وہ لڑکی چلتے ٹریفک کے درمیان پھنسی ہوئی سخت پر یشان بلکہ حواس باختہ تھی۔ دو پہر کی تپتی دھوپ میں پینے سے نہا چکی تھی۔ وہ کئی رکشوں کو رکنے کا اشارہ کر چکی تھی- میرے دیور کو نئی نئی نوکری ملی تھی ۔ دیگر مراعات کے ساتھ ایک جیپ بھی ملی۔ اختر بھی بہت آہستگی سے جیپ چلا رہا تھا۔ جب مین لڑکی کے قریب پہنچاتو سوچا کہ کیوں نہ اس رش میں پھنسی ہوئی کو لفٹ دے دوں، تبھی جیپ روک کر کہا کہ… آؤ آپ کو جہاں جانا ہے ، پہنچادوں۔ اختر کی پیشکش پر زیادہ گھبراگئی۔ جی نہیں… شکریہ۔ اس نے کہا۔ گھبراؤ نہیں ، میں ایک ذمہ دار آفیسر ہوں۔ میری گاڑی پر جو نمبر پلیٹ لگی ہے اس کو دیکھ کر اندازہ کر لو۔ اس وقت تم کو کوئی سواری نہیں ملے گی۔ لڑکی نے جیپ کا جائزہ لیا اور کچھ تسلی ہو گئی تو وہ ججھجکتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ دوران سفر باتوں سے پتا چلا کہ وہ انٹر کی طالبہ ہے۔ روز سہیلی کے ساتھ اس کی گاڑی میں آتی جاتی تھی۔ آج سہیلی نہ آئی تو اکیلے ہی آناپڑا۔
اتفاق یہ کہ جس جگہ وہ رہتی تھی وہاں قریب ہی ہمارا گھر تھا۔ جب اختر نے اس کو ، اس کے گھر کے قریباتارا تو اپنا کارڈ بھی اسے تھمادیا۔ جیسا کہ اکثر نوجوانوں کی عادت ہوتی ہے۔ لڑکی نے مسکرا کر وہ کار ڈاپنے پرس میں رکھ لیا۔ گھر آکر اختر کو خیال آیا کہ اس نے تولڑکی کو اپنا کارڈ دے دیاتھالیکن اس نے نام تک نہیں بتایا تھا۔ ابھی وہ اسی سوچ میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ فون اختر نے اٹھایا۔ پوچھا کون؟ جواب ملا۔ وہی دو پہر والی۔ نام تو بتادیجئے ؟ اس نے اپنا نام سعدیہ بتایا۔ اس کے بعد وہ پندرہ منٹ تک میرے دیور سے باتیں کرتی رہی۔اس کے بعد یہ معمول ہو گیا کہ سعدیہ ،فرید کو شام کو روز فون کرتی اور اسے بھی اس لڑکی کے فون کا انتظار رہتا تھا۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ اس دوران یہ دونوں کافی ایک دوسرے کے قریب آچکے تھے اور میں دیکھ رہی تھی کہ معاملہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے ، تبھی میں نے لڑکی کا اتا پتا معلوم کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ اسی کالج میں پڑھتی ہے جہاں میں پروفیسر تھی۔ چونکہ وہ آرٹ سیکشن میں تھی اور میں سائنس سیکشن میں پڑھاتی تھی تبھی میری اس مڈ بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ میں نے فرید سے بات کی کہ یہ جو تمہارا فون پر لڑ کی سے سلسلہ چل ہے تو یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس نے کہا۔ بھابی میرا سعدیہ سے شادی کا ارادہ ہے۔اس کے لئے تم دونوں کو اپنے والدین کو راضی کرنا ہو گا جو ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ وہ تو ہے ۔فرید بولا۔ مگر بھابی آپ جو ہیں ، آپ مدد کر میں گی۔ پہلے لڑکی سے پوچھ لو۔ دیکھو وہ کیا کہتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ فرید اور سعدیہ کے فون پر گفتگو کے اوقات بھی تبدیل ہوتے رہے لیکن یہ دونوں مسلسل رابطہ میں تھے۔ایک روزفرید کو میں نے کافی پریشان دیکھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ سعدیہ نے اس کو فون پر بتایا تھا کہ اس کے ماموں کا لڑ کا بیمار ہے ، کسی طور ٹھیک نہیں ہو رہا۔ لگتا ہے اس کا ذہنی توازن خراب ہوتا جار ہا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ خدا اس کو شفادے۔ تب پر یشان ہو کر وہ بولی۔اصل میں ڈاکٹر نے سعدیہ کے ماموں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ بیٹے کی شادی کر دیں، وہ نارمل ہو جاۓ گا۔ اب سعدیہ کے ماموں اپنی بہن اور بہنوئی سے عمران کے لئے ان کی بیٹی کارشتہ مانگ رہے ہیں… سعدیہ کارشتہ ! جی بھابی۔ تبھی اس نے پریشان ہو کر مجھے فون کیا ہے۔فرید سے یہ بات سن کر میں بھی پریشان ہو گئی۔اگر شادی کے بعد بھی عمران ٹھیک نہ ہوا تب تو سعدیہ کی زندگی خراب ہو جاۓ گی۔ اس دن کے بعد میرادیور کافی پریشان رہنے لگا۔ تب میں نےفرید کو تسلی دی اور مدد کا وعدہ کیا۔ میں نے اپنے ساس سسر کو اعتماد میں لیا۔ اور رشتے کے لئے ان کو راضی کر لیا۔
سعدیہ کو اپنی شاگرد بتایا اور منالیا کہ وہ جلد از جلد اس کارشتہ طلب کر نےسعدیہ کے والدین کے پاس ان کے گھر جائیں۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر اپنی ساس کو لے کر میں سعدیہ کے گھر گئی۔اس کے گھر والے بہت خوش اخلاقی سے ملے ۔رشتہ کے بارے میں کہا کہ ہم صلاح مشورہ کر کے جواب دیں گے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہوں نے ہم کو پسند کر لیا ہے۔ مجھے تو یقین ہو گیا کہ سعدیہ اب میرے دیور کی دلہن بنے والی ہے ۔ وہ خوبصورت تھی ، گفتگو سے اچھی لگی۔ اس کا تعلیمی ریکار ڈ بھی اچھا تھا۔ میں نے اس کی کلاس ٹیچر سے سعدیہ کے بارے میں معلومات لیں تو انہوں نے بھی اس بچی کی تعریف کی تھی۔ سعدیہ کا باپ ایک آفیسر تھا۔ پڑھے لکھے لوگ تھے اور خوشحال گھرانہ تھا، صرف اس کی والد و زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں ، باقی تمام فیملی تعلیم یافتہ تھی۔ میں دوسرے تیسرے روزسعدیہ کی امی کو فون کرتی تھیمیرے دیور کے لئے یہ انتظار کے دن قیامت کے تھے کیونکہ لڑکی کے گھر اب بھی صلاح مشورے ہو رہے تھے۔ گھر والے سوچ رہے تھے کہ یہ رشتہ قبول کر یں یاں نہیں کیونکہ ہم بالکل غیر لوگ تھے ۔ادھر لڑ کی کاماموں ممانی زور لگارہے تھے، منتیں کر رہے تھے ۔ آخر ان لوگوں کی فتح ہوئی اور اپنے بیٹے کے لئے بھانجی کارشتہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ جبکہ لڑ کی اس رشتے پر قطعی راضی نہ تھی۔ بھلا ایسے لڑکے سے کون لڑ کی خوشی سے شادی کرتی جو ذہنی طور پر نارمل نہ ہو۔ جب فرید نے سنا کہ سعدیہ کے والد ین نے اس کارشتہ عمران سے طے کر دیا ہے تو وہ گم صم ہو گیا ۔
ادھر سعدیہ کی یہ حالت تھی کہ مردہ سی بستر پر پڑ گئی تھی جیسے کسی نے اس کی جان نکال لی ہو ۔ اس کے والدین کو علم ہی نہ تھا کہ ان کی بیٹی فرید کو پسند کرتی ہے ۔ یہ سارا کیا دھراتواس کی کم عقل ماں کا تھا جس نے بھائی کی محبت میں اس کی التجاؤں پر بیٹی کو قربان کر دیا تھا۔ اگلے کئی دنوں تک فرید کا دماغ ماؤف رہا تھا جیسے کسی نے اس سے سوچنے سمجھنے کی طاقت چھین لی ہو۔ دو ہفتے بعد ایک روز فون کی گھنٹی بجی ،اسی مخصوص ٹائم پر جب وہ فرید کو فون کرتی تھی اور وہ فون کے قریب ہی رہتا تھا۔ اس نے فون اٹھایا۔ سعدیہ بول رہی تھی۔ مجھے معاف کر دو میں مجبور ہوں۔ وہ ور ہی تھی ۔ تم چاہو تو میں گھر سے بھاگ کر تمہارے ساتھ کورٹ میرج کرنے پر تیار ہوں۔ ایسامت سوچو . فرید اسے سمجھارہا تھا۔ تمہارے والد مین کا حق بھی تم پر واجب ہے ۔ان کی اطاعت کر واور مجھے بھول جاؤ۔ یہ مناسب نہیں کہ ہم ان کو بھول جائیں اور خوشیوں کا رستہ تلاش کر یں،ان کو رنجیدہ کر یں۔ بھاگ جانے سے بہتر ہے جدائی کا درد ہمارے دل میں رہ جاۓ ، کم از کم تمہارے والدین د نیاوالوں کے سامنے رسوا ہونے سے تو بچ رہیں گے۔
رشتہ طے ہونے کے ایک ماہ بعد سعدیہ کی شادی اس کے ماموں زاد سے ہو گئی۔ سعدیہ نکاح پر راضی نہ تھی مگر زبردستی اسے مجبور کیا گیا تھا۔ اپنی ماں کی خاطر اس کو یہ قربانی دینی پڑی اور ماں نے بھائی کے لئے بیٹی کی خوشیوں کا خون کر دیا۔ اس کو امید تھی کہ سعدیہ جیسی اچھی جیون ساتھی پاکر اس کا بھتیجانارمل ہو جاۓ گا۔ ایسانہ ہو سکا۔ عمران کو پہلے بھی بھی دورہ پڑتا تھا، اب آۓ دن دورے پڑنے لگے ۔الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگا۔ بیوی کو کبھی آیا کہہ کر بلاتا کبھی امی جان … غرض ایسی نرالی باتیں کرتا کہ افسوس ہوتا تھا اس کی جوانی پر ۔ ادھر سعدیہ بیچاری اب جیتی تھی نہ مرتی تھی کہ ساری عمر اس کو ایک پاگل کے ساتھ گزارنی تھی۔عمران کا علاج ہو رہا تھا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ہم نے تو یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ سعدیہ ہمارے نصیب میں نہیں تھی لیکن قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ عمران جو پہلے تھوڑ اسا کھسکا ہوا تھا، اب بالکل ہی آپے میں نہ رہا تھا۔ علاج کراتےعمران کو دو برس ہو گئے اور یہ عرصہ بیچاری سعدیہ نے انگاروں پر لوٹ کر گزارا ۔
اس اثنامیں اس کے پاگل شوہر نے اسے اس قدر پر یشان کیا کہ وہ خود نیم پاگل لگنے لگی۔ ایک روز میں اورفرید اپنے ایک عزیز کی عیادت کو اسپتال گئے تو وہاں ہماری ملاقات سعدیہ اور اس کی والدہ سے ہو گئی۔ ہم تو سعدیہ کو دیکھ کر پہچان ہی نہ سکے کہ جس کو دیکھ کر گلاب کا پھول بھی شرماتا تھا، آج وہ دائمی مریضہ لگ رہی تھی۔ اس کی والدہ نے ہم کو آواز دے کر بلایا، آج وہ بہت پشیمان تھی کہ ناحق بھائی کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ایسا غلط فیصلہ کیا اور بیٹی کی زندگی برباد کر کے رکھ دی۔ لیکن اب میں یا فرید اس کو کیا کہہ سکتے تھے سواۓ اس کے کہ آنٹی آپ کا قصور نہیں جو قسمت میں تھاوہ ہو گیا۔ بالاخر وہ حرف مد عازبان پر لے آئیں۔ کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اب بھی میں سعدیہ کا رشتہ آپ لوگوں کو دینے کو تیار ہوں کیو نکہ ہم اپنی بچی کو سسرال سے لے آۓ ہیں اور طلاق کرارہے ہیں ، اب مزید یہ پاگل کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ یہ سن کرفرید اور بھی افسردہ ہو گیا۔ اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھا تو میں نے آنٹی سے کہا۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہم جلد آپ سے رابطہ کریں گے – فرید سعدیہ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا اور ابھی تک شادی نہ کی تھی- اس لیے میرے ساس سسر بھی ماں گئے اور ہم سعدیہ کو عدت گزارنے کے بعد اپنے گھر دلہن بنا کر لے آئے –
فرید اور سعدیہ میرے آج تک مشکور ہیں کہ میں نے ان کا ساتھ دیا بس میں تو یہ ہی چاہتی تھی کہ سعدیہ کی زندگی میں وہ خوشیاں لوٹ آئیں جس کی وہ حقدار ہے اس کی ماں سے اس پر ظلم کیا لیکن آج جب میں فرید کو سعدیہ کے ساتھ خوش دیکھتی ہوں کہ تھوڑا سا دل بڑا کرنے سے خوشیاں آپ کے دروازے پر بھی دستک دی سکتی ہیں –