ہمارا گھرانہ روایتی اور قدامت پسند تھا، اسی لیے میری منگنی بچپن میں ہی میرے چچا زاد سے کر دی گئی۔ ان دنوں میری عمر پانچ اور احمد کی نو سال تھی۔ وہ بہت پیارا سا، فرماں بردار لڑکا تھا، تبھی میرے ماں باپ کو میرے لیے مناسب لگا۔ جب میں نے شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا، تو پہلا جملہ یہی سنا کہ احمد تمہارا منگیتر ہے، یہ بات یاد رکھنا۔ یہ سنتے ہی اپنے چچا زاد کا خوبصورت چہرہ میری نگاہوں میں ابھر آیا۔ یہ خبر میرے لیے نوید مسرت تھی کیونکہ مجھے بھی وہ اچھا لگتا تھا اور پاس پاس گھر ہونے کی وجہ سے ہم ساتھ ہی کھیلتے تھے۔ انہی دنوں ہم کراچی آئے۔ میں کافی دن افسردہ رہی کہ احمد سے دور ہو جانے کا غم تھا۔اس غم کو بانٹنے کے لیے ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے اور کارڈ بھیجتے تھے، جو معصوم باتوں اور پاکیزہ جذبات کے غماز تھے، جن کی وجہ سے دوریوں کی تلخی کم ہو جاتی تھی۔ اس بار اسکول کی چھٹیوں میں احمد کراچی آیا تو ذرا اچھنبا لگا۔ اس کا حلیہ گاؤں والوں جیسا تھا۔ اس نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، سر میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگایا ہوا تھا۔ اس میں اعتماد کی بھی کمی تھی، جب کہ میں اس سے زیادہ بااعتماد اور شہری طور طریقوں سے واقف ہو چکی تھی۔ یہ تبدیلیاں شہر اور گاؤں کے مختلف رہن سہن کی وجہ سے تھیں، جن کا ہمیں ایک دوسرے کو دیکھ کر احساس ہوا۔ وہ سر جھکا کر بیٹھا رہتا، بات کرتے ہوئے جھجکتا۔ مجھ کو بس محبت پاش نظروں سے دیکھتا رہتا اور کوئی بات نہ کرتا تھا۔مجھے اس کی یہ بات بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔ اب میری نظروں میں اپنی سہیلیوں کے منگیتر اور دوست گھومنے لگے، جو سر اٹھا کر اعتماد سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔
ماحول کا انسان پر کتنا اثر پڑتا ہے، اب مجھے محسوس ہوا تھا۔ میں خود بھی کافی بدل چکی تھی اور ایک اچھے انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ وہ میٹرک کر کے آیا تھا اور اس کے ابا نے یہاں شہر میں فرنیچر کی دکان کھول لی تو اس نے دکان سنبھال لی، لیکن حلیہ ویسا ہی رکھا اور خود کو بدلنے کی کوشش نہ کی، حالانکہ میں نے بہت چاہا کہ وہ پہننے اوڑھنے میں کچھ تبدیلی لائے، اعتماد سے گفتگو کرے، لیکن شاید اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ ہر بات پر شرماتا تھا۔ وہ ایک ماہ ہی یہاں رہا، پھر شہر کی گہما گہمی میں اس کا دل گھبرا گیا۔ اسے اپنے گاؤں کی یاد ستانے لگی اور وہ اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ واپس گاؤں چلا گیا۔احمد کے اس مزاج اور انداز نے مجھے تشویش میں ڈال دیا تھا۔ میں سوچنے لگی کہ اس احمق سے لڑکے کے ساتھ عمر کیسے گزاروں گی، چنانچہ میٹرک کے امتحانات کے بعد میں نے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ والدین کے ہمراہ وہاں گئی تو مجھے گاؤں کی کشادگی میں گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ کراچی میں رہ کر بھی میرے منگیتر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، چنانچہ میرے دل میں گرہ لگ گئی۔ گاؤں میں مشترکہ فیملی نظام تھا اور شادی کے بعد مجھے بھی اسی نظام کا حصہ بننا تھا۔ ہمارے چچا کے گھر میں ایک دوسرے کا خیال تو رکھا جاتا تھا، لیکن وہاں ایک دوسرے کی دل آزاری اور چغلیاں بھی بہت کی جاتی تھیں۔ چنانچہ اس ماحول سے مجھے نفرت ہونے لگی، حالانکہ ہمارے والدین آپس میں محبت کرتے تھے، لیکن احمد کے گھر والوں کا رہن سہن اور یہ گھٹن زدہ ماحول مجھے نہ پسند آرہا تھا اور نہ ہی اس کا گردن جھکا کر بات کرنا مجھے اچھا لگتا تھا۔اب ایک کڑوا گھونٹ مجھے پینا تھا، مگر سوچنا یہ تھا کہ وہ کیسے پیا جائے، جب کہ میرے دل نے احمد کو ٹھکرا دیا تھا اور مجھے اس سے الجھن ہونے لگی تھی۔ کچھ دن وہاں رہنے کے بعد میں واپس اپنے گھر آگئی، مگر ایک الجھن ساتھ لے کر آئی تھی اور اس الجھن کو مجھے خود حل کرنا تھا۔ ایک سہیلی سے تذکرہ کیا تو وہ مجھے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے گئی، لیکن اس سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ہر حال میں مجھے یہ رشتہ توڑنا تھا، لیکن اس کے لیے مجھے وقت درکار تھا۔
احمد کے گھر والے میرے میٹرک کرتے ہی شادی کا تقاضا کرنے لگے تھے، کیونکہ وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، مگر میں بھی اپنی پڑھائی کو آڑ بنا کر شادی سے انکار کرتی رہی۔وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔ احمد کے خطوط اور کارڈز مجھے ملتے رہے، لیکن اب میں اس کے کسی خط کا جواب نہیں دیتی تھی۔ اگر اس کا فون آتا تو سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ پڑھائی کا بہانہ کر کے کمرے میں چلی جاتی۔ اب میں یونیورسٹی میں قدم رکھ چکی تھی، زندگی کے بہت سارے رنگ دیکھ چکی تھی۔ بہت سے لڑکوں سے میری سلام دعا ہو گئی تھی، لیکن جیون ساتھی کے طور پر مجھے ان میں سے کوئی نہ بھایا۔ ایک دن میری ملاقات ایک لڑکے، اکبر سے ہوئی۔ وہ نہایت حسین و جمیل، اونچا لمبا نوجوان تھا، جو محفل کی جان تھا۔ یونیورسٹی کی کئی لڑکیاں اسے اپنا آئیڈیل سمجھتی تھیں، لیکن وہ سب کو نظر انداز کر کے مجھے ہی اہمیت دیتا تھا اور مجھے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ میں بہت خوبصورت تھی۔ مجھ سی سفید رنگت پوری یونیورسٹی میں کسی کی نہ تھی۔ تمام طلبا نے مجھے بیوٹی کوئن کا خطاب دے رکھا تھا۔ جب ہم دونوں یونیورسٹی میں ایک ساتھ چل رہے ہوتے، تو لڑکے لڑکیاں غیرت اور رشک سے ہمیں دیکھتے۔ تب میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا اور میں سوچتی کہ کہاں میں اور وہ کہاں میرا دیہاتی ٹائپ منگیتر، جس کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا اور کہاں اکبر جیسا شاندار لڑکا۔ جب یہ میرا جیون ساتھی بنے گا تو ساری دنیا مجھ کو خوش قسمت نہیں کہے گی۔ مجھے ساحل سمندر پر جانا بہت پسند تھا اور جب اکبر مجھ سے کہتا، کوئی فرمائش ! تو میں جواب دیتی۔ سمندر کا کنارہ۔ تبھی وہ مجھے اپنی گاڑی میں ساحل سمندر پر لے جاتا تھا۔ ہم بہت اپنائیت کے ساتھ ایک دوسرے کا ہاتھ تھا ہے، ساحل پر چلتے چلے جاتے۔ وہ بڑی وارفتگی سے میرا ہاتھ تھامے مستقبل کے خوبصورت خواب دکھاتا تھا۔ وہ لفظوں کا کھلاڑی تھا۔ مخاطب اس کی پرمسرت باتوں کے جال میں پوری طرح پھنس جاتا تھا۔ شاید میں بھی ان بیوقوف لڑکیوں میں سے ایک بھی ، جو اس کے جال میں پھنس چکی تھی۔ سمندر کی سیر سے سرشار، ایک دن جب میں گھر لوٹی تو پتا چلا کہ میری شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ سن کر میں نے ایک ہنگامہ برپا کر کے شادی سے انکار کر دیا۔ والدین نے مجھے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں بتایا، لیکن جواب میں ، میں نے انہیں احمد کے گھٹن زدہ ماحول اور کم تعلیم کا کہہ کر انکار کر دیا۔ والدین میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ احمد کے والدین کو انکار کرتے۔ ان دنوں میں بہت پریشان رہنے لگی تھی۔ جب اکبر نے میری پریشانی کا سبب پوچھا تو میں نے اس کو سب کچھ بتا دیا۔ جواب میں اکبر نے کہا کہ اس ان پڑھ لڑکے کے ساتھ تم زندگی نہیں گزار سکتیں۔ تم صاف انکار کر دو۔ اکبر کی اس بات نے مجھ میں حوصلہ جگا دیا اور میں نے فون پر احمد سے بات کر کے اسے بتا دیا کہ میں تم سے شادی نہیں کر سکتی، کیونکہ تم ایک دیہاتی ہو اور میں ایک پڑھی لکھی اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری لڑکی ہوں۔ ہم دونوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ کچھ روز بعد اطلاع ملی کہ احمد اسپتال میں ہے۔ یہ سن کر میرے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا اور یوں میری اس کے ساتھ منگنی ٹوٹ گئی۔
اس کے بعد دونوں خاندانوں میں ناراضی کا سلسلہ چل پڑا اور چچا جان کے گھرانے سے ہمارا تعلق ٹوٹ گیا۔ یوں دونوں خاندانوں میں نفرتیں اور دوریاں میری وجہ سے بڑھ گئیں ، لیکن مجھے اس کی کب پروا تھی۔ یونیورسٹی کے آخری دنوں میں، میں اکبر کی طرف سے منتظر تھی کہ وہ مجھے پروپوز کرے گا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ آخر ایک سہانی شام، جب ہم ساحلِ سمندر پر ٹہل رہے تھے، میں نے لہروں سے کھیلتے ہوئے کہا، ہمیں دو برس ہو گئے ہیں ایک دوسرے کے قریب ہوئے، لیکن یہ قرب تشنہ ہے جب تک ہم نکاح کے بندھن میں نہیں بندھ جاتے۔ میں کب تک گھر والوں سے جھوٹ بول بول کر تمہارے ساتھ یہاں آتی رہوں گی؟ ہم ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تو پھر کیوں نہ ہم شادی کر لیں؟اچانک ہی سمندر کی لہروں میں شور برپا ہوا اور مجھ سے تھوڑے فاصلے پر ایک بے فکر نوجوان نے سمندر کے اٹھتے شور میں چھلانگ لگا دی۔ غور سے دیکھا، تو وہ کئی دوست تھے، جو بھری ہوئی موجوں سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ اکبر بات ان سنی کر کے ان کی طرف متوجہ ہو گیا، پھر ہم قریب ہی پتھروں پر بیٹھ گئے۔ میرا ہاتھ، جو چند لمحے پہلے اس کے ہاتھ میں تھا، اس پر اب اکبر کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے سگریٹ سلگائی اور پُرسکون انداز میں جواب دیا۔ اس کی آواز میں ساکت سمندر جیسی گہرائی اور سکوت تھا۔میں نے اس کی بات سنی، اس کے بعد مجھے صرف اس کے ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور میرا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ دل و دماغ جیسے پتھر کے ہو گئے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا، دیکھو صبا! ہم اچھے دوست تھے اور ہیں۔ میں نے ان دو برسوں میں تم سے کبھی شادی کا وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہی، جس سے تم نے ایسی امیدیں وابستہ کر لیں۔ میرا معاملہ بھی تمہاری طرح ہے۔ تم تو بہادر ہو، جو اپنے بچپن کی منگنی توڑ چکی ہو، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔آخر کیوں؟ میری نگاہیں اس سے ان ادھوری باتوں کا جواب سننے کو بے تاب تھیں۔ تھوڑی دیر تک وہ خاموش رہا اور اس دوران مجھ پر قیامت ٹوٹتی رہی۔ آخر اس نے خاموشی کو توڑ دیا اور لڑکھڑاتی زبان سے کہا، صبا! میں شادی شدہ ہوں، میرے دو بچے ہیں۔ میرے والدین نے اس وقت میری شادی کر دی تھی جب میں نے میٹرک کیا تھا۔ میری بیوی ایک ان پڑھ عورت ہے اور مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں پڑھنا چاہتا تھا، لیکن بابا جان نے مجھے اس شرط پر پڑھنے کی اجازت دی کہ میں گل بی بی کو طلاق نہیں دوں گا اور نہ ہی دوسری شادی کروں گا۔ ان دونوں صورتوں میں میری موت ہے کیونکہ میری وٹے سٹے کی شادی ہوئی ہے۔ میری بہن میرے سالے کی بیوی ہے، اس کے بھی دو بچے ہیں۔میں نے مجبوراً اس طوق کو گلے میں ڈالا ہوا ہے، ورنہ میں اندر سے بہت کھوکھلا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑا دیا۔سمندر کی لہروں میں طوفان چھپا ہوا تھا۔ میرے آنسو کب تک میرا ساتھ دیتے؟ وہ سمندر، جو مجھے ہمیشہ پسند تھا، آج مجھے قیامت لگ رہا تھا۔ اس نے مجھے دلاسا دینا چاہا، تو میں نے اس کی گرفت سے خود کو چھڑا کر گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔
وہ بظاہر شاندار شخص، کتنا کمزور، کتنا بودا اور کس قدر بزدل تھا! اگر اس نے مجھ سے شادی نہیں کرنی تھی، تو پہلے ہی یہ سب بتا دیا ہوتا۔ میں اس کے قریب بھی نہ جاتی، اس کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتی، لیکن میرا تو سب کچھ اکبر نے لوٹ لیا تھا۔ اب میں کس منہ سے کسی کے ساتھ زندگی گزارتی؟ میری ہستی مٹ چکی تھی۔اس کے بعد اس نے بہت کوشش کی کہ میری اور اس کی دوبارہ دوستی ہو جائے، لیکن میں اب اس کی صورت بھی دیکھنے کی روادار نہ تھی۔ بڑی مشکل سے میں نے یونیورسٹی کے آخری دن پورے کیے اور پیپرز دیے۔ میں اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھال رہی تھی، جو اب بھی اکبر کا نام پکار رہا تھا۔ آج مجھے احساس ہو رہا تھا کہ احمد سے منگنی توڑ کر میں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی، صرف اس کا ظاہری حلیہ دیکھ کر۔ میں اس کے اندر کی خوبصورتی کی قدر نہ کر سکی، اور جب میں نے پلٹ کر احمد کی طرف جانا چاہا تو پتا چلا کہ اس کی شادی ہو چکی ہے، اس لڑکی کے ساتھ جو احمد سے محبت کرتی تھی۔ وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ، اچھے گھرانے کی اور خوبصورت تھی۔ وہ گاؤں کے قریبی شہر کے کالج میں لیکچرار تھی۔میں نے اسے ٹھکرا دیا تھا، تو اسے مجھ سے کہیں بہتر شریکِ حیات مل گئی۔ پھر سنا کہ وہ دونوں بہت خوش ہیں اور ایک سال میں ان کے ہاں ایک بیٹی نے بھی جنم لیا۔ ان کی خوشیاں دوبالا ہو گئیں، اور میں بدنصیب، مصنوعی شہری نخرے میں ہاتھ ملتی رہ گئی۔ سچی محبت کرنے والے اپنے بچپن کے منگیتر کو محض اس لیے کھو بیٹھی کہ وہ شہر میں نہیں رہتا تھا۔جب اکبر نے مجھے ٹھکرا دیا، تو احساس ہوا کہ دراصل میں تو احمد سے ہی محبت کرتی تھی، مگر اپنے دل کی گہرائی میں چھپی محبت کو پہچان نہ سکی۔ یہ زخم بہت گہرا تھا، لیکن وقت گہرے سے گہرے زخم کو مندمل کر دیتا ہے۔ یہ سچ ہے، مگر روح پر لگے گھاؤ کبھی نہیں بھرتے۔ میں روحانی طور پر مر چکی تھی، اب زندگی سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی تھی۔جس کمپنی میں کام کرتی تھی، وہاں کئی لوگوں نے مجھ سے دوستی اور محبت کے لیے ہاتھ بڑھایا، لیکن سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے اور دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ایک دھوکہ کھا کر سمجھ میں آ گیا کہ یہاں سبھی ہوس کے پجاری ہیں۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے بے وقوف لڑکیوں سے محبت کا ناٹک کرتے ہیں، لیکن جب شادی کی بات آتی ہے، تو بڑی خوبصورتی سے دامن بچا لیتے ہیں۔کبھی کبھی تو میں سوچتی ہوں کہ اکبر کو مجھ سے نہیں، بلکہ میرے خوبصورت چہرے سے محبت تھی۔ اب سوچتی ہوں، کیا ہر مرد ہی ایسا ہوتا ہے؟ نجانے کتنی بے وقوف لڑکیاں روز میری طرح آئیڈیل کو اپنانے کے لیے کتنے ہی سچے پیار کرنے والوں کو کھو دیتی ہیں۔ لیکن سراب سہاروں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ وقت کی دہلیز پر بن بیاہی بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ساری زندگی اپنی کھوئی ہوئی جنت کو پانے کے لیے سرگرداں رہتی ہیں۔آخر خدا نے میری سن لی۔ مجھے اس ماحول سے نجات ملی، جہاں یادیں مجھے ڈستی تھیں۔ میں کمپنی کی طرف سے پیرس چلی آئی، پانیوں کے شہر میں۔ پانی کو دیکھتی ہوں تو کراچی کا ساحل یاد آ جاتا ہے، جس کی بہتی ہوئی لہروں میں میرے ارمان بھی بہہ گئے تھے۔میری زندگی کی کہانی سبق ہے ان لڑکیوں کے لیے، جو دوستی کی آڑ میں ہوس پرست لڑکوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور یہ نہیں سوچتیں کہ نصیب وہی ہوتا ہے جو خدا نے ہمارے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ وہ شخص جیسا بھی ہو، جہاں بھی ہو، اس کا نام وقت پر ہمارے نام کے ساتھ ہی لکھا جائے گا۔ اس لیے آئیڈیل کو پانے کی آرزو بیکار ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے تو خدارا! صرف تعلیم ہی حاصل کرنا، سراب سہاروں کی خاطر اندھیروں میں نہ بھٹک جانا، ورنہ کچھ نہ ملے گا اور ساری عمر پچھتانا ہو گا۔