امداد وسایا… راجا کو لے کر ولی خان کے پاس پہنچا۔ وہ ایک قریبی گوٹھ شاہ وستڑو میں رہتا تھا۔ ولی خان ملھ ایسوسی ایشن کا صدر اور اپنے دور کا نامی گرامی پہلوان بھی رہ چکا تھا۔ وہ بوڑھا ہوچکا تھا اور اپنے گوٹھ کے ملھ پہلوانوں کو کشتی سکھایا کرتا تھا۔ امداد وسایا نے اپنے پوتے راجا کو اس کے سامنے کھڑا کرکے ساری رُوداد سنا ڈالی اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ وہ اس کی مدد کرے۔
ولی خان بارہ سالہ راجا کو بغور دیکھتا رہا۔ اس وقت وہاں اس کے تین چار نوعمر ’’پٹھے‘‘ موجود تھے۔ راجا کو دیکھ کر ان چاروں کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ ولی خان نے انہیں بری طرح جھڑک کر وہاں سے بھگا دیا۔
’’اس کا باپ اس معصوم کو دیکھتے ہی غصے سے پاگل ہوجاتا ہے۔ ولی سائیں۔‘‘ امداد نے دکھی دل سے بتایا۔
’’ہاں، ایک پہلوان کے گھر اُلٹی گنگا جو بہنے لگی ہے۔ بہت کم پہلوان ہوتے ہیں جو ایسی نازک صورت حال سے سمجھوتا کرلیتے ہیں یا پھر منہ چھپائے پھرتے ہیں۔‘‘ ولی خان نے کہا۔
’’سائیں! اب تو ہی کچھ کر کہ ہمارا بیڑا پار ہو تو بھی نامیار (نامور) ملاکھڑا پہلوان رہ چکا ہے۔ تو نے بھی بہت بڑے بڑے نامیارے (نامور) پہلوان تیار کئے ہیں۔ ایک ذرا میرے پوتے پر بھی نظر کرم ڈال دے۔‘‘ امداد وسایا نے بڑے دکھ آمیز اور ملتجی لہجے میں ولی خان سے کہا۔
’’پٹھے کو لنگوٹ کسوا کر لایا ہے بابا؟‘‘ ولی خان نے گھاگ لہجے میں امداد وسایا سے پوچھا۔
’’ہائو سائیں! نیچے لنگوٹ ہے۔ راجا کو کسی پنساری کی دکان پر تھوڑا ہی لے جارہا تھا جو ایسے ہی لے آتا۔‘‘ امداد نے جھٹ سے جواب دیا۔
’’چل او چھوکرے۔ اُتار اپنے کپڑے۔‘‘ ولی خان نے گمبھیر لہجے میں حیران پریشان کھڑے راجا سے کہا۔
امداد وسایا نے اس کی قمیض پر ہاتھ ڈالا تو ولی خان نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ ’’تو نے سنا نہیں چھوکرا… کیا کہا ہے میں نے؟‘‘ راجا کو ملھ سیکھنے کا شوق ہی نہیں جنون تھا۔ اس نے بلاجھجک اپنے کپڑے اتار دیئے۔ اب وہ صرف لنگوٹ میں کھڑا تھا۔
دادا امداد وسایا اپنے پوتے کے ہڈیوں کے پنجرکو دیکھ کر ایک گہری سانس بھر کے رہ گیا۔ ’’ایک بوٹی تک نہیں ہے۔‘‘ اس نے آزردگی سے کہا۔
’’بوٹی چڑھنا کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے وسایا۔‘‘ ولی خان نے کہا۔ اس کی نظریں راجا کے بازوئوں، کہنیوں، ٹانگوں اور ہڈیوں کا ’’ایکسرے‘‘ کررہی تھیں۔ پھر وہ آگے بڑھا۔ اب وہ اس کے جسم کو ٹھونک بجا کر دیکھنے لگا۔ امداد وسایا کی امید بھری نظریں ولی خان کے چہرے کے تاثرات پر مرکوز تھیں۔
’’کپڑے پہن لے چھوکرے۔‘‘ ولی خان نے کہا اور راجا نے فوراً کپڑے پہن لئے۔
’’ہڈیاں اور جوڑ بالکل صحیح ہیں۔ آنکھوں میں کشتی سیکھنے کا شوق ہے مگر…‘‘ ولی خان کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
امداد وسایا بڑی بے چینی اور امید بھرے انداز میں ایک دم بولا۔ ’’مگر کیا؟‘‘
’’تو بتا رہا تھا کہ اس کا معدہ ٹھیک نہیں رہتا؟‘‘
’’ہاں! ساری مصیبت یہی ہے۔‘‘ امداد نے کہا۔ ’’ڈاگدروں (ڈاکٹروں) کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس کا معدہ کمزور ہے، اس لئے جگر پر اس کا اثر ہے، خون نہیں بنتا۔‘‘
’’ہوں!‘‘ بوڑھے شیر کی مثل پہلوان ولی خان نے ایک گہری سانس بھری۔ ’’اگر تو اس کا ایک دن کا پانچ سو روپے خرچہ اٹھائے تو اسے میرے پاس چھوڑ جا۔‘‘ بالآخر ولی خان نے بات ختم کی۔
’’اڑے بابا۔ میں ہزار دوں گا، پَر تو اسے وہ بنا دے جو ہمارے باپ دادا تھے۔ اس کے باپ کا تو غم سے برا حال ہے، وہ تو گریب راجا کے غم میں نشئی ہوگیا ہے۔‘‘ امداد وسایا نے روہانسے لہجے میں کہا۔
ولی خان پہلوان کی تسلی تشفی کے بعد امداد وسایا، راجا کو اس کے پاس چھوڑ کر خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔
٭…٭…٭
’’واہ ڑے میرے شیر… لگا انگڑی… لگا اندریں… پٹخ دے گوہر کو…‘‘ پچپن سالہ خدا بخش اپنے تیرہ سالہ بیٹے ارباب خان عرف بابن کی حوصلہ افزائی کررہا تھا۔
گھر کے وسیع کچے صحن میں دو نوعمر لڑکے ’’کچھا‘‘ باندھے کشتی لڑ رہے تھے۔ محلے کے چند لڑکے بھی پُراشتیاق نظروں سے دونوں نوعمر پہلوانوں کا ملاکھڑا دیکھنے میں محو تھے۔ خدا بخش کا بیٹا ارباب عرف بابن، مراد علی کے بیٹے علی گوہر سے زور آزما رہا تھا۔ مراد علی بھی اپنے بیٹے علی گوہر کی ہمت بڑھا رہا تھا۔ بالآخر علی گوہر نے ارباب عرف بابن کو زمین پر پٹخ دیا۔ دنگل کے اصول کے مطابق ہارنے والے لڑکے بابن نے علی گوہر کو اپنی چھاتی سے لگا لیا۔
دونوں لڑکے ایک بار پھر کشتی لڑنے میں مصروف ہوگئے اور دونوں عمر رسیدہ دوست چھپر کے نیچے بچھی چارپائی پر آبیٹھے۔ خدا بخش نے اپنی بیوی کو لسی لانے کو کہا۔ دونوں دوست بیڑی کے کش لگانے لگے۔
’’یار خدا بخش۔ دعا کر ہماری محنت ثمربار ہو۔ اس میدان میں اترنے والی ہماری نسلیں اپنے گوٹھ اور اپنے باپ، دادا کا نام روشن کریں۔‘‘ پچاس سالہ مراد علی نے خدا بخش سے کہا۔ اس کی عمر لگ بھگ اتنی ہی تھی۔
’’ایسا ہی ہوگا بھا مرادے… آخر ہمارا تجربہ اپنی اولاد کے کام نہیں آئے گا تو پھر کس کے کام آئے گا۔ میں اپنے بیٹے ارباب پر بہت محنت کرتا ہوں۔‘‘ خدا بخش نے لسی آنے پر بیڑی بجھا دی اور کان میں اٹکا کر ٹرے بیوی سے لے لی۔
اس دوران دونوں لڑکے بھی پسینے میں شرابور بھاگتے ہوئے وہاں آگئے۔
’’یار! یہ اپنا پہلوان ولی خان پتا ہے کیا کہتا ہے۔‘‘ اچانک مراد علی بولا۔
’’کیا کہتا ہے؟‘‘
’’کہتا ہے کہ اس کے بعد گوٹھ بھاگل مستی میں کوئی بڑا ملھ پہلوان آئندہ پچاس برسوں تک پیدا نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہوں… کہیں وہ ایسا… دادل سائیں کے گھر پیدا ہونے والے چوہے راجا کو دیکھ کر تو نہیں کہہ رہا؟‘‘ خدا بخش نے ازراہِ تفنن کہا۔
’’اس کو چھوڑ… پر ہم دونوں کیا مر گئے ہیں؟ کیا میرا گوہر اور تیرا ارباب کم ہیں کسی سے؟ دیکھنا خدا بخش، ایک دن آئے گا کہ یہ دونوں بچے ولی خان کا یہ دعویٰ غلط ثابت کردکھائیں گے اور ہمارے گوہر اور ارباب کی شہرت کا ڈنکا خیرپور سے کشمور تک بجے گا۔‘‘
’’اِن شاء اللہ… اِن شاء اللہ۔‘‘ خدا بخش، مراد علی کی بات سن کر پُریقین انداز میں بولا۔
٭…٭…٭
حلیماں کسی اور کی بیٹی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن یہاں معاملہ ’’کھجی والے بابا‘‘ کا تھا۔ میندرو خان عشق نامراد کی آگ میں پھنک رہا تھا، پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ گوٹھ والوںکے لیے تو یہ حیرانی کی بات تھی ہی مگر حاجی مکھڑوں خان ششدر رہ گیا تھا۔
صبح تڑکے جب اس نے اپنے اکھاڑے کا رخ کیا تو اسے ایک زبردست منظر نظر آیا جس سے اس کا وجود کیا، روح تک سرشار ہوگئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا میندرو خان جو ملاکھڑا تو کیا اکھاڑے کے نام سے ہی دور بھاگتا تھا، اس وقت کسرت میں مصروف تھا۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ ملاکھڑے سے دور بھاگنے والے میندرو خان نے اچانک اکھاڑے کا رخ کیوں کیا تھا۔ اس کے سینے میں آخر ایسی کون سی آگ پل کے پل بھڑکی تھی جسے وہ اب اکھاڑے کے میدان میں نکالنا چاہتا تھا۔ گوٹھ کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ میندرو خان کا یہ جوش عارضی ہے۔ مگر وقت نے ثابت کردیا کہ کچھ جذبے عارضی جوش کے تابع نہیں بلکہ کسی اور ہی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
ادھر میندرو نے کسرت شروع کی، ادھر اس کے باپ مکھڑوں خان نے بھرپور انداز میں اس کی تربیت شروع کردی۔ ملھ کے دائو پیچ اور اسرار و رموز سمجھانا شروع کردیئے۔ مہارت اور طاقت کا امتزاج ہوا تو میندرو خان کا فن نکھرنے لگا۔ کسرت اور مخصوص خوراک نے اسے توانا مرد بنا دیا۔ دن ہو یا رات، سردی ہو یا گرمی، بارش ہو یا آندھی، وہ کسرت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔
انہی دنوں گوٹھ ماچھی خان جو سندھو دریا کے کنارے آباد تھا، وہاں منٹھار سولنگی نامی نوجوان ملھ پہلوان کا نام بڑے زوروں پر تھا۔ میندرو خان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ منٹھار سولنگی سے پنجہ آزمائی کرے مگر ابھی میندرو خان نے منٹھار سولنگی کے مقابلے میں بہت کم مقابلے جیتے تھے۔ منٹھار سولنگی سے لڑنے کے لیے اسے اپنے مقابلوں کو مقررہ تعداد تک پہنچانا تھا۔ اس کوشش میں میندرو خان آس پاس کے اکھاڑوں میں تلے اوپر کشتیاں لڑ رہا تھا۔
اس کے غیرمعمولی جوش کو دیکھ کر باپ کو فکر ہوئی۔ اس نے بڑے پیار سے بیٹے کو سمجھایا۔ ’’پُٹ، لگاتار دوڑنے سے شیر بھی تھک جاتا ہے۔ پھر جب اچانک کوئی بڑا شکار سامنے آتا ہے تو وہ اس قدر چور ہوچکا ہوتا ہے کہ اسے شکار نہیں کر پاتا۔ یہ بھی شیر کی ایک طرح سے ہار ہوتی ہے۔‘‘
’’بابا سائیں! مجھے منٹھار سولنگی سے بھڑنا ہے اور مجھے اس کے لیے اپنے مقابلوں کی تعداد بڑھانی ہے۔‘‘ میندرو خان نے باپ کو جواب دیا۔ باپ کیا کہتا، وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
جس طرح عشق کی آگ برابر لگی ہو تو مزہ دیتی ہے، بالکل اسی طرح حریفانہ مقابلوں میں دو ہم پلہ پہلوانوں کو ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی تمنا ہوتی ہے لہٰذا مقابلے کی یہ آگ صرف میندرو خان کے ہی سینے میں نہیں سلگ رہی تھی بلکہ منٹھار سولنگی بھی اس سے مقابلے کی خواہش اپنے دل میں رکھتا تھا، مگر یہ الگ بات تھی کہ میندرو خان چونکہ مقابلتاً نوآموز تھا، اس لیے منٹھار سولنگی فطری رعونت کے باعث اپنی اس خواہش کا اظہار نہیں ہونے دیتا تھا۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ میندرو خان کی شہرت کے ڈنکے کی آواز اس کے کانوں تک بھی پہنچتی رہی تھی۔ نیز آس پاس کے دیہاتوں اور گوٹھوں میں رہنے والے شائقین بھی بڑی تعداد میں آرزو رکھتے تھے کہ کبھی یہ دونوں شیر ایک دوسرے کے مقابل اکھاڑے میں اتریں۔
بالآخر وہ دن بھی آگیا جب ’’مانجھی مستی‘‘ کے ایک قریبی گوٹھ میں میندرو خان اور منٹھار سولنگی کا مقابلہ ٹھہرا۔
دونوں ملھ پہلوانوں کو آمنے سامنے ہونے پر جہاں لوگوں میں جوش و خروش پایا جاتا تھا، وہاں میندرو خان کے حوالے سے اس کا باپ مکھڑوں خان خاصا پریشان تھا۔ اسے یہ فکر تھی کہ منٹھار سولنگی کے ہاتھوں مات ہوجانے کے بعد کہیں میندرو خان کا دوبارہ ملھ پہلوانی سے دل اُچاٹ نہ ہوجائے۔
خیر اب تو میندرو خان کا منٹھار سولنگی سے مقابلہ طے ہوچکا تھا، اسے اب کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ مکھڑوں خان نے اپنے بیٹے پر پہلے سے زیادہ توجہ دینا شروع کردی تھی۔ میندرو خان کو وہ دائو پیچ کے ساتھ ساتھ دیگر حربے بھی سکھاتا رہتا تھا۔
’’دیکھ پُٹ۔ تو نے اب تک جتنے پہلوانوں کو مات دی ہے، وہ سب عام قسم کے پہلوان تھے مگر منٹھار سولنگی کا معاملہ دوسرا ہے۔‘‘
باپ کی بات سن کر وہ مسکرا دیتا تھا۔
پھر مقابلے کا دن آیا۔ یہ میندرو خان کی زندگی کا بڑا اہم دن تھا۔
دونوں ملاکھڑا پہلوانوں نے ایک دوسرے کا نام ہی سنا تھا۔ آج وہ ایک دوسرے کو پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ اکھاڑے میں اترتے ہی میندرو خان نے منٹھار سولنگی کا جائزہ لیا تو اسے احساس ہوا کہ اب تک وہ واقعی گھریلو قسم کے شوقیہ پہلوانوں سے ملاکھڑا لڑتا آیا تھا، اصل پہلوان آج سامنے آیا تھا۔
چھ فٹ قد، آنکھوں میں مقناطیسی چمک، رنگ سانولا، بال گھنگھریالے، سینہ چوڑا، لمبے بازو جن کے پھیلائو سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ ان کا آ ہنی شکنجہ کس قدر مضبوط ہوگا۔ میندرو خان کو آج پہلی بار احساس ہوا تھا کہ اس کا مقابلہ کسی معمولی ملھ پہلوان سے نہیں بلکہ علاقے کے ایک اہم ملاکھڑا پہلوان سے تھا۔
٭…٭…٭
چوتھے روز پہلوان ولی خان راجا کو کاندھے پر ڈالے امداد وسایا کے پاس لے آیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا۔ ’’بابا! سنبھال اپنے بچے کو، یہ تو مرتے مرتے بچا ہے۔ الٹا مجھے اس کا علاج معالجہ کرانا پڑا ہے۔ ایک دوستانہ مشورہ دوں گا، اسے پہلوانی سکھانے کے بجائے کسی درگاہ پر چھوڑ آ۔‘‘ اتنا کہہ کر پہلوان ولی خان الٹے پائوں چلا گیا۔ امداد وسایا حیران پریشان ہکاّبکاّ سا کھڑا رہ گیا۔
اتفاق سے راجا کا باپ دادل سائیں بھی اس وقت صحن کے کونے میں پڑی چارپائی پر لیٹا کھانس رہا تھا۔ اس کی انگلیوں میں چرس بھری چلم دبی ہوئی تھی۔ وہ وہیں سے چلاّ کر بولا۔ ’’ولی خان ٹھیک کہہ کر گیا ہے۔ پیو! اس چوہے کو بابا بچل شاہ کی درگاہ پر چھوڑ آ۔‘‘
’’تو چپ کر دادل۔‘‘ امداد وسایا نے بیٹے کو جھڑکا۔ ماں نے لپک کر اپنے لخت جگر کو خود سے لپٹا لیا۔
ان رویوں نے راجا کے ذہن پر بڑا اثر ڈالا تھا۔ وہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ کس غم میں گھل کر نشے کا عادی ہوگیا ہے۔ دادا پُرامید تھا تو ولی خان جیسے گھاگ اور منجھے ہوئے پہلوان کی بات نے اس کے چہرے پر بھی ایک ہی دن میں جھریاں ڈال دی تھیں۔
حقیقت یہ تھی کہ اب امداد وسایا بھی پوتے کی طرف سے اپنے بیٹے دادل کی طرح مایوس ہوکے بیٹھ رہا تھا اور اس نے سمجھ لیا تھا کہ اب اس کے خاندان میں کوئی ملھ پہلوان نہیں ابھرے گا۔ یوں راجا جیسے ہی تنہا ہوا، اس کے اندر انگڑائی لے کر ایک نیا انسان بیدار ہوا۔ باپ کی حالت، دادا کی پشیمانی، لوگوں کے طعنے… ان باتوں نے راجا پر ہرگز منفی اثرات مرتب نہیں کئے تھے بلکہ اس کی جگہ وہ مثبت اندازِفکر اپنانے کی سوچا کرتا تھا۔ راجا اب چودہویں سال میں پہنچ چکا تھا اور یہ عمر کُشتی سکھانے کے لیے بہترین ہوتی ہے۔
امداد وسایا نے راجا کو میدان میں اتارنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے تھے۔ اپنی جمع پونچی اس پر لٹا دی تھی۔ پرانے ماڈل کی جیپ فروخت کردی تھی۔ زمین کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا جس پر چاول کاشت کیا جاتا تھا، اسے بھی فروخت کر ڈالا۔ یہ بات اس کے رشتے دار سونہڑاں خان کو معلوم ہوئی تو اسے اپنے خواب بھی چکنا چور ہوتے محسوس ہونے لگے۔ مگر سونہڑاں خان ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے راجا کے باپ دادل سے شکایت کی۔ ’’راجا ہمارا سنگ ہے، اس پر ہمارا بھی حق ہے۔ اس کے نام زمین کا جو ٹکڑا تمہارے باپ نے فروخت کر ڈالا، اس پر ہمارا بھی حق تھا۔‘‘
سونہڑاں خان کی لالچی فطرت عیاں تھی۔ دادل سائیں کیا جواب دیتا۔ راجا کے غم نے اسے پہلے ہی زندہ درگور کررکھا تھا۔ وہ چرسی بن چکا تھا۔ وہ اتنا ہی کہہ سکا۔ ’’راجا نے ہمارا سب کچھ چھین لیا ہے، اب کیا رہ گیا ہے۔‘‘
’’کچھ بھی سہی، تمہیں راجا کے حصے کی زمین نہیں بیچنی چاہیے تھی۔ یہ اصول کے خلاف ہے۔ تم لوگوں نے امانت میں خیانت کی ہے۔‘‘
راجا اس وقت قریب ہی کھڑا بڑے غور سے ان کی یہ باتیں سن رہا تھا۔ اسے کچھ کچھ علم تو تھا کہ سونہڑاں خان کی بیٹی اس کی منگیتر ہے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ کس ناتے طے تھی؟ بچپن میں اس نے اپنی منگیتر حوراں کو اکثر دیکھا تھا مگر اب بلوغت کے قریب پہنچ کر اس کا سونہڑاں خان کے ہاں آنا جانا کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا، اس لئے دو ایک بار ہی اس کی جھلک دیکھ پایا تھا۔
راجا اکثر جب دوستوں کو اپنی اپنی منگیتروں کی تعریفیں کرتے سنتا تو اس کے اندر بھی یہ چاہ ابھرتی کہ وہ اپنی منگیتر کی جھلک دیکھے، اس سے بات کرنے کا موقع نکالے اور بڑے فخر سے اسے بتائے کہ وہ اس کا منگیتر ہے۔
’’فخر… کیسا فخر؟‘‘ اس کے دل میں اچانک ایک کرب ناک سوالیہ نشان لہرانے لگا۔ وہ اس کے تن لاغر کو دیکھ کر اوروں کی طرح ہنسے گی۔ اس شرمندگی اور اہانت کے ڈر سے راجا اپنا دل مسوس کر رہ جاتا اور حوراں کی جھلک دیکھنے کی خواہش دم توڑنے لگتی تھی۔ تاہم وہ اسے پسند تھی۔ اس کے ولولے اور جوش کو مہمیز کرنے میں اب اس کی منگیتر حوراں کا بھی دخل تھا۔
یہ درست تھا کہ مایوسی کا غلبہ راجا پر طاری تھا مگر وہ خود کو ٹوٹنے نہیں دیتا تھا۔ یہی اس کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ جوڑنے کی تدابیر ابھی نہیں کرسکتا تھا تو کچھ کرنے کی سوچتا تو ضرور تھا۔
باپ دادل سائیں نے عرصے سے اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ رکھا تھا۔ لے دے کے ایک بے چارہ دادا تھا۔ اب وہ بوڑھا آدمی بھی مایوس ہوگیا تھا۔ گویا راجا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ مگر اب سونہڑاں خان کی اس نئی بحث نے الگ ہی ماحول پیدا کردیا تھا۔ سونہڑاں خان، دادل سے مطمئن نہ ہوسکا تو اس نے راجا کے دادا امداد وسایا کو جا لیا۔ سونہڑاں خان کی بات اصولی طور پر غلط مگر ذات برادری کی روایت کی رو سے درست سمجھی جارہی تھی۔
’’بابا۔ زمین تو میرے باپ نے خریدی تھی۔‘‘ امداد وسایا نے کہا۔ ’’وہ میں نے ٹیکس بچانے کی خاطر اپنے پوتے کے نام کررکھی تھی۔‘‘
مگر سونہڑاں خان مطمئن نہ ہوا۔ وہ کسی بھی قیمت پر زمین کا ٹکڑا ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ بے شک زمین کا سودا ہوچکا تھا مگر یہ روایت رہی تھی کہ اگر کوئی متنازع املاک فروخت ہو بھی جاتی تو اسے واپس لوٹانا گوٹھ کے قواعد و قانون کے تحت خریدنے والے پر واجب ہوتا تھا۔ جبکہ یہاں حالات یہ تھے کہ اپنی زمین واپس لینے کے لیے امداد کے پاس پیسے ہی نہیں بچے تھے جبکہ سونہڑاں خان بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔
درحقیقت وہ زمین کے اس ٹکڑے پر آٹے کی چکی لگانا چاہتا تھا۔ اس نے دونوں باپ، بیٹے یعنی دادل سائیں اور امداد وسایا کو ’’وڈے سائیں‘‘ کے پاس لے جانے کی دھمکی دے دی۔
راجا کے نام کی زمین جسے فروخت کی گئی تھی، اس نے وہاں سرسوں اور دیگر اجناس کی کاشت شروع کردی تھی اور وہ کسی صورت زمین واپس کرنے پر تیار نہیں تھا۔ رب نواز ایک چھوٹے زمیندار نے زمین کا یہ ٹکڑا خریدا تھا۔ سونہڑاں خان اب وڈے سائیں سے فیصلہ کرانے کی تیاری میں مصروف ہوچکا تھا۔ دادل سائیں اور امداد وسایا کی سرزنش کرنے کے بعد وہ رب نواز کو بھی تنبیہ کرچکا تھا کہ اس نے امداد وسایا سے جو زمین کا ٹکڑا خریدا ہے، وہ ایک متنازع املاک ہے لہٰذا فیصلے کے لیے اسے تیار رہنا ہوگا۔
راجا کو اب شدت کے ساتھ اپنی کم مائیگی اور اپنے باپ اور دادا کے دُکھوں اور ذہنی اذیتوں کا احساس ہوتا تھا۔ چنانچہ اب اس کے سر پر یہی دُھن سوار رہنے لگی کہ اسے کچھ، بلکہ بہت کچھ کرنا ہے۔
وہ اب پورے جوش و خروش سے ملھ کے مقابلے دیکھا کرتا تھا، خواہ وہ مقابلے گوٹھ میں ہوتے یا گوٹھ سے باہر کسی علاقے میں۔ یہ الگ بات تھی کہ پہلے وہ اپنے دادا کے ساتھ جایا کرتا تھا مگر اب وہ تنہا ہوتا تھا۔
اسکول میں وہ چند لڑکوں کو جنہیں کُشتی کا جنون کی حد تک شوق تھا، دیکھا کرتا تھا۔ خود اس میں ان کے درمیان جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی مگر وہ ان کے درمیان رہنا چاہتا تھا۔ اس صورت میں اسے تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔ اس دوران وہ ان میں سے دو لڑکوں کو اپنا دوست بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ان میں ایک خدا بخش کا بیٹا ارباب عرف بابن تھا اور دوسرا مرادعلی کا بیٹا علی گوہر تھا۔
یہ وہی دونوں نوعمر لڑکے تھے جن کے والدین نے انہیں مستقبل کا زور آور ملھ پہلوان بنانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اسکول کے بعد بھی راجا، علی گوہر اور بابن کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر ان دونوں سے ملھ لڑنے کی اس میں جرأت نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ علی گوہر اور بابن تنومند نوعمر پہلوان تھے جبکہ راجا کی صحت ان دونوں کے مقابلے میں رتی بھر تھی البتہ قد میں راجا دونوں سے اونچا تھا۔ راجا کو ولی خان پہلوان کی بات یاد تھی جب اس نے اس کے دادا سے کہا تھا۔ ’’بوٹی کیا ہے، وہ چڑھ ہی جاتی ہے، پر چھوکرے (راجا) کی ہڈیوں اور جوڑ میں بہت دَم ہے۔‘‘
’’تو پھر بوٹی کیسے چڑھے گی؟‘‘ وہ سوچنے لگتا۔
٭…٭…٭
اگلے دن پورے گوٹھ میں کہرام بپا تھا۔ اگرچہ گوٹھ کے لوگوں کو بہت پہلے سے اس سانحے کی توقع تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی کچھ عرصہ ہوا، دو ایسے ہی واقعات رونما ہوچکے تھے۔ یہ تیسرا واقعہ تھا۔ ماسٹر پیرل کا بس اتنا ہی قصور تھا کہ اس نے ایک بدنام ڈاکو محب شیدی کی مخبری کی تھی۔ مخبری کیا تھی بلکہ اس نے محب شیدی ڈاکو کو اپنے ہی گوٹھ کے ایک زمیندار اللہ ورایو کی اوطاق میں آتے جاتے دیکھ لیا تھا۔ اس اطلاع پر پولیس نے زمیندار اللہ ورایو کی اوطاق کی نگرانی شروع کردی اور جیسے ہی وہاں ڈاکو محب شیدی نظر آیا، پولیس نے چھاپہ مار کر اسے گرفتار کرلیا۔
اگرچہ ماسٹر پیرل کا نام اس کے تحفظ کی وجہ سے راز میں رکھا گیا تھا مگر مخبری کرنے والے کی بھی ’’مخبری‘‘ ہوگئی اور دو لاکھ کا انعام اس کے لیے موت ثابت ہوا۔ گڑھی خیر محمد کے ماسٹر پیرل کے دو ہی بیٹے تھے جو نوعمر تھے۔ ماسٹر پیرل ایک پرائمری ٹیچر تھا اور اپنے گائوں کے بچوں کو پرائمری تعلیم دیتا تھا۔ اس کے دونوں بیٹے بھی اسی اسکول میں پڑھتے تھے۔
دونوں کی عمروں میں صرف ایک سال کا فرق تھا۔ بڑا خیربخش تھا جو تیسری جماعت میں تھا اور اس کا چھوٹا بھائی دھنی بخش دوسری جماعت میں پڑھ رہا تھا۔
گوٹھ کے چند دیگر بچوں کی طرح یہ دونوں بھائی بھی اپنے گلے میں کپڑے کا تھیلا نما بستہ ڈالے باپ کے ساتھ سائیکل پر اسکول جایا کرتے تھے۔
مقتول پیر محمد عرف ماسٹر پیرل خود ایک غریب ہاری کی اکلوتی اولاد تھا۔ اس کا باپ رحیم بخش ایک وڈیرے کا منشی تھا۔ وہ سادہ طبیعت اور نیک نفس انسان تھا۔ اس نے دو شادیاں کررکھی تھیں۔ پیر محمد اس کی پہلی بیوی مائی سکینہ کے بطن سے تھا۔ جبکہ دوسری بیوی حاجراں خاتون بے اولاد تھی مگر رحیم بخش نے کبھی دونوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کی تھی، نہ ہی دوسری بیوی کو اولاد نہ ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا تھا۔ گوٹھ کے دیگر لوگوں کی طرح اس کی بھی یہ خواہش تھی کہ اس کا بیٹا پیر محمد تھوڑا پڑھنا لکھنا سیکھ جائے۔ پیر محمد نے پوری بارہ جماعتیں پڑھ ڈالیں اور پھر بی۔اے کرلیا۔ اپنے ہی گوٹھ کے اسکول میں وہ بطور ٹیچر ملازم ہوگیا اور یوں وہ ماسٹر پیرل کہلایا۔
ماسٹر پیرل ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا۔ خاندان کی لڑکی اور بچپن کی منگیتر نوراں سے اس کی شادی کردی گئی۔ اس کے دو بچے ہوئے۔ ماسٹر پیرل ان کی تعلیم پر پوری توجہ دیا کرتا تھا۔ خطرناک ڈاکو محب شیدی والے معاملے میں اس کی بدنصیبی کے دن شروع ہوئے اور وہ انتقاماً مارا گیا۔ زمیندار اللہ ورایو کو بھی ماسٹر پیرل پر شدید غصہ تھا کہ اس نے اس کی مخبری کی تھی اور یوں اس کی ذات کے لوگ بھی ماسٹر پیرل اور اس کے خاندان سے نفرت کرنے لگے تھے۔
بدنصیب ماسٹر پیرل کی بیوہ جانتی تھی کہ وہ بے بس اور مجبور ہے مگر وہ کم ہمت نہ تھی۔ شوہر کے بہیمانہ قتل کے بعد نوراں مائی کو اس کے بہی خواہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اب اس گوٹھ کو چھوڑ دے مگر نوراں نہ مانی تھی۔ اس نے اپنی ساری توجہ اپنے دونوں نوعمر بیٹوں پر مرکوز کردی تھی۔
خیر بخش اور دھنی بخش اب بھی بستے گلے میں لٹکائے اسکول جاتے تھے۔ مگر اب اسکول جاتے ہوئے ان دونوں بھائیوں کی آنکھوں میں اداسی ہوتی تھی کیونکہ اب انہیں سائیکل پر لانے لے جانے والا بابا نہ تھا۔ بچوں کے اداس چہرے دیکھ کر نوراں مائی کے دل پر کیا گزرتی تھی، یہ وہی جانتی تھی۔ وہ آج بھی اٹھتے بیٹھتے اپنے شوہر کے سفاک قاتلوں کو بددعائیں دیتی تھی۔
قریب کے ایک گوٹھ میں اس کا ایک بڑا بھائی جاڑو خان رہتا تھا۔ ایک دن وہ بہن اور بھانجوں سے ملنے آیا۔
’’ادّی نوراں… میرا خیال ہے تو میرے ساتھ سچل گوٹھ چلی چل، میں تجھے یہاں بھا (بہنوئی) کے قاتل اور دشمنوں کے بیچ نہیں رہنے دوں گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’نہیں ادّا… میں ادھر ہی ٹھیک ہوں۔‘‘ نوراں نے دکھ کے غبار کو سینے میں دباتے ہوئے کہا۔
’’ادّی! یہ ضد تیری ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ بھائی نے سرزنش کے انداز میں کہا۔ ’’اللہ ورایو کو میں اچھی طرح جانتا ہوں، اسے بھا پیرل کی جان لینے کے بعد بھی چین نہیں ملا ہوگا۔‘‘
مائی نوراں اپنے بھائی جاڑو خان کے ساتھ ضرور جاتی مگر وہ اپنی نک چڑھی بھابی کو اچھی طرح جانتی تھی اور بھائی کو بھی کہ وہ اس کے کس قدر کہنے میں رہتا ہے۔ وہ بولی۔ ’’ادّا۔ اب بھلا دشمنوں کو مجھ غریب بیوہ سے کیا لینا دینا۔ ان کے انتقام کی آگ تو کبھی کی ٹھنڈی پڑ چکی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
