Sunday, January 12, 2025

Khwabon Ki Qeemat

 میرا نام گل مہر ہے اور میرا تعلق سرحد کے ایک خوشحال گھرانے سے ہے۔ میں بڑی منتوں اور مرادوں سے پیدا ہوئی تھی کیونکہ میں اپنے والدین کی شادی کے دس سال بعد اس دنیا میں آئی تھی۔ میں اکلوتی تھی اور لاڈلی بھی بہت تھی۔ میرے والدین ایک پل کے لیے بھی مجھے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری سانسوں کے ساتھ ان کی زندگی کا رشتہ بندھا ہوا ہو۔ اولاد تو سب ہی کو پیاری ہوتی ہے، مگر جیسی میں پیاری تھی، ویسی شاید ہی کوئی بیٹی ہو۔

ان دنوں میری عمر سات سال کے قریب تھی۔ ہمارے پڑوس میں ایک مکان خالی ہوا اور اس میں ایک عورت آ کر رہنے لگی۔ اس عورت کی عمر ساٹھ برس تھی، وہ بیوہ تھی اور اس کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ تنہائی سے گھبرا کر وہ اکثر ہمارے گھر آ جاتی اور میری ماں کی منہ بولی بہن بن گئی۔ جب بھی وہ ہمارے گھر آتی، مجھے عجیب نظروں سے گھورتی اور میں خوف زدہ ہو جاتی۔ پھر جب وہ مجھے میری ماں کے سامنے بلاتی، تو میری ماں مجھے ڈانٹتی۔ بیٹا! تم خالہ کے بلانے پر ان کے پاس کیوں نہیں جاتی؟ وہ تمہیں اتنی محبت سے بلاتی ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس کا دل پیاسا ہے۔ ایسی عورتوں کا دل نہیں دکھاتے۔ ماں کی بار بار کی باتوں سے مجبوراً مجھے اس کے پاس جانا پڑتا، مگر جلد ہی واپس گھر آ جاتی۔

ایک سال گزر گیا، اور اس عورت کو ہمارے پڑوس میں رہتے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔ میری عمر اب آٹھ یا نو سال ہو چکی تھی اور میں پہلے سے زیادہ سمجھدار ہو گئی تھی۔ ایک دن جب میں گلی میں کھیل رہی تھی، اس عورت نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگی، چنو! میرے ساتھ ذرا بازار چلی جا، مجھے سبزی لینے جانا ہے۔ یہ ٹوکری اٹھا لے۔ میں نے کہا، میں نے اپنی ماں سے پوچھا ہے، وہ کہہ رہی ہے کہ تم اکیلی بازار کیوں جاتی ہو، میری چنو کو ساتھ لے جاؤ۔ ادھر میلہ بھی لگا ہے، جو کچھ بھی چاہے گی، میں تمہیں میلے سے لے دوں گی۔ میں نے معصومیت سے پوچھا، خالہ، کیا وہاں سوتی جاگتی گڑیا بھی مل جائے گی؟ خالہ نے جواب دیا، ہاں، مل جائے گی۔ تجھے چاہیے کیا؟ میں نے اشتیاق سے کہا، ہاں خالہ، مگر ٹھہر، میں اپنی امی سے پیسے لاتی ہوں۔ لیکن خالہ نے میرا بازو پکڑ لیا اور کہا، نہیں چنو، مجھے دیر ہو رہی ہے، اب تو چل، پیسے میں بعد میں تیرے امی سے لے لوں گی۔

اس طرح میں گڑیا کے شوق میں خالہ کے ہمراہ چلی گئی۔

یہ صبح گیارہ بجے کا وقت ہوگا۔ میرے والد کام پر جا چکے تھے اور میری ماں گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔ اس وقت گلی میں اور کوئی نہیں تھا جو مجھے خالہ کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھ لے۔ خالہ نے بھی خاص طور پر راستہ تبدیل کیا اور سڑک کے بجائے گلیوں میں سے چلتے ہوئے کافی دور جا پہنچی۔ میں نے اس سے پوچھا، خالہ، ابھی کتنی دور جانا ہے؟ میرے پاؤں دکھنے لگے ہیں۔ تو خالہ نے کہا، لڑکی تجھے زیادہ چلنے کی عادت نہیں ہے، بہت نازوں سے پلی ہے نا، اس لیے تھک گئی ہوگی۔ بازار ابھی دور ہے، مگر میلہ وہ سامنے والے چوک میں لگا ہے۔ پہلے بازار چلے گی یا میلے میں؟

