ماں بہت حسین تھی ، سنا ہے کہ جب گاؤں میں بیاہ کر آئی تو محلے کی عورتیں اس حسین دلہن کو دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑی تھیں۔ ابا بھی خوش شکل تھے۔ مگر اپنی دلہن سے عمر میں بیس برس بڑے تھے، قد کاٹھ اونچا لحیم شحیم تبھی پولیس کے محکمے میں ملازمت مل گئی تھی۔
اماں دبلی پتلی کامنی ، چھوئی موئی سی مگر دل گردے کی عورت نکلی۔ دیکھنے کو نرم و نازک مگر اندر سے فولاد تھی۔ شادی کے بعد ابا کے من کو بھائی تو میاں بیوی کی حسن سلوک سے گزر بسر ہونے لگی۔ ایک سال بعد جبکہ میں پیدا ہو چکی تھی ابا، والدہ کے میکے انہیں لینے آئے ۔ تب پہلی بار اماں کی ایک سوتیلی خالہ نے ان کے کان میں زہریالا جملہ پھونک دیا کہ تمہاری بیوی کی شادی سے پہلے اس کے چچازاد اکرم سے خوب بنتی تھی۔ بڑوں نے ان کا رشتہ بھی طے کر دیا تھا مگر زمین کے تنازعے کی وجہ سے بھائیوں میں دشمنی پڑ گئی رشتہ ختم ہو گیا۔ اب ذرا اس کا دھیان رکھنا کیونکہ اکرم تو اس کی جدائی میں ایسا نڈھال ہوا کہ گھر بار چھوڑ کر مزاروں پر پڑا رہتا ہے۔ خالہ نے جلتی پر تیل ڈالنے کو یہ بھی کہہ دیا۔ سوتیلی خالہ نے یقینا یہ بات کسی بہی خواہ کے طور پر ابا کے کان میں نہ ڈالی تھی۔ وہ ماں سے کسی بات کا بدلہ لینا چاہتی تھی یا پھر ہمارے نانا سے بغض نکالا تھا کیونکہ انہوں نے اماں کا رشتہ ان کے بیٹے کو نہ دیا تھا۔ معاملہ جو بھی تھا ابا کے دماغ میں شک کا الاؤ دہکانے کو یہ اطلاع کافی تھی۔ سنا ہے کہ تفتیشی ذہن ہونے کے سبب پولیس والے اکثر شکی ہو جاتے ہیں۔ ان کا واسطہ مجرموں سے پڑتا ہے اور ان کی زبان سے جرم کو اگلوانا بھی ہوتا ہے۔ والد صاحب بھی اسی ماحول سے وابستہ تھے لہذا وہ میری ماں پر شک کرنے لگے۔ ابا کا رویہ اماں سے سخت اور کھردرا ہو گیا۔ گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔ خوامخواہ کے شک و شبہ میں گرفتار ہو گئے ۔ ان دنوں امی میرے بھائی کو جنم دینے والی تھیں۔ نانا اور ماموں دوبار ان کو لینے آئے، ابا نے جانے نہ دیا۔ اس کے بعد وہ کبھی بھی میکے نہ جاسکیں۔ اماں ہر ستم سہتی رہیں کہ میکہ ماں سے ہوتا ہے اور ان کی ماں سوتیلی تھی۔ ادھر دو بچے ان کے پیروں کی زنجیر بن چکے تھے۔ وہ ہر قیمت پر اپنا گھر بسائے رکھنا چاہتی تھیں۔ ابا کی زیادتی برداشت کر کے بھی چپ رہتیں۔ محلے میں کسی نے کوئی ایسی بات نہ سنی جس سے پتہ چلتا کہ میاں بیوی میں کوئی اندرونی چپقلش ہے۔ ان دنوں ہم پانچ بہن بھائی تھے جب ایک روز یہ واقعہ ہوا صبح اٹھے تو گھر میں شور بر پا تھا ، ماں چیخ رہی تھیں اور والد ان پر تشدد کر رہے تھے۔ انہوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر انہیں جلانے کی کوشش کی تو وہ خوف سے بھاگ کر پڑوس میں چلی گئیں ، ان کی حالت بہت خراب تھی، ابا نے انہیں بہت زدو کوب کیا تھا۔ زخمی حالت میں پڑوسی ان کو اسپتال لے گئے ۔ انہیں اماں سے ہمدردی تھی کیونکہ شادی کے بارہ برس تک انہوں نے ہر حال میں نباہ کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک شریف اور سگھڑ عورت ہے۔ کوئی بھی ان کے بارے میں کسی قسم کی غلط بات سننا نہ چاہتا تھا۔ گاؤں کے ہیلتھ سینٹر میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جو شہر سے آتی تھی۔ اس نے ابتدائی طبی امداد دی اور محلے والوں نے والد کو سمجھایا کہ تم نے یہ کیا ظلم اپنی بیوی پر ڈھایا ہے جو تمہارے پانچ بچوں کی ماں ہے۔ آخر اس کو کیوں اس قدر پیٹا ہے، اس کا قصور تو بتا دو۔ ابا کیا قصور بتاتے قصور تو کچھ تھا بھی نہیں ۔ بہر حال آپس کا معاملہ کہ کر اس بات کو رفع دفع کر دیا گیا۔ پولیس تھانے تک بات نہ پہنچی۔ کیسے پہنچتی ابا تو خود پولیس میں تھے۔ اماں کی بس ایک ہی غمگسار تھی یا سہیلی کہہ لیں وہ تھی خالہ نسیم جو پڑوس میں رہتی تھی ۔ جب ماں ٹھیک ہوگئی تو ایک روز خالہ نسیم آئی۔ اس نے قسم دے کر سوال کیا۔ رحمت، سچ بتاؤ کہ اس روز کس بات پر جھگڑا ہوا تھا جو تمہارے شوہر نے اس قدر تم کو مارا ۔ جیسے جان لینے کے در پہ ہو جبکہ اتنا تو کوئی شوہر اپنی بد چلن بیوی کو بھی نہ مارتا ہوگا۔
وہ مجھے بد چلن ہی گردانتا ہے جبکہ میں ایسی نہیں ہوں۔ میں سچی عورت ہوں اور یہ سچ بولنے کی ہی سزا ہے۔ مجھے کھل کر بتاؤ رحمت میں سمجھی نہیں۔ کیا کھل کر بتاؤں ۔ میری شادی کے دوسرے سال سوتیلی خالہ نے سراج کو بتایا تھا کہ رحمت کو اس کے بچپن میں دادی، چچا کے بیٹے اکرم کے نام کر گئی تھی۔ کیا جانے منگنی کی رسم بھی ہوئی ہو، بہر حال اس بات پر سراج کے دل میں غلط فہمی تھی کہ میں جس لڑکے سے منسوب تھی وہ اور میں جوانی تک ایک گھر میں پلے بڑھے تھے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ رحمت بچپن سے اکرم کو چاہتی ہو۔ ان کے دل میں یہی خلش رات دن کچوکے لگاتی تھی اور شب و روز بہانے بہانے سے طعنے دیتے اور میرا ماضی کریدنا چاہتے تھے۔ آخر کار، اس رات انہوں نے مجھ سے قسم دے کر پوچھا کہ سچ بتاؤ کیا تم او را کرم ایک دوسرے کو چاہتے تھے؟ انہوں نے مجھے بچوں کی قسم دے کر پوچھا تھا اور وعدہ کیا تھا اگر دل کی بات سچ سچ بتا دو گی تو کچھ نہ کہوں گا۔ میں نے قسم پر یقین کیا بچوں کی جھوٹی قسم کھا کر اللہ کو ناراض نہ کرنا چاہتی تھی۔ تبھی سچ سچ بتا دیا کہ ہاں ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے کیونکہ بڑے کہتے تھے کہ رحمت کا بیاہ اکرم سے کریں گے لیکن پھر جھگڑے کی وجہ سے نہ ہوا۔ آپ سے شادی قسمت میں لکھی تھی، سو ہو گئی۔ مگر قسم کھاتی ہوں ہمارا صرف سوچ تک پسند کا رشتہ تھا۔ کوئی جسمانی تعلق نہ تھا۔ اماں نے خالہ نسیم کو مزید بتایا ۔ بس بہن اتنا سننا تھا کہ قسم وسم سب بھول کر میاں جی مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ اس قدر مارا کہ میری ہڈی پسلی ایک کر ڈالی۔ میں نے دوپٹہ منہ میں ٹھونس لیا کہ شور سے بچے نہ جاگ پڑیں پھر باورچی خانے سے مٹی کے تیل کی بوتل اور ماچس لے آئے اور مجھے صحن میں گھسیٹ کر مٹی کا تیل چھڑکنے لگے کہ ابھی جلا دیتا ہوں تجھے لگتا تھا ان پر جنون سوار ہے۔ تبھی میں دوڑ کر پڑوس میں چلی گئی اور جان بچائی۔ خالہ نسیم دم بخود اماں کی بات سن رہی تھیں۔ یہ دونوں برآمدے میں بیٹھی تھیں جبکہ میں باورچی خانے میں آٹا گوندھ رہی تھی۔ میں نے ساری بات سنی یوں مجھے پتا چل گیا کہ کیا معالمہ ہوا تھا۔ جس دن سوتیلی خالہ نے ابا کو یہ بات بتائی تھی اس دن کے بعد سے بارہ سال تک ماں دوبارہ میکے نہ گئی تھی۔ کبھی گھر سے قدم نہ نکالا ، اس پر بھی طعنے ، تشنے اور شوہر کی نظرت اماں کا مقدر بن گئی۔ حالانکہ میری ماں نے گھر بار اور اپنے بچوں سے ٹوٹ کر محبت کی تھی۔ شوہر کی وفادار خدمت گزار رہی، اطاعت میں کبھی کمی نہ لائی تھیں۔ لگتا تھا کہ ابا کا دل پتھر کا تھا من کے آئینے میں بال آگیا تو نہ مٹ سکا۔ اماں نے بارہ برس گھر کی چار دیواری میں ایک قیدی کی مانند گزار دیئے، کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائیں۔ میکے والوں میں صرف نانا ہی کبھی کبھار ملنے آتے تھے جب تک وہ زندہ رہے۔ انہوں نے اپنے بابل سے بھی شکوہ نہ کیا۔ مجھے تو لگتا تھا میری ماں اپنے چچازاد کو بھول بھال گئی تھی لیکن یہ ابا کے ذہن کی خرابی تھی کہ وہ ہر لمحہ ان کو ان کا بھولا ہوا ماضی یاد کراتے رہتے تھے جبکہ ماں کی کمزوری ان کے بچے تھے۔ ہم سے اماں والہانہ پیار کرتی تھیں اور ایک لمحے کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں ۔ ہماری خاطر ہماری پیاری ماں نے ہر ظلم برداشت کیا تھا۔
ابا عجب سوچ کے آدمی تھے۔ یوں تو نارمل انسان لگتے تھے۔ خوب جانتے تھے ان کی بیوی ایک شریف عورت ہے اور کسی سے اس عورت کا بھی نامہ تعلق نہیں رہا ہے۔ وہ کبھی گھر سے باہر جاتی ہی نہ تھیں ، اڑوس پڑوس سے کوئی عورت خود گھر کے اندر آ کر مل جاتی تو اخلاق سے پیش آتی تھیں مگر ابا شکی آدمی تھے شاید ان کے ذہن سے یہ بات چپک کر رہ گئی تھی کہ ان کی بیوی کے عشق میں اکرم دیوانہ تھا تو ضرور رحمت بھی اس کو اتنا ہی چاہتی ہوگی۔ یہ کوئی ایسی قابل تعزیر بات تو نہ تھی کہ اکرم سے بزرگوں نے شادی طے کر رکھی تھی۔ شادی سے قبل منسوب ہو جانے پر لڑ کے یا لڑکی کے دل میں پسندیدگی کے جذبات جنم لے لیتے ہیں مگر یہ کوئی ایسا جرم تو نہیں کہ جس کی سزا کسی کو عمر بھر ملتی رہے۔ ماں کو مگر اس بات کی سزا عمر بھر ملتی رہی۔ ان کو ابا نے ساری زندگی سولی پر لٹکائے رکھا۔ ہر بات پر، ہر روز ، ہر گھڑی یہی طعنہ کہ تم تو شادی سے پہلے کسی کو چاہتی تھیں، تم میری کب ہو، یہ تو بچوں کی وجہ سے تم نے مجھے برداشت کیا ہوا ہے۔ یہ حقیقت تھی ہماری محبت بھی ماں کے پیروں کی زنجیر بنی ہوئی تھی ، کیونکہ ہمارے بغیر ایک منٹ نہ رہ سکتی تھیں۔ جب تک ہم چھوٹے تھے ماں اور باپ کے درمیان اس جھگڑے کو نہ سمجھ سکے، جب ذرا سمجھ آئی اس معاملے کو سمجھنے لگے۔ بچپن میں تو ایک نامعلوم وجہ کے باعث ہر وقت کی کشیدگی اور جھگڑا دیکھا تھا تبھی سخت کوفت اور الجھن ہوتی۔ ماں اور باپ کے درمیان تناؤ سے بچوں کو کتنی چینی اذیت ہوتی ہے یہ کوئی کیا جانے۔ میرے دوسرے بہن بھائی اب اتنے باشعور ہو گئے تھے کہ اس جھگڑے کا سب جاننے کی سعی کرتے۔
ایک روز ماں نے تنگ آکر کہہ دیا کہ مجھ سے مت پوچھا کرو اپنے باپ سے پوچھو کیوں اس نے گھر کو جہنم بنا رکھا ہے، کیوں مجھ سے جھگڑا کرتا رہتا ہے تبھی ابو نے ہم بچوں کو ایک نہایت بھیانک قسم کی کہانی سنائی کہ شادی سے قبل تمہاری ماں کا کردار ٹھیک نہ تھا۔ یہ اچھی عورت نہیں ہے۔ اس کو اپنے منگیتر اکرم سے پیار تھا جو اس کے عشق میں فقیر بن گیا ہے اور مزار پر پڑا رہتا ہے۔ گاؤں میں آج بھی وہ رحمت کے عشق کا زندہ اشتہار ہے۔ اس کے بعد ابا کا حجاب جاتا رہا وہ نہایت بے ہودہ اور لچر قسم کے الزامات ہم بچوں کے سامنے ہماری ماں پر لگاتے ۔ ہمارے رو برو سابقہ منگیتر کے طعنے دے کر اپنی بیوی کو شرمندہ کرتے ۔ ان دنوں ہماری کچی عمریں تھیں اور لڑکپن کا دور تھا۔ اس لئے اچھے برے کی تمیز بھی نہیں آئی تھی۔ ہم بات کا ویسا ہی اثر قبول کر لیتے تھے جیسی بات ہم سے کہی جاتی تھی۔ پس میرے چاروں بہن بھائیوں نے باپ کی باتوں کا گہرا اثر لیا۔ خاص طور پر میرے بعد والے بھائی بہرام نے۔ رفتہ رفتہ میرے بھائی کے شعور میں وہ زہر سرایت کر گیا جو والد نے اس کے کچے ذہن میں گھول دیا تھا۔ تمہاری ماں اچھی عورت نہیں ہے۔ تمہاری ماں کا کوئی یار بھی ہے جو اس کے عشق میں پاگل پھرتا ہے۔ اپنی ماں کیلئے ایسی باتیں سننا اور برداشت کرنا کسی بھی نوجوان کیلئے آسان نہیں۔ لہذا اس کے دل میں اندر ہی اندر ایک لاوا پکنے لگا۔ ماں بیچاری جیتی تھی نہ مرتی تھی۔ اولاد اب جوان ہو رہی تھی، وہ اولاد کے سامنے اپنی صفائی بھی پیش نہ کر سکتی تھی اور کسی بات کی صفائی پیش کرتی ؟ جس نے کوئی قصور ہی نہ کیا ہو وہ کیا اپنی صفائی پیش کرے۔ میں البتہ سمجتھی تھی کہ میری ماں بے قصور ہے۔ ابا کی تو عادت تھی ہر وقت کسی کو مجرم ٹھہرانے کی۔ مگر وہ اس بات کا احساس نہ کر سکے کہ باپ کا ماں کے خلاف غلط اور زہریلا قسم کا پرو پیگنڈا ان کے بچوں پر کیسے منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ہم سارے ہمیشہ کے لئے اپنے والدین سے منتظر ہو رہے تھے۔ یہی نہیں ، گھر میں ایک پیارو محبت اور اعتماد کی جو فضا ہوتی ہے وہ ہلاکت میں پڑ چکی تھی۔ افسوس پھر ہم بچے پیار بھرے رشتوں کے اعتماد سے عاری رہ گئے جو ایک پر سکون گھر میں پرورش پانے والے بچوں کے مابین قائم ہوتا ہے۔ ہم ماں باپ سے ہی نہیں آپس میں بھی ایک دوسرے سے متنفر ہوتے گئے۔ کسی رشتے پر اعتماد نہ رہا کسی سے پیار نہ رہا۔ دراصل ہم سخت ذہنی کرب، کشمکش اور انتشار کے کانٹوں میں پھنس کر بڑے ہوئے تھے۔ ابا کو تو بالکل بھی اس بات کی سمجھ نہ تھی کہ ان کے اس غلط قسم کے رویے سے ان کی اپنی اولاد کا کس قدر نقصان ہو جائے گا۔ ہم تو ذہنی اور روحانی طور پر کھوکھلے اور کنگال ہو گئے۔ میرے دوسرے بہن بھائی، ماں اور باپ دونوں کے نہ رہے جبکہ میں ماں سے کچھ ہمدردی دل میں رکھتی تھی۔ ان دنوں میرے بھائی بہرام کی عمر سولہ سترہ برس تھی جب یہ حادثہ ہوا۔ ایک روز والد ڈیوٹی سے گھر آئے تو اماں سے مخاطب ہوئے کہ آج اس منحوس اکرم کا دیدار ہو گیا ہے جو تمہارے عشق میں پاگل ہو کر ملنگ بن گیا۔ تمہارے میکے کے گاؤں جانا ہوا تھا، وہاں کوئی قتل ہو گیا تھا، اس سلسلے میں گیا تھا۔ تھانے میں کچھ نشئی بھی لائے گئے ان میں اکرم بھی تھا جس کو نشہ کرنے کی وجہ سے جھگڑنے پر پولیس پکڑ لائی تھی۔ میں نے تو چھتر لگوا کر اس کا کام ہی تمام کرا دیا۔ مگر میرے دل میں جو آگ بھڑکتی ہے وہ پھر بھی ٹھنڈی نہیں ہوتی ہے۔
اماں تو سدا کی بے زبان تھیں، ہر بات کا جواب خاموشی میں دیا کرتی تھیں۔ آج بھی کچھ نہ بولیں۔ جیسے ان کو اس بات سے کوئی تعلق نہ ہو۔ والد کو ان کی خاموشی کھل گئی اور زیادہ طیش دلانے کو اول فول بکنے لگے کہ یار سے اتنی بھی ہمدردی نہیں جو اس کی موت پر ایک آنسو ہی گرا دو، یہ کیسی محبت ہے تمہاری ۔ تیرا یار تو ملنگ بنا پھرتا تھا اور یہ کسی محبّت ہے تمہاری- اس پر اماں سک سک کر رونے لگیں ظاہر ہے جوان اولاد کے سامنے اتنی اہانت کون عورت سہہ سکتی ہے۔ وہ تو اپنی بدنصیبی پر روئیں۔ اہا نے بہرام کو پکارا۔ دیکھا بیٹا کیسے تیری ماں اپنے یار کے مرنے کا سن کر بین کرنے کو ہے، پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہے۔ بھائی پاس ہی بیٹا اپنا جوتا پالش کر رہا تھا۔ اس کی عمر ایسی تھی کہ جس میں ہوش کے بجائے جوش کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔ سو وہ ابا کی باتوں پر یک دم سخت طیش میں آگیا۔ میکانکی انداز میں اُٹھا اور منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر ابا کا پستول نکال کر لے آیا اور اندھا دھند فائر کھول دیا۔ ماں کی کھوپڑی کے ٹکڑے اڑ کر دور جا پڑے۔ جب وہ خون میں لت پت گر گئیں تو اس نے اپنا رخ ابا کی طرف کر لیا اور ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ ہم نے جو یہ منظر دیکھا تو خوف سے کمرے میں گھس کر چاروں نے اندر سے کنڈی لگائی۔ اس قدر خوفناک منظر تھا کہ میری چھوٹی بہن بے ہوش ہوگئی اور چھوٹے بھائی کی بھی گھگھی بندھ گئی۔ فائر کی آواز پر پڑوسی آگئے اور صحن میں جھانکا۔ ایسا منظر خدا کسی کو نہ دکھائے۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع کی۔ بھائی نے رضاکارانہ طور پر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ میرا کمسن بھائی جس کے ذہن میں بچپن سے ابا کی نادانی نے زہر بھرا تھا جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔
کئی دنوں تک ہم ڈرے سہمے رہے پھر ہم کو چچا اپنے گھر لے آئے ۔ میری شادی اپنے بیٹے سے کر دی۔ میری عمر اٹھارہ کے لگ بھگ تھی اور خاصی سمجھدار تھی۔ بھائی تو جیل جا چکا تھا باقی دو بہنیں اور ایک بھائی چھوٹے چچا کے گھر میں رہنے لگے۔ ماں کی وفات کا غم تھا، ابا کا بھی دکھ تھا۔ ماں تو ایسے شکنجے سے نجات پا چکی تھی ، جو ، ان کو ہمہ وقت جان کنی کے عذاب میں مبتلا رکھتا تھا۔ زیادہ غم تو مجھے اپنے بھائی بہرام کا تھا جس کے ہاتھوں ناحق اماں اور ابا کا قتل ہو گیا تھا۔ ماں باپ کے ساتھ زندگی پریشان کن تھی تو ان کے بعد بھی عذاب تھی۔ میں تو پھر اپنے گھر میں سکھی تھی۔ چچی کے ہاتھوں میرے بھائی بہن خوار ہو گئے ۔ ان کو خوش کرنے کی خاطر دونوں چھوٹی بہنوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے۔ وہ آپس میں بھی جھگڑتیں اور ایک دوسرے کی عزت نہ کرتیں ، جس پر چچا ان کی پٹائی کر دیتے۔ چھوٹا بھائی، چچا کے بچوں سے الجھتا، وہ گستاخ اور بدتمیز کہلاتا ۔ ذرا بڑا ہوا تو غلط راہ پر چل نکلا۔ مجھے اس سے امیدیں تھیں مگر وہ گھر سے غائب رہنے لگا۔ چچاؤں نے کافی سمجھایا سختی کی تو گھر سے بھاگ گیا۔ بعد میں ایک بہن کو میں نے دیورانی بنا لیا اور وہ میرے پاس آ گئی، چھوٹی کو چچا نے دوسرے گاؤں بیاہ دیا۔ مگر وہ شادی کے تین سال بعد طلاق لے کر لوٹ آئی۔ اس کی دونوں بچیوں کو سرال والوں نے رکھ لیا۔ جس پر وہ ہر وقت رویا کرتی تھی۔
ایسے ماں باپ کے بعد اولاد کا حشر برا ہوتا ہے جن کے گھر لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔ عورت جتنی کوشش کرے، اولاد کی خاطر قربانیاں دے یا اس کی اچھی پرورش کرنے کی سعی کرے، جب تک باپ ساتھ نہ دے، اکیلی ماں اولاد کی زندگی نہیں سدھار سکتی ۔ ہماری ماں تو بیچاری شوہر کے شک و شبہ کی نذر ہوگئی۔ ہماری بد قسمتی نے ان تمام مصائب کے بعد بھی ہمارا پیچھانہ چھوڑا اور ستم در ستم یہ ہوا کہ میرا دیور جس کی شادی میری بہن کے ساتھ ہوئی تھی، وہ بھی شادی کے چند سال بعد میری بہن پر شک کرنے لگا اور اسی روش پر چل پڑا جس پر میرے والد تمام عمر چلتے رہے اور میری والدہ کو اپنے ستم کا نشانہ بناتے رہے۔ یہ خون کا اثر تھا یا کچھ اور . کیونکہ تھا تو میرے والد کا بھتیجا۔ اس نے بھی میری بہن کی زندگی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ اسے ہر وقت یہی طعنے دیتا کہ تو بد چلن ماں کی بیٹی ہے اور خود بھی بدکردار ہے۔ میری بہن بے قصور تھی اور حساس بھی زیادہ دیر یہ ستم نہ رہ سکی اور اس نے کیڑے مار دوائی کھا کر خودکشی کرلی۔ والدین کے بعد تمام بہن بھائیوں کا دُکھ دل میں لیے جی رہی ہوں اور اپنے گھر میں خوش ہونے کے باوجود اُداسی کے حصار میں گھری رہتی ہوں۔