بہن کی بات سن کر جاڑو خان نے ایک گہری سانس لی اور اپنے کاندھوں پر دھری اجرک جھاڑتے ہوئے کندھے پر رکھی اور سرخ سندھی ٹوپی کو درست کرتے ہوئے کھڑے ہوکر بولا۔ ’’چنگا، جیسے تیری مرضی ادّی جیجل۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں، پَر میں آتا رہوں گا تو بھی چکر لگا لینا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چند بڑے نوٹ نکالے۔ ’’یہ رکھ لے۔‘‘
’’یہ کیا ادّا۔ ابھی میں اتنی کمزور نہیں ہوئی ہوں۔‘‘ وہ تڑپ
کر بولی۔
’’چری ہے تُو… یہ تو میں تجھے بڑے بھائی ہونے کے ناتے دے رہا ہوں۔ کیا بھائیوں پر بہنوں کا حق نہیں ہوتا؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے زبردستی بہن کے ہاتھ میں وہ نوٹ تھما دیئے اور خداحافظ کہہ کر نکل گیا۔
مائی نوراں کو ٹوپیاں سینے کا فن آتا تھا۔ یہی نہیں وہ خوبصورت پراندے اور قمیضوں پر سندھی بلوچی کڑھائی والے گلے بھی بناتی تھی۔ اس نے گھر کا چولہا جلانے کے لیے یہ کام شروع کردیا۔ ایک بڑھیا اس سے یہ ثقافتی شاہکار شہر لے جاتی، مہنگے داموں اسے فروخت کرتی، پھر آدھے سے زیادہ پیسے خود رکھ کر باقی پیسے نوراں مائی کے ہاتھ پر رکھ دیتی۔ بے چاری نوراں انہیں بھی بہت سمجھتی تھی۔ اس کا ایک خواب تھا بلکہ یہ اس کے مرحوم شوہر ماسٹر پیرل کا خواب تھا کہ اس کے دونوں بیٹے پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں۔
خیر بخش اور دھنی بخش دونوں بھائی اسکول باقاعدگی سے جاتے تھے مگر اب ان کی پڑھائی میں دلچسپی برائے نام رہ گئی تھی۔ اسکول جانا ان کے لیے اب محض کھیل بن چکا تھا۔ ہاف ٹائم کی جب گھنٹی بجتی تو دونوں بھائی اسکول کی بوسیدہ پیلی عمارت کے عقب میں بنے میدان میں آجاتے تھے، جہاں بچے مختلف ٹولیاں بنا کر کھیلا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکے رب ڈنو کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ توانا رب ڈنو ایک پہلوان کا بیٹا تھا۔ وہ اسکول کے بچوں سے میدان میں کشتیاں لڑا کرتا تھا۔ وہ خیر بخش اور دھنی بخش کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا کرتا تھا۔ تینوں ابھی بچے تھے، انہیں ابھی پہلوانی کے دائو پیچ کا علم نہ تھا مگر ان کے چنگل میں زبردستی پھنسنے والا شکار بری طرح زدوکوب ہوتا تھا۔ کسی نہ کسی بچے کی ان تینوں کے ہاتھوں روز پٹائی ہوتی۔ تنگ آکر ہیڈ ماسٹر نے رب ڈنو کے باپ روشن خان کو بلا کر اس سے شکایت کی۔ روشن خان عرف روشو پہلوان نے ہیڈ ماسٹر کی زبانی اپنے بیٹے کی شکایت سنی تو مونچھوں کو تائو دے کر فخر سے سینہ پھلا کر بولا۔ ’’ماشٹر صاحب! رب ڈنو ایک ملاکھڑا پہلوان کا بیٹا ہے۔ اس کی رگوں میں ایک پہلوان کا خون دوڑ رہا ہے۔ اگر وہ تھوڑا بہت ہاتھ دکھا دیتا ہے تو کون سا قہر ٹوٹ پڑتا ہے؟‘‘
اس کی ڈھٹائی پر ہیڈ ماسٹر کو بڑا غصہ آیا۔ وہ بولا۔ ’’تو ٹھیک ہے پھر اپنے بیٹے کو اسکول بھیجنے کی کیا ضرورت ہے، اسے کہو کہ ملھ کے میدان میں جاکر ہاتھ دکھائے۔‘‘ اور پھر اس دن کے بعد رب ڈنو نے واقعی اسکول آنا چھوڑ دیا۔
ہیڈ ماسٹر جانتا تھا کہ خیر بخش اور دھنی بخش کو رب ڈنو نے ہی خراب کیا تھا۔ اب وہ دونوں خودبخود سدھر جائیں گے۔ مگر دونوں بھائیوں کو رب ڈنو کے بغیر اسکول میں مزہ نہ آتا تھا۔ رب ڈنو نے ان کی رگوں میں پہلوانی کی جو لہریں منتقل کردی تھیں، یہ اس کے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ چنانچہ اب یہ دونوں بھائی کسی نہ کسی کو تختۂ مشق بناتے رہتے۔
ایک روز ان دونوں کے ہاتھوں ایک لڑکے کی پٹائی ہوئی۔ وہ لڑکا دشمن برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا باپ زمیندار اللہ ورایو کا قریبی رشتے دار تھا۔ لڑکے نے روتے ہوئے اپنے باپ سے ان دونوں کی شکایت کی۔ باپ کو جب یہ پتا چلا کہ وہ دونوں ماسٹر پیرل کے بیٹے ہیں تو وہ آگ بگولا ہوگیا اور اسکول جا پہنچا۔ زخمی لڑکے کے باپ صیفل مراد نے دونوں بھائیوں خیر بخش اور دھنی بخش کو بلوا کر اپنے آدمیوں سے ان کی خوب ٹھکائی کروا دی۔ ہیڈ ماسٹر منہ دیکھتا رہ گیا۔ اسے کچھ بولنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
’’ماشٹر! میں آئندہ ان دونوں کو اسکول میں نہ دیکھوں ورنہ ادھر تو نظر نہیں آئے گا۔‘‘ صیفل مراد، ہیڈ ماسٹر کو بھی دھمکی دے کر چلا گیا۔
دونوں بچے اپنے سے کئی گنا بڑی عمر کے ہٹے کٹے آدمیوں سے بری طرح مار کھاتے، روتے بلکتے گھر کی طرف دوڑے۔ اپنے بستے بھی اسکول میں چھوڑ گئے۔ ماں نے اپنے دونوں معصوم جگر کے ٹکڑوں کو اس حالت میں دیکھا تو اپنا سینہ پیٹ ڈالا اور اجرک اوڑھ کر سیدھی اسکول جا پہنچی۔
’’ماسٹر صاحب! کیا اب اسکول کے اندر بدمعاشی ہونے لگی ہے اور وہ بھی آپ کی نظروں کے سامنے؟‘‘ وہ بپھر کر بولی۔
پچاس سالہ ہیڈ ماسٹر محمد ملوک، مائی نوراں کی بات کا مطلب سمجھ کر بولا۔ ’’بدمعاش تو تیرے یہ دونوں لاڈلے ہیں مائی، جو روز کسی نہ کسی کو یہاں مارتے پیٹتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، یہ اسکول کے بچے ہیں، آپس میں کھیلتے بھی ہیں اور لڑتے بھی ہیں۔ آپ کو انہیں سزا دینے کا پورا حق ہے، مگر باہر کے آدمی یہاں آکر بچوں کی پٹائی کرنا شروع کردیں، یہ تو کھلی بدمعاشی ہے۔‘‘ مائی نوراں نے برہمی سے کہا۔
’’ارے مائی۔ شکر کرو کہ میں نے ان دونوں شیطانوں کے نام اسکول سے خارج نہیں کیے۔ مجھے ماسٹر پیرل کا خیال آتا ہے ورنہ…‘‘ اس نے دانستہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
مائی نوراں نے تڑ سے جواب دیا۔ آخر کو وہ بھی اسکول ٹیچر کی بیوی تھی۔ ’’اگر یہ بات ہے تو پھر مجھے شہر جاکر ڈی۔ای۔او صاحب (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر) سے اس کی شکایت کرنا پڑے گی کہ تم یہاں کس طرح بااثر زمینداروں کے دبائو میں آکر ہم غریبوں کے بچوں کے ساتھ ناانصافی کررہے ہو۔‘‘
ہیڈ ماسٹر محمد ملوک کی دھمکی کے مقابلے میں مائی نوراں کی دھمکی زیادہ اثر پذیر ثابت ہوئی۔ وہ فوراً نرم پڑتے ہوئے بولا۔ ’’دیکھ مائی، شکر کر کہ اتنے میں ہی گلوخلاصی ہوگئی، تُو نہیں جانتی کہ تیرے ان دونوں لاڈلوں نے کس بری طرح بچے کی پٹائی کی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مائی نوراں کو ساری حقیقت بتا دی جسے سن کر مائی نوراں پریشان ہوگئی۔
٭…٭…٭
منٹھار سولنگی نے اکھاڑے میں اترتے ہی پہلے بڑی رعونت اور تضحیک آمیز نظروں سے میندرو خان کو دیکھا تھا مگر اس میں اسے کوئی ایسی چیز نظر آگئی کہ وہ اس سے اپنی نظریں نہ ہٹا سکا۔ منٹھار سولنگی کو تسلیم کرنا پڑا کہ میندرو خان نے تھوڑے عرصے میں ملھ پہلوانی کا جو ڈنکا بجایا تھا، وہ ایسا غلط بھی نہ تھا۔ اسے اس نوآموز ملھ پہلوان میں جوہر پہلوانی نظر آیا تھا۔
کمنٹری شروع ہوگئی۔ لوگوں نے دائرہ بنا لیا۔ دونوں پہلوانوں کے چھ چھ ساتھی پہلوان تھے۔ پہلے رائونڈ میں ان کے مقابلے ہوتے رہے اور پھر جب منٹھار سولنگی اور میندرو خان اکھاڑے میں اترے تو پہلے بلا کا شور اٹھا۔ اس کے بعد جیسے پنڈال کو سانپ سونگھ گیا اور جب دونوں ملھ پہلوانوں نے ایک دوسرے کی طرف سخت حریفانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے نیفوں پر ہاتھ ڈالے تو مجمع نے گویا اپنی سانسیں روک لیں۔ حتیٰ کہ کمنٹری کرنے والا شخص بھی ایک لمحے کو ساکت ہوگیا۔
منٹھار سولنگی نے میندرو خان کے نیفے پر ہاتھ ڈالتے ہی اسے گرانے کی کوشش کی تو اسے میندرو خان کے پہاڑ جیسے وجود کی بے پناہ طاقت کا اندازہ ہوا۔ اس نے اپنے جسم کا پورا زور لگا دیا مگر وہ میندرو خان کو ایک انچ بھی زمین سے اوپر نہ اٹھا سکا۔ اس میں کوئی شک نہ تھا کہ میندرو خان کے لمبے چوڑے ڈیل ڈول کے مقابلے میں منٹھار سولنگی کا ڈیل ڈول کم ہی تھا مگر دوسرے ہی لمحے منٹھار سولنگی نے طاقت آزمائی ترک کرکے تکنیک استعمال کرنا چاہی تاکہ اسے فوراً چت کردے مگر میندرو پہلوان کو بھی اپنے پہلوان باپ حاجی مکھڑوں خان کی نصیحت یاد تھی جو پہلوان طاقت کا مظاہرہ نہیں کر پاتا، وہ فوراً ہی تکنیک کا مظاہرہ کرتا ہے اور محض معمولی سی تکنیکی ٹرک سے بڑے سے بڑے بھاری بھرکم پہلوان چت ہوجاتے ہیں۔ منٹھار سولنگی نے اپنا دائو میندرو پہلوان پر آزمانا چاہا مگر میندرو نے پھرتی سے خود کو منٹھار سولنگی کے اس خطرناک دائو سے بچا لیا۔ پھر منٹھار سولنگی نے دائو پر دائو لگانے کا آغاز کردیا۔
میندرو خان باربار خود کو بچا رہا تھا۔ پھر جیسے ہی اسے موقع ملا، اس نے اپنے دونوں بازوئوں کے شکنجے میں جکڑ کر منٹھار سولنگی کو اوپر اٹھا لیا۔ مجمعے کا سکتہ ٹوٹا اور زبردست شور ابھرا۔ ہوا میں معلق منٹھار سولنگی کو اپنی شکست صاف نظر آرہی تھی۔ ایک نوآموز پہلوان کے ہاتھوں ایک منجھے ہوئے پہلوان کی ہار معمولی بات نہیں تھی۔
ملاکھڑا ایک الگ نوعیت کا کھیل ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا نتیجہ یعنی ایک پہلوان کی ہار یا دوسرے پہلوان کی جیت، منٹوں میں بلکہ بعض اوقات سیکنڈوں میں سامنے آجاتی ہے۔ ادھر ہاتھ ڈالا، ادھر دائو کھیلا اور اگلے ہی لمحے چت کردیا۔ جو جتنی جلدی ایسا کرتا ہے، اسے صحیح معنوں میں ملاکھڑا پہلوان تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو ملھ پہلوان جس قدر جلدی اپنے حریف کو شکست دیتا ہے، اتنا ہی اس کی شہرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے لہٰذا اس وقت دونوں پہلوانوں کی یہی خواہش تھی کہ جلدازجلد ایک دوسرے کو پچھاڑ کر مقابلہ جیت جائے۔
میندرو خان کے ہاتھوں منٹھار سولنگی کی شکست گویا موت کے مترادف تھی، چنانچہ اس نے اپنی سرتوڑ کوشش کی کہ خود کو میندرو خان کے اس خطرناک دائو سے بچا لے مگر میندرو خان اسے کب موقع دینے والا تھا۔ جیسے ہی منٹھار سولنگی نے دائو بچانا چاہا، میندرو خان نے ایک اسرار بھری مسکراہٹ کے ساتھ اسے بڑے آرام سے چت کردیا۔