میں نے فوراً کہا، خالہ، میلے میں! خالہ نے کہا، اچھا! وہ سامنے میرا بھائی آ رہا ہے، اس سے کہتے ہیں۔ اتنے میں وہ شخص، جو شاید خالہ کا پہلے سے منتظر تھا، خالہ کو دیکھ کر قریب آ گیا۔ خالہ نے کہا، بھیا، یہ بچی میری پڑوسن کی ہے، اس کو سوتی جاگتی گڑیا چاہیے۔ تو ذرا وہ سامنے چوک میں جو میلہ لگا ہے، وہاں سے گڑیا خریدی کر لانا۔ میں سبزی لے آتی ہوں، گڑیا خرید کر بچی کو یہاں لے آنا، پھر میں اسے ساتھ لے کر گھر چلی جاؤں گی۔ یہ کہتے ہوئے خالہ نے اپنے دوپٹے سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اس آدمی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور میں نادانی میں گڑیا کے خواب میں اس شخص کے ہمراہ چل پڑی جیسے مجھے کسی نے جادو کر دیا ہو۔ سامنے چوک میں کوئی میلہ نہیں تھا، پھر بھی میں خاموشی سے اس شخص کے ساتھ چلتی رہی جسے خالہ نے اپنا بھائی بتایا تھا۔

 وہ شخص مجھے سیدھا اسٹیشن لے آیا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اسٹیشن نہیں دیکھا تھا۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ یہاں میلہ لگا ہے۔ اس نے اسٹال سے مجھے ایک گڑیا لے دی، پھر بولا، ریل گاڑی پر بیٹھے گی، شہر کی سیر کرے گی۔ گڑیا کو اپنے کلیجے سے لگائے، میں خوشی میں ایسی مسحور ہو چکی تھی کہ میں نے گردن ہلا دی۔ ریل گاڑی جانے کو تیار کھڑی تھی اور میں نے اس کو سیٹیاں بجاتے سنا۔ شور اور رش اتنا تھا کہ میری کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کہاں جارہی ہوں۔ وہ آدمی مجھے ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں بیٹھا کر گاڑی چلنے لگا۔

دو گھنٹے تو میں چپ چاپ بیٹھی ریل گاڑی سے سارا منظر دیکھتی رہی۔ آج ایسے نئے نئے مناظر دیکھنے کو ملے تھے کہ چند لمحوں کے لیے میں نے گھر اور گھر والوں کو بھلا دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ خالہ سبزی لے کر بازار سے واپس آ چکی ہو گی اور اب میرا انتظار کر رہی ہو گی۔

اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں کہیں دور جا رہی ہوں اور یہ آدمی مجھے خالہ اور گھر والوں سے دور لے جا رہا ہے۔ تبھی میں نے رونا شروع کر دیا۔ اس پر اس شخص نے مجھے کھانے کے لیے لڈو دیا اور کہا، چپ ہو جاؤ چنو، ابھی ریل گاڑی رک جائے گی تو گھر آ جائے گا۔ لڈو کھالو، اگر تم روؤ گی تو پولیس والے آ کر تم کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ اس نے مجھے پولیس سے ڈرا دیا، تو میں چپ ہو گئی اور لڈو کھانے لگی۔ لڈو میں نجانے کیا تھا کہ اس کو کھاتے ہی میں سو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سفر کب تک جاری رہا۔ جب میں دوسرے دن جاگی تو ہم ایک اسٹیشن پر اتر چکے تھے اور لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ حیدر آباد ہے۔ وہ آدمی مجھے ایک ٹیکسی میں بٹھا کر کسی جگہ لے جانے لگا تو میں رونے لگی۔ اس بار میں نے بہت زور شور سے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس کے باوجود کہ میں ایک ناسمجھ بچی تھی، مجھے ماں باپ سے جدائی اور کسی انجانے خطرے کا احساس ہو چکا تھا۔

میرے اجنبی مہربان نے مجھے سمجھانے اور چپ کرانے کی کوشش کی اور ایسے کلمات کہنے لگا جیسے وہ میرا رشتہ دار ہو اور مجھے میرے گھر لے جا رہا ہو۔ وہ میری ماں اور گھر والوں کا ذکر کرنے لگا، مگر میں نے ایک نہ سنی اور اس قدر چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ بات اس کے قابو سے باہر ہو گئی۔ اب ٹیکسی والے کو کچھ شک ہوا، وہ پوچھنے لگا، یہ لڑکی کون ہے؟ یہ تو ایسے رو رہی ہے جیسے تم اسے زبردستی کہیں اٹھا کر لے جا رہے ہو۔ پھر اس ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا، بیٹی، یہ آدمی کیا تمہارا چچا ہے؟ کون ہے یہ؟ میں نے کہا، چچا نہیں ہے، کوئی نہیں ہے، مجھے گھر لے چلو، گھر جانا ہے مجھے۔ روتے روتے میں نے یہ جواب دیا اور پھر دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ اب اس ٹیکسی والے کو یقین ہو گیا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس نے ٹیکسی کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا تو خالہ کا نام نہاد بھائی سخت گھبرا گیا اور جیسے ہی ٹیکسی کسی رکاوٹ کی وجہ سے آہستہ ہوئی، وہ ٹیکسی کا دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔

ڈرائیور نے ٹیکسی ایک طرف روک کر اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر درمیان میں ٹریفک سگنل آ گیا اور وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں ابھی تک ٹیکسی میں بیٹھی رہی۔ غالباً ٹیکسی ڈرائیور نے میری حالت کو سمجھا اور فوراً واپس لوٹ آیا۔ پھر وہ مجھے تھانے لے آیا۔

پولیس والوں کو دیکھ کر میں بہت ڈرتی تھی۔ اب بھی جب میں نے پولیس والوں کو دیکھا تو ڈر سے کانپنے لگی۔ دراصل ایک بار ہمارے محلے میں ایک شخص پکڑا گیا تھا۔ وہ بھاگ رہا تھا اور لوگ اس کو چور چور کہہ رہے تھے۔ پھر ایک پولیس والے نے اسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا تھا اور وہ اسے مارتا ہوا لے جا رہا تھا۔ ان دنوں میری عمر چار یا پانچ سال تھی اور میں نے یہ منظر ایسا دیکھا تھا کہ وہ ذہن سے نہ بھلا سکی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں نے پولیس والوں کو دیکھا، میں ڈر سے کانپنے لگتی تھی۔ میری ماں بھی جب کبھی مجھے ڈرانا چاہتی، تو وہ مجھے یہ کہہ دیتی کہ دیکھو، وہ آ رہا ہے پولیس والا، تجھے پکڑنے۔ بس اس بات پر میں فوراً چار پائی کے نیچے جا کر چھپ جاتی تھی۔

  پولیس اسٹیشن پر بہت سے پولیس والے تھے۔ سب ہی پولیس والے وردیاں پہنے ہوئے تھے اور ڈر سے میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔ میں پہلے ہی غیر معمولی اور بے آرامی کے حالات سے گزر کر آرہی تھی۔ اوپر سے جو پولیس والوں کی شکلیں دیکھیں تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات پوچھ رہے تھے: بی بی تم کہاں رہتی ہو؟ تمہارے شہر کا کیا نام ہے؟ تمہارے باپ کا کیا نام ہے؟ تمہارا نام کیا ہے لڑکی؟ تمہارا باپ کیا کرتا ہے؟ اتنے سارے سوالات میں سے میں ایک کا بھی جواب نہ دے سکی۔ جیسے کہ میرے قوت گویائی سلب ہو چکی ہو۔ بس میں ٹیکسی ڈرائیور کی ٹانگوں سے لپٹی کھڑی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور گھٹی گھٹی سسکیاں منہ سے نکل رہی تھیں۔

