Sunday, October 6, 2024

Khuwab To Toot Jate Hain | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ہمارے گھر کے قریب گرلز اسکول آٹھویں تک تھا۔ جب میں نے نویں جماعت میں داخلہ لیا تو نئے اسکول جانا پڑا، وہاں میری ملاقات ایک سنجیدہ سی لڑکی سے ہوئی جس کا نام عینی تھا۔ وہ چپ چپ رہتی، کلاس میں ہوتی لیکن دماغ کہیں اور ہوتا۔ جی رہی تھی مگرجیسے اسے زندگی سے کوئی لگائو نہیں تھا، پڑھ رہی تھی تو اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے نہیں بس مارے باندھے، کسی کے کہنے سننے سے، مجھے تو یہی لگتا تھا۔ تب ہی سوچتی کہ اس کی آنکھوں اور چہرے پر روشنی اور چمک کبھی نظر نہیں آتی، نہ جانے کیوں؟
ایک دن ہمت کر کے پاس جا بیٹھی، پوچھا۔کیسی ہو عینی ؟
ٹھیک ہوں اس نے دوستانہ انداز میں جواب دیا۔ چند منٹ کی گفتگو کے بعد میں سمجھ گئی کہ بس تھوڑی سی چاہت اور توجہ کی حقدار ہے، کسی اور لڑکی نے شاید اس کی ضرورت کو سمجھا ہی نہیں تب ہی وہ میری دوست بن گئی۔
ایک روز میں نے اس سے کہا کہ اگر تم مجھے اپنا دوست سمجھتی ہو تو بتائو تمہاری خاموشیوں کا سبب کیا ہے۔ کیا ہنسنے بولنے کو تمہارا دل نہیں چاہتا؟ تب اس نے بلاتکلف مجھ کو اپنی زندگی کی داستان سنا دی جو اسی کی زبانی رقم کر رہی ہوں۔
’’میں پنجاب کے ایک قصبے میں پیدا ہوئی تھی۔ تین برس کی تھی کہ والد صاحب اور والدہ کے بیچ کچھ ایسا اختلاف ہوا کہ ابو نے میری ماں کو ان کے میکے چھوڑا اور مجھ کو دادی جان کے حوالے کر دیا۔ ان دنوں میری چھوٹی بہن ابھی نوزائیدہ تھی، اسے ماں کے پاس ہی رہنے دیا گیا۔
جدائی کے کچھ عرصے تک روتی رہی پھر ماں کو بھلا کر دادی کو ماں سمجھ لیا ۔ وہ پیار کرتیں، کہانیاں سناتیں اور اپنے پاس سلاتیں۔ دادی مجھ کو بہت اچھی لگتی تھیں۔
جب میں چار برس کی ہو گئی تو ابو نے قریبی اسکول میں داخل کرا دیا۔ ہمارے علاقے میں لڑکیوں کے لئے یہ واحد پرائمری اسکول تھا جہاں ہمارے ہی قصبے کی دو استانیاں پڑھانے آتی تھیں۔ میں خوشی خوشی جانے لگی حالانکہ اس عمرمیں بچے اسکول جاتے ہوئے روتے ہیں لیکن میں خوش ہوتی تھی کہ گھر میں میرے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہ تھا جبکہ اسکول میں میرے ہم عمر بچے تھے، تب ہی روز صبح سویرے خود اٹھ جاتی اور خوشی سے تیار ہوکر اسکول چلی جاتی تھی۔
میں دادی کے پیار کے سہارے زندہ تھی، ان دنوں وہی مجھے پڑھایا کرتی تھیں۔ یوں مجھ کو بھی پڑھنے کا شوق ہوا اور چوتھی جماعت میں میری اوّل پوزیشن آئی۔
میرا شوق دیکھ کر دادی اماں نے کہا کہ اگر ایسے ہی اچھے نمبر لاتی رہو گی تو چھٹی میں تمہارا داخلہ شہر کے کسی اچھے اسکول میں کرا دوں گی اور تمہاری خاطر وہاں مکان بھی لے لوں گی۔ یہ بات سن کر میں بے حد خوش ہوئی۔
دادی کا یہ خواب ادھورا رہ گیا۔ جن دنوں پانچویں میں تھی ایک شام اچانک ان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسیں۔ شاید خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ وہ جو میری زندگی اورمیری خوشی تھیں، کچھ دن اور میرے ساتھ رہتیں اور میری خوشیوں میں شریک ہوتیں۔
