Friday, October 11, 2024

Kiye Ka Samar

سچ ہے ہر انسان کو اپنے کیے کا ثمر ملتا ہے، جیسی نیت ویسی مراد لیکن ہم میں سے بہت سے انسان ایسے ہیں جو اپنے جذبات کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔ نفس تو بلاشبہ شتر بے مہار ہے، یہ ایک بے لگام گھوڑا اور جب تک عقل اس کو لگام نہیں ڈالتی، یہ انسان کو گناہ کی اتاہ گہرائیوں میں گرا دیتا ہے۔ میں نے بھی اپنے جذبات کو مقدم جانا اور نفس کے ہاتھوں ایسی جلی کہ جل کر راکھ ہو گئی۔ اس جلے ہوئے سیاہ اور بد صورت جسم میں اگر روح توانا اور اجلی ہوتی تو یہ بد صورتی شاید دنیا کے لئے نہ سہی، خود میری ذات کے لئے تو قابل برداشت ہو جاتی لیکن جسم کی اس اذیت سےزیادہ تکلیف میں میری روح کراہتی رہی ہے، اس کی کراہ کوئی نہیں سن سکتا۔ میں جس عذاب میں گرفتار ہوئی، یہ اس عذاب سے تو بہت ہی کم ہے جو مجھ جیسی بے وفاعورتیں اپنے باوفا جیون ساتھی کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں۔ صرف اپنے لمحاتی سکھ کو پانے کے لئے میں نے بھی اپنے بے حد چاہنے والے شوہر کے ساتھ ایسا ہی ظلم کیا تھا۔ طاہر نے مجھ سے بڑی چاہت سے شادی کی۔ اس نے مال و دولت ، پیار محبت سبھی کچھ میرے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ مجھے پا کر وہ دنیا کے سب رشتوں کو بھلا بیٹھا تھا۔ اپنوں، دوستوں سبھی کے پیار کو پس پشت ڈال کر بس اک میرے سوا ان کو کسی کی بھی چاہت نہ رہی تھی۔ طاہر کہا کرتے تھے۔ شہنیلا! تمہارا دل میری پناہ ہے اور تمہارا قرب میری زندگی۔ تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ تمہارے بغیر میں خود کو کیا محسوس کرتا ہوں۔ لگتا ہے کہ اگر تم نہ رہو گی تو میں بھی معدوم ہو جائوں گا۔ سوچو کہ اگر کبھی تقدیر ہم کو جدا کر دے تو میری زندگی کیسی ہو جائے، مجھے یقین ہے میں پاگل ہو جائوں گا اور گلیوں میں مارامارا پھروں گا۔ اب سوچتی ہوں کہ ان کو اسی بات کی سزاملی کہ انہوں نے مجھ سے بے تحاشا کیوں محبت کی؟ میرا کیوں اتنا بھروسہ کیا کہ انسان بہت زیادہ بھروسے کی چیز نہیں ہے۔ ہماری شادی کو ایک ہی ماہ گزرا تھا، سہیلیاں مجھ سے میرے دولہا کے بارے میں کرید تیں تو میں ان کو طاہر کی کہی باتیں سناتی۔ وہ ہنس پڑتیں، کہتیں۔ نادان ! بھلا تو مرد ذات کو کیا جانے، یہ تو ہوتے ہی ڈرامہ باز ہیں۔ خوبصورت مکالمے تو ان کے ذہن میں اس طرح جنم لیتے ہیں جیسے چراغوں میں روشنی پھوٹتی ہے۔ نادان ! دو چار دن کی دلہن تو نئی نویلی ہوتی ہے اور نئی کے نو دن، ذرا پرانی ہو جائو پھر پوچھیں گے تم سے ان کا حال۔ شادی کو چھ ماہ گزرے، سال گزر گیا، وہ پھر بھی نہ بدلے بلکہ محبت اور بھی بڑھ گئی۔ قرب نے پیار کے بندھن اور مضبوط کر دیئے۔ مجھے سہیلیوں کی باتیں جھوٹی اور حاسد لگنے لگیں۔ طاہر واقعی مجھ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ میں نگاہیں پھیروں گی تو یہ دیوانے ہو جائیں گے۔ انہی دنوں طاہر کا خالہ زاد راحت ہمارے گھر آکر ٹھہرا۔ اس کا میرے ساتھ دیور کارشتہ بنتا تھا۔ وہ مجھے بھابھی کہتا تھا اور میں اس کو نام سے ہی بلاتی تھی۔ دو چار دنوں میں کھل گیا کہ دیور بھابی کارشتہ مذاق کا بھی ہوتا ہے۔ راحت چونچال طبیعت کا ایک لا ابالی نوجوان تھا۔ دلچسپ باتوں سے ہر وقت ہنسنا ہنسانا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ ذرا جو گھر سے باہر چلا جاتا، مجھ پر چار دیواری کا بوجھ بڑھ جاتا اور گھر کی دیواریں تنہائی کا احاطہ معلوم ہو تیں۔ طاہر سیلف میڈ آدمی تھے۔ ان کے ماں باپ وفات پاگئے تھے ، کوئی بہن بھائی نہ تھا۔ وہ پہلے سے محنتی تھے، مجھ سے شادی کے بعد اور زیادہ محنتی ہو گئے۔ وہ میرے لئے ہی تو محنت کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ زندگی کے سکھ اور خوشیوں کے اسباب اکٹھے کر سکیں۔ صبح کو گئے ، شام کو گھر لوٹتے۔ راحت کے آنے سے پہلے میں اکیلے گھر میں پل پل کے گزرنے کا حساب رکھا کرتی۔ جب سے وہ ہمارے گھر رہنے لگا تو اس تنہائی کو زبان مل گئی۔ اس کی مزیدار ہنسنے ہنسانے والی باتیں میرے دل کو ایک طرح سے لبھانے لگیں۔ راحت کی ہمارے شہر میں ملازمت ہو گئی تھی۔ اس کی رہائش کا مسئلہ تھا تبھی طاہر نے کہا کہ تم کیوں رہائش ڈھونڈ رہے ہو، میرا اتنا بڑا گھر خالی پڑا ہے ، اب یہیں رہو اور جہاں بھی رہو گے کھانے پینے کا مسئلہ ہو گا، کب تک ہو ٹلوں کا کھانا کھائو گے۔ طاہر نے تو نیکی کی ، اس کو کیا خبر تھی کہ نیکی گلے پڑ جائے گی۔ راحت صبح سات بجے چلا جاتا تھا اور دو بجے تک لوٹ آتا جبکہ طاہر رات گئے آتے تھے۔ وہ کارخانے کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے اور مال کاریگروں سے بنوا کر سپلائی بھی کرتے تھے۔ سال بھر کی رفاقت میں راحت کی تعریفوں نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ میں شادی کے بعد ساتھی کے ایک نئے مفہوم سے آشنا ہوئی۔ میں نے جانا کہ زندگی کے ساتھی اور روح کے ہم سفر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہ سماجی رشتہ ہے اور یہ دلی رشتہ ہے۔ کچھ خوش قسمت جوڑوں میں سماجی رشتے میں ہی دلی رشتے کی مٹھاس بھی میسر آ جاتی ہے اور کچھ بد قسمتوں کو ایک ساتھ رہ کر بھی ساتھی کے ساتھ کا مدھر احساس نہیں ملتا۔ اس قسم کے احساسات اگر میرے ہی دل میں جاگتے تو شاید زندگی جبر و اختیار کے بوجھ تلے دب کر جوں توں گزار لی جاتی۔ یہ احساس راحت کے دل میں بھی جلترنگ بجانے لگا تھا۔ پھر یہ جلترنگ منہ زور طوفان کی صورت اختیار کرنے لگا۔ ایسی صورت میں کبھی کبھی اس آرزو سے آنکھیں چرانا مشکل ہو جاتا جو شجر ممنوع کی طرح ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ ہمارے رویے بدلنے لگے ، طور اطوار سے کچھ انہونی باتیں جھلکنے لگیں، ہمارے رویوں نے چغلی کھائی۔ طاہر نے بھی ایک دن جان لیا کہ اس کے گھر کے اندر دو اپنوں نے کسی کو غیر قرار دے دیا ہے۔ رفتہ رفتہ بہت چھپانے پر بھی وہ احساسات عیاں ہو گئے جن کو کوئی غیرت مند شوہر برداشت نہیں کر سکتا۔ طاہر نے پہلے خفگی دکھائی پھر سختی برتی اورطلاق کی دھمکی دے دی ۔ یہ دھمکی ان کا سب سے ناکام حربہ تھا۔ اس نے جان لیا کہ اس کی بیوی کسی اور کو پسند کرنے لگی اور طلاق کی دھمکی اب اس کی کھلی شکست تھی جس کا واقع ہونا اس کی مردانگی کی موت تھا تبھی اس نے بے بس ہو کر آخری دائو آزمایا اور میرے قدموں میں سر رکھ دیا، رورو کر منتیں کیں التجا کی، ہاتھ جوڑے۔ کہا۔ شہنیلا! مجھے برباد نہ کرو اگر مجھ کو ٹھکراؤ گی تو میں مر جائوں گا، اس کے بعد یا تو ظلم کی تصویر بن کر اس کائنات پر یوں پھیل جائوں گا کہ تم سکون سے باقی ماندہ زندگی کو جی نہ سکو گی یا پھر میں پاگل ہو کر گلیوں میں آوارہ پھروں گا۔ نجانے یہ کیا ردعمل تھا۔ اگر وہ میرے والدین کو میرا احوال سناتا تو وہ مجھے کو جبرا اس کی بیوی رہنے پر مجبور بھی کر لیتے لیکن اس نے اس تشدد کو بھی پسند نہ کیا۔ اس کا یہ بے بس روپ میرے لئے ایک منفی احساس بن گیا۔ اب میرے دل میں نہیں، نہیں کی ضد نے سمندر بن کر ایسا شور مچایا کہ جس میں اس کی ہر التجا، ہر منت ، ہر آواز بہ گئی۔ اس کی محبت میری نظروں کے سامنے ایک مردہ تن بن کر پھولنے لگی۔ میں خود کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی لیکن مجھ میں سمائے تمام جذبوں نے مل کر ایک ساتھ محاذ بنالیا کہ اب میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی۔ مجھے خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ،تب میں نے طاہر کے ساتھ ایسا اہانت آمیز سلوک کیا کہ وہ اگر مجھ سے اس قدر محبت نہ کرتا تو میر اگلا ہی دبادیتا لیکن مجھے کوئی گزند پہنچائے بغیر صبر کیا اور خاموشی سے میری زندگی سے چلا گیا۔ اس نے مجھے شادی کے بندھن سے آزاد کر دیا تا کہ میں اپنی خوشی اور مرضی سے جی سکوں مگر ایسا کر کے وہ خود جیتے جی مر گیا۔ عدت کی مدت بھی میں نے طاہر کے گھر پر گزاری اور پھر راحت سے نکاح کر لیا۔ گویا ہم دونوں نے طاہر کو روندتے ہوئے ایک دوسرے کو پالیا۔ ہماری روحیں جو ایک دوسرے کے لئے بے چین تھیں،ان کو قرار آ گیا۔ قدرت کا نظام اور طرح کا ہے اور انسان کی سوچیں- اور میری نظر میں قدرت کا نظام یہ ہے کہ جو دوسروں کی خوشیاں مسمار کر کے اپنے محل تعمیر کر لیتے ہیں ، وہ محل زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہتے ، ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جلد ہی محبت کے محل ریت کے گھروندوں میں بدل گئے۔ احساس ندامت کی چٹان پاش پاش ہو کر ہم دونوں پر گری کہ ہم اس کے نیچے دب کر ریزہ ریزہ ہو گئے۔ طاہر آخر راحت کا بھائی تھا۔ عورت کی محبت وقتی ثابت ہوئی اور خون کے رشتے نے دیرپا ہونے کا ثبوت دیا۔ اب راحت اٹھتے بیٹھتے مجھے برا بھلا کہنے لگا۔ خود اس جرم میں برابر کا شریک ہو کر بھی مجھ اکیلی کو مجرم گردانتا تھا اور خود کے کئے کی سزا بھی مجھ کو دینے لگا۔ محبت کا خمار اترتے ہی مجھے پر لعنت بھیجنے لگا اور بھائی کی خوشیوں کا قاتل کہنے لگا۔ کہتا کہ اے گھٹیا عورت ! تو نے عورت کی عظمت کو پارہ پارہ کر دیا اور مجھے بھی احسان فراموش بنا دیا۔ تو اس لائق نہیں کہ کوئی تجھے اپنی شریک حیات بنائے، میں کس قدر بد نصیب مرد ہوں کہ تجھ جیسی گری ہوئی عورت کو اپنی بیوی بنالیا۔ شاید ہم میں طلاق ہو جاتی لیکن شادی کے تین سالوں میں ہی بچے ہمارے درمیان ایک ایسا معاہدہ بن گئے کہ جس کو توڑ ڈالنا ہمارے بس کی بات نہ لگتی تھی۔ اب میں اس وقت کو کوستی جب میں نے طاہر کو نا قابل برداشت اذیت کے الائو میں دھکیلا تھا اور جذبات کی جھوٹی جنت بنائی تھی۔ راحت ان گھڑیوں پر لعنت بھیجتا تھا، جب اس نے ایک عورت کی خاطر اپنے بھائی کا گھر ڈھایا، اس کے ارمانوں کا خون کر دیا اور اس کی عزت پر ڈاکو بن کر ٹوٹا تھا۔ کچھ عرصہ طاہر کو کہیں قرار نہ آیا۔ وہ بھٹکتا پھرا اور پھر تنگ آکر ہمارے ہی کوچے میں لوٹ آیا کیو نکہ اس کا مکان بھی اسی گلی میں تھا۔ وہ دیوانہ سا ہماری گلی میں بیٹھا رہتا جس پر محلے کے لوگ رحم کھاتے تھے۔ محلے کے لڑکے اس کو پتھر مارتے تو وہ نجانے کس کو بد دعائیں دیا کرتا، منہ ہی منہ بڑبڑاتا، جانے کیا کہتا رہتا کہ اس کی مہمل باتیں کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھیں لیکن ہم دونوں خوب جانتے تھے کہ وہ کیا کہتا ہے۔ ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی انجام تو ضرور ہوتا ہے، میری کہانی کا بھی ہوا۔ ایک روز راحت مجھ سے لڑ کر گھر سے چلا گیا، واپس آیا تو اس کے بازوئوں پر اس کے بھائی کی لاش تھی۔ طاہر دیوانہ سڑک پر مردہ پڑا ہوا تھا، پھٹے ہوئے کپڑوں سے بدبو آ رہی تھی، سر کے بال الجھے ہوئے تھے اور جیب میں نشے کی پڑیاں تھیں جن کی وجہ سے اس کی ایسی حالت ہو گئی تھی۔ راحت نے روتے ہوئے کہا۔ اے بے غیرت عورت ! یہ دیکھ ، میرا بھائی مر گیا ہے ، اس کی ماں نہ صرف میری سگی خالہ تھی بلکہ یہ میرا دودھ شریک بھائی بھی تھا۔ قاتلہ ! اب اس کی موت پر آنسونہ بہا۔ اگر اپنی بے وفائی کا ازالہ کرنا ہی چاہتی ہے تو خود کشی کر لے کہ تیری روح اس کی روح کے آگے شرمندہ ہو جائے اور اس کو سکون مل جائے۔ راحت نے ہی اس لاوارث کے کفن دفن کا انتظام کیا اور اس کے بعد وہ گھر سے چلا گیا۔ راحت کی عادت تھی وہ ایسے ہی ناراض ہو کر گھر سے چلا جاتا تھا، دو ایک روز بعد بچوں کا خیال کر کے لوٹ آتا لیکن اس روز جانے مجھے کیا ہوا کہ اس کے خود کشی کے طعنے پر میں نے خود کو کمرے میں بند کر کے آگ لگالی۔ میں سمجھی تھی کہ مر جائوں گی تو اسے بھی راحت مل جائے گی اور اپنے بچے بھی خود سنبھال لے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ جو نہی میری چیخیں بلند ہوئیں، میرا بیٹا بھاگ کر پڑوسیوں کو بلالا یا اور انہوں نے کھڑکی کے ذریعے کمرے میں داخل ہو کر میرے جلے ہوئے وجود کو اسپتال پہنچا دیا۔ راحت کو بھی میرے جلنے سے اذیت ہوئی۔ دن رات میری دیکھ بھال کی۔ زندگی تھی ، بچ گئی۔ اب مجھ سے وہ آنکھ نہیں ملاتا۔ کہتا ہے کہ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا۔ تم نے سچ مچ کر دکھایا۔ شکر ہے کہ اللہ نے میرے بچوں پر رحم کیا، تم بچ گئی ہو ورنہ تو میں بھی جان دے دیتا، اب جو ہوا بھول جائو ، ہم پر بچوں کی ذمہ داری ہے اور اب ان کی خاطر زندہ رہنا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ زندہ بچ گئی ہو تو زخم بھی اچھے ہو جائیں گے ، مگر میں کہتی ہوں جلی ہوئی روح کے زخم کبھی اچھے نہیں ہوتے۔

Latest Posts

Related POSTS