آج اس قدر مہنگائی بڑھ گئی ہے کہ خوشحال گھرانے بھی معاشی پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ جب میں نے بی اے کیا تھا تب ملازمت کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ سوچا بھی نہ تھا کبھی ملازمت کرنا پڑے گی۔ تاہم دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ والد کے انتقال کے بعد بڑے بھائی نے ہمیں کچھ دن سہارا دیا، پھر وہ اپنی بیوی کی خوشنودی کی خاطر دوسرے مکان میں شفٹ ہوگئے اور ان سے ہمارا تعلق برائے نام رہ گیا۔
کبھی معمولی رقم والدہ کو دے دیتے، کبھی وہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ ہم مالی پریشانیوں میں گھر گئے تب مجھے احساس ہوا کہ عورت کے لیے کبھی کبھی ملازمت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ میں نے اپنی ایک سہیلی سے تذکرہ کیا جو ایک کمپنی میں جاب کررہی تھی۔ اس نے کہا۔ کل ٹھیک صبح سات بجے میرے گھر آجانا، میں تمہیں ہمراہ لے چلوں گی اور اپنے باس سے ملوا دوں گی۔ انہیں کچھ ورکرز کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے تمہیں جاب پر رکھ لیں۔
اگلے دن میں صبح سویرے عائشہ کے گھر پہنچ گئی۔ وہ جس کمپنی میں کام کرتی تھی، وہاں اور بھی کئی لڑکیاں ملازم تھیں، چونکہ میری دوست محنتی، خوش اخلاق اور ہنس مکھ تھی، تبھی سب اسے چاہتے اور عزت کرتے تھے۔ باس کی رائے اس کے بارے میں اچھی تھی۔ عائشہ کی سفارش پر مجھے ملازمت مل گئی تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ جاب کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لیے شروع دنوں میں کچھ گھبرائی لیکن عائشہ ہمت بندھاتی۔
وہ ہر مرحلے پر میری مدد کرنے لگی۔ اس طرح میں نے جلد کام سیکھ لیا اور مجھ میں اعتماد پیدا ہوگیا۔ جہاں عائشہ کو سب عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہاں کچھ ایسے بھی تھے جو اس کی برائی کرتے تھے۔ دراصل وہ مردوں سے لیے دیئے رہتی تھی اور بلاضرورت ایسے لوگوں سے بات نہیں کرتی تھی جو لڑکیوں کو غلط نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے عائشہ کو ایسی ویسی لڑکی سمجھ کر فری ہونے کی کوشش کی۔ جن مردوں نے اس سے غلط امیدیں لگا لی تھیں، وہ اب پس پردہ اس کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ اس کی ذرا سی غلطی کو بھی افسر کو دکھانے سے نہ چوکتے تھے۔ انہی دنوں ایک نئے افسر ارسلان کا ہمارے آفس میں تقرر ہوا۔ یہ ایک نہایت چالاک شخص تھا۔ وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہر کسی کا کام کردیا کرتا تھا۔ نتیجے میں وہ بہت جلد دفتر میں مقبول ہوگیا۔
ایک روز عائشہ میرے پاس آکر بیٹھی تو وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔ میں نے کریدا تو بولی۔ کچھ دنوں سے مجھے کوئی خط لکھ رہا ہے لیکن ان پر نام درج نہیں ہوتا۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے، تم ان گمنام خطوط کو پھاڑ کر پھینک دیا کرو۔ ہاں! وہ تو میں ایسا ہی کرتی ہوں لیکن آج ایک خوبصورت کارڈ کوئی میری ٹیبل پر رکھ گیا ہے۔ اس نے مجھے کارڈ دکھایا جس پر اپنی نیک تمنائوں کا اظہار کیا گیا تھا لیکن بھیجنے والے نے اپنا نام درج نہ کیا تھا۔ نجانے کون ہے؟ وہ متفکر ہوکر بولی۔ میں نے کہا کوئی آفس کا ہی ہوگا جس میں اپنا نام لکھے کی جرأت نہیں ہے۔
بہرحال کسی پر شک کرنا بیکار تھا کہ اتنے سارے لوگ یہاں کام کررہے تھے۔ ان میں ایک شخص نیا آیا تھا لیکن ان پر بھی شک نہ گیا کہ وہ کم گو اور باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا مہذب تھا اور یہ تھا ارسلان…! ایک روز وہ اپنی نشست پر بیٹھا تھا کہ عائشہ ادھر سے گزری۔ ارسلان کے ہاتھ پر پٹی بندھی تھی۔ ازراہ ہمدردی عائشہ نے پوچھ لیا۔ سر! کیا ہوا؟ وہ بولا۔ کچھ نہیں ذرا سی موچ آگئی ہے۔ کوئی کام ہے تو آپ کی مدد کروں؟ وہ ہمدردی سے گویا ہوئی۔
شکریہ! وہ رکھائی سے بولا۔ مدد کی ضرورت نہیں۔ اس کے روکھے لہجے سے عائشہ کے دل کو ٹھیس لگی۔ سوچا ناحق اسے منہ لگایا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت اس کی مدد کرنا چاہ رہی تھی، وہ جانے کیا سمجھ بیٹھا۔ ارسلان نے جواب ذرا اونچی آواز میں دیا تھا کہ اردگرد کے لوگوں نے بھی سنا۔ عائشہ کو خفت محسوس ہوئی۔ وہ اپنی نشست پر افسردہ سی آبیٹھی۔ اس کے کان شائیں شائیں کرنے لگے۔ جب لوگوں کے لبوں پر اس نے دبی دبی مسکراہٹ دیکھی۔ وہ ایک حساس لڑکی تھی۔ ارسلان کے غیر مہذبانہ رویّے نے اسے صدمے سے دوچار کردیا تھا۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھرے میرے پاس آگئی۔ میں نے دل جوئی کی اور اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ عائشہ کی
والدہ نہیں تھیں۔ اس کے والد دوسری بیوی کے ساتھ رہتے تھے اور عائشہ اپنی خالہ کے یہاں رہا کرتی تھی۔ ماں گھر میں ہوتی ہے تو بچوں کے دکھ سکھ اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے۔ عائشہ کو ماں کی محرومی نے دنیا سے الگ تھلگ کردیا تھا۔ بظاہر ہنس مکھ اور خوش مزاج دکھنے والی اندر سے بے حد تنہا تھی۔ میں واحد ہستی تھی جو اس کا دکھ سمجھ سکتی تھی۔
اس واقعے کے کچھ دنوں بعد میری شادی ہوگئی۔ میں نے سروس چھوڑ دی اور اپنے شوہر کے ساتھ لاہور آگئی۔ شروع میں اپنے میکے والوں کے حالات شوہر سے پوشیدہ رکھے لیکن مجھے پریشان دیکھ کر وہ اکثر پوچھتے کہ مجھے بتائو تمہیں کیا پریشانی ہے۔ میں تمہاری ساری پریشانیاں دور کردوں گا۔ ایک روز ان کو بتا دیا کہ پہلے میری تنخواہ سے گھر چلتا تھا۔ اب والدہ جانے کیسے گزارہ کرتی ہوں گی۔ انہوں نے کہا چند دنوں بعد مجھے کمپنی کی جانب سے بیرون ملک جانا ہے۔ تم میرے جانے کے بعد یہاں اکیلی نہ رہ سکو گی۔ جب تک میں بیرون ملک رہوں، تم میکے میں رہنا۔ میری طرف سے اجازت ہے کہ میری غیر موجودگی میں تم ملازمت کرسکتی ہو اور تنخواہ اپنی والدہ کو دے سکتی ہو۔
عابد ایک ماہ بعد سعودیہ چلے گئے اور میں میکے آگئی۔ کچھ دن جاب کی تلاش میں رہی۔ ملازمت نہ مل سکی۔ میں نے عائشہ سے رابطہ کیا۔ وہ بولی۔ تم ہیڈ آفس آکر مجھ سے ملو۔ اس نے پتا سمجھا دیا اور میں اگلے روز اس کے بتائے ہوئے پتے پر اپنی درخواست لے کر چلی گئی۔ عائشہ ابھی تک نہ آئی تھی لیکن کچھ لوگ انٹرویو دینے آئے ہوئے تھے۔ چپراسی نے مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا اور انتظار کرنے کو کہا۔ آج گیارہ بجے انٹرویو شروع ہونا تھا اور عائشہ نے امیدواروں میں میرا نام درج کروا دیا تھا۔
جونہی میرا نام پکارا گیا، میں کمرے میں داخل ہوئی۔ میری نظر عائشہ پر پڑی۔ مجھے بے حد مسرت اور حیرت ہوئی کہ وہ سلیکشن بورڈ میں شامل تھی۔ میری دوست نے ہی میرا انٹرویو لیا اور ملازمت کے لیے منتخب کرلیا کیونکہ وہ اس فرم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ایک تھی۔ اس وقت تو کوئی سوال نہ کرسکتی تھی۔ شام کو اس کے گھر گئی۔ اس نے خوشی سے استقبال کیا اور منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ تم نے فیور کیا۔ اگر تم ایسا نہ کرتیں تو اتنے سارے لوگوں میں کیسے منتخب ہوسکتی تھی۔
