Sunday, January 19, 2025

Kis Baat Ka Badla Liya | Teen Auratien Teen Kahaniyan

مجھے ڈراموں میں حصہ لینے کا بہت شو ق تھا۔ اسکول میں جب بھی کوئی فنکشن ہوتا، میں پیش پیش ہوتی۔ ٹیچرز بھی میرے اس شوق کو سمجھتی تھیں اور وہ مجھے ٹیبلو میں کوئی نہ کوئی کردار دے دیا کرتی تھیں۔
کالج میں داخلہ لیا تو اپنے اس شوق کو ساتھ لے کر آئی۔ میرا یہ مشغلہ جاری تھا کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ نتیجے میں کالج کو خیر باد کہنا پڑ ا۔
اب روزی کا چکر شروع ہوا۔ ان دنوں جب لڑکے لڑکیاں بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں میں اپنے گھر والوں کی کفالت کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگی۔ انہی دنوں تھیٹر کی ایک نمایاں شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ڈرامے میں کام کرنے کی استدعا کی۔ انہوں نے آڈیشن لیا۔ ٹیسٹ کے طور پر اداکاری کرائی اور ’’اوکے‘‘ کر دیا۔ کہا کہ کل آجانا، تمہیں میں اپنے تھیٹر میں شامل کر لوں گا۔
مجھے زمانے کی اونچ نیچ کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ میں نے تو اسکول کالج کے صاف ستھرے اور مقصدی کرداروں میں ادا کاری کی تھی۔ معلوم نہ تھا کہ تعلیمی اداروں کے ڈراموں اور تھیٹر کی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا تھا۔
اسرار بھائی مجھ سے دو برس بڑے تھے اور میرے بہت پیار کرنےوالے بھائی تھے۔ وہ بھی کنبےکی کفالت کی خاطر روز و شب ڈگریاں ہاتھ میں لےکر سڑکیں ناپ رہے تھے۔ جب ان کو بتایا کہ میں نے ایک تھیٹر کمپنی کو جوائن کر لیا ہے تو کمپنی کا نام سنتے ہی وہ چراغ پا ہو گئے۔ بولے ۔تم ہرگز وہاں نہیں جائو گی۔ کام کرنا تو کیا اس سڑک سے بھی نہیں گزرو گی جہاں ان کا آفس ہے۔ جانتی ہو کہ اس تھیٹر میں کس نوعیت کے ڈرامے چلتے ہیں۔
بھائی نے پہلی بار اس قدر درشتگی سے بات کی کہ میرے سارے خواب بکھر کر رہ گئے ۔ میں رونے لگی تب اسرار بھائی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ۔ٹھیک ہے اگر تمہیں اداکاری کا اتنا ہی شوق ہے تو ہم خود اپنی ایک ڈرامہ کمپنی بنا لیتے ہیں۔ جہاں اچھے فنکاروں کو موقع دیں گے اور معیاری ڈرامے پیش کریں گے۔ یہ ایک ناممکن سی بات لگتی تھی پھر بھی میں خوش ہو گئی اور بھائی کی بات کا یقین کر لیا۔
انہوں نے گھر کے گیسٹ روم کو آفس بنا دیا اور مجھے آفس انچارج بنا کر وہاں بٹھا دیا۔ اخبار میں اشتہار دے دیا کہ اداکاری کا شوق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں یہاں آئیں ہم انہیں اداکاری سکھائیں گے اس طرح ان کا مستقبل روشن ہو گا۔
میں اب اپنی ڈرامہ کمپنی کی انچارج تھی اور بھائی اکیلا ہی حالات زمانہ سے نبرد آزما تھا۔وہ مجھے نوکری کی تلاش میں دھول بھری سڑکوں پر دھکے کھانے سے بچانا چاہتا تھا۔
میری دل جوئی کے لئے شام کو میرے ساتھ آفس میں بیٹھتا اور یوں شوق اداکاری جاری تھا۔ ہمارے محلے کے کچھ لڑکے اور لڑکیاں بھی ہماری ڈرامیٹک سوسائٹی کے ممبر بن گئے۔ ہم وقتاً فوفتاً ڈرامے کراتے ۔ اسکرپٹ ہمارے ممبر لکھتے جنہیں ڈرامہ لکھنے کا شوق تھا۔ یوں ہمارا ایک حلقہ بن گیا۔
آہستہ آہستہ ہماری ڈرامیٹک سوسائٹی مشہور ہوتی گئی۔ ہمیں اپنے نئے ڈرامے کے لئے نئے چہروں کی تلاش تھی۔ اخبار میں اشتہار دیا تو اگلی صبح دو لڑکیاں انٹرویو دینے آگئیں۔ ایک نے اپنا نام زارا اور دوسری نے شازیہ بتایا۔ شازیہ کافی خوبصورت اور سلجھی ہوئی تھی اور کسی اچھے گھرانے کی لگتی تھی تاہم غربت دور کرنے کو وہ ادھر آگئی تھی۔ زارا اس کی سہیلی تھی وہ شازیہ سے کافی مختلف تھی،فیشن ایبل اور بے باک قسم کی ۔
دونوں میٹرک کی طالبات تھیں اور اداکاری کے شوق میں یہاں آگئی تھیں۔ مجھے شازیہ کے رکھ رکھائو اور معصومیت نے متاثر کیا ۔تھوڑی سی گفتگو ہوئی ۔ ان کی اداکاری کی صلاحیت جانچنے کی خاطر اگلے دن انہیں پھر بلا لیا۔
دوسرے روز شازیہ آگئی لیکن کسی وجہ سے زارا نہ آسکی۔ اس روز میں نے شازیہ سے تفصیلی بات کی۔ اس نے بتایا کہ اسے تھیٹر میں کام کرنے کا کوئی خاص شوق نہیں لیکن زارا کے اکسانے پر آگئی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد اداکارہ بننا نہیں ہے،وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک بھولی بھالی لڑکی ہے اور بہت جلد کسی کے جال میں پھنس سکتی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ انسان کو اپنے رجحان کے مطابق کوئی پیشہ اختیار کرنا چاہیے کسی کے کہنے سننے پر نہیں … لہٰذا تم اپنی تعلیم جاری رکھو اور اداکاری کے میدان میں فی الحال قدم نہ رکھو۔ تمہاری عمرا بھی چھوٹی ہے یہاں قدم قدم پر دھوکے ہیں۔ تم ابھی صرف پندرہ برس کی ہو… اگر اداکاری کو پیشے کے طور پر اپنانا بھی ہے تو ابھی عمر پڑی ہے۔ ذرا سمجھ دار ہو جائو پھر ادھر کا رخ کرنا۔ جانے کیوں میں نہیں چاہتی تھی کہ شازیہ کسی تھیڑ کا رخ کرے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ تعلیم جاری رکھے اور بعد میں فیصلہ کرے کہ اس کو کیا کرنا ہے۔
میرے سمجھانے پر وہ سمجھ گئی۔ غالباً وہ خود بھی یہی چاہتی تھی۔ اس نے دوبارہ ہماری ڈرامیٹک سوسائٹی کا رخ نہ کیا البتہ وہ کبھی کبھی مجھ سے ملنے گھر آجاتی۔ وہ بہت محنت اور لگن سے پڑھائی کر رہی تھی۔ اس کا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا لیکن… وہ چونکہ بے حد غریب گھرانے کی لڑکی تھی لہٰذا ایف ایس سی کرنے کے بعد نرسنگ میں داخلہ لے لیا اور پھر نرسنگ ٹریننگ میں مشغول ہو گئی۔
زارا البتہ دھن کی پکی نکلی۔ وہ ہمارے آفس آتی رہی۔ اس نے بہت اصرار کر کے ہمارے ایک ڈرامے میں ایک کردار حاصل کر لیا اور خوب نبھایا۔ اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور پھر اسے وقتاً فوقتاً کردار ملنے لگے۔
