جیا کو اس کی صورت سے بھی نفرت ہو چکی تھی، مگر اس لمحے اسے بچوں کی طرح بلکتا، روتا دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔ شاید میاں بیوی کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے، اس نے دل میں سوچا اور ماضی کی ہر بات کو فراموش کرکے اسے معاف کر دیا۔ ہا ہا، اس سے زیادہ گھٹیا اور کمزور انتقام ہو ہی نہیں سکتا تھا، یہ افسانہ نگار آخر اتنے بے وقوف کیوں ہوتے ہیں۔ فاطمہ نے افسانہ ختم کرتے ہی تبصرہ کیا۔کیوں بھئی، اب کون سا افسانہ برا لگ گیا جناب کو۔ ندا، جو پاس ہی بیٹھی تھی، مسکراتے ہوئے بولی۔ امی تو کہتی ہیں کہ یہ افسانے، کہانیاں سب زندگی کی کہانیاں ہوتی ہیں اور حقیقت کے قریب ہوتی ہیں، لیکن میں نہیں مانتی۔ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ شوہر اتنا ظلم کرے، اور آخر میں معافی مانگے، اور آپ مہان دیوی بن کر اسے معاف بھی کر دیں۔ فاطمہ غصے سے بولی۔ابھی تم نے زندگی دیکھی ہی کتنی ہے، کیا پتا شادی شدہ زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہو۔ ندا نے نرمی سے کہا۔ توبہ، توبہ، باز آئی میں ایسی شادی سے۔ فاطمہ نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔چپ کر جاؤ، مت بولا کرو اتنا فالتو۔ اللہ نہ کرے ایسا وقت آئے۔ ندا، جو فاطمہ سے صرف ایک سال بڑی تھی، اسے ڈراتے ہوئے بولی۔فاطمہ ڈر کے مارے ایک بار پھر کان پکڑ کر خاموش ہوگئی۔
☆☆☆
حرا نے لکھتے لکھتے قلم ہاتھ سے رکھ دیا۔ اف، وہی پرانی کہانی! اب کیا آگے یہ لکھوں کہ فاطمہ کے ساتھ بھی یہی ہوا؟ نہیں، کچھ اور سوچنا پڑے گا۔ حرا اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ ایک افسانہ نگار تھی مگر اب کچھ نیا لکھنا چاہ رہی تھی۔ ایک ہی طرح کے افسانے لکھ لکھ کر وہ بور ہو چکی تھی۔ اس نے کہانی ادھوری چھوڑ دی۔ چند دن بعد اس نے دوبارہ کہانی کو آگے بڑھانا چاہا، مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ اس دوران اس کی اپنی شادی طے پا گئی۔ پھر شادی کی تیاریاں، شادی، اور شادی کے بعد کی زندگی میں وہ ایسی مصروف ہو گئی کہ لکھنا لکھانا سب ایک طرف رہ گیا۔حرا، جو افسانے لکھنے میں ماہر تھی، اپنی زندگی کی ڈور کو بھی افسانوں کی طرح سلجھانے لگی۔ میاں کے دل میں جگہ بنانے کے ساتھ ساتھ ساس کا دل جیتنے کی کوشش میں لگی رہی۔ آخر کار اس نے پسندیدہ بہو کا درجہ حاصل کر لیا۔ ساس اس کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرتیں۔ نندیں، دیور سب اس کے گن گانے لگے۔ وقت گزرتا گیا، اور حرا کو پتا ہی نہ چلا۔ آج جب اس نے آئینے میں خود کو غور سے دیکھا، تو احساس ہوا کہ پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ اچھی بہو، اچھی بیوی، اچھی ماں اور بھاوج بننے کے چکر میں وہ خود کہیں کھو گئی تھی۔ وہ لڑکی جو کبھی خواب دیکھا کرتی تھی، ایک عورت میں بدل چکی تھی۔ ایسی عورت جس میں بظاہر کوئی چمک باقی نہ تھی۔ آئینے میں نظر آنے والی یہ عورت کون تھی؟ یہ حرا تو نہیں ہو سکتی۔ نہیں، یہ میں نہیں ہو سکتی۔ حرا اپنے خیالوں میں گم تھی کہ وسیم، اس کا شوہر، ایک عجیب بات کہہ کر اس کے سر پر بجلی بن کر گرا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے کوئی اور پسند آگئی ہے، اور شاید وہ دوسری شادی کر لے۔ کیوں؟ آخر میں نے آپ کے لیے کون سا کام نہیں کیا؟ ہر چیز وقت پر ملتی ہے، گھر صاف ستھرا رہتا ہے، امن اور سکون بھی ہے۔ آپ کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں رہی، پھر آپ نے ایسا کیوں سوچا؟ حرا سراپا سوال بن چکی تھی۔ کیوں؟ وسیم نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ کبھی گھر اور کاموں سے ہٹ کر اپنے آپ کو بھی دیکھا ہے۔ ذرا آئینے میں دیکھنا، خود کو بھی کرتی ہو مجھ سے۔ وسیم نے گہرا سوال کیا۔ حرا آئینے میں خود کو دیکھ کر حیران تھی۔ یہ بے ڈھنگا سراپا، جگہ جگہ جھانکتے سفید بال، بے رنگ چہرہ۔ یہ میں ہوں، اس نے دوبارہ اپنے آپ سے پوچھا۔ کیا کرتی تھیں تمہاری ہیروئنیں، افسانہ نگار صاحبہ۔ آئینے میں کھڑی حرا نے خود سے سوال کیا۔ تو کیا میں بھی ایک افسانہ بن رہی ہوں۔ یہ سوچ کر اس نے جیسے خود کو نیند سے جگایا۔ دراز سے برسوں پرانی ڈائری نکالی۔ آخری صفحات پر فاطمہ کی ادھوری کہانی درج تھی۔اچھا، تو یہ کہانی ادھوری اس لیے تھی، اب مجھے فاطمہ بن کر اسے مکمل کرنا ہوگا۔ وہ سوچ کر مسکرائی، اور اپنے لیے کچھ باتیں نوٹ کیں۔ آج کی تاریخ درج کی، اور تین مہینے بعد اپنی شادی کی سولہویں سالگرہ کی تاریخ لکھ دی۔ نیچے ایک جملہ لکھا اور مسکراتے ہوئے پڑھا:ہاں، ایسا ہی ہوگا۔ اگلے ہی دن حرا نے خود کو بدلنے کا آغاز کر دیا۔ اپنے چہرے اور جلد کا خیال رکھا، بالوں کو ڈائی کروایا اور جدید طرز کی کٹنگ کرائی۔ ڈائیٹ پلان شروع کیا، بوتیک کے سروے کیے اور ایک اچھے ڈیزائنر سے اپنے لیے بہترین کپڑے تیار کروائے۔ اس دوران وسیم پر بھرپور توجہ دینا بھی شروع کر دی۔ نہ اس سے کسی لڑکی کے بارے میں سوال کیا، نہ کوئی شکایت۔ بس وسیم کی پسند کے کھانے بنائے، اس سے بے تکان باتیں کیں، اور رات کو واک پر ساتھ جانے لگی۔وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔ شادی کی سالگرہ میں اب پندرہ دن رہ گئے تھے۔ آج حرا نے آئینے میں خود کو دوبارہ غور سے دیکھا۔ یہ بدلی ہوئی حرا تھی۔ روزانہ ہلکا پھلکا تیار رہنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ آج بھی وہ دونوں واک پر گئے ہوئے تھے۔ وسیم کافی الجھا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ جب وہ دوسری شادی کا سوچ رہا تھا تو اب حرا میں کوئی خامی نظر نہیں آ رہی تھی۔ پہلے تو عجیب بے ڈھنگی لگتی تھی، اب کیوں نہیں لگ رہی۔ وسیم اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ناکام تھا۔ اصل میں حرا نے اتنی آہستگی سے اپنی زندگی میں تبدیلی لائی تھی کہ کچھ بھی اچانک نہیں ہوا۔ یہی بات وسیم کے لیے حیرانی کا باعث تھی۔ دو تین دن بعد ہماری شادی کی سالگرہ ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اس بار سب کو بلالوں۔ آپ بھی جسے چاہیں انوائٹ کر لیں۔ حرا نے کہا۔جسے دل چاہے۔ وسیم نے جسے پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔ اس پر حرا مسکرا کر بولی، جی، جس کو بھی۔ وسیم نے دوستوں کے ساتھ ساتھ جہنم کو بھی بلا لیا۔ اچھا ہے، وہ سمجھ لے گی کہ میں دوسری شادی کا کیوں سوچ رہا ہوں۔ وسیم نے دل میں سوچا۔
☆☆☆
کالی ساڑھی پہنے، موتیا کے پھولوں کا زیور سجائے، اور نئے انداز سے سیٹ کیے ہوئے بالوں کے ساتھ حرا نے آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ تمہیں آج جیتنا ہے، ہر حال میں۔وہ وسیم کے ساتھ چلتی ہوئی ٹیبل تک آئی۔ ہال میں سب کی نظریں ان پر تھیں۔ وسیم بھی اسے اس روپ میں دیکھ کر حیران تھا۔ کہاں تو وہ ہر وقت ایک بے رنگ، بے ترتیب حرا، اور کہاں یہ حرا، جس پر سے نظریں ہٹنا مشکل تھا۔آج بھی بہترین جوڑی ہے آپ کی۔ کسی نے تعریف کی تو وہ مسکرا دی اور کیک کاٹنے کے بعد مہمانوں کی تواضع میں مصروف ہو گئی۔ ایک طرف، وسیم کے ایک دوست نے دبے دبے لہجے میں کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ تمہاری بیوی بے ڈھنگی ہے، اسی لیے دوسری شادی کا سوچ رہے ہو۔ ایسی عورت بے ڈھنگی ہوتی ہے؟ اگر یہی معیار ہے، تو مجھے تو معاف ہی رکھو۔ وسیم کچھ کہنے کے لیے مڑا، لیکن وہ شخص وہاں سے جا چکا تھا۔ حرا نے دور کھڑے ایک عورت کو وسیم سے بات کرتے دیکھا۔ اچھا، تو یہ ہے وہ۔ حرا نے دل ہی دل میں سوچا، مگر وہ اپنے کام میں لگی رہی۔دعوت کے اختتام پر حرا اپنے کمرے میں آئی۔ وسیم بھی پیچھے پیچھے آ گیا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا، لیکن الفاظ ڈھونڈ نہیں پا رہا تھا۔ وسیم نے آخرکار کہا کہ سوری، حرا۔ حرا نے مسکرا کر جواب دیا کہ محبت میں اعتماد ہوتا ہے، سوری نہیں۔وسیم خاموش ہو گیا۔ حرا نے اپنی ڈائری اٹھائی، اس صفحے کو کھولا جہاں تین مہینے پہلے اس نے ایک جملہ لکھا تھا۔ اس نے جملہ پڑھا:فاطمہ نے اسے دل سے معاف کر دیا۔ حرا فاتحانہ انداز سے مسکرائی، ڈائری بند کی، اور زندگی کے نئے سفر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
☆☆☆