آج اس پاک دھرتی پر رہنے والے نہیں جانتے کی یہ سر زمین کتنی مشکلوں سے حاصل کی گے تھی – بھارت کے بھیڑے آزادی دی کراحسان سمجھتے تھے ماں بتاتی تھیں کہ تقسیم برصغیر کے وقت وہ اور ان کا بھائی دونوں کم سن تھے اور جو ریل گاڑی خون سے بھری لاشیں لے کر پاکستان پہنچی تھی ، اس میں تمام مسافروں کو ہندوؤں اور سکھوں نےچیر ڈالا تھا لیکن کچھ زخمی مسافر جو لاشوں کے بیچ زندہ رہ گئے تھے وہ ان کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔ انہی میں یہ دونوں کم سن بھی تھے۔ پاکستان آ کر امی اور ان کے بھائی کو کیمپ میں لایا گیا جہاں سے ایک رشتے کے ماموں ان کو اپنے گھر لے آۓ ۔ انہی ماموں نے میری والدہ کی شادی کم سنی میں ایک نوجوان سے کر دی جو غریب ضرور تھا مگر شریف گھرانے سے تھا۔ وہ دن بھی آیا، جب ہماری ماں کے دن پھر گئے۔ ابو نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ امی ابو خوشحال زندگی گزارنے گئے تو انہوں نے ماموں کو بھی مجبور کیا کہ اب تم بھی اپنا گھر بسالو۔ وہ غربت کی وجہ سے ڈرتے تھے۔ ابو نے ڈھارس دی اور امی نے ایک اچھی لڑکی پسند کر کے اپنے بھائی کا گھر آباد کرا دیا۔
کہتے ہیں رزق عورت کے نصیب سے ہوتا ہے۔ ماموں غربت کی وجہ سے ڈر رہے تھے۔ اللہ پاک نے وسیلہ پیدا کر دیا۔ روزی اچھی لگ گئی اور ماموں کا رزق فراخ ہو گیا۔ دونوں بہن بھائی جو لاشوں کے ڈھیر سے کمسنی میں زندہ نکل آئے تھے، آج ان کی زندگی ایک طویل آزمائش کے بعد پرسکون دور میں داخل ہوئی تھی لیکن وہ بھیا نک یاد یں اب بھی نیند میں ان کو ڈراتی تھیں اور سوتے ہوۓ میری ماں کی چیخیں نکل جاتی تھیں ۔ امی اور ماموں کے گھر نزدیک تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے گھروں میں روز ہی آتے جاتے ۔ امی کی شادی کے دو سال بعد میں نے جنم لیا تو ادھر ممانی نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا۔ ماموں بہت خوش تھے، کہتے تھے کہ اللہ نے مجھے بیٹا اس لیے دیا ہے کہ میں تمہاری بیٹی کا سسر بنوں اور یہ گڑیا میری کہلاۓ۔ اچانک ابو اور ماموں کار کے حادثے میں ہلاک ہوگئے اور میری ماں اس دنیا میں تنہا رہ گئیں اور ممانی کا بھی سہاگ اجڑ گیا۔
عدت کے بعد ممانی بیٹے کو لے کر اپنے میکے چلی گئیں اور ماں نے میری پرورش کی خاطر محنت مزدوری شروع کر دی۔ آخر کار زندگی کی گاڑی کو دھکا لگاتے ماں بوڑھی اور میں جوان ہوگئی ۔ یوں سمجھ لیں اچھے دن بہت تھوڑے اور برے دن بہت زیادہ تھے۔ امی ایک فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کام پر جانا شروع کر دیا۔ نوعمر اور خوبصورت تھی ، جب فیکٹری کے مالک کی مجھ پر نظر پڑی تو اس کا دل مجھ پر آ گیا۔ امی نے ایک طویل عرصہ اس فیکٹری میں کام کیا تھا، مالک کو پتا تھا کہ یہ کیسے تیوروں والی ہے، بھری جوانی میں شرافت کا دامن تھامے رکھا تھا۔ تبھی کسی کو ان پر میلی نظر میں ڈالنے کی جرات نہ ہوئی تھی۔ فیکٹری کا مالک جہاندیدہ تھا۔ وہ اپنے اوپر حرف نہیں آنے دینا چاہتا تھا لہذا اس نے مجھ سے بات کرنے کی بجاۓ امی سے بات کی ….. کہا کہ آپ کی شرافت سے متاثر ہوں۔ آپ سے رشتہ مانگتا ہوں آپ کی بیٹی کا ….. کیا اپنے بیٹے کے لیے؟ … نہیں اپنے لیے۔ مجھ کو سعدیہ پسند آ گئی ہے۔ میں اسے زندگی کی تمام سہولتیں دوں گا۔ فیکٹری کا مالک مجھ سے پچیس برس بڑا تھا لیکن ہماری غربت کے سامنے اتنے بڑے آدمی کا رشتہ کسی لاٹری سے کم نہ تھا۔ ماں نے چند دن سوچا اور یہ رشتہ قبول کر لیا۔
میں ان دنوں سولہ برس کی تھی۔ ڈھولک بجی اور نہ سہیلیاں آئیں، لیکن بہت زیادہ قیمتی جوڑے اور زیورات پہنا کر وہ مجھے اپنے شاندار گھر میں دلہن بنا کے لاۓ تھے جہاں نوکر چاکر میری خدمت پر مامور تھے۔ ایک خواب تھا جو کھلی آنکھوں سے دیکھتی تھی ۔ شادی سے خوش تھی کہ اتنی پر آسائش زندگی کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ میری کوئی پسند نہ تھی- ماں نے جسے پسند کیا اسی کو اپنے دل کی مسند پر سجا لیا۔ شادی کے بعد تین ، چار بارامی کے گھر گئی۔ وہ مجھ کو اپنے گھر میں سکھی دیکھ کر بہت خوش تھیں لیکن جب اپنی ماں کی تنہائی کا خیال آتا، میں اداس ہو جاتی ، تب امی کہتیں ۔ شکر کر اتنا چاہنے والا شوہر تجھے ملا ہے اور صد شکر کہ میرے اللہ نے میرے دکھوں کا سایہ تجھ پرنہیں ڈالا۔ شادی کے بعد چھ ماہ آرام وسکون سے گزر گئے ، پھر میں نے محسوس کیا کہ ارسلان کچھ پریشان اور اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔ وہ اب گھر بھی دیر سے آنے لگے تھے، کبھی رات کو غائب ہو جاتے ۔ میں نوکرانی کے ساتھ راتیں جاگ کر گزارنے لگی۔ ان کا یہ انداز سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ان دنوں میری طبیعت خراب رہنے لگی تھی، چکر آتے اور جی متلاتا۔ پڑوس میں لیڈی ڈاکٹر کا کلینک تھا، اس کو دکھایا تو اس نے کہا کہ مبارک ہو تم ماں بننے والی ہواپنے شوہر کو یہ خوشخبری سنا دو۔ رفیق آۓ تو ان کا موڈ اچھا نہ تھا۔ ان کا مجھ پر کافی رعب تھا۔ ان سے ڈرتی تھی لہذا کچھ نہ بتا سکی۔ سوچا موڈ اچھا ہوگا پھر بتا دوں گی ۔ اچانک انہوں نے کہا کہ تم پندرہ دن کے لیے میکے چلی چاؤ ۔ تمہاری ماں کی اداسی بھی دور ہوجائے گی ، میں کسی کام سے لندن جارہا ہوں۔
میں نے بیگ میں دو چار جوڑے رکھے۔ زیور ساتھ نہ لیا کیونکہ امی کا گھر محفوظ نہ تھا۔ گلے میں چین اور انگوٹھی ۔ جو شادی کی تھی ، بس یہی زیور پہن کر نکلی ۔ انہوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور امی کے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ ماں اور میں بہت خوش تھے۔ پندرہ دن گزرنے کا تو پتا ہی نہ چلا۔ پندرہ سے بیس دن گزر گئے۔ پھر ایک ماہ ہوگیا۔ وہ نہ آۓ تو امی پریشان ہوگئیں میں نے تسلی دی کہ ماں دوسرے ملک گئے ہیں، دیر سویر ہوجاتی ہے۔ امی نے کہا فیکٹری جا کر معلوم کرتی ہوں، خدا خیر کرے۔ میں نے روک دیا کہ نہیں وہاں مت جائیے وہ خفا ہوں گے، جب میری ارسلان صاحب سے شادی ہوگئی اس کے بعد انہوں نے امی کو فیکٹری جانے سے روک دیا تھا۔ ایک ماہ اور گزر گیا۔ ارسلان کی طرف سے کوئی رابطہ اور نہ خبر ملی تو امی نہ رہ سکیں ۔ وہ فیکٹری چلی گئیں پتا چلا کہ فیکٹری کو بکے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ چوکیدار نے البتہ ایک لفافہ دیا جس میں کچھ کاغذات تھے اور میر اطلاق نامہ تھا۔رفیق صاحب مع فیملی لندن شفٹ ہو گئے تھے۔ مجھ میں یہ صدمہ سہنے کی تاب کہاں تھی ، مجھ پرتو جیسے بجلی گر گئی۔ اپنے پیروں پر کھڑی نہ رہ سکی۔ نکاح نامہ میرے شوہر کے پاس تھا اور طلاق نامہ وہ چوکیدار کو دے گئے تھے۔ رو دھو کر ہم ماں بیٹی چپ ہوگئیں ۔ سینے پر پتھر کی سل رکھ کر ماں نے خود کو حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کر لیا۔ امی نے مکان تبدیل کر لیا اور ہم دوسری جگہ آگئے ۔ یہ محلہ نسبتا اچھا تھا لوگ بھی تعلیم یافتہ تھے۔ محلے کی خواتین کپڑے سلوانے آنے لگیں۔ امی سے اچھی واقفیت ہوگئی، یہاں بھی میری خوبصورتی نے کام کیا۔ ایک خاتون نے میری والدہ کو ایک انجینئر کا رشتہ بتایا جو سعودی عربیہ میں ملازم تھے۔ انجینئر صاحب دو بہن بھائی تھے ۔ یہ نیک دل لوگ تھے۔ بات پکی ہوگئی تو ماں نے رخصتی کے لیے کچھ وقت مانگ لیا۔ رخصتی سال بعد ہونا تھی۔ یہ سال میرے لیے خوشی اور غم دونوں کا سال تھا کیونکہ میری والدہ نے میری پہلی شادی کا نہ بتایا تھا۔ بات پکی کر کے دونوں بہن بھائی سعودی عربیہ چلے گئے اور جانے سے پہلے وہ ہمارے گھرفون لگوا گئے تھے تا کہ بات چیت ہوتی رہے۔
خاله سلمیٰ نامی خاتون امی کی سہیلی تھیں۔ وہ امی کے ساتھ فیکٹری میں کام کرتی تھیں، ان کو ہمارے تمام حالات کا علم تھا۔ جب بچے کی پیدائش کے دن قریب آۓ ۔امی نے مجھے ان کے گھر بھجوادیا ان کو علم تھا کہ میری شادی ارسلان صاحب سے ہوگئی ہے۔ ڈھائی ماہ ہم سلمیٰ خالہ کے گھر رہے، جب ایک شب میں نے بیٹے کو جنم دیا تو امی نے اس بدنصیب بچے کو کپڑے میں لپیٹا اور علی الصباح وہ اسے ایک مسجد کی دہلیز پر رکھ آئیں۔ جب وہ میرے بچے کو لے جا رہی تھیں، میں نے بہت ان کی منت ساجت کی ، پاؤں بھی پکڑے ، روکا کہ ماں میرے بچے کو مجھ سے دور نہ کرو۔ اسے کیوں پھینکنے جا رہی ہو یہ کوئی ناجائز اولاد نہیں ہے۔ خدارا اس پر اور مجھ پر رحم کرو… لیکن ماں نے یہ کہہ کر میری التجا کوٹھکرا دیا کہ جس بچے کے باپ نے لوٹ کر آنا ہی نہیں ہے ، اس کو لوگ تیری ناجائز اولاد ہی کہیں گے، اگر ارسلان لوٹ بھی آۓ تو کیا خبر وہ اس بچے کو قبول کرے یا نہ کرے۔ راشد اور اس کی بہن کو رشتہ دیتے وقت میں نے تم کو کنواری ظاہر کیا تھا۔غلطی مجھ سے ہو چکی ہے، اب اس کو نباہنا ہوگا ورنہ وہ بھی اس بچے کو تمہاری ناجائز اولاد سمجھیں گے۔ پھر میرا بڑھاپا ہے، میں کہاں اس کو پال سکتی ہوں۔ خالہ سلمیٰ نے بھی یہی مشورہ دیا کہ اس معصوم کو مسجد کی دہلیز کے پاس رکھ آؤ۔ ایسے وقت کہ جب اللہ کے نیک اور عبادت گزار بندے وہاں فجر کی نماز کو پہنچتے ہیں۔سو میں نے اس کو اللہ کے سپرد کیا ، وہ ہی اس کی حفاظت کرے گا۔ اماں نے بھی اس مسجد کی نشاندہی نہ کی اور میں ماں بن کر بھی خالی گود اور نامراد رہ گئی۔ ایک سال پلک جھپکتے گزر گیا۔ انجینئر صاحب اور ان کی بہن وعدے کے مطابق مجھ کو بیاہنے سعودی عر بی سے لوٹ آۓ ۔ میرے خاوند فرشتہ صفت نکلے۔ انہوں نے میرے علاوہ امی جان کے ساتھ بھی حسن سلوک کی انتہا کر دی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اتنے بڑے دکھ کے بعد اس قدرسکھ قدرت کی طرف سے مجھے مل جاۓ گا۔ ہمارے ہمراہ والدہ نے کئی حج اور عمرے کیے۔ یہ سعادت بھی نصیب والوں کو ملتی ہے۔ ہم دونوں اس مقدس سرزمین پر آ کر بہت خوش تھے۔ لیکن امي جان خدا سے اپنے اس جرم پر توبہ و استغفار کرتی تھیں کہ ہم نے اپنی جائز اولاد کو ایک لاوارث بچے کی مانند حالات کے سپرد کر دیا تھا اور اب ہمیں خبر نہ تھی کہ اس معصوم کے ساتھ کیا گزری۔
خدا نے اس کی حفاظت کی یا وہ حالات زمانہ کے سیلاب میں خس وخاشاک کی مانند بہ گیا۔ امی خانہ کعبہ میں جا کر دن رات روتی تھیں اور اللہ پاک سے اپنی اس خطا کی معافی مانگتی تھیں۔ میں ہمیشہ جدائی کی آگ میں اندر اندر سلگتی ہی رہی۔ اللہ نے تین برس تک اولاد نہ دی ۔ ارشد حرم شریف میں جا کر اولاد کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس دوران امی جان فوت ہوگئیں ۔ نند اچھی تھیں، میرا خیال رکھتی تھیں مگر ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ البتہ ارشد نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میرے زخموں کو بھرنے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا ۔ اس دوران اللہ تعالی نے مجھے صاحب اولاد کیا اور ایک بیٹا عطا کیا۔ افسوس کہ وہ بچہ ابنارمل ہوا۔ اللہ کی مرضی سمجھ کر ہم نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اولاد جیسی بھی ہو، والدین اس کو پھینک نہیں سکتے۔ دوسال بعد اللہ تعالی نے ایک اور فرزند عطا کیا مگر وہ بچہ بھی نارمل نہ تھا۔ یوں میں اب دو بیٹوں کی ماں ہوں مگر دونوں بچے معذور ہیں اور میں ان کے غم میں کھلتی رہتی ہوں ۔ ارشد اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور میں سوچتی ہوں شاید مجھے اپنے پہلے بچے کی بددعا لگی ہے ، جس کو نہیں معلوم کہ اس کے ماں باپ کون ہیں۔ میرا کیا قصور ہے کہ میں تب بھی مجبورتھی اور اب بھی مجبور ہوں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میرا بچہ زندہ ہے یا مر گیا ہے ۔ کہاں ہے اور کیسا ہے۔ خدا کرے جہاں ہو، خوش ہو اور اچھے لوگوں کے پاس ہو۔ ماں باپ کو ایک نہ ایک دن اپنی اولاد سے بچھڑنا ہوتا ہے لیکن ایسے بھی کوئی ماں اپنے بچے سے نہ بچھڑے۔ جیسے میں اس معصوم اور وہ معصوم مجھ سے بچھڑا تھا کہ میں اس کا نام تک نہ رکھ سکی تھی اب کس نام سے پکاروں؟ کاش میری ماں ایسا نہ سوچتی کہ جیسا اس نے سوچا تھا تو اللہ پاک کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا ہی دیتا مجھ کو پھر سے آباد کرنے کا۔ کیونکہ وہ ہر بات پرقادر ہے۔ یہ توہم بندے ہیں جو کسی بات کو ممکن اور کسی کو ناممکن سمجھ لیتے ہیں۔