ہمارے ماموں پنڈی اور ہم ملتان میں رہتے تھے۔ ایک بار ضرور چھٹیوں میں ان کے گھر جانا ہوتا۔ وہ سرکاری آفیسر تھے اور گرمیوں میں ہمیں مری کی سیر کراتے تھے۔
ملتان میں پنڈی کی نسبت زیادہ گرمی پڑتی تھی۔ تب مری جانے کی چاہت میں ماموں کے یہاں جانے کی تدبیریں کرنا حق بجانب تھا۔ ممانی رشتے میں پھوپھی بھی تھیں۔ وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوتیں کہ بھائی کے بچے آئے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی ان کی طرف سے بلاوا آ جاتا کہ تم لوگ آ جائو۔ تفریح کا مزہ تو سب کے اکٹھے ہونے سے دوبالا ہوتا ہے۔ امی کہتیں۔ تم لوگ ایک ساتھ نہ جایا کرو، گھر خالی ہو جاتا ہے۔ مجھے کام کاج میں دقت ہوتی ہے۔ یوں اب ہم دونوں بہنیں باری باری ماموں کے گھر جانے لگیں۔
اب کی گرمیوں میں میری باری تھی۔ والد صاحب مصروفیت کی وجہ سے نہ جا سکے تو انہوں نے مجھے فخر بھائی کے ہمراہ بھیج دیا۔ ماموں نے انہی دنوں مکان تبدیل کیا تھا۔ گھر کشادہ اور ہوادار تھا۔ قریب ہی سرسبز پارک تھا۔ جہاں شام کو چہل قدمی میں خوب لطف آتا۔ ماموں جان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا… شمسہ اور سحر سے میری دوستی تھی جبکہ فائزہ مناہل آپی کی سہیلی تھی۔
ماموں زاد اشعر عمر میں مجھ سے پانچ برس بڑے تھے۔ ان کی دوستی فخر بھائی کے ساتھ تھی۔ ہم بہنیں ان سے فری نہ تھیں۔ بہت پاس و لحاظ تھا۔ مگر وہ شوخ مزاج اور مذاق کرنے کے عادی تھے۔
ان دنوں وہ فورتھ ایئر اور میں میٹرک میں تھی جب یہ واقعہ ہوا۔ ممانی کے پڑوس میں ایک خاتون رہتی تھیں۔ عرصہ قبل بیوہ ہوگئی تھیں۔ پڑھی لکھی تھیں۔ ایک اسپتال میں ملازمت مل گئی، تب سے ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھیں۔ صبح جاتیں، شام کو لوٹتی تھیں۔ ان کا نام زہرہ تھا۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ ان کی بیٹی اٹھارہ برس کی ہوگئی۔
آنٹی اسپتال چلی جاتیں وہ اکیلی گھر پر بور ہوتی تو چھت پر آ جاتی۔ اس کا نام فردوس تھا۔ بہت خوبصورت تھی۔ ایسی حسین صورت پہلے نہ دیکھی تھی۔ ایک روز سحر کے ساتھ چھت پر گئی، شام کا وقت تھا وہ اپنی چھت پر موجود تھی۔ میں اسے مسحور ہو کر دیکھ رہی تھی تبھی وہ مسکرا دی۔ وہ ملکوتی مسکراہٹ میں زندگی بھر نہ بھلا سکوں گی۔ میں نے سحر سے دریافت کیا تھا کہ یہ کون ہے؟ یہ میری نئی نئی ’’فرینڈ‘‘ بنی ہے۔ اس کی ماں اسپتال میں عرصے سے ملازمت کرتی ہیں۔ اور یہ تمام دن تنہا رہتی ہے۔ تبھی مجھے آواز دے کر بلا لیتی ہے۔
ہم نے کچھ دیر گفتگو کی، وہ بہت اچھی لگی۔ جی چاہا کہ اپنی بھابی بنا لوں۔ دو ہفتے ہم رہے… روز شام کو فردوس کے ساتھ چھت پر ملاقات ہوتی۔ گھر آ کر امی اور آپی کو بتایا کہ ممانی کے پڑوس میں ایک حور شمائل دوشیزہ رہتی ہے۔ آپ دیکھیں گی تو حیران رہ جائیں گی۔ والدہ نے کہا۔ دو ہفتوں بعد مناہل کے ساتھ جائوں گی دیکھ لوں گی۔
اگلے برس موسم گرما کی چھٹیوں میں مناہل کی باری تھی اور امی خاص طور پر فردوس کو دیکھنے جارہی تھیں۔ دو ہفتے پلک جھپکتے گزر گئے۔ مجھے شدت سے انتظار تھا کہ وہ فخر بھائی کے لیے اسے پسند کرتی ہیں یا نہیں۔ ماموں کے گھر سے لوٹ کر آئیں تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ فردوس کیسی لگی… انہوں نے مجھے افسردگی سے دیکھا اور چپ سادھ لی۔ میں سمجھی شاید اس کی کہیں اور منگنی ہوگئی ہے۔
دوسرے روز پھر سوال کیا تو جواب ملا۔ وہ بچاری اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ کیا کہہ رہی ہیں امی… میں نے حیرت سے پوچھا۔ ایسی نو عمر پیاری صورت، ہر دم ہنسنے مسکرانے والی وہ کیسے مر سکتی ہے۔ والدہ نے ٹھنڈی سانس لی۔ کسی دم کا بھروسہ نہیں بیٹی۔ جب سانسیں ختم ہو جائیں… جانا ہی پڑتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ غسل خانے چلی گئیں۔
ماں کے آنے کی خوشی بھی جیسے ہوا میں معلق ہوگئی ہو۔ والدہ کے لیے چائے بنا رہی تھی لیکن سر چکرا رہا تھا۔ آنکھوں کے آگے وہی حسین صورت پھرنے لگی… بعد میں بھی کئی بار جاننا چاہا کہ حور شمائل کیونکر منوں مٹی تلے جا سوئی ہے مگر والدہ نے ہر بار میرے سوال کو یوں نظر انداز کردیا جیسے ان کو کچھ خبر نہیں۔
سردیوں کی چھٹیوں میں عموماً ماموں، ممانی اور ان کے بچے چند دنوں کے لیے ہمارے پاس آ جاتے تھے اس بار جب یہ لوگ آئے تو سحر سے میں نے پہلا سوال یہی کیا کہ فردوس کا کیا قصہ ہے؟
دم لے لو۔ فریش ہوجائیں پھر بتاتی ہوں۔ اس نے کہا۔ رات کا کھانا کھا کر جب وہ سونے کے لیے میرے کمرے میں آئی تو میں نے اسے پھر اس کی سہیلی کی یاد دلائی۔ تب وہ نم دیدہ سی ہو کر بولی۔ پہلے کوئی بات نہ تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں نے اپنی سالگرہ پر اس کو مدعو کیا۔ سفید سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ فرشتوں جیسی معصوم صورت… اشعر بھائی نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ تبھی میں نے ان کی ویڈیو بنا لی۔
نہیں معلوم اس پہلی نظر میں کیا جادو تھا کہ میرا بھائی اس کے خیال میں رہنے لگا۔ مجھے وہ پہلے سے پسند تھی، امی سے کہا کہ کیوں نہ ہم اشعر بھائی کے لیے اس کا رشتہ لے لیں۔ اس لڑکی کو دیکھ کر جو بات میں نے سوچی تھی گویا وہی سحر نے بھی سوچی تھی۔
وہ ایسی ہی دل موہ لینے والی تھی۔ میں تو یہ خواب دیکھ رہی تھی، مجھے نہیں معلوم کب میرے بھائی نے اس کے ساتھ نظروں کی سازباز سے اپنا خواب تعبیر میں بدل لیا۔
ایک روز جبکہ میں دیوار کے ساتھ کیاری میں پانی دے رہی تھی، مجھے سیڑھی کے پاس اسی دیوار میں ایک سوراخ نظر آیا جو کسی سلاخ سے کیا گیا تھا۔ یہ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ایک چھوٹی چڑیا اس میں سے گزر سکتی تھی۔ سحر نے بتایا۔
جب گھر میں کوئی نہ ہوتا۔ دونوں اس سوراخ سے بات کرتے۔ کئی بار میں نے بھائی کو وہاں کھڑے دیکھا لیکن نظرانداز کر گئی۔ سحر نے تھوڑی دیر خاموشی اختیار کر لی، پھر سرد آہ بھر کر احوال بتانے لگی۔ دل سے چاہتی تھی ان کی آپس میں پسندیدگی ہو جائے۔ بھائی خود امی کو مجبور کریں فردوس کا رشتہ لینے کے لیے۔
امی یوں خاموش تھیں کہ ان کے دھیان میں امیر گھرانوں کے ایک دو بہت اچھے رشتے موجود تھے۔ ایک ہی بیٹا تھا اس کی شادی بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہتی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں میں پسندیدگی بڑھنے لگی۔ یہ اب ساری رات چھت پر باتیں کرتے۔ ابو چھوٹے چچا کے پاس سعودی عربیہ گئے ہوئے تھے۔ گھر میں امی اور ہم دونوں بہنیں تھیں۔ آپی کی عادت تھی کہ وہ دس بجے رات تک سو جاتی تھیں۔ امی بھی رات کو جلدی سو جاتیں۔ مجھ کو البتہ نیند نہ آتی۔ میٹرک کے پرچوں کی تیاری کی خاطر راتوں کو دیر تک جاگنے کی عادت ہوگئی تھی۔
ایک شب دو بجے امی کی آنکھ کھلی تو بھائی کو ان کے بستر پر موجود نہ پا کر وہ پریشان ہوگئیں۔ صحن میں دیکھا۔ سیڑھی کے پاس گئیں تو دونوں کی سرگوشیاں سن لیں۔ صبح بیٹے کو ڈانٹا اور جب آنٹی زہرا ڈیوٹی ختم کر کے گھر آئیں تو امی نے انہیں بلا کر شکایت کی کہ اپنی بیٹی کا دھیان رکھا کرو۔ آدھی رات کو چھتیں پھلانگنا درست بات نہیں۔ زہرا آنٹی بے چاری شرمندہ ہوگئیں اور انہوں نے اپنی دیوار اونچی کرا لی۔ اب ان کا ایک دوسرے کی چھت پر جانا مشکل ہوگیا تو وہ ملنے کی دیگر ترکیبیں سوچنے لگے۔
ایک روز اشعر آدھی رات کو فردوس کے گھر گیا۔ یقیناً دیوار کے سوراخ سے اس نے بتایا ہوگا کہ فلاں وقت دروازہ کھلا رکھوں گی۔
ماں سو رہی تھی۔ دونوں کئی دنوں بعد ملے تھے اور اس خوشی میں ان کو ہوش نہ رہا کہ کتنا وقت بیت گیا ہے۔ صبح کی اذان سنی، تب ہوش آیا۔ وہ جانے کو گیٹ پر پہنچا ہی تھا۔ اذان کی آواز سن کر آنٹی کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے کھڑکی سے کسی کو گیٹ سے باہر جاتے دیکھ لیا۔
ماں بچاری لرز گئی۔ باہر آئی تو بیٹی کو گیٹ بند کرتے دیکھا۔ پوچھا۔ کون آیا تھا۔ اشعر تھا اس نے کہا۔ تم کو شرم نہیں آتی آدھی رات کو کسی کو اپنے گھر بلاتی ہو۔
ماں… میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔ شادی کا وقت آئے گا شادی بھی ہو جائے گی، لیکن کسی لڑکے کو راتوں کو گھر بلانا کیا قیامت نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہوتا ماں… وہ ڈھٹائی سے بولی تو ماں اسے کوسنے دینے لگی۔ اشعر کو بھی برا بھلا کہا تھا۔ جوان بیٹی کے آگے ماں کی ایک نہ چلی اور فردوس نے بھائی سے رابطہ برقرار رکھا۔ اب وہ نیند کی گولی ماں کو رات کو سونے سے پہلے دودھ میں ملا کر دے دیتی اور وہ بچاری بے سدھ سو جاتیں۔ امی کو بھی علم ہوگیا کہ ان کا صاحب زادہ پڑوس میں رات گئے جاتا ہے، والد کو بتا دیا تاکہ کسی بری گھڑی آنے سے پہلے اس کے قدموں کو روکا جاسکے۔
والد جانتے تھے کہ جوان بیٹے کو روکنا مشکل ہوگا۔ اگر باز نہ آیا تو اپنی ہی سبکی ہوگی۔ بھائی کے سالانہ امتحان ختم ہوتے ہی انہوں نے اشعر کو چچا کے پاس سعودی عربیہ بھجوا دیا۔
چچا کی بیٹی ساحرہ بھی خوبصورت تھی۔ وہاں جا کر وہ ساحرہ میں دلچسپی لینے لگا۔ چچا چچی یہی چاہتے تھے کہ کسی صورت ان کی بیٹی کا رشتہ اشعر سے ہو جائے۔ انہوں نے دونوں کو موقع دیا۔ میرا بھائی ساحرہ کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ اسے چچا کے توسط سے اپنا مستقبل بھی تابناک لگا اور اس نے فردوس کو فراموش کردیا مگر وہ اسے نہ بھلا سکی۔ وہ بے تابی سے اشعر کا انتظار کرنے لگی، روز پوچھتی۔ سحر اشعر کب آئے گا اور میں تسلی دیتی جلد آ جائے گا۔ بس دو چار دنوں میں آنے والا ہی ہے۔
یہ جھوٹی تسلی اس وجہ سے دیتی تھی کہ اس کی بے قراری کم ہو، مجھے کیا پتا تھا کہ بے قراری بلاوجہ نہیں۔ دال میں کچھ کالا ہے۔ ادھر چچا نے بھائی کی ملازمت کی کوشش کی اور سوئے اتفاق وہاں ایک بڑی کمپنی میں بھائی کو اچھی نوکری مل گئی۔
بھائی ادھر ہی ٹک گئے۔ ادھر فردوس کی جان پر بنی تھی لیکن کسی کو اس نے اپنی پریشانی کے بارے میں نہ بتایا۔ وہ اندر ہی اندر سلگتی رہی۔ اب اس کو احساس ہوا کہ ماں ناحق پریشان نہ تھی اور وہ سچ کہتی تھی کہ اس آگ کے کھیل سے دور رہو۔
چھٹی کا دن تھا۔ آنٹی گھر پر تھیں۔ شام کے وقت وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھیں کہ فردوس نے ماں کو آواز دی۔ ماں جلدی سے کھڑکیاں اور دروازے کھول دو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ وہ کمرے میں آئیں اور کہا۔ بیٹی کیا کہہ رہی ہو۔ کھڑکیاں دروازے تو کھلے ہوئے ہیں۔
ماں مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔ ماں اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ اس کو پتا چل گیا کہ اس کی بیٹی یہ دنیا چھوڑ کر جا رہی ہے۔ وہ اس کو جھنجھوڑنے اور پکارنے لگی۔ فردوس بیٹی۔ آنکھیں کھولو۔ بتائو تو سہی تمہیں کیا ہوا ہے۔ تبھی اسے یاد آیا کہ کل فردوس اس کی ایک سہیلی کے گھر جانے کا کہہ رہی تھی جس کا نام پروین تھا اور وہ اس کے ساتھ اسپتال میں ملازمت کرتی تھی، لیکن اب پروین کے گھر جانے کا وقت نہ تھا۔ گھبرا کر زہرا آنٹی نے اپنی ایک با اعتماد واقف لیڈی ڈاکٹر کو فون کیا اور جلد گھر آ جانے کی سماجت کی۔ ڈاکٹر روبینہ نے اسی وقت گاڑی نکالی اور طبی امداد کا سامان لے کر بیس منٹ میں پہنچ گئی، اس وقت فردوس آخری سانسیں لے رہی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور آنٹی سے کہا تمہاری لڑکی نے کوئی غلط دوا کھالی ہے یا انجکشن لگوایا ہے۔ تم ذرا کمرے کی تلاشی لو۔ ڈاکٹر نے اندازہ کر لیا تھا کہ کونسی دوا لی ہوگی۔ وہ تجربہ کار اور قابل لیڈی ڈاکٹر تھی۔
زہرا آنٹی نے بیٹی کے بستر کو ٹٹولا اور پھر تکیے کے نیچے ایک پڑیا مل گئی جس میں ایک گولی تھی۔ روبینہ ڈاکٹر نے گولی دیکھتے ہی کہا کہ اس نے یہ دوا کیوں لی ہے؟ وہ کف افسوس ملنے لگی کہ اگر ایسی بات تھی تو مجھے آگاہ کیا ہوتا۔
اگر مجھے علم ہوتا تو میں آپ سے ذکر کرتی۔ مجھے بتایا ہی نہیں خود اپنا علاج کرنے کی کوشش کی۔ مجھے ابھی ابھی علم ہوا تو یہ موت کے منہ میں جا رہی ہے۔
جب انسان کی زندگی ختم ہو جائے تو کوئی ڈاکٹر کچھ نہیں کرسکتا۔ فردوس بھی خاموشی سے بدنامی کے خوف کو گلے لگائے موت کی وادی میں اتر گئی۔ اس نے کسی کو سرگوشی میں بھی اپنی مصیبت بیان نہ کی حتیٰ کہ اپنی سگی ماں کو بھی نہیں۔
جب آنٹی کے رونے کی آواز سنی تو امی وہاں گئیں۔ فردوس ابدی نیند سو چکی تھی اور اس کی ماں صدمے سے نیم جاں تھی۔ اس نے امی کو بتایا کہ مرنے سے تھوڑی دیر قبل جب وہ کھڑکیاں اور دروازے کھولنے کی التجا کر رہی تھی۔ اس نے کہا تھا۔ ماں… مجھے معاف کردینا۔ ماں بولی۔ بیٹی میرا کیا قصور ہے جو یوں تم مجھے تنہا کر کے جا رہی ہو۔
ماں قصور میرا ہے جو میں نے اشعر پر اعتبار کیا اور آپ کی عزت کا پاس نہ رکھ سکی۔ بس پھر وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔
کس کی خاطر؟ وہ جو دوسرے ملک جا کر کسی اور کی زلف کا اسیر ہوچکا تھا۔
یہ خبر جب ہمیں ملی، ہم سب غمگین اور دکھی ہوگئے۔ اشعر کو کسی نے نہ بتایا۔ شکر ہے کہ اللہ نے سب کا پردہ رکھ لیا ورنہ جو بھی قصور وار تھا نام ہمارا ہی لیا جاتا۔ ابو کے یہ الفاظ سن کر مجھے اپنے بھائی سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔
دو دن بعد وہ گھر آیا اور جب اس کو پتا چلا تو بہت رویا کہ کاش میں کل آ جاتا اور اس کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالتا۔ اس کی قبر پر پھول بھی ڈالتا۔
میں سوچتی ہوں کیا اشعر بھائی نے محض اس کی قبر پر مٹی اور پھول ڈالنے کے لیے آنا تھا۔ کیا اس کو فردوس سے محبت نہیں تھی۔ اگر محبت ہوتی تو وہاں کیوں رہ جاتا۔ وقت سے اس کو دلہن بنا کر گھر لے آتا۔ وہ جیسا لا اُبالی اور لاپروا تھا۔ اے کاش اس کے مزاج کو فردوس سمجھ جاتی۔ وہ ایک کھلنڈرے سے لڑکے جیسا تھا۔ ایسے انسان پر بھروسہ کرنا… اس کی کتنی بڑی بھول تھی کہ زندگی ہی ہارنی پڑ گئی۔ سحر افسردہ لہجے میں لب کشا تھی۔
بے شک محبت ایک پاک جذبہ ہے۔ محبت اگر ہو جائے تو بھی اس کا تقدس لازمی ہے۔ جو اس جذبے کا احترام نہ کرسکیں، محبت کو نباہ نہ سکیں، ان کو محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
کسی لڑکی کو محبت کی سرشاری میں محبوب کے اتنے قریب نہ جانا چاہیے کہ بعد میں کوئی سنگین مصیبت پلّو سے بندھ جائے کہ محبت کی ٹھنڈک آگ کا دریا بن جائے۔ اشعر کا کیا گیا، چند دن اداس رہا اور پھر زندگی کی خوشیوں میں مگن ہوگیا مگر بچاری آنٹی زہرا تو جیتے جی مر گئیں۔ (ر… ملتان)