گھر ضرور چکر لگا لیا کرو اور وہ جو کام وہ کہیں ، کر دیا کرو۔ اس بہانے وہ روز ان کے گھر آتا۔ تب ماں سعدیہ کو کہتی۔ بیٹی ! سعود کو کھانا دو۔ وہ انکار کرتا مگر پھر کھانے بیٹھ جاتا اور ساتھ ساتھ خالہ سے باتیں کرنے لگتا۔ باتوں باتوں میں وہ ضرور ایسی بات بھی کر جاتا، جس سے سعد یہ چڑتی تھی۔ خالہ جان ! سعدی کو اب آپ پڑھنے سے اٹھا لیں۔ اب یہ بڑی ہو گئی ہے ، اسے گھر سے باہر نہ بھیجا کریں۔ارے بیٹا، اسے پڑھنے کا بڑا شوق ہے ، روکوں گی تو بھی نہیں مانے گی۔ خالہ بتول روز ہی ایک سا جواب دیتیں اور سعدیہ غصہ میں کہتی۔ سعود ! تم کو میری پڑھائی سے حسد کیوں ہے ؟ تم یہی چاہتے ہو کہ میں جاہل رہ جاؤں؟ ہاں، تو تم نے ایم اے پاس کر کے بینک میں نوکری کرنی ہے کیا ؟ ہاں کرنی ہے نوکری۔ تم بن جاؤ بینک آفیسر ، تب میں نہیں کروں گی نوکری۔ اس پر وہ جاتے جاتے آہستہ سے کہتا۔ تم نے بینک کی نہیں، میری نوکری کرنی ہے ، شادی کے بعد۔ یہ کہہ کر وہ ہنستا ہوا دروازے سے باہر نکل جاتا۔ جانے کون سی گھڑی کیسی ہوتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ منہ سے بری بات نہیں نکالنی چاہیے۔ سعد یہ نے بھی نجانے کیسی گھڑی منہ سے یہ بات نکالی تھی کہ ہاں کرنی ہے بینک میں نوکری۔ گریجویشن کرتے ہی یہ بات پوری ہو گئی۔ اس کے والد اور بھائی سعودیہ میں اس وقت ایک ساتھ جان بحق ہو گئے جب وہ ایک تعمیراتی پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے حرم شریف میں ایک کرین کے نیچے کھڑے تھے۔ وہاں حادثہ ہو گیا، جس کی زد میں اور بھی کچھ لوگ آئے تھے۔ یہ خبر بجلی بن کر ماں بیٹی پر گری۔ ایک تو والد اور بھائی کی ایک ساتھ وفات کا غم ، پھر وہ رقم بھی بند ہو گئی جو وہ ہر ماہ بھجواتے تھے۔
اس کی دو چھوٹی بہنیں اسکول میں زیر تعلیم تھیں اور بھائی ابھی چھوٹا تھا۔ یوں سارے کنبے کا بوجھ سعد یہ پر آپڑا۔ کہاں تو ماں، بیٹی کے جہیز کے جوڑے ٹانکنے کی فکر میں تھی اور کہاں اب ہر وقت اخبار آگے کر کے کہتی۔ بیٹی ذرا ان اشتہاروں میں دیکھ ، شاید کہیں نوکری نکلی ہو۔ تو درخواست دے دے۔ کیا خبر ملازمت مل جائے۔ اماں صرف درخواستیں دینے سے نوکری نہیں ملتی ، اس کے لئے سفارش چاہیے ہوتی ہے۔ اچھا، پھر بھی تو درخواست دے دے ۔ مجھ کو تیرے بیاہ کی اتنی جلدی نہیں ہے۔ ادھر سعود بر سر روز گار ہو چکا تھا۔ اس کی ماں بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ خوبی قسمت اسے نوکری بھی اس کے مطلب کی ملی اور وہ بینک میں آفیسر لگ گیا۔ اس کے ایک دوست کا باپ بینک میں بڑے عہدے پر فائز تھا لہٰذا اس کو زیادہ بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑی تھی، لیکن سعدیہ کو تو اب بھاگ دوڑ ہی کرنا تھی۔ ایک روز اس نے حجاب ایک طرف کر کے کہہ ہی دیا۔ سعود ! تم ہی کہیں کوشش کرو۔ امی جان چاہتی ہیں کہ میں کچھ عرصہ نوکری کر لوں تاکہ وہ ہمارے بیاہ کے لئے کچھ رقم اکٹھی کر سکیں۔ سعود جانتا تھا کہ بیاہ کا تو بہانہ ہے ،اصل تو مالی مجبوری ہے۔ وہ تو اس گھر کے ہر راز سے واقف تھا۔ بہر حال اس نے اپنے آفیسر سے کہا۔ انہی دنوں کچھ آسامیاں نکلیں اور اس کی کوشش سے سعدیہ کو بھی اسی بینک میں ملازمت مل گئی جہاں وہ خود کام کر رہا تھا۔ وہ خوش تھی کہ ان کا ساتھ جڑا ہوا تھا۔ دونوں ایک ہی برانچ میں کام کر رہے تھے۔ بتول خالہ کے گھر کے مالی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سعود نے شادی کا تقاضہ چھوڑ دیا تھا۔ چڑھتے دریاؤں پر بند باندھنا کتنا مشکل ہوتا ہے ، یہ کوئی ملاح ہی بتا سکتا ہے۔ سعدیہ نے اپنے کنبے کو مالی سپورٹ دینے کی خاطر اور سعود نے اس کی خاطر عمر کا کافی حصہ اس آس میں نکال دیا کہ مسائل پر قابو پالیں گے تو ایک ہو جانے کے بارے میں سوچیں گے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ مسائل تو جھاڑ کے کانٹوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ کم نہیں ہوا کرتے ۔ آدمی ساری عمر بس سوچتا رہ جاتا ہے۔ ایک طرح کے مسئلے ختم ہو جائیں تو کوئی اور مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ بس اسی کا نام زندگی ہے۔ ایسا ہی ان پیار کرنے والوں کے ساتھ ہوا۔ سعد یہ کی چھوٹی بہن نے میٹرک کر لیا تو ملازمت کرنے یا آگے تعلیم جاری رکھنے کی بجائے محلے کے لڑکے سے دل لگالیا۔ شکر ہوا کہ لڑکے کے ماں باپ شریف لوگ تھے۔ جونہی ان کو پتا چلا، وہ لڑکی کے گھر رشتہ لینے آگئے۔ وہ خالہ بتول کے دکھ درد سے واقف تھے۔ ان کو مزید دکھوں سے بچانا چاہتے تھے جبکہ لڑکا ابھی شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پھنسنا چاہتا تھا، لیکن ماں باپ نے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے ان کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ یوں ایک بڑا بوجھ سر سے اتر گیا ۔ سعدیہ اور اس کی ماں نے سکھ کا سانس لیا۔ راشدہ سے چھوٹی ملکہ ابھی آٹھویں میں تھی۔ ماں کا خیال تھا کہ یہ لڑکی سنجیدہ اور ہمدرد دل والی ہے۔ میٹرک کرلے تو اس کو ٹیچر ٹریننگ کا کورس کرادیں گے۔ یہ کسی اسکول میں استانی لگ جائے گی تو سعدیہ کی شادی کر دوں گی۔ تب تک چھوٹا بیٹا طفیل بھی بڑا ہو جائے گا تو سعود سے سفارش کروا کر اس کی نوکری لگوالیں گے ۔ بھولی خالہ بتول یہ نہیں جانتی تھیں کہ زمانہ کتنا آگے نکل گیا ہے۔ اب میٹرک پاس کے لئے نوکری ایک سعی لاحاصل ہے۔ خیر ، مائیں بیچاریاں تو کیا نہیں سوچتیں، وہ سعدیہ سے بھی کہتیں۔ بیٹی ! تو نے بڑی قربانی دی ہے ، بس اب منزل قریب ہے۔ طفیل کی نوکری ہوتے ہی تو ہمارے گھر کے بکھیڑوں سے آزاد ہو جائے گی اور میں تجھ کو تیرے گھر کا کر دوں گی۔
