ناظمہ کا کوئی بھائی نہ تھا، اس کو حسرت تھی کہ کسی کو بھائی کہے۔ یہ چار بہنیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے والدین کو اولاد نرینہ سے محروم رکھا تو تمام گھرانہ ایک طرح سے احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ ناظمہ میری کلاس فیلو تھی۔ ہمارے گھر ایک ہی محلے میں تھے۔ پہلی جماعت سے میٹرک تک ساتھ رہا، تب ہم نے طے کیا کہ ایک کالج میں داخلہ لیں گے تاکہ بچپن کا ساتھ نہ چھوٹے۔ جن دنوں ہم آٹھویں میں تھے، ہماری کلاس میں ایک لڑکے نے داخلہ لیا کیونکہ اس کے والد کا تبادلہ لاہور ہو گیا تھا۔ اس کا نام وحید تھا۔ وحید بہت اچھا لڑکا تھا۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ خوب سیرت بھی تھا۔ بہت لائق فائق طالب علم تھا۔ اس میں جانے کیا بات تھی کہ ہماری کلاس کی سب ہی لڑکیاں اس سے متاثر تھیں، خاص طور پر ناظمہ کہتی تھی جب وحید کو دیکھتی ہوں تو دل میں خواہش ابھرتی ہے۔ اے کاش! میرا ایسا بھائی ہوتا۔ یہ اتنا اچھا اور نیک طبیعت ہے کہ اس کو بے اختیار بھائی بنانے کو جی چاہتا ہے۔ ہماری کلاس میں یوں تو سارے ہم جماعت ہی اچھے تھے، ہم انہیں بھائیوں جیسا ہی سمجھتی تھیں لیکن وحید کی بات ہی کچھ اور تھی، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ضرورت مند کی حاجت روائی کرتا اور جب کوئی اس سے پڑھائی کے سلسلے میں مدد کا طالب ہوتا، اس کی ضرور مدد کرتا۔
وحید کی اس عادت کی بدولت ہماری کلاس کے کافی نکمے اور نالائق لڑکے سدھر گئے تھے۔ خالی پیریڈ میں وہ ان میں سے کسی نہ کسی کو سوال سمجھاتا نظر آتا تھا۔ یوں اس کے کافی دوست بن گئے تھے۔ چند ایک شام کو اس کے گھر بھی جانے لگے، وہ انہیں پڑھا دیتا۔ یہ وہ لڑکے تھے جو ٹیوشن پڑھنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ وحید ایک مقبول عام اور قابل احترام طالب علم کے طور پر جانا جانے لگا۔ ناظمہ بھی کبھی کبھی اس سے پڑھائی میں مدد لے لیا کرتی تھی۔ اکثر اس کے نوٹس کی کاپی گھر لے جاتی اور اپنی کاپی پر نوٹس اتار لیتی جو وہ بہت محنت سے تیار کیا کرتا تھا۔ یوں ناظمہ کے نمبر اچھے آ جاتے تھے۔
ایک دن ناظمہ اسکول اکیلی آئی تو کسی آوارہ لڑکے نے اس پر آوازہ کسا، اس کو بہت دکھ ہوا۔ کلاس میں آئی تو بہت پریشان تھی۔ کہنے لگی مجھے ذرا دیر ہو گئی تو تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا، اپنے بھائی کے ساتھ آ گئیں۔ یہ بھی نہ سوچا کہ میں کس کے ساتھ آئوں گی۔ میرا کوئی بھائی بھی نہیں، اگر آج میرا بھائی ہوتا تو وہ لفنگا لڑکا کیوں میرے پیچھے لگتا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔
ہم دونوں باتیں کر رہی تھیں تب ہی وحید آ گیا۔ اس نے ناظمہ کے آخری جملے سن لئے تھے۔ بولا… مجھے بتائو کون تھا وہ لڑکا… میں دیکھتا ہوں اسے اور تم کیا اس لیے رو رہی ہو کہ تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں آج سے میں تمہارا بھائی ہوں اور یہ قول میں سگے بھائی کی طرح نبھائوں گا۔ آج سے تم مجھے وحید نہیں، وحید بھائی کہو گی۔ وحید نے کچھ اس انداز اور یقین سے یہ بات کہی کہ ناظمہ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، جیسے اس کی مدت کی آرزو برآئی ہو۔ اس روز کے بعد سے وہ خوش رہنے لگی، کلاس میں بھی اعتماد سے بیٹھتی جیسے وحید سچ مچ اس کا سگا بھائی ہو۔