اب اس سوال کا جو کل سے میرے ذہن میں ہلچل مچائے تھا، اس کا جواب جاننے کے لیے بے چین تھی۔ اس نے میری آنکھوں میں اس سوال کو پڑھ لیا۔ کہنے لگی۔ یہی پوچھنا چاہتی ہو کہ میں اس کرسی تک کیسے پہنچی؟ بتاتی ہوں۔ میں اس فرم کے مالک کی بیوی ہوں۔ یہ سب کیسے ہوا۔ سب بتاتی ہوں۔ پہلے تم میرے گھر چلو، وہاں چل کر چائے پیتے ہیں، باتیں بھی کریں گے۔ خالہ کے گھر تو تمہیں لینے آئی تھی۔ آج اتوار ہے لیکن میرے شوہر کسی کام سے اسلام آباد گئے ہیں۔ تم سے باتیں کرنے کے لیے بہت وقت ہے میرے پاس۔
خالہ کے گھر کے باہر اس کی بڑی سی گاڑی موجود تھی۔ ہم عائشہ کے گھر گئے۔ اس کا گھر بڑا شاندار تھا اور پوش علاقے میں تھا۔ عائشہ کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر اس پر رشک آنے لگا۔ کبھی وہ بچاری لاوارثوں کی مانند اپنے خالو کے ٹکڑوں پر پل رہی تھی۔ ایک معمولی ملازمت کررہی تھی اور آج قسمت نے پلٹا کھایا تو فرش سے عرش پر براجمان ہوگئی تھی۔
ارسلان تو یاد ہے نا جو بظاہر بہت مہذب اور اچھا آدمی نظر آتا تھا لیکن وہ حقیقت میں اچھا انسان نہ تھا۔ اس نے دفتر میں میرا جینا حرام کر ڈالا۔ وہ میرے خلاف دوسروں سے باتیں کرتا اور میری اہانت کرتا تھا۔ تنگ آکر میں نے ملازمت چھوڑ دی۔
کچھ دن بعد مجھے باس کے معاون نے فون کیا کہ محترمہ اپنے بقایاجات لے جائیے۔ میں وہ لینے آفس گئی تو باس نے بلا کر کہا۔ تم نے نجانے کس مجبوری کے باعث استعفیٰ دیا۔ میں تمہارے کام سے خوش اور مطمئن تھا۔ بہرحال انہوں نے دستخط کرکے لیٹر میرے حوالے کیا۔ ان کے پاس ہی ان کے دوست فخر بیٹھے تھے۔ وہ بولے۔ اگر تم چاہو تو میری کمپنی میں ایک جگہ خالی ہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ بقایاجات لے کر جونہی آفس سے نکلی، وہ بھی لفٹ میں میرے ساتھ آگئے۔ کہنے لگے۔ تم اس کمپنی کی بہترین کارکن تھیں اور ملک صاحب تم سے بہت خوش تھے۔ تمہارا باس تمہاری قدر کرتا تھا پھر تم نے کیوں ملازمت چھوڑ دی۔ میں نے جواب دیا۔ سر! میری کچھ مجبوریاں تھیں۔ وہ بولے۔
; فرم میں کام کرو گی۔ اگر میری اہلیت کے مطابق کوئی جگہ ہے تو ضرور کروں گی۔ میں تو ضرورت مند ہوں۔ دوسرے روز میں ان کی فرم پہنچ گئی۔ وہ ابھی نہیں آئے تھے۔ ملازم نے ان کے کمرے میں بٹھا دیا کہ انتظار کریں وہ آتے ہوں گے۔
ٹیبل پر سامنے ہی ان کا لیٹر پیڈ پڑا تھا جیسے کچھ لکھتے لکھتے ابھی اٹھ کر گئے ہوں۔ بات نامناسب تھی مگر میں نے یونہی ان کا لیٹر پیڈ اپنی جانب کھسکا لیا اور پڑھنے لگی۔ لکھا تھا۔ عائشہ! میں جب بھی اپنے دوست سے ملنے جاتا تھا۔ ملک تمہاری بہت تعریف کرتا تھا۔ وہ تمہاری محنت اور شرافت کا تذکرہ کرتا۔ میں نے ایک روز تمہیں غور سے دیکھا تو تم سے شادی کا خواہشمند ہوا لیکن ملک نے مجھے تم سے بات کرنے کی اجازت نہ دی کہ تم اس کی ملازمہ تھیں۔ اس کا کہنا تھا اگر تم ملازمت چھوڑ دو تب ہی میں تم سے بات کروں۔ اب تم نے ملازمت چھوڑ دی ہے لہٰذا…
ابھی میں نے اتنا ہی پڑھا تھا کہ وہ کمرے میں داخل ہوئے اور پیڈ اپنی طرف کرلیا۔ مجھے برا لگا کہ زبانی بات کرنے کی بجائے انہوں نے لکھ کر کیوں مدعا بیان کیا۔ اگر کوئی دوسرا پڑھ لیتا تو… لیکن انہوں نے جان کر ایسا کیا تھا۔ وہ قریب موجود تھے بہرحال وہ بولے۔ تم نے پڑھ لیا۔
