بے شک دنیا کی ظاہری آسائشیں بہت جلد سمجھ میں آنے والی شے ہیں لیکن باطن کے راز کوئی نہیں جانتا۔ میں بھی نہیں جانتی تھی کہ میرے خاوند کی اتنی دولت ، کاروبار ، کاریں اور کوٹھیوں کا مالک کون ہو گا، تبھی میری شدت سے خواہش تھی کہ ان سب چیزوں کا اصل وارث میری ہی کو کھ سے جنم لے۔ شادی کے پانچ سال تک اولاد نہ ہوئی تو ہم نے کچھ محسوس نہ کیا، یہ وقت ہنستے مسکراتے گزر گیا۔ آس بندھی رہی کہ جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو گا اور میں ماں بنوں گی۔ میں دعا میں ہمیشہ اولاد نرینہ کی تمنا کیا کرتی تھی۔ میرے خاوند کو بھی اولاد کی خواہش تھی لیکن وہ اس خواہش کے پیچھے اس قدر دیوانے نہیں تھے ، بلکہ مجھے بھی سمجھاتے رہتے تھے کہ افسردہ نہ رہا کرو، خود پر ہمہ وقت اس محرومی کو طاری نہ رکھا کرو۔ ہمیں اگر ابھی تک اولاد نہیں ہوئی ہے تو اس میں مالک حقیقی کی کچھ مصلحت ہو گی۔ میرے شوہر دل کے سخی تھے۔ سسرال والے انہیں اکساتے تھے کہ لاکھوں کے مالک ہو ، دوسری شادی کر لو لیکن وہ یہی جواب دیتے کہ خدا نے چاہا تو اولاد بھی اسی شریک حیات سے ہو گی۔ میں بلقیس پر سوکن نہ لاؤں گا۔ انہوں نے میرے علاج میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑی۔ بڑے بڑے شہروں میں لے گئے ، قابل سے قابل ڈاکٹروں کو دکھایا۔ نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ڈاکٹروں نے ان کو بتادیا کہ بانجھ پن کا کوئی علاج نہیں۔ ایک لیڈی ڈاکٹر نے یہ مشورہ دیا کہ بہتر ہے، کسی لاوارث بچے کو گود لے لیں تاکہ آپ کی ممتا کے جذبے کی تسکین ہو اور آپ نارمل رہیں۔ ان دنوں جب میں کسی عورت کی گود میں نھا منابچہ دیکھتی تو دل کی عجیب حالت ہو جاتی تھی۔ جی چاہتا تھا اس عورت سے بچہ چھین لوں اور اس کو اپنی بانہوں میں چھپالوں۔ اپنے بیڈ روم میں ، میں نے ننھے منے گول مٹول پھول جیسے بچوں کی کئی تصویریں لگارکھی تھیں اور روز ہی حسرت سے ان تصویروں کو دیکھتی تھی۔ جب تک آس بندھی تھی، وقت کسی اور طرز سے کٹ رہا تھا، لیکن جب ڈاکٹروں نے ناامید کر دیا تو دل کی بے چینی بڑھ گئی۔ ساحر نے بہت دلجوئی کی۔ دن رات سمجھاتے تھے کہ غم نہ کرو، ہم اپنی دولت و جائیداد فلاحی کاموں کے لئے وقف کر جائیں گے ، لیکن میرے جی کو ان کی کوئی بات نہیں لگتی تھی۔ میں اپنے گھر اور آنگن میں ایک ہنستا کھیلتا بچہ دیکھنا چاہتی تھی ، اس کی چہکاریں اور کلکاریاں سننا چاہتی تھی۔ اس غم میں بالآخر میں شدید بیمار پڑ گئی، مجھ پر افسردگی کے دورے پڑنے لگے اور ساحر کو مجھے ماہر نفسیات کے پاس لے جانا پڑا۔ انہی دنوں میری ملاقات روبی سے ہو گئی۔ وہ میری کلاس فیلور ہی تھی۔ میٹرک تک ہم نے ساتھ پڑھا تھا، پھر کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کدھر گئی ؟ آج اچانک اس کو کلینک پر دیکھا تو پہلی نظر میں پہچان نہ سکی۔ اس نے نرس کا لباس پہن رکھا تھا اور قدرے موٹی ہو گئی تھی۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور بڑی گرمجوشی سے ملی۔ جب میر احال احوال سنا تو کہنے لگی۔
