Sunday, October 6, 2024

Koun The Woh

یہ عید کا موقع تھا اور میں نے بھائی جان سے مہندی اور چوڑیوں کی فرمائش کی تھی۔ امی بیمار تھیں اور ہم شاپنگ نہ کر سکے تھے۔ بھائی جان نے بات مان لی اور وہ میرے لئے بازار چلے گئے۔ چوڑیوں کی دکان پر پہنچے تو دکاندار سے کہا کہ کانچ کی چوڑیاں دکھائو۔ اب سامنے کانچ کی چوڑیوں کا ڈھیر لگا تھا اور بھائی جان پریشان سے کھڑے اس ڈھیر کو تک رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کون سی خریدوں، کسی رنگ اور سائز کی لینی ہیں کیونکہ میری چوڑی کا سائز تو گھر بھول گئے تھے۔ اسی وقت دکان میں ایک خاتون اپنی والدہ کے ہمراہ داخل ہوئی۔ دونوں نے برقعہ پہن رکھا تھا۔ وہ میرے بھائی کو پریشان دیکھ کر مسکرا دیں۔ نقاب الٹ کر نوجوان لڑکی نے پوچھا۔ کس کے لئے چوڑیاں خرید رہے ہیں، کیا سمجھ میں نہیں آرہا؟ اس قدر اپنائیت بھرا لہجہ تھا جیسے کوئی اپنے گھر کے فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔

بھائی نے مخاطب کی جانب دیکھا تو اس کے چاند چہرے کی آب و تاب دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ کہاں تو کانچ کی رنگ برنگی چوڑیوں میں الجھے تھے اور ادھر اس ماہتاب رخ حسینہ کی نشیلی کاجل بھری نگاہوں سے نگاہیں الجھ کر رہ گئیں۔ ایک پل میں اس پری چہرہ نے میرے بھائی کے احساسات کو بھانپ لیا۔ مزید قریب آکر بولی۔ رشتہ بتادو تو میں مدد کروں۔ بہن کیلئے خریدنی ہیں۔ بھائی جان نے شرما کر کہا۔ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ؟ غیر شادی شدہ ہیں۔ بھائی جان یہ کہتے ہوئے اور زیادہ لجا گئے تو وہ ہنس دی۔ ایک کھنکھناتی ہیں۔ عید کا تحفہ ہے۔ اچھا تو پھر ہم پر چھوڑ دیجئے۔ خاتون نے الٹ پلٹ کر لچھوں میں سے نہایت حسین، دیدہ زیب اور نفیس چوڑیاں نکال دیں۔ یہ ٹھیک رہیں گی۔ بھائی نے بغیر سوچے اثبات میں گردن ہلا دی۔ اچھا تو پھر سائز بتائیے۔ وہ تو میں گھر بھول آیا ہوں۔ خفیف ہوئے اور پسینے سے شرابور ہو گئے۔ شاید اس حسینہ کے حسن کا رعب تھا کہ اس قدر نروس تھے۔ کیا میرے سائز کی ٹھیک رہیں گی ؟ پری رخ نے اپنی گلابی کلائی آگے کر کے دکھائی۔ بھائی نے گھبرائی نظر ڈالی اور بولے۔ ہمشیرہ کا سائز کچھ کم ہو گا۔ ایک سائز کم دے دو۔ دکاندار نے کہا۔ کتنی دوں ؟ دو درجن… چوڑیاں پیک ہو گئیں تو خواتین اپنے لئے آرائش کی اشیاء نکلوانے لگیں۔ منصور بھائی رقم ادا کر کے دکان سے باہر آگئے۔ ذرا دور جاکر پھر واپس پلٹے۔ یاد آیا کہ چوڑیوں کا ڈبہ جو دکاندار نے پیک کر کے کائونٹر پر رکھا تھا، وہ تو وہیں چھوڑ دیا ہے۔ بوکھلاہٹ میں دوبارہ گئے۔ خواتین مسکرارہی تھیں۔ دکاندار نے بھی بھائی جان کی بوکھلاہٹ کو محسوس کر لیا تھا۔ اس نے بغیر کچھ کہے خوش اخلاقی سے ڈبہ بھائی کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ اب جونہی باہر نکلے ، وہ دونوں عورتیں بھی دکان سے باہر آگئیں۔ بڑی بی بولیں ۔ارے بیٹا کیا صرف چوڑیاں ہی خریدنی تھیں، بہن کے لئے جیولری نہ لوگے ؟ آنٹی ! مجھے ان چیزوں کا پتا نہیں۔ میں نے کبھی خریدی نہیں ہیں۔ اچھا تو آئو ہمارے ساتھ ! اب وہ آگے آگے اور میرا بھائی ان کے پیچھے پیچھے جیولری میں پہنتی نہ تھی، بھائی کو پتا تھا لیکن ان اجنبی عورتوں نے گویا ان پر جادو کر دیا تھا کہ ان کے حکم کے تابع ہو گئے، جیسے کوئی نادیدہ قوت ان کی طرف کھینچے لئے جارہی تھی۔ کچھ آگے جا کر خواتین ایک جیولری کی دکان میں گھس گئیں اور دکاندار سے جیولری دکھانے کو کہا۔ تبھی بھائی نے اپنی ساری قوت گویائی جمع کر کے حلق سے آواز نکالی۔ یہ نہیں لینی، میری بہن نہیں پہنتی۔ اچھا تو پھر پہلے کیوں نہ بتایا۔ تینوں شاپ سے باہر آئے۔ تب وہ کہنے لگیں۔ تیز دھوپ اور گرمی بہت ہے ، آجائو ہمارے ساتھ ، ذرادیر کو دم لے لو اور ٹھنڈا پانی پی لو۔ وہ رہا سامنے ہمارا گھر …! بزرگ خاتون کے اصرار پر بھائی نے بات مان لی اور پھر سے ان کے ساتھ ہو لیا۔ ایک بلڈ نگ پر پہنچ کر وہ رک گئیں۔ آئو اوپر چلو۔ اب ذرا میرے بھائی کے حواس قابو میں آچکے تھے۔ سوچا کہ ایسے اکیلی خواتین کے ہمراہ ان کے گھر جانا مناسب نہیں ہے۔ ابھی دیر ہو رہی ہے، میں پھر آئوں گا۔ اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ… آپ گھر بتا دیجئے۔ دوسری منزل پر تیسرا فلیٹ ہے۔ تبھی میرا بھائی ان کو خدا حافظ کہہ کر گھر آگیا۔

میں نے چوڑیاں دیکھیں اور خوش ہو گئی، بہت عمدہ تھیں۔ کیا پسند آئیں؟ ہاں بھائی جان ! یہ تو بہت خوبصورت ہیں۔ اب پتا چلا کہ ہمارے بھائی کا ذوق کس قدر اعلیٰ ہے۔ بھابی کے تو عیش ہو جائیں گے۔ مذاق مت کرو۔ تم جانتی نہیں ہو کہ میں نے کتنے جتن سے خریدی ہیں۔ امی قریب بیٹھی تھیں۔ ارے واہ .. چوڑیوں کیلئے بھی جتن کرنے پڑے۔ بھلا بتائو تو کیا جتن کئے ہیں ؟ تبھی بھائی جان نے والدہ کو احوال بتایا اور بولے۔ میں نے اکیلا جانا مناسب نہیں سمجھا مگر وعدہ کر آیا ہوں کہ اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ آئوں گا۔ آپ عید کے بعد چلئے گا میرے ہمراہ ان لوگوں کے گھر ۔ روانی میں انہوں نے حسینہ کے حسن کی تعریف بھی کر دی۔اماں، بیٹے کے جذبات بھانپ کر مسکرادیں۔ ہاں بھئی ضرور چلوں گی۔ کیا خبر اسی بہانے لڑکی پسند آجائے اور تیرا گھر بس جائے۔ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں، کوئی لڑکی دل کو نہیں بھاتی۔ سمیرا تجھے پسند نہیں حالانکہ بچپن سے نسبت ہے۔ دوسری حور شمائل کو کہاں سے لائوں جو تجھے پسند آجائے۔ عید کے تیسرے روزامی اور میں بھائی جان کے ہمراہ وہاں گئے ، جہاں بھائی جان ہم کو لے گئے ۔ فلیٹ کا در کھٹکھٹایا۔ اسی جواں سال حسینہ نے در کھولا، ہم کو اندر بٹھایا اور بولیں۔ اماں گھر پر نہیں ہیں۔ وہ رشتے داروں سے ملنے گئی ہیں۔ آپ بیٹھئے میں اطلاع کراتی ہوں۔ نہیں … ان کو زحمت نہ دیں۔ ہم دوبارہ ملنے آجائیں گے اور رشتے داروں سے بھی عید ملنے کو جانا ہے۔ والدہ نے بھر پور نظر اس پر ڈال کر جواب دیا۔ میں تو اس لڑکی کے حسن کو تکنے میں محو تھی جو واقعی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی اور ایسی سج دھج کہ جیسےعروس نو ہو۔ ریشمی قیمتی ملبوس، خوش رنگ اور زرق برق زیور پہنے چاند کا نور لگتی تھی۔ اس کی رنگت چمکدار اور نقوش دلنشین تھے۔ میں نے تو ایسے حسن کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تھا اور آج پہلی بار آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، شاید ایسی ہی ماہ پارہ کے بارے میں لکھا جاتا ہو گا کہ آسمانی حور جیسی تھی۔ بھائی سر جھکائے بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی کن انکھیوں سے لڑکی کو دیکھ لیتا تھا اور یہ دزدیدہ نگاہی اس کے من کے چور کی چغلی کھارہی تھی۔ اماں بھی بیٹے کا عندیہ بھانپ گئی تھیں۔ تبھی سوال کر دیا۔ بیٹی ! کیا شادی شدہ ہو ؟ نہیں خالہ جی … وہ ایک ادا سے شرمائی، تبھی والدہ نے کہا۔ اب ہم چلتے ہیں، پھر آنا ہو گا تو آپ کی والدہ سے