ہمارے گائوں میں جب نیا نیا اسکول کھلا تو کچھ والدین نے اپنی بچیوں کا داخلہ کرادیا۔ لیکن میرے والد نے ہمیں اسکول بھیجنے سے انکار کردیا۔ جن لوگوں نے اپنی لڑکیوں کا داخلہ کروایا تھا یہ اسکول ان ہی کی کوششوں سے کھلا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا تعلق شہر سے تھا یا پھر ان کے رشتے دار شہروں میں رہائش پذیر تھے۔ انہی میں چچا اظہار بھی تھے۔ چچا اظہار کا گھر ہمارے گھر کے قریب تھا۔ ان کے بڑے دو بھائی مدت سے اپنی اراضی چچا اظہار کو فروخت کرکے شہر جا آباد ہوئے تھے جہاں ان کے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔ یونس ان ہی کا بیٹا تھا۔
جب تعلیم حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں تو نئی نسل کے پڑھنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ چچا اظہار کے بھتیجے بھی پڑھ لکھ کر کہیں سے کہیں پہنچ گئے، ان میں سے بڑے بھائی کے لڑکوں میں سے ایک پولیس آفیسر اور ایک مجسٹریٹ بن گیا۔ دوسرے بھائی کے بیٹے ڈاکٹر اور وکیل ہوگئے تو چچا اظہار نے تسلیم کرلیا کہ بھائیوں کا شہر جا بسنے کا فیصلہ صحیح تھا۔ ان کی اولاد کی زندگی بن گئی تھی۔ انہوں نے دولت کے ساتھ ساتھ نام بھی کمایا تھا۔ تب انہیں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا خیال آیا۔ لیکن وہ اپنی اراضی چھوڑ کر شہر جا بسنے کی بجائے اپنے قصبے میں ہی رہے۔
انہوں نے حکومت کو اسکول کھولنے کے لئے اپنی اراضی میں سے قطعۂ زمین نذر کیا۔ اسکول قائم ہوگیا تو سب سے پہلے چچا اظہار نے اپنی بیٹی کو اسکول میں داخل کروادیا۔ یہ بچی چار جماعتیں اپنے تایا کے پاس شہر جاکر پڑھ کر آئی تھی لہٰذا پانچویں میں یہ پہلی اور اکلوتی طالبہ تھی۔ میں نے بھی اپنی ممانی سے گھر پر پڑھا تھا۔ ماموں شہر سے عظمیٰ ممانی کو بیاہ کر لائے تھے اور وہ اسکول میں ٹیچر تعینات ہوگئی تھیں۔ ممانی نے والد سے کہا کہ پانچویں میں طالبات کی تعداد کم ہے لہٰذا کچھ اور بچیوں کو پڑھائی کے لئے آمادہ کرنا چاہیے تاکہ باقاعدہ کلاس شروع کی جاسکے۔ آپ کی بچی نے بھی چار جماعتیں مجھ سے پڑھ لی ہیں اس کو داخل کرادیجئے۔ آپ کے پڑوسی ماسٹر اطہر کی دو بچیاں اور دو ان کی بھانجیاں داخلہ لے رہی ہیں یوں چھ لڑکیوں سے پانچویں کلاس کا اجرا ہوجائے گا۔ ابتدائی کلاسوں میں چھوٹی بچیاں پڑھنے آرہی تھیں مگر پانچویں جماعت کا کلاس روم خالی پڑا تھا۔ ہماری ممانی عظمیٰ کی کوششوں سے پانچویں کلاس بھی آباد ہونے لگی، ورنہ ان کی تعیناتی کھٹائی میں پڑ جاتی۔ وہ کوششوں میں لگی تھیں کہ مطلوبہ تعداد طالبات کی پوری ہوجائے۔ بڑی مشکلوں سے والد صاحب میرے داخلے کے لئے مانے تھے۔
جب والد صاحب مان گئے تو ممانی بہت مشکور ہوئیں اور میں بھی خوش تھی کہ ماسٹر اطہر کی بھانجیوں کے ہمراہ اسکول جارہی تھی۔ ماسٹر اطہر کی بیٹی منورہ میری بچپن کی سہیلی تھی۔ ہم ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ اسلم اپنی بہن منورہ سے دو سال بڑا تھا۔ وہ بھی بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ یونس، اسلم کا دوست تھا، یونس بھی ہمارے ساتھ ہی کھیلتا تھا۔ ذرا باشعور ہوئے تو اسلم اور یونس نے ہمارے ساتھ کھیلنا ترک کردیا۔ اب وہ محلے کے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور ہم لڑکیوں سے بات چیت سے بھی گریز کرتے تھے۔پانچویں پاس کرلی تو ہم سب چھٹی جماعت میں آگئیں۔ میری منورہ سے دوستی اور گہری ہوگئی۔ وہ میرے گھر آجاتی اور میں اس کے گھر چلی جاتی۔ ساتویں میں مجھ پر والد صاحب نے پابندی لگادی کہ میں کسی کے گھر نہیں جائوں گی۔ اسکول کے علاوہ میرا کہیں آنا جانا ممکن نہیں رہا۔ جب تک والد صاحب کی اجازت نہ ہوتی ہم کسی رشتہ دار کے گھر بھی نہ جاتے۔
امی اور ممانی تو اس بات کو ہی غنیمت جانتی تھیں کہ والد صاحب نے ہمیں اسکول جانے سے نہیں روکا تھا۔ منورہ میرے گھر آسکتی تھی لیکن میں اس کے گھر نہیں جاسکتی تھی۔ تاہم روز ہی اسکول میں ہماری ملاقات ہوجاتی تھی۔ ہمارے گائوں کے پاس ایک بہت بڑا میدان تھا۔ یہاں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا۔ گائوں کے لوگ اس میلے میں جوق درجوق جاتے۔
یہ بسنت رت تھی اور بیساکھی کا میلہ زوروں پر تھا۔ منورہ اسکول آئی تو مجھے بتایا کہ آج وہ اپنی بہنوں کے ساتھ میلے پر جانے والی ہے۔ میں نے حسرت سے کہا۔ کاش میں بھی میلہ دیکھنے جاسکتی۔ وہ بولی، تم ہمارے ساتھ چلو۔ میں کیسے جاسکتی ہوں، ابا کی اجازت نہیں ہے۔ ارے تمہارے ابا تو لاہور گئے ہوئے ہیں۔ تم اگر ہمارے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے میلے پر چلی جائوگی تو کون ان کو بتائے گا۔ اپنی امی سے اجازت لے لو، کہو تو میں آکر ان سے بات کرلوں۔ تم آجانا مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ اجازت دیں گی کیونکہ میلے سے تو رات دیر کو لوٹنا ہوگا۔ تمہیں جلدی آنا ہوا تو جلدی آجانا ہم تمہیں جلدی واپس پہنچادیں گے۔
غرض منورہ نے مجھے اس قدر اکسایا کہ میرے دل میں بھی میلہ دیکھنے کی امنگ جاگ اٹھی۔ گھر جاکر امی سے کہا مجھے میلے پر جانا ہے۔ والدہ نے جواب دیا۔ بیٹی توبہ کر۔ اگر تیرے ابا کو پتا چل گیا کہ تو میلہ دیکھنے گئی تھی وہ تجھے جان سے مار دیں گے، جانتی نہیں وہ کتنے سخت مزاج ہیں۔ امی کے انکار پر بیٹھی میں رو رہی تھی کہ منورہ اور اس کی بہن آگئیں۔ امی سے منتیں کرنے لگیں کہ خالہ جان سمعیہ کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں، امی ساتھ جارہی ہیں، پھپھو بھی اور ہمیں اسلم بھائی لے جارہے ہیں۔ امی نے کہا کہ اس کے ابو کی اجازت نہیں ہے ان کو علم ہوگیا تو سخت غصہ ہوں گے۔
ہم ایک گھنٹے تک واپس آجائیں گے۔ منورہ نے بتایا۔ امی نے بہت مجھے دلگرفتہ دیکھ کر کہا۔ ٹھیک ہے۔ چلی جائو لیکن ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رکنا۔ جلد لوٹ آنا۔ منورہ کو بھی تاکید کردی کہ تمہارے اصرار پر اجازت دے رہی ہوں مگر تم جلد واپس آجانا۔
شام کو منورہ اور اس کی بہن مجھے لینے آگئیں۔ میلہ واقعی قابل دید تھا۔ وہاں ایسی اشیاء کے اسٹال تھے کہ آنکھیں خیرہ ہورہی تھیں۔ بہت سی چیزوں کو دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ ان کو خرید لیں۔ ایک گھنٹے کی اجازت ملی تھی، گھنٹہ تو پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ میرا دل گھبرانے لگا اور میں نے منورہ سے کہا۔ مجھے واپس گھر جانا ہے۔ وہ بولی، ابھی تو ہم نے آدھا میلہ بھی نہیں دیکھا۔ اتنی جلدی جانے کا کہہ رہی ہو۔کتنی مشکل سے تو اجازت ملی ہے تھوڑی دیر اور ٹھہرو۔ کٹھ پتلیوں کا تماشہ تو دیکھ لو۔ میں نے کہا نہیں منورہ والدہ غصے ہوں گی اور وہ آئندہ کبھی تمہارے ساتھ کہیں جانے کی اجازت نہ دیں گی، ان کا اعتبار کھونا نہیں چاہتی، مجھے گھر جانا ہے۔ کہنے لگی اچھا میں اسلم بھائی سے کہتی ہوں وہ تم کو گھر چھوڑ آتے ہیں۔ اسلم اور یونس میلہ دیکھنے میں محو تھے مگر میری خاطر اسلم کو میلہ چھوڑ کر آنا پڑا۔
ہم پیدل ہی گئے تھے اور پیدل ہی لوٹ رہے تھے۔ اسلم میرے ساتھ تھا، ہم باتیں کرتے گھر کی طرف جارہے تھے۔ جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اس نے کہا۔ سمعیہ تمہیں یاد ہے کہ ہم بچپن میں ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ہاں اسلم مگر جب ہم بڑے ہوئے تو ہم پر پابندی لگ گئی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اسلم کہ ذرا بڑے ہوجائو تو ملنے سے بھی روک دیتے ہیں ہمارے بڑے۔
بس بڑوں کی مرضی۔ دیکھو مگر آج ہمیں اللہ نے ملانا تھا تو تم میلہ دیکھنے آگئیں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، کیا تمہیں بھی مجھ سے مل کر خوشی ہورہی ہے۔
ہاں۔ ہم بہت دنوں بعد ملے ہیں نا اس لئے۔ اگر تمہاری شادی ہوگئی تو ہم پھر کبھی نہیں مل سکیں گے نا۔ ہاں مگر میں شادی ہی نہ کروں گی۔
شادی تو سب لڑکیوں کی ہوتی ہے تمہاری بھی ہوگی۔ تم کرو یا نہ کرو۔ شادی لڑکیاں خود تھوڑا ہی کرتی ہیں ان کے ماں باپ کرتے ہیں۔ ہاں مگر کسی لڑکے کے ماں باپ رشتہ لاتے ہیں تب ہی تو ہوتی ہے لڑکیوں کی شادی۔ میں نے بے ساختہ ایک بات کہی اور اسلم نے مجھے معنی خیز انداز میں دیکھا جیسے وہ میری اس بات کا مطلب سمجھ گیا ہو۔ وہ بولا۔ میں اگر اپنی امی کو تمہارے گھر بھیجوں رشتے کے لئے تو…؟
ابھی یہ بات اس نے منہ سے نکالی ہی تھی کہ میرے والد صاحب سامنے گلی سے آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ ہم گھر سے نزدیک آچکے تھے۔ میں دوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی اور اسلم اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ والد کے یہ گمان میں نہ تھا کہ میں میلے میں گئی تھی اور اسلم مجھے گھر چھوڑنے آگیا تھا۔ وہ یہی سمجھے کہ ہم ملنے کے لئے گھر سے نکلے تھے اور ان کو دیکھ کر دوبارہ گھروں میں چلے گئے۔ پس گھر آتے ہی جوتا اتار لیا اور مجھے خوب مارا۔
امی مجھے خاموشی سے پٹتا دیکھتی رہیں کیونکہ میلے پر جانے کی اجازت انہوں نے دی تھی اور وہ اب اپنی شامت بلوانا نہ چاہتی تھیں۔ میلے کا نام لیتی تو شاید والد ان کو طلاق ہی دے ڈالتے۔ میرے والد غصے کے بہت تیز تھے۔ خاموشی میں ہی عافیت تھی، میں نے مار کھالی مگر لب نہ کھولے کہ اگر میلے کا نام لیا تو پھر کسی کی خیر نہ ہوگی۔ میلے میں جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ والد صاحب نے میرا اسکول جانا بند کردیا، اب میری دونوں بہنیں تو جاتی تھیں مگر میں اسکول نہیں جاسکتی تھی جس کا مجھے شدید دکھ تھا۔
میرے رونے دھونے کا اثر اب کس پر ہونا تھا، امی نے کہا۔ بدبخت میں نے منع کیا تھا کہ میلے پر نہ جا، پر تو نے ہی اصرار کیا اور اپنی سہیلی کو وکیل کردیا۔ اب بھگت اپنی ضد کو، میں کیا کروں، کیا مجھے گھر سے نکلوانا ہے تجھے…خدا کرے ان کو کبھی تیرے میلے پر جانے کی خبر نہ ہو ورنہ میری بھی خیر نہ ہوگی۔ کسی نے ابا کو نہ بتایا کہ میں میلے پر گئی تھی اور اجازت والدہ نے دی تھی۔ خیر وقت گزر گیا۔ اسلم نے شہر جاکر بی اے پاس کرلیا اور نوکری مل گئی۔ جب وہ لوٹا، اس کی والدہ ایک روز ہمارے گھر میرا رشتہ مانگنے آئیں۔
والد صاحب کو امی نے رشتے کا بتایا کیونکہ ان دنوں وہ میرے رشتے کے لئے فکرمند رہتے تھے۔ اسلم کا نام سنتے ہی وہ بھڑک اٹھے۔ امی نے سمجھایا لڑکا برا نہیں ہے اور یہ برسوں کے دیکھے بھالے لوگ ہیں۔ بچوں کی غلطی معاف کردو۔ بچوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ تم بھلائی کی سوچو اور ہاں کردو۔ یہاں ہماری بیٹی سکھی رہے گی۔ والد مگر اسلم کے نام سے الرجک ہوچکے تھے وہ ایسے بھڑکے کہ قابو کرنا مشکل ہوگیا۔ امی بچاری پریشان ہوگئیں۔ انہوں نے کہا، تم بھی بیٹی کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور یہ سب تم دونوں کی ملی بھگت ہے۔ یہ مردود بے غیرت لڑکی ابھی تک اسلم کے چکروں میں ہے، تبھی اس کا رشتہ آیا ہے اور اس بے غیرت کو بھی کیسے حوصلہ ہوگیا ہے رشتہ بھجوانے
کا۔ جبکہ میں اس کے ساتھ سمعیہ کو گلی میں باتیں کرتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ان لوگوں کو کہہ دو اپنے ذہن سے یہ فتور نکال دیں کہ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ ان کو دیں گے اگر دوبارہ رشتہ مانگنے آئے تو میں اسلم کو شوٹ کردوں گا۔
امی بچاری خاموش، خاوند کی باتیںسن کر کیا کہتیں کہ اصل بات کیا تھی، اب گڑے مردے اکھاڑنے کا مطلب تھا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا۔ امی نے اسلم کی والدہ کو ساری صورت حال سے آگاہ کرکے منع کردیا۔ منورہ نے بھی ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا تھا۔ یونس، اسلم کا گہرا دوست تھا اور یونس کے والد ابا کے پرانے واقف کار تھے، وہ کبھی کلاس فیلو بھی رہے تھے۔ اسلم نے تمام صورت حال سے یونس کو آگاہ کیا اور مدد کی درخواست کی۔
اس نے تسلی دی کہ دوست تم پریشان نہ ہو میں کچھ کرتا ہوں۔ یونس بھی عجیب آدمی تھا اس نے عجب حل سوچ لیا۔ اپنی والدہ کو کہا کہ اصغر صاحب اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے بہت پریشان ہیں اور آپ بھی میرے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں، تو ان کے گھر کیوں نہیں جاتیں ان کی بیٹی کو دیکھنے۔ یونس کی والدہ بیٹے کے کہنے پر ہمارے گھر رشتہ مانگنے آگئیں۔ والد صاحب واقعی میرے رشتے کے لئے پریشان تھے۔ یونس کے رشتے پر خوش ہو کر انہوں نے ہاں کہہ دی۔
گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں اور جوں جوں شادی کا دن قریب آتا جارہا تھا میں مرتی جارہی تھی۔ یونس نے نجانے کیوں مجھے منتخب کیا تھا جبکہ وہ جانتا تھا کہ اسلم مجھے پسند کرتا ہے۔ یہ بات سوچ کر میں ہلکان ہوتی جارہی تھی، جی چاہتا تھا کسی طرح یونس سے مل کر اس سے پوچھوں کہ جان بوجھ کر تم کیوں مجھے اپنی رفیقۂ حیات بنانے چلے ہو، کہیں تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔ لیکن اس سے ملنا ناممکن تھا۔
آخر وہ دن بھی آگیا جس دن کے خوف سے میں مرتی جاتی تھی۔ بارات آنے کا شور ہوا، میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ بار بار سوچتی تھی اب کیا ہوگا۔ یونس کو معلوم تھا اسلم مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا کہ وہ مجھے بچپن سے پسند کرتا تھا۔ یہ کیسا دوست نکلا کہ اب وہی مجھ سے شادی کررہا تھا۔
وقت نے دکھادیا کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ میں یونس کی دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔ میرا دل دھڑک رہا تھا جب اس نے گھونگھٹ اٹھایا۔ میں شرم و ندامت سے پانی پانی ہو کر زمین میں گڑھنے لگی۔ اس نے میری پریشانی کو بھانپ کر کہا تسلی رکھو۔ اور بچپن کی باتوں کو بھول جائو۔ مجھے معلوم ہے اسلم نے تمہیں چاہا مگر تمہارے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان کا داماد بنے۔ مجھے معلوم ہے کہ تم میلے پر والد کو بغیر بتائے منورہ کے ساتھ گئی تھیں۔ مجھے اسلم نے بتایا تھا کہ اس کے بعد تمہارے ابا نے تم کو بہت مارا تھا، اسکول سے بھی اٹھالیا تھا۔ تب مجھے بہت دکھ ہوا تھا کیونکہ تم بے قصور تھیں اور اسلم کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ وہ محض تمہارے والد کے خوف سے ہی تمہیں چھوڑنے میلے سے چلا آیا تھا۔ تم دونوں نہیں جانتے تھے کہ تمہارے ابا تم لوگوں کو گلی سے آتے ایک ساتھ دیکھ لیں گے۔ مجھے سارا واقعہ معلوم ہے۔
اف میرے خدا سب کچھ معلوم ہے پھر بھی میرا رشتہ مانگا تھا یونس نے… آخر کیوں؟ یہ سوال میرے لبوں پر تھا مگر لب جنبش نہ کر پارہے تھے۔ احساس ندامت نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔
تم کیوں خود کو مجرم سمجھ رہی ہو آخر کیا قصور ہے تمہارا جو خود مجرم سمجھتی ہو؟ بولو۔ کیا کوئی گناہ کیا ہے تم نے… نہیں…نا تو پھر اتنی کیوں گھبرا رہی ہو…؟ جب تم کو اپنا کر میرے دل میں کوئی بوجھ نہیں ہے تو تمہارے دل پر بھی کوئی بوجھ نہ ہونا چاہیے۔ سب کچھ بھلادو۔ آج ہم نئی زندگی کی شروعات کررہے ہیں اور سچ مچ میں نے اس روز کے بعد سب کچھ بھلا دیا۔
مجھے بچپن یاد رہا اور نہ بچپن کی کوئی یاد باقی رہی جبکہ حقیقی زندگی اب شروع ہورہی تھی۔ پرسکون زندگی کے گزرانے میں یونس کی محبت اور اس کی مضبوط شخصیت کا بہت بڑا ہاتھ ہے کہ اس نے مجھے ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی، کبھی ناخوش کرنے والی کوئی بات نہیں کی۔
(س ۔ ی… کراچی)