سعدیہ کی چھوٹی بہن ملکہ تو سب سے تیز نکلی۔ دو سال آٹھویں جماعت میں فیل ہوتی رہی، اس کے بعد اس نے وہی چال چلن اختیار کیا، جو راشدہ نے کیا تھا، مگر یہ تیر نشانے پر نہ بیٹھ سکا۔ لڑکا دھوکا دے کر غائب ہو گیا اور ملکہ پڑھائی چھوڑ سوگواریاں منانے بیٹھ گئی۔ اس طرح سعدیہ کی عمر کے تین سنہرے سال اور آگے کی طرف کھسک گئے۔ ادھر سعود کے والدین اور خود سعود بھی سعد یہ اور اس کی ماں کی لمبی پلانگ سے تھک گئے تھے۔ اب سعود کا رویہ پہلے جیسا نہ رہا تھا۔اس کا آنا جانا خالہ بتول کے گھر کم ہوتے ہوتے ترک تعلق تک آ گیا تھا۔ وہ اب اپنا زیادہ وقت نجانے کہاں گزار نے لگا تھا۔ سعدیہ اس سے پوچھتی تو وہ ادھر ادھر کی بات کر دیا کرتا۔ پہلے دونوں ساتھ آفس آتے جاتے تھے ، اب وہ علیحدہ آنے جانے لگا۔ تب سعدیہ نے بھی گوارا نہ کیا کہ اصرار کر کے اس کے ساتھ جائے۔ اس کی غیرت نے گوارا ہی نہ کیا کیونکہ سعود کی اعلیٰ عہدے پر ترقی ہو چکی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اسٹاف اس بات کو معیوب خیال کرتا ہے کہ اس کے ماتحت اس کے ہمراہ آنا جانا کریں۔ اس طرح لوگوں کی نظروں میں تمہاری عزت کی گھٹتی جائے گی۔ سعدیہ نے بھی سوچا کہ بات تو ٹھیک ہے۔ انتظار تو میں نے ہی اتنا زیادہ کروایا ہے۔ وہ میری خاطر اپنی خوشیوں سے دور رہا، پھر بھی ابھی تک شادی سے انکار نہیں کیا۔ آٹھ سال کی طویل مدت گزر چکی تھی، سعود کا تبادلہ دوسری برانچ میں ہو گیا تھا۔ سعدیہ کے سر میں کہیں کہیں سفید بال آنے لگے تھے۔ طفیل نے گریجویشن مکمل کر لیا تو سعود نے اس کی ملازمت لگوادی۔ خالہ بتول کی کمر اب جھکنے کو آرہی تھی۔ وقت دبے پاؤں مگر بے آواز گزرتا گیا۔ بالآخر ملکہ کی بھی شادی ہو گئی۔ تمام فرائض ادا ہو چکے تھے ،اب سعد یہ ہی ماں کے ساتھ گھر میں باقی رہ گئی۔ اب وہ ہر وقت سنجیدگی سے اپنے بارے میں سوچتی تھی۔ ادھر سعود اعلیٰ عہدے پر پہنچ کر اس قدر مصروف ہو گیا کہ وہ ہفتوں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ترسنے لگی۔ بالآخر وہی اس سے ملنے کو جانے لگی اور تقاضا کرنے لگی کہ اب ہمیں شادی کر لینی چاہیے۔ وہ سمجھتی تھی، سعود اس بات پر خوش ہو گا کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ وہ وقت آہی گیا جس کا اسے بے قراری سے انتظار تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جونہی میں اسے شادی کا کہوں گی ، وہ فوراً تاریخ کی بات کرے گا مگر سعد یہ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا، جب اس نے بے قراری دکھانے کی بجائے، بے نیازی اور سرد مہری سے کام لیا۔ سعدیہ کو لگا کہ وہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو۔ وجہ پوچھی تو بالآخر اس نے کہا کہ پہلے تمہارے حالات ٹھیک نہ تھے اور اب میرے حالات ٹھیک نہیں رہے ہیں۔ ابا جان کو کاروبار میں نقصان ہو گیا ہے ، میری ساری تنخواہ گھر میں خرچ ہو جاتی ہے۔ کچھ دن گزر جانے دو، میں اتنی رقم اکٹھی کرلوں کہ ہماری شادی دھوم دھام سے ہو ، تبھی اس مسئلے کو چھیڑیں گے۔ اس دوران وہ سعدیہ سے ملنے لگا تھا لیکن اصل بات نہ بتاتا تھا کہ اس نے چھپ کر شادی کر رکھی ہے ، جس سے اس کے گھر والے بھی واقف نہ تھے۔ وہ آفس سے سیدھا سسرال چلا جاتا۔ رات گیارہ بارہ بجے تک بیوی کے پاس رہتا، پھر گھر آجاتا۔ ماں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ ایک جگہ پارٹ ٹائم جاب کر رہا ہے۔
ادھر خالہ بتول نے بھی سعود کے گھر والوں سے شادی کا تقاضا شروع کر دیا۔ جب گھر والوں کی طرف سے دباؤ بڑھا تو سعود نے سعدیہ سے کہا۔ سعدی بات یہ ہے کہ مجھے باہر جانے کا چانس مل رہا ہے لیکن اس کے لئے کچھ رقم درکار ہے ، تبھی میں پارٹ ٹائم جاب کر رہا ہوں۔ اگر تم میری مدد کر دو تو میں جلد کورس مکمل کر کے واپس آجاؤں گا اور تم کو دلہن بنا کر ساتھ لے جاؤں گا۔ سعدیہ کو تو اس پر اندھا اعتماد تھا، وہ بولی۔ تمہیں کتنی رقم چاہیے۔ پانچ لاکھ۔ تب پانچ لاکھ ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ وہ شش و پنج میں پڑ گئی۔ کچھ سوچنے کے بعد وہ بولی۔ طفیل نوکری پر لگ گیا ہے اگر میں اپنی تنخواہ جمع کرتی رہوں تو چار سال میں اتنی رقم جمع ہو جائے گی۔ کیا تم اس وقت تک انتظار کر سکتے ہو ؟ نہیں، کیونکہ میں تو چانس کا انتظار کر سکتا ہوں مگر چانس میرا انتظار نہیں کر سکتا۔ میرے پاس صرف چھ ماہ کا وقت ہے ، پھر فیس جمع کرانا ہو گی۔ بیرون ملک جانے کے لئے بینک بیلنس بھی شو کرنا ہوتا ہے ، اس کا بھی انتظام رکھنا ہو گا۔ میں پہلے ہی لون لے چکا ہوں، تبھی تنخواہ سے رقم کٹ جاتی ہے۔ دوبارہ لون نہیں لے سکتا کیونکہ بیرون ملک جاکر اگر مواقع اچھے دیکھے تو نوکری سے استعفیٰ بھی دے دوں گا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم بینک سے کچھ لون لے لو۔ میں بعد میں لوٹا دوں گا۔ ٹھیک ہے سعدیہ نے کہا تم جس حد تک لون دلوا سکتے ہو دلوا دو باقی جو میری جمع پونجی ہے وہ سب لے لو- میری سال بھر کی تنخواہ بھی ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ اتنی رقم اکٹھی ہو جائے گی کہ تمہارا مسئلہ حل ہو جائے۔ سال بھر سعد یہ نے محنت کی ، پائی پائی جوڑ کر اور کچھ بہنوئی سے قرض لے کر پانچ لاکھ سعود کو دے دیئے۔ وہ بہت حیران ہوا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ پانچ لاکھ کا سن کر سعد یہ خاموش ہو جائے گی۔ بہرحال رقم لے کر وہ کچھ دنوں کے لئے غائب ہو گیا۔ دراصل وہ بینک کی جانب سے بینک ہی کے خرچے پر دو ماہ کے لئے ٹریننگ پر گیا تھا۔ جب لوٹا تو دوسرے شہر تبادلہ کروا لیا اور بیوی بچوں کو لے کر وہاں سے چلا گیا، جبکہ سعدیہ سمجھتی رہی کہ وہ بیرون ملک میں ہے۔ افسوس کہ سعود نے اسے جھوٹا آسرا دیا تھا، جبکہ اس نے اپنی تمام جمع پونجی اس کے قدموں میں رکھ دی تھی۔ اسے ایک سال بعد سعود کے گھر والوں سے پتا چلا کہ وہ بیرون ملک سے آگیا ہے۔ اب دوسرے شہر میں ہے اور بہت کم گھر میں آتا ہے۔ سعدیہ کی قربانی رائیگاں گئی۔ قرض اتارنے کی خاطر اسے زندگی کی معمولی آسائشوں کو بھی اپنے اوپر حرام کرنا پڑا۔ زندگی کی گاڑی آہستہ آہستہ آگے کو کھسکتی رہی۔ یونہی پائی پائی جوڑتے قرض بھی اتر گیا، لیکن اس کے بعد سعد یہ کو رقم جمع کرنے کی ایسی عادت پڑ گئی کہ وہ کوڑی کوڑی اور دھیلہ دھیلہ جوڑتی رہتی تھی۔ کپڑے پرانے ہوں یا بدرنگ ، اسے پروا نہ ہوتی۔ سینڈل گھس جاتے ، جوتی ٹوٹ جاتی، وہ موچی سے ٹانکے لگوا کر پھر سے پہن لیتی۔ سہیلیاں اس کی حالت دیکھتیں تو ان کو افسوس ہوتا۔ وہ زبردستی نئی جوتی لا کر پہنا دیتیں۔ گھر میں سالن پکا ہوتا، اگر بھابھی کا موڈ دینے کا نہ ہوتا تو سعد یہ چٹنی سے روٹی کھا لیتی اور کبھی بھوکی سو جاتی، مگر اپنے لئے کچھ خرید کر نہ کھاتی۔ برسوں فروٹ نہ لئے ۔ آفس بھی بس میں جاتی ، حالانکہ اب تنخواہ اتنی تھی کہ سہولت سے گاڑی خرید سکتی تھی ، ڈرائیور رکھ سکتی تھی۔ وہ اب آفیسر بن چکی تھی۔ ماں سمجھاتی کہ کیوں اپنے پر خرچ نہیں کرتی ہو؟ کس کے لئے رقم جوڑتی رہتی ہو۔ یہ روپے اگر آج تمہارے کام نہ آئے تو کل کس کے کام آئیں گے ؟ تم نے عمر بھر محنت کی ہے۔ اب اچھی زندگی گزارنے کا وقت آیا ہے تو اتنی کفایت شعار ہو گئی ہو کہ بخیلوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ماں کے بار بار کہنے پر بالآخر ایک دن اس نے دل کی بات بتائی، بولی۔ ماں ! میں نہ پاگل ہوں اور نہ بخیل اور کنجوس۔ دفتر میں میرا سادہ حلیہ دیکھ کر کولیگ ہنستے ہیں، مگر مجھے پروا نہیں ہے۔ مجھے تو بس بہت سے روپے جمع کرنا ہیں کیونکہ مجھے بیرون ملک سعود کے پاس جانا ہو گا۔ ایسانہ ہو کہ وقت پر رقم کم پڑجائے۔
جب خالہ بتول نے یہ سنا تو ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ نکلے ، کیونکہ ان کو تو خبر تھی کہ جس کا وہ انتظار کر رہی ہے اس نے تو کبھی ان کی بیٹی کو بیاہنے کو آنا ہی نہیں ہے۔ وہ اپنا گھر بسا چکا تھا، بال بچوں والا ہو چکا تھا اور اپنے والدین کو بھی لے جا چکا تھا۔ ان کا مکان بک گیا تھا۔ کئی بار ماں سعدیہ کو یہ سب بتا چکی تھی مگر اسے یہی لگتا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ وہ اب بھی سعود کا انتظار کر رہی تھی۔ کہتی تھی کہ سب لوگ اسے بد دل کرنے کو ایسا کہتے ہیں۔ سعود ایسا نہیں ہے ، وہ کبھی اسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ انسان بھی بعض اوقات کس قدر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ خود فریبی کے سہارے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اپنے دکھ ، اپنے خوابوں میں چھپا لیتا ہے کیونکہ اگر یہ خواب بھی کھو جائیں تو … باقی کیا رہ جاتا ہے۔