میری ایک واقف آیا بڑے اسپتال میں کام کرتی ہے۔ میں اس کے ذمے یہ کام لگاتی ہوں کہ کوئی لاوارث بچہ اسپتال میں جنم لے تو ہمیں اطلاع کر دے۔ دراصل ایسے بچوں کو گود لینے کے خواہش مند لوگ پہلے سے ہی اپنا نام پتا لکھوا جاتے ہیں۔ ایسے بچے کبھی کبھار اسپتال کے پالنے میں کوئی چھوڑ جاتا ہے لیکن گود لینے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ میرے دل میں امید کا چراغ روشن ہو گیا۔ میں نے اصرار کر کے اس سے آیا کا پتا معلوم کیا اور اسی رات آیا کے گھر چلی گئی۔ وہ ایک ادھیڑ عمر اور خاصی چلتا پر زہ عورت تھی۔ میں نے اس کو آنے کا مقصد بتایا کہ میں کافی دولتمند ہوں۔ اگر تم نے مجھے اسپتال سے گوہر مقصود دلادیا تو ہیں تمہارا منہ اشرفیوں سے بھر دوں گی۔ آیا بے حد لالچی عورت نکلی، میں تو سمجھ رہی تھی کہ مجھے کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا لیکن وہ تور قم حاصل کرنے کی خاطر اگلے ہی دن میرے گھر کے دروازے پر آموجود تھی۔ اس کو ڈر تھا کہ مجھے کسی دوسری جگہ سے بچہ مل گیا تو یقیناً اس کا انعام مارا جائے گا۔ اس نے مجھ سے پوچھا۔ بیگم صاحبہ اگر میں آپ کو اسی ہفتے بچہ لادوں تو آپ مجھے کتنا انعام دیں گی ؟ میں نے کہا۔ جس قدر تم مانگو گی۔ وہ حیرت زدہ ہو کر میرا منہ تکنے لگی، پھر چلی گئی۔ جب میں نے ساحر کو بتایا تو انہوں نے کہا۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم میرے یا اپنے عزیزوں میں سے کسی کا بچہ گود لے لو لیکن میں نے اعتراض کیا۔ یوں وہ بچہ ہمارا کبھی نہیں کہلائے گا۔ میری بہن کا بچہ ہو یا تمہاری بہن یا بھائی کا، وہ جائیداد کے لالچ میں بچے کو ہمارے حوالے کر دیں گے لیکن پھر کبھی نہ کبھی اس کے کانوں ہیں ضرور یہ بات ڈال دی جائے گی کہ ہم اس کے حقیقی والدین نہیں ہیں، یوں ہماری عمر بھر کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔ ساحر کہنے لگے۔ تو پھر اسپتال جاکر ڈاکٹروں کی موجودگی میں بچہ دستخط کرنے کے بعد لیں گے۔ ویسے ہی آیا کی باتوں میں نہ آجانا۔ ایسانہ ہو کہ ہم کسی مشکل میں گرفتار ہو جائیں۔ شاید ان کی چٹھی حس ان کی رہنمائی کر رہی تھی، لیکن میں کیسی ننھے منے کو اپنی بانہوں میں بھرنے کو بے قرار تھی، خواہ وہ کسی کا بھی لخت جگر ہو۔ مجھ کو اپنی ممتا کی پیاس بجھانی تھی، جو آیا کے امید دلانے سے اور بھی بھڑک اٹھی تھی۔ دوروز مشکل سے گزرے تھے کہ آیا آگئی۔ اس نے ایک ننھا منا بچہ اٹھارکھا تھا۔ کہنے لگی۔ بات سچ کہوں گی بی بی، یہ بچہ لاوارث نہیں، بلکہ ایک بہت غریب عورت کی اولاد ہے، جس کے پہلے بھی چھ بچے ہیں۔ اس کو مزید بچوں کی خواہش نہیں ، وہ اس کی پرورش بھی اچھے طریقے سے نہیں کر سکتے۔ میں نے سوچا، اگر یہ آپ جیسے دولت مند گھرانے میں پرورش پائے گا تو یقیناً اس کے نصیب جاگ اٹھیں گے۔ بچہ بہت پیارا تھا۔ میں نے اشتیاق سے بچے کو گود میں بھر لیا۔ اس کے وجود کی گرمی نے میرے دل کو پگھلا نا شروع کر دیا۔ برسوں سے جس لمحے کو میں ترس رہی تھی، بالآخر وہ لمحہ آہی گیا تھا۔ میں نے آیا سے مزید سوالات نہ کئے ، بس اسی قدر پو چھا کہ کتنا انعام چاہیے تمہیں ؟ وہ بولی۔ تیس ہزار ! میرے لئے تیس ہزار کی کوئی حیثیت نہ تھی لیکن اس کے لئے تیس ہزار لاکھ کے برابر تھے۔ اس وقت ایک روپے کی قیمت ایک ہزار کے برابر تھی، روپیہ اس قدر بے قیمت نہیں ہوا تھا۔ میں نے رقم اس کو پکڑا دی، وہ دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی۔ مجھے اس بات سے غرض نہ تھی کہ یہ کس کا بچہ ہے اور اس کے ماں باپ کون ہیں ؟ آیا اس کو کیسے ماں کے پہلو سے چرا کر لائی ہے اور ماں پر بچے کی گمشدگی سے کیا بیت رہی ہے۔ مجھے تو بس ایک خوبصورت اور صحت مند بچہ مل گیا تھا، جو صرف ایک دن کا تھا۔ دو پہر کو پیدا ہوا اور اسی رات آیا نے میری جھولی میں بھر دیا تھا۔
میں بہت خوش تھی جیسے سارے جہاں کی دولت مجھے مل گئی ہو ، پھولی نہیں سمار ہی تھی جیسے میں آج مکمل ہو گئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ ابھی اور اسی وقت دفتر فون کر کے ساحر کو خوشخبری سنادوں کہ ہمیں ہمارے بڑھاپے کا سہارا اور جائیداد کا وارث مل گیا ہے لیکن ایسانہ کر سکی کیونکہ ان کے رد عمل سے بھی ڈر رہی تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ شام کو جب وہ گھر آئے اور میں نے ان کو یہ خوشخبری سنائی تو انہوں نے بچے کو گود میں لینے کی بجائے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ میں گھبرا کر رونے لگی ، تب وہ نرم پڑ گئے اور مجھے پیار سے سمجھانے لگے کہ بلقیس تم نہیں سمجھتیں، یہ ہے۔ کسی ماں کا لخت جگر چرالینا ایک انسانیت سوز فعل ہے ہا ہے۔ ہم پر اغوا کا کیس بھی بن سکتا ہے۔ کوئی خوشی سے اپنا بچہ دے دے تو اور بات ہے، لیکن کسی کا بچہ والدین کی لاعلمی میں اٹھا لے جانا تو اذیت والی بات ہے۔ والدین کے دل پر تو قیامت گزر جائے گی۔ غرض جس قدر ساحر سمجھا سکتے تھے انہوں نے سمجھا لیا مگر یوں بچے کو لوٹا نے پر راضی نہ ہوئی بلکہ اور زیادہ رونا دھونا شروع کر دیا۔ مجھ کو اس قدر جذباتی دیکھ کر وہ خاموش ہو گئے کیونکہ میں پہلے ہی کافی بیمار رہی تھی۔ بہر حال انہوں نے اس قدر کہا کہ دیکھو بلقیس، برے کام کا انجام اچھا نہیں ہو سکتا۔ میں تم کو جذباتی صدمہ نہیں دے سکتا لیکن تمہارے اس جرم میں مجھے جبر اثر یک ہونا پڑ رہا ہے ، جس کا مجھ کو افسوس ہے۔ میں ان کی باتوں سے زیادہ ننھے منے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ میری ہر ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے ، ان کی خاموشی نے میرا حوصلہ دو چند کر دیا۔ میں نے خوشی سے آنسو پونچھ ڈالے اور اسی وقت ننھے منے کے لئے خریداری کرنے نکل کھڑی ہوئی۔ ایک ہفتے بعد آیا آئی، بولی۔ بیگم صاحبہ ، آپ کی خاطر جان پر کھیل کر یہ کام کیا تھا۔ بچے کی ماں کی بری حالت تھی۔ میں نے رات کو بچہ پالنے سے اٹھایا اور گٹھری کی طرح بغل میں دبا کر نکل گئی تھی شکر ہے کہ کسی نے توجہ نہیں دی ورنہ بے موت ماری جاتی۔ صبح چار بجے انہیں پتا چلا کہ بچہ پالنے میں نہیں ہے۔ بچے کے ماں باپ غریب تھے، کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے ، ورنہ شامت آسکتی تھی۔ وہ ابھی تک اسپتال کے چکر ہی لگا رہے ہیں۔ میں نے اس کو آنے جانے کا خرچہ دیا اور کہا۔ بس اب یہاں کافی دنوں تک مت آنا، کہیں ایسا نہ ہو پولیس تمہاری نگرانی کر رہی ہو اور کسی کو شک ہو جائے۔ میں نے ملازمین سے بھی یہ کہا تھا کہ یہ بچہ میری بھانجی کا ہے ، وہ بیمار ہے اس لئے مجھے دیا ہے۔
