Wednesday, May 21, 2025

Khuda Naik Oulad Day

انکل ابرار ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو انہیں اپنی تینوں بیٹیوں سے زیادہ پیارا تھا۔ وہ اچھے عہدے پر کام کر رہے تھے مگر تنخواہ بس اتنی تھی کہ صبر شکر سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ یہ ایسا محکمہ تھا کہ جہاں رشوت کا کوئی کام نہ تھا۔ چار بچوں کے اخراجات اور دیگر ضروریات پوری کر لینے کے بعد مہینے کے آخری چند دن کچھ تنگی ترشی میں ضرور گزرتے تھے لیکن اس کمی کو انکل اوور ٹائم کر کے پورا کر لیا کرتے تھے۔ وہ بہت دیانت دار اور اپنی اولاد کا خیال رکھنے والے تھے۔ ان حالات میں بھی انہوں نے اپنے بچوں کی خوشیوں میں کمی نہ آنے دی، خاص طور پر اپنے بیٹے جہانگیر کی ناز برداری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ وقت گزرتارہا، یہاں تک کہ ابرار صاحب کی بچیوں کی شادیاں ہو گئیں اور جہانگیر نے بھی ایف ایس سی میں اتنے اچھے نمبر لے لئے کہ اسے انجینئر نگ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جن دنوں وہ انجینئر نگ یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا ، انکل شام کو ایک پرائیویٹ دفتر میں چھپ کر کام کرتے تھے کیونکہ بیٹے کی پڑھائی کے لئے ان کو رقم درکار تھی۔ اس شب و روز محنت سے وہ بیمار ہو گئے لیکن بچوں کو انہوں نے اپنی تکلیف کا احساس بھی نہ ہونے دیا۔ جب جہانگیر نے انجینئرنگ پاس کر لی تو والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ان کو اپنے خوابوں کی تعبیر پوری ہوتی نظر آرہی تھی۔ ایک دوست کے توسط سے ان کے صاحبزادے کو ایک بڑے شہر کی فرم میں بہت اچھی تنخواہ پرملازمت مل گئی، سبھی نے ان کو مبارک باد دی۔ انہوں نے سمجھا کہ اب ان کے بہت اچھے دن آگئے ہیں لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ جہانگیر نے تنخواہ ملتے ہی والدین کی مشکلات کو بھلادیا۔ وہ اپنی تنخواہ خود رکھتا، جب ملنے آتا، الٹا والدین سے رقم مانگ لیتا۔ یہ بیچارے ادھار کر کے بھی اسے رقم دے دیا کرتے، پھر جب بہنوں نے احساس دلایا تو وہ والدین کو خرچہ دینے لگا۔ پہلے وہ ایک ماہ میں دو بار گھر آتا، ایک دن رہ کر چلا جاتا۔ اب مہینوں بعد آنے لگا جس پر اس کے والدین بے حد فکر مند رہنے لگے، تب آخر کار سب نے کہا کہ اس کی شادی کر دیں۔ اکیلا پر دیس میں رہتا ہے اور تنخواہ بھی کافی ہے کہیں غلط راستے پر نہ لگ جائے۔ جہانگیر کافی خوبصورت نوجوان تھا۔ ماں کو اس کی دُلہن تلاش کرنے میں دن لگ گئے۔ وہ چاہتی تھی کہ جیسا بیٹا حسین ہے دُلہن بھی ویسی ہی ہو ۔ ایسا آسان نہ تھا۔ کئی لڑکیاں دیکھیں، کہیں لڑکی کا رنگ سانولا ہوتا، کہیں قد کی چھوٹی ہوتی ، تو کہیں لڑکی پڑھی لکھی نہ ہوتی۔ آخر جہانگیر کی چچی نے اس سے کہا۔ بیٹا تو اب ماں کی پسند کو رہنے دے۔ اس نے شہر کھنگال ڈالا ہے اور دسیوں لڑکیاں دیکھ لی ہیں۔ اگر اسی طرح ناز نخرے کرتی رہیں تو تم عمر بھر کنوارے ہی رہ جائو گے اور تمہاری ماں کو کوئی لڑکی پسند نہیں آئے گی ، در اصل یہ تمہاری شادی ہی نہیں کرانا چاہتیں۔ تو چچی جان پھر آپ ہی میرے لئے کوئی لڑکی دیکھئے ورنہ میں کسی شہری لڑکی کو پسند کر کے خود ہی شادی کر لوں گا تو گلہ مت کرنا۔ ہاں بیٹے یہی تو میں بھی کہنا چاہتی ہوں کہ ماں کی پسند کو اب رہنے دے اور یہ فرائض مجھ کو سونپ دے، میں ایک ہفتہ میں ہی تیرے لئے چاند سی دلہن ڈھونڈ لوں گی، جوپڑھی لکھی، خوشحال گھرانے کی قبول صورت ہو۔ ڈرمت میں کوئی ان پڑھ یا بد شکل لڑکی ہر گز نہ لائوں گی۔ یہ بھی تکبر کے الفاظ تھے، تاہم جہانگیر نے چچی پر بھروسا کرلیا اور ماں سے کہہ دیا کہ اب آپ کو میرے لئے لڑکی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، آپ زحمت نہیں کریں۔ چچی میرا رشتہ کرائیں گی۔ ماں اپنا سا منہ لے کر خاموش ہو بیٹھی اور چچی نے رشتہ تلاش کرنے کی مہم سر کرنا شروع کر دی۔ انہوں نے پندرہ دنوں میں رشتہ تلاش کر لیا، لڑکی کا نام زارا تھا اور وہ ایک کالج میں لیکچرار تھی۔ جہانگیر کے والدین لڑکی دیکھنے لاہور گئے جبکہ وہ ملتان کے قریب ایک شہر مظفر گڑھ میں رہتے تھے۔ زارا کو دیکھا تو دم سادھ کر رہے گئے ، وہ نہ صرف عمر میں زیادہ تھی بلکہ سخت مزاج بھی نظر آرہی تھی۔ ان لوگوں نے دورسے آئے مہمانوں کی کچھ زیادہ آئو بھگت بھی نہ کی۔ انکل ابرار اور ان کی بیوی بد دل ہو گئے ، ان کو زارا ایک آنکھ نہ بھائی۔ جہانگیر کے دل میں والدین کی طرف سے غلط فہمی پیدا ہو چکی تھی کہ میرے والدین کمائی کھانے کی خاطر میری شادی نہیں کر رہے۔ جب ماں نے زارا کے عیب گنوائے تو اس نے کہا۔ ماں تم  پری کہاں سے لائو گی ؟ ہر لڑکی میں آپ کو عیب نظر آتے ہیں۔ آپ میری شادی ہی نہیں کرانا چاہتیں۔ اب میں شادی کروں گا تو چچی کے کہنے سے ہی کروں گا، بس آپ سے بات ختم۔ والدین نے لاکھ سمجھایا کہ لڑکی قبول صورت ہے۔ ہم کو اعتراض نہیں، مگر وہ عمر میں تم سے کم از کم چھ برس بڑی ہے ، چلو اس بات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں لیکن ان لوگوں میں مہمان داری کا شعور نہیں، بات کرنے کی تمیز نہیں اور لڑکی نے تو ایسے سخت لہجے میں بات کی لڑکیاں ایسی تو نہیں ہو تیں۔ یہ میں اس کے عیب تم کو نہیں گنوار ہی بلکہ سمجھا رہی ہوں۔ ماں وہ لیکچرار ہے، پڑھی لکھی ہے، اچھا خاصا کمارہی ہے۔ وہ محکمہ تعلیم میں ہے تو اس کو بات چیت کی تمیز کیوں کر نہ ہو گی، بس رہنے دیجئے ، میں آپ لوگوں کی نیت کو سمجھ گیا ہوں۔ آپ کو خدمت کرنے والی    نوکرانی جیسی لڑکی چاہئے ۔ مجھے بھی ضد ہو گئی ہے، اب میں شادی کروں گا تو زارا سے ہی کروں گا۔ آپ خوش ہوں یا ناخوش، مجھے پروا نہیں، غرض کہ جہانگیر نے اس رشتے کو آخری سمجھ لیا ماں کے خلوص پر تو شک کیا لیکن چچی کی نیت کو نہ سمجھا۔ بے شک آنٹی سے بھی غفلت ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں کچھ زیادہ ہی وقت گنوادیا۔ جب جہانگیر، زارا سے شادی پر اس قدر مصر ہوا کہ ماں باپ سے جھگڑنے لگا تو انہوں نے اپنے لاڈلے بیٹے کے روبرو ہتھیار ڈال دیئے اور شادی کی اجازت دے دی۔ لڑکی کی ماں تو بہت خوش تھی کہ ان کی لاٹری نکل آئی تھی۔ اتنا خوبصورت اور چھوٹی عمر کا داماد مل رہا تھا، وہ بھی ایک مشہور کمپنی میں انجینئر تھا۔ خوب بھاری تنخواہ لے رہا تھا۔ زارا دو بہنیں تھیں اور ان کے تین بھائی تھے۔ بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی ، اب یہ ان کی آخری لڑکی تھی۔ وہ زیادہ امیر نہ تھے مگر امیروں میں رشتہ کرنے کا بہت ارمان رکھتے تھے۔ انکل ابرار نے عمر بھر کفایت شعاری سے زندگی بسر کی تھی مگر اپنی جائیداد فروخت نہ کی کہ بچوں کے کام آئے گی۔ بیچ دی تو پھر یہ مکان نہ بنا سکیں گے ان کے چار بچے تھے اور چار ہی مکان ان کے والد کی طرف سے ان کو ملے تھے۔ ان کا تھوڑا تھوڑا کرایہ وہ لیتے تھے اور اپنے ضرورت مند رشتہ داروں کو کرائے پر بٹھا رکھا تھا کہ وہ کم از کم قبضہ تو نہیں کریں گے۔ بہر حال آنکل اور آنٹی بیٹے کی خوشی کی خاطر بہو کو خوش خوش بیاہ کر لے آئے، انہوں نے کوئی جہیز دیا اور نہ انہوں نے ہی کوئی مطالبہ کیا۔ زارانے آتے ہی سُسرال میں ہر کسی کو نیچی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔ بے شک ہر لیکچرار لڑکی ایسی نہیں ہوتی لیکن وہ لیکچرار کیا تھی، گویا ساری دنیا اس کی شاگرد تھی۔ ساس سسر بھی سب کہ اس کے شاگرد تھے۔ وہ بڑوں اور بزرگوں کے ساتھ بھی تحکم سے بات کرتی تھی۔ وہ اپنی تنخواہ میں سے ایک پیسہ بھی کسی کو نہ دیتی تھی بلکہ خاوند کی تنخواہ بھی اپنی مٹھی میں رکھتی تھی۔ سسرال والوں کو اشد ضرورت پر بھی بہت تھوڑے سے پیسے ناکوں چنے چبوا کر دیتی تھی، وہ بھی ان کے بیٹے کی تنخواہ سے۔ جہانگیر نے ایک روز اپنی ماں اور بہن کو خُوب بُرا بھلا کہا کہ اگر میرے گھر آنا ہے تو اپنے استعمال کی چیزیں ساتھ لایا کرو۔ میری بیوی کی چیزوں کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے اور بیوی کو کہا کہ اب میری بہن یا والدین آئیں تو تم اپنی چیزوں کو تالے میں بند کر دیا کرو۔ زارا ایسے ہی کرتی۔ وہ برتنوں تک کو تالے میں بند کر دیتی۔ ماں بچاری کا دل بہت ہی دُکھا۔ بھلا وہ بیٹے کے گھر پانی کا گلاس بھی نہ اُٹھا پائے تو ایسے گھر جانے کی کیا ضرورت ؟ اس سلوک سے دلبر داشتہ ہو کر آنٹی اور انکل نے بیٹے کے گھر جانے سے توبہ کر لی۔ زارا کا مزاج کچھ اس قسم کا تھا کہ اپنے میکے میں بھی اس کا رعب چلتا تھا۔ اس نے بھائی سے کہہ کر میاں کا تبادلہ ملتان کی برانچ میں کروا دیا۔ ایک دن جہانگیر نے کہا کہ مجھے وہ عورتیں پسند نہیں جو اپنے بال کٹوالیتی ہیں۔ عورت کو چاہئے کہ وہ برقع پہنے۔ اس نے یہ اس لئے کہا کہ وہ زارا کو فیشن کے بغیر دیکھنا چاہتا تھا۔ زارا نے اس کے بعد بال نہیں کٹوائے اور برقع بھی لے لیا لیکن اس نے شوہر کی شادی شدہ بہنوں سے بھی ان کے گھر جا کر کہا کہ تم لوگ آئندہ بال نہیں بنوائو گی اور برقع لو گی۔ جب ان کے شوہروں نے آکر انکل ابراراور ان کی بیگم سے شکوہ کیا کہ اپنے بیٹے سے کہو ، اپنی ہدایات وہ اپنی بیوی تک رکھے اور ہم کو ہمارے انداز سے رہنے دے۔ آنٹی نے دامادوں سے کہا کہ وہ بس کہنے کو ہماری بہو ہے، وہ نہ ہم کو ساس سسر کا درجہ دیتی ہے اور نہ ہم سے رابطہ رکھتی ہے، جیسے اپنی نیندوں سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتی، لہذا آپ لوگ جہانگیر کی بات کا برا نہ منائیں۔ زارا نے اس بات پر ساس سسر سے تعلق ختم کر دیا اور جہانگیر جو ہفتہ میں ایک دن ماں باپ کے پاس آجاتا تھا، اس سے کہا کہ ہمیں بڑے شہر چل کر رہنا چاہیے تاکہ ہمارے بچے بڑے ہوں تو ان کو اچھی تعلیم کے مواقع ملیں۔ اس نے شوہر کو اتنا مجبور کیا کہ اس نے لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور والدین کی طرف آنا جانا ترک کر دیا۔ زارا کے بھائی نے ایک بار پھر کوشش کی اور جہانگیر کا تبادلہ دوبارہ اسی کمپنی میں کروا دیا جہاں وہ لاہور میں پہلے کام کرتا تھا۔ زارا نے اپنا گھر کرائے پر اٹھایا اور خود شوہر کے ساتھ ماں کے گھر رہائش پذیرہو گئی، بہانہ یہ کیا کہ ادھر سے اس کا پرانا کالج جہاں وہ پہلے پڑھارہی تھی، نزدیک ہے ، وہ پھر سے اسی کالج میں پڑھانے لگی۔ زارا کی ماں خوش تھی کہ اس کی بیٹی اور داماد اس کے پاس تھے اور وہ ان کا خرچہ کبھی اٹھارہے تھے۔ ادھر انکل ابراراداس اور اس کی بیوی بیٹے کو یاد کر کے روتی تھی جس نے ان کو تقریباً بھلادیا تھا۔ جب بیوی ماں کے گھر آکر شیر ہو گئی اور سالوں نے بھی جہانگیر کو دبانا شروع کر دیا تو اسے اپنی سبکی محسوس ہونے لگی اور احساس ہوا کہ اس نے یہاں آکر غلطی کی ہے۔ وہ والدین کے پاس چھوٹے شہر میں ٹھیک تھا وہاں بھی اس کی کمپنی کی برانچ تھی اور تنخواہ بھی وہی مل رہی تھی مگر وہاں کام کا دبائو کم تھا اور والدین کی کبھی تو خیر خبر لے لیا کرتا تھا۔ اب زارا اپنے میاں کا ذرا سا بھی خیال نہیں رکھتی تھی۔ ساری تنخواہ یہ کہہ کرلے لیتی کہ ہم بڑی سی کوٹھی بنوائیں گے اور تھوڑی سی رقم اس کو اس کے ذاتی خرچے کے لئے دے دیتی تاکہ وہ اپنے والدین کو کچھ نہ بھجوا سکے لہذا جہا نگیر نے اس عرصے میں اپنے والدین کو کچھ کبھی نہ بھیجا۔ ایک بار وہ گھر آیا تو باپ نے کہا۔ بیٹا میں بیماررہتا ہوں اور جائیداد کا فیصلہ اپنی زندگی میں کرنا چاہتا ہوں۔ جہانگیر نے کہا۔ ٹھیک ہے، آپ ایسا ہی کر لیں۔ زارا نے فون کیا کہ اتنے دن وہاں کیوں رک گئے ؟۔ کیا نوکری کی فکر نہیں ہے۔ جہانگیر نے بتایا کہ اس نے کچھ دن مزید چھٹی لے لی ہے کہ والد صاحب جائیداد میں سے اس کا حصہ اسے دے رہے ہیں۔ زارا فورا سسرال پہنچی اور شوہر سے کہا کہ تمہاری بہنوں کو تم سے آدھا حصہ ملے گا لیکن تم اکلوتے ہو اور ان کی شادیاں امیر گھرانوں میں ہو چکی ہیں، ان کو اس تھوڑی سی جائیداد کی کیا ضرورت ہے ، اپنے والد سے کہو کہ وہ تمام جائیداد تم ہی کو دے دیں۔ جہانگیر نے باپ سے اصرار کیا کہ آپ جس مکان میں رہتے ہیں ، وہ اپنے نام رہنے دیں اور باقی تینوں مکانات مجھے دے دیں۔ باپ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو وہ ناراض ہو کر جانے لگا۔ باپ نے سوچا کہ بیٹیوں کو بلا کر ان سے پوچھ لوں ، وہ اس بات پر راضی ہو سکتی ہیں۔ میرا بیٹا اکلوتا ہے ، کبھی نہ کبھی بڑھاپے کی مجبوری کو دیکھ کر آخر ہماری خبر گیری کو آجائے گا۔ اس نے شادی شدہ بیٹیوں اوردامادوں کو بلوا کر مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ داماد خوشحال اور شریف خاندان سے تھے۔ ان بھلے آدمیوں نے کہا۔ انکل آپ حیات ہیں اور اپنی زندگی میں جو فیصلہ آپ کو مناسب لگے کریں، ہمیں آپ کے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ بہنوں نے بھی کہا کہ ہمارا اکلوتا بھائی ہے، ہمیں جائیداد سے کچھ نہیں چاہیے، بے شک آپ اپنے بیٹے کو راضی کر لیں تا کہ یہ آپ سے روٹھ کرنہ جائے۔ انکل نے وہ گھر ، جس میں رہائش پذیر تھے، اپنے پاس رہنے دیا کہ والدین کے بعد تینوں بیٹیوں کو ملے گا اور باقی مکانات جہانگیر کو دے دیئے۔ وہ جائیداد لکھوا کر خوشی خوشی بیوی کے ساتھ واپس لاہور چلا گیا۔ اس کے بعد اس نے والدین کی کوئی خبر لی اور نہ روپیہ پیسہ اور خط بھیجا۔ وواب سسرال میں ایک بے بس انسان کی طرح رو رہا تھا۔ اس دوران ان کے دو بچیاں ہو چکی تھیں۔ بیوی کالج پڑھانے جاتی تھی اور ساس ان کے بچوں کو دیکھتی تھی، لہذا زارا کہتی کہ ہم کو بچیوں کی وجہ سے اب یہاں رہنا ہی ہے ورنہ ان کو کون دیکھے گا۔ انہی دنوں انکل ابرار شدید بیمار ہو گئے، ان کو رقم کی ضرورت پڑی۔ ماں نے بیٹے کو فون کیا اور خط بھی لکھا کہ تمہارے والد بیمار ہیں کچھ رقم بھیجوا دو تا کہ تمہارے والد کو علاج کے لئے لاہور لائیں۔ زارا نے خط کو پڑھ کر پھاڑ دیا اور شوہر کو نہ دکھایا۔ اس دوارن بیٹیوں کو باپ کی بیماری کی خبر ہو گئی، وہ اپنے شوہروں کے ہمراہ آگئیں۔ باپ کو اسپتال لے گئے ، علاج کرایا مگر موت کا وقت مقرر ہے سو وہ وفات پاگئے۔ انہوں نے بھائی کو باپ کی فوتگی کی اطلاع کرائی، مگر سالوں نے جہانگیر کو بر وقت مطلع نہ کیا اور وہ باپ کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ بعد میں آکر رویا تو پھر کیا کہ جو ہستی اس کی دید کو ترستی ہوئی قبر میں چلی گئی، وہ آب واپس نہیں آسکتی تھی۔ ماں اب اکیلی اور بے سہارا رہ گئی۔ بیٹیاں شادی شدہ تھیں، وہ اپنے گھر چلی گئیں۔ انہوں نے ماں کو ساتھ لے جانا چاہا مگر آنٹی نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ ان کو بیٹے کے ملنے کی آس تھی۔ بیٹا آیا، ماں کو لے جانا چاہتا تھا مگر زارا نے کہہ دیا کہ ان کو وہیں رہنے دو، خرچہ بھجوادیا کرو۔ لاہور لانے کی ضرورت نہیں ورنہ میں طلاق لے لوں گی اور تمہاری بچیاں بھی تم کو نہیں دوں گی۔ تم ان کو دیکھنے کو ترس جائو گے۔ آنٹی نے جہانگیر کو سمجھایا بیٹا میرے تو جانے زندگی کے اب کتنے دن رہ گئے ہیں مگر تم نے ساری زندگی گزارنی ہے۔ تمہاری بچیوں کو تمہاری ضرورت ہے ۔ تم بیوی کے پاس ہی رہو ، مجھ سے ملنے آتے رہنا۔ میں اپنے گھر میں ہی ٹھیک ہوں تم میری فکر مت کرو۔ اس طرح انہوں نے بیٹے کو لاہور بھیج دیا اور خود اکیلی رہنے لگیں۔ دو چار ہار اس کے بعد ، جہانگیر ماں کے پاس آیا، بعد میں اس نے آنا بند کر دیا جبکہ ماں بیچاری تمام دن دروازے کی سمت دیکھتی رہتی تھی۔ شاید اس کا بیٹا آجائے۔ بیٹے کی محبت سے مجبور ہو کر آنٹی ایک بار لاہور بھی گئیں لیکن بہونے ایسا سلوک کیا کہ دوسرے دن ہی لوٹتے بنی۔ ماں بالآخر انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیاری ہو گئی۔ نہ وہ اپنی زندہ آنکھوں سے بیٹے کو نہ دیکھ سکی اور نہ بیٹے نے ماں کا آخری دیدار کیا۔ دامادوں نے آنٹی کو قبر میں اتارا اور بیٹیوں نے ماں کو آخری سانسوں تک سنبھالا۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ہم بھی آنٹی کو الوداع کہنے گئے تھے۔ سبھی کی آنکھوں میں آنسو تھے ، اور لوگ کہہ رہے تھے کہ بیٹی ہو یا بیٹا ! خُدا اولاد دے تو نیک دے، ورنہ بے اولاد ہی بھلے۔

Latest Posts

Related POSTS