ان کی وفات سے چپ سی لگ گئی۔ میں گویا بالکل تنہا رہ گئی تھی۔ ابو نے میرے دکھ اور تنہائی کو محسوس کر لیا، وہ مجھ پر توجہ دینے لگے۔
پل، پل وہ میرا خیال رکھتے، ہر خواہش پوری کرتے لیکن میں دادی کی کمی پھر بھی محسوس کرتی تھی۔ اس پیاری ہستی کی جدائی سے میں سچ مچ ٹوٹ گئی تھی۔
چھوٹی پھوپی اور چچا جو غیر شادی شدہ تھے وہ بھی میرا خیال رکھنے کی کوشش کرتے مگر دادی کا غم دور نہ ہوتا تھا۔ اس تنہائی کے احساس میں ابو نے جینے کی امید بندھائی جس کی وجہ سے میں پانچویں کا امتحان دے پائی۔ پانچویں میں اول آنے پر ابو بہت خوش تھے مگر میری خوشیوں پر خوش ہونے والی دادی نہ تھیں۔
بچپن سے میں بہت حساس تھی، ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہو جاتی۔ تب والد صاحب سمجھاتے تو لگتا میں ان کی کل کائنات ہوں۔ وہ اتنے پیار سے سمجھاتے تھے کہ دل کو تقویت مل جاتی تھی اور میں ناامیدی سے امید کی طرف لوٹ آتی۔
بچپن کے ان حالات میں ہمت کے بل بوتے پر زندہ رہنا سیکھا، مزید اسکول کی سہیلیوں سے ڈھارس ملتی رہی۔ لیکن زندگی میں ایک کمی سی تھی۔
ہمارے گائوں میں پرائمری تک اسکول تھا، چھٹی میں داخلے کیلئے شہر جانا لازم تھا تب ہی ابو نے بڑی پھوپی سے رابطہ کیا جو شہر میں رہائش پذیر تھیں اور ان کے بچے وہاں پڑھتے تھے۔
پھوپی نے کہا۔آپ عینی کو میرے پاس بھیج دیں، یہ ہمارے گھر رہ کر پڑھ لے گی۔ یوں میں ان کے پاس چلی گئی اور شہر میں پڑھنے لگی۔
پھوپی نے پیار سے رکھا لیکن ان کے بچوں کا رویہ اچھا نہ تھا۔ وہ مجھ کو احساس دلاتے کہ میں ان کے ٹکڑوں پر پل رہی ہوں۔ خاص طور پر ان کا بڑا بیٹا سلمان میرے ساتھ بہت زیادہ بے رخی سے پیش آتا تھا۔
ایک روز پڑوس سے ایک عورت پھوپی سے ملنے آئی تو انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ عینی کو اپنی بہو بنائوں گی کیونکہ اس کی نسبت بچپن سے میری والدہ سلمان کے ساتھ طے کر گئی تھیں، لہٰذا اپنی ماں کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گی۔
میں پھوپی کی باتیں سن کر حیران رہ گئی، یوں لگا جیسے میری تمام خواہشوں پر، میرے خوابوں پر کسی اور کا پہرہ ہو، گویا اپنے لئے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اب جو بھی کریں گے زندگی کا فیصلہ وہ یہی لوگ کریں گے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مجھ سے اچھا سلوک نہ کرتے اور پتہ نہیں میرے بارے میں کیا کیا باتیں بناتے تھے۔
سلمان کے ساتھ شادی کا میں تصور بھی نہ کرنا چاہتی تھی، اکثر وہ مجھ سے بدتمیزی کرتا، بے حد کڑوے مزاج کا تھا۔ بات بات پر جھگڑتا، اس کے ساتھ ایک پل نہ بنتی تھی، اس کو کیسے جیون ساتھی مان لیتی۔
