Saturday, December 14, 2024

Khushiyon Ka Dhoka

تانیہ میرے تایا کی اکلوتی بیٹی تھی، جن کی لبرٹی میں کپڑے کی بڑی دکان تھی۔ وہ مارکیٹ کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ دولت ان کے گھر کی باندی تھی اور خوشحالی نے تو جیسے ان کا گھر دیکھ لیا تھا۔ تانیہ شہر کے ایک اعلیٰ اور مشہور کالج میں پڑھتی تھی۔ تایا کو بیٹی سے بہت پیار تھا۔ انہوں نے اسے گاڑی لے کر دی ہوئی تھی اور آدھی جائیداد تو جیتے جی اپنی صاحبزادی کے نام کر دی تھی۔ جب وہ چھٹیوں میں ہمارے گھر آتی تو اس کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ہم رشک کرتے تھے۔ اس کے پاس اتنے جوڑے اور جوتے تھے کہ وہ انہیں دوبارہ استعمال کیے بغیر ہی ہمارے گھر چھوڑ جاتی۔ اس سارے عیش و آرام کے باوجود، وہ بہت اچھے اخلاق کی حامل تھی۔ ہر وقت ہنسی مذاق کرنا اور سب کے ساتھ مل جل کر رہنا اس کی عادت تھی۔ جب ہم سب سیروتفریح کے لیے جاتے تو ہمارا وقت بہت اچھا گزر جاتا۔

اس بار وہ چھٹیوں میں آئی اور آتے ہی پکنک کا پروگرام بنا لیا۔ اس مرتبہ چچا کا بیٹا ارمان بھی ساتھ تھا کیونکہ میرے بھائی شوکت نے اسے آفر کی تھی کہ تم بھی ساتھ چلو، ورنہ میں بور ہوتا رہوں گا۔ ارمان سنجیدہ مزاج تھا اور جلد کسی سے گھلتا ملتا نہ تھا۔ میرے ساتھ بھی اس کی زیادہ بے تکلفی نہیں تھی، البتہ فرح کے ساتھ اس کی بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ میری اس کزن کی منگنی ارمان کے ساتھ ہو چکی تھی۔ تانیہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کیونکہ یہ لوگ خاندان سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ صبح سات بجے ہم لوگ ایوبیہ چلے گئے۔ پُرفضا مقام کی اپنی شان ہوتی ہے۔ فرح، شکیلہ اور میں ساتھ ساتھ تھے جبکہ تانیہ ہم کو چھوڑ کر بار بار شوکت بھائی اور ارمان کے پاس چلی جاتی تھی۔ میں نے محسوس کر لیا کہ وہ ارمان میں دلچسپی لے رہی ہے، تاہم فرح نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کیونکہ تانیہ کی چلبلی عادت کا سب کو علم تھا۔ خدا نے اچھی صورت کے ساتھ اسے ذہین بھی بنایا تھا، وہ باتوں کا فن خوب جانتی تھی۔ اس کی حس مزاح بھی نہایت عمدہ تھی لہٰذا اس کی باتیں سبھی کا دل خوش کر دیتی تھیں۔ پکنک اچھی رہی۔ جب ہم گھر آئے تو بہت تھکے ہوئے تھے، جلد سو گئے۔

اگلی صبح ارمان آیا اور کہنے لگا، شبو باجی سب کزنز سے کہو، آج میری طرف ڈنر ہے۔ میں حیران تھی کہ اس کنجوس کزن کو ہماری دعوت کرنے کا خیال کیسے آیا۔ اس روز فرح کی امی بیمار ہو گئیں، وہ ان کے ساتھ اسپتال چلی گئی۔ ہمیں ارمان نے بہت اچھا ڈنر کرایا۔ کہتے ہیں خوشیوں کے دن تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ تانیہ کے امی ابو اس کو لینے آ رہے تھے کہ راستے میں ان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ تایا، تائی اور ان کا ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے اور ہمارے گھر میں سوگ کا سماں ہو گیا۔ تانیہ یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئی۔ وہ پتھر کی مورت کی مانند خاموش تھی، بالآخر جب سکتہ ٹوٹا تو وہ بہت پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ اب وہ اکیلے لاہور جانے پر راضی نہ تھی۔ امی ابو نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ ہمارے پاس رہ جائے۔

ابو جان تایا ابو کا کاروبار سنبھالنے لاہور چلے گئے اور ان کے گھر کو مقفل کر کے چوکیدار کو نگران رکھ دیا گیا۔ تانیہ کو وہاں جانے سے وحشت ہوتی تھی کہ اپنے والدین کو نہ پائے گی تو دل کی کیا حالت ہو گی۔ میں، فرح، شکیلہ اور شوکت بھائی سبھی اس کی دلجوئی میں لگے ہوئے تھے۔ ارمان بھی افسردہ تھا اور تقریباً روز ہی اسے تسلی دینے ہمارے گھر آ جاتا تھا۔ تانیہ کو ہم باہر گھمانے لے جاتے۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر وہ بہلتی تھی تو صرف ارمان سے۔ اس کے ساتھ باتیں کر کے تانیہ کو سکون مل جاتا تھا۔ جب وہ آتا تو یہ لڑکی اپنا غم تھوڑی دیر کو بھول جاتی تھی۔ جلد ہی دونوں میں کچھ ایسی دوستی ہو گئی کہ روز ملے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔

فرح بہت سادہ فطرت کی تھی۔ وہ جب ارمان کے ساتھ تانیہ کو باتیں کرتے دیکھتی تو دل میں کوئی بدگمانی نہ لاتی بلکہ خوش ہوتی کہ میری غم زدہ کزن کسی طرح خوشی محسوس کرے۔ مگر تانیہ رفتہ رفتہ ارمان کی ذات میں گم ہونے لگی۔ اب وہ ہر وقت اس کا انتظار کرتی۔ اب ارمان فرح کے ہاں جانے کے بجائے ہمارے گھر آ جاتا تھا۔ اس کے معمولات میں کافی فرق آ چکا تھا۔ فرح میری گہری سہیلی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسے مستقبل میں کسی قسم کے دھوکے کا سامنا کرنا پڑے، جبکہ اس معصوم کو کچھ خبر نہ تھی۔ فرح ارمان سے بچپن سے پیار کرتی تھی اور مجھ سے اس کی ڈھیروں باتیں کرتی۔ میں جانتی تھی کہ تانیہ کے آنے سے پہلے ارمان بھی اسے چاہتا تھا اور بطور جیون ساتھی اس کے ساتھ مستقبل کے خواب دیکھتا تھا۔ مگر سچ ہے کہ انسان کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔

ایک دن تانیہ نے مجھے بتایا کہ ارمان اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی اسے جیون ساتھی کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اس نے کہا، شبو باجی آپ یہ بات اپنے امی ابو سے کہیے، ہم آپ کی مدد کے طالب ہیں۔

امی نے سنا تو لمحہ بھر کو سکتے میں آ گئیں ۔ بولیں۔ میں تو سمجھتی تھی کہ کزن ہونے کے ناتے ارمان اس کی دلجوئی کرنے آتا ہے ۔ مجھے کیا خبر تھی ان کی چاہت اتنی گہری ہوجائے گی ، لیکن اب فرح کا کیا بنے گا ۔ اس کے والدین کو کیسے سمجھائیں گے ؟ امی وہ تو سمجھ ہی جائیں گے، لیکن بیچاری فرح بری طرح اجڑ جائے گی کیونکہ میں اس کی دلی حالت کو سمجھتی ہوں ۔ بیٹی اگر ارمان انکار کر رہا ہے تو یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے ۔ فرح کو سمجھانا ہی ہوگا اور اچھا ہے اگر ہم تانیہ کے دل کی اس خوشی کو پورا کردیں کیونکہ اس نے بیک وقت ماں باپ دونوں کو کھو دیا ہے۔ اگر دوسرا دهچکا ملا تو وہ سہ نہ سکی گی۔ گویا میری ماں نے تانیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ابو نے ارمان سے بات کی تو اس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر آپ لوگوں نے میری شادی تانیہ سے نہ کی تو میں فرح سے بھی شادی نہیں کروں گا۔ میں بچپن کی منگنی کو نہیں مانتا۔ پھر کیا فائدہ ہم دونوں کو اجاڑنے کا؟ ابو اس کی بات سن کر سہم گئے۔ ایک طرف بہن کی خوشیاں تھیں کہ فرح ان کی بھانجی تھی اور دوسری طرف ان کے مرحوم بڑے بھائی کی لخت جگر تھی۔ وہ خاموش ہوگئے اور بالآخر فیصلہ تانیہ اور ارمان کے حق میں ہوا-

جس روز فرح کو پتا چلا وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر روتی رہی ۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ ارمان یکا یک اس طرح بدل جائے گا۔ اس ارمان کو فون کیا اور پوچھا۔ ارمان کیا یہ صحیح ہے ، جو میں سن رہی ہوں۔ کیا تم نے مجھ سے شادی سے انکار کیا ہے اور تانیہ سے شادی کر رہے ہو ؟ ہاں، یہ صحیح ہے۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ فرح نے تو جو سہنا تھا سہہ لیا مگر کسی کو پتا نہیں تھا کہ ارمان لالچی آدمی ہے ۔ اس نے خود پر ایک خول چڑها ركهاتها. وه ہمارے سب سے چھوٹے اور غریب چچا کا بیٹا تھا۔ ان کے گھر میں خوشحالی نہ تھی، اسے امیر ہونے کی حسرت تھی اوراس آرزو کو اس نے دل میں دبا رکھا تھا جب اسے اندازہ ہوا کہ تانیہ اس میں دلچسپی لے رہی ہے تو اس کے اندر کے لالچی آدمی نے یہی سوچا کہ کیوں نہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھالوں اسے تانیہ سے نہیں ، اس کی دولت سے محبت تھی ، جو وہ اپنی اکلوتی بیٹی کے نام کر گئے تھے اور باقی اثاثہ بھی تانیہ کو ہی ملنے والا تھا ۔ اس کے نزدیک اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانا سراسر بیوقوفی تھی، جبکہ لڑکی خود بھی اس سے شادی کی آرزو مند تھی ۔ دکھی جان سمجھ کر سبھی نے تانیہ کا ساتھ دیا اور بیچاری فرح کو بھول گئے تھے، سوائے میرے پھوپھا پھوپھی کے، جو اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے، لیکن زمانے کے حجاب سے ان کے منہ پر تالے لگے ہوئے تھے۔

ارمان ٹھنڈے دل و دماغ کا آدمی تھا، تبھی وہ منصوبے بھی خوب بناتا تھا۔ ایک دو بار میں نے تانیہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم فرح کا خیال کرو ، وه تمہاری پھپھو کی بیٹی ہے۔ اگر اس کا خیال نہیں کر سکتیں تو یہی سوچ لو کہ ایک انسان اگر اپنی منگیتر کو دھوکا دے سکتا ہے تو تم کو بھی دے سکتا ہے وہ بولی۔ یہ نظریات کا کھیل نہیں ہے ۔ یہ دل کے معاملات ہوتے ہیں تم اس بات کو سمجهو ، لیکن شاید تم سمجهو گی نہیں ، کیونکہ تم فرح سے زیادہ انسیت رکھتی ہو۔ میں خاموش ہو بیٹھی ۔ دونوں کی شادی ہوگئی ۔ ارمان نے منع کردیا کہ دھوم دھام نہیں چاہیے ۔ شادی کے بعد دونوں بنی مون منانے چلے گئے ، ادھر غم سے فرح بیمار پڑگئی میں روز پھپھو کے گھر جاتی اور اسے سمجھاتی س کی دل جوئی کرتی ۔ شادی کا بمشکل ایک سال بنسی خوشی گزرا پھر ارمان نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا وہ پیار پیار سے بیوی کو کہتا کہ تم اپنی جائیداد کا کچھ حصہ تو میرے نام کردو، تاکہ خاندان میں میری کچھ عزت بن جائے ۔ تانیہ نادان ایک دن اس کی باتوں میں آگئی اور اس نے اپنی جائیداد اپنے خاوند کے نام کردی ۔ اس طرح رفتہ رفتہ باقی اثاثوں پر بھی ارمان نے کنٹرول کرلیا۔ جب اسے اپنا مقصد حاصل ہو گیا تو وہ اس بات پر تانیہ سے لڑنے لگا کہ دو سال ہوگئے شادی کو اور تم نے مجھے ابھی تک اولاد کی خوشی نہیں دی ۔

میں ایسی جائیداد کا کیا کروں، جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ کبھی کہتا کہ تم اولاد کے لئے علاج نہیں کروائیں، میری لائی ہوئی دوا نہیں کھاتیں، اپنا خیال نہیں رکھتیں۔ وہ اس نازو کی پلی کو اسی بات سے ٹینشن دینے لگا، جبکہ وہ ایسے رویہ کی بالکل بھی عادی نہ تھی، تبھی غم زدہ رہنے لگی۔ اللہ نے اس پر رحم کردیا اور اس کو اولاد کی خوشی سے نواز دیا۔ اس نے شوہر کو خوشخبری سنا دی کہ وہ امید سے ہے۔

اب ارمان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور وہ سوچنے لگا کہ میں نے تو شادی دولت کی خاطر کی تھی، وہ تو مجھے مل گئی اب اولاد ہوگئی تو میں تانیہ کے ساتھ واقعی بندھ جاؤں گا۔ ایک دن اس نے بیوی سے کہا ۔ سیر کو چلتے ہیں ۔ وہ اسے ایک پہاڑی علاقہ میں لے گیا اور پهر رو تا دهوتا آگیا کہ تانیہ دریائے نیلم کے کنارے ایک پتھر پر کھڑی تھی کہ اس کا پیر پھسل گیا اور وہ تیز لہروں میں گر گئی ۔ اس نے وہاں آفیسرز کو اطلاع دی۔ انہوں نے اس کی لاش کو ڈھونڈوایا مگر وہ تیز پانی میں بہہ گئی تھی۔ تانیہ کی لاش تو دو دن بعد مل گئی جو کہیں آگے جاکر ایک بڑے پتھر سے اٹک گئی تھی۔ وہاں مقامی لوگوں نے اسے نکال لیا تھا، لیکن اس بات کی گواہی دینے والا کوئی نہ تھا کہ وہ خود پاؤں پھسل جانے سے پانی میں گری تھی یا کسی نے دھکا دے دیا تھا ۔ بہر حال انسان کے دماغ میں کئی طرح کے گمان بھی جنم لے لیا کرتے ہیں۔ ایسا ہی یہاں بھی ہوا۔ طرح طرح کی باتیں کرنے والے کم نہ تھے، تاہم ارمان کئی دنوں تک بیوی کے سوگ میں غمزدہ اور خاموش رہتا تھا وہ ہمارے چچا کا بیٹا تھا، لہذا ہم نے اس کے بارے میں غلط سوچا ہی نہیںاور اس کے غم میں شریک رہے۔ تانیہ کا غم ہم کو بھی کم نہ تھا۔ سب یہی کہنے
لگے کہ تانیہ بدنصیب تھی کہ اسے اولاد کی خوشخبری بھی راس نہیں آئی ۔ ایسے واقعات انسان کی زندگی میں ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ تانیہ کی وفات کو ایک سال گزر گیا تو ارمان کو فرح کی یاد آئی ۔ اس نے والدین سے کہا کہ اگر میری شادی فرح سے کردیں۔ میں نے اس کا دل دکھایا تها تبهى مجھے تانیہ کے ساتھ شادی راس نہیں آئی اور اس نے بھی فرح کا دل دکھا کر جان گنوائی۔ ماں باپ کو بیٹے کی بات دل کو لگی۔ وہ فرح کے گھر گئے اور اس کے ماں باپ کو منا لیا۔ فرح کو اس کی بے وفائی کا بہت دکھ تھا، لیکن اس نے والدین کی خاطر اس بے وفا شخص کے ساتھ شادی کرنا قبول کرلیا، تاہم اس کے دل میں ارمان کے لئے وہ پہلی جیسی جگہ نہ رہی تھی۔ جب اس کی شادی ہورہی تھی ، وه زرد بیمار لگ رہی تھی۔ چہرے پر وہ خوشی بھی نہ تھی، جو ہونا چاہیے تھی۔ بہر حال شادی ہوگئی۔ تایا کی دولت کا مالک ارمان اب امیر آدمی تھا لیکن فرح کے لئے وہ ایسا نہ تھا۔ دل تو ایک شیشہ ہے، اگر شیشے میں بال آجائے تو جاتا نہیں ۔ فرح اس حقیقت کو فراموش نہ کرسکی کہ آرمان ایک بار اس کو ٹھکرا چکا تھا۔ جب یہ بات یاد آتی تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے تھے ۔ ان کی شادی کو چھ سال گزر چکے تھے ، اس دوران وہ دو بچوں کی ماں بن گئی ۔ ایک روز ترنگ میں آکر ارمان نے اس کے سامنے اقرار کرلیا کہ میں محبت تو تم سے کرتا تھا لیکن میرے پاس دولت نہ تھی۔ ہم غریب تھے ، اس لئے خاندان میں ہماری اہمیت کم تھی ۔ یہ کمی مجھے احساس کمتری میں مبتلا کردیتی تھی، تبھی تانیہ نے شادی پر اصرار کیا، تو میں نے اس سے شادی کرلی، مگر دل میں پچھتاوا تھا ، تم مجھے یاد آتی تھیں۔ میں نے تم سے سچی محبت کی تھی ، اس لئے بھلا نہ سکا مینتم کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ تانیہ کو تو تقدیر نے ہمارے بیچ لے آئی تھی ، تبھی ایک روز میں اسے نیلم وادی لے جاکر تیز پانی میں دھکا دے دیا تھا۔
ارمان کے منہ سے ایسی خوفناک بات سن کر وہ دنگ رہ گئی ۔ یہ ایسا دھچکا تھا، جس نے فرح کے دل کو زخمی کردیا اور اس کے دل سے ارمان کی اہمیت کم کردی تاہم اس نے زبان نہیں کھولی، کیونکہ وہ ایک مشرقی بیوی کے علاوہ اس شخص کے بچوں کی ماں بھی تھی اور بچوں کا مستقبل ایک ایسے شخص سے وابستہ تھا ، جس کو وہ چھوڑ سکتی تھی نہ اس کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ ممتا نے اس کی زبان پر تالے لگا دیئے اور اسے خاموش ہی رکھا۔ اس نے اپنے ضمیر کا گلا دبا دیا اور جوں توں ارمان کے ساتھ زندگی گزار نا قبول كرليا. وہ اگر فرح کے سامنے اقرار جرم نہ کرتا تو ہم بھی یہی سوچتے رہتے کہ یہ تقدیر یا پھر کسی کی غلطی تھی لیکن احساس جرم بھی انسان کو اتنے کچوکے لگاتا ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس درد کو برداشت نہ کرسکنے پر زبان سےجرم کا اقرار کرلیتا ہے ۔ یہ سب کچھ ایک دن فرح نے بتایا تھا، جب اسنے تانیہ کی تصویر میرے کمرے میں دیکھی تھی ، تب وه چپ نہ رہ سکی تھی۔ میں سوچتی ہوں کہ ہم دوسروں پر رشک کرتے ہیں لیکن کسی کی تقدیر میں کیا لکھا ہے ، کوئی نہیں جانتا ۔ ایک وقت تھا جب ہم سب تانیہ کو سب سے زیاده خوش نصب کہتے تھے اور اس کی شہزادیوں جیسی زندگی کو رشک سے دیکھتے تھے۔ اس کے پہناوے پر حسرت کرتے تھے، لیکن اللہ جب کسی کو بہت کچھ دیتا ہے تو پھر ان کو دکھ بھی بہت زیادہ مل جاتے ہیں ۔ جیسے تایا اور تائی کا ایک ساتھ حادثے میں انتقال کرجانا اور تانیہ کا یکایک خوشیوں کے تخت سے محروم ہونے کے بعد اپنے بخت اور حتیٰ کہ اپنی زندگی سے محروم بوجانا . اب خیال آتا ہے کہ ہم سے اچھی زندگی اور اچھی قسمت اس کی ہرگز نہ تھی۔ ہم تب خود کو اس کے آگے کم نصیب سمجھتے تھے۔ آج ہنسی خوشی زندگی لطف اندوز ہورہے ہیں اور وہ کم نصیب کب کی قبر میں جا سمائی ہے ۔

Latest Posts

Related POSTS