پولیس والوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کچھ پوچھ گچھ کی۔ وہ بال بچے دار آدمی تھا۔ غالباً انہوں نے اس سے کہا کہ جب تک لڑکی کے وارثوں کا پتا نہیں چلتا، تم اس کو اپنے گھر رکھو۔ اس طرح میں سوتی جاگتی گڑیا کی آرزو کا دامن تھامے، چند گھنٹوں کے اندر اپنے ماں باپ کے محبت بھرے گہوارے سے ایک اجنبی ٹیکسی ڈرائیور کے گھر آگئی۔

ٹیکسی ڈرائیور کی بیوی ایک اچھی عورت تھی۔ اس کے چار بچے تھے۔ پانچویں میں مل گئی۔ اس نے مجھے بہت پیار اور آرام دیا۔ میں اس سے مانوس ہو گئی۔ پھر بھی میں روز پوچھتی تھی، میں کب گھر جاؤں گی، مجھے میرے گھر پہنچا دو نا۔ وہ بیچارہ ٹیکسی ڈرائیور بھی بہت دنوں تک تھانے کے چکر لگاتا رہا مگر پولیس والے شاید میرے والدین سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہے کیونکہ میں صرف اتنا ہی بتا پائی تھی کہ میں پشاور میں رہتی ہوں، کہاں رہتی ہوں اور میرے والد کا کیا نام ہے، یہ میں نہ بتا پائی۔ بھلا پھر وہ لوگ مجھے کیسے میرے گھر تک پہنچاتے؟ وہ خود بہت غریب تھے، میرے ماں باپ کو تلاش کرنے پر جتنا خرچہ آتا تھا وہ کہاں سے لاتے؟ پھر رفتہ رفتہ میں اسی گھر کی ایک فرد بن گئی۔ میں نے اس کو اپنا گھر سمجھ لیا۔ ان لوگوں نے بھی دو چار ماہ کے بعد میرے والدین کی تلاش کا ترد چھوڑ دیا۔ ایک بار وہ ٹیکسی ڈرائیور اخبار کے دفتر بھی گیا تھا مگر مجھے معلوم نہیں کہ میرا کوئی اعلان چھپا بھی کہ نہیں اور اس کی شنوائی بھی ہوئی یا نہیں۔

ٹیکسی ڈرائیور کا نام علی بخش تھا۔ یہ سندھی تھا اور نہایت اچھا اور مہربان انسان تھا۔ اس نے مجھے اپنی اولاد کی طرح اپنے گھر میں رکھا۔ جب میں سولہ سال کی ہوئی تو اس نے میری شادی اپنی بیوی کے بھائی سے کر دی۔ میرا شوہر مجھ سے تیس سال بڑا تھا۔ اس کی عمر تقریباً پینتالیس سال تھی۔ اس کی پہلی بیوی مر چکی تھی اور چار چھوٹے بچے اپنے بعد چھوڑ گئی تھی۔ مجھے ان بچوں کی پرورش کرنی تھی۔ شاید اللہ تعالی نے انہیں کی خاطر مجھے اس منزل تک پہنچا دیا تھا۔ اس شادی پر میں خوش تو نہ تھی مگر مجبور تھی۔ میں نے ان بچوں کی پرورش میں دل لگا لیا۔ پھر اللہ تعالی نے مجھے اپنی اولاد بھی دے دی۔ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔

شادی کے بارہ سال آرام سے گزرے۔ اس کے بعد شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اب میں سات بچوں کے درمیان زندہ ہوں۔ اپنے شوہر کی اولاد کے لیے زندہ رہنا ہے۔ مرنے کی خواہش کرنے کا کیا فائدہ؟ کیونکہ خواہش کرنے سے تو موت نہیں ملتی۔ پھر کیوں نہ انسان حوصلہ سے زندہ رہے؟ اتنے سال بیت گئے گھر سے جدا ہوئے۔ آج بھی گھر والوں کی یاد ستاتی ہے تو اس خالہ کو کوستی ہوں جو میری زندگی میں ڈائن بن کر داخل ہوئی، جس نے میرے ماں باپ کی خوشیاں اجاڑ ڈالیں اور اس لمحے میں مجھے دھکیل دیا جس نے مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے اپنوں سے دور کر دیا۔ اللہ ایسی ڈائنوں سے ہر کسی کے بچوں کو محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔

Latest Posts

Related POSTS