میں نے پریشان ہوکر ابو کو فون کیا، آپ کے لئے اداس ہوں، فوراً آجایئے۔ وہ آ گئے تو میں نے رو رو کر برا حال کر لیا۔ ان کو بتا دیا کہ پھوپی میرے سامنے ایسی باتیں کرتی ہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔
جب میں گھر آئی، چاچو میری حالت دیکھ کر کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ تب ہی انہوں نے کوشش کی اور امی کو منا کر لے آئے۔ ماں بھی غالباً میری خاطر لوٹ آئی تھیں۔
ماں سے ہمیشہ دور رہی تھی اس لیے مجھے ان سے انسیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک اجنبیت میرے اور ان کے درمیان حائل تھی … شاید اسے جھجک بھی کہہ سکتے ہیں اور شکایت بھی کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ وہ بلاتیں اور میں نہ جاتی تب وہ مجھ کو حسرت سے دیکھا کرتیں۔ بات کرنا چاہتی تھیں، گلے لگانا چاہتی تھیں مگرپتہ نہیں کیوں اتنے نزدیک آ جانے کے باوجود ہمارے درمیان دوری موجود تھی۔
سائرہ ہر دم ماں کے ساتھ چپکی رہتی شاید اس لئے کہ وہکبھی امی سے جدا نہ ہوئی تھی، والدہ سے اس کی قربت زیادہ تھی۔ جب میں اسے ماں سے لپٹتے اور پیار کرتے دیکھتی تو دل میں ٹیس سی اٹھتی۔
جب تک امی میکے رہیں والد میرا خیال کرتے تھے، ان کے آجانے سے وہ مجھ سے لاپروا ہوگئے۔ ان کا مزاج ہی بدل گیا۔ ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنی بربادی کا مجھے ذمے دار سمجھتے، بات بات پر ڈانٹنے لگے۔ ان کے اس رویے پر میں حیران تھی۔ پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ شاید وہ میری ماں کو واپس بلانا نہیں چاہتے تھے۔
اب میں اسکول بھی نہ جاتی تھی کہ روز گائوں سے شہر جانا ممکن نہ تھا۔ عمر کے اس حصے میں تھی جب بچوں کو ہر بات سمجھ آنے لگتی ہے۔ مجھ کو ابو کے بدلے ہوئے رویے کا بہت دکھ تھا۔
ایک بار پھر میں سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرگئی۔ یوں لگتا جیسے زندگی بچھڑ گئی ہو۔ اب کوئی منزل تھی اور نہ کنارا، عمر کے اس موڑ پر میرے اندر بہت سی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔
میری حسرتوں کی دنیا پھیلنے لگی۔ پڑھائی چھوٹ گئی تومیں اپنے کمرے میں بند رہنے لگی تب ہی میں نے تصورات کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ لگتا میں اکیلی نہیں ہوں، میرے خیالوں کا کوئی محبوب ہے جس کو میں نے دیکھا نہیں ہے لیکن وہ میرے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
یہ کوئی اور نہ تھا، میرے تخیل کا تراشا ہوا پیکر تھا، جو بہت حسین تھا، جس کے ساتھ رہ کر میں سوچوں میں اپنی تنہائی دور کر لیا کرتی تھی۔ محرومیوں سے فرار کا بس یہی ایک راستہ تھا تب ہی میں نے اپنی سوچوں میں رہنا بسنا شروع کر دیا اور خیالوں کے اس شہزادے کو دل میں یوں جگہ دی کہ میرا بچپن پھر سے لوٹ آیا۔
جانتی تھی خیالی دنیا میں رہنا ٹھیک نہیں ہوتا، یوں انسان حقیقت پسند نہیں رہتا اور وہ زندہ لوگوں سے دور ہوجاتا ہے لیکن خیالی دنیا میں رہنے بسنے کو مجھے کس نے مجبور کیا؟ میرے والدین کے غلط رویے نے۔
دادی کا ساتھ چھوٹا تو ابو کے پیار میں پناہ لی۔ وہ بھی بدل گئے، کئی کئی دن گھر نہ آتے اور امی اپنی چھوٹی بیٹی سے لاڈ پیار میں لگی رہتیں۔ جب اکیلے پن کا کرب مجھ کو تنگ کرتا، میں خیالی ساتھی سے باتیں کرنے لگتی۔ چاہتی تھی کہ میرا یہ ساتھی ایسا ہو جو میرے لئے سارے جہاں سے لڑ سکتا ہو۔ گھنٹوں اکیلے کمرے میں بند رہنا اور خیالی محبوب سے باتیں کرنا مجھے اچھا لگتا۔ بس پھر یہ میرا معمول ہو گیا۔
ان ہی دنوں چھوٹے چاچو کی شادی ہوئی، دلہن چچی بہت سمجھ دار تھیں۔ آتے ہی انہوں نے میرے کرب کو جان لیا، وہ مجھے بلاتیں اور باتیں کرتیں، ان کے پیار بھرے رویے سے میں سکون محسوس کرتی۔ جب ٹی وی پر کوئی ڈراما لگتا وہ مجھے میرے کمرے سے بلا کر لے جاتیں اور میرے ساتھ ڈراما دیکھتیں تو میرے ذہن کا بوجھ کم ہو جاتا۔
چچی کے ساتھ رہ کر میں نارمل ہونے لگی لیکن یہ بات ابو کو پسند نہیں آئی۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھ کو ان کے کمرے میں جانے سے منع کر دیا کہ یہ میری بیٹی کو خراب کر رہی ہے۔
چچی کو بہت برا لگا، انہوں نے مجھ کو بلانا چھوڑ دیا۔ اس گھر میں ان کے سوا کسی کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ کوئی میرے دل میں جھانکتا اور میری آنکھوں کو پڑھ پاتا۔ اب میں ایسی ٹوٹی ہوئی کشتی ہو گئی جو بغیر منزل موجوں پر بھٹک رہی ہو۔
جب میں گھٹ گھٹ کر آدھی رہ گئی تب چچی نے پھر سے ہمت بندھائی اور امتحان کی تیاری کرائی۔ میں نے پرچے دیئے اور پاس ہو گئی۔ چچی کے سوا کسی نے خوشی کا اظہارکیا اور نہ ہمت افزائی کی۔
امی کے آنے کے بعد ننھیال والے آنے جانے لگے۔ چھوٹے ماموں ڈاکٹر تھے، میں بھی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ امید تھی کہ شاید یہ ماموں مجھ کومنزل تک پہنچا دیں گے۔ وہ آتے تو مجھ سے خوب باتیں کرتے، خالہ بھی ساتھ آتیں۔ یہ لوگ مجھے بتاتے کہ کیوں تم کو تمہاری ماں سے دور رہنا پڑا۔
اب میں جان چکی تھی کہ میری محرومیوں کا ذمے دار کون ہے اور ماں کی زندگی کس نے
برباد کی؟
دادی کے بعد سب سے زیادہ پیار اپنے باپ سے کیا تھا۔ حقیقت جان کراور زیادہ تکلیف ہوئی کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مجھ سے میری ماں اور بچپن کی خوشیاں چھینی تھیں۔
میں نے صرف ابو کا پیار بھرا روپ ہی دیکھا تھا۔ زندگی میں پہلی بارمجھ پر ان کا اصلی روپ کھلا۔ لوگوں نے رفتہ رفتہ ان کے میری والدہ پرمظالم کھول کر رکھ دیئے۔ میں جان گئی کہ انہوں نے کتنی تکلیفیں میری ماں کو دی تھیں۔
لوگوں نے بتایا کہ پہلے ان کی دوستی میری ماں کی ایک کزن سے تھی جو امی اور ان کے مابین وجۂ تنازع بنی تھی اور اب ان کا اگلا مشن اپنی ایک دور کی کزن کے ساتھ شادی تھا لیکن امی کے لوٹ آنے سے انہیں اپنے ارادوں میں کامیابی نہ ہو پا رہی تھی۔ تب ہی ایک روز امی نے مجھ سے کہا تھا عینی، میں تم کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہوں تاکہ تم لیڈی ڈاکٹر، انجینئر یا لیکچرار بن سکو۔ ان پڑھ رہ کر جیسے میں تاریک راہوں میں ماری گئی، کہیں تم نہ ماری جائو۔ مرد کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ شوہر اچھا ملے تو سب اچھا۔ اگر اچھا شوہر نہ ملے تو سب برا ہو جاتا ہے۔
