ایک دن بازار میں خریداری کررہی تھی کہ دکان سے نکلتے ہی نو عمر دلکش نقوش والی ایک لڑکی نے میرے سامنے ہاتھ پھیلا دیا۔ اس کے چہرے میں جانے کیا بات تھی کہ اس کی صورت دیکھتی رہ گئی۔ اچھے بھلے تندرست لوگوں کو جو محنت کرسکتے ہیں، بھیک دینے کی میں قائل نہیں۔ لیکن اس لڑکی میں کچھ ایسی بات ضرور تھی کہ میرا ہاتھ خودبخود پرس میں چلا گیا۔ ان دنوں جبکہ ایک روپے کی بھی بہت قدر ہوا کرتی تھی۔ دس روپے دیے تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔ میں نے سوال کیا۔ تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ میٹھی۔
میٹھی؟ یعنی شیریں۔ واہ کیا خوب نام ہے دل میں داد دیے بغیر نہ رہ سکی، لڑکی واقعی گڑ کی ڈلی تھی۔ میٹھی۔ ایک بات بتائو۔ تم بھیک کیوں مانگتی ہو۔ پیٹ کی خاطر باجی۔ وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی جیسے کہتی ہو… بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔
کہاں رہتی ہو؟ جھونپڑیوں میں۔ ہم خانہ بدوش ہیں۔ دس کا ایک اور نوٹ اس کی طرف بڑھایا تو وہ رسان سے میرے سوالوں کے جواب دینے لگی۔ تم سے بھیک کیوں منگواتے ہیں، کیا تمہارے گھر کے مرد کما کر نہیں لاتے۔ وہ مویشی پالتے ہیں۔ اپنی جھونپڑیوں کی رکھوالی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کام مل جاتا ہے تو کرلیتے ہیں ورنہ سوئے رہتے ہیں۔ ہم پکھی وانس ہیں۔ کبھی کہیں تو کبھی کہیں پڑائو ڈالتے ہیں۔ ہمارا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ اب فٹ پاتھ پر کھڑے رہ کر مزید گفتگو کرنا محال ہو رہا تھا۔ میں آگے چل دی۔ اس واقعے کو کافی عرصہ گزر گیا۔ میٹھی اور اس کے حالات میرے ذہن سے اتر گئے۔ میری شادی ہوگئی، نئی زندگی کی نئی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑ گئیں۔ وقت گزرتا رہا۔ تین بچے ہوگئے اور ان کی پرورش میں آدھی عمر نکل گئی۔
شوہر نے ملازمت کو خیرباد کہا تو ہم پنجاب چلے گئے۔ جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کے پاس ہماری کچھ زرعی زمین تھی۔ دریائے چناب کے تھل میں ایک بار سیر کی غرض سے جانا ہوا تو وہاں قریب ہی خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں نظر آگئیں۔ مجھے میٹھی یاد آگئی۔ کیا خبر وہ انہی جھونپڑیوں میں رہتی ہو۔ میں نے سوچا کاش! ایک بار مل جائے تو اس سے پوچھوں، اب کس حال میں ہو۔ میٹھی مجھے وہاں تو کسی جھونپڑی میں نظر نہ آئی مگر ایک روز جبکہ میں ملتان اپنی ایک عزیزہ سے ملنے گئی اس کے پڑوس میں ایک گھر کے گیٹ پر کھڑی مل گئی۔
پہلے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا لیکن جب اس نے کہا۔ باجی… آپ یہاں؟ تب یقین ہوگیا کہ یہ میٹھی ہی ہے۔ اس کی ہم شکل نہیں ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں تو کشکول ہوتا تھا جبکہ یہ بیگم صاحبہ لگ رہی ہے۔
یہ کون ہے؟ میں نے اپنی عزیزہ سے پوچھا۔ ہماری پڑوسن ہے۔ یہ لوگ نئے ہیں۔ چند دن ہوئے ہیں یہاں رہائش اختیار کی ہے۔ اتنی دیر میں وہ میرے قریب آگئی۔ تم میٹھی ہو نا؟ ہاں باجی… مگر اب میرا نام رضیہ ہے۔ اچھا گھر آئو تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ آپ آجائیں نا۔ یہ میرا گھر ہے۔ ٹھیک ہے ذرا دیر میں آتی ہوں، اپنی عزیزہ سے کہہ کر میں اس کے گھر چلی گئی۔ بہت خوش ہوئی، عزت سے بٹھایا اور چائے پیش کی۔ وہ بہت بدل چکی تھی۔