میں وحید کی عظمت کی قائل ہو گئی۔ اس نے بڑے اعتماد سے ناظمہ کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا تھا۔ جب وہ گھر آتی، کہتی… عارفہ مجھے کوئی فکر نہیں ہے، کتنی خوشی ہوتی ہے مجھے یہ سوچ کر کہ میرا اس دنیا میں ایک بھائی بھی ہے۔ میں زندگی کے کسی موڑ پر دُکھ سکھ میں اسے آواز دے سکتی ہوں۔
میں نویں میں تھی کہ اس کا نکاح ہو گیا۔ منگنی شاید بچپن میں ہوئی تھی۔ منگیتر کا نام علیم تھا جو اس کا پھوپی زاد تھا اور ملازمت کے سلسلے میں چھ ماہ بحری جہاز پر رہتا تھا۔ سال میں دو ماہ کے لیے گھر آتا تھا۔ نکاح کے بعد اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ رخصتی میٹرک کے بعد ہونا قرار پائی۔ بیچاری ناظمہ کا کالج جانے کا خواب دھرا کا دھرا رہ گیا۔ ناظمہ اکثر مجھ سے کہتی کہ میں اپنی شادی میں وحید بھائی کو ضرور بلائوں گی۔ جب کوئی لڑکی پوچھتی… کیا وحید تمہارا بھائی ہے تو اس کو اس بات سے ایک انجانی خوشی ہوتی تھی۔ اتفاق یہ تھا کہ وحید کی بھی کوئی بہن نہ تھی، یہ ہمیں بعد میں پتا چلا۔
وہ عید کے دن یا جب ناظمہ اسے اصرار کر کے بلاتی، اس کے گھر چلا جاتا لیکن زیادہ نہ بیٹھتا کہ اس کے گھر والے محسوس نہ کریں۔ اس طرح دو سال گزر گئے۔ امتحان نزدیک تھے اور ٹیچر نے کچھ کام مکمل کرنے کے لیے دیا تھا۔ ان ہی دنوں ناظمہ کی دادی فوت ہوگئیں اور وہ گائوں چلی گئی۔ دو ہفتے بعد لوٹی تو پریکٹیکل کا رجسٹر تیار نہ کر سکی۔ دوسرا ٹاسک بھی مکمل نہ ہو سکا، بڑی پریشان تھی کہ ٹیچر کے پاس اسے جمع کروانا تھا، اس کے نمبر لگنے تھے۔ میٹرک کا داخلہ بھی بھیجا جانا تھا، دوسری صورت میں ہیڈ مسٹریس داخلہ فارم روک لیتیں۔ اس نے اپنی پریشانی کا ذکر وحید سے کیا، وہ بولا … کاپی اور رجسٹر مجھے دے دو، میں تمام کام مکمل کر دوں گا، تم جمع کرا دینا۔
ناظمہ نے رجسٹر وحید کو دے دیا اور جو کاپی نامکمل تھی، وہ اسے ساری رات بیٹھ کر کرتی رہی، پھر بھی صبح تک کام پورا نہ کر سکی۔ اگلے دن اپنے والدین کے ساتھ نہ گئی۔ وہ دوبارہ ایک دن کے لیے گائوں جا رہے تھے۔ گھر والے چلے گئے اور ناظمہ گھر پر بیٹھ کر کام مکمل کرنے میں مشغول ہو گئی۔ دو بجے کا وقت ہوگا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ سمجھی کہ وحید رجسٹر دینے آیا ہے۔ دوڑ کر دروازے پر پہنچی لیکن سامنے اس کا پھوپھی زاد علیم کھڑا تھا جس سے نکاح ہوا تھا۔ لمحہ بھر کو اس کی اچانک آمد پر حیران رہ گئی۔ اسے اندر آنے کا راستہ دیا اور بولی… آپ بیٹھئے، میں آپ کے لیے کھانا لاتی ہوں۔
کھانا کھا کر آیا ہوں۔ ماموں، ممانی سے ملنے آیا تھا۔
وہ گائوں گئے ہیں، شام کو آ جائیں گے۔
اچھا میں چلتا ہوں۔ علیم نے کہا۔ وہ چھ ماہ بعد آیا تھا، تب ہی ناظمہ بولی، آپ چائے تو پی لیتے۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا۔ بعد میں آ جائوں گا۔ ابھی اتنی بات ہوئی تھی کہ در پر دستک ہوئی۔ وہ دروازے کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔ اسی نے باہر دیکھا، آنے والا وحید تھا۔ ماموں، ممانی تو گھر پر نہیں ہیں۔ علیم نے کہا۔ کوئی بات نہیں، میں یہ رجسٹر دینے آیا ہوں۔ اس نے پوچھا … آپ کون ہیں؟ ناظمہ کا کلاس فیلو ہوں، میرا نام وحید ہے۔ اس سے بات کرنی ہے، اسے بلایئے، کچھ سمجھانا بھی ہے۔ ناظمہ نے جب وحید کی آواز سنی، دوڑی ہوئی آئی۔ وحید نے اسے رجسٹر دیا اور باتیں کرنے لگا۔ دونوں کو بات کرتے دیکھ کر علیم کو برا لگا، وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کی منکوحہ کے والدین کی غیرموجودگی میں کوئی لڑکا ناظمہ سے ملنے آئے گا۔ یہ تو میں آج اتفاق سے یہاں آ گیا ہوں، یہ گھر میں اکیلی تھی، ضرور اس لڑکے کو گھر میں بلا کر باتیں کرتی۔ یہ سوچ کر اس کا خون کھولنے لگا۔ اس نے وحید کو ڈانٹ کر کہا… میں ناظمہ کا ہونے والا شوہر ہوں۔ وہ گھر میں اکیلی ہے۔ کیا اس نے تمہیں اس وقت بلایا ہے؟ یہ سن کر وحید کو بھی غصہ آگیا۔ وہ تو ناظمہ کو دل سے بہن مان چکا تھا۔ بولا۔ آپ عجیب آدمی ہیں، ناظمہ میری بہن جیسی ہے۔ میں پہلے بھی یہاں آتا رہا ہوں، ان کے والدین کی اجازت سے۔
ان کی موجودگی میں نا؟ لیکن اس وقت تو وہ موجود نہیں ہیں۔ یہ رجسٹر مجھے دو اور فوراً دفع ہو جائو۔ آئندہ ادھر آنے کی جرأت نہ کرنا۔ بہت دیکھے ہیں تم جیسے بھائی۔ علیم نے وحید کی کچھ اس طرح بے عزتی کی کہ وہ جھنجھلا گیا لیکن ناظمہ کی خاطر خون کے گھونٹ پی کر خاموشی سے چلا گیا۔ ناظمہ بھی علیم کا ایسا شدید ردّعمل دیکھ کر سن ہو گئی۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ علیم ایسی ذہنیت کا مالک ہے۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ جس کی وہ دل سے عزت کرتی تھی، اس نے وہ بھائی کھو دیا تھا۔
پگلی نہ جان سکی کہ اس نے منہ بولا بھائی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کھو دیا ہے۔ وحید کے جانے کے بعد علیم نے نکاح کی انگوٹھی اتار کر اس کے سامنے پھینک دی اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ تم اس قسم کی آزاد خیال لڑکی ہو۔ یہ انگوٹھی جو تم نے پہنی ہے، اسے بھی اتار کر پھینک دو کیونکہ یہ مجھ سے منسوب ہے اور میں تم سے اب منسوب نہیں رہنا چاہتا۔ ناظمہ بیچاری اس اچانک حادثہ سے گھبرا گئی۔ اسے کیا خبر تھی کہ علیم اس طرح غلط فہمی کا شکار ہو جائے گا ورنہ وہ کیوں وحید سے اس کے سامنے باتیں کرتی۔ کافی دیر روتی رہی، کام بھی مکمل نہ کر سکی۔ اس کے والدین مغرب کے وقت گھر لوٹے تو اسے اداس اور پژمردہ پایا۔ باپ نے پوچھا، کیا ہوا بیٹی… خیریت تو ہے؟ حوصلہ نہ ہوا کہ والد کو کچھ بتاتی۔ بولی… چھٹیوں کا کام مکمل نہیں ہو سکا تب ہی پریشان ہوں ابا جی۔
صبح اسکول گئی تو وحید نے بھی ناراضی کا اظہار کیا۔ بولا…تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے ورنہ میں تمہارے ہونے والے شوہر سے نہ کہتا کہ ناظمہ کو بلا دو۔ اب خواہ مخواہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے جس نے تمہاری زندگی میں کانٹے بھر دیئے ہیں۔ تمہارا نکاح ہو گیا ہے، آئندہ احتیاط سے کام لینا بلکہ یہ رشتہ یہیں ختم سمجھو، آئندہ مجھے بھائی نہ کہنا۔
لیکن تم نے تو کہا تھا کہ عمر بھر بھائی کا رشتہ نبھاؤ گے۔
وہ تمہاری خوشی کے لیے کہا تھا اور یہ بھی تمہارے بھلے کے لیے کہا ہے۔ دنیا منہ بولے بھائی، بہن کے رشتے کو بہت کم برداشت کرتی ہے۔ ان باتوں سے ناظمہ اور مجھے بھی تکلیف ہوئی۔ سارا دن وہ کلاس میں چھپ چھپ کر روتی رہی۔ چار دن اسکول نہ آئی۔