اس دوران شازیہ نے ٹریننگ مکمل کر لی اور ایک اسپتال میں بطور نرس ملازمت کر لی۔ وہ اپنی ملازمت سے مطمئن نہ تھی۔ کہتی تھی تنخواہ کم اور محنت زیادہ ہے۔ دو سال کام کرنے کے بعد بالآخر اسے کویت جانے کا موقع مل گیا۔ وہ جاتے ہوئے ہم سے مل کر گئی وعدہ کیا کہ رابطہ رکھے گی۔
شازیہ امی جان کو بہت پسند آئی تھی۔ انہوں نے اسے بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اس کے کویت جانے سے قبل اس کے گھر جا کر شازیہ کے والدین سے اسرار بھائی کے لئے بات پکی کر آئیں شادی دو سال بعد ہونا قرار پائی۔
اس دوران اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ اسرار بھائی سے بھی رابطہ رکھا کیونکہ میرا بھائی شازیہ کو بہت چاہنے لگا تھا بلکہ وہ اس کا دیوانہ ہو گیا تھا یہ کہوں تو صحیح ہو گا۔
ہماری ڈرامیٹک سوسائٹی کی طرف سے ایک ڈرامہ پیش کرنے کے لئے تیار تھا۔ تاریخ بھی انائونس ہو چکی تھی کہ اچانک ہیرو صاحب بیمار پڑ گئے۔ اسٹیج ڈرامے کی ہیروئن زارا تھی۔ ڈرامہ پیش ہونے میں صرف ایک دن باقی تھا اس کا اسکرپٹ اسرار بھائی نے لکھا تھا۔ اب اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ اسرار بھائی خود ہیرو کا کردار سنبھال لیں کیونکہ انہیں مکاملے ازبر تھے اور ریہرسل بھی وہی کراتے رہے تھے۔
ہیرو کی جگہ انہوں نے سنبھال لی اور وقت پر ڈرامہ پیش کر دیا گیا جو بہت کام یاب رہا۔
اس ڈرامے کے آخر میں انجام کار ہیرو اور ہیروئن کی شادی ہو جاتی ہے۔ اس سین کی کافی تصاویرلی گئیں جس میں زارا دلہن بنی بیٹھی تھی اور اسرار دولہا بنے ہوئے تھے۔
یہ محض ایک سین تھا ڈرامے کامگر اس سین نے ایسی قیامت ڈھائی کہ اسرار بھائی کی دنیا اجڑ گئی۔ شاید کسی کو یقین نہ آئے تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
کئی دن سے ہم کویت میں شازیہ سے رابطہ کر رہے تھے اس کا کوئی جواب نہ آتا تھا۔ اچانک ہی اس نے تمام رابطے ختم کر دیئےتھے اور وجہ بھی نہ بتائی تھی۔ ہم پریشان تھے خاص طور پر اسرار بھائی حد درجہ مضطرب تھے۔ ان کے گھر والوں سے رابطہ کیا، انہوں نے بھی فون بند کردیا… سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا ہوا ہے۔ زارا سے
صورت حال بیان کی۔ وہ بولی۔ اب آپ لوگ شازیہ کو بھول جائیں کیونکہ اس نے وہاں ایک دولت مند آدمی سے بندھن باندھ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زارا نےمجھے اشاروں میں عندیہ دیا کہ اسرار کو راضی کرو وہ مجھ سے شادی کر لے کیونکہ تمہارا بھائی ہیرا ہے اور اگر اس نے مجھے قبول کر لیا تومیں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھوں گی۔
