Thursday, October 10, 2024

Khuda Ki Karni

گلناز ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ میری اس سے اچھی دوستی تھی۔ پہلے پہل وہ مجھے بہت بھلی لگتی تھی کیونکہ ہنسا ہنسانا اس کی فطرت میں شامل تھا۔ ہر وقت کلی کی طرح شگفتہ اور پھول کی مانند کھلی کھلی نظر آتی تھی۔ مجھے خبر تھی کہ وہ اپنے سامنے گھر والے شیدو کے عشق میں گرفتار تھی، مگر مجھے اس سے کوئی سروکار نہ تھا۔اس عمر میں محبت کون نہیں کرتا؟ چاہے جانے کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے۔ میں تو بس اس کی باتیں اور قصے ، مزے لے لے کر سنا کرتی تھی۔ کبھی اس کو مشورہ بھی دے دیتی، کبھی کہتی کہ ہوش کی دوا کر۔ کہیں یہ عشق تیری جان ہی نہ لے لے۔ تبھی بات کھلی ، گلی گلی عام ہوئی، مشک اڑی تو خوشبو پھیلتی چلی گئی۔ پہلے غیروں کو خبر ہوئی، پھر اپنوں کو پتا چلا۔ آخر میں گلناز کے باپ اور بھائیوں تک بات پہنچ گئی۔ گھر والے اس کو سمجھانے لگے ، مگر عشق کا بھوت منہ زور ، عشق نہ آئے باز ، جذبے اور شدت اختیار کر گئے۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ آواز ہمارے گھر تک آنے لگی۔ روز روز کی مار کٹائی، دنگا فساد۔ میں سوچتی، پتا نہیں یہ جھگڑے کب ختم ہوں گے۔ اب گلناز نے میرے گھر آنا بھی بند کر دیا تھا۔ گھر والوں نے اس کا نکلنا جو بند کر رکھا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ لڑکا لڑکی راضی تھے، مگر قاضی راضی نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کچھ نہ کر سکتے تھے۔ شیدو کے گھر والے بھی گلناز کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ خاصی صحت مند اور باشعور لڑکی تھی۔ ایسی نہیں کہ جس کے بارے میں خیال بھی گزرے کہ یہ اچانک مر جائے گی یا خود کشی کرلے گی، لیکن پھر ایک روز پتا چلا کہ وہ مر گئی ہے۔ میں تو حیرت کے میرے سناٹے ہیں آگئی۔ لوگ چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ اس کے والدین کی زبان پر جو داستان تھی ، وہ کھوکھلی لگتی تھی۔

وہ کہتے تھے کہ چند دن بیمار رہی، ایک پاؤں پر فالج گرا، رات کو ہنس ہنس کر باتیں کرتی سوئی، صبح اٹھ ہی نہ سکی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حقیقت یہ نہیں کچھ اور ہے۔ وہ اپنے شکوک کا اظہار دبی دبی زبان سے کر رہے تھے۔ شیدو بھی کئی دنوں سے نظر نہیں آرہا تھا۔ پہلے تو وہ ہر شام اپنی چھت پر کبوتروں کو دانہ ڈالا کرتا تھا، تبھی تو اس نے ادھر بھی دانہ پھینکا اور اس دام میں گلناز جیسی لڑکی آگئی۔ وہ سرکش تھی، محبت میں سچی تھی ، شیدو کی محبت میں دیوانی ہو گئی۔ پہلے چھت پر سے دیکھتی تھی اور کبھی کبھار چھپ کر ملتی تھی، اب اس نے نئی ترکیبیں تلاش کر لیں۔ کبھی چوبارے کی جالی میں رسہ باندھ کر رات کی تاریکی میں شیدو سے ملنے کے لئے گلی میں اترتی تھی، تو کبھی وہ دیوانہ ، میٹر دیکھنے والا بن کر ان کے گھر میں بھی آتا۔ گھر کی بیبیاں پردہ کر لیتیں اور شید و گلناز کے نام کوئی پیغام لکھ کر پرچی میٹر میں اڑس جاتا، مثلاً تم رسہ لٹکا دینا، میں چوبارے سے چھت پر چڑھ کر میں آجاؤں گا۔ پھر اچانک ہی شیدو غائب ہو گیا۔ گل ناز کے گھر سے جھگڑے کی آوازیں آنا بھی بند ہو گئیں۔ میں نے سوچا، چلو وہ گیا، تبھی اس دیوانی لڑکی کا جذبہ بھی مٹا۔ روز روز کا جھگڑا ہی ختم ہوا۔ دونوں سکھ چین سے ہوں گے۔ دونوں کے گھر والوں کو بھی چین ملے گا۔ یہ تو ایک روز جب میں نے منے کی پیدائش کے بعد محلے کی ہیلتھ وزیٹر بختاور کو گھر بلوایا تو یہ راز کھلا۔ میرے میاں اس عورت کو دیکھ کر چونک پڑے۔ میں اپنے نوزائیدہ بیٹے ریان کو ایک ہفتے بعد اسپتال سے گھر لائی تو اماں نے مشورہ دیا کہ بختاور کو گھر بلواؤ۔ محلے دار ہے، روزانہ ایک آدھ گھنٹہ تمہیں اور بچے کو دیکھ جائے گی، تمہارے بچے کی مالش کر دے گی ، نہلا دے گی۔ اس کے عیوض کچھ رقم اسے دے دیا کرنا۔

ایک دن میرے میاں گھر پر تھے جب بختاور آگئی۔ مشتاق بغور اس کو دیکھ رہے تھے۔ میں حیران تھی کہ ان کو کیا ہو گیا ہے ؟ اس کی شکل میں ان کو ایسی کیا بات نظر آگئی ہے کہ اک ٹک دیکھے ہی جارہے ہیں۔ میرے میاں وکیل تھے۔ کہتے ہیں کہ پولیس والوں اور وکیلوں سے خدا بچائے کہ یہ مجرموں کو پہچاننے میں قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ آئے دن ان کا واسطہ عجیب و غریب کیسوں سے پڑتا ہے۔ شبہ میں پڑنا اور تفتیش کے دوران باریکیاں تلاش کرنا ان کی سرشت میں شامل ہے۔ بالآخر میں نے میاں سے کہا۔ آپ کیا اس بیچاری کی صورت کو تک رہے ہیں، جیسے کسی مجرم کی ٹوہ لگارہے ہوں۔ یہ غریب سیدھی سادی معمولی پڑھی عورت، بھلا کیا سمجھے گی، آپ کی سوچ و چار کو جبکہ میں ابھی تک آپ کو نہیں سمجھ پائی۔ کہنے لگے۔ چند دنوں بعد تمہیں آپ ہی ساری بات سمجھ آجائے گی۔ جب کیس بن گیا اور جرم پایہ ثبوت کو پہنچا تو بات اخبارات میں آگئی ، تب میں نے جانا کہ میرے میاں ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ ہم ایک نظر میں ہی مجرموں کو پہچان لیتے ہیں۔ ایک ہلکے سے شبے کی بنیاد پر گلناز کی موت کا معمہ حل ہو چکا تھا۔ بختاور کو میرے شوہر نے دو ایک بار گلناز کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ اس وقت ان کو علم نہ تھا کہ یہ عورت جو خود کو ہیلتھ وزیٹر کہتی ہے ، دراصل دائی ہے۔ گلناز کی والدہ نے بیٹی اور اپنے گھرانے کی عزت کو بچانے کی خاطر اس اناڑی دائی کا سہارا لیا تھا اور یوں عزت بچانے کی کوشش میں بے چاری نادان لڑکی نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی لیکن اسے اسپتال نہ لے گئے ، ورنہ شاید اس کی زندگی بچ جاتی۔ بدنامی کے ساتھ دونوں صورتوں میں قانون کے شکنجے کا خوف تھا۔ بختاور تو جیل چلی گئی۔ گلناز کے والدین کو بھی حوالات کی شکل دیکھنی پڑتی، اگر میرے میاں کو ان کی خاندانی عزت کو خاک میں ملانا مقصود ہوتا لیکن یہ انتہائی شریف لوگ، بھلا ان کا کیا قصور تھا جبکہ لڑکی نے چپکے چپکے ان کے علم میں لائے بغیر خود کو عشق کی آگ میں سلگایا تھا۔ خود اسے اس میں جل مرنا تھا۔ ماں باپ کب چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں ایسے غلط رستوں پر چلیں کہ مقدر تباہی یا موت ہو مگر اولاد جب خود سر ہو جائے تو وہ بس ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

ماں ممتا سے مجبور بیٹی کے لئے قربانی کا بکرا بنتی ہے۔ برے وقت میں اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتی اور باپ بے چارہ تولا علمی میں مارا جاتا ہے کہ اس سے ہر بات چھپائی جاتی ہے۔ اسے پتا جب ہی چلتا ہے ، جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو گلناز کی ماں نے بیٹی کی زندگی اور اس کی عزت بچانے کے لئے بڑی راز داری سے تن تنہا ہاتھ پاؤں مارے اور بختاور سے مدد لینے کا خیال آیا کہ وہی محلے میں دستیاب تھی۔ یہ ایک لالچی عورت تھی، مگر قدرت کو ان کی سعی منظور نہ تھی۔ معاملہ بگڑ گیا اور موت گلناز کا مقدر بنی۔ موت کی وجہ جانے بغیر گھر والوں نے روپیٹ کر اس کو دفنا دیا۔ کہتے ہیں کہ جب بات کھلنی ہو تو چاہے انسان کتنی ہی راز داری برت لے ، سات پردوں میں چھپا ہوا راز بھی طشت از بام ہو جاتا ہے۔ پولیس کیس سے تو میرے شوہر نے گلناز کے والد کو بچالیا مگر گلناز کی ماں اپنے بھائی کے بیٹے کے عتاب سے نہ بچ سکی۔ کسی طور اسے علم ہو گیا کہ ماں نے بیٹی کا پردہ رکھنے کے لئے اس کا ساتھ دیا تھا۔ گلناز اس کی منگیتر تھی لہٰذا بھتیجے نے آکر باز پرس کی اور جب پھوپھی جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے روپڑی، تو بجائے رحم کھانے کے یہ نوجوان طیش میں آگیا اور اپنے اشتعال کو غیرت کا نام دے کر اس نے پھوپھی کا گلا دبا دیا کہ تم بیٹی کے ساتھ اس کے برے اعمال میں شامل تھیں، لہٰذا اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ یہ قدرت کا لکھا تھا کہ خدا کی کرنی،اسے سزاملنی تھی، سو مل گئی۔ بیٹی کے ساتھ وہ بھی جان سے گئی۔ سبھی آج بھی اسے قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ کیوں اس نے بیٹی کی خطا کو چھپایا اور پردہ پوشی کی۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ اس میں بیچاری خالہ کا کیا قصور تھا؟ جب اسے گلناز کے کسی معاملے کا علم ہی نہ تھا، تو وہ کس طرح اس کی شریک جرم کہی جاسکتی ہے۔ بھلا کون ماں چاہے گی کہ اس کی بیٹی غلط راستوں کی مسافر بنے۔ اگر مائیں بر وقت باخبر ہو جائیں، تو ضرور بچیوں کو روکتی ہیں، ان پر سختی کرتی ہیں اور ان کو گناہ کی دلدل میں گرنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، جبکہ خالہ کو معاملے کا علم ہی اس وقت ہوا جب لڑکی کو دلدل میں گرا کر شیدو بھاگ گیا۔ خدا جانے وہ گلناز کو ایسے اندھیرے کنویں میں دھکیل کر کہاں چلا گیا، جس کا انت موت ہی ہوتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS