Friday, October 11, 2024

Khushiyon Ka Aashiyana

ان دنوں صفدر نے ڈپلوما کر لیا تھا اور اب نوکری کی تلاش میں تھا، مگر بہت کوشش پر بھی اپنے شہر میں ملازمت نہ مل سکی تو اس نے کراچی جانے کی ٹھان لی۔ سنا تھا، وہاں کوئی نہ کوئی کام مل جاتا ہے۔ ایسے وقت میں اسے اپنے دوست اشفاق کا خیال آیا، جو کراچی میں رہتا تھا۔ مجھ سے دعائیں لے کر وہ کراچی چلا گیا۔ وہ تو اچھی امید لے کر گیا تھا لیکن نوکری اتنی آسانی سے نہیں ملتی، تبھی اس نے ٹیکسی چلانی شروع کر دی کیونکہ وہ ڈرائیونگ بہت اچھی جانتا تھا۔ کچھ عرصہ اشفاق پر بھی بوجھ بنارہا، آخر مایوس ہو کر بیروزگاری سے چھٹکارا پانے کے لئے ٹیکسی ڈرائیور بن گیا۔

میرا بیٹا جتنا کماتا تھا، اس سے بہت کم خرچ کرتا تھا اور اپنی بچت کا زیادہ حصہ گھر روانہ کر دیتا تھا تا کہ ہم اپنی بیٹی کو جلد سے جلد بیاہ کر اس کے گھر کا کر سکیں۔ تین سال سخت محنت کے بعد وہ کافی رقم جوڑ پایا تو اس نے مجھے خط لکھا۔ ماں اب اتنی رقم میرے پاس جمع ہو گئی ہے کہ میری بہن عزت سے اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ جب وہ گھر آیا تو میں نے اسے بتایا کہ بیٹا ! ادھر بیٹی کو رخصت کروں گی تبھی بہو گھر لے آؤں گی۔ میں اکیلی نہیں رہ سکتی، تمہارے ماموں کی بیٹی کو بہو بنانا چاہتی ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ ماں جیسی تمہاری مرضی۔ یوں ادھر میری بیٹی رخصت ہوئی، اگلے روز بہو گھر آگئی۔ صفدر ایک ماہ گھر رہا۔ جاتے ہوئے مجھ سے وعدہ کیا کہ بہت جلد رہائش کا انتظام کر کے آپ لوگوں کو اپنے پاس کراچی بلالوں گا۔ کراچی پہنچتے ہی اس نے ایک کچی بستی میں دو کمروں کا مکان تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ایک ماہ کی تگ و دو کے بعد ایک کم کرایے کا گھر مل گیا تو ضروری سامان اس میں رکھا اور مجھے خط لکھ دیا کہ آپ میری دلہن کو لے کے کراچی آجائیں۔ میں نے جوابی خط لکھ بھیجا کہ ہم فلاں دن ، فلاں ٹرین سے پہنچیں گے تم آکر ہمیں لے جانا۔ حسب معمول گاڑی اپنے وقت سے ایک گھنٹہ لیٹ پہنچی۔ صفدر نے دور سے ہی ہمیں دیکھ لیا تھا۔ جب ہم ریل سے اتریں تو ہمارے ساتھ ایک اور لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ہم اسٹیشن سے باہر آئے۔ وہ ابھی تک لڑکی کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، تبھی میں نے کہا۔ بیٹے گھر چلو میں سب کچھ بتادوں گی۔ گھر آکر اسے بتایا کہ یہ لڑکی پنڈی سے سوار ہوئی تھی۔ تب ایک نوجوان اس کے ساتھ تھا۔ ہم سمجھ رہے تھے اس کا بھائی یا کوئی رشتہ دار ہے ، شوہر بھی ہو سکتا ہے، لیکن آگے جا کر وہ گم ہو گیا۔ ہم اسی گمان میں تھے کہ مردانہ ڈبے میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔ قصہ مگر اور نکلا۔ وہ آدمی اسے دغا دے گیا، جس کے ساتھ یہ فرار ہوئی تھی۔ انہوں نے کراچی میں آکر شادی کرنی تھی۔ یہی ان کا منصوبہ تھا، جو اس مرد کے دھوکے کی وجہ سے فیل ہو گیا۔ وہ راستے میں کہیں اتر گیا اور اس کا زیورات والا بکس بھی لے گیا، جس میں اس کے کپڑے اور نقدی بھی تھی۔ اب اس لڑکی کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی ، یہ چپکے چپکے رورہی تھی۔ دوسری مسافر عورتوں کے سامنے اس کو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے جب سرگوشی میں مجھے اپنی مصیبت بتائی اور میرے ساتھ چلنے کی التجا کی تو میں راضی ہو گئی۔ اگر ہم اس کو ایسے ہی بے سہارا چھوڑ دیتے تو یہ بھٹک جاتی۔ اب جو تم مناسب سمجھو، ہم اسی طرح اس کی مدد کریں۔ صفدر میری ساری بات سمجھ گیا۔

انیلہ نو عمر کی نادانی کا شکار ہو کر جذبات کی رو میں بہہ کر بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل پڑی تھی۔ میرے بیٹے نے کہا۔ ماں اگر یہ گھر لوٹ جانا چاہتی ہے تو ہم کرایہ دیتے ہیں، یہ چلی جائے یا پھر میں اسے اس کے والدین کے پاس چھوڑ آتا ہوں یا پھر اس کے والدین کو خط لکھ دیتے ہیں کہ آپ کی لڑکی ہمارے گھر میں محفوظ ہے، آکر لے جائیں گے ۔ لڑکی گھر واپس جانے پر راضی نہ ہوئی۔ وہ رونے بیٹھ گئی، بولی۔ میری ماں سوتیلی ہے۔ میں ہر گز اپنے گھر واپس نہ جاؤں گی۔ صفدر نے مجھ سے کہا۔ ممکن ہے یہ جھوٹ بولتی ہو۔ یہ تو اکثر فلموں اور افسانوں میں ہوتا ہے کہ ماں سوتیلی ہے ، باپ نہیں ہے۔ یہ لڑکی گھر سے فرار ہوئی ہے۔ اس کو دار الامان بھیج دیتے ہیں۔ میں اس بات پر راضی نہ ہوئی اور مجھ سے زیادہ میری بہو کو انیلہ سے ہمدردی ہو گئی۔ وہ بولی۔ اماں جان یہ بچاری گھر سے نکل چکی ہے اور کوئی عزت دار اس کو پناہ نہ دے گا۔ یہ اب کہیں نہ جائے گی، یہ یہی رہے گی۔ ہمارا کیا لیتی ہے ، ہم اس کی کہیں شادی کر دیں گے۔ صفدر نے انیلہ کو بہت سمجھایا کہ اس معاملے میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ اسے گھر میں رکھنے سے کچھ اندیشے کچھ خطرات ہیں، مگر وہ نہ مانی اور میرا بیٹا اپنی نئی نویلی دلہن کی ضد کے آگے بے بس ہو گیا۔ میں نے بھی سوچا کہ جو تقدیر میں ہو گا دیکھ لیں گے۔ لڑکی جانے پر رضامند نہیں، میں اس بچاری کو کیسے دھکے دے کر گھر سے نکالوں اور اگر معاملہ پولیس میں دیا جائے تو جوان لڑکی ہے، کسی کی عزت ہے۔ ایک سال آرام سے گزرا۔ انیلہ ہمارے گھر رہتی رہی۔ میری بہو ایک بچے کی ماں بن گئی تو کچھ دنوں سے کہنا شروع کر دیا کہ صفدر کو چاہیے ، انیلہ کی شادی اپنے کسی دوست سے کروا دیں۔ میں نے بیٹے سے کہا کہ اگر ایسا ممکن ہے تو کوشش کرو، شاید اس لڑکی کو کوئی مستقل باعزت ٹھکانہ ، اس کا اپنا گھر مل جائے۔ صفدر نے ایک دو با اعتماد دوستوں سے ذکر کیا مگر بھاگی ہوئی لڑکی کے ساتھ کوئی بھی شادی پر تیار نہ تھا۔ میری بہو کہتی کہ اشفاق کو راضی کر لیں۔ صفدر کی کئی دنوں سے اس سے ملاقات نہ ہو سکی تھی۔ وہ اپنے گاؤں گیا ہوا تھا۔ اب انیلہ کو جیسے رہ رہ کر کیڑے کاٹتے تھے اور وہ الجھنے لڑنے جھگڑنے لگی۔ اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ انیلہ کی شادی کر دو۔ آپ لوگ ٹھنڈے کیوں بیٹھے ہیں ؟ کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کوشش میں نے بھی کی۔ دو چار ملنے جلنے والوں سے ذکر کیا۔ جہاں تک ممکن تھا صفدر نے بھی کوشش کی مگر شادیاں تو اپنے وقت پر ہوتی ہیں۔ یہ تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں، کسی کے بس کی بات نہیں۔ میں دعائیں بھی مانگتی تھی کہ اے اللہ ! کسی طور جلد از جلد اس بچی کی قسمت کھول دے۔ اس کو اچھا بر عطا کر دے، مگر کہیں سے بات نہ بنی۔ ایک روز میری بہو نے زبردست جھگڑا کر دیا کہ آپ لوگ نہیں چاہتے انیلہ کی شادی ہو۔ شاید آپ دونوں خود اس کو پسند کرنے لگے ہیں اور میری سوتن بنانا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کا دل ہی نہیں چاہتا کہ آپ کی من چاہی ، آپ سے دور ہو۔ میں حیران کہ انیلہ نے یہ کیا بات کہہ دی۔ صفدر نے اس کو بہت سمجھایا۔ پہلے پیار اور نرمی سے پھر سختی سے بھی کہا کہ ایسی بات ہر گز نہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی رشتہ جڑ نہیں رہا تو ہم کیا کریں ؟ تم سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو تم ہی کرادو اس کی شادی، مگر سجیلا کے دماغ میں کوئی دلیل بیٹھتی نہ تھی۔ اس کی ایک ہی رٹ کہ یا تو میں اس گھر میں رہوں گی یا انیلہ رہے گی۔ میں اس سوکن کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔

میں اور صفدر دونوں ہی حیران تھے کہ اچانک سجیلا کی سوجھ بوجھ کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عورت ذات کا اعتبار نہیں۔ اس کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کہاں تو انیلہ انیلہ کرتی تھی، اپنے کپڑے اسے پہناتی ، اس کے بغیر لقمہ نہ توڑتی اور کہاں اب اس کا یہاں ایک منٹ بھی رہنا اسے گوارا نہیں۔ صفدر نے بالآخر سختی سے کہا۔ اس وقت تو تم کو اس سے اتنی ہمدردی تھی ، اب رہ نہیں سکتیں۔ کوئی لڑکا دیکھ کر شادی کر ہی دیں گے ۔ اب ایسے تو کسی اندھے کنویں میں دھکا نہیں دے سکتے، مگر اللہ کی بندی نے کسی کی ایک نہ سنی۔ وہ تو شک کی آگ میں یوں جلنے لگی تھی جو جہنم سے بھی بدتر تھی ، حتی کہ ایک دن روٹھ کر میکے چلی گئی۔ بیٹے کو بھی ساتھ لے گئی۔ وہاں جا کر اس نے برادری میں ہر جگہ صفدر کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔ سب سے رورو کر فریاد کرتی کہ میرے شوہر کو دیکھو، گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو دو سال سے بٹھا رکھا ہے اور اب اس سے شادی کے پرو گرام بن رہے ہیں۔ پھوبھی صفدر کے ساتھ ہو گئی ہیں۔ جب میں نے احتجاج کیا تو ماں بیٹے نے لڑ جھگڑ کر مجھے میکے روانہ کر دیا۔ یہ سراسر بہتان تھا میں تو حیران پریشان تھی کہ یہ کیا ؟ ہماری نیت صاف تھی اور بہو نے نیکی کر کے اس پر پانی پھیر دیا تھا۔ میرا دل سجیلا سے برا ہو گیا، جی چاہتا کہ جیسا اس نے ناحق مجھے اور میرے بیٹے کو بدنام کیا ہے تو کیوں نہ سچ مچ یہ کر ہی دکھائیں۔ انیلہ میں کوئی برائی، کوئی عیب نہ تھا۔ صورت کی بھی اچھی تھی۔ بس جو ایک غلطی اس سے ہوئی تو ہمارے در کی فقیر بن گئی۔ بری ہوتی تو پھر سے بھاگ نکلتی ۔ اس کے سات بھائی تھے اور بہت سخت تھے۔ اسی خوف کے سبب واپس نہیں جاتی تھی کہ ان میں سے کوئی تو ایسا ہو گا جو کسی کی نہیں سنے گا اور اس کے خون سے ہاتھ رنگ لے گا۔ سجیلا کو وہاں سے بھی میری بیٹی اور داماد نے سمجھایا جو سجیلا کا سگا بھائی تھا مگر وہ کسی کی نہ سن رہی تھی۔ میری بیٹی نے فون کیا تو میں نے بتایا کہ ہم نے اسے نہیں نکالا، یہ خودا کیلی ہی گھر سے چلی گئی ہے۔ اس نے ہماری عزت کا خیال کیا اور نہ ماں باپ کا ، اب طلاق کے مطالبے کر رہی ہے۔ بھری برادری مفت میں بدنام کر کے بھی اس کا جی نہیں بھرا ہے۔ سب ہمیں تھو تھو کر رہے ہیں۔ ایسی کو بہو بنا کر رکھنے سے کیا سکون ملے گا۔ صفدر تو کہہ رہا ہے کہ بہتر یہی ہے ، اس کو طلاق دے دوں مگر میں نے اس کو روکا ہوا ہے۔ امی ! بھائی سے کہیں طلاق کا لفظ بھی منہ سے نہ نکالیں، ورنہ میری ساس سسر جو سجیلا کے ماں باپ ہیں ، وہ میرے ساتھ کسی قدر بگڑیں گے ، آپ جانتی ہی ہیں۔ یہ معاملہ کسی طرح بھی حل کر دیں، تاکہ میں اور فیاض، انیلہ کو لے کر آپ کے گھر آجائیں۔ میں نے تو صفدر سے کہہ دیا تھا کہ بہتر ہے اگر تمہاری بیوی طلاق مانگ رہی ہے ، تو طلاق دے ہی دو اور انیلہ کو اپنا لو۔ سجیلا نے مفت میں طوفان اٹھایا ہے ، اس کو اپنے کئے کی سزا تو ملے ، لیکن صفدر نے سوچا اور کہا۔ امی وہ جذباتی ہو رہی ہے تو ہمیں جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے آپ طلاق دینے سے روک رہی تھیں۔ اب آپی نے سمجھایا ہے، فیاض بھائی بھی کہہ رہے ہیں۔ غصے میں عورتیں اسی طرح ردعمل کرتی ہیں۔ کچھ دنوں بعد سجیلا کو از خود عقل آجائے گی۔ کوئی عورت اپنا بسا بسایا گھر برباد نہیں کرنا چاہتی۔ دراصل سجیلا اور صفدر دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے اور ایک دوسرے کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ صفدر اپنی بیوی کو کھونا نہیں چاہتا تھا جو اس کے بیٹے کی ماں بھی تھی۔ بیٹے سے بھی اسے بہت پیار تھا۔ ان کا ہنستا بستا گھر پرسکون زندگی تھی۔