جی ہاں! اب کیا جواب ہے تمہارا۔ ملازمہ بننے کی بجائے مالکہ بن جانا، کیا اچھا نہیں۔ کیا آپ کی وائف کو اعتراض نہ ہوگا۔ ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ میرے دو بچے ہیں جو لندن میں زیر تعلیم ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچ لو۔ تم مجھے نہیں جانتیں مگر میں تمہیں عرصے سے جانتا ہوں اور تمہارے حالات سے بھی واقف ہوں۔
امی سے مشورہ کرکے کل فون پر آپ کو جواب دوں گی۔ یہ کہہ کر میں گھر آگئی۔ گھر آکر کافی سوچا۔ وہ مجھے اچھے لگے۔ ان میں کوئی برائی نہ تھی سوائے اس کے کہ عمر میں بیس برس بڑے تھے اور سر میں چاندی کے بال چمک رہے تھے۔ بردبار تھے، خوش شکل تھے اور ان کی باوقار شخصیت تھی۔ سوچتی رہی پھر فیصلہ کرلیا کہ عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا، ان سے شادی کرکے گھر، عزت، مالی خوشحالی، تحفظ اور پھر میرے میکے والوں کے مالی حالات بھی ان کے توسط سے سدھر گئے تو کیا گھاٹے کا سودا ہے۔
امی سے ذکر کیا، بولیں۔ میں نہیں جانتی وہ کیسا آدمی ہے۔ تمہارا سابقہ باس جانتا ہے۔ اگر وہ تمہارے خیال سے نیک آدمی ہے تو تم پہلے میری اس سے بات کروا دو۔ میں نے ملک صاحب کا نمبر ملا دیا۔ انہوں نے ساری بات بتا کر کہا۔ بیٹا…! میں بیوہ ہوں اور عائشہ یتیم لڑکی ہے۔ اگر غلط شخص سے شادی ہوگئی تو ہم برباد ہوجائیں گے۔ آپ کے دوست نے رشتے کی خواہش ظاہر کی ہے، آپ کی رائے جاننا چاہتی ہوں۔ ماں جی! آپ فکر نہ کریں۔ اپنے دوست کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ وہ بہت اچھا انسان ہے، آپ کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ یہ رشتہ مت گنوائیے۔ ملک صاحب کے اطمینان دلانے پر امی نے ہاں کہہ دی۔ یوں میں آج ان کی بیگم ہوں۔ شکر ہے کہ میں نے پختہ خیالی سے کام لیا اور آج بہت سی پریشانیوں سے نجات مل گئی۔
میں نے کہا۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ ایک اچھے انسان نے تمہیں پسند کرلیا ورنہ لوگ ہوتے کچھ ہیں اور نظر کچھ اور آتے ہیں۔ بولی۔ ہاں! شاید میں قسمت کی دھنی تھی۔ تھوڑی سی پریشانی کے پیچھے ملازمت چھوڑی تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور در کھول دیا اور بہت سی خوشیاں میری جھولی میں ڈال دیں ورنہ ہم جیسی مفلس اور لاوارث لڑکیوں کے نصیب میں در در کی ٹھوکریں ہی لکھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمدردی کرکے بے وقوف بنانے والے تو بہت ہوتے ہیں، گھر کی زینت بنانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
عائشہ کی بات ٹھیک تھی تاہم وہ خوش قسمت ہی نہیں، نیک کردار اور پختہ ذہن اور عقلمند بھی تھی ورنہ ایک کامیاب بزنس مین جو عمر رسیدہ بھی ہو، اتنی جلد جذباتی ہوکر کسی مفلس لڑکی کے عشق میں مبتلا نہیں ہوتا اور شادی کی پیشکش بھی سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ فخر کو ضرور عائشہ میں ایسے گن نظر آئے ہوں گے کہ انہوں نے اس کا انتخاب کیا اور پھر کسی ذریعے سے اس کی فیملی کے حالات کی چھان بین بھی کرلی۔ پھر اپنی شریک حیات بنایا اور عائشہ نے انہیں مایوس نہ کیا۔ وہ اس قابل، محنتی اور باصلاحیت شریک حیات کو پا کر خود کو خوش قسمت کہتے ہیں۔ (ن۔ر … کراچی)