ماں کی نصیحت پلے باندھی اور زیادہ محنت سے آٹھویں کی تیاری میں لگ گئی۔ ماں کے خواب پورے کرنا چاہتی تھی جبکہ میرا خودغرض باپ چودہ برس کی عمر میںمیری شادی کر کے فرض سے سبکدوش ہونے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ پھر میری ماں کو گھر سے نکال کر دوسری شادی کر سکے۔
جب ماں نے سنا کہ ابو میری شادی کی تیاری کر رہے ہیں، انہوں نے ماموں کو بلوا بھیجا کہ کسی طرح اسے لے جائو اور کالج میں داخل کرا دو تاکہ آگے پڑھ سکے۔ان دنوںمجھ کوشاعری سے لگائو ہو گیا۔میں المیہ شاعری پڑھتی اور تنہائی میں رویا کرتی۔پھر خود اشعار لکھنے لگی، کبھی پھولوں پر کبھی ہوائوں اور موسموں پر۔ میری ڈائری اشعار سے بھر گئی۔ جانتی نہ تھی کہ یہ اشعار کس کیلئے ہیں لیکن ان میں اپنے خیالوں کے پیکر کو ڈھونڈتی تھی۔ یقین تھا کہ ایک دن یہ خیالی پیکر ضرور حقیقت بن کر میرے سامنے آ جائے گا اور میری خاطر سارے جہاں سے لڑے گا، میں بس اسی دن کیلئے جی رہی تھی۔
جب چھوٹے ماموں نے میرا ایسا حال دیکھا، امی سے کہا کہ میں خود اپنی بھانجی کو پڑھائوں گا، تم اس کو میرے ساتھ کر دو لیکن ابو کی اجازت کے بغیر ایسا نہ ہوسکتا تھا۔ وہ بہت جھگڑا کرتے تھے۔ ابو کے آگے ڈٹ جانے کی کس میں ہمت تھی، دوسری صورت میں کم سنی میں ہی میرے گلے میں شادی کا طوق پڑ جاتا۔
ماموں نے والد صاحب سے بات کی۔ انہوں نے ایک نہ مانی، ان کو بے عزت کرکے گھر سے روانہ کر دیا۔ میں امتحان کی تیاری کرتی رہی اور ماموں سے کہا کہ آپ میرے لئے امتحان دینے کا انتظام کردیں۔ اسی بہانے جب وہاں آئوں گی تو پھر واپس نہ جائوں گی۔
امتحان کی ڈیٹ شیٹ آ گئی، ابو کو دکھائی، وہ مان گئے اور مجھے لے کر خود ماموں کے گھر آئے۔ میں نے پرچے دیئے، پھر ابو مجھے لینے آ گئے۔ جانے سے انکار کر دیا کہ مجھے یہاں رہ کر پڑھنا ہے، اب واپس گھر نہ جائوں گی۔
والد نے کافی اصرار کیا، ماموں سے بھی جھگڑا کیا لیکن میں نہ گئی۔ وہ ہار مان کر لوٹ گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے خوب ہنگامہ کیا اور امی سے کہا کہ اب تمہارے یہاں رہنے کی ضرورت نہیں رہی۔ تم بھی وہیں جا کر رہو جہاں تمہاری بیٹی رہ رہی ہے۔ یوں انہوں نے امی کو گھر سے نکال دیا۔ وہ ماموں کے پاس آ گئیں۔
میرا ریگولر طالبہ ہونے کا خواب پورا ہو گیا۔ میں یہاں خوش رہتی تھی ، اپنے سب درد چھپا کر مسکراتی تھی کہ دکھ سہہ سہہ کر مجھے ان کو چھپانا آ گیا تھا۔
جب نتیجہ آنے والا تھا اپنی خالہ کے گھر گئی۔ انہوں نے ماموں سے کہا کہ یہ چھٹیاں یہاں گزارے گی۔ اتنے سالوں بعد خالہ کے پاس رہنے کا موقع ملا تھا۔ میری روح پیار کی پیاسی تھی۔ مجھے لگا خالہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔
یہ میرے خوابوں کا شہر تھا، آزادی کی زندگی تھی، خالہ کا بہت شاندار گھر تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ شہر میری زندگی کا رخ ہی بدل دے گا۔
ان ہی دنوں خالہ کے یہاں ان کی نند کا بیٹا آیا جس کا نام آذر تھا۔ میں نے اس کو پہلی بار دیکھا تو لگا یہی میرے خوابوں کا شہزادہ ہے۔ بس وہ ایک ہی نظر تھی جس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا تھا۔
سوچا کرتی تھی جب مجھ کو میرے خیالوں کا پیکر ملے گا تو وقت تھم جائے گا، گھڑیوں کی سوئیاں رک جائیں گی، موسم جی اٹھے گا اور چاند چھپ جائے گا،ایسا ہی ہوا۔
چاند چھپ گیا، موسم ٹھہر گیا، گھڑیوں کی سوئیاں بھی رک گئیں اورمیرے خوابوں کا شہزادہ، خوابوں کی وادی سے اتر کر سامنے آ گیا۔ حقیقی زندگی میں وہ ویسا ہی شاندار اور سب کا خیال کرنے والا تھا جیسا میں نے سوچا تھا۔ وہ ایک پل تھا جس نے میری زندگی کو کیا سے کیا کر دیا۔
وہ مجھ سے مخاطب ہوتا اور میں دنیا جہاں کو بھول کر اس سے باتیں کرتی۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں، میں واپس ماموں کے گھر آگئی۔ وہ ہر دم میرے خوابوں میں رہنے لگا کیونکہ وہ تو کب سے میرے اندر چھپا بیٹھا تھا۔ خیالات کی دنیا میں میرے ساتھ رہتا، بستا تھا۔
میں پڑھنے کیلئے اپنے والد کو ناراض کر کے ماموں کے گھر آ گئی تھی لیکن اب تو پڑھائی میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔ سب کچھ بھلا کر اپنے سارے دکھ، سارے خسارے… اسے ہر پل یاد کرتی تھی۔
اب خوشی تھی تو آنے والے وقت کی، اس امید پر کہ جب اس کا پیار مل جائے گا، مجھ کو اس کا ساتھ مل جائے گا۔ آذر کا بھی ایسا ہی احوال تھا، وہ بے چین رہتا تھا۔ اپنے گھر والوں سے چھپ چھپ کر فون کرتا تھا لیکن شایداس معاملے کی سن گن اس کے بڑوں کو ہو چکی تھی۔
ان دنوں میں اسکول میں نئی نئی آئی تھی۔ میری کوئی دوست بھی نہ بنی تھی۔ تلخیوں بھرا ماضی دامن میں تھا اور میں آج میں جی رہی تھی کہ ایک دن اچانک وہ ہو گیا جس کا سوچا بھی نہ تھا۔
خالہ ماموں کے گھر آئیں اور امی سے کہا کہ میری نند نے بہت جھگڑا کیا ہے کہ تمہاری بھانجی میرے بیٹے کوبھٹکا رہی ہے، روز اس کے ساتھ فون پرباتیں کرتی ہے۔ یہ فون میرے سسر نے سنے ہیں۔ وہ لوگ سخت خفا ہیں کہ تم لوگوں کا ماحول کس قدر خراب ہے۔ تمہاری لڑکیاں کیسے کیسے گل کھلاتی ہیں۔ ذرا اپنی اور ہماری عزت کا پاس کرو اور لڑکی کو لگام دو۔
خالہ نے ایسی باتیں کہیں کہ امی بے چاری رونے لگیں کیونکہ ان کے سسر نے کالز نمبر اور میسجز بھی آنٹی کو دکھائے تھے اور کہا کہ تم بھی بھانجی کے ان کرتوتوں میں شامل ہو۔ خالو جان نے کہا کہ اگر تم شامل ہوئیں تو میں تم کو طلاق دے دوں گا۔
خالہ کی باتیں سن کر میرا تو دل بیٹھ گیا اور سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ امی مجھ سے پوچھ رہی تھیں اورمیں کچھ نہ بول پا رہی تھی۔ شام کو خالو جان آذر کو لے کر آ گئے اورماموں جان سے کہا کہ اپنی بھانجی کو بلایئے۔ آذر نے میرے سامنے کہہ دیا کہ عینی خود مجھے فون کرتی تھی، میسجز کرتی تھی جبکہ میں منع کرتا تھا مگر یہ نہ مانتی تھی تب ہی تنگ آ کر میں نے پھوپی سے شکایت کی ہے۔
ماموں کے آگے میں کچھ نہ بول سکی۔ میرا دم گھٹ رہا تھا، آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا، یوں لگا ایک ہی پل میں سب کچھ ختم ہو گیا ہو۔ ماضی اچانک میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔
مجھے احساس ہوا اس مختصر سی زندگی میں میں نے بہت کچھ کھویا اورکچھ نہیں پایا۔ دل اب بھی نہ مانتا تھا کہ آذر ایسا کہہ سکتا ہے۔ وہ جو میری ذرا سی پریشانی پر تڑپ جاتا تھا، فون نہ کرتی تو روٹھ جاتا، کھانا نہ کھاتی تو ناراض ہوتا، ایسا کیوں کر کہہ سکتا تھا۔
میں اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر سارے بزرگ برہم تھے، بات بھی نہ کر سکی۔ اتنی ٹوٹی کہ جینے کی امنگ نہ رہی۔ سوچا خودکشی کر لوں مگر پھر ماموں کی عزت کا خیال آ گیا۔ ماں کو بھی مجھ سے امیدیں تھیں، سائرہ تو ابھی چھوٹی تھی۔ بس پھر میں نے ویسے ہی زندگی گزارنا شروع کر دی جیسے پہلے ہر بار ٹوٹ کر جڑنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ اب اگر جی رہی ہوں تو دنیا کیلئے، اپنے لئے تو اسی دن مر گئی تھی جس دن آنٹی نے کہا تھا …خالو سے کہہ دو کہ آذر بے قصور ہے، فون تم ہی اس کو کیا کرتی تھیں۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارے خالو مجھے طلاق دے دیں گے۔ بس تب ہی سے میں کبھی ہنس نہیں پائی۔
میں اسے آج بھی اتنا ہی یاد کرتی ہوں جتنا پہلے کرتی تھی۔ آج بھی اسے اسی قدر چاہتی ہوں جس قدر پہلے روز چاہتی تھی۔ اب میں نے سوچا ہے کہ زندہ رہوں گی اور اپنی ماں کا خواب پورا کروں گی، ان کو کچھ بن کر دکھائوں گی لیکن اپنی زندگی میں ہونے والے خسارے کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔
ایسا کہہ کر وہ رو دی۔ میں نے اسے چپ کرایا اور پھر ہم لوگوں کی کلاس شروع ہو گئی۔
اس سے اگلے دن میں نے اسے اسکول میں نہیں دیکھا۔ کس سے پوچھتی وہ کیوں نہیں آئی۔ اس سے اگلے دن بھی وہ نہیں آئی۔ اس کی حاضری بھی نہیں لگ رہی تھی۔ آخر میں نے ٹیچر سے پوچھ لیا کہ عینی کیوں نہیں آ رہی؟
اس نے اسکول چھوڑ دیا ہے، انہوں نے بتایا۔ اب وہ اسکول نہیں آئے گی کیونکہ اس کی شادی ہو رہی ہے، بس اس کے بعد وہ پھر مجھے کبھی نہیں ملی اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ پتا چلا کہ وہ کہاں ہے، ماں کے پاس یا اپنے ابو کے پاس چلی گئی ہے۔
عینی کی زندگی ہر لڑکی کے لئے ایک سبق ہے کہ کبھی خوابوں میں نہ جینا…کیونکہ خواب پھر خواب ہوتے ہیں، وہ کبھی حقیقت نہیں ہو سکتے۔ یہ سوچنا کہ خواب ایک دن حقیقت میں بدل جائیں گے، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
(ن، ش … لاہور)

Latest Posts

Related POSTS