انیلا ہمارے گھر اتنے دنوں سے شرافت سے رو رہی تھی۔ وہ گھر کے تمام کام کرتی، میری خدمت میں لگی رہتی اور صفدر اسے بہن کہہ کر بلاتا تھا۔ ہمارے گھر کا ماحول نہایت پاکیزہ تھا۔ بس اچانک ہی سجیلا نے جانے کیا سوچ لیا۔ وہ بگڑی تو بس بگڑتی چلی گئی، خدا جانے کیوں ؟ بہر حال صفدر تو سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کی زندگی میں ایسا موڑ آئے گا کہ وہ ساری دنیا کے سامنے تماشہ بن جائے گا۔ عورت اپنی محبت میں شراکت برداشت نہیں کر سکتی۔ صفدر جانتا تھا کہ سجیلا اس سے محبت کرتی ہے۔ بے شک ان دنوں کم عقلی کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اس احتجاج میں بھی وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔ میں نے بہو اور بیٹے کا محاسبہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچی کہ ممکن ہے کبھی بے دھیانی میں صفدر نے انیلہ کو کسی وقت زیادہ توجہ دے دی ہو اور سجیلا نے اس توجہ کو لاشعوری طور پر اپنے لئے خطرہ جان لیا ہو تبھی اس کا ردعمل اس کے اختیار سے باہر ہو گیا ہے۔ یہ سوچتے ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ ہر صورت میں اپنے بیٹے اور بہو کے گھر کو اجڑنے سے بچاؤں گی اور سجیلا کو واپس لے آؤں گی۔ اس کے بعد میں نے خود اشفاق سے بات کی، اس کو تمام معاملہ سمجھا دیا۔ وہ غیر شادی شدہ تھا، میری خاطر اس نے انیلہ سے شادی پر غور کیا اور اپنی رضامندی دے دی، کیونکہ وہ مجھے ماں کا درجہ دیتا تھا۔ صفدر بھی دوست کے فیصلے سے خوش ہو گیا۔ اس نے فورا ہی دونوں کی شادی کروادی اور انیلہ کو ایک بہن کی طرح رخصت کیا۔ اس کے بعد ہم سجیلا کے میکے گئے، جہاں میری بیٹی اور داماد بھی تھے۔ سب نے ہی اس کو سمجھایا۔ انیلہ نے بھی کہا کہ باجی ! آپ نے ہی مجھے پناہ دی اور آپ نے ہی مجھ پر داغ لگا دیا۔ نیکی کی تھی، تو پوری کرنا چاہیے تھی۔ اس پر سجیلا شرمندہ ہو گئی۔ بولی۔ خدا جانے مجھ کو کیا ہو گیا تھا۔ میرے دل میں ناحق وسوسہ پڑ گیا اور بدگمانی نے مجھے گمراہ کر دیا تھا۔ اب میرادل صاف ہو گیا ہے۔ میں نے تم کو معاف کیا ، تم بھی مجھے معاف کر دو۔ اس طرح سجیلا کو ہم واپس گھر لے آئے۔ وہ بھی اپنے گھر لوٹنا چاہتی تھی۔ اس طرح میرے بیٹے کی خوشیوں کا آشیانہ طوفان کی زد میں آکر بھی اللہ کی مہربانی سے اجڑنے سے بچ گیا۔ آج سوچتی ہوں کہ اگر اس وقت میں بھی سجیلا کی طرح کم عقلی سے کام لیتی تو شاید میرے بیٹے کا گھر اجڑ جاتا اور میرا پوتا ماں یا باپ دونوں میں سے کسی ایک کی محبت سے محروم ہو جاتا۔ خدا کا شکر کہ اس نے ہم کو ایک بڑی غلطی سے بچالیا اور سجیلا نے بھی زندگی کے اس موڑ سے گزرتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے کر اپنی جنت دوبارہ آباد کرلی۔

Latest Posts

Related POSTS