ہمارا تعلق ایک پیر گھرانے سے تھا۔ مدتوں سے ہمارے بزرگ خلقِ خدا کو فیض پہنچاتے رہے تھے۔ میرے دادا عبادت گزار تھے۔ وہ کلامِ الہی پڑھ کر بے قرار انسانوں پر دم کرتے، جس سے ان کے دلوں کو قرار آ جاتا۔ یوں تو یہ اپنے اپنے یقین کی بات ہوتی ہے، لیکن نیک بزرگوں کی دعائیں قبول بھی ہوتی ہیں، لہٰذا جو مریض دوا سے اچھے نہ ہوتے، مرید ان کو ہمارے دادا کے پاس لاتے۔ دادا حضور ان مایوس دلوں کی خواہش کا احترام کرتے، ان کے لیے تہجد میں دعائیں کرتے اور ان کی تسلی کے لیے نقش بھی لکھ کر دے دیا کرتے۔ شفا اور سکون کی دولت میرے خالقِ حقیقی کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا کر دے۔ مرید اعتقاد کے ساتھ دعائیں لے کر جاتے تو اکثر شفایاب بھی ہو جاتے۔ دادا بدلے میں ان سے کچھ نہ لیتے، نہ کوئی نذرانہ قبول کرتے۔ یہ کام وہ فی سبیل اللہ کرتے تھے۔
ان کی وفات کے بعد والد صاحب نے ان کی جگہ لے لی۔ وہ بھی نیک اطوار اور عبادت گزار تھے، جیسا کہ دادا حضور نے ان کی اچھی تربیت کی تھی۔ یوں لوگ والد صاحب کے پاس آنے لگے۔ وہ ان کو مرشد مانتے اور خود کو مرید کہتے تھے۔ یہ سب لوگ پہلے دادا کے عقیدت مند تھے۔ یہ دنیا فانی ہے، انسان بھی فانی ہے اور ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ پس والد صاحب کی باری بھی آئی تھی، سو وہ معمولی بخار کے بعد ایک روز شدید بخار میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ تب میرے بھائی اسد اللہ خان بیس برس کے تھے۔ ہمارا سلسلہ نسب چشتی خاندان سے تھا۔ میرے والد کے بعد مریدین کا اصرار تھا کہ ان کی گدی پر بیٹے یعنی اسد اللہ کو بیٹھنا چاہیے۔ والد کی برسی پر بے شمار مرید پہنچے اور اسد سے التجا کی کہ وہ اپنے پردادا، دادا اور والد کی گدی سنبھال لیں، جبکہ میرا بھائی نئے زمانے کا نوجوان تھا۔ بے شک وہ بھی عبادت گزار اور نیک اطوار تھا، لیکن اس کا خیال تھا کہ وہ اس پیری مریدی کے سلسلے میں داخل نہ ہوگا۔ اس کے خیال میں دورِ جدید میں یہ سلسلہ اب ممکن نہ رہا تھا کیونکہ بہت سے ٹھگ اور فریبی موقع شناس جعلی پیر اپنے فائدے کی خاطر لوگوں کو لوٹ رہے تھے، لہٰذا جو صحیح نیک اطوار لوگ تھے وہ بھی ان لالچی لوگوں کے سبب اپنے خاندانی وقار سے محروم ہوتے جا رہے تھے۔ مریدوں نے جب بہت اصرار کیا تو ان کی عقیدت اور محبت کو دیکھ کر اسد نے امی جان سے مشورہ کیا۔ تب امی اور دادی نے سمجھایا کہ بیٹا، تم اپنے باپ دادا کی عزت کی لاج رکھو اور والد کی جگہ سنبھال لو۔ اس کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھنا۔ پڑھنے سے تم کو کس نے منع کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے خوشحالی سے نوازا ہے۔ کئی مربع زمین وراثت میں چلی آ رہی ہے۔ اس کی پیداوار سے خوشحالی ہے۔ ہمیں لوگوں سے روپیہ پیسہ کا لالچ نہیں ہے۔ علاقے میں جو عزت ہے، اس کو برقرار رکھنا مطلوب ہے۔ اچھے کام کرو اور دین سے جڑے رہو۔ والدہ اور خصوصاً دادی کے مجبور کرنے پر میرے بھائی نے مریدین کی خواہش پر سر تسلیم خم کر دیا اور انہیں گدی نشین بنا دیا گیا۔ پیری مریدی کی تربیت اور عبادت گزاری کی ترغیب انہیں بچپن میں بزرگوں سے ملتی رہی تھی، گھرانے کا چلن پاکیزہ تھا، اس لیے ہمارے دروازے دکھی اور ضرورت مندوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ بھائی کا کام نقش دینا، جادو اور تعویذ دینا نہ تھا۔ وہ ایم اے کے طالب علم تھے، ان کا وطیرہ لوگوں کو برائیوں اور شرک والی باتوں سے منع کرنا، عبادتِ الہی کی طرف راغب کرنا اور دعا کرنا تھا۔ پہلے دادا اور والد کے زمانے میں لنگر چلتا تھا، اب بھی ہمارے دروازے سے روزانہ بیسیوں غریب غرباء پیٹ بھر کر کھانا کھا کر جاتے تھے۔کہتے ہیں، چراغ تلے اندھیرا رہتا ہے۔ اسد بھائی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جس در سے بے شمار لوگوں نے فیض پایا، وہاں ایک مجبور لڑکی اپنا مدعا بیان نہ کر سکی۔ یہ لڑکی راج تھی، جو ہمارے گھر کی باندی تھی۔ وہ ایک یتیم لڑکی تھی، اس کی ماں ہماری ملازم تھی اور عمر بھر ہمارے ساتھ رہی تھی۔ یہ اس کی بیٹی تھی، جس کو ماں نے اپنی بیٹی بنا کر گھر میں رکھا اور پالا پوسا تھا۔ یہاں لوگ بے شک ملازمہ کی لڑکی کو باندی بلاتے مگر میری ماں نے راج کو کبھی ملازمہ نہیں سمجھا۔ اس کے ساتھ بیٹی جیسا برتاؤ کیا کیونکہ اس کے والدین ہمارے وفادار خدمت گزار رہے تھے۔ ایک بار جب وہ بچی تھی، ہمارے گھر کے قریب بہتی ندی میں گر پڑی تھی۔ اس وقت اسد بھائی وہاں سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے فوراً ندی کے ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگا کر اس کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔ جب یہ لڑکی بڑی ہو گئی تو میری والدہ نے اس کو زنانہ مہمان خانے میں مرید عورتوں کی دیکھ بھال پر معمور کر دیا۔جب بھائی نے والد صاحب کی گدی سنبھالی تو وہ ہفتے میں دو دن مرید خواتین کے مسائل سنتے اور ان کو حل کرتے تھے۔ راج باری باری سائل عورتوں کو ان کے سامنے لاتی اور وہ ان کا دکھ درد سن کر دعا کرتے۔ اگر کسی کو مالی مدد یا علاج معالجے کی ضرورت ہوتی تو اس میں معاون ہوتے۔ کسی کو شوہر سے شکوہ ہوتا یا کوئی اس پر ظلم روا رکھتا تو اسد تایا یا کوئی اور رشتہ دار ان کے شوہر کو بلا کر سمجھاتے اور تنبیہ کرتے، صلح کروا دیتے۔ اگر کسی کو روحانی سکون کی خاطر نقش وغیرہ درکار ہوتا تو وہ بھی لکھ کر دیتے۔ اس کام میں خود اسد بھائی کو سکون ملتا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ عبادت گزار، متقی اور پرہیزگار ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ کم عمری میں خاندانی دستار ان کے سر پر رکھ دی گئی تھی، تو وہ بڑے خلوص اور دیانت داری کے ساتھ اس کے وقار کی پاسداری کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مرید عورتوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ایک روز ضرورت مندوں کی قطار میں ہماری خاندانی ملازمہ راج بھی بیٹھ گئی۔
جب بھائی نے اس کا نام اور ماں کا نام دریافت کیا تو حیران رہ گئے کیونکہ یہ آواز وہ برسوں سے گھر میں سنتے آئے تھے۔ وہ پہچان گئے کہ یہ کوئی مرید عورت نہیں، بلکہ راج ہے۔ تب انہوں نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ واقعی راج تھی۔ انہوں نے مدعا پوچھا، مگر وہ کچھ نہ بول سکی بلکہ کانپنے لگی۔ اس کی حالتِ زار کی وجہ سے انہیں اس کی جانب متوجہ ہونا پڑا۔ آج پہلی بار انہوں نے اسے نظر بھر کر دیکھا۔ وہ معصوم بچی جو کبھی ندی میں گری تھی، اب ایک دوشیزہ بن چکی تھی۔ سولہ سالہ دوشیزہ، جس کی سادہ سی چادر میں اس کی رنگت چمک رہی تھی۔ اس کے معصوم حسن میں بھائی کو ایک عجیب کیفیت دکھائی دی، جس کو صبر و استقلال بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جو ارادہ دل میں کر لیں، پھر ان کے پایۂ استقلال کو جنبش نہیں ہوتی۔کیا بات ہے راج بی بی! انہوں نے کمال شفقت سے پوچھا۔ آج خود تم ضرورت مندوں کی قطار میں شامل ہو گئی ہو؟تبھی راج نروس ہو گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی، جیسے کسی مددگار کو ڈھونڈ رہی ہو۔ اسے گھبرایا ہوا دیکھ کر اس کی معاون ملازمہ لڑکی اس کے پاس آ بیٹھی اور بولی، پیر صاحب! یہ کچھ دنوں سے بیمار رہنے لگی ہے، اس پر دم درود کر دیں۔ یہ بیٹھے بیٹھے چونک پڑتی ہے اور کبھی ڈرنے لگتی ہے۔جن بی بی! یہ بتاؤ کہ اس کو کیا بیماری ہے؟ شاید ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بھی ضرورت ہو۔اس کو لاعلاج بیماری ہے، جس کا علاج ممکن نہیں، صرف دعا ہو سکتی ہے۔ آپ اس کے لیے دعا کر دیجیے اور دم درود کر دیجیے۔تم کو کیسے خبر ہو گئی کہ اس کا مرض لاعلاج ہے؟ جب کہ کوئی مرض لاعلاج نہیں ہوتا۔ قدرت نے ہر مرض کی شفا رکھی ہے۔جی صاحب، اس کو بے قراری رہتی ہے۔ اسے چین نہیں ہے، کسی کے خیال سے اس کی روح بے سکون ہے۔ یہ اب ساری دنیا سے بے نیاز ہو گئی ہے۔اسد بھائی سمجھ گئے کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے، مگر بات کو آگے بڑھانا مناسب نہ سمجھا۔ بولے، بے نیاز صرف اس کی ذاتِ پاک ہے اور وہی بااختیار ہے۔ راج! حق پاک اللہ کہو اور اپنے رب کی طرف دھیان دو۔ کیا تم کو والدہ صاحبہ نے نماز سکھائی ہے؟ پانچ وقت نماز پڑھ کر اپنے رب سے خود چین اور سکون کی دعا کیا کرو۔ میں بھی تمہارے لیے دعا کروں گا اور ایک نقش لکھ کر دیتا ہوں، اسے گلے میں ڈال لینا، دل کو قرار مل جائے گا۔اس واقعے کے چند ماہ بعد تک وہ بھائی کے سامنے نہ گئی۔ اب اس کی جگہ چندن ہی مرید عورتوں کو لا کر بٹھاتی اور خواتین کی میزبانی کے فرائض انجام دیتی تھی۔ پھر ایک دن اچانک راج، اسد بھائی کے سامنے آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ چندن کی ماں بھی تھی، وہ بولی، پیر صاحب! اس کی جانب خاص توجہ کریں۔ یہ واقعی بیمار ہے۔ آپ کے سامنے آتی نہ تھی، میں زبردستی لائی ہوں۔ اس پر نظرِ کرم فرمائیے۔میں نے کہا تھا راج بی بی سے کہ خود بھی اپنے لیے بعدِ نماز دعا کیا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات رحیم ہے، ہر بشر اسی کی نظرِ کرم کا محتاج ہے۔ تم روز اس کو مغرب کے وقت میرے پاس لایا کرو، میں اس پر دم کر دیا کروں گا۔ اماں جان سے بھی کہہ دوں گا کہ اسے ڈاکٹر کو دکھا لائیں۔ سب رپورٹیں دیکھنے کے بعد روحانی علاج ہوگا۔ ان شاء اللہ، طبیعت سکون میں آجائے گی۔ جو مرید عورتیں پردہ کرتی ہیں، وہ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں۔ یہ چاہے تو مجھ سے پردہ کر لے۔اب راج روز مغرب کے وقت بھائی کے پاس جانے لگی۔ جو نہی وہ مسجد سے نماز پڑھ کر آتے ، وہ سامنے ہوتی۔ رک کر اس پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرتے۔ یہ سلسلہ تین ماہ جاری رہا، مگر راج کی طبیعت نہ سنبھلی۔ وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگتی۔ کھانا پینا ترک کر دیا، کمزور اور زرد ہوتی جاتی تھی۔ اس کے روگ سے مگر کوئی واقف نہ تھا، سوائے میرے ، مجھے خبر تھی کہ وہ کسی کو چاہنے لگی ہے، مگر کس کو ؟ یہ ایسا راز تھا جو وہ کسی کو نہیں بتاتی تھی۔ اسد بھائی نے امی سے کہا کہ آپ راج کو کسی اچھے ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کو ضرور دکھائیے۔ اس کی صحت تیزی سے گرتی جارہی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے نام پر چہ لکھ کر دیا کہ یہ بہت اچھا معالج ہے۔ شہر کے بڑے اسپتال میں ہے ، وہاں دکھا دیں۔ اس کا مکمل علاج کروا دیں جتنا بھی خرچہ آئے ہم برداشت کریں گے۔ خرچے کی فکر نہ کرنا چاہیے۔ والدہ صاحب نے بھائی کو یقین دلایا کہ وہ ضرور اس بچی کو ڈاکٹر کے پاس کل ہی لے کر جائیں گی۔ یہ بھی کہا کہ میں دو سال سے حج پر نہیں گئی۔ بتاتی چلوں کہ میری ماں ہر سال حج کی سعادت حاصل کرتی تھیں۔
اگر حج پر کسی سبب نہ جا پاتیں تو عمرے کو چلی جاتیں۔ آپ ضرور امسال حج پر جائیے۔ میں تمام انتظام کر دیتا ہوں۔ تمہارے چچا اپنی بیٹی کی شادی کے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیں اور تم سے فائزہ کو بیاہنا چاہتے ہیں۔ اب تم شادی کر لو تا کہ میں بے فکر ہو کر حج پر جاؤں۔ گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ والدہ نے بیٹے سے رضا مندی لے لی اور چپ سے شادی کی تاریخ لینے چلی گئیں۔راج کو ہم نے شادی والے دن دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ اتنی کمزور اور لاغر ہو چکی تھی کہ بھائی اسد بھی اس کو دیکھ کر چونک پڑے۔ اس کا بیمار حسن، سادہ کپڑوں میں بھی کھلا پڑتا تھا۔ واقعی کچھ صورتیں خالق کائنات بہت توجہ سے بناتا ہے۔ اس دن کوئی جذبہ بھائی کے دل میں اس کے لئے پیدا ہوا، مگر یہ موقع نہ تھا کہ وہ اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے۔ راج نے بھی محسوس کر لیا کہ اسد بھائی دھیان سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں، تبھی وہ ہمت کر کے آگے بڑھی اور ان سے ہم کلام ہوئی۔ شادی مبارک ہو چھوٹے صاحب ! آج اس نے بھائی کو پیر صاحب کی بجائے چھوٹے صاحب کہا تھا کیونکہ والد صاحب کی حیات میں سبھی ملازم اسد کو چھوٹے صاحب ہی بلاتے تھے۔ خیر مبارک ، شکریہ راج بی بی ! مگر تم اتنے دن کہاں تھیں؟ کئی دن سے دکھائی نہ دیں۔ جندن کی ماں بولی۔ صاحب یہ میرے اور جندن کے ساتھ میرے کوارٹر میں ہوتی ہے۔ جب سے ڈا علاج چل رہا ہے ، بی بی صاحب نے مجھے اس کی دیکھ بھال پر مقرر کیا ہوا ہے اور اس کو کام بھی نہیں کرنے دیتیں تا کہ یہ آرام کر سکے۔ اچھا تو مجھے اس کی سب رپورٹیں دکھانا۔ یہ کہہ کر اسد بھائی مہمانوں میں چلے گئے، تبھی میں راج کے سے ڈاکٹر کا پاس گئی اور تسلی دی کہ تم ٹھیک ہو جائو گی۔ اللہ تعالی ضرور شفا دے گا۔ ٹیسٹ ایکسرے وغیرہ بھی ہو گئے ہیں، بھائی خود ڈاکٹر سے ملیں گے۔ فکر نہ کرو، علاج پورا کرانا ہو گا، مگر بھائی اسد کو دولہا بنا دیکھ کر جو راج کی حالت تھی اور جو تاثرات اس کے چہرے کے تھے ، میں نے سمجھ لیا کہ وہ کس کو چاہنے لگی تھی۔ وہ اسد بھائی ہی کو چاہنے لگی تھی، مگر حرف مدعا اور لبوں پر ان کا نام نہیں لا سکتی تھی۔ شادی کا ہنگامہ سرد ہوا تو میرے بھائی کو خیال آیا کہ راج کا احوال دریافت کرائیں، مگر ان کی دلہن نے کوہ مری جانے کی فرمائش کر دی۔ فوری طور پر دلہا دلہن کو مری روانہ ہونا پڑا اور بھائی راج کی رپورٹیں دیکھ سکے اور نہ حال احوال معلوم کر سکے۔ یوں تین ماہ گزر گئے۔ وہ اپنے طور پر مطمئن تھے کہ امی جان اس کا علاج کروارہی ہیں اور خیال بھی رکھ رہی ہیں۔ راج مگر ٹھیک ہونے کی بجائے بیمار ہو گئی تو امی جان نے دوبارہ ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ خود اسپتال لے گئیں۔ راج کو فوری طور پر اسپتال میں داخل کر لیا گیا۔ اسد بھائی کو پتا چلا تو وہ بھی اسپتال پہنچے۔ وہاں جندن کی ماں راج کے سرہانے بیٹھی تھی۔ والدہ ڈرائیور کے ساتھ گھر لوٹ آئی تھیں۔ بھائی نے اس سے کہا کہ راج اتنی بیمار ہے لیکن یہ میرے پاس دعا کرانے بھی نہیں آئی اور نہ تم نے احوال دیا۔ چھوٹے صاحب جی ! میں تجھی تھی کہ آپ کی والدہ نے احوال دیا ہو گا۔ میں شادی میں مصروف تھا اور وہ شاید مجھے ایسا احوال دے کر پریشان نہ کرنا چاہتی تھیں، جس کی وجہ سے میں اور میری نئی نویلی دلہن کی خوشیوں کے دن متاثر ہوں، تبھی انہوں نے راج کی بیماری میں خود ہی اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ راج علاج سے رفتہ رفتہ ٹھیک ہو ہی جائے گی مگر افسوس ہے کہ تم نے بھی کچھ نہیں بتایا اور راج بھی دوبارہ میرے پاس نہیں آئی تو میں یہی سمجھا یہ ٹھیک ہو گئی ہے۔ صاحب جی، میں نے تو بہت کہا تھا کہ چھوٹے صاحب جی کے پاس چلو، لیکن یہ مانتی نہیں تھی۔ کہتی تھی کہ وہ تو پیر صاحب ہیں ، ا ، اس وجہ سے ان کو میر امرض معلوم ہو چکا ہو گا۔ وہ ضرور میرے لئے دعا بھی کرتے ہوں گے، لیکن دعا اس لیے قبول نہیں ہو رہی تھی کیوں کہ مرض ہے ہی لا علاج۔ میں اچھی ہو ہی نہیں سکتی پھر آپ کے پاس جا کر بار بار پریشان کرنے سے کیا حاصل تھا جب کہ آپ اپنی شادی کی وجہ سے خوشیوں کے دنوں میں ہیں۔ راج ٹھیک کہتی تھی۔ اسد بھائی جس دن اس کی عیادت کے لیے اسپتال گئے تھے، اس دن بھی اس سے یہ نہ پوچھ سکے کہ اس کا مرض کیوں لاعلاج ہے ؟ شاید وہ بھی جان چکے تھے کہ یہ لڑکی اُن کو چاہتی ہے مگر مرتبے کا بڑا فرق ہے ، اس لیے مہر بہ لب رہنے میں اپنی عزت و عافیت سمجھتی ہے۔ راکھ میں دبی چنگاریوں کو جان بوجھ کر کریدنے سے کیا فائدہ تھا۔ اس واقعہ کو بمشکل چار روز گزرے تھے کہ ہمارے منشی نے اسپتال سے آکر بتا یا کہ راج کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ سن کر میں اسد بھائی اور امی فوراً اسپتال چلے گئے۔ راج کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ اسد بھائی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ راج بی بی تم کو کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے آنکھیں کھول دیں پھر بمشکل زبان کھولی۔ آپ تو پیر صاحب ہیں اور میں سمجھتی تھی کہ جو پیر صاحب ہوتے ہیں، ان کو مرید کے دل کا حال خود به خود معلوم ہو جاتا ہے، مگر آپ کیسے پیر تھے کہ میرے دل میں جو بات تھی وہ آپ نہیں جان سکے۔ راج بی بی ! پیر ہوں یا بزرگ، سب اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہم صرف دعا کرتے ہیں ، سچے دل سے دکھ بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ہیں تو بندے ہی نا! تو میں نے بھی تمہارے لیے دعا ہی کی تھی۔ آپ نے صرف دعا کی مگر علاج نہیں اور میرے دل کی پریشانی کا علاج صرف آپ کے پاس تھا۔ کاش آپ بن کہے جان سکتے۔ کاش آپ سچے دل سے دعا کرتے۔ سچے دل سے اگر دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی تو اس کا مطلب ہے کہ دعا کرنا بھی بیکار ہے۔ ایسا مت کہو راج بی بی! تم کو سچے اور جھوٹے کی پہچان نہیں ہے۔
یہ دنیا سچے لوگوں کے دم سے ہی قائم ہے ، جن کی دعائوں سے زمین کو تازگی ملتی ہے اور خشک سالی میں بھی پانی برس جاتا ہے۔ یہ راز اللہ والے جانتے ہیں۔ اگر تم م نے ہے۔ یہ راز جان لیا ہوتا، تو مرض کو لا علاج کہنے کے بجائے کچھ مانگ لیا ہوتا، مگر تم نے تو کبھی مجھ سے کچھ مانگاہی نہیں۔ میں جو کچھ مانگنا چاہتی تھی، نہیں مانگ سکی۔ کیا مانگنا چاہتی تھیں ؟ اب بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ اب زندگی باقی نہیں ہے۔ کیا آپ کو ڈاکٹر نے نہیں بتایا؟ مجھے خون کا کینسر ہے اور کیا آپ کو میری رپورٹیں نہیں دکھائیں؟ ہاں اب بتایا ہے اور تمہاری رپورٹیں بھی دکھائی ہیں۔ تو اب آپ سے یا کسی سے بھی کچھ مانگ کر کیا کروں گی؟ ایک آروز ہے کہ جب میں مر جاؤں تو آپ میری میت کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار دینا۔ راج نے دم آخر ہمت کر کے وہ بات کہہ دی، جو میرا بھائی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہوئے بھی اس سے نہ پوچھ سکا تھا، کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ راج کو کیا مرض ہے اور واقعی وہ لاعلاج مرض تھا کہ اسے میرے بھائی سے محبت تھی، جس کا اظہار بھی اس کے لئے ایک بڑا امتحان بھتا اور نہ بتا کر بھی وہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گئی تو پھر نہ اٹھ سکی۔ یوں موت کے منہ میں چلی گئی۔ راج کی موت پر بھائی بہت دکھی تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ہی اس کی مایوسی کی وجہ تھا۔ سماج کے بندھنوں میں جکڑ کر جان بوجھ کر تغافل برتتا رہا۔ جو بات ممکن ہو سکتی تھی، اسے نا ممکن ہی رہنے دیا اور اب مجھے اس بات کا دکھ زیادہ ہے کہ میری وجہ سے اس کو اتنا دکھ جھیلنا پڑا کہ وہ موت کے منہ میں ہی چلی گئی، آہستہ آہستہ خاموشی سے مرتی رہی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یک طرفه عشق یا محبت کا دوسرا نام موت ہی ہے۔ انسان زندہ بھی رہے تو اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ بھائی سچ کہہ رہے تھے، کیونکہ وہ خود اس سے تغافل برتتے رہے۔ اگر چاہتے تو اسے بیکراں خوشیاں دے سکتے تھے کیونکہ وہ ان کی باندی تھی، ان کے اختیار میں تھی مگر بھائی ایک باعزت زمیندار تھے اور اس کے اختیار میں نہ تھے۔ وہ چاہتے تو باندی سے نکاح کے دو بول پڑھو سکتے تھے۔ با اختیار مرد اگر چاہے تو طبقاتی فرق کو مٹا سکتا ہے۔ باندی سے نکاح کر کے اس کی حیثیت بدل سکتا ہے۔ اسد بھائی کے پاس کسی شے کی کمی نہ تھی۔ مذہب کی رعایت بھی تھی۔ امی راج سے اپنی بیٹیوں جیسا پیار کرتی تھیں۔ اس کو مڈل تک پڑھایا لکھایا۔ وہ خوبصورت اور صابر تھی۔ اس میں اس ایک حامی کے کوئی کمی نہ تھی، کہ اس نے ایک غریب عورت کی کوکھ سے اس نے جنم لیا تھا، اسی وجہ سے اس کی تقدیر نہ بدل سکی اور وہ اپنے پیار کی شدت کو سینے میں دبائے خاموشی سے بغیر کسی سے اظہار کیے قبر میں اتر گئی۔