Thursday, October 10, 2024

Khushi Ka Intezar

بزرگ جن کو ہم باباجی کہتے تھے ان کا پورا نام احسان شاہ تھا مگر علاقے کے تمام لوگ ان کو باباجی یا پھر بابا صاحب کے کر پکارتے تھے۔ وہ نہایت متقی اوپر ہیز گار انسان تھے۔ عرصہ سے محلے کے بچوں کو دینی تعلیم دیتے اور کلام پاک ترجمے کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ اس فریضے کا وہ کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے ، میں گلی میں کھیل رہی تھی۔ بابا صاحب مسجد سے نکلے۔ مجھے گلی میں لڑکیوں کے ہمراہ کود پھاند کرتے دیکھ کر ان کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا اور میرے قریب آکر بولے۔ بیٹی اب تم گلی میں نکلنا بند کر دو اور گھر میں رہا کرو۔ ذرا اپنا ہاتھ تو دکھانا۔ میں نے اپنی ہتھیلیاں سامنے کر دیں۔ وہ جھک کر انہماک سے میرے ہاتھوں کی لکیروں کو پڑھنے لگے ۔ بیٹی تم پڑھنے کی طرف دھیان دیا کرو۔ تم کو کامیابیاں ملیں گی۔ تم ایک اعلیٰ مقام پائو گی لیکن آگے چل کر گھر کی ذمہ داری تم نے اُٹھانی ہے۔ ایک اور بات ہے ، وہ میں تمہارے والد صاحب یا والدہ کو بتائوں گا۔ میں نے امی جان سے کہا۔ باباجی نے مجھے گلی میں کھیلنے سے منع کیا ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے مجھے کیوں منع کیا؟ جبکہ اور لڑکیاں بھی تو کھیلتی ہیں۔ امی فوراً بابا صاحب کے پاس گیں اور ان سے پوچھا، وہ بولے۔ تمہاری گڑیا بڑی نصیبوں والی ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گی۔ کوئی منصب پائے گی لیکن اس کی شادی بہت دیر میں ہوگی، گھریلو خوشیاں اس کے مقدر میں کم ہیں۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ یہ کھیل کود میں وقت ضائع کرنے کی بجائے پڑھائی کی طرف دھیان دے تو اچھا ہے۔ امی جان تو باباجی کی بہت عزت کرتی تھیں۔ ان کی باتیں سُن کر سہم گئیں۔ گھر آکر مجھ سے کہا کہ گڑیا ! تم باباجی کی نصیحت یاد رکھنا، کبھی پڑھائی سے غفلت مت کرنا۔ انسان جس بات پر توجہ دے، کامیابی ملتی ہے۔ میں بھی پڑھائی پر توجہ دینے سے کلاس میں اول آنے لگی۔ اب اسکول میں میرا ایک نمایاں مقام تھا۔ میری شخصیت میں بھی روز بہ روز نکھار آنے لگا۔ اب جو بھی میری جانب نظر بھر کر دیکھتا،ماشاءاللہ ضرور کہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا جارہا تھا۔ میں نے میٹرک میں پوزیشن لی، یوں میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتی گئی۔ وہ دن بھی آپہنچا جب میں نے مقابلے کا امتحان پاس کر لیا اور بہترین انٹرویو دیا تبھی اعلیٰ منصب پر ملازمت مل گئی۔ بابا احسان صاحب کی دُعائیں اور باتیں پوری ہوئیں میں اعلیٰ منصب پاچکی تھی۔ والدین مسرور تھے۔ خوشی سے پھولے نہیں سمار ہے تھے۔ انہی دنوں میرے لئے دُور کے عزیزوں سے ایک رشتہ آگیا۔ لڑکا تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ میں نے امیر احمد کی صورت نہیں دیکھی تھی، ان کا چرچا تھا کہ وہ بہت خوبرو ہیں۔ ٹکر کارشتہ کیا آیا امی اور ابو کھل اُٹھے اور یہ رشتہ قبول کر لیا۔ منگنی کو چھ ماہ ہوئے تھے کہ وہ شادی کی تاریخ مانگنے آگئے۔ میں ابھی شادی نہ کرنا چاہتی تھی۔ میں نے خُدا سے گڑگڑا کر دعا کی کہ کچھ عرصہ شادی ٹل جائے تا کہ میں بغیر کسی جھنجھٹ کے ملازمت کروں، تھوڑی رقم جوڑ لوں تاکہ شادی پر اخراجات کے لیے میرے والدین کو دقت نہ ہو ۔ دراصل میری طبیعت اور مزاج کچھ اس قسم کا تھا کہ تبدیلی سے گھبراتی تھی۔ ایک طرح کا لائف اسٹائل اپنا لیتی تھی پھر اسے بدلنے کا نام نہ لیتی تھی۔ یہ حالت تھی کہ اپنے کمرے کے سوا مجھے اور کہیں نیند نہ آتی تھی۔ میں نے اللہ سے صرف چند دنوں کی مہلت مانگی تھی۔ دُعا قبول ہو گئی لیکن کس طرح، جس نے سُنا اُس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ امیر احمد اسلام آباد سے لاہور آرہے تھے کہ ان کی کار ایک ٹرک سے ٹکراگئی اور وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ وہ بھی اس وقت جب اس کے والدین ہمارے گھر شادی کی تاریخ لینے آئے ہوئے تھے۔ مجھے دُکھ تھا میں نے کیوں شادی میں اللہ تعالیٰ سے تاخیر کی دُعا کی ؟ رو رو کر دیر چاہی، والدین کی خوشیوں کو نظر انداز کیا۔ وہ والدین کا جو مجھ پر جان نچھاور کر سکتے تھے ، ان کی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا۔ ضمیر مجھے ملامت کرتا تھا، جیسے میں ہی ان کی موت کی ذمے دار تھی حالانکہ موت حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہر کام اُسی کی مرضی سے ہوتا ہے۔ دُعا اور بد دعا بھی اُسی کی مرضی سے قبول ہوتی ہے۔ کافی دنوں تک ہمارے گھر میں سوگ کی سی کیفیت رہی، امی ابو بے حد رنجیدہ تھے اور امیر احمد کے والدین کے دلوں میں تو صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ میں نے ملازمت میں دل لگارکھا تھا۔ وقت اچھا گزر رہا تھا، محنت اور لگن سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتی تھی۔ دفتر والے مجھ سے خوش تھے۔ زندگی کی ایک روٹین بن گئی تھی ایک طرح سے روز و شب گزر رہے تھے کہ ایک دن دفتر سے ایک لیٹر ملا۔ ٹریننگ کے لئے کراچی جانا تھا۔ کیا بتائوں کتنی خوشی ہوئی۔ عرصے بعد کہیں باہر نکلنے کا موقع ملا تھا۔ ہیڈ آفس جانا تھا۔ وہاں صرف ایک ہفتہ قیام تھا، یہ بھی غنیمت تھا۔ میں نے چھٹیاں لے لیں تاکہ ٹریننگ کے بعد اپنے عزیزوں سے مل سکوں۔ خالہ اور ان کی دو بیٹیاں وہاں رہتی تھیں۔ ان سے ملے عرصہ گزر گیا تھا۔ وہ بھی خوش ہو گئیں۔ دفتری فرائض ختم ہوتے ہی میں ان سے ملنے چلی گئی۔ مدت بعد رُوح کے در بچے وا ہوئے۔ جتنے دن رہی، روز سمندر کنارے جاتی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں یوں لگتا جنت میں آگئی ہوں۔ چھٹی ختم ہونے لگی تو سوچا تھوڑی شاپنگ کر لی جائے ، اسی روز ہم ایک بڑے اور بارونق شاپنگ سینٹر میں چلے گئے۔ شاپنگ کر کے نکلے اور سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگے تاکہ ٹیکسی مل جائے۔ ہم ابھی سڑک کے دوسری جانب نکلنے کو تھے کہ ایک خوش پوش نوجوان تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور مجھے بازو سے پکڑ کر کہنے لگا، جلدی سے سامنے والی گلی میں جا کر کسی بلڈ نگ کی سیڑھی میں چھپ جائو۔ ادھر فائرنگ ہو رہی ہے۔ ہم نے کچھ نہ سمجھا، میں اور میری دونوں خالہ زاد بہنیں عافیہ اور فاریہ دوڑتی ہوئی گلی میں ایک بلڈنگ کی سیڑھیوں میں چلے گئے ، آنافانا سامنے سڑک سے دو گاڑیاں آتی دکھائی دیں۔ سمجھ میں نہ آیا کہ فائرنگ کسی اور طرف سے ہے یا گاڑی میں بیٹھے لوگ کر رہے ہیں۔ شاید دو گروہ آپس میں اُلجھ رہے تھے یا پولیس والے تھے۔ ہمیں کچھ پتانہ چلا۔ تھوڑی دیر بعد شور ختم ہو گیا تو ہم باہر نکلے۔ ہمارے ساتھ وہ نوجوان بھی تھا جو قریب کہیں چھپا ہو گا۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اس نوجوان کی حاضر دماغی نے ہمیں بچالیا، ورنہ وہ گاڑیاں تو مست ہاتھیوں کی طرح سڑک پر ہم کو روند ڈالتیں۔ یہ اخلاق سے میری پہلی ملاقات تھی، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کراچی میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھا۔ اس نے بتایا اب حالات یہاں معمول پر ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسے حادثات ہو جاتے ہیں۔ اتفاق سے ہم نے ایک ہی علاقے کی سمت جانا تھا۔ اس نے کہا۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں اور ہم اس کی گاڑی میں اپنے گھر پہنچ گئے۔ خالہ تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ ان کو فکر تھی کہ لڑکیاں جانے کہاں رہ گئیں۔ سچ پوچھیے تو شاپنگ میں کافی دیر ہو گئی تھی۔ شکریہ کے طور پر خالہ نے اخلاق کو دُعائیں دیں۔ وہ جاتے ہوئے ان کو اپنا کارڈ دے گئے کہ کوئی کام ہو مجھے کہئے گا۔ حادثے کی یاد دل پر لئے میں ملتان واپس لوٹ آئی اور دوبارہ اسی طرح دفتر کے معمولات میں کھو گئی۔ کچھ دن بعد یہ واقعہ ذہن سے فراموش ہو گیا۔ ایک دفعہ خالہ سے فون پر بات ہوئی انہوں نے بتایا۔ اخلاق صاحب آئے تھے۔ انہوں نے تمہارے دفتر کا نمبر مانگا تھا، ہم نے دے دیا تھا۔ شاید وہ تم کو فون کرے۔ چند دن تو انتظار کیا پھر مصروفیت میں بُھول بھال گئی۔ سال بعد عید کے موقع پر جب دفتر سے اگلے دن چھٹیاں ہونے والی تھیں اس کا فون آگیا۔ اتنی مدت بعد بھی میں نے اس کی آواز پہچان لی مگر چپ سادھے رکھی تو اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے کہا کہ میں نے کئی بار سوچا کہ آپ کو فون کروں مگر مناسب نہ لگتا تھا، البتہ آپ ہمیشہ یادداشت میں موجود رہیں۔ آپ کو فون پر اعتراض تو نہیں؟ عید پر تو اپنے سبھی نزدیک و دور کے ملنے والوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔ تو بندہ آپ کو عید مبارک پیش کرتا ہے، تبھی میں نے پوچھ لیا۔ کوئی خاص بات کہنی تھی تو کہ دیجئے۔ کوئی خاص بات نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ اف اللہ یہ کیسا شخص ہے، خود ہی فون کیا اور پھر کھڑاک سے بند کر دیا۔ سچ کہوں کہ مجھے بڑا غصہ آیا۔ عجب سرد مہر شخص ہے اور وہ بھی جس نے حال پوچھا اور نہ اپنا حال کہا۔ بس مبارک باد دی اور فون بند ہو گیا۔ ہم لڑکیوں کی سرشت بھی عجیب ہوتی ہے افسانے پڑھ کر ہر موڑ پر فلمی ہیرو کا انتظار رہتا۔ میں لیکن ایسی نہ تھی۔ جانتی تھی عام زندگی میں حقیقتیں کچھ اور ہوتی ہیں انسانی رویے اور طرح کے ہوتے ہیں۔ مجھے ملازمت کرتے تین سال ہو گئے تھے۔ والدین گرچہ میری طرف سے مطمئن تھے لیکن یہی چاہتے تھے کہ میرا رشتہ جلد از جلد کسی اچھی جگہ طے پا جائے۔ ایک ایک کر کے میری سب سہیلیاں اپنے گھروں کی ہو گئیں۔ میں ہی بس غیر شادی شدہ رہ گئی۔ انسان سوچتا بہت کچھ ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خُدا ہوتا ہے۔ جن دنوں امی میرے لئے کسی بہترین جیون ساتھی کی تلاش میں تھیں،اچانک ہارٹ اٹیک سے ابو کی وفات ہو گئی۔ اب گھر کی تمام ذمہ داریاں مجھ پر آپڑی تھیں۔ چار بہن بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔ ماں تو صدمے سے نڈھال تھیں، مجھے ہی والد کی جگہ آمی اور بہن بھائیوں کو سہارا دینا تھا- ایسی طرح کئی سال گزر گئے ، اب مناسب رشتے نہیں آتے تھے۔ جب آتے گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے انکار کر دیتی تھی، یہاں تک کہ بہن بھائی پڑھ لکھ کر اپنی ملازمتوں پر پہنچ گئے۔ تین کی شادیاں ہو گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی میری شادی کے بارے سوال کرتا تو ہنس کر ٹال دیتی۔ اب بھلا کیا میری عمر رہ گئی تھی شادی کی ؟ ایک بھائی باقی رہ گیا تھا، والدہ تھیں اور میں تھی۔ چھوٹے بھائی کو ملازمت اسلام آباد میں ملی۔ وہاں ماموں رہتے تھے ۔ ان کی چھوٹی بیٹی سے بھائی کی منگنی کر دی۔ یوں میرا بھی اسلام آباد میں آنا جانا رہنے لگا۔ ایک مرتبہ بھائی اپنا دفتر دکھانے لے گیا۔ ایک صاحب سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ یا اللہ یہ بارعب شخص کون ہے ؟ عمر پچاس برس ہو گی۔ بھائی ثاقب نے بتایا کہ باجی، یہ ہمارے ایم ڈی ہیں۔ کراچی میں ان کا گھر ہے ، آج کل یہاں پوسٹ ہو کر آئے ہیں۔ میرادل آہستہ آہستہ دھڑکنے لگا۔ غور کیا تو یاد آ گیا کہ صورت جانی پہچانی ہے۔ یہ وہی اخلاق صاحب ہیں جنہوں نے کراچی میں ہم کو حادثے کی زد سے بچایا تھا۔ ثاقب کو بتایا تو وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگا۔ باجی ، پلیز آپ میرے ساتھ چلیں اور ان سے میری سفارش کر دیں تو میری پروموشن جلد ہو جائے گی۔ ویسے یہ بڑے بااصول ہیں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ میں نے ثاقب کو ساتھ لیا اور ایم ڈی کے کمرے میں اپنا کارڈ بھجوا دیا۔ انہوں نے فورا اندر بلوا لیا۔ احتراماً مجھ کو دیکھ سیٹ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت خوش دلی سے سلام و دعا کی مگر ان کے چہرے پر خوشی اور دُکھ کے ملے جلے تاثرات تھے۔ کیسی ہیں آپ، عرصہ بعد مجھے یاد کیا ہے۔ اسلام آباد کیسے آنا ہوا؟ میرے لائق کوئی خدمت، اور یہ ؟ انہوں نے ثاقب کی جانب اشارہ کیا۔ یہ میرے چھوٹے بھائی ثاقب ہیں، اسلام آباد میں ہوتے ہیں آپ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ اسی لئے آئی ہوں کہ ان کا خیال رکھنا ہے آپ نے۔ ملاقات بہت اچھی رہی۔ گھر آئی تو نجانے کیوں بہت خوش تھی، وجہ میں خود نہ سمجھ پائی۔ ثاقب کی ترقی ہو گئی تو امی نے کہا کہ ماجدہ اب تم ملازمت چھوڑ دو۔ میں نے چھٹی لے لی کیونکہ میں ملازمت سے تھک گئی تھی اور صحت بھی متاثر ہوئی تھی۔ انہی دنوں ہم نے اپنے آبائی قصبے میں زمین فروخت کی اور اسلام آباد میں ایک چھوٹا سا گھر لے لیا کیونکہ ثاقب کی شادی کے بعد ہم اکیلے یہاں نہ رہ سکتے تھے۔ ثاقب نے اخلاق صاحب سے ملنا جلنا جاری رکھا اور ان کو کچھ مجبوریاں بتائیں تو انہوں نے کوشش کر کے میر اتبادلہ اسلام آباد کرا دیا۔ اس طرح ہم سب اسلام آباد شفٹ ہو گئے۔ یہاں اخلاق صاحب سے ملاقاتیں جاری تھیں کیونکہ ان کا ہمارے یہاں آنا جانا تھا۔ ثاقب تو اس وجہ سے خوش تھا کہ وہ اس کے ایم ڈی تھے جب کسی کا باس اس کے گھر آنا جانا ر کھے تو خوشی ہوتی ہے اور مجھے اس وجہ سے خوشی ہوتی کہ وہ بہت پڑھے لکھے آدمی تھے۔ وہ ہر موضوع پر بات کر سکتے تھے۔ ذہنی ہم آہنگی، شرافت اور پسندیدگی کے سبب ہم قریب ہونے لگے مگر ہمارے درمیان ایک حد بر قرار تھی کیونکہ میں اب عمر کے اس دور میں تھی جب جذبات جوالا مکھی نہیں رہتے۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک شادی شدہ اور بال بچے دار آدمی ہیں۔ ان کے بیوی بچے کراچی میں قیام پذیر تھے۔ ایک ماہ میں ایک دو مرتبہ وہ گھر ضرور چکر لگاتے۔ میری والدہ سے خوب باتیں کرتے ، امی بھی ان کو بیٹے کی طرح چاہنے لگی تھیں۔ اکثر اخلاق مصروف ہوتے تھے لیکن کبھی کبھی ہم سب اکٹھے ، لمبی واک پر جاتے تھے۔ ثاقب ، ان کی بیوی اور کبھی آمی بھی ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ چلتے ہوئے میں خیالوں کی اس دنیا میں چلی جاتی، جس کو میں بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ وہ جب مجھے کھویا کھویا پاتے تو پکار کر واپس اس دنیا میں بلا لیتے۔ ماجدہ بی بی ! سنو، کدھر ہو، واپس لوٹ آئو۔ جدھر بھی ہو۔ دیکھو یہ تمہارے ارد گرد کی دنیا کتنی خوبصورت ہے۔ ان کو بھلا کر کہاں گم ہو جاتی ہو ؟ وہ اکثر پوچھتے تم اتنی اچھی لڑکی تھیں، تم نے ٹائم پر شادی کیوں نہ کی؟ تو میں دل میں جواب دیتی، آپ جیسا کوئی ملا ہی نہیں مگر زبان سے کہتی ، پتا نہیں وقت کیسے گزر گیا۔ میں وقت کی رفتار کے ساتھ بھاگتی رہی یہاں تک کہ زندگی کی شام ہوگئی۔ نہ چاہنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کا خیال رکھنے لگے تھے۔ اب میں روز شام کو ان کی پسند کی کوئی نہ کوئی چیز بنا کر رکھتی تھی کہ شاید وہ آجائیں۔ وہ میرے کھانے کی تعریف کرتے کہ تم بہت اچھا پکاتی ہو۔ وہ اکثر کہتے ،ماجدہ ابھی بھی وقت کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کوئی اچھا سا جیون ساتھی تلاش کر لو، زندگی کے باقی دنوں کو تنہائیوں کی نذرمت کرو۔ یہ خود پر ظلم ہے ، جبر ہے، گناہ ہے۔ میں یہ سُن کر چپ چاپ حسرت سے ان کی طرف دیکھتی۔ ڈیڑھ سال بعد اخلاق کا یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ ماجدہ تم کتنی اچھی تھیں۔ میں تم سے ملا بھی مگر ہماری ملاقاتیں نہ ہو سکیں۔ میں تم کو نہ جان سکا اور تم مجھے نہ جان سکیں۔ حالانکہ تم سے میری پہلی ملاقات کے تین برس بعد میری شادی ہوئی۔ اب احساس ہوتا ہے کہ میں نے کیا فیصلہ کرنا تھا اور کیا کر دیا حالانکہ میری بیوی خوبصورت ہے لیکن یہ ایک روایتی شادی تھی۔ میں اور میری شریک حیات میاں بیوی ضرور ہیں مگر دوست نہیں۔ مجھ کو زندگی میں ہمہ وقت ایک کمی محسوس ہوتی تھی لیکن جب سے تم سے ملا ہوں۔ میری زندگی میں جو کمی تھی وہ پوری ہو گئی ہے۔ ایک دن دل کی بات آخر کار ان کے لبوں تک آہی گئی۔ اگر تم چاہو تو میں تم کو اب بھی اپنا سکتا ہوں۔ چاہو تو اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی رہنا، ورنہ علیحدہ گھر لے دوں گا۔ میرے گھر والوں کو اخلاق صاحب کی شخصیت اور عادات پہلے ہی پسند تھیں۔ جب میں نے آمی کو بتایا تو وہ گہری سوچ میں ڈوب گئیں پھر بولیں۔ اور اس کی پہلی بیوی ! اس کا کیا قصور ہے؟ جب اخلاق صاحب نے ہر پہلو سے امی کو اطمینان دلایا تو وہ راضی ہو گئیں اور یوں ہم دونوں کی شادی ہو گئی۔ میں نے بھی پہلی بار سکھ کا سانس لیا۔ والدہ اور بہن بھائی میری اور اخلاق صاحب کی شادی سے بہت خوش تھے کیونکہ میں نے جوانی بھر اپنے سارے خواب ان کی خاطر تج کر انہیں پڑھایا لکھایا، شادیاں کر کے ان کی منزل تک پہنچایا تھا۔ اب کوئی میرا سہارا، میرا اپنا تھا، میرے دُکھ درد کا ساتھی۔ دیر سے سہی مجھے ایک بہترین آدمی ملا تھا۔ ویسا ہی، جیسا میں چاہتی تھی۔ ان کی توجہ سے رفتہ رفتہ میری صحت اچھی ہونے لگی۔ بُرے دن تمام ہو گئے ہیں اور اب اچھے دنوں کی باری ہے مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ اخلاق صاحب کا تبادلہ کراچی ہو گیا۔ ان کے جاتے ہی میری دُنیا اندھیر ہو گئی۔ اب احساس ہوا شوہر کے بغیر عورت کی زندگی ادھوری ہوتی ہے۔ سوچتی تھی کہ اب کیسے جیوں گی ؟ ساری زندگی تو تنہائی کا عذاب سہتے سہتے گزر گئی۔ چند سالوں کے لئے خوشیاں ملیں وہ بھی ادھوری۔ وہ باقاعدگی سے فون کرتے تھے مگر اسلام آباد کبھی کبھی آتے تھے وہ بھی ایک دو دن کے لئے۔ بہت بار اصرار کیا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ کراچی لے جائیں۔ وہ ہمیشہ ٹال جاتے تھے۔ شکر ہے ان کے کہنے پر میں نے ملازمت نہیں چھوڑی تھی۔ کچھ مصروفیت تو تھی، تنخواہ بھی ہاتھ میں تھی، تبھی آئندہ کا اعتماد تھا لیکن گھریلو سکھ نصیب میں نہیں تھا۔ میں نے تو ادھیڑ عمری میں بہت شادی سے بچنا چاہا تھا مگر یہ بندھن بھی میرے نصیب میں تھا۔ میں نے سکھ اور آرام کی خاطر اخلاق صاحب سے نکاح کیا تھا مگر جس کے نصیب میں سکھ نہ ہوں وہ ساری عمر دُکھوں کی بھول بھلیوں میں ہی بھٹکتے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS