سلطان لندن گئے تو وہاں ایک برطانوی حسینہ اسٹیلا سے ملاقات ہوگئی۔ جلد ہی دونوں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ اسٹیلا ایک باذوق خاتون تھی جس کی حسِ جمال اعلیٰ تھی۔ وہ اس شاعر کی خوابناک شاعری اور دلکش مترنم آواز سے متحیر زدہ ہوگئی، حالانکہ اردو زبان جانتی سمجھتی نہ تھی، مگر ان کے چاروں طرف مداحوں کی بھیڑ اور بے حد احترام دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئی۔ سلطان بھی اس کی گلابی رنگت اور سبز جھیل جیسی آنکھوں میں کھو گئے۔ انہوں نے شادی کا پیغام دیا اور کم عمر اسٹیلا نے شاعر سلطان کے اس پیغام کو فوراً قبول کرلیا۔
لندن میں یہ شادی ہوئی۔ ان کے مداحوں نے بڑا شاندار ڈنر دیا۔ ہنی مون کے بعد وہ بیوی کو لے کر وطن لوٹ آئے۔ پاکستان آکر اسٹیلا کو پتا چلا کہ ان کے رفیق زندگی کی پہلے سے ایک عدد بیوی اور سات بیٹیاں ہیں۔ یہ خبر اس خاتون کے لئے حیران کن اور بہت تکلیف دہ تھی، مگر وہ تو اب اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آئی تھی۔ اسٹیلا اپنے شوہر کو سب کچھ سمجھتی تھی۔ سلطان نے اسے علیحدہ مکان میں رکھا۔ روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ اسٹیلا کو معاشی طور پر مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ پھر جب وہ ایک بیٹی کی ماں بنی تو اس کی بدنصیبی کے دن شروع ہوگئے۔
بیٹی کا نام اس کے شاعر باپ نے نایاب سلطان رکھا اور یہ خوبصورت نام ہی بس اس بچی کو باپ سے ورثے میں مل سکا۔ جلد ہی شوہر کی توجہ اسٹیلا سے ہٹ گئی تو وہ بری طرح تنہائی کے احساس کا شکار رہنے لگی۔ مکان کرائے کا تھا، گاڑی بھی شوہر کے نام تھی، بینک میں واجبی سا پیسہ تھا۔ سلطان ہفتوں بعد گھر آتے۔ وہ زیادہ وقت پہلی بیوی اور بچیوں کے ساتھ گزارتے تھے۔ پہلی بیوی کے گھر کا پتا اسٹیلا کو معلوم نہ تھا۔
ایک دن اس نے اپنے جیون ساتھی سے بات کی تو انہوں نے صاف گوئی سے کہہ دیا کہ میں نے صرف بیٹے کی آرزو میں تم سے شادی کی تھی۔ بیٹیاں تو میری پہلے ہی بہت ہیں، اب مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتا لہٰذا تمہیں جلد طلاق نامہ مل جائے گا۔ اسٹیلا کے لئے یہ الفاظ بہت جان لیوا تھے، تاہم اس نے ہمت سے کام لیا۔ ایک ننھی بے زبان بچی اور معاشی پریشانی کو دامن میں سمیٹے، وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہوگئی اور کچھ تگ و دو کے بعد ملازمت بھی ڈھونڈ لی۔ کئی سال پاکستان میں رہنے کی وجہ سے اس نے اردو زبان سیکھ لی تھی۔ خوش شکل تھی اور بہترین انگلش بولنے کے سبب اسے ایک جگہ ملازمت مل گئی۔ جہاں اس کی ملاقات خانزادہ نامی شخص سے ہوئی۔ وہ اپنے علاقے سے کسی طور کراچی شفٹ ہوگیا اور یہاں اس نے ساحل سمندر پر مچھلیوں سے بھری لانچیں خرید کر اچھے داموں فروخت کیں۔ اس طرح کافی روپیہ کما لیا۔ سرمائے کے ساتھ ساتھ اسے ہائی سوسائٹی میں جگہ بنانے کے لئے ایک اچھی بیوی کی ضرورت تھی۔ اس نے اسٹیلا سے شادی کرلی۔ برطانوی بیوی کا شوہر ہونے کی وجہ سے اس کی عزت سوسائٹی میں دوچند ہوگئی۔
نایاب سلطان اپنی ماں کے ساتھ سوتیلے باپ خانزادہ کے گھر آگئی۔ اس کا ننھا سا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ انکل جو اسے بہت پیار کرتے تھے، چاکلیٹ لا کر دیتے تھے، یکدم اس کو دیکھ کر اب غصے میں کیوں آجاتے ہیں اور اس کی ماں بھی ہر وقت اسے کیوں ڈانٹتی، پھٹکارتی تھی۔ وہ پہلے کی طرح گھر میں اچھل کود کیوں نہیں مچا سکتی تھی۔ اسے یہ حکم کیوں دیا جاتا کہ ایک جانب خاموشی سے بیٹھ جائے اور ذرا ذرا سی بات پر ماں اس کو روئی کی طرح کیوں دھنک دیتی تھی۔
کبھی کبھی اس کا سگا باپ سلطان اسے اپنے گھر لے جاتا، جہاں سوتیلی ماں اور باپ کی سات کالی کلوٹی بیٹیاں اس کو دیکھتے ہی ناک بھوں چڑھا لیتی تھیں۔ وہ سہم کر ایک کونے میں دبک جاتی تھی، تبھی… اس کے والد کو ترس آجاتا تو وہ اس کو گھمانے کلفٹن لے جاتے، تب نایاب بہت خوش ہوتی۔ وہ ریت سے سیپیاں جمع کرتی اور لہروں کے اوپر آنے والے جھاگوں کو پکڑنے کی کوشش کرتی۔ اسٹیلا نے اپنے عیسائی ہونے کا فائدہ اٹھا کر اسے مشنری اسکول میں داخل کرا دیا، جہاں اس کی فیس معاف تھی، یونیفارم اور کتابیں بھی مفت ملتی تھیں۔
جب خانزادہ خفا نظر آتا، اسٹیلا اس کے سوتیلے باپ کو خوش کرنے کی خاطر اس پر ہاتھ اٹھاتی۔ اسٹیلا اپنے شوہر کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی، یہی کچھ اس کی تقدیر میں تھا۔ مسز کرمانی، اسٹیلا کی سہیلی بنی تو وہ نایاب کو اسکول سے اکثر اپنے گھر لے جانے لگی، کیونکہ وہ اس معصوم بچی کے حالات جانتی تھی۔ مسز کرمانی اسکول میں پڑھاتی تھی۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام اسلم تھا۔ وہ نایاب کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ رات کو مسز کرمانی کا ڈرائیور اسے گھر چھوڑ جاتا۔
اسٹیلا کو شوہر کے ہمراہ پارٹیوں میں جانا ہوتا تھا جو بزنس کے سلسلے میں دی جاتی تھیں۔ وہ رات گئے لوٹتے تب تک نایاب کو نیند نہ آتی اور وہ اکیلے کمرے میں ڈر کے مارے تکیے میں منہ چھپائے لیٹی رہتی۔ ماں پارٹی سے لوٹتی تو لمحے بھر کو اسے دیکھنے کمرے میں آتی اور نایاب کو سوتا جان کر واپس چلی جاتی۔
سوتیلے باپ کی نفرت، سگی ماں کی بیزاری اور حقیقی والد کی غفلت اس تکلیف دہ ماحول میں رہتے ہوئے وہ شعور کی منزلوں تک پہنچ گئی۔ باشعور ہوتے ہی اس کی معصوم امیدوں کو ایک بڑا دھچکا لگا، جب اسے بتایا گیا کہ اس کے باپ سلطان نے اولاد نرینہ کی خاطر ایک اور شادی کرلی ہے۔
جب اولاد نرینہ قسمت میں نہ ہو تو آدمی جتنی چاہے شادیاں کرلے، خالق کی رضا کے بغیر یہ خوشی اسے نہیں مل سکتی۔ اس بار سلطان نے ایک انتہائی غلط ساتھی کا انتخاب کرلیا۔ ایک مغنیہ نے ان کا دل اس باعث اپنی مٹھی میں کیا کہ وہ ان کی غزلیں بہت عمدگی سے گاتی تھی۔ قدرت نے ان کے نصیب میں بیٹیاں لکھی تھیں۔ اس طرح اس گلوکارہ سے بھی بیٹی ہوگئی، جس کا نام اس بچی کی ماں نے نیلم تاج رکھا۔
جب پہلی بیوی نے یہ دھماکہ خیز خبر سنی، فوراً جس قدر ہوسکا، روپیہ پیسہ، مال اسباب اور جائداد اپنے قبضے میں کرلیا۔ دوسری بیوی نے بھی کمال پھرتی دکھائی۔ اپنی دلفریب ادائوں سے باقی جائداد اپنے نام کرا لی، بے چاری نایاب سلطان کو کچھ نہ ملا۔
ادھیڑ عمری کے سبب سلطان اپنی دوسری بیوی سے بہت دبتے تھے کیونکہ وہ بات بات پر یہ کہہ کر ان کو بلیک میل کرتی تھی کہ اگر اس کی بات نہ سنی گئی تو وہ علیحدگی اختیار کرلے گی اور نیلم تاج کو وہ اس نگری میں لے جائے گی کہ جس کی وہ باسی تھی۔ سلطان کے لئے یہ تصور ہی جان لیوا تھا کہ ان کی بیٹی کو وہ کوٹھے کی زینت بنا دے۔ اسی وجہ سے وہ اس عورت کی ہر بات مان لیتے تھے۔
اب بھی کبھی کبھار حقیقی والد کی شفقت جوش مارتی تو وہ نایاب کو گھر لے جاتے۔ دوسری بیوی اس کو دیکھتے ہی بیزاری کا اظہار کرتی۔ وہ اسے گھمانے بھی لے جاتے تو یہ عورت ساتھ جاتی اور لمحہ بھر کو باپ سے بات کرنے کو اکیلا نہ چھوڑتی۔
نایاب کو شدید احساس تنہائی بچپن سے ہی تھا۔ وہ میں اور مونا اس کے بچپن کی سہیلیاں تھیں۔ وہ ہم سے اکثر پوچھا کرتی کہ میں تم لوگوں کی طرح اپنے گھر میں آزادی سے کیوں چل پھر نہیں سکتی، ضد کرکے اپنی کوئی بات کیوں نہیں منوا سکتی…؟ ہم اپنے معصوم ذہنوں سے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک گھر اس کے حقیقی باپ کا ہے اور دوسرا اس کی ماں کا ہے اور دونوں کا چونکہ ایک گھر نہیں ہے، اسی لئے وہ ایسا کچھ نہیں کرسکتی جو ہم کرسکتے ہیں۔ بچپن میں جب اسے ایک کونے میں بیٹھ جانے کا حکم ملتا تو کاغذ پر ایسی تصاویر بناتی جس میں ایک بچی اکیلی بیٹھی دکھائی دیتی۔ اس طرح وہ اپنے اندرونی دکھ کو تصاویر میں منتقل
کرنے کی کوشش کرتی۔
نایاب بہت اچھی آرٹسٹ تھی۔ اس کے اندر ایک فنکار سانس لے رہا تھا اوپر سے محرومیوں بھرے حالات نے اس کے ان احساسات کو جلا بخشی تھی۔ وہ آرٹسٹ بننا چاہتی تھی لیکن جونہی اس نے انٹر پاس کیا، اس کے سوتیلے باپ نے حکم صادر کردیا کہ وہ اب آگے نہیں پڑھ سکتی۔
آپ مجھے پڑھنے سے نہیں روک سکتے۔ پہلی بار زندگی میں اس نے زبان کھولی۔ خانزادہ غصے سے پاگل ہوگیا، مگر وہ بھی چٹان کی طرح ڈٹ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا ان پڑھ سوتیلا باپ اس کی دل آویز شخصیت سے خوف کھاتا ہے۔ گھر میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ سوتیلے والد نے اس کو نمک حرام قرار دے دیا۔ اب وہ اسے نمک حرام کہہ کر ہی مخاطب کرتا، کیونکہ وہ اسی کی کمائی پر پلی بڑھی تھی۔ جب اس سلسلے میں اس کے سگے باپ نے بھی مدد سے معذوری ظاہر کردی تو اس کا کالج جانا موقوف ہوگیا۔
اسی زمانے میں مسز کرمانی کے صاحبزادے اسلم کی شادی ہوئی، جس میں نایاب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی خوبصورت شخصیت ایسی تھی کہ محفل میں ہر ایک کی نظر اس کی طرف اٹھتی تھی۔ وہاں اس کی ملاقات اسلم کے دوست رضا سے ہوئی۔ رضا نے بتایا کہ وہ بزنس کے سلسلے میں کراچی آیا ہے، اسے نایاب اچھی لگی تو اس نے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ نایاب نے ہاں کہہ دی۔ اسلم نے سمجھایا کہ پہلے وہ اپنے والد کو اعتماد میں لے تاکہ سلطان صاحب اپنے اثرورسوخ سے رضا کے بارے میں لندن میں معلومات کرلیں۔
نایاب نے فیصلہ کیا کہ ایسے باپ کو اعتماد میں کیا لینا جس نے کبھی اس کی سرپرستی قبول کی اور نہ اس کی پرورش کی ذمہ داری لی۔ حقیقی باپ نے ساری زندگی اسے کیا دیا تھا۔ بیوی کی وجہ سے خانزادہ نے پھر بھی اسے اپنی چھت تلے پناہ دی تھی۔ نایاب حالات سے تنگ آچکی تھی۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی۔ یوں سادگی سے اس کا نکاح مسز کرمانی کی سرپرستی میں انہی کے گھر پر ہوگیا۔
مونا ہماری مشترکہ دوست…لڑکپن میں اپنے والد کی ملازمت کی وجہ سے لندن چلی گئی تھی۔ نایاب جب رضا کے ہمرہ لندن آگئی تو وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ بچپن کی دوست مدت بعد مل گئی تھی۔ لندن آکر نایاب کو اندازہ ہوا کہ رضا کی سوچ کی پرواز اس کی قوت کارکردگی سے کہیں آگے رہتی ہے۔ اس کے پلان تو بڑے بڑے تھے، لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ناکام ہوجاتا ہے۔ تب اسی طرح کے کسی اور پلان پر کام شروع کردیتا۔ اس کے علاوہ اسے ’’شاپ لفٹنگ‘‘ یعنی دکانوں سے اشیاء چرانے کی بھی عادت تھی۔ وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرنے پر مجبور تھی۔ سال بعد وہ ایک بچے کی ماں بن گئی تو اخراجات بڑھ گئے۔ حکومت کی طرف سے جو پیسے ملتے تھے، وہ ان سے گھر چلانے کی کوشش کرتی، جبکہ رضا کو کسی بزنس میں فائدہ ہوجاتا تو وہ رقم بیوی کو دینے کی بجائے نئے منصوبے میں لگا کر اس سرمائے کو غارت کردیتا۔ اس نے کافی قرضہ لے رکھا تھا اور قرض کی ادائیگی کے نوٹس ان کا سکون برباد رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ جب قرض خواہ در پر آجاتے، دھمکیاں دیتے اور ادائیگی کا تقاضا کرتے تو وہ غائب ہوجاتا۔
اسی زمانے میں خالق نے اسے دوسری بار ماں بننے کا شرف عطا کیا، جبکہ وہ معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور تھی۔ اس کا پہلوٹی کا بیٹا زبیر اب اتنا بڑا ہوچکا تھا کہ اسے اسکول میں داخل کرا دیا جائے۔ یہ بہت شرارتی بچہ تھا۔ ماں کی ملازمت اور باپ کے بزنس کے باعت دوسرے شہروں جانے کی وجہ سے اسے اسکول کے ڈے کیئر سینٹر میں داخل کرانا پڑا۔ جہاں سات بجے شام تک وہ رہتا اور پھر ماں لینے آجاتی تھی۔ روز کوئی نہ کوئی شکایت زبیر کے بارے میں نایاب کو ملتی، مگر سمجھانے اور ڈانٹنے کے باوجود اس لڑکے پر ذرّہ بھر اثر نہ ہوتا۔
جب زبیر کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں اور وہ اس کے کنٹرول میں نہ آیا تو اس نے بیٹے کو اپنی والدہ کے پاس بھجوانے کا فیصلہ کرلیا۔ ان دنوں اسٹیلا پھر اکیلی ہوگئی تھی، کیونکہ خانزادہ اسے طلاق دے چکا تھا۔ وہ کراچی ماں کے پاس زبیر کو چھوڑ کر واپس لندن آگئی۔ جتنی خوشی سے نایاب شادی کرکے لندن گئی تھی، اتنی ہی سنجیدگی اور دکھ کے ساتھ وہ بیٹے کو پاکستان چھوڑ کر آگئی۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ ملک بدلنے سے تقدیر نہیں بدل جاتی اور شاید اس نے یہ ٹھیک ہی کہا تھا۔
لندن آکر اس نے ایک آرٹ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ چھوٹے بیٹے کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی اور ساتھ ساتھ آرٹ کی تعلیم بھی حاصل کررہی تھی۔ رضا کا وہی حال تھا۔ وہ کبھی اسپین تو کبھی دبئی بزنس کی غرض سے جاتا اور ناکام لوٹ آتا۔ یہ زمانہ نایاب نے بڑے صبر سے گزارہ۔ آرٹ اسکول سے ڈگری لینے کے بعد اسے ایک اچھی ملازمت مل گئی، لیکن چھوٹے بیٹے کی دیکھ بھال ایک ایسی ذمہ داری تھی جسے وہ نظرانداز نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے بچے کو ڈے کیئر میں داخل کرانے کی بجائے مونا کے گھر چھوڑ دیا۔
مونا کا اکلوتا بیٹا حذیفہ… ہمدان کا ہم عمر تھا۔ اس کی محنت رنگ لائی۔ مونا نے نایاب کے بچے پر بھی اپنے بیٹے کی طرح توجہ دی اور ہمدان انجینئر بن گیا۔ زبیر نے ادھر اسٹیلا کی کڑی نگرانی کی کوشش کے باوجود بے راہ روی اختیار کرلی۔ وہ نانی کی کوئی بات نہیں سنتا تھا۔ اسٹیلا نے بیٹی اور داماد کو آگاہ کیا کہ تمہارا لڑکا بری صحبت اختیار کررہا ہے تو رضا کراچی جاکر بیٹے کو لے آیا۔
زبیر اب کراچی میں باپ کے پاس تھا۔ رضا نے اسے ماں کے خلاف کردیا کیونکہ نایاب نے آرٹ اسکول میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تصاویر کی نمائش سے کافی رقم کما لی تھی اور یہ رقم رضا ہتھیانا چاہتا تھا۔
زبیر ماں کے خلاف ہوگیا اور اس نے باپ کا گھر بھی چھوڑ دیا۔ رضا کو جب نایاب سے کسی قسم کے مالی فائدے کی امید نہ رہی تو اس نے اسے طلاق دے دی۔ انہی دنوں امریکا آتے ہوئے میں لندن میں اس سے ملی۔ وہ بہت فکرمند تھی۔ زبیر اور رضا دونوں سے مایوس ہوچکی تھی اور اب اس کی ساری خوشیاں چھوٹے بیٹے ہمدان سے وابستہ تھیں۔ وہ ہمدان کی شادی کروانے کے بعد ایک بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوچکی تھی۔ نایاب چترال اور ہنزہ جاکر تصویر کشی کرتی اور ان تصاویر کو لندن لا کر فروخت کردیتی۔ لینڈ اسکیپ بنانے میں اس کا جواب نہ تھا۔
اسے ماں کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ خوبصورت نظاروں میں کھو کر فن کی بلندی کی طرف جارہی تھی اور پیسے کمانے میں مگن تھی۔ ایک دن بوہری بازار میں، میں نے اسٹیلا آنٹی کو کھڑے دیکھا۔ وہ برے حال میں تھیں۔ ایک لمبی سی بوسیدہ فراک پہنے جو کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور ان کی ٹانگوں پر کیچڑ لگی تھی۔ میں نے گھبرا کر اسلم کو فون کیا۔ وہ اسی وقت آگیا اور آنٹی کو اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ اس نے نایاب کو فون کرکے اس کی ماں کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً کراچی پہنچ گئی۔ اسٹیلا آنٹی حالات کے ستم سہہ کر کافی حد تک یادداشت کھو چکی تھیں۔ بیٹی ماں کو لندن لے گئی، مگر وہ وہاں صرف ایک ماہ زندہ رہ سکیں۔
ایک دفعہ میں پاکستان سے امریکا جاتے ہوئے لندن نایاب کے پاس رکی۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اب دکھ کے دن ختم ہوگئے ہیں، مگر دکھ کے دن ابھی باقی تھے۔ وہ اچانک بیمار ہوئی اور اتنی سخت بیمار کہ ڈاکٹروں نے اس کے ٹیسٹ وغیرہ کئے اور بتایا کہ اسے دماغ کا کینسر لاحق ہے۔ نایاب کے سر میں شدید درد رہتا تھا۔ سال بھر تک علاج چلا، اسے دوائیں بدل بدل کر دی گئیں، مگر افاقہ نہ ہوا۔ اس کی یادداشت پر بھی اثر ہورہا تھا۔ وہ فون پر میری اور مونا کی آواز بھی نہ پہچان پاتی تھی۔ بڑی مشکل سے ہم اسے سمجھا پاتے تھے۔
مونا کے بیٹے نے جو ڈاکٹر تھا، بتا دیا تھا کہ اس کی حالت خطرے میں ہے۔ میں نے کئی بار اسے اپنے بیٹے کے پاس جانے کو کہا… مگر وہ منع
کردیتی تھی۔ ایک دن شدید درد کے باعث اسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ بے ہوش ہوگئی۔ مونا نے بتایا کہ وہ کبھی کبھی بے ہوشی کی حالت میں تمہیں اور اسلم کو پکارتی ہے۔ گویا ہم تین پر ہی اس کے سارے رشتے ختم تھے۔
ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لئے قاعدے قوانین کی پابندی کرنا پڑتی ہے اور اس میں مجھے آٹھ دن لگ گئے۔ ایئرپورٹ پر ڈاکٹر حذیفہ مجھے لینے آیا تھا۔ گھر لے جانے کی بجائے وہ مجھ کو ایئرپورٹ سے سیدھا اسپتال لے گیا۔ ایمرجنسی روم کے باہر مونا سرخ آنکھوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ مجھ کو دیکھتے ہی بولی۔ بہت دیر کردی آپ نے، جسے آپ کا انتظار تھا، وہ تو چلی گئی ہے۔
ہمدان ایمرجنسی روم سے باہر تھکے تھکے قدموں سے نکلا۔ چند منٹ بعد نرس اس کو بلا کر لے گئی۔ اسے ان فارم پر دستخط کرنے تھے جو نایاب کی وصیت کے ساتھ اسپتال کو دینے تھے۔ اس نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ اس کا جسم میڈیکل ریسرچ کے لئے دے دیا جائے۔ اس کی وصیت کے مطابق ریسرچ سینٹر میں اس کے جسم کو دے دیا گیا۔ وہاں وہ عضو نکال لیا گیا جو ان کے کام آسکتا تھا، پھر جسم کی باقیات کو ایک سفید چادر میں لپیٹ کر ایک تابوت نما مشین میں رکھ دیا گیا۔ یہ مشین برقی تاروں سے بنی ہوتی ہے۔ جہاں تابوت نما مشین رکھی ہوتی ہے، وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس عمل کا سب سے المناک پہلو یہ تھا کہ سب سے قریبی عزیز کو اس کا بٹن دبانا ہوتا ہے۔ کمرے میں ہمدان اکیلا تھا، اس نے بجلی کا بٹن دبا دیا اور فوراً باہر آگیا۔ اس کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھ کر حذیفہ نے بازو سے پکڑا اور میرے برابر لا بٹھایا۔
اس مشین میں آدھ گھنٹے بعد مردہ جسم راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ نایاب کی وصیت کے مطابق اس کے بدن کی راکھ دریا میں بہا دی گئی اور کچھ گلابوں کے اس کنج میں ڈال دی گئی جو اسے بہت پسند تھے۔ مونا مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے آئی تو رندھی ہوئی آواز میں بولی۔ ہمارے بچپن کی ساری شوخیاں اور یادیں جو بدنصیب نایاب کے ساتھ وابستہ تھیں، آج جل گئی ہیں اور ساتھ ہی ہمارا بچپن بھی جل گیا ہے اور میں سوچ رہی تھی سورج اور چاند بھی گہن سے نکل آتے ہیں، مگر نایاب سلطان، اللہ جانے کس گہن کے سائے میں پیدا ہوئی کہ عمر بھر نصیب کے اندھیروں سے نہ نکل سکی۔
(یاسمین چشتی … امریکا)