وہ ایک بوڑھی عورت تھی اور کسی فیکٹری میں کام کرتی تھی۔ ان دنوں ہڑتالوں کے باعث آئے دن فیکٹری بند ہو جاتی۔ اس بوڑھی کا ذریعہ روزگار تو یہ گارمنٹ فیکٹری تھی۔ جہاں وہ کپڑے پر بنے پھولوں اور مختلف کمپنیوں کے ”مونو گرامز کے کڑھائی شدہ حروف پر سے فالتو دھاگے کاٹ کر اپنا رزق کما رہی تھی۔ اس بوڑھی کا نام افروز تھا اور وہ سندھ کے کسی اندرون علاقے کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی رہنے والی تھی۔ اس کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں۔ دو بیاہی جا چکی تھیں چھوٹی بیٹی ابھی بن بیاہی تھی۔ بیٹا بھی اٹھارہ برس کا تھا غیر شادی شدہ تھا۔ یہ دونوں اس کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک روز میرے گھر آئی ، ہمارا گیٹ کھلا ہوا تھا وہ بے دھڑک اندر چلی آئی۔ میں باورچی خانے میں کام کر رہی تھی۔ اس کو یوں بے دھڑک اور اعتماد سے گھر کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر حیرت ہوئی اور پوچھا تم کون ہو اور بغیر اجازت آگئی ہو۔ آپ گھبرائیے نہیں۔ میں کوئی چور نہیں ہوں، اچھے خاندان کی ہوں۔ میٹرک پاس ہوں لیکن ضرورت مند ہوں۔ کام ڈھونڈ رہی ہوں اس لئے آپ کا دروازہ کھلا دیکھ کر اندر آگئی۔ یہاں کراچی میں سب اپنے گھر کا دروازہ بند رکھتے ہیں حتی کہ اکثر گھروں کے باہر تو چوکیدار ہوتے ہیں لیکن آپ کا دروازہ کھلا تھا میں نے سمجھا کہ آپ شاید بے خوف لوگ ہیں، اللہ پر بھروسہ کرنے والے یا پھر گاؤں سے تعلق ہے۔ ہماری طرف بھی کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند نہیں رکھتا۔ دن رات مکانوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ تو اپنائیت کا ایک احساس آپ کے مکان سے ملا اور میں اندر آگئی۔ پوچھتی بھی کس سے, کس سے اجازت لیتی۔ یہاں کوئی چوکیدار تو تھا نہیں۔ اس کی گفتگو کی شائستگی اور انداز بیان دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ کس قدر پر اعتماد تھی جیسا کہ کوئی ساد ہوتا ہے۔ ساد اس کو کہتے ہیں جو بے خوف اس وجہ سے ہو کہ اس نے کبھی چوری نہ کی ہو۔ یہ عورت سچ کہہ رہی تھی، چور نہیں تھی۔ ساد ہی تھی تب ہی میں نے اسے اندر آنے دیا۔ اس کے انداز گفتگو سے، حلیے ، صاف ستھرے لباس سے، دل چاہا کہ اس کے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے۔ سو میں نے کچن میں پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اماں ادھر بیٹھ جاؤ اور آرام سے بات کرو۔ کہاں سے آئی ہو ، کہاں رہتی ہو۔ کیا نام ہے تمہارا؟ اس نے کہا، میرا نام حسن افروز ہے۔ اس ذات سے تعلق رکھتی ہوں جو دینی و دنیوی لحاظ سے اعلیٰ مانی جاتی ہے لیکن نصیب کی ماری ہوں کہ نصیب ذات پات سے بالا تر ہے۔ پہلے زمینداری تھی، گرچہ تھوڑی زمین تھی مگر عزت سے روزی کا ذریعہ تھی۔ پھر کسی مجبوری کی وجہ سے گروی رکھنی پڑی اس میں بنا ہوا گھر بھی ساتھ گروی رکھا گیا۔ ہم در بدر ہو گئے ۔ شوہر کو ان کے رشتہ دار ساتھ لے گئے۔ میں اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ کراچی آگئی تا کہ یہاں ہم مل کر کچھ کمالیں اور گروی کی رقم اکٹھی کر کے اپنے گھر اور زمین کو چھڑالیں۔ اماں کتنی رقم تم نے دینی ہے؟ نہ پوچھو بیٹی لاکھوں میں ہے۔ میرے شوہر کے دوست کے ہاتھوں قتل ہوا اور میرے شوہر کو بھی مقتول کے ورثا نے ایف آئی آر میں ملوث کر دیا۔ اس جھوٹے مقدمے سے جان چھڑانے کو ہم نے اپنی زمین اور مکان گروی رکھ کر پیسہ بھرا ہے، میرے خاوند کی گردن تو مقدمے سے چھوٹ گئی لیکن ہمارے خاندان کا شیرازہ بکھر گیا اور ہم در بدر ہو گئے ۔ اب کہاں رہتی ہو؟ آپ کے بنگلے کے پیچھے جو کچی آبادی ہے، وہاں ایک کرایہ کا مکان لیا ہے۔ ایک کمرہ اور صحن ہے۔ بجلی کنڈے کی ہے صرف دوسو روپیہ ماہانہ مالک مکان کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ کرایہ آٹھ ہزار روپے ماہانہ ہے۔ کچی بستی میں آٹھ ہزار روپے ماہانہ؟ میں نے حیرت سے سوال کیا۔ ہاں بی بی اس گوٹھ میں اتنا ہی کرایہ چل رہا ہے۔ پہلے تین ہزار تھا، پھر چار ہوا اب بات آٹھ تک جا پہنچی ہے۔ اتنا کرایہ ہر ماہ کیسے ادا کرتی ہو اماں ، یہ تو بہت زیادہ ہے۔ ہاں جی ہمارے لئے تو اور بھی زیادہ ہے کیونکہ ہم اپنے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ورنہ اس گوٹھ میں جنوبی پنجاب خصوصا رحیم یار خان کے دیہاتوں اور بستیوں سے بہت لوگ محنت مزدوری کیلئے آتے ہیں تو وہ کئی کنبے ایک مکان میں مل کر رہتے ہیں اور کرا یہ آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ گھر کے مرد و عورت بچے بھی محنت کرتے ہیں۔ عورتیں کوٹھیوں میں جھاڑو پو چے کا کام کرتی ہیں۔ بچے بچیاں بھی بنگلوں میں خدمت گار ہو کر کافی کما لیتے ہیں۔ ایک بچی جوعمر میں آٹھ سے بارہ برس کی ہو۔ اگر کسی بیگم کے پاس صبح سے رات تک رہے تو کھانے کپڑے کے علاوہ بیگم اس کو پانچ ہزار تنخواہ دیتی ہے۔ مرد سبزی فروٹ کی ریڑھیاں لگاتے ہیں یا رکشہ چلاتے ہیں تو ان کی فی کس آمدنی ایک خاندان کیلئے اچھی بھلی ہو جاتی ہے۔ ایک کنبہ مل کر میں بیس ہزار ماہانہ کما لیتا ہے۔ اس پیسے سے اپنے گاؤں جا کر گھر بنواتے ہیں یا مال مویشی خرید تے ہیں اور تم لوگ کتنا کما لیتے ہو۔ بی بی ہم جھاڑو پونچے کا کام نہیں کرتے۔ میری بیٹی میٹرک پاس ہے وہ ایک ٹیچر کے پاس ملازمت کرتی ہے۔ صبح سے شام تک اس کے بچے کو سنبھالتی ہے۔ دس ہزار روپے ملتے ہیں اور میں فیکٹری سے مال گھر لا کر سارا دن دھاگے توڑتی ہوں۔ شام کو مال واپس کرتی ہوں تو دن بھر کی مزدوری 400 کے لگ بھگ بنا لیتی ہوں۔ لیکن آج کل حالات درست نہیں، فیکٹری اکثر بند ہو جاتی ہے تو کام رک جاتا ہے، اور آمدنی بھی نہیں ملتی ۔ تب ہی سوچا کسی بنگلے پر کوئی ہلکا پھلکا کام کر لوں ، اچھے لوگ ہوں گے میں دیانت داری سے کروں گی تو وہ بھی قدر کریں گے۔ اور بیٹا وہ کیا کرتا ہے؟ اس پر افروز کچھ جھینپ سی گئی اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔ وہ میٹرک پاس ہے مگر اپنی مرضی کا مالک ہے. کچھ نہیں کرتا۔ سارا دن سویا رہتا ہے۔ رات کو چلا جاتا ہے اپنے دوستوں کے پاس گپ شپ کرنے ۔ آدھی رات کو آجاتا ہے لیکن اپنا خرچہ وہ مجھ سے نہیں لیتا لیکن کما کر ہم کو دیتا بھی نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جوان بیٹوں کا بڑا آسرا ہوتا ہے۔ لیکن بیٹی ، کیا کہوں ، بس دعا کریں خدا اسے بھی راہ ہدایت دے۔ مجھے اماں کی بات سمجھ نہ آسکی۔ بہر حال اماں افروز نے بتایا کہ اس نے قدرے بہتر مکان لیا ہے جس میں بجلی، پانی ، گیس بھی ہے لیکن کرایہ دس ہزار ہے۔ بیٹی کی تنخواہ ساری کرائے میں چلی جاتی ہے اور اس کی اپنی کمائی سے گھر چلتا ہے۔ اس کو دو پہر کا کھانا اور چائے فیکٹری سے مل جاتی ہے اور بیٹی کو اس کی مالکن سے دو وقت کا کھانا ملتا ہے۔ بیٹا بھی اپنا کھانا پینا خود کر لیتا ہے۔ یہ بچت اس لئے کرتی ہوں کہ اپنی ساری آمدنی ان لوگوں کو بھجوا دیتی ہوں جن کو گروی کا پیسہ بھرنا ہے۔ وہ اچھے لوگ ہیں قسطوں میں لے رہے ہیں ، تنگ نہیں کرتے۔ جب پیسہ ہم پورا بھر دیں گے وہ زمین اور گھر ہمارے حوالے کر دیں گے۔ یہ ان کا وعدہ ہے اور ہم گاؤں کے لوگ وعدے کا اعتبار کرتے ہیں بی بی – مجھے افروز کی باتیں سن کر دکھ ہوا کہ بیچاری کتنی مجبور ہے اس عمر میں کما کما کر قرضہ اتار رہی ہے حالانکہ یہ عمرتو بیٹھ کر کھانے اور آرام کرنے کی ہے۔ تمہارا شوہر کچھ نہیں کرتا۔ وہ مجھ سے عمر میں پندرہ برس بڑا ہے وہ تو کافی ضعیف اور بیمار ہے گاؤں میں اپنے کزن کے پاس رہتا ہے۔ شادی شدہ بیٹیاں سکھی ہیں مگر دامادوں کے گھر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کمانے کے قابل نہیں ہے۔ میرے گھر کے پچھواڑے ایک کمرے کا کوارٹر خالی پڑا تھا۔ یہ سرونٹ کوارٹر ہم نے بنوایا اس لئے تھا کہ کسی ملازم کو رہائش کیلئے دے دیں گے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے کہا – اماں افروز میں تم کو جانتی تو نہیں، پہلی ملاقات ہے مگر تمہاری باتوں سے مجھے تسلی ہو گئی ہے کہ تم اچھے خاندان سے ہو اور ضرورت مند ہو۔ اگر چاہو تو میرے سرونٹ کوارٹر میں آجاؤ ، رہائش اختیار کر سکتی ہو۔ بدلے میں میرے برتن دھو دیا کرنا باقی کاموں کیلئے ماسی کام والی آتی ہے لیکن آئے روز نخرے کرتی ہے تو برتنوں کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئی، بولی بی بی ضرور کام کروں گی اور بھی کوئی کام ہوگا مثلاً سلائی مشین پر ہلکی پھلکی سلائی وغیرہ سب کر دوں گی۔ میرا کرایہ بچ جائے گا تو ہمارا قرض جلد ادا ہو جائے گا اور ہم اپنے گاؤں واپس چلے جائیں گے۔ تو کیا کل سے سامان لے آؤں؟ صاحب آجائیں شام کو بات کر لوں تو پھر صبح سامان لے آنا۔ کیونکہ تمہارا جوان بیٹا ساتھ ہے لہذا ان سے اجازت لینا ضروری ہے۔ شام کو بیٹے کو بھی لے آنا وہ اس کو دیکھ لیں گے اور مل لیں گے تو بات بن جائے گی۔ اماں افروز کی آنکھیں جگمگا اٹھیں تشکر کے آنسو تھے۔ کہنے لگی ضرور، میں شام کو شبیر کو لے آؤں گی۔ وہ معصوم سا لڑکا ہے۔ دیکھنے میں پندرہ سولہ برس کا ہی لگتا ہے۔ میں نے بہت پیار سے پالا ہے۔ آپ ملیں گی تو رہنے سے منع نہ کریں گی۔ وہ آپ کے پودوں کو پانی دے دیا کرے گا۔ صاحب کی گاڑی دھو دے گا۔ آپ کے سودے لا دیا کرے گا۔ اچھا اماں یہ تو بعد کی بات ہے تم شام کو آ جانا صاحب شام کو ہی آتے ہیں۔ اماں افروز چلی گئی اور شام کو بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ آگئی۔ اس کی بیٹی کی عمر بیس کے لگ بھگ تھی اور بیٹا تو واقعی پندرہ برس کا ہی نظر آتا تھا۔ جبکہ اماں کے بقول اٹھارہ سال کا تھا۔ تاہم خوبصورت نرم و نازک لڑکیوں جیسے ہاتھ پاؤں تھے۔ چہرہ حسین ، بڑی بڑی بے حد پر کشش گہری جھیل جیسی آنکھیں ، ایسا حسین کہ دیکھو تو نظر بھر کر دیکھا نہ چائے ۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ماشاء اللہ خدا اس کی عمر دراز کرے۔ ایسا عمدہ لباس کہ کسی نواب زادے کا فرزند معلوم ہوتا تھا۔ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے ہیرے کو مفلسی نے مٹی میں ملا رکھا تھا۔ میں نے کہا، اماں بے شک اس عمر میں بھی بھلی لگتی ہو۔ بیٹی بھی ماشاء اللہ پیاری صورت کی مالک ہے لیکن آپ کے بیٹے کا جواب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت خاص توجہ سے بنائی ہے اس کی نظر اتارا کرو۔ چند منٹ وحید نے شبیر سے بات چیت کی۔ وہ بہت معصوم تھا جیسے دنیا کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ انہوں نے مجھے کہا۔ اس فیملی کو اپنے سرونٹ کوارٹر میں رکھ لیتے ہیں۔ یہ شریف لوگ نظر آتے ہیں۔ جب میں شہر سے باہر دفتری کام سے اکثر دوروں پر ہوتا ہوں تم اور بچے اکیلے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے رہنے سے تم کو بھی اکیلا پن محسوس نہ ہوگا۔ ان کی اجازت ملتے ہی میں نے افروز اماں کو کہا کہ کل سامان لے آنا۔ بس ایک بات کا خیال رہے کہ تمہارے مہمان یہاں آکر قیام نہیں کر سکتے ۔ تم صرف تین افراد رہ سکتے ہو۔ اس نے کہا بی بی کوئی مہمان نہیں آئے گا۔ ہم ماں بیٹی بھی صبح کو چلے جائیں گے تو شام کو لوٹیں گے۔ البتہ میرا بیٹا کوارٹر میں رہے گا اور شام کو کمپیوٹر سینٹر چلا جائے گا۔ وہاں یہ کام کرتا ہے اور کام سیکھتا بھی ہے یہ رات کو بارہ ایک بجے تک آتا ہے، اس لئے آپ کو گیٹ کی ایک چابی ہم کو دینی پڑے گی تا کہ جب یہ رات کو دیر سے آئے تو خود گیٹ کھول کر اندر آجائے اور آپ کو تکلیف نہ ہو ورنہ آپ کی نیند خراب ہوگی۔ میں نے اللہ کے بھروسے گیٹ کی ایک چابی ان لوگوں کو دے دی تا کہ اپنی مرضی سے آجا سکیں اور ہم کو بار بارگیٹ کھولنا نہ پڑے۔ اماں افروز کا معمول تھا کہ تہجد کے وقت اٹھ جاتی تھی۔ تہجد پڑھی پھر نماز، قرآن پاک کی تلاوت کرتی اور صبح سات بجے سے پہلے اپنا ناشتہ اور چائے بنالیتی ۔ ناشتہ اکثر پاپے اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا۔ بیٹا سویا رہتا۔ بیٹی بھی نماز فجر کے وقت اٹھ جاتی۔ وہ با قاعدگی سے نماز پڑھتی، پھر نہا دھوکر کپڑے بدلتی، ناشتہ کر کے دونوں ماں بیٹیاں گھر سے چلی جاتیں۔ بیٹی اپنی ملازمت پر اور ماں گارمنٹ فیکٹری۔ پھر شام تک لوٹتیں۔ جانے سے پہلے افروز میرے برتن دھو کر جاتی اور رات کو اس کی بیٹی کچن میں آکر برتن وغیرہ دھو کر کچن صاف کر دیا کرتی۔ یہ لوگ اس قدر امن و سکون سے رہ رہے تھے کہ مجھے ان سے کوئی شکایت نہ تھی۔ میری ملازمہ بدستور آرہی تھی۔ اتوار کو وہ البتہ چھٹی کرتی تب مجھے کام کیلئے کسی مددگار کی ضرورت پڑتی تھی، یہ ماں بیٹی اتوار کے دن کا تھوڑا سا وقت میرے کچن کے کام کو دے دیا کرتی تھیں۔ ان لوگوں کے آنے سے مجھے کافی سکون ملا اور شام کو شبیر نہا دھوکر صاف کپڑے بدلتا اور اپنی ڈیوٹی پر جانے سے قبل مجھ سے پوچھتا باجی کوئی سودا منگوانا ہے۔ میں نے جو سودا دودھ اور ناشتے کا سامان منگوانا ہوتا ایک پرچے پر پہلے سے لکھ کر رکھ لیا کرتی اور اس کو پرچہ اور رقم دیتی۔ مجھے یہ بڑی سہولت ہوگئی تھی کہ پڑھا لکھا لڑکا تھا۔ سودا سلف سمجھداری سے لاتا۔ کبھی حساب کتاب میں ہیرا پھیری اور کوئی غلطی نہ کرتا۔ اتوار کے دن پودوں کو پانی لگانا اور گاڑی وغیرہ دھونے کا کام بھی کر دیتا تھا۔ غرض جو معاہدہ کیا اس کی پابندی انہوں نے کی۔ البتہ اس لڑکے کو میں نے کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ ہاں وہ فیشن کا کافی دلدادہ تھا۔ مہنگی خوشبو لگاتا اور بڑے اہتمام سے تیار ہوکر باہر لگتا تو کبھی کبھی میں مذاق میں کہتی تھی، شبیر تم کتنے خوش اخلاق اور باتمیز بچے ہو۔ تیار بھی ایسے ہو کر باہر جاتے ہو جیسے لڑکیاں کسی شادی میں تیار ہو کر جاتی ہیں۔ تم لڑکے سے زیادہ لڑکی لگتے ہو۔ جب وہ ہنس کر کہتا۔ باجی میں لڑکی ہی جیسا تو ہوں دیکھو میرے ہاتھ کیسے اجلے ہیں۔ میں کوئی سخت کام کر بھی تو نہیں سکتا۔ لیکن شبیر ہو تو لڑکے، اپنی ماں کے اکلوتے بیٹے ، اس کے بڑھاپے کا سہارا ہوتو بیٹا کوئی اچھی سی نوکری تلاش کر لو۔ کم از کم کچھ نہ کچھ تو ماں کے ہاتھ پر رکھو۔ وہ بوڑھی ہے۔ اس کی عمر اب کمانے کی نہیں ہے۔ پھر بھی کتنی محنت کرتی ہے تم کو اپنی ماں کے بڑھاپے کا خیال نہیں آتا۔ اس کو آرام کی ضرورت ہے – وہ اس نصیحت کو بھی ہنس کر ٹال دیتا۔ باجی یہ سب اماں کا اپنا کیا ہے، کیوں گھر بار گروی رکھا۔ کیوں اتنا قرضہ لیا۔ ہم کوبھی در بدر کیا۔ گاؤں میں تو ہماری عزت تھی اور یہاں ان کی غلطیوں کی وجہ سے میں اور میری بہن دوسرے کے در پر پڑے ہیں۔ اب یہ قرضہ بھی خود اتاریں گی۔ ویسے بھی میں کوئی سخت کام نہیں کر سکتا۔ میٹرک پاس ضرور ہوں۔ سارا دن کے کام کے کتنے مل جائیں گے۔دس بارہ ہزار – میں لڑکوں کوکمپیوٹرسکھا کر اس سے زیادہ کما لیتا ہوں۔ میرا اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ اپنے لئے ہر ماہ اچھے اچھے کپڑے لیتا ہوں۔ مجھے نت نئے فیشن کے لباس کا شوق ہے۔ بے شک ماں کو کچھ نہیں دیتا مگر میں اپنی اماں اور بہن کے اوپر بوجھ بھی نہیں ہوں۔ شبیر کی اپنی منطق تھی وہ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا تھا۔ برینڈڈ لباس اور جوتے نت نئے مہنگے موبائل فون اور اعلی کوالٹی کے پر فیوم … اس کے شوق امیر زادوں جیسے تھے۔ پھر بھلاوہ کسی دکان یا ہوٹل پر سیلز مین کیسے ٹھہر سکتا تھا۔ باہر لوگ اس کو کسی امیر آدمی کا فرزند سمجھتے تھے، اس کے دوست بھی امیر زادے تھے۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر آتے تاہم اس کی اچھی عادات اور اچھے اخلاق کی وجہ سے ہم کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔اپنی والدہ اور بہن سے بھی عزت سے بات کرتا اور مجھ سے تو بہت زیادہ عزت و احترام سے پیش آتا تھا۔ میں جو کام کہتی کبھی انکارنہ کر تا فورا کر دیتا۔ ایک روز باتوں باتوں میں اس نے کہا۔ باجی اگر آپ لوگوں کی کسی ٹی وی پروڈیوسر سے واقفیت ہو تو مجھے ٹی وی ڈرامے میں کام دلوا دیں۔ مجھے ٹی وی ڈرامے میں ادا کاری کا بہت شوق ہے۔ اتنا خوبصورت ہے کہ اس کو اگر کسی پروڈیوسر سے ملادیں شاید اس کی قسمت کھل جائے۔ انہی دنوں میری ایک دوست ہمارے گھر آئی وہ ٹی وی پروڈیوسر تھی۔ میں نے اس سے اس لڑکے کا تذکرہ کیا۔ کہنے لگی میرے پاس بھیجنا، دیکھوں گی، اگر اسے چانس مل گیا تو تعاون کروں گی۔ فی الحال میرے بیٹے کی شادی ہے میں چھٹی پر ہوں کچھ دنوں بعد بھجوانا۔ شبیر کو بھی بتایا کہ کسی سے بات کی ہے۔ وہ بہت خوش ہوا روز پوچھتا۔ باجی کب بھیجیں گی ٹی وی والوں کے پاس۔ اتفاق سے انہی دنوں میرا مارکیٹ جانا ہوا۔ کچھ فوری خریداری کرنی تھی۔ مغرب کا وقت ہوا تو مجھے فرصت ملی اور میں نماز کے بعد بیٹے کے ہمراہ مارکیٹ چلی گئی۔ گاڑی ایک جگہ روک کر اتری ایک بہت خوبصورت نازک سی ہستی سامنے آگئی۔ جس نے چمکدار ستاروں والا جوڑا پہنا ہوا تھا اور زیور بھی سر پر دوپٹہ بھی گوٹے کنارے والا …. چہرہ میک اپ سے ایسا حسین کہ سنگھار نے چار چاند لگا دیئے اور جھیل جیسی آنکھیں گہری سیاہ چمکتے تاروں کی مانند کا جل بھری۔ میں نے حیرت سے اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اللہ کی شان اتنی خوبصورت دوشیزہ نو خیز خوشبو میں بسی جیسے گلاب کلی ہو۔ مگر کیا یہ تیسری جنس ہو سکتی ہے؟ نہیں نہیں اگر ایساہے تو یہ قدرت کا بہت بڑا ستم ہے۔ ابھی میں حیرتوں کے سمندر میں گم تھی کہ ایک سفید نازک سا چوڑیوں بھرا ہاتھ میرے سامنے پھیل گیا اور مانوس سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ باجی اپنے بچوں کا صدقہ اللہ آپ کو خوش رکھے، اس کے مقناطیسی حسن سے متاثر ہو کر بے اختیار ہاتھ پرس میں چلا گیا۔ میں نے پچاس کا نوٹ نکالا۔ تب ہی اگلے لمحے ایک جھٹکا سالگا جیسے مجھے کچھ یاد آ گیا۔ یہ یہ تو شبیر ہے۔ نہیں شاید اس کی صورت جیسی کوئی صورت ہو، مگر آنکھیں وہی تھیں- پھر آواز دسیوں بار کی سنی ہوئی سماعت میں سمائی ہوئی۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا اس کا ہاتھ ابھی تک میرے سامنے پھیلا ہوا تھا۔ شبیر کیا یہ تم ہو نہیں میری آنکھیں دھو کہ کھا گئی ہیں۔ لیکن میری آنکھیں دھو کہ کیسے کھا سکتی ہیں۔ ابھی میں نے اسے پھیلے ہوئے ہاتھ کی طرف پچاس کا نوٹ بڑھایا ہی تھا کہ ایک اور گاڑی بالکل قریب آکر رکی۔ ایک نوجوان نے ہزار روپے کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور اپنے برابر والی نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کار کا دروازہ کھولا۔ وہ حسین دوشیزہ کا سوانگ بھرا ہوا لڑ کا، اس کار میں بیٹھ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا اور میں آنکھیں ملتی رہ گئی ۔ کہ یہ میں نے کیا خواب دیکھا تھا، یا حقیقت تھی۔ اتنے میں میرا بیٹا خریداری کر کے آگیا اور کار میں بیٹھ گیا۔ امی جو آپ نے لکھ کر دیا سب سودا لے لیا ہے۔ یاد کر لیں بھی کچھ اور تو لینا نہیں، بس اب گھر چلو اس روز میں کار سے بس اتری ہی تھی کہ دوبارہ بیٹھ گئی۔ مجھ میں سکت نہ تھی کہ کچھ اپنی مرضی کا خرید نے بازار کے اندر جاؤں۔ گھر آ کر بھی میں گم سم تھی۔ شبیر کی ماں اور بہن اپنی اپنی ڈیوٹی دے کر گھر آچکی تھیں اور عشاء کی نماز کیلئے وضو کر رہی تھی۔ لیکن شبیر گھرپر نہیں تھا۔ میں نے پوچھا۔ افروز شبیر کہاں ہے، وہ گھر پر نہیں ہے کیا؟ بی بی …. وہ اپنے کام پر چلا گیا ہے۔ جانے سے پہلے آپ کو آواز دی تھی کہ باجی کوئی سودا منگوانا ہے لیکن آپ گھر پر نہ تھیں، اسے دیر ہورہی تھی ۔ ڈیوٹی کا وقت ہو گیا تھا تبھی چلا جی چاہا۔ اماں کو سب کہہ دوں مگر میں نے زبان بند کر لی سوچا اس نیک عورت کو اگر چہ پتہ نہیں کہ اس کا بیٹا کس قسم کی ڈیوٹی دیتا ہے تو اسے بہت صدمہ ہوگا۔ ۔ بیٹے کو بتانا ضروری تھا۔ میں نے اسے سارا احوال بتایا تو اس نےکہا۔ امی ان لوگوں سے کہیں کوارٹر خالی کر دیں۔ تمام محلہ جانتا ہے یہ ہمارے گھر سے نکلتے ہیں۔ کپڑے بھی ٹھیک ٹھاک پہن کر باہر جاتے ہیں۔ کل بیٹے کی سرگرمیوں سے محلے دار آگاہ ہوں گے تو ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ یہ حلیے سے ملازم نہیں لگتے۔ سب ہی سمجھتے ہوں گے کہ ہم نے اپنے رشتہ داروں کو رہائش دی ہوئی ہے۔ خدارا اپنی نیک نامی کا خیال کریں بہت ہوگئی خدا ترسی بس کل ہی ان کو نکا لیے۔ بے چھت، بے آسرا سمجھ کر اپنےگھر کی پناہ دے کر پھر نکال دینے سے میرا دل کانپ رہا تھا کیونکہ خدا کا خوف آرہا تھا۔ جبکہ ان کی طرف سے ہم کو کسی طرح بھی شکایت کا موقع نہ ملا تھا۔ بلکہ انہوں نے کچھ آرام ہی پہنچایا تھا۔ یوں بھی سرونٹ کوارٹر خالی پڑا رہتا تھا۔ میں کبھی ان کو نہ نکلتی اللہ کی خوشنودی سمجھ کر نیکی کے خیال سے رہنے دیتی ، اگر میں نے شبیر کو اپنی آنکھوں سے مارکیٹ کے اشارے پر تیسری جنس کا سوانگ بھرے اور ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے نہ دیکھا ہوتا، لیکن یہ بھیک نہیں مانگ رہا تھا۔ ایک قیمتی کار والے کا معنی خیز اشارہ بے معنی نہ تھا۔ اب آدھی رات کے بعد لوٹ کر آنے کا مطلب؟ میری سمجھ میں آچکا تھا۔ شکل وصورت سے معصوم ایک بے ضررلڑکے کو جو اپنی بوڑھی ماں کا واحد سہارا تھا۔ نجانے کب اور کس نے اس راہ پر لگا دیا تھا۔ جس راہ پر چل کر قوم لوط بندر بن گئی تھی ۔ خدا ایسے لوگوں کو راہ ہدایت دے جو نوخیز لڑکوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ غریب لڑکیوں کا حسن ہی بکاؤ نہیں ہوتا۔ حسین نو عمرلڑکوں کا حسن بھی بکتا ہے جس کے بدلے قیمتی پر فیوم قیمتی موبائل اور اعلی برینڈڈ ملبوس خرید کر وقتی عیش اور مستقل دوزخ کا سودا ہو جاتا ہے۔ آج کراچی اور وطن عزیز کے دیگر شہروں کے ہر چوراہے پر شام ہوتے ہی ایسے کئی مرد خسروں کا سوانگ بھرے بھیک کیلئے ہاتھ پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ تب میں سوچتی رہ جاتی ہوں کہ ہمارے وطن کی اخلاقی اقدار کو کیا ہو گیا ہے. ہم کس سمت جا رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہزاروں خسرے ایک دم کیسے برساتی مینڈکوں کی طرح نکل کر سڑکوں اور چوراہوں پر رونق بازاروں کے چپے چپے پر نظر آنے لگے۔ کیا ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں خسرے اور ہیجڑے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ ہجوم کی صورت میں ملک کے ہر شہر میں پھیلتے چلے جارہے ہیں اور کیا واقعی یہ اصل میں تیسری جنس ہیں؟