زارا ایک عام سی لڑکی تھی۔ وہ مجھے اور بھائی کو کسی طرح بھی متاثر نہ کر سکی تھی۔ امی جان اسے بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔ میں نے اس کی بات پر کان نہ دھرے… وقت گزرتا رہا… چار سال بیت گئے۔ بالآخر والدہ کے اصرار پر بھائی کو اپنے ہی خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کرنی پڑی۔ سمیرا میٹرک پاس تھی مگر گھریلو اور سگھڑ لڑکی تھی۔ امی کا بہت خیال رکھتی تھی۔ اس کے آنے سے ہمارے گھر کے سکون میں اضافہ ہوا۔ بھائی جان نے بھی اسے قبول کر لیا گرچہ ان کے دل سے شازیہ کا نقش مٹا نہیں تھا۔
ان دنوں بھابی جان اپنے تیسرے بچے کے جنم کے سلسلے میں اسپتال میں داخل تھیں کہ وہاں بھابی کے کمرے میں ایک نرس کی ڈیوٹی لگی۔ یہ جانی پہچانی صورت تھی۔ غور کیا تو حیرت زدہ رہ گئی۔ یہ شازیہ تھی ،وہی لڑکی کہ جسے میں ہی نہیں بھائی بلکہ سارا گھر ابھی تک نہیں بھولا تھا۔
میر ی اس سے باتیں ہوئیں تو حقیقت کھلی کہ اس نے کیوں ہم سے رابطہ ختم کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی دوست زارا نے اسے ایک تصویر کویت ارسال کی تھی جس میں اسرار دولہا اوروہ دلہن بنی ہوئی تھی۔ زارا نے ساتھ خط بھی تحریر کیا تھا کہ اس کی شادی اسرار سے ہو گئی ہے لہٰذا استدعا ہے کہ اب تم اس سے رابطہ نہ کرنا اور اس کا خیال دل سے نکال دینا ورنہ ہم دونوںکی زندگی برباد ہو جائے گی۔
اپنی سہیلی کی التجا اور تصویر دیکھنے کے بعد اس نے یہی فیصلہ کیا کہ اب اسے اپنی سہیلی اور اسرار دونوںکو ڈسڑب نہ کرنا چاہیے اور ہمیشہ کے لئے ان کی زندگی سے نکل جانا چاہیے۔ اس نے اپنے والدین کو بھی سختی سے ہدایت کر دی کہ اسرار نے اس کے ساتھ بے وفائی کی ہے لہٰذا اب ان لوگوں کے ساتھ بالکل واسطہ نہیں رکھنا ہے۔ ملنے کی کوشش کریںیا فون کریں تو ملنا نہیں اور نہ جواب دینا۔
جب تصویر کا اصل رخ سامنے آیا تواسرار بھائی بہت روئے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا… بے شک شازیہ نے شادی نہیں کی تھی لیکن ان کے درمیان بھابی سمیرا کےساتھ ساتھ ان کے تین معصوم بچے حائل ہو چکے تھے لہٰذا … اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ شازیہ ایسے موڑ پر ملی تھی کہ آگے سڑک ختم ہو چکی تھی۔ منزل کیوں کر مل سکتی تھی۔
دونوں پل بھر کو مل سکے اور پھر ان کی راہیں جدا ہو گئیں مگر یہ میں ہی جانتی ہوں کہ اسرار اور شازیہ اس بار کس دل سے جدا ہوئے تھے۔ اللہ جانے زارا کو کیا ملا میرے بھائی اور اپنی سہیلی کی دنیا اجاڑ کر۔
سچ ہے کچھ سہیلیاں جن پر احسان کرو وہ ناگن بن کر ڈس لیتی ہیں۔ اگر خود خوشیاں نہیں پا سکتیں تو دوسروں کی خوشیاں حسد میں اپنے پائوں تلے روند ڈالتی ہیں۔
آج بدنام زمانہ زارا گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر بھی تشنہ لب اور ناکام و نامراد ہے۔ وہ اپنا گھر آج تک نہیں بسا سکی۔ اللہ ایسی سہیلیوں سے ہر لڑکی کو بجائے ۔
(س۔ الف… کراچی)

Latest Posts

Related POSTS