میرے دو چھوٹے بھائی تھے لیکن والدین ان سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔ وہ مجھے ہر صورت زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ بابا جان تعلیم کے معاملے میں روشن خیال واقع ہوئے تھے۔ کہتے تھے کہ مہرین کو بہت پڑھائوں گا تا کہ میری بیٹی حوادث زمانہ کا مقابلہ کر سکے لیکن میں شروع دن سے پڑھائی سے جی چراتی تھی۔ تعلیم کو ایک مشغلہ سمجھتی اور اسکول محض سہیلیوں کے ساتھ وقت گزار نے جاتی تھی۔ میری تعلیمی حالت قابل رحم تھی لیکن استانیاں میرے والد کا لحاظ کرتے ہوئے مجھے کچھ نہیں کہتی تھیں، بڑی مشکل سے میں نے میٹرک کیا۔ باباجان کالج میں داخلہ دلوانا چاہتے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ خوش تھی کہ اب پڑھائی سے جان چھوٹی، صبح سویرے بیدار ہونے سے جو الجھن ہوتی تھی ،نہ رہی۔ اب اپنی مرضی سے اٹھتی ، اپنی مرضی سے سوتی۔ بھائی اسکول چلے جاتے تو گھر اکیلے بیٹھ رہنے سے بوریت ہوتی، جی چاہتا کسی سے باتیں کروں، کوئی ہمارے گھر آئے یا میں کسی کے غیر آئوں جائوں لیکن والدہ کسی کے گھر جانے نہیں دیتی تھیں، میں کھڑکیوں سے تانکا جھانکی کر کے دل بہلا لیا کرتی تھی۔ ہم ایک عام سے محلے میں رہتے تھے۔ سامنے چوہدری دین محمد کا مکان تھا۔ مکان کیا تھا ایک بہت بڑا آراستہ و پیراستہ بنگلہ تھا۔ یہ زمیندار تھے۔ دیہات میں بھی شاندار حویلی تھی۔ وہ کبھی دیہات میں رہتے اور کبھی شہر میں۔ ان کے بچوں کو شہر میں رہنا پسند تھا، سو ان لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہمارے مکان کی چھت پر ایک کمرا تھا جس کی کھڑکی ان کے گھر کی بالائی منزل پر بنے ہوئے اس کمرے کے عین سامنے کھلتی تھی، جس میں چوہدری صاحب کا جواں سال بیٹا مہر حیات رہتا تھا۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے عین سامنے میز کرسی رکھے پڑھتا رہتا تھا۔ جب میں چوبارے سے جھانکتی، اس کی نظریں میری جانب اٹھ جاتیں۔ میں اُس کو دیکھ کر برا سا منہ بنالیتی حالانکہ وہ خو بصورت تھا مگر میں خود کو جانے کیا سمجھتی تھی ، مجھے اپنی صورت پر ناز تھا کہ میں بھی توخو بصورت تھی۔ ان کی ملازمہ کا نام شادو تھا۔ ایک روز وہ ہمارے گھر آئی تو میں نے اس سے کہا کہ اپنے چھوٹے صاحب سے کہو کہ وہ اپنی میز کرسی کھڑکی کے سامنے سے ہٹالیں۔ جب بھی میں کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوں سامنے بیٹھا، مجھے برا لگتا ہے۔ اگلے روز شادو آئی، کہنے لگی۔ بی بی ! صاحب نے کہا ہے کہ میں اپنے گھر میں جہاں بیٹھوں اور جہاں مرضی کرسی ڈالوں۔ اگر اس لڑکی کو اتنی تکلیف ہے تو مت دیکھا کرے کھڑکی سے، لڑکیوں کا تاک جھانک کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ اس جواب سے گویا میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ قلم کاغذ اٹھایا اور اسے مغرور ، بدلحاظ پڑوسی اور جانے کیا کچھ لکھ کر پر چہ شادو کے ہاتھ میں پکڑا کر کہا کہ اسے دے دو۔ مجھے امید ہے کہ اگر شرم والا ہوا تو اپنی کھٹرکی بند رکھے گا۔ وہ واقعی شرم والا نکلا، اس نے اپنی کھڑ کی بند کر لی جو اس کی ٹیبل کے سامنے تھی۔ ایک دو دن تو مجھے کو اپنی فتح کا احساس ہوا لیکن اس کے بعد زندگی کچھ بے رنگ محسوس ہونے لگی۔ اب کھڑکی سے جھانکنے میں مزہ نہیں آتا تھا۔ میں اداس رہنے لگی۔ تاک جھانک میں بھی دل نہ لگا۔ اب یقین ہو گیا کہ میں دراصل اسی کی خاطر چوبارے پر آتی تھی۔ اس بار شادو آئی تو میں نے ایک معذرت نامہ لکھا کہ آپ تو واقعی بہت اچھے اور لحاظ والے پڑوسی ہیں، غلطی میری ہی ہے ، آپ کا گھر ہے۔ آپ کا جہاں جی چاہے بیٹھیں ۔ بے شک کھڑ کی کھول کر پڑھیے۔ آپ کی کھڑ کی مسلسل بند دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ جب کسی لڑکے کو پتا چل جائے کہ کوئی لڑکی اس کی خاطر چو بارے پر آکے جھانکتی ہے تو وہ کب آرام سے رہ سکتا ہے ، سو اگلے ہی روز مہر حیات نے کھڑ کی کھول دی۔ اس کی کھڑ کی کھلی دیکھ کر میری روح کا جس ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ان کے گھر کی ملازمہ ہمارے گھر کبھی کچھ ، کبھی کچھ لے کر آنے لگی۔ میری سیدھی سادی ماں کو کیا خبر کہ اچانک چوہدری صاحب کے گھر والے کیوں ہم پر مہربان ہو گئے ہیں۔ وہ یہی سمجھتی تھیں کہ صاحب حیثیت گھرانہ ہے، لہذا حق ہمسائیگی ادا کرنے کے لئے کبھی پلائو کی ٹرے اور کبھی حلوے کی ڈش آجاتی ہے۔ جواب میں امی بھی کچھ نہ کچھ بھجوا دیتیں لیکن شادو جانتی تھی کہ یہ عنائتیں چوہدری صاحب کے گھر سے کون کرتا ہے ، وہ جب پکوان کی سینی امی کو دیتی ، میری ماں برتن خالی کرنے باورچی خانے چلی جاتیں تبھی وہ مجھ کو مٹھی میں پرچہ پکڑا دیتی۔ امی کو معلوم تھا کہ چوہدری صاحب کے گھر کی خواتین محلے میں کہیں نہیں جاتیں، لہذا وہ بھی ان کے گھر نہیں جاتی تھیں۔ اکثر مہر حیات کے گھر والے گائوں چلے جاتے ، صرف حیات گھر پر رہ جاتا کیونکہ وہ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ میں نے بھی انہی دنوں کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال گھر بیٹھنے کے بعد بوریت اتنی ہو گئی کہ خیال آیا کالج میں داخلہ لے لوں گی تو گھر سے باہر نکلنے کا کوئی بہانہ ہاتھ آجائے گا، میں کسی صورت لوگوں میں جانا چاہتی تھی۔ ان سے گپ شپ، بات چیت کرنا چاہتی تھی، یہ تبھی ممکن تھا جب کالج کے لئے گھر سے نکالتی۔ حیات کو علم تھا کہ میں نے پڑھائی شروع کر دی ہے ، اسے میرے کالج کا بھی پتا تھا۔ پس جو داستان کھڑکی سے شروع ہوئی وہ اب ریسٹورنٹ اور پارکوں تک جا پہنچی۔ انہی دنوں حیات کے گھر والے گائوں چلے گئے۔ ان کے بڑے سے گھر میں ادھیڑ عمر ملازمہ شادو اور ایک نوکر کے ساتھ ، وہ اکیلا رہ رہا تھا۔ یہ نوکر شادو کارشتہ دار تھا۔ حیات کا والد ایک امیر آدمی تھا۔ اسے روپے پیسے کی پروا نہ تھی۔ اس نے کئی بار مجھے قیمتی تحفے دیئے جن کو میں امی سے چھپا کر رکھتی تھی۔ میرے والدین تو اس قدر سید ھے تھے کہ وہ صرف مجھ کو ہر حال خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ کبھی انہوں نے نہیں پوچھا کہ کالج کیا کرنے جاتی ہو ؟ پڑھتی بھی ہو یا نہیں۔ انہیں کوئی علم نہ تھا کہ ان کی لاڈلی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ حیات کا گھر خالی رہتا تھا۔ وہ نوکر کو کسی بہانے باہر بھیج دیتا، شادو کھانا پکاتی رہتی اور ہم دونوں تنہائی میں گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ میں ان کے گھر کے عقبی دروازے سے جاتی تھی تبھی کسی کو علم نہیں ہو سکا کہ میں حیات سے ملتی ہوں۔ انٹر میڈیٹ کے بعد حیات نے پڑھائی چھوڑ دی۔ میں بھی کالج کہاں جاتی تھی، گھر سے نکلتی تو عقبی گلی سے حیات کے گھر چلی جاتی۔ گھر اتنا بڑا تھا کہ اچانک کوئی آجانا تو پتا بھی نہ چلتا کہ کوئی دوسرا مکان میں موجود ہے۔ آخر والدین کو سن گن ہو گئی۔ عام حالات میں وہ کب میری شادی حیات سے کرنے پر راضی ہوتے، لیکن شادو نے میری ماں کو سمجھایا اور با خبر کر دیا کہ اب مزید غفلت آپ کی بدنامی ہی نہیں، ہر بادی کا باعث ہو گی۔ شادو کے باخبر کرنے اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنی عزت کی خاطر ان کو صبر کا گھونٹ بھرنا پڑا۔ حیات کے والدین راضی نہ ہوئے ، ہم نے کورٹ میرج کر لی۔ شادی کی اطلاع چند ماہ بعد چوہدری صاحب اور ان کے گھر والوں کو ہوئی تو وہاں صف ماتم بچھ گئی۔ دیہات والوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بے بس ہو گئے کیونکہ حیات نے دلیرانہ قدم اٹھالیا تھا۔ وہ لوگ اس وقت تک گھر نہیں لوٹے جب تک میں نے بیٹی کو جنم نہیں دے لیا۔ جب علم ہوا کہ میں ایک بیٹی کی ماں بن گئی ہوں تو وہ لوگ آگئے اور انہوں نے مجھے میری ماں کے گھر بھیج دیا اور حیات پر دبائو ڈالنے لگے کہ وہ مجھے طلاق دے دے ورنہ اس کو جائیداد سے عاق کر کے گھر سے نکال دیا جائے گا۔ حیات کی عمر بائیس سال تھی۔ وہ ابھی کمانے کے لائق بھی نہیں تھا۔ والدین کے آگے نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ وہ ایک کم تعلیم یافتہ اور اخراجات کے معاملے میں محتاج شخص تھا۔ اس کے پاس رہنے کا ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ وہ بیوی اور بیٹی کی کفالت نہیں کر سکتا تھا۔ یہ جو عیش تھا وہ اس کے والدین کا مرہون منت تھا۔ اس کے والد نے اس پر اتنا دبائو ڈالا کہ اسے مجھ کو طلاق دیتے ہی بنی۔ میرے والدین بھی مجھ سے خفا تھے لیکن وہ مجھ کو دکھ میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آخر والدین کے گھر نے ہی مجھے پناہ دی۔ چوہدری صاحب بیٹے کو گائوں لے گئے اور اس کی شادی اپنی بھتیجی سے کر دی اور دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے۔ میں تین سال والدین کے ساتھ رہی، پھر والدین نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر میری شادی عاصم سے کرا دی۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں معمولی آفیسر تھے۔ امی نے میری بچی کو اپنے پاس رکھ لیا۔ میں دوسری شادی پر آمادہ نہ تھی مگر ماں باپ کے اصرار سے مجبور ہو گئی، آخر زندگی تو گزارنی تھی، جس کے لئے ایک جائز سہارا لازمی تھا۔ عاصم اچھے انسان نکلے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے، مجھ سے محبت کرتے تھے۔ کسی قسم کی انہوں نے مجھے تکلیف نہیں دی۔ میرے پاس ضرورت کی ہر چیز تھی۔ جب بھی بچی کی یاد ستانی، عاصم امی کے گھر جا کر اسے لے آتے۔ وہ امی سے ہلی ہوئی تھی۔ دو چار دن ہمارے پاس بمشکل رہتی اور واپس جانے کی ضد شروع کر دیتی تو عاصم اسے پہنچانے جاتے۔ یو نہی وقت گزرتارہا، یہاں تک کہ میں عاصم کے دو بچوں کی ماں بن گئی۔ بچوں کی وجہ سے عاصم کو بھی دل نے قبول کر لیا، ان کے گھر کو میں نے اپنا گھر تسلیم کر لیا اور یہی گھر اب میرے لئے جنت کا گہوارہ بن گیا۔ بیٹی فریحہ کی کمی ضرور محسوس ہوتی کیونکہ وہ کبھی امی کے پاس اور کبھی میرے پاس ہوتی تھی۔ اب وہ بڑی ہو گئی تھی، اسکول جاتی تھی۔ اسے علم تھا کہ عاصم اس کا سوتیلا باپ ہے۔ اس بات سے وہ کچھ اپ سیٹ رہتی تھی تاہم عاصم دل کے اچھے تھے۔ وہ فریحہ اور اپنے بچوں میں فرق محسوس نہیں کرتے تھے۔ کافی عرصہ تک مجھے حیات کے بارے علم نہ ہو سکا اور نہ ہی والدین نے کبھی کچھ بتایا۔ حیات نے تعلیم مکمل کی اور آفیسر لگ گیا۔ اتفاق کہ اس کا تبادلہ اسی جگہ ہوا جہاں ہم رہتے تھے۔ ایک دن کسی نے اسے بتایا کہ تمہاری بچی فریحہ بڑی ہو گئی ہے اور فلاں اسکول میں پڑھتی ہے۔ اسے بچی کی محبت نے کھینچا۔ امی اسے لینے اسکول گئی ہوئی تھیں۔ امی کو اس نے سلام کیا اور بچی کی خیریت پوچھنے لگا تو انہوں نے اخلاقاً جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ وہ اسکول میں حیات کو دھتکار نہیں سکتی تھیں کہ ان کی نواسی کا باپ تھا۔ حیات کی ہمت بڑھی، اس نے بیٹی کو پیار کیا اور کہا کہ مجھ سے مت ڈرو، میں تمہارا باپ ہوں۔ قدرتی طور پر بچی باپ کی طرف مائل ہونے لگی۔ اس کے بعد حیات فریحہ کو دیکھنے ، اکثر اسکول جانے لگا۔ اس پر امی نے کہا کہ تم بچی سے اسکول کے گیٹ پر مت ملا کرو – اسکول کے دیگر بچے میری نواسی سے مختلف قسم کے سوالات کریں گے۔ بہتر ہے کہ تم اس کو گھر آکر مل لیا کرو۔ حیات کو تو بہانہ چاہئے تھا۔ وہ ہر پندرہ روز بعد آدھ گھنٹہ امی کے گھر فریحہ کے ساتھ گزارنے لگا۔ وہ اس کو اپنے ساتھ باہر لے جانا چاہتا تھا لیکن امی نے اس کی اجازت نہ دی۔ والد صاحب تو نواسی کے رشتے سے مجبور تھے لیکن میرے بھائیوں کو اس کا آنا نا گوار گزرتا تھا۔ میں اپنے خاوند کے ساتھ ، ان دنوں لاہور میں رہتی تھی، اس لئے کچھ عرصے تک مجھے اس بات کا علم نہ ہو سکا۔ ایک دن جب فریحہ میرے گھر آئی تو اس نے بتایا کہ اس کا والد اس سے ملاقات کے لئے آتا ہے۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ منع کروں پھر خیال آیا کہ حیات صاحب جائیداد ہے ، دولت مند آدمی ہے۔ کیوں نہ میں بیٹی کو باپ سے ملنے دوں۔ کم از کم اس طرح میری بچی کو اپنے باپ سے جائیداد کا حصہ تو مل سکے گا۔ میرے دل میں یہی لالچ آگیا اور میں خاموشی رہی۔ ایک دن جب امی کے گھر گئی ہوئی تھی ، حیات بھی فریحہ سے ملنے آگیا۔ وہ اپنی بیٹی کے لئے کپڑے اور کچھ تحفے لایا تھا۔ میرے والدین خاموش تھے کہ یہ بچی کا باپ ہے، بچی پر اس کا اور اس پر بچی کا حق ہے۔ اگر ہم نے اس کو اپنے گھر پر اس کی بیٹی سے ملنے کو روکا تو یہ کہیں اسے لے ہی نہ جائے۔ امی کے گھر میرا حیات سے اتفاقاً سامنا ہو گیا تو میں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ پہلے سے زیادہ اسمارٹ اور حسین ہو گیا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں بھی اُداس ہو گئی۔ ماضی کی یادوں نے ہم دونوں کو گھیر لیا۔ مدت بعد ایک دوسرے کو دیکھ کر وہ چنگاری پھر سے سلگ اٹھی جو برسوں پہلے دب گئی تھی۔ اب اس نے مجھ سے اپنی بیٹی کے ذریعے رابطہ کر لیا۔ پہلے فون کیا پھر ملنے کو اصرار کرنے لگا۔ میں اپنے پُر سکون حال کو بھول کر پھر سے کھوئے ہوئے ماضی کی تلاش میں سر گرداں ہو گئی۔ یہ میری بہت بڑی بھول تھی لیکن انسان تو ہے خطا کا پتلا۔ غرض ہماری بھولی ہوئی کہانی میں پھر سے جان پڑ گئی۔ ہم پھر سے ایک دوسرے کے لئے بے تاب رہنے لگے حالانکہ میں عاصم کے دو بچوں کی ماں بن چکی تھی اور وہ بھی اپنی خاندان میں دو بچوں کا باپ بن چکا تھا، لیکن ہم محبت کی گم ہو چکی راہوں پر بھٹکنے لگے۔ ہم نے پھر سے سارے رشتے ، سارے اخلاقی تقاضے اور اصول بھلادیئے۔ میں اپنا جنت جیسا گھر ، سیدھا سادہ محبت کرنے والا شوہر بھلا کر پھر سے حیات کی دیوانگی میں سیدھی راہ سے گم کردہ راہی ہو گئی۔ میرے والدین کو علم نہ تھا کہ ہم دوبارہ ملنے لگے ہیں۔ اب میں اپنی مرضی کی مالک بن چکی تھی۔ دن رات اپنے شوہر سے لڑتی۔ بات بات پر الجھتی ، عاصم جو کام کہتے، الٹ کرتی۔ وہ حیران تھے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ وہ جتنا مجھے مناتے، میں اتنا ان سے الجھتی ، ان کو ستاتی ، آئے دن لڑ جھگڑ کر ماں کے گھر چلی جاتی ، یہاں آکر حیات کو سب سے چوری چھپے فون کرتی اور ملنے چلی جاتی۔ اب ہم پھر سے ایک ہونے کے منصوبے بنانے لگے۔ عاصم کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میں ایسا کر سکتی ہوں۔ وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ میں دوبارہ اپنے سابق شوہر کی محبت میں مبتلا ہو جائوں گی کہ جس نے مجھے طلاق بنا قصور دے دی تھی، اور اپنا ہنستا بستا گھر اجاڑ دوں گی۔ ان دنوں مجھ پر جنون سوار ہو گیا تھا۔ لگتا تھا کہ میں نے کبھی اپنے سابق شوہر کی محبت کو بھلایا ہی نہیں تھا۔ وہ محبت جس کو زمانے نے زبردستی چھین لیا تھا، کچھ دنوں کے لئے حالات کی شدت میں ڈوب کر سو گئی تھی مگر مری نہیں تھی ، تبھی تو میں آج ایک بار پھر سب کچھ برباد کر کے دوبارہ اس شخص کی ہو جانا چاہتی تھی۔ ہر قیمت پر اپنے کھوئے ہوئے ماضی کو زندہ کر کے اسے حال اور پھر مستقبل میں بدل دینا چاہتی تھی۔ حیات کا کہنا تھا کہ اس وقت میں بے بس اور مجبور تھا، کچھ نہیں کر سکتا تھا مگر آج حالات ویسے نہیں ہیں۔ آج میں خود مختار اور با اختیار ہوں، جائیداد سے اپنا حصہ لے چکا ہوں، تعلیم مکمل کر کے آفیسر ہو گیا ہوں۔ آج میں جیسی چاہے زندگی گزار سکتا ہوں۔ اگر تم طلاق لے کر دوبارہ میری ہو جائو تو میں دوبارہ اس جنت کو پالوں گا جو میں نے خود سے نہیں چھوڑی تھی بلکہ مجھ سے زبر دستی چھین لی تھی۔ حیات کے دل میں ایک سلگتے ہوئے زخم کی طرح اب بھی میں موجود تھی۔ وہ جھوٹ نہیں کہتا تھا۔ وہ مجھ کو حاصل کرنا چاہتا تھا، اپنے لئے اور اپنی بیٹی کے لئے جبکہ حالات نے مجھے ایک اور شخص کے ساتھ باندھ دیا تھا، جس کا اس سارے قصے میں کوئی قصور نہیں تھا۔ انسان کبھی کبھی اتنا خود غرض ہو جاتا ہے کہ اس کو صرف اپنی خوشی کا حصول یادرہتا ہے۔ حیات بھی خود غرض بن گیا تھا۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس نے مجھے خود طلاق دی تھی تبھی میں کسی اور کی بیوی بنادی گئی تھی اور اب میں کسی اور کی بیوی اور اس کے دو بچوں کی ماں بھی تھی۔ لیکن حیات اتنی بڑی حقیقت کو خاطر میں نہ لا کر مجھ کو اکساتا۔ میں اس کے ہاتھوں میں کھلونا بنتی جارہی تھی۔ پہلے پہل میرے جھگڑوں سے بھی عاصم کو اندازہ نہ ہوا کہ ان کی دُنیا جلنے والی ہے۔ وہ سیدھے سادے انسان تھے۔ میں جس قدر تنگ کرتی ، وہ اور زیادہ مجھ کو خوش کرنے کی سعی کرتے۔ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک نہ تھے۔ روزگار کے چکر میں صبح کے گئے شام کو لوٹتے، ان کو کیسے علم ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ آخر کار مجھے ہی ان کو بتانا پڑا کہ میں یہ سب اس لئے کر رہی ہوں کہ ان سے طلاق چاہتی ہوں۔ سچ بے شک کڑوا سہی مگر میں اپنے پہلے شوہر کو ابھی تک نہیں بھلا سکی اور اب اسی کے ساتھ دوبارہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنی بیٹی کے والد سے دوبارہ شادی کر کے اس کو اس کے باپ کا گھر دینا چاہتی ہوں۔ میری باتیں سُن کر عاصم پر بجلی گرپڑی۔ وہ سکتے میں رہ گئے، جیسے سانس لینا بھول گئے ہوں ، روپڑے۔ بہت منت سماجت کی ، بولے۔ میں جانتا ہوں انسان زبردستی کسی کے ساتھ زندگی گزار کر خوش نہیں رہ سکتا لیکن اپنے بچوں کا خیال کرو۔ ادھر تمہاری ایک بیٹی ہے اور یہاں دو بچے ہیں، کیا تمہیں ان کا بھی خیال نہیں ہے ؟ ان سے ان کے ماں باپ مت چھینو۔ میرے ساتھ گزارے دن یاد کرو، کچھ تو میری بھلائیاں یاد کر لو لیکن مجھ پتھر دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے کہا۔ زبر دستی مجھے باندھے رکھ سکتے ہو تو رکھ لو مگر میرا دل تمہارے ساتھ نہیں ہے ، بہتر ہے کہ مجھ کو آزاد کر دو۔ انہوں نے اس کے بعد خاموشی اختیار کر لی اور چند دن بعد اس شرط پر طلاق دے دی کہ میں بچے ساتھ نہ لے جائوں گی۔ میں نے یہ شرط بھی منظور کر لی۔ تب مجھے حیات کے سوا کوئی نظر نہ آتا تھا۔ طلاق سے میرے والدین بہت دُکھی ہوئے لیکن میں خوش تھی۔ عدت میں نے اپنی پھوپی کے گھر گزاری اور حیات سے نکاح کر لیا۔ اس بار نکاح میں میرے والدین شریک نہ ہوئے مگر میں تو اپنے مقصد کو پاکر اس قدر خوش تھی کہ عاصم کے بچوں کو بھی بھلادیا جیسے میں نے ان کو جنم نہ دیا ہو۔ مجھے یاد تھی تو بس فریحہ جو ابھی تک میری والدہ کے پاس تھی لیکن میں نے ماں باپ کو کتنا دکھی کر دیا ہے۔ حیات نے مجھے علیحدہ گھر لے کر ، اس کو سجا سنوار آراستہ پیراستہ کر کے دیا۔ میں اس میں رہنے لگی۔ فریحہ کو اپنے پاس بلالیا۔ حیات کچھ دن بیوی کے پاس جاتے پھر میرے پاس آ جاتے، کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلا۔ آخر میری سوتن کو پتا چل گیا کہ حیات نے مجھے سے دوبارہ شادی کرلی ہے۔ جب میں نے حیات کے بیٹے کو جنم دیا تو میری سوتن نے کہا کہ تم دو حصوں میں بٹ گئے ہو۔ بہتر ہے کہ مہرین کو یہاں لے آئو۔ اس طرح کم از کم ہم اکیلے ہوں گے اور نہ تمہارے بچے وہاں اکیلے ہوں گے۔ حیات بھی یہی چاہتے تھے لہذاوہ مجھے سوتن کے پاس لے گئے اور میں بھی اسی گھر میں رہنے لگی۔ حیات سے شادی کے دو سال بعد اچانک ہی میرے دل میں کسی خلا نے جنم لیا اور اب مجھے رہ رہ کر احساس ہونے لگا کہ میں نے عاصم سے طلاق اور حیات سے دوبارہ شادی کر کے سخت غلطی کی ہے۔ عاصم کا گھر سارے کا سارا میرا تھا۔ اس کا پیار بھی مکمل میرا ہی تھا، وہ بنا ہوا نہیں تھا، اس میں کوئی اور شریک نہیں تھا لیکن یہاں معاملہ دوسرا تھا۔ حیات کے گھر کی اصل مالکہ اس کی خاندانی بیوی تھی، میں اس میں معمولی حصہ دار بنی ہوئی تھی۔ حیات کا پیار بھی بٹا ہوا تھا۔ یہاں آکر مجھے واضح طور پر احساس ہو گیا کہ جو مقام میری سوتن کو حاصل تھا وہ مجھے نہیں ہے۔ اس کے بچوں کی خاندان میں جو حیثیت اور اہمیت تھی، وہ میرے بچوں کی نہیں ہے۔ حیات اور اس کا پورا خاندان اس کی خاندانی بیوی کے بچوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ حیات خود بھی اپنی دوسری بیوی کے بچوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے جس کی وجہ سے میرے بچے احساس کمتری کا شکار ہو رہے تھے۔ امی جان بتاتی تھیں کہ عاصم اجڑ کر رہ گیا ہے اور بچے ماں کے لئے تڑپتے اور یاد کر کے روتے ہیں۔ جب میں ایسی باتیں سنتی تو میرا دل بیٹھ جاتا اور کبھی کبھی تو دھڑکنا ہی بھول جاتا۔ آخر میں عورت تھی ، ایک ماں تھی ، کب تک خود پر جبر کر سکتی تھی۔ دو معصوم بچے میری یاد میں دن رات تڑپتے تھے۔ مجھے بلاتے تھے اور میں ان سے نہ مل سکتی تھی۔ ایک دن جب میرا دل بہت اداس ہوا تو اپنے ان بچوں سے ملنے چلی گئی۔ وہ مجھ سے لپٹ گئے ، بہت روئے ، کہتے تھے ،آمی ہمیں چھوڑ کر مت جانا لیکن میری مجبوریاں میرا رستہ روکتی تھیں۔ کس دل سے ان کو خود سے جدا کر کے پلٹی ، یہ میرا دل جانتا ہے۔ اس کے بعد میرا دل کسی چیز میں نہیں لگتا تھا۔ اب مجھے حیات کی صورت بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ سوچتی کہ یہی میرا مجرم ہے جس نے مجھے برباد کیا ، گھر بار چھوڑنے پر اکسایا اور اپنے دل کی بربادیاں آباد کرنے کے لئے سبز باغ دکھا کر میراگھر لوٹ لیا، میرے بچے مجھے سے جُدا کر دیئے۔ کسی طرح میری سوتن کو علم ہو گیا کہ میں اپنے ان بچوں سے ملنے جاتی ہوں، اس نے حیات کو اس بات سے آگاہ کر دیا۔ انہوں نے مجھ پر سخت پابندی لگادی۔ اب میں گھر سے نہیں نکل سکتی تھی۔ انہوں نے مجھے قید کر دیا۔ آج میرے پاس زندگی کی ہر آسائش موجود ہے لیکن دل کا سکون نہیں ہے۔ میں اپنے بچوں سے ملنے سے معذور تھی، ان کے لئے روتی لیکن اب رونے سے کیا حاصل، میں نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری تھی کسی اور کو کیا الزام دوں۔