پانچویں دن جب وہ آئی تو اسے پتا چلا کہ اس کے منہ بولے بھائی کو کسی نامعلوم شخص نے چھرے سے وار کر کے زخمی کر دیا تھا، زخم گہرا آنے کی وجہ سے وہ جاں بر نہ ہو سکا۔ وحید کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایسی خبر تھی جو صرف ہم سب کلاس فیلوز پر ہی نہیں سارے اسکول پر بجلی بن کر گری تھی۔ ناظمہ کی حالت نہ گفتہ بہ ہو گئی، وہ کسی کو نہ بتا سکی کہ اسے کس پر شک ہے، کس نے وحید پر حملہ کروایا ہو گا؟ خود اس کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہ تھا۔
ناظمہ اس واقعہ کے بعد اسکول نہ آئی اور نہ اس نے میٹرک کا امتحان دیا۔ چھ ماہ بعد جب علیم اپنی ڈیوٹی سے لوٹا تو اس نے ناظمہ سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ کہا کہ اس وقت وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے تم سے ایسا کچھ کہہ دیا جو مجھے نہ کہنا چاہیے تھا۔ بہرحال کچھ دنوں بعد جب غصہ ٹھنڈا
ہو گیا تو میں نے سارے معاملے پر غور کیا تو بات سمجھ میں آ گئی کہ میری عقل کا ہی فتور تھا۔ کیا معلوم تھا وہ اسی دن رجسٹر دینے آ جائے گا جب تمہارے والدین دادی کے چہلم پر گئے ہوں گے اور اسے کیا خبر تھی کہ تمہارے ماں، باپ گھر پر نہیں ہیں۔ ایسا اتفاقاً ہوا، ناظمہ میں تم سے شرمندہ ہوں۔ وہ انگوٹھی مجھے واپس کر دو اور تم بھی اپنی انگلی میں دوبارہ نکاح کی انگوٹھی پہن لو۔ مجھے یقین ہے کہ تم نے اس دن والے واقعے کا کسی سے ذکر نہ کیا ہو گا۔ ناظمہ نے نکاح کی انگوٹھی نہ پہنی۔ اس نے کہا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔ مجھے نکاح کے بندھن سے آزاد کر دو، یہ تمہاری مہربانی ہوگی۔ بے شک میں نے کسی سے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا لیکن یہ واقعہ میرے دل پر لکھا گیا ہے۔ اب سات سمندروں کا پانی بھی اس سیاہی کو نہیں دھو سکتا کیونکہ تمہارے جانے کے پانچ دن کے بعد وحید کو کسی نے چھرا گھونپ کر مار دیا، مجھ سے میرا بھائی چھین لیا، میں اس غم کو کبھی بھلا نہ پائوں گی۔
علیم کو حیرت ہوئی کہ یہ کیا کہہ رہی ہو۔ وہ بولا… بہت عجیب لگ رہا ہے کہ منہ بولے بھائی کا تمہیں اس قدر غم ہے۔ اس بیچارے کو کس ظالم نے بھری جوانی میں زندگی کی نعمت سے محروم کر دیا۔ کیا گزری ہوگی اس کے گھر والوں پر؟
آہ! کاش تم مجھے یہ بری خبر نہ سناتیں تو کیا فرق پڑتا۔ ناظمہ جانے والا اس جہاں سے گزر گیا۔ خدا جانے اس کا دشمن کون تھا، یہ تو رب ہی جانے؟ تم اس وجہ سے مجھ سے نکاح کا بندھن نہ توڑو گی، مجھے یقین ہے۔ سفاک کو کڑی سزا ضرور ملے گی کیونکہ اللہ کی عدالت بڑی ہے اور وہ سب سے بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ وہ دنیا کی نظر سے بچ بھی گیا تو اللہ کی نظروں سے نہ بچ سکے گا۔ بے شک ناظمہ تم درست کہتی ہو۔ اللہ بڑا منصف ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ وہی سفاک قاتل کو بھی سزا دے گا۔ علیم کی باتوں سے ناظمہ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ وحید کے قتل سے واقعی ناواقف تھا۔ وہ تو اگلے دن چھ ماہ کی ڈیوٹی پر چلا گیا تھا۔ وہ سوچتی رہ گئی تاہم اس کا دل علیم کی طرف سے صاف ہو گیا لیکن وہ پھر بھی اس سے شادی پر راضی نہ ہو سکی۔ وہ کسی ایسے شخص کی جیون ساتھی نہیں بننا چاہتی تھی جو شکی مزاج ہو۔ مجبوراً اس کے والدین نے علیم سے خلع کرا لیا۔ ناظمہ آج بھی کہتی ہے کہ عارفہ میں بڑی بدنصیب ہوں کہ جس کو بھائی بنانے کی خوشی راس آئی اور نہ ہی شادی کا دن دیکھنا نصیب ہو سکا۔ (ع…لاہور)