Monday, May 19, 2025

Kiye ki Saza

شیریں ہماری کرایے دار تھی ۔ وہ اسم باسمی تھی ۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے کہ زبان شیریں، تو ملک گیریں مطلب یہ کہ جس کی باتوں میں مٹھاس ہو، دنیا اس کی دیوانی ہو جاتی ہے سو شیریں نے اپنی گفتگو سے میری ماں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ہمارا مکان دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ بڑے پورشن میں ہم رہتے تھے اور دوسرا پورشن جس میں دو کمرے تھے ، کرایے پر اٹھا دیتے تھے۔ اس بار جو میاں بیوی کرایے پر آئے ، ان کا ایک بچہ تھا۔ شروع میں مبین صاحب اکیلے آئے تھے، یہ شور کوٹ کے رہنے والے، درمیانی عمر کے آدمی تھے۔ ہفتے میں دو دن ان کو لاہور آنا ہوتا تھا، لہذا عارضی رہائش کی ضرورت رہتی تھی، انہوں نے اس مختصر رہائش کو کرایے پر لے لیا۔

یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ انہوں نے یہ رہائش دراصل اپنی بیوی شیریں کے لیے لی تھی ، جو فی الحال اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی تھی۔ جب مبین صاحب لاہور آتے ، اس کو وہاں لے آتے ۔ یہ لوگ دو تین دن رہتے تھے، پھر مبین واپس جاتے ہوئے شیریں کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ جاتے۔ کچھ عرصے تک یہی معمول رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ، ہماری جان پہچان اس انوکھے جوڑے سے بڑھتی گئی۔ پتا چلا یہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ اس کی مبین سے محبت کی شادی تھی ۔ متوسط گھرانے کی یہ لڑکی بھلی صورت کی تھی۔ جب یہ جوڑا ہمارے مکان میں رہنے کے لیے آتا، بچہ ان کے ساتھ ہوتا ، جو تین چار برس کا تھا۔ سال بعد وہ مستقل یہیں رہنے لگی اور بچے کو قریبی اسکول میں داخل کرادیا۔ اپنے مکان کا جو حصہ ہم نے مبین اینڈ فیملی کو کرایے پر دیا تھا، اس کا ایک دروازہ ہمارے اس کمرے میں بھی کھلتا تھا، جو ہم نے کرایے پر نہیں دیا تھا۔ اس کمرے میں ہمار ا سامان رکھا ہوا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس کو مقفل کر دیتے لیکن جب شیریں مستقل یہاں رہنے لگی ، اس کی سہولت کی خاطر اماں نے وہ دروازه مقفل نہ کیا، تاکہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو اور باہر آنے جانے میں آسانی ہو۔ اب وہ اپنے کمرے سے ہمارے کمرے میں داخل ہو کر اس راہ داری میں آسکتی تھی جو ہماری بھی گزرگاہ تھی۔ شیریں نے اس سہولت کا فائدہ اٹھایا اور بے دھڑک آنے جانے لگی۔ اس نے اپنی طرف کے دروازے سے آنا جانا ترک کر دیا، ورنہ باہر جانے کے لئے اسے سارے گھر کا چکر کاٹنا پڑتا۔ یہی نہیں ، وہ بے دھڑک جب چاہتی ہمارے گھر میں آجاتی کبھی ٹیلی فون کے بہانے، کبھی کسی اور بہانے ۔ وہ ہماری پرائیویسی کو بھی مدنظر نہیں رکھتی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ہمیں یہ محسوس کروانے کی کوشش کرتی کہ اسے ہم سے بہت ہمدردی ہے اور وہ ہمارے ہی گھر کی ایک فرد ہے۔ چونکہ وہ اکیلی رہتی تھی تو اماں بھی اس کے ساتھ رعایت برت لیتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ تنہا آدمی مجبور ہوتا ہے، تب ہی لوگوں کا ساتھ ڈھونڈتا ہے۔

اس کے صلے میں شیریں میری ماں کا خیال رکھتی ۔ کام کاج میں ہاتھ بٹا دیتی اور ہر طرح سے ان کو سکھ پہنچانے کی کوشش کرتی ، جبکہ ہم سب تو صبح سے ہی پڑھائی کے سلسلے میں گھر سے چلے جاتے تھے، پیچھے اماں اور شیریں ہی رہ جاتے ۔ یوں یہ خاتون ہمارے گھر والوں پر اپنے اخلاق سے اعتبار جتلانے میں کامیاب ہوگئی ۔ میرے والدین کو اس نے پوری طرح اعتماد میں لے لیا، یہاں تک کہ ہم کبھی کہیں جاتے تو سارا گھر بند کر دیتے لیکن اس کے کمرے میں کھلنے والا دروازہ بند نہ کرتے۔ ہمارا گھر اس کی طرف سے کھلا رہتا تھا، کسی نے اس بات پر دھیان نہ دیا کہ اس دروازے کو بھی بند کر دینا چاہیے۔ ایک بار بجلی کے کام کے لیے ایک الیکٹریشن کو بلانا پڑا۔ دو تین دن کا کام تھا، وائرنگ تبدیل کرانی تھی ۔ اس دوران ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ہمارا لیپ ٹاپ جو بلکل نیا تھا اور ان ہی دنوں تایا نے میرے بھائی کے لیے دبئی سے بھیجوایا تھا، ڈبا بند رکھا ہوا تھا، وہ غائب ہو گیا۔ یہ لیپ ٹاپ شیریں کے ساتھ والے کمرے میں رکھا ہوا تھا اور ابھی استعمال بھی نہیں ہوا تھا۔ امی جان جب کسی کام سے اس کمرے میں آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ میز پر سے لیپ ٹاپ والا ڈبا غائب ہے۔ بھائی، جس کا یہ لیپ ٹاپ تھا ، وہ ان دنوں اسلام آباد گیا ہوا تھا، تب ہی گھر والوں نے اس کو وصول کرنے کے باوجود کھولا نہیں تھا۔ یہ سوچ کر کہ ایک دو دن میں بھائی آجائیں گے تو خود کھولیں گے۔ امی پریشان ہو گئیں، انہوں نے ابا جان کو بتایا۔ گھر کے ہر فرد سے پوچھا۔ سب ہی نے لاعلمی ظاہر کی۔ ایسے واقعے پر سب سے پہلے خیال باہر کے آدمی کی طرف جاتا ہے، لہذا وہ الیکٹریشن ہی ہو سکتا تھا کیونکہ اس کے سوا اور کوئی ہمارے گھر نہیں آیا تھا۔ سب ہی گھر والوں کے سامنے وہ بجلی ٹھیک کرنے والے سامان کا تھیلا بھی لایا تھا اور تین دن تک ہر کمرے میں جا کر کام کیا تھا۔ ابا جان نے اس سے پوچھ گچھ کی ، اس نے لاعلمی ظاہر کی۔ اسی دوران میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ کام شیریں بھی تو کر سکتی ہے، وہ بھی اس کمرے سے گزرتی رہتی ہے۔ ایک بات جو میں نے نوٹس کی کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ باہر جائے تو اپنے کمروں میں کسی کی بھی کمرے کی بتی جلتی چھوڑ جائے ، ہمیشہ وہ ہر سوئچ آف کر کے جاتی تھی، مگر ان دنوں وہ گھر میں موجود ہوتی یا نہ ہوتی، اس کے کمرے کی بتی جلتی رہتی ۔ ایک روز وہ باہر سے لوٹ رہی تھی، تب میں راہ داری میں کھڑی تھی۔ میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ کیا آپ باہر جاتے ہوئے کمرے کی بتی جلتی چھوڑ گئی تھیں؟ وہ بولی نہیں ، مگر جب سے الیکٹریشن نئی فٹنگ کر کے گیا ہے، سوئچ میں جانے کیا مسئلہ ہو گیا ہے کہ کبھی کبھی ٹیوب لائٹ خود بخود جل جاتی ہے۔ امی نے الیکٹریشن کو بلا کر کہا کہ سوئچ کو ٹھیک کر دو ۔ دیکھو، اس میں کیا خرابی رہ گئی ہے ۔ اس نے چیک کیا تو سوئچ ٹھیک تھا اور ٹیوب لائٹ بھی ٹھیک تھی۔ میں نے سوچا کہ شیریں نے دوبار باہر جاتے ہوئے ہمیں یہ تاثر دینے کی کوشش کیوں کی کہ جیسے وہ کمرے میں موجود ہے، تب ہی بتی جل رہی ہے۔

ادھر ادھر کے پڑوسیوں کو بھی پتا چل گیا کہ الیکٹریشن آیا تھا، تب ہی سے ہمارا لیپ ٹاپ غائب ہوا ہے۔ احسن صاحب ہمارے دائیں طرف والے گھر میں رہتے تھے۔ جب انہوں نے ابا جان کی زبانی یہ تذکرہ سنا تو کہنے لگے۔ چار روز پہلے جب دوپہر کے وقت تمہارے گھر سے تمہاری کرایہ دار نکلی تھی ، اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا، جس میں کوئی چوکورسی چیز ہو سکتی تھی، جیسا لیپ ٹاپ کا ڈبا ہوتا ہے۔ یہ خاتون کچھ عجلت میں لگتی تھیں۔ تھوڑی دور ایک گاڑی کھڑی تھی، یہ تیز تیز قدم اٹھاتی ، اس میں جا کر بیٹھ گئیں اور گاڑی چلی گئی۔ میں نے عورت کی چال سے کچھ غیر مانوس سی کیفیت کا اندازہ کیا تھا۔ جس طرح کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کی حرکات و سکنات سے مجرمانہ راز داری عیاں ہونے لگتی ہے۔ اس وقت میں سامنے والے جنرل اسٹور پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ جنرل اسٹور احسن صاحب کے بیٹے کا تھا۔ انہوں نے میرے والد کو مشورہ دیا کہ آپ چوری کی رپٹ لکھوا دیں اور اس خاتون کا نام ضرور لکھوائیں۔ اس الیکٹریشن کو برسوں سے محلے کے گھروں میں کام کو بلایا جاتا ہے، اس کے بارے میں آج تک چوری کی شکایت نہیں ملی۔ بہرحال کسی انسان کا بھروسہ نہیں، کل کو یہی واردات بڑے پیمانے پر بھی ہو سکتی ہے۔ ابا جان شاید یہ بات پولیس تک نہ لے جاتے لیکن ان کے سمجھانے پر انہوں نے چوری کی رپٹ تھانے میں کر دی۔ پولیس والے آئے ، تمام گھر کا جائزہ لیا اور ایسے اشخاص کے نام مانگے جن پر شبہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ نام دے دیے گئے، جن میں الیکٹریشن ریاض اور شیریں کا بھی نام شامل تھا۔ ان سب سے پوچھ گچھ ہوئی ، چوری پھر بھی نہ پکڑی جاسکی، تاہم پولیس کا خیال تھا کہ چور گھر میں ہی ہے۔ اس واقعے کے بعد امی نے شیریں کے کمرے کا وہ دروازہ جو ہمارے گھر کے اندر کھلتا تھا، بند کر دیا۔ یوں اس کا ہر وقت ہمارے گھر میں آنا جانا ختم ہو گیا۔ ہماری اس احتیاط سے وہ بھی محتاط ہو گئی ۔

پہلے اماں اپنی سادگی کے باعث شیریں کی آمد و رفت پر نظر نہیں رکھتی تھیں ۔ اب جب ذرا غور کیا تو ہمیں اس کی عادات و حرکات مشکوک محسوس ہونے لگیں ۔ مثلاً ان کے شوہر بہت کم آتے تھے اور وہ بالکل آزادانہ زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ وہ جب چاہے گھر سے جاسکتی تھیں اور رات دس بجے کے بعد بھی گھر آتیں تو اکیلی ہوتی تھیں ۔ میکے سے کوئی ان کو چھوڑنے ساتھ نہیں آتا تھا۔ شیریں کا شوہر تو اپنی پہلی بیوی اور کنبے کی مجبوریوں کا اسیر تھا، وہاں اس کی پراپرٹی تھی ۔ دوسری عورت کو اس کی غیرموجودگی نے پوری آزادی عطا کر رکھی تھی۔ شیریں مردوں سے ہم کلامی میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی تھی۔ اس کا لہجہ نہایت نرم تھا، جو اکیلی رہنے والی عورت کے لیے ایک پر خطر بات تھی۔ ایک دو ماہ گزرے ہوں گے کہ شیریں میری ماں کے پاس روتی ہوئی آئی، کہنے لگی۔ خالہ جان مبین سے شادی کر کے میں بہت پچھتا رہی ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ وہ تو اپنی پہلی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہتا ہے اور میں اس کے انتظار میں، اکیلی سلگتی رہتی ہوں ۔ اس بار وہ تین ہفتوں بعد آیا ہے۔ اس دوران میری خبر تک نہ لی ، جیتی ہوں کہ مرگئی ہوں۔ آتے ہی جب میں نے مبین سے اس بات کا شکوہ کیا تو وہ تلخ کلامی پر اتر آیا۔ کہنے لگا۔ رہنا ہے تو اسی طرح رہو، ورنہ، اس نے مجھے مارا پیٹا بھی ہے۔ یہاں تک کہ میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھایا۔ ایسی سنگ دلی کوئی عورت برداشت نہیں کر سکتی۔ اماں آخر عورت تھیں۔ شیریں کو روتے دیکھ کر، اس کے ساتھ ہمدردی جتانے لگیں اور کہا۔ مبین کا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ بچے کو بھی مارا ہے۔ اپنے بچے کو کوئی باپ اس طرح بغیر خطا کے مارتا ہے بھلا؟ ٹھہرو میں اس سے پوچھتی ہوں۔ تب ہی شیریں پھٹ پڑی، کہنے لگی۔ بچہ دراصل میرے پہلے شوہر کا ہے۔ میرے دو بچے ہیں، دوسرا بیٹا اس کی دادی کے پاس سمن آباد میں ہے۔ میرے پہلے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ بیوگی سے نجات پانے کے لیے تو میں نے مبین سے شادی کی تھی لیکن یہ عذاب پہلے عذاب سے بھی بڑھ کر ہے۔ میں توکسی دوست کے ذریعے نوکری کے لیے ان سے ملی تھی۔ انہوں نے ہمدردی جتلا کر مجھ سے شادی کر لی۔ ہماری اماں کو ایک بار پھر اس عورت سے ہمدردی ہوگئی ، کہنے لگیں ۔ اگر تمہارے بچے کو مبین برداشت نہیں کرتا ، تو اس کو بھی اس کی دادی کے پاس چھوڑ دو۔ ایک بیٹا تو ان کو دے دیا ہے، مگر دوسرا نہیں دے سکتی۔ تو پھر اپنی والدہ کے پاس چھوڑ آؤ، اس طرح اس سے ملتی بھی رہو گی ۔ وہ بوڑھی ہیں، پھر بھی بھابھی میری اچھی ہے۔ ان سے بات کرتی ہوں ۔ میری ماں نے تو ایسے ہی بات کہہ دی تھی۔ شیریں نے فوراً اس پر عمل کیا۔ دوسرے دن میکے گئی، بھابھی کو کسی طرح منایا اور بچے کو نانی کے حوالے کر آئی۔ اس کے بعد تو یہ رکاوٹ بھی نہ رہی ، وہ اب ہر پابندی سے آزاد ہوگئی۔ ہم اب ان کرایے داروں سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے، لیکن وہ آسانی سے مکان چھوڑنے والے نہیں تھے۔ ان ہی سوچوں میں ابا جان گھل رہے تھے کہ ایک دن خود بخود اس کا سامان قدرت کی طرف سے ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ ایک شام پولیس آئی اور شیریں کو حراست میں لے لیا۔

ہمارے گھر کے باہر ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی اور پولیس کا سپاہی اس پر تعینات تھا۔ ایک پولیس انسپکٹر شیریں کے ہمراہ تھا اور اس کے گھر کی تلاشی لے رہا تھا۔ اسی وقت ابا جان آگئے ۔ انہوں نے گیٹ پر پولیس والوں اور شیریں کو کھڑے دیکھا تو ان کے پاس گئے۔ پتا چلا ، شیریں نے قتل جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کیا ہے، ہم یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے ۔ بات پھر یوں کھلی کہ شیریں اور مبین شام کے وقت موٹر سائیکل پر میڈیکل اسٹور گئے ہوئے تھے کہ وہاں ایک شخص سے اچانک مڈ بھیڑ ہوگئی، جو کسی کام کے سلسلے میں وہاں آیا ہوا تھا۔ اس وقت شیریں اسٹور پر دوائیں خرید رہی تھی اور اس کا شوہر کچھ دور موٹرسائیکل پر بیٹھا اس کے لوٹنے کا انتظار کر رہا تھا۔ جس اسٹور پر شیریں کھڑی تھی ، وہ شخص بھی اسی اسٹور میں گیا اور اس نے اچانک شیریں کو دیکھا تو ہاتھ پکڑ کرہے، میں اسے نہیں دینا چاہتی ۔ وہ اسی بات پر تکرار کرنا چاہ رہا باہر لایا۔ وہ اس سے ہاتھ چھڑانے اور غصہ ہونے لگی۔ سامنے سڑک کے کنارے مبین کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، لیکن اس شخص کو علم نہیں تھا کہ مبین اسے دیکھ رہا ہے۔ شیریں بھی شدت سے اپنے غصے کا اظہار کر رہی ہے۔ مرد کہہ رہا تھا کہ تھوڑی دیر ٹھہر کر میری بات سن لو، مگر وہ اس کی بات نہیں سننا چاہ رہی تھی ۔ لہذا جب اصرار کرنے والا اس کے پیچھے آنے لگا، وہ دوڑ کر سڑک تک گئی اور موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ مبین نے یہ سوچ کر موٹر سائیکل چلا دی کہ سڑک پر تماشا نہ بنے۔ گھر آ کر اس نے شیریں کے ساتھ جھگڑا کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ تم اپنے سابقہ شوہر سے اب بھی ملتی ہو، جبکہ وہ مصر تھی کہ ہرگز نہیں ملتی ۔ آج اتفاقیہ سامنا ہو گیا۔ وہ ایک بچہ لے چکا، اب دوسرا لینا چاہتا ہے، مگر بچہ ابھی چھوٹا تھا۔ مبین نے شیریں سے قسم اٹھوائی ۔ وہ بولی ۔ بچے کے سلسلے میں زبر دستی اس نے مجبور کیا تو میں ملی ہوں، لیکن صرف اور صرف بچے کی سپردگی کا تنازعہ ہے، ورنہ میں ہرگز اس سے نہیں ملنا چاہتی ۔ میں تو اس کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔ کیا تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو؟ اگر کرتی ہو تو اس کا ثبوت دو۔ جو تم کہو، میں کرنے کو تیار ہوں مگر مجھ پر شک مت کرو۔ شیریں نے جواب دیا۔ وہ تم سے ملنے کے لیے بچے کا بہانہ تراش رہا ہے۔ کیا تم اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہو- ہاں ہاں ۔ وہ چلائی۔ کیسے تم کو یقین دلاؤں کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتی ، مگر پیچھا کیسے چھڑاؤں ۔ تم نے بھی تو میرے بچے کو مارا تھا۔ میرا بچہ تمہارے پاس بھی تو تشدد کے خوف سے سہما رہتا ہے۔ میں نے اسے بلا وجہ نہیں مارا تھا، مجھے شک تھا کہ تم اسے باپ سے ملانے کا بہانہ بنا کر اپنے سابقہ شوہر سے ملتی ہو یا پھر وہ یہ بہانہ بنا کر تم سے ملتا ہے۔ اب تمہیں کیسے شک ہوا ہے؟ پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ کسی نے تم کو دیکھا ہے، میں سمجھ رہا تھا کہ بتانے والے کو مبالغہ ہوا ہے، لیکن شک مجھے بے آرام کر رہا تھا ، تب ہی میں نے اس پر ہاتھ اٹھا دیا تھا، ورنہ وہ تو ہے اور میں بھی بچوں والا ہوں ، مگر مجھے لگتا ہے کہ جب تک تم لڑکا اس کے حوالے نہ کروگی اور وہ تمہارا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ اب یا تو تم طلاق لے لو یا پھر جیسا میں کہتا ہوں ویسا کرو تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ تم اس کو فون کر کے کہو کہ آکر اپنا بیٹا یٹا ۔ لے جائے۔ ظاہر ہے، وہ ضرور آئے گا تم اس کو جہاں میں کہوں وہاں آنے کا کہو اور وہ ہی وقت دو، جو میں بتاؤں ۔ تم کیا کرنے والے ہو؟ میں کچھ نہیں کروں گا۔ تم اکیلے جا کر بات کرنا۔ جو بات تم نے اس سے کرنا ہے وہ موقع پر بتاؤں گا، پھر وہ تم کو نہیں بلائے گا، تمہارا پیچھا چھوڑ دے گا اور تمہارا بچہ بھی تم سے نہیں لے سکے گا۔ ٹھیک ہے۔ تھک ہار کر شیریں نے ہامی بھر لی۔

منصوبے کے مطابق ، شیریں نے فون کر کے رات کے دس بجے اپنے سابقہ شوہر کو ایک سنسان جگہ بلایا اور کہا۔ مبین شور کوٹ گیا ہوا ہے ، تم فلاں پارک آجاؤ۔ بچے سے بھی مل لو اور ہم فیصلہ کر لیں کہ بچے کو کس کے پاس رہنا ہے۔ اس کا سابقہ شوہر گاڑی میں اس جگہ آگیا، جہاں مبین کچھ دور اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھ لیا کہ ایک گاڑی اس کی بتائی ہوئی جگہ پر آچکی ہے، تب شیریں سے کہا کہ تم اس سے پیار سے بات کرنا ، کہنا کہ بچہ تم اس کی سپردگی میں دینے کو تیار ہو، بشرطیکہ وہ اس کو تم سے ہر ماہ، دو بار ملنے دے بلکہ دونوں بچوں کو ملنے دے، تو تم دوسرا بیٹا اس کے سپرد کرو گی اور یہ سپردگی کسی وکیل یا عدالت کی معرفت ہوگی ۔ یقیناً وہ اس پر راضی ہو جائے گا۔ اگر اسے واقعی دوسرا بیٹا چاہے اس دوران تم اس کی خاطر تواضع بھی کرنا۔ اس نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بیوی کو دیں اور ایک مشروب کی بوتل بھی۔ کہا کہ تم یہ مشروب مت پینا۔ شیریں نے اسی طرح عمل کیا، جیسے مبین نے بتایا۔ وہ اپنے سابقہ شوہر کی گاڑی کی طرف گئی۔ مبین کی گاڑی اندھیرے میں درختوں کی آڑ میں چھپی ہوئی تھی، جبکہ سابقہ شوہر کی گاڑی سڑک کنارے کھڑی تھی۔ شیریں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ کسی ریسٹورنٹ میں چلیں۔ اس کے سابقہ شوہر نے کہا اور تم احمر کو نہیں لائیں؟ نہیں ۔ وہ بولی ۔ یہیں ذرا دیر کو بات کر لیتے ہیں۔ رات کا وقت ہے، دیر زیادہ ہوگئی تو مالک مکان کو کیا جواب دوں گی ۔ وہ گیٹ بھی نہ کھولیں گے۔ میں کچھ کھانے پینے کو لائی ہوں، اکٹھے کھا لیتے ہیں اور بات بھی کر لیتے ہیں۔ اس طرح طریقے سے بات شروع کی اور دونوں ڈبے کھول دیے، جس میں سنیکس وغیرہ تھے۔ وہ اس کے ساتھ کھائی جا رہی تھی اور بات بھی کرتی جا رہی تھی ۔ اس دوران مشروب کی بوتل کھولی اور دو گلاسوں میں انڈیل کر خود جھوٹ موٹ گلاس لبوں پر لگاتے ہوئے دوسرا اس کے حوالے کیا۔ اس شخص نے بغیر یہ سوچے کہ شیریں اس کو زہر آلود مشروب بھی دے سکتی ہے، اسے پی لیا۔ کیونکہ وہ شاید اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتا ہوگا کہ یہ عورت میری جان لینے آئی ہے۔ پولیس کو جو بیان شیریں نے دیا، اس میں یہی کہا کہ اسے خود بھی علم نہ تھا کہ مشروب میں زہر کی آمیزش کی گئی ہوگی ، لیکن پولیس نے اس عذر کو اس وجہ سے رد کر دیا کہ خود اس عورت نے مشروب نہیں پیا تھا اور دیر ہونے کا بہانہ کر کے گاڑی سے اس وقت اتر گئی تھی۔ جب اس کے سابقہ رفیق حیات کی طبیعت خراب ہو رہی تھی اور گلا بند ہو جانے سے سانس رکنے لگی تھی ۔ وہ گاڑی چلانے کے بھی قابل نہ رہا تھا، جبکہ اس کو شیریں نے کہا تھا کہ تم واپسی میں مجھے گھر سے ذرا دورا تار دینا۔ وہ اترتے ہی دوڑتے ہوئے مبین کی گاڑی میں آگئی۔ اس نے اسے ہمارے گھر کے گیٹ پر لا کر اتارا۔ اس وقت میں رات کے بارہ بج کر چالیس منٹ ہو چکے تھے۔

مبین نے میرے والد سے کہا۔ ہم کسی تقریب میں گئے تھے، میں اب شور کوٹ روانہ ہورہا ہوں ، آپ گیٹ بند کر لیں۔ والد صاحب نے گیٹ بند کر کے تالا لگا دیا اور شیریں اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد ایک شام کو پولیس آگئی اور اسے حراست میں لے لیا۔ ہوا یہ کہ بیوی کو ہمارے گیٹ پر اتار کر مبین دوبارہ اس جگہ واپس گیا۔ شیریں کے سابقہ شوہر کی گاڑی اسی طرح موجود تھی۔ مبین اس بار اپنے ایک وفادار کو بھی لے گیا تھا۔ انہوں نے اس شخص کو اس کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا اور ڈرائیور سے کہا کہ یہ گاڑی تم گاؤں لے جا کر چھپا دو اور خود اپنی گاڑی میں شور کوٹ روانہ ہو گیا۔ ادھر شیرین کا سابقہ دیور فتح محمد بھائی کی گمشدگی سے بہت پریشان تھا۔ وہ اپنے شہر سے پتا کرنے لاہور آیا۔ خدا کی کرنی، ایک روز اتفاق سے اس کا گزر قلعہ گجر سنگھ سے ہوا۔ اس نے وہاں اپنے مرحوم بھائی کی گاڑی کھڑی دیکھی، گرچہ س کی نمبر پلیٹ بدلی ہوئی تھی لیکن اس بدلی ہوئی نمبر پلیٹ سے ہی اس کو شک ہوا کہ یہ پلیٹ اور پلیٹوں جیسی نہیں ہے۔ ایک روز اس نے گاڑی کا پیچھا کیا اور ہمارے گھر تک پہنچ گیا۔ بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ پہلے سے ہی درج تھی ، اس کے بھائی نے گاڑی کے بارے پولیس کو اطلاع دے دی ۔ مقتول کی گاڑی میں ہی اس وقت مبین ہمارے گھر آیا تھا۔ شیریں اور مبین گرفتار ہو گئے۔ ان لوگوں نے سمجھا تھا کہ چھ ماہ گزر گئے ہیں، اب معاملہ دفن ہو گیا ہے۔ مبین کی شامت اعمال کہ اس نے گاڑی نکالی اور اس کو اپنی آمد و رفت کے لیے پہلی بار استعمال کیا تھا اور پکڑا گیا۔ تھوڑی سی تفتیش والد صاحب سے بھی کی مگر ہمارا پیچھا چھوٹ گیا، البتہ شیریں اور مبین کے ساتھ تو وہی کچھ ہوا ہو گا جو ایسے کیسوں میں مجرموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ عجیب کہانی ہے، جس کا چرچا اخباروں میں بھی ہوا تھا۔ نہیں پتا کہ شیریں نے مبین کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا تھا، تا کہ وہ اسے طلاق نہ دیے یا پھر واقعی وہ اپنے بیٹے کو سابقہ شوہر کے سپرد نہیں کرنا چاہتی تھی اور تب ہی اس نے مبین کے کہنے پر اس کا ساتھ دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسرے شوہر کے ساتھ رہتی ہو مگر اس سے چھپ کر پہلے شوہر سے ملتی ہو۔ اسی وجہ سے مبین اسے سزاد دینا چاہتا ہو۔ کہتے ہیں کہ نیتیں تو خدا ہی جانتا ہے، مگر ہر انسان کو کسی نہ کسی دن اپنے کیے کی سزا ضرور ملتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS