Friday, October 11, 2024

Khush Fehmi Kay Sahare

تایا کا گھر ہمارے مکان کے سامنے تھا۔ کشور ان کا بڑا بیٹا تھا۔ وہ دادی سے ملنے ہمارے گھر آتا تھا۔ دادی بھی اس کا انتظار کرتی تھیں ۔ جس روز وہ نہ آتا ، بے چین ہو جاتیں۔ نوکرکوبھیج کر اسے بلواتیں، پھر ڈانتیں کہ کیوں نہیں آئے؟ اس کا ہاتھ چومتیں، باتیں کرتیں ، تب ہی ان کی تسلی ہوتی، جیسے بے قرار دل کو قرار آ گیا ہو۔ دادی کا بھی عجیب رشتہ تھا۔ انہوں نے بچپن میں ہم دونوں کو پالا تھا، تب ہی ہم سے ان کو بہت پیار تھا۔ وہ کشور کو بتاتیں کہ جب تم پیدا ہوئے سب سے پہلے میں نے تم کو گود میں لیا تھا۔ تم چھوٹے ہوتے اور تمہاری ماں کام میں لگی ہوتی ، تو تم میرے بازوؤں میں سو جاتے ، پھر جب پاؤں پاؤں چلنے لگے، میرے پیچھے لگے رہتے۔ میں تمہیں لوری سنائی اور جھولے میں سلاتی ۔ دادی یہ باتیں ایسے کرتیں، جیسے آنکھیں بند کر کے ماضی کے سنہرے دنوں میں چلی گئی ہوں ۔ کشوران کی باتیں سنتا لیکن اس کا دھیان میری طرف رہتا، چونکہ ہم بچپن میں ساتھ کھیلے تھے۔ جب گھر میں ہم دو ہی بچے تھے۔ جب دادا فوت ہو گئےتو تایا کو سامنے والا مکان مل گیا اور وہ فیملی کے ساتھ وہاں چلے گئے ، جبکہ ابا نے دادی کے ساتھ رہنا پسند کیا۔

کبھی دادی اپنے دل کی خواہش بیان کر دیتیں، میں کشور کو رانی کا دولہا بناؤں گی۔ تب ہی وہ کہتا۔ رانی دیکھو تو دادی کتنے سندر سپنے دیکھتی ہیں ۔ ابھی تو ہم پڑھ رہے ہیں، شادی کب ہوگی تم سے ہوگی، بتاؤ تو ؟ میں کیا جانوں، اللہ کو پتا ہے۔ میں جواب دیتی۔ ہمارا بی اے کا نتیجہ آ گیا تو کشور نے یونی ورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ میں نے بھی پڑھائی جاری رکھی۔ میری کشور سے دوستی تھی لیکن میں یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے میں ایک دن اپنی زندگی میں امید کے روشن دیے کو بجھتا ہوا دیکھوں گی ۔ میرے دل میں کشور کے لیے بہت جگہ تھی لیکن اس کے دل میں میرے لیے کیا تھا؟ مجھے نہیں پتا۔ جب میں نویں جماعت میں بھی، تب سے ہی میرے دن اس نے مجھے بتایا کہ یہ چاہت کا جذبہ ہے پاگل ! تم مجھ سے پیار کرتی ہو۔ جس دن اس نے مجھے یہ بتایا ، تب سے اندر، ایک احساس پلنے لگا تھا۔ پہلے تو میں اس سے یوں ہی بچپن کے لگاؤ سے ملتی تھی، بعد میں میرا دل اس کی جانب کچھ زیادہ ہی جھکنے لگا۔ کتاب پڑھتی تو اس کی صورت دکھائی دینے لگتی ، خواب میں بھی وہی نظر آتا۔ میں اپنے خوابوں کا تذکرہ جب کشور سے کرتی تو وہ بہت خوش ہوتا اور کہتا تھا کہ تم بھی سمجھ جاؤ گی لیکن مجھے اس کی بات سمجھ میں نہ آتی۔ ایک ہمارے بیچ سارے فاصلے مٹ گئے۔ ہم دونوں میں جو تکلف تھا، وہ راستے کی دھول کی طرح غائب ہو گیا۔ ہمیں آپس میں باتیں کرتے دیکھ وادی اعتراض نہ کرتیں بلکہ خوش ہوتیں۔ کہتیں کہ میں اگر زندہ رہی، تو دیکھ لینا کشور ! رانی کو تیری دلہن بناؤں گی۔

یونیورسٹی کے دو سال بھی پلک جھپکتے گزر گئے۔ تایا نے بھاگ دوڑ کی تو کشور کو ایک کالج میں لیکچررشپ مل گئی ۔ وہ کہتا تھا کہ تم میرے لیے لکی ہو۔ تمہارے میری زندگی میں آنے کی باتیں ہوتی ہیں اور مجھے جاب مل گئی ہے۔ وہ ملازمت ملنے پر بہت خوش تھا۔ صبح کو وہ کالج چلا جاتا اور میں یونی ورسٹی، لیکن شام کو ہم ضرور ملتے اور ایک دوسرے کو روزمرہ کے حالات سے آگاہ کرتے ۔ وقت سرکتا گیا اور ہمارے روزانہ کے ملنے اور باتیں کرنے کا سلسلہ چلتا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کشور کی محبت میرے دل میں بسیرا کرتی جا رہی تھی۔ اب مجھے ایک پل بھی اس کے بغیر چین نہ آتا تھا۔ یونی ورسٹی میں بھی دل نہ لگتا۔ کبھی کسی رشتہ داروں کے گھر جانا ہوتا ، تو وہاں بھی چپ بیٹھی رہتی، کسی سے بات نہ کرتی۔ میرا ہر پل صدیوں کے برابر گزرتا تھا۔ سب ہی مجھے دیکھ کر پریشان ہوتے کہ اتنا ہنسنے بولنے والی لڑکی خاموش کیوں ہے؟ پھر اچانک ہی مجھ کو دنیا تبدیل ہوتی محسو ہوئی ۔ کشور مجھ سے دور دور رہنے لگا۔ پہلے وہ مجھ سے اتنی باتیں کرتا تھا اور اب سامنے آنے سے بھی کترانے لگا۔ شاید دادی نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا ۔ وہ ابا کے کان کھانے لگیں کہ کشور برسر روزگار ہو گیا ہے، اب جلدی سے اس کے ساتھ رانی کی منگنی کر دو ۔ ایسے کاموں میں دیر ٹھیک نہیں ۔ لڑکے ہو نہار ہوں تو باہر کی لڑکیاں ان کو لبھا لیتی ہیں۔ ابا کہتے کہ رانی کو ایم اے تو کر لینے دو۔ ابھی وقت پڑا ہے، کشور کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔ گھر کی بات  ہے، جلدی کیا ہے؟ لیکن دادی ٹھیک سوچتی تھیں ۔ کشور بدل رہا تھا۔ میں سوچ سوچ کر ہی رونے لگتی کہ وہ اب ہفتوں نہیں آتا تھا، مجھ سے بات نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس کو فرق نہیں پڑتا تھا۔ جب اس کا سبب سمجھ میں نہ آتا ، سوچ سوچ کر بالکان ہو جاتی۔ ہر وقت روتے رہنے سے سر میں درد رہنے لگا تھا۔ سال بھر سر درد نے پیچھا نہ چھوڑا- نماز پڑھ کر دعا کرتی ، سجدے میں روتی رہتی ۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر وقت کی دعا کو کسی دن ضرور سن لیتا ہے ، صد شکر کہ میرے دل کو اس نے صبر دے دیا۔ اب میں روتی نہ تھی اور میرے سر میں درد بھی نہ ہوتا تھا۔ میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا کہ وہ جو کرے گا، بہتر ہوگا۔

میرے اس طرح سوچتے رہنے سے کیا ہو گا ۔ اللہ تعالٰی نے میری دعا ئیں سن لیں۔ ایک بار پھر میری زندگی میں بہار کسی اچھے موسم کی طرح، خوشیوں کے پھول کھلانے آ گئی۔ کشور کا برتاؤ میرے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ اچھا ہونے لگا۔ اب وہ بھی کبھی میرا ہاتھ بھی تھام لیا کرتا اور کبھی قریب بیٹھ کر پیار سے کہتا کہ گھبرایا نہ کرو تم میری ہی امانت ہو۔ اس بات پر میں شرما جاتی تھی لیکن یہ سب مجھے بہت ہی اچھا لگتا تھا۔ جب بھی وہ گلی سے گزرتا ، اس کی نگا ہیں ہمارے دروازے یا پھر اوپر والی منزل کی طرف ہوتیں، جہاں میرا کمرہ تھا۔ اس کی کھڑکی سے میں اسے دیکھا کرتی تھی۔ وہ مجھے اکثر کہتا کہ رانی ! میرے لیے دعا کیا کرو۔ میں ایک کامیاب آدمی بننا چاہتا ہوں۔ اس کی ہر بات میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی کہ اتنا اچھا ساتھی ملا ہے۔ دعا کرتی تھی کہ یہ ہمیشہ خوش رہے اور اس کے دل کا ہر ارمان پورا ہو۔ اس نے مجھ سے کئی وعدے کیے تھے، جن کو زندگی سمجھ  کر میں نے اس پر اعتبار کر لیا تھا، کیونکہ محبت اندھی ہوتی ہے۔   خاص طور پر جب ایک عورت محبت کرتی ہے، تو وہ دل و جان  بھی نچھاور کر دیتی ہے۔ میں نے بھی کشور کو اپنی زندگی سے بڑھ کراہمیت دی اور چاہا تھا۔ وقت کا کانٹا گول چکر میں گھومتا رہا۔ میں یقین کی مسرتوں میں کھوئی  ہوئی تھی – لیکن دن پہلے جیسے نہیں تھے ، تب ہی حالات میری سوچوں کے  مقابل آ گئے۔

کشور کا ایک خواب تھا تھا کہ وہ گاڑی خریدے۔ میں دن  رات اس کا خواب کے پورا ہونے کی دعا کرتی ۔ خدا نے میری سن لی اور اس نے گاڑی خریدنے کی خوش خبری سنائی۔ میں خوش تو بہت ہوتی، مگر اگلے دن سے ایک اداسی کی چادرمجھ پر تن گئی۔ گاڑی لیتے ہی کشور نے ہمارے گھر آنا کم کر دیا۔ میں اکثر دیکھتی کہ وہ گاڑی میں بیٹھا ہوا گھر والوں کے ساتھ کہیں جا رہا ہے۔ جب میں اس سے ملنے جاتی تو وہ بہت خوش اخلاقی سے ملتا لیکن پھر اگلے ہی لمحے کہتا کہ مجھے کہیں جا نا ہے، کوئی ضروری کام ہے، واپس آ کر تم سے بات کروں گا۔ جب بار بار ایسا ہونے لگا تو اس کے یہ الفاظ تیز دھار نیزے کی طرح میرے دل میں ترازو ہونے لگے۔ کار خریدنے کے بعد اس نے ایک بار بھی مجھے کہیں جانے کو نہیں پوچھا، جبکہ میرے اوپر کوئی پابندی نہیں تھی۔  میں یونی ورسٹی کی طالبہ تھی، اس کے ساتھ جا سکتی تھی، مگر اس کا دل نہ چاہا کہ ایک بار بھی وہ مجھے اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھا لے۔ اب جب بھی گلی سے گزرتی ، اس کی کار کے پاس رک کر اس سے باتیں کرتی ، جیسے وہی میری غمگسار ہو۔ ان دنوں کشور کی بے رخی میری جان لیے جارہی تھی۔ میں نے زندگی بھر اس بات کا احساس کیا کہ میری طرف سے کسی کو دیکھ نہ پہنچے لیکن جانے کون سی خطاء کب مجھ سے سرزد ہوئی تھی ، جس کی سزا مجھے کشور کی بے نیازی کی صورت مل رہی تھی، جو بچپن کا ساتھی تھا، جو ہاتھ پکڑ کر مجھ کو اپنی جانب کھینچا کرتا تھا ، اب بات کرنے سے بھی گریزاں تھا۔ جی تو چاہتا تھا زہر پی کر اس پل پل ملنے والے دکھ سے چھٹکارا حاصل کرلوں ، لیکن وقت کو یہی منظور تھا کہ پل پل اس کڑی آزمائش سے گزروں ۔ ان دنوں دادی بھی بڑی فکرمند تھیں ۔ اس نے دادی کے پاس آنا اور ان سے ملنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ ابا سے کہتیں کہ لڑکا بدل رہا ہے۔ میں نہ کہتی تھی کہ جلدی رانی کی کشور سے منگنی کر دو۔ اب دیکھو کہ ہم اس کی صورت تک دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ یہ لڑکا ضرور کسی اور کے چکر میں آ گیا ہے۔ تب ابا جواب دیتے ۔  منگنی سے پہلے اس کی فطرت کا پتا چل جائے تو اچھا ہے۔ بعد میں میری بیٹی سے بے وفائی کرجاتا تو کیا کرتے۔

ان دنوں اگر کوئی فقیر مجھ سے کچھ مانگتا تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے ۔ سب یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے کہ جب کوئی بھکاری میرے سامنے سوال کرتا ہے تو میں روتی کیوں ہوں؟ میرے دل کی بات سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں اللہ کی بارگاہ میں خوشیوں کی بھکاری تھی۔ بالآخر وہی ہوا ، جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ وہ مجھے اپنے پیار کی راہوں پر دو قدم ہم راہ چلا کر خود ہی میرا ساتھ چھوڑ گیا۔ اس نے ساتھ پڑھنے والی ایک لڑکی کو پسند کر لیا تھا اوروہ بھی لیکچرار بن گئی تو اس کے ساتھ شادی کا کرنے کا سوچ لیا۔ یہ خبر تائی لائیں اور دادی کو بتا دیا کہ کشور کسی اور لڑکی کو شریک حیات بنانا چاہتا ہے۔ دادی نے تو کلیجہ تھام لیا اور مجھے دیکھ کر زار و قطار رونے لگیں۔ میں ان کے گلے لگ گئی، ان کو چپ کرانے لگی، حوصلہ دینے لگی کہ دادی! آپ کیوں غم کرتی ہیں، کیوں روتی ہیں ؟ ہر انسان کو اپنی خوشیاں تلاش کرنے اور ان کو پانے کا پورا حق ہے۔ رونے کی بجائے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالی کشور کو خوشیاں دئے۔ آپ جیسے مجھ سے محبت کرتی ہیں، ویسے ہی ان سے بھی تو کرتی ہیں نا! ان کی خوشیوں کا سوچئے۔ خوشیوں کے لیے زبردستی تو نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو ہر کسی کو اس کے نصیب سے ملتی ہیں۔ یہ کہتے کہتے خود میں بھی رورہی تھی ۔ جی چاہتا تھا ننھی سی بچی بن کر دادی کی گود میں سمٹ کر سو جاؤں اور ساری دنیا کی فکروں سے آزاد ہو جاؤں۔ دادی مجھے سنبھالتیں، پیارسے تھپکتیں، میراغم آدھا رہ جاتا لیکن اب تو اپنے ساتھ ساتھ دادی کو بھی سنبھالنا تھا۔ جلد ہی تایا کے گھر سے کشور کی شادی کا کارڈ آ گیا۔ وہ اپنی پسند سے اپنی کولیگ کے ساتھ شادی کر رہا تھا۔ قریبی رشتہ تھا ، ایک ایک خاندان تھا۔ سب ہی نے شادی میں شرکت کرنی تھی لیکن میں اور دادی نہ گئے ۔ دادی نے بہانہ کیا کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے نہیں جارہی اور میں نے کہا ۔ کہ دادی گھر میں اکیلی ہیں، ان کو کون دیکھے گا۔ میں ان کی وجہ سے نہیں جارہی ہوں ۔ جس دن شادی تھی ، ہم دونوں کے دل ویران تھے اور ہم ماضی کے جھرونکوں سے موسم بہار کا منظر تلاش کر رہے تھے۔

 شادی ہو گئی۔ میرے کان شادیانوں کی آواز سن رہے تھے۔ ایک ایک پل، ایک ایک ساعت مجھ پر قیامت بن کر ٹوٹتی رہی ، میرا خدا جانتا ہے کہ وہ اذیت سے بھرا وقت – میں نے کیسے گزارا، اور میں نے کیا گزارا، وقت اپنے بھاری قدموں سے مجھ کو روندتا ہوا گزر رہا تھا۔ اس وقت کی تکلیف کو کس طرح بیان کروں۔ جانے کون خوش نصیب تھی ، جو دلہن بن کرتایا کے گھر آ رہی تھی۔ مجبوری دیکھئے کہ میرے ماں باپ کو اپ کو بھی شادی میں جانا پڑا۔ سب ہی گھر والے شادی والے گھر تھے اور میں، دادی کے ساتھ غم  کے سمندر میں ڈوبی ہوئی، سسکیاں لے رہی تھی۔ دل سے کہہ رہی تھی کہ اب تو سنبھل جا! اے کاش کشور یہ نہ کہتا کہ تم میری امانت ہو۔ اس ایک فقرے نے مجھے یقین کے بندھن میں جکڑ لیا تھا اور میں نے اس کی محبت کو مئے دو آتشہ کی مانند اپنے دل میں اتار لیا تھا۔ اچھا ہو یا برا، وقت آخر بیت ہی جاتا ہے۔ تکلیف کی ریل گاڑی مجھ پر سے بھی گزر گئی، میں اپنے وجود کو ریزہ ریزہ چنتی رہ گئی۔ اپنے دل کے خون سے کشور کی یادوں کو ماضی کے صفحات پر لکھتی جاتی تھی اور نیر بہاتی جاتی تھی۔ مجھے اس کی شادی کے دکھ سے زیادہ اس بات نے تکلیف دی تھی کہ دادی نے اپنی محبت میں، مجھے بھی سنہرے خوابوں کی جنت میں دھکیل دیا تھا۔ اس وقت جب میں کم سن تھی اور زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو نہیں  سمجھتی تھی ، کشور نے اس آتش کو اور رنگ و روپ عطا کر دیا ، اس بات کا یقین دلا کر کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھ سے ہی شادی کرے گا۔ ایک بار جب کوئی اپنے خیالوں کی جنت اس طرح آباد کر لیتا ہے، تو پھر اس سے باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے، مگر مجھے تو خواب دکھا کر جنت بدر کر دیا اورکسی اور کے ساتھ اپنی فردوس بریں سجانے کا تہیہ کر لیا –

عرصہ بیت گیا ، لگتا ہے یہ دکھ آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہے، میرا زخم دل ہرا ہے اور ہرا ہی رہے گا۔ مجھے نہیں خبر کہ کشور خوش ہے یا نا خوش؟ خدا جانے، مگر میں اب بھی اس کے لیے خوشیوں کی دعا کرتی ہوں۔ میں نے بھی بطور لیکچرار اپنا کیریئر بنایا۔ کئی رشتے آئے ، سب کو انکار کر دیا۔ دل شادی پر آ مادہ ہی نہ ہوا۔ یہ دل بھی عجب شے ہے، اس پر کسی کا اختیار نہیں ۔ مجھے یقین ہے، وہ مجھے بھول چکا ہو گا، لیکن میرا دل تو آج بھی اسی بے وفا کو یاد کرتا ہے، جس کو میرا احساس نہیں۔ خود فریبی کے سہارے اتنا وقت بیت گیا ، اب بھی یہی کہتا ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی ضرور مجھے یاد کرے گا۔ دوگھڑی کو ہی سہی، لوٹ کر میرے پاس آئے گا۔ اپنی بے وفائی پر شرمندہ ہو کر مجھ سے معافی بھی طلب کرے گا۔ شاید یہ میری خوش فہمی ہو، کچھ لوگ محض خوش فہمی کے سہارے جیون بتا دیتے ہیں، میں بھی یقینا ان ہی میں سے ایک ہوں۔

Latest Posts

Related POSTS