یہ سب کیسے ہوا؟ میں نے اس کے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔ باجی میرے شوہر صغیر جن کا یہ گھر ہے وہ ایک بڑے جنرل اسٹور کے مالک ہیں۔ آپ سے ملنے کے بعد ہمارے قبیلے نے وہاں سے ڈیرہ اٹھا لیا اور ہم ملتان کے پاس ایک میدان میں آبسے۔ یہ بھی عارضی پڑائو تھا مگر نہر قریب تھی اس وجہ سے پانی میسر تھا۔ یہاں زیادہ قیام ہوگیا۔ فصل پر مزدوری کا موقع ملتا تھا۔ آموں کے موسم میں آموں کے باغ کی رکھوالی بھی کی۔ آپ سے تو کچھ چھپا نہیں ہے مگر کسی اور کو مت بتانا کہ میں خانہ بدوشوں کی لڑکی میٹھی ہوں جو بھیک مانگتی تھی ورنہ پڑوسیوں کی نظروں میں میرے شوہر کی عزت جاتی رہے گی۔ اس کی فکر مت کرو۔ بس اپنا حال تفصیل سے بتائو۔
بتاتی ہوں باجی، آپ چائے تو پی لیں۔ باجی جس طرح آپ مجھے نہیں بھولیں ویسے ہی میں بھی آپ کو نہیں بھلا سکی۔ نجانے کیوں ہزاروں لوگ ملتے ہیں مگر آپ میں کوئی خاص بات تھی ضرور، دعا کرتی تھی آپ ایک بار مل جائیں۔ آج دعا قبول ہوگئی ہے۔
اچھا تو پھر آگے کہو نا… ایک بار ہمارے قبیلے نے پنجاب کے اسی شہر کے قریب ڈیرہ جمایا، صبح سویرے ہم لڑکیاں شہر کی جانب بھیک مانگنے نکل پڑتی تھیں۔ اس دوران ایک دکاندار کے پاس گئی جو دکان کے گلّے پر بیٹھا نوٹ گن رہا تھا۔ اس نے دو چار باتیں کیں اور نوٹ میری طرف بڑھا دیا۔ زندگی میں پہلی بار کوئی شخص مجھے اچھا لگا تھا۔
اگلے دن میں پھر اس کی دکان کے سامنے کھڑی تھی۔ اب یہ معمول ہوگیا۔ دو چار باتوں کے بعد وہ مجھے نوٹ تھما دیتا۔ اسے دعائیں دے کر آگے بڑھ جاتی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس نے دکان کے پیچھے کی گلی میں بلایا اور میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس مکان میں جا پہنچی اور وہ اپنی دکان کے عقبی دروازے سے نکل کر وہاں آگیا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے سمجھ گئی کہ مجھے کیوں یہاں بلایا ہے۔ جب اس نے اپنا مدعا ظاہر کیا تو میں نے کسی قسم کی حیرت کا اظہار نہ کیا۔ ایسی باتوں کے ہم عادی ہوتے ہیں۔ اس آدمی کی شخصیت نے جیسے مجھ پر سحر کردیا تھا۔
جب چلنے لگی اس نے سو روپے دیے۔ یہ روپے سارے دن کی بھیک پر بھاری تھے۔ اس نے اگلے دن آنے کا وعدہ لیا اور میں نے وعدہ کرلیا۔ اب جب دکان پر جاتی وہ ساتھی کو دکان حوالے کرکے مجھے مکان میں لے آتا اور خوب پذیرائی کرتا۔ کبھی پھل، کبھی مٹھائی سے خاطرکی جاتی۔ میں اس سے مانوس ہوتی گئی۔ سوچنے لگی بازار اور گلی گلی بھیک مانگنے سے بہتر ہے بس یہاں آکر رقم لے جایا کروں۔ بی بی، یہ دکاندار دل کو بھا گیا تھا۔ ٹھنڈی چھائوں ملی تو دل میں اس کے پیار نے گھر کرلیا۔ شام کو روپے جاکر ماں کی جھولی میں ڈال دیتی وہ خوشی سے واری صدقے ہوجاتی۔
ایک روز جب میں شام کو پڑائو پر پہنچی تو پتا چلا کہ جھونپڑیاں اکھڑ چکی ہیں، سامان گدھوں پر لادا جارہا تھا اور رات کو ہمارے قافلے نے کوچ کر جانا ہے۔ کیونکہ رات ٹھنڈی ہوتی ہے، سفر میں آسانی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے گرمیوں کے موسم میں رات کو سفر کرتے ہیں۔ مجھے صدمہ ہوا کہ اب اپنے لوگوں کے ہمراہ یہاں سے چلے جانا تھا۔ کسی نئی جگہ ٹھکانہ بنانا تھا۔
ہم خانہ بدوش گرچہ کسی سے دل نہیں لگاتے مگر میرا دل پیار کی ڈوریوں میں صغیر کے ساتھ بندھ گیا تھا۔ پیار ایک بے اختیار جذبہ ہے، اب اتنا وقت بھی نہ تھا کہ اس کو اپنے کوچ کر جانے کی اطلاع کرسکتی۔
مجھے دکھ تھا کہ اچانک چلے جانے کی وجہ سے وہ غمزدہ ہوگا، اسے بھی میری عادت ہوگئی تھی۔ میرے لیے تو اس کا پیار زندگی تھا۔ صغیر کو بتانے کے لیے میں کسی طرح اندھیرے میں دوبارہ شہر کی طرف آگئی۔ وہ دکان بند کرنے والا تھا۔ جب اس نے میری بات سن لی تو خاموشی سے میرے ساتھ چلا اور ہم مکان میں آئے۔
یہ اس کا ذاتی مکان تھا۔ شاید کرایے داروں کے انتظار میں خالی پڑا تھا۔ مجھے وہ وہاں مقفل کرکے چلا گیا۔ دوسرے روز میرے بارے میں صلاح کرنے کے لئے ایک دوست کو بلایا جو پولیس میں ملازم تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ آدمی لٹو ہوگیا۔ صغیر سے کہا۔ یار تم بال بچوں والے آدمی ہو۔ اس کے ساتھ شادی نہیں کروگے۔ محض تفریح کے لئے رکھنا چاہتے ہو۔ اسے میرے حوالے کردو، میں اس سے شادی کرلیتا ہوں۔ اب یہ واپس تو جا نہیں سکتی، ڈھونڈنے کے بعد اس کے قبیلے والے کوچ کر جائیں گے۔
صغیر نے کچھ دیر سوچا۔ میرے لیے اس کے دل میں ہمدردی جاگی تو پولیس والے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ مجھے منظور نہ تھا۔ رونے لگی، اپنا قبیلہ اور ماں باپ صغیر کے لئے چھوڑ کر آگئی تھی۔ تصور میں یہ تھا کہ یہ مجھ سے شادی کرے گا، گھر دے گا اور اچھی زندگی ملے گی، سڑکوں سڑکوں بھیک نہیں مانگنی پڑے گی۔
مجھے صغیر سے پیار تھا، اس کے دوست سے کیا غرض؟ مگر ان دونوں نے سمجھایا کہ اب واپس کہاں جائو گی۔ جائو گی تو برا سلوک ہوگا۔ نکاح کرلو گی تو آرام سکون سے جیو گی اور زندگی اچھی گزر جائے گی۔ میں تم سے نکاح نہیں کرسکتا۔ بال بچے میری مجبوری ہیں۔ یہ میرا دوست اچھا آدمی ہے، تم سے نکاح پر راضی ہے، تمہیں اچھی زندگی دے سکتا ہے۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے ورنہ در در پھرنے والی، بھیک مانگنے والی سے کون نکاح کرتا ہے۔
میں صغیر کے اشارے پر چلنے والی خاموشی سے اس کے دوست کے ساتھ چلی آئی۔ شادی مجھے راس نہ آئی۔ وہ میرے دل کا راجا نہ تھا، میرے دل کا راجا تو صغیر تھا۔ پولیس مین کا گھر قید خانہ لگتا۔ نگر نگر میں گھومنے کی عادی ایک آزاد پنچھی تھی، ناخوش رہنے لگی اور اس پنجرے سے نکل بھاگنے کی راہیں سوچنے لگی۔ صغیر سے محبت تھی تو حوالدار کے گھر میں چین کہاں ملتا۔ چار دیواری میں قید رہنا میرے لیے عذاب سے کم نہ تھا، بالآخر ایک روز وہاں سے بھاگ نکلی۔ میٹھی نے توقف کیا کیونکہ ماضی کو دہراتے ہوئے اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ پھر چند لمحوں کے بعد بولی۔ میں جوان تھی۔ ہاتھ میں بھیک کا پیالہ اور لبوں پر اللہ واسطے کی صدا تھی۔ میرا من کسی طرح سکون میں نہ تھا۔ میں صغیر کے پاس لوٹ آئی، اس سے کہا کہ تمہاری خاطر نکلی تھی اب اپنالو یا مار دو۔ اس کا مکان ابھی تک خالی تھا اس نے مجھے وہاں چھپا دیا۔
ایک دن سوچنے کے بعد وہ مجھے حوالدار کے حوالے کرنے کے بارے میں کوئی منصوبہ بنا رہا تھا کہ وہ خود اس کے پاس آگیا۔ صغیر نے بتایا کہ تمہاری منکوحہ میرے پاس آگئی تھی اور اب عقبی مکان میں ہے۔ لے جائو۔ میں اسے سمجھاتا ہوں۔ مگر اس نے مجھے ساتھ لے جانے سے انکار کردیا۔ کہنے لگا۔ یہ شریفانہ زندگی نہیں گزار سکتی۔ پھر بھاگ جائے گی، میرے ساتھ خوش نہیں ہے۔ میں اس کو نہیں رکھ سکتا۔ طلاق دیتا ہوں۔
یوں اس نے طلاق دے کر مجھ سے دامن چھڑالیا۔ اس بات کا ملال نہ ہوا۔ اب صغیر بہت پریشان تھا، میرا کیا کرے۔ اس نے بتایا۔ میٹھی… میں فی الحال تم سے شادی نہیں کرسکتا، میری بیوی بیمار ہے، اس حال میں اسے دکھ نہیں دے سکتا۔ چار بچے ہیں بتائو کیا کروں۔ اگر ملازمہ کے روپ میں رہ سکتی ہو تو میرے گھر چلو۔ مگر میری بیوی کو ہرگز شک نہ ہو۔
مجھے منظور ہے۔ میں نے کہا اور اس وعدے پر اس کے گھر چلی گئی کہ اس کی بیوی پر کوئی بات ظاہر نہ ہونے دوں گی۔
واقعی وہ عورت بیمار تھی اور صغیر اس کو چاہتا تھا، حالانکہ اس کے سارے وجود کو بیماری نے دیمک کی مانند چاٹ لیا تھا۔ اس کا مرض آخری درجے میں تھا اور صغیر اس کے علاج پر روپیہ پانی کی طرح بہا رہا تھا۔ میں نے بھی دن رات اس عورت کی دیکھ بھال کی اور میری اس قربانی نے میرے محبوب کا دل جیت لیا۔ اس کی بیوی کے دن پورے ہوچکے تھے۔ وہ اللہ کو پیاری ہوگئی تو صغیر نے مجھ سے نکاح کرلیا۔ اسے اپنے بچوں کے لیے بھی ماں کی ضرورت تھی۔ پہلے میں میٹھی تھی اور اب رضیہ ہوں اور صغیر میرا شوہر ہے۔ مجھ سے نکاح کے بعد اس کے کاروبار نے بہت ترقی کی اور اس نے پہلا گھر فروخت کرکے یہ نیا گھر لیا ہے۔ میں اس کی شکر گزار ہوں، اگر وہ مجھے نہ اپناتا تو کہاں جاتی، مجھ بھٹکی ہوئی کو منزل مل گئی اور اسے اپنے بچوں کے لئے ماں۔
ان کے بچوں کو بڑے پیار سے پالا ہے، کبھی ماں کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اللہ نے مجھے بھی بچوں کی نعمت عطا کردی ہے۔ میرے دو بچے ہیں جو اب اسکول جانے لگے ہیں۔ میں صغیر کے ساتھ خوش ہوں، وہ بھی خوش ہیں، کسی کو نہیں بتاتے کہ میں کون ہوں کہاں سے آئی تھی۔ انہوں نے گھر پر استانی رکھی، جس نے مجھے قرآن پاک پڑھایا اور کچھ پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیا۔ میں نے ماحول کے مطابق خود کو بدلا ہے صرف اس وجہ سے کہ مجھے اپنے خاوند سے سچی محبت ہے۔
کیا تمہارے شوہر کو بھی تم سے محبت ہے؟ وہ مجھ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، پیار سے پیش آتے ہیں، کبھی ماضی کا ذکر تک نہیں کرتے لیکن یہ اللہ کو معلوم کہ واقعی ان کے دل میں میرے لیے سچا پیارہے یا خدا ترسی سے کام لیتے ہیں لیکن مجھے یہ بھی منظور ہے کہ میں دوبارہ بھکارن بننے سے بچ گئی ہوں۔ ہمارے قبیلے کی لڑکیاں بھیک مانگ کر مست رہتی تھیں مگر مجھے شروع دن سے ہی ہاتھ پھیلانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ آپ جیسوں کو دیکھ کر حسرت ہوتی تھی کہ میں بھی آپ جیسی زندگی گزاروں، اللہ نے میری سن لی۔
میٹھی کی داستانِ حیات میرے لیے انوکھی اور دلچسپ تھی۔ سوچتی ہوں ہر جگہ اچھی اور بری عورتیں ہوتی ہیں جیسے ہر جگہ اچھے اور برے مرد ہوتے ہیں، دنیا میں سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔
(ش۔م …ملتان)