مجمع میں یکدم شور اٹھا۔ میندرو خان کے ہاتھوں منٹھار سولنگی کو پہلی مات ہوچکی تھی۔ ابھی دو رائونڈ باقی تھے مگر پہلے رائونڈ کی شکست سے ہی منٹھار سولنگی کا چہرہ دھواں ہوگیا تھا۔ اس کے حمایتیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا جبکہ میندرو خان کے ساتھیوں نے خوشی کے نعرے لگا کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ ان میں میندرو کا باپ حاجی مکھڑوں خان بھی پیش پیش تھا۔ بیٹے کی پہلی بڑی فتح نے اسے سرشار کردیا تھا۔
اگلے رائونڈ میں ایک بار پھر منٹھار اور میندرو خان آمنے سامنے تھے۔
مجمعے پر خاموشی طاری تھی۔ منٹھار نے اپنی اندرونی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ جلد ازجلد میندرو خان کو شکست دے کر بدلہ لینا چاہتا تھا۔ میندرو کے چہرے سے جوش ہویدا تھا مگر ہونٹوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ تھی جو منٹھار کو طیش دلانے کا باعث بن رہی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سخت حریفانہ نظروں سے دیکھا اور پھر دو پہاڑوں کے درمیان زورآوری کا مقابلہ شروع ہوگیا۔
منٹھار نے اپنے حریف سے چھاتی ملاتے ہی اڑنگا لگایا۔ یہ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ میندرو اس دائو کی زد میں آگیا۔ اس کے پہاڑ سے وجود کو ایک جھٹکا لگا۔ مگر میندرو خان نے اس اچانک اور خطرناک دائو سے بچانے کی سعی کرتے ہوئے فوراً اپنا بایاں پائوں زمین پر جمایا اور اپنے دونوں بازوئوں کے حصار میں لے کر زوردار پھیری لے ڈالی۔ نتیجتاً دونوں پہلوان زمین پر گرے اور پھرتی کے ساتھ اٹھ بھی گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ میندرو شکست سے بال بال بچا تھا اور منٹھار غصے سے بل کھایا ہوا نظر آرہا تھا۔ وہ زخمی شیر کی طرح غرّاتا ہوا دوبارہ میندرو پر جھپٹا۔ اس پر ایک دائو اور آزمایا۔ یہ دائو پہلے سے زیادہ خطرناک تھا۔ میندرو کے قدم اکھڑ گئے، وہ اس کے بازوئوں میں ڈول گیا اور یہی منٹھار چاہتا تھا۔ اس نے میندرو کو اگلے چند لمحوں میں چت کر دیا۔
پھر ملاکھڑے کا آخری مرحلہ آن پہنچا۔ دونوں ملاکھڑا پہلوان تیسری بار ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ منٹھار کی آنکھوں میں معاندانہ چمک جبکہ میندرو کی آنکھیں حریفانہ چمک لیے ہوئے تھیں۔ جب دونوں ملھ پہلوانوں نے ایک دوسرے سے اپنے سینے ملائے تو بھرے پنڈال کو جیسے یک دم سانپ سونگھ گیا۔ دونوں پہلوانوں کے لیے یہ آخری مقابلہ گویا زندگی اور موت کے مترادف تھا۔ مجمع میں کھڑے میندرو کے باپ حاجی مکھڑوں خان کے چہرے سے جوش کے ساتھ تشویش کا عنصر بھی غالب تھا۔
مقابلہ شروع ہوا۔ اس بار دائو کھیلنے میں منٹھار کی بجائے میندرو نے پہل کی۔ اس نے اپنے حریف کو اوپر اٹھایا۔ منٹھار زمین سے آٹھ انچ اوپر فضا میں معلق ہوا۔ میندرو نے اپنی بے پناہ طاقت کا مظاہرہ کیا اور دائیں جانب پھیری لگا کے اڑنگا لگایا مگر منٹھار نے جواب میں بایاں پائوں زمین پر ٹکایا اور پوری طاقت کے ساتھ اس کے دائو کا توڑ کرتے ہوئے اس کی پھیری کاٹ دی۔ اگلے چند لمحوں میں فیصلہ متوقع تھا۔ میندرو اپنا دائو خالی جانے پر پریشان نہ ہوا تھا۔ وہ بدستور کھیل کے مروجہ اصولوں کے مطابق ایک کے بعد ایک دائو آزمائے جارہا تھا۔ مقابلے کو شروع ہوئے پچیس سیکنڈ گزر چکے تھے، جیت یا ہار کا فیصلہ ہوا چاہتا تھا۔
اس بار منٹھار نے دائو آزمانا چاہا اور میندرو کے دائو کا توڑ کرکے تیسرے سیکنڈ میں میندرو کو زمین سے ذرا اوپر اٹھا لیا۔ مجمعے میں بلاکا شور اٹھا۔ میندرو جانتا تھا کہ منٹھار کے لیے یہ مقابلہ جیتنا کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ انعام سے زیادہ اسے اپنے نام اور ساکھ کی فکر تھی۔ ایک نو آموز پہلوان سے ہارنا معمولی بات نہ تھی۔ منٹھار کے لیے یہ مقابلہ گویا زندگی اور موت کا سوال تھا۔ چنانچہ یہی سبب تھا کہ منٹھار نے میندرو کے بھاری بھرکم جسم کو زمین سے چند انچ اٹھانے کے لیے اپنے وجود کی ساری قوت صرف کردی تھی۔ اس نے میندرو کو زمین سے چند انچ اوپر اٹھاتے ہی بائیں پھیری لگائی اور ابھی بایاں اڑنگا لگانا ہی چاہتا تھا کہ اچانک منٹھار کا ہاتھ میندرو کے نیفے سے چھوٹ گیا۔ یہ غلطی تھی یا اتفاق۔ بہرحال منٹھار لڑکھڑا گیا۔
ملاکھڑا میں ایک بات یقینی ہوتی ہے۔ کسی دائو کو لگاتے وقت غلطی کی رتی بھر گنجائش نہیں ہوتی۔ ادھر ایک پہلوان سے ذرا چوک ہوئی، اُدھر مدمقابل نے اسے چاروں شانے چت کیا۔ چنانچہ منٹھار کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جو دائو اس نے میندرو پر آزمایا تھا، اس کی زد میں وہ خود آگیا۔ نتیجتاً وہ لڑکھڑا گیا، توازن بگڑا، اڑنگا ٹوٹا اور میندرو نے بڑے آرام سے منٹھار کو چاروں شانے چت گرا دیا۔ (جاری ہے)