کچھ دن تک میں ڈری سہمی رہی۔ پاس پڑوس والوں کو بھی مشکوک نہ ہونے دیا۔ پھر جلد ہی میں نے اس بچے کی خاطر رہائش تبدیل کر لی اور ہم شہر سے نسبتاً دور نئی کو بھی میں آگئے۔ قدرت کے اس حسین تحفے کا نام میں نے مراد رکھا تھا۔ اس کی پرورش میں نے بہت ناز و نعم سے کی، حقیقی ماں کا پیار دیا اور ساحر نے تو حد کر دی۔ وہ مر د تھے لیکن انہوں نے مجھ سے بھی زیادہ مراد کو چاہا، حتی کے جب وہ میں برس کا ہو گیا تو اپنی زندگی میں ہی سب کچھ اس کے نام کر دیا تا کہ کوئی رشتہ دار ان کے بعد جائیداد کی خاطر اس سے نہ الجھے۔ کہتے ہیں کہ جن بچوں کو ماں باپ کا پیار ملے وہ سنور جاتے ہیں۔ ہم نے اسی مقولے پر عمل کیا لیکن ہماری فکر غلط ثابت ہوئی۔ خدا جانے اس کی تربیت میں ہم سے کیا کوتاہی ہوئی کہ ہمارے لاڈ پیار نے اسے سنوارنے کی بجائے بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس نے ایف ایس سی کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ ساحر نے بہت زور لگایا لیکن صاحب زادے نے کالج کا رخ نہ کیا ۔ انہوں نے چاہا کہ اس کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجواد میں مگر مراد کار حجان پڑھائی کی جانب تھا ہی نہیں، وہ تو پڑھنے سے بھاگتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک کیا جاتا۔ ایف ایس سی تک وہ ٹھیک رہا، پھر آوارہ گردی کرنے لگا۔ صبح سے کار لے کر نکل جاتا، رات گئے آتا ، غلط قسم کے دوستوں نے اس کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا تھا۔ ساحر تمام دن کاروبار میں مصروف رہتے تھے ، اس کی نگرانی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ میرا فرض تھا کہ اس پر نظر رکھتی لیکن میں اس کی کوتاہیوں کو ساحر سے چھپاتی اور ان پر پردہ ڈال دیتی۔ مبادہ، ساحر اس کا جیب خرچ بند کر دیں یا کوئی پابندی لگادیں تب میرے لاڈلے کا دل برا برا ہو ہو جائے جا گا، ممکن نا ہے ہے وہ وہ خفا خو ہو کر گھر سے ہی نکل ل جائے۔ جا وقت گزرتا رہا، ساحر کبھی ملک میں تو کبھی کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر چلے جاتے اور اپنا دفتر مراد کے سپرد کر جاتے، مگر وہ ادھر توجہ ہی نہ دیتا۔ خدا جانے اس کی کیا سر گرمیاں تھیں۔ انہی دنوں ساحر علیل ہو گئے۔ کافی دن اسپتال میں رہے رشتے دار چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ خدا جانے مراد لے پالک ہے یا ان کا اپنا بیٹا ہے۔
جب تک میرے شوہر زندہ رہے ، اس کے لئے کماتے رہے اور اس کے لئے سوچتے رہے حالانکہ ان کی صحت جواب دے چکی تھی پھر بھی وہ تین برس اپنی قوت ارادی سے کام کرتے رہے۔ تین برس بعد ان کا انتقال ہو گیا اور سب کچھ مراد کے ہاتھوں میں آگیا مگر وہ کاروبار کی باریکیوں کو نہیں سمجھتا تھا۔ اس کو کام کا تجربہ تھا اور نہ ہی اس میں دوراندیشی اور فراست تھی۔ جلدی ہی سرمایہ پانی کی طرح نشیب کی طرف جانے لگا۔ رفتہ رفتہ کار و بار اس کی غلط منصوبہ بندی اور لا پروائی کی نذر ہو گیا۔ بالآخر دو سال بعد ہم ایک بہت بڑی چلتی ہوئی فرم سے محروم ہو گئے۔ اس کے بعد تو وہ عیاشیوں میں ہی پڑ گیا۔ اس نے خوب گل چھرے اڑائے۔ میں سمجھاتی تو مجھ سے جھگڑ پڑتا تھا۔ ہمارے کچھ قریبی رشتے داروں نے اس کان بھرے کہ وہ ہمارا حقیقی بیٹا نہیں، بلکہ لے پالک ہے۔ شاید وہ اس بات کا انتقام لینے پر تلا تھا۔ اس نے دن رات بازار حسن کے چکر لگانے شروع کر دیئے اور بالآخر وہیں کا ہو رہا۔ ہمہ وقت نشے میں دھت رہنے لگا۔ مجھ کو پرانے ملازم آکر بتاتے، میں روتی دھوتی دعائیں کرتی کہ خدا اس کو عقل دے اور وہ راست راست پر آ جائے مگر اس کو عقل نہیں آئی تھی اور نہ آئی۔ میرے شوہر کی برسوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت ، اس۔ دولت ، اس نے چار دن میں اڑ اگر خود کو اور مجھے کنگال کر دیا۔ دولت کی ت کی اپنی شان ہوتی ہے۔ یہ ہو تو طمانیت رہتی ہے کہ از انسان کو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا، کسی کی محتاجی نہیں رہتی لیکن دولت جانے کا غم سے زیادہ مجھ کو تکلیف مراد کی بے حسی، بے راہ روی اور آخر میں نشے کی عادت تھی، جس نے میرا روحانی اور قلبی سکون بھی لوٹ لیا۔ ہم کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے اور میں رشتے داروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئی۔ مراد کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی ، جب وہ نشے کی خاطر ماہی بے آب کی طرح تڑپتا تھا۔
نشہ ایسی بلا ہے جو جوانی کی رعنائیوں کو نگل جاتا ہے۔ مراد بھی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گیا اور ایک روز نشہ نہ ملنے کی وجہ سے ایک ویران اور گندی گلی میں دم توڑ گیا۔ اس کے مرنے کا صدمہ میں نے کیسے سہا، میں ہی جانتی ہوں۔ میں نے اس کو ایک دن کا پالا تھا۔ اس آس پر کسی ماں کا لخت جگر چھینا تھا کہ ہماری دولت جائیداد کا وارث ہو گا لیکن شاید ہمارے نصیب میں اولاد کی خوشی نہ تھی بلکہ اولاد کے روپ میں تباہی لکھی تھی، جو آکر رہی۔ اولاد ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے۔ آج جبکہ بڑھا پاد و دھاری تلوار کی طرح مجھ پر جھک آیا ہے ، میں بے سہارا اور بے آسرا ہوں۔ نہ خاوند رہا، نہ جائیداد اور نہ ہی بیٹا، جس کی خاطر میں نے اتنے دکھ سے ، وہ خوشی بھی مجھ سے چھین گئی۔ آج میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ضروری نہیں اولاد بڑھاپے میں کام آئے اور جائیداد کی وارث ہو۔ کبھی کبھی اولاد بڑھاپے میں ایسے ساتھ چھوڑ جاتی ہے جیسے برے وقت میں اپنا سا یہ بھی انسان سے جدا ہو جاتا ہے۔ آج دولت یاد نہیں آتی لیکن سکھ بھرے دن ضرور یاد آتے ہیں کہ بڑھاپے میں دال روٹی کی محتاجی ایک عذاب ہے لیکن اس سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ مراد بھی میرے پاس نہیں ہے۔ قدرت انسان کو اس کے اعمال کی سزا دیتی ہے۔ اگر میں نے مراد کو جائز طریقے سے حاصل کیا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ آج وہ میری روح کا چین اور زندگی کا سکھ بنتا، لیکن میں نے کسی کا لخت جگر جدا کر کے اپنی گود بھری تھی، اس لئے یہ خوشی مجھ کو راس نہیں آئی۔