Tuesday, March 18, 2025

Khwahishat Ka Soodagar

گھر میں خوش حالی، اطمینان اور اتفاق کی فضا کے باوجو د نجانے میری بہنوں نے ایسا قدم کیوں اٹھایا ، جس نے ہمارے خوشیوں بھرے گھرانے کو تہس نہس کر دیا۔ اس کی ساری ذمہ داری میری بہن عدیلہ پر ہے ، جو سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ سارے بچے ایک طرف اور وہ ایک طرف ، والدین کی آنکھ آنکھوں کا تارا تھی۔ عدیلہ کا کہا وہ ٹال نہیں سکتے تھے۔ اگر وہ جھوٹی شکایت بھی کرتی تو ہم سب بہن بھائیوں کی پٹائی ہو جاتی۔ کہتے ہیں جو اولاد سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے ، دکھ بھی اس سے ملتے ہیں۔ عدیلہ نے یہ سچ کر دکھایا۔ اس نے ایسا فیصلہ اچانک کیا کہ ابو کی عزت خاک میں ملا دی۔ ان دنوں میری دوسرے نمبر والی بہن فضیلہ ایم بی بی ایس کے فائنل میں تھی، جب کالج کے فنکشن میں اس کی ملاقت ایک لڑکے سے ہوئی۔ اس کا نام مشاہد اور ارشاد اس کا چھوٹا بھائی تھے۔ ایک روز وہ باجی عدیلہ کو بھی ان سے ملانے لے گئی۔ یوں دونوں بہنوں نے ان دونوں بھائیوں سے دوستی کر لی۔ اس واقعہ کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔ گھر والے یہی سمجھتے تھے کہ یہ کالج پڑھنے جاتی ہیں۔ حقیقت میں یہ دونوں ، ان بھائیوں کے پیار میں گرفتار ، الگ الگ گھومنے پھرنے جاتی تھیں۔ عدیلہ کو والدین نے کبھی کسی شے کی کمی نہ ہونے دی تھی، پھر بھی نہ جانے کیوں اسے بہت امیر گھرانے میں جانے کی خواہش تھی۔ اسی خواہش نے اسے بے راہ روی کا شکار کیا۔

مشاہد اور ارشاد چونکہ امیر لڑکے تھے۔ عدیلہ نے چھوٹی فضیلہ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور اکسایا کہ تم ارشاد کے ساتھ دوستی کر لو ، جب کہ میں مشاہد کے ساتھ جڑتی ہوں۔ یوں ہماری شادیاں ایک امیر کبیر خاندان میں ہو جائیں گی، ورنہ والدین تو ہمیں مڈل کلاس گھروں میں دھکیل دیں گے، جہاں ہزاروں مسائل ہوتے ہیں اور عزت و آبرو کے نام پر بے شمار دکھ سہنے پڑتے ہیں۔ گھر والوں کو باجی اور آپی کے اس کارنامے کا ذرا بھی پتا نہ چل سکا کہ یہ کیا گل کھلاتی پھرتی ہیں۔ امی ابو کا خیال تھا کہ ان کی بیٹیاں نیک چلن اور لاکھوں میں ایک ہیں۔ یہ فرشتہ صفت کوئی غلط قدم اٹھا ہی نہیں سکتیں۔ ان کو اولاد پر اندھا اعتماد تھا۔ ان ہی دنوں ابو ، باجی کی شادی اپنے بھتیجے اصغر سے کرنے کا سوچ رہے تھے ، جو سافٹ ویئر انجینر تھا اور اب سعودیہ کی ایک بڑی کمپنی میں کام کر رہا بھتا، جب کہ امی آپی فضیلہ کی شادی اپنے بھانجے زوہیب سے کرنے کی ٹھانے بیٹھی تھیں۔ وہ بھی ایک لائق اور خوبصورت نوجوان تھا۔ اسے فوج میں کمیشن ملا تھا۔ یہ دونوں لڑکےہی نیک طینت اور تعلیم یافتہ تھے ، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ گھر کی مرغی دال برابر ، تو میری بہنوں کو بھی یہ رشتے کم مایہ نظر آتے تھے۔ دونوں کسی اور ہی دنیا کے خواب دیکھ رہی تھیں اور بہت اونچی اڑان بھرنا چاہتی تھیں۔ ان کے قدم اب زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ مشاہد اور ارشاد امیر باپ کے بیٹے تھے۔ ان کی ماں فوت ہو چکی تھی اور کوئی بہن بھی نہیں تھی۔ ان دونوں کے رشتے باپ نے اونچے گھرانوں میں طے کر رکھے تھے لیکن دولت کی فراوانی نے ان کو لاابالی ، آوارہ مزاج اور خود سر بنا دیا تھتا، یوں وہ اپنی من مانی کرتے تھے۔ دونوں الگ الگ قیمتی گاڑیاں لاتے اور یہ کالج سے نکل کر ان نئی اور چمکتی گاڑیوں میں بیٹھ ، کبھی کسی مہنگے ریستوران اور کبھی کسی تفریحی مقام پر چلی جاتی تھیں۔ ایک بار ابو کو کسی دوست نے اشارتا بتایا کہ آپ کی بیٹی کو میں نے ایک ریستوران میں کسی لڑکے کے ساتھ جاتے دیکھا ہے ، مگر ابو کو یقین نہ آیا۔ بولے۔ شمیم میاں تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میری بچیاں اس طرح کی نہیں ہیں۔ کوئی ان سے ملتی جلتی شکل کی ہوگی۔ شمیم انکل خاموش ہو رہے ، حالانکہ ان کو مغالطہ نہیں ہو سکتا ھتا کہ وہ اکثر ابو سے ملنے ہمارے گھر آتے تھے اور ہم سب بہنوں کو بچپن سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ کچھ دن گزرے تو ایک رشتہ دار نے آکر ابو سے کہا کہ عدیلہ کو ہم نے دو تین بار کالج سے کسی کی گاڑی میں بیٹھ کر جاتے دیکھا ہے۔ ان صاحب کی دراصل اپنی بیٹی بھی اسی کالج میں پڑھتی تھی۔ وہ کبھی کبھی خود اپنی بچی کو کالج سے پک کرنے جاتے تھے۔ جب دوسری بار شکایت ملی تو ابو کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے بیٹیوں سے باز پرس کی۔ دونوں صاف مکر گئیں کہ ابو کسی نے آپ سے غلط بتایا ہے۔ ہم کسی کے ساتھ نہیں جاتیں۔ کسی بد خواہ نے آپ کو بھڑکایا ہے تا کہ آپ کی بیٹیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں۔ اس پر ابو خاموش ہو گئے، مگر ان کے دل میں بات کھٹک رہی تھی، لہذا میرے بھائی نصیر کو انہوں نے بیٹیوں کی نگرانی پر مقرر کر دیا۔ وہ روز کالج جا کر چھٹی کے وقت سامنے ایک کباب والے کی دکان پر بیٹھ جاتا اور بہنوں پر نظر رکھتا۔ آخر کار ایک روز اس نے عدیلہ باجی کو مشاہد کی گاڑی میں جاتے دیکھ لیا اور گھر آکر ابو کو بتا دیا۔ جب آپی اور باجی گھر لوٹیں تو ابو انہیں مارنے کو تیار بیٹھے تھے، لیکن امی آڑے آ گئیں کہا کہ جوان بیٹیوں پر ہاتھ اٹھانا ٹھیک نہیں۔ اس سے ہماری بدنامی ہو گی۔ ان کو پیار سے سمجھاتے ہیں، پھر یہ تو عدیلہ کی غلطی ہے، نصیر نے اسے کسی کی گاڑی میں بیٹھتے دیکھا ہے، فضیلہ کی نہیں۔ اس بے قصور کو کیوں مارتے ہو۔

ابو نے امی کے سمجھانے سے غصہ کو قابو کیا اور عدیلہ باجی کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی۔ ابو نے کہا کہ میری بات غور سے سن لو اور آئندہ تمہاری طرف سے کوئی شکایت نہ ملے ، ورنہ کالج نہ جا پائوں گی۔ فضیلہ تو جی ابو کہہ کر ایک طرف ہو گئی، مگر عدیلہ نہیں مانی۔ کہنے لگی کہ مجھے اسی لڑکے سے شادی کرنی ہے۔ آپ اس سے ملئے ، مشاہد اچھا لڑکا ہے۔ اس کے باپ کا نام سب لوگ جانتے ہیں ، وہ ایک بڑا بزنس مین ہے۔ ابو نے کہا کہ میں اس بزنس مین کو جانتا ہوں۔ اس کے لڑکے ٹھیک نہیں ہیں، مگر بیٹی بھی وہ تھی، جس کو ان کے لاڈ پیار نے سر چڑھا لیا تھا۔ امی نے کہا۔ ٹھیک ہے ہم نے شادی تو کرنا ہے ، اس کی مرضی سے سہی۔ اگر وہ لڑکا راضی اور سنجیدہ ہے ، تو اس کو کہو کہ رشتے کے لئے والدین کو بھیجے ، تب ہم غور کریں گے۔ فہیم سیٹھ تو ایک مغرور بزنس مین تھا۔ اس نے کب ہمارے در پر رشتہ لینے آنا تھا۔ اس نے اپنے بیٹوں کی منگنیاں بھی اپنی حیثیت کے لوگوں میں کردی تھیں۔ تب ان لڑکوں نے بھی مخالفت نہ کی تھی۔ سب کچھ ادھر طے ہو چکا تھا۔ عدیلہ نے مشاہد سے کہا کہ امی ابو کو ہماری دوستی کا پتا چل گیا ہے ، لہذا اب یہ سلسلہ نہیں چل سکے گا۔ ابو ہم کو کالج سے ہٹا لیں گے۔ بہتر ہے تم رشتہ بھیجو ۔ یہ ایک ناممکن بات تھی، تبھی مشاہد نے صاف بتا دیا کہ عدیلہ یہ نہیں ہو سکتا۔ ڈیڈی بھی رشتے کے لئے تمہارے والد کے پاس نہیں جائیں گے۔ اگر تمہیں واقعی مجھ سے محبت ہے، تو تم میرے ساتھ کورٹ میرج کر لو۔ ڈیڈی نے میرے اکائونٹ میں اتنی رقم ڈال دی ہے کہ میں با آسانی تم کو ایک علیحدہ گھر میں رکھ سکتا ہوں، لیکن وہ کبھی مجھے تے تم سے شادی کی اجازت ہو نہیں دیں گے۔ ہمیں ان سے چھپ کر شادی کرنا ہو گی۔ تب عدیلہ باجی نے کہا۔ اور میرے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ یہ میں نہیں جانتا لیکن تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو، تو اسی طرح تمہیں میرا ساتھ دینا ہو گا۔ عدیلہ کو کو تو دولت کی چمک گھیرے ہوئے تھی۔ ایک روز کالج جانے کا کہہ کر وہ ہمیشہ کے لئے مشاہد کے ساتھ چلی گئی اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ باجی کی خواہشات دنیاوی بے کنار تھیں، جن کو پورا کرنے کے خواب وہ کب سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اکثر کہتی تھی کہ میرے پاس موبائل فون، گاڑی ، ڈرائیور علیحدہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ زیورات اور دولت کی وہ شدید تمنائی تھی۔ گھر کا کام نہ کرنا پڑے، اس لیے تو کر بھی ہونے چاہئیں ، بنگلہ بھی علیحدہ ہو اور اس میں فرنیچر بھی اعلیٰ پائے کا ہو۔ وہ جب چاہے ، گاڑی لے کر باہر گھومتی رہے اور ہوٹلوں سے کھانا کھائیں۔ چنانچہ آسائشوں اور سیر و تفریح کے چکر میں وہ والدین کی عزت کو پامال کر کے ایک اجنبی لڑکے کے ساتھ چلی گئی۔

اس دن فضیلہ کالج نہیں گئی تھی۔ گھرے جاتے وقت باجی نے یہ بھی نہ سوچا کہ ہمارا کیا بنے گا۔ ابو کی عزت بھی خاک میں مل جائے گی۔ وہ رات تک نہ لوٹی ، امی ابو بہت پریشان تھے۔ جب فضیلہ کو امی نے ہاتھ جوڑ کر قسم دی تو اس نے بتایا کہ وہ اسی لڑکے کے ساتھ چلی گئی ہے۔ امی نے پوچھا۔ تم کو کیسے پتا؟ وہ بولی کہ بس پتا ہے مجھے ۔ کل میں نے اس کو فون پر کسی سے بات سنا، لیکن میں یہی سمجھی کہ مذاق کر رہی ہے ، در حقیقت ایسا نہیں کرے گی۔ یہ سن کر ابو رونے لگے۔ نصیر بھائی بہن کا اتا پتا کرنے چلے گئے۔ ابو نے کافی تلاش کی کوشش کی، لیکن کوئی سراغ کیسے ملتا، حالانکہ گھر کا بھیدی گھر میں موجود تھا۔ فضیلہ کو سب پتا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ گئی ہے اور مشاہد کے ٹھکانے کہاں ہیں، مگر وہ کچھ نہ بولتی اور معصوم بنی رہتی تھی۔ وہ ارشاد کے بارے امی ابو کو نہیں بتا سکتی تھی، ورنہ عدیلہ پکڑی جاتی اور خود اس کا معاملہ بھی کھڑے میں پڑ جاتا۔ اس کا عدیلہ سے خفیہ رابطہ برقرار تھا۔ ادھر ابو اور میرے بھائی بہن کو ڈھونڈنے میں ہلکان ہو رہے تھے ، تاہم کسی نے اس پر شک نہ کیا کہ وہ بڑی بہن سے ملی ہوئی ہے۔ ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ امی ابو رو دھو کر چپ ہو رہے، تاہم صبر ان کو کسی طور نہ آتا تھا کہ ان کی جوان بیٹی گمشدہ ہو گئی تھی۔ ابھی یہ رونا دھونا جاری تھا کہ ایک دن فضیلہ آپی نے بھی اسی طرح کیا اور اچانک گھر سے غائب ہو گئیں۔ عدیلہ نے اس کو آسرا دیا ، ہمت دلائی اور ایک دن وہ بھی کورٹ میرج کرنے گھر سے چلی گئی۔ یوں ہماری دونوں بڑی بہنوں نے ہم دو چھوٹی بہنوں کی تقدیر پر سیاہی پھیر دی۔ مشاہد اور ارشاد نے باپ کی دولت سے ایک گھر لے لیا اور میری دونوں بہنوں کو بیویاں بنا کر اکٹھے ایک ہی گھر میں رکھا۔ اب مشاہد اور ارشاد کی فکر اتر گئی کہ کبھی ایک باپ کے گھر ہوتا تو دوسرا اس گھر میں رہتا  تاکہ عدیلہ اور فضیلہ کو ٹھی میں اکیلی نہ ہوں۔ اس طرح باری باری دونوں بھائی آتے جاتے رہتے تھے۔ عدلیہ کے بعد جب فضیلہ بھی چلی گئی تو ہماری بہت بدنامی ہوئی۔ ابو کی سب لوگ عزت کرتے تھے، مگر اب محلے والے ہمارے گھر نہ آتے اور اپنی لڑکیوں کو بھی ہمارے گھر نہ آنے دیتے۔ ہم سے بات چیت سے منع کرتے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے گھر بیچ دیا اور دوسرے علاقے میں مکان خرید کر رہنے لگے۔ دو سال تک دونوں بہنوں کے زندہ مرگ کا سوگ منایا جاتا رہا، پھر امی نے میرے بڑے بھائی کی شادی کر دی۔ دلہن بیاہ کر ہم گھر لے آئے، جن کا نام نجم تھا۔ وہ بہت اچھی تھی۔ ہم خوش ہو گئے کہ اتنی اچھی لڑکی ہمارے بھابھی بنی تھی۔ باجی اور آپی کے جانے سے جو خلا پیدا ہو ا تھا وہ اس نے پورا کر دیا اور آتے ہی گھر سنبھال لیا۔ ایک دن امی کہیں گئی ہوئی تھیں۔ میں اور بھا بھی گھر پر تھے کہ دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازے پر باجی اور آپی کھڑی تھیں۔ بھابھی نے تبھی پوچھا۔ یہ کون ہیں ؟ تم ان کو اندر آنے کا کیوں نہیں کہہ رہی ہو؟ میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ بولیں۔ ہم بھی اسی گھر کی بیٹیاں ہیں، لیکن ہمارے ماں باپ عجیب ہیں کہ ہم کو پردیس بیاہ کر پھر ہماری خبر بھی نہیں لی۔ ہم نے بھابھی کو بڑی دونوں بہنوں کے بارے کچھ نہیں بتایا تھا۔ جب انہوں نے عدیلہ سے تمام ماجرا سنا تو ششدر رہ گئیں۔ تھوڑی دیر میں امی اور بھائی بھی آ گئے۔ ان کے دلوں میں دکھ اور غصہ بھر اٹھا۔ بھائی بولے۔ تم کیوں آ گئی ہو ؟ جہاں سے آئی ہو، وہیں واپس چلی جائو ، ورنہ میں تم کو دھکے دے کر نکال دوں گا۔ کچھ دیر بعد ابو بھی آگئے۔ کہا کہ تم دونوں کا اب ہم سے کچھ تعلق نہیں، تم ہمارے لئے مر چکی ہو۔ یہاں سے اسی وقت چلی جائو ، مگر وہ نہ گئیں بلکہ ابو کے قدموں میں بیٹھ کر معافیاں مانگنے اور رونے لگیں کہ ہمیں ہمارے کیے کی سزامل گئی ہے۔ ہم سے نادانی ہوئی۔ ہمیں معاف کردی۔ ہوا یہ کہ جب سیٹھ کو علم ہوا کہ اس کے بیٹوں نے ان سے چھپ کر شادیاں کی ہوئی ہیں تو اس نے بیٹوں کو لعن طعن کی اور کہا کہ میں تم کو عاق کرتا ہوں، ورنہ نکالو ان عورتوں کو ، نجانے کس خاندان سے ہیں اور کہاں سے اٹھا لائے ہو ؟ مجھ کو آگاہ کیا ہوتا تو میں لڑکیوں کے گھرانے کی چھان بین کرتا۔ میرے گھر میں ایسی راہ چلتی ہوئوں کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کو نکالو اور سیدھے گھر آکر جہاں میں نے تم لوگوں کی منگنیاں کی ہیں، وہاں عزت کے ساتھ شادیاں کرو، ورنہ تم بھی دفع ہو جائو۔ عرض سیٹھ صاحب نے لڑکوں کو مجبور کیا کہ کورٹ کے نکاح نامے دکھائو۔ کورٹ میرج انہوں نے کی ہی نہ تھی۔ اپنے طور پر بنگلے پر کسی مولوی صاحب کو لا کر نکاح پڑھا لیے تھے اور نکاح ناموں کو رجسٹر ڈ بھی نہ کیا۔ بہر حال سیٹھ نے بیٹوں سے طلاقیں لکھوائیں اور ان کو کوٹھی سے چلتا کیا تو یہ باپ کے گھر لوٹ کر آگئیں۔ اب ابو بھی نکال رہے تھے تو کہاں جاتیں۔ جب بھابھی نے یہ صورت حال دیکھی تو ابو کے قدموں میں بیٹھ گئیں۔ بولیں۔ اباجی ! جتنی بے عزتی ہو چکی کافی ہے ، اب اور نہ ہونی چاہیے۔ آپ کی لڑکیوں کو بڑی ٹھ ٹھوکر لگی ہے اور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ اب ان کو گھر سے نہ نکالیے ورنہ ان کے ساتھ کچھ اور بھی برا ہو سکتا ہے۔ بہو کے پائوں پڑنے سے ابو نے دم سادھ لیا۔ وہ بہو کی بہت قدر و عزت کرتے تھے کیونکہ نجمہ بھی ان کا بے حد احترام کرتی تھی۔ بھابھی نے بھائی کی بھی منت کی، جو کسی طرح مان کر نہ دے رہے تھے۔ امی تو ایک کونے میں دل پکڑے بیٹھی تھیں۔ ان کا رنگ زرد ہو رہا تھا، جیسے ان کو ابھی دل کا دورہ پڑنے والا ہو۔ بہرحال ہماری فرشته صفت بھابھی نے کسی طرح معاملہ سنبھال لیا اور باجی اور آپی کو گھر میں جگہ مل گئی۔

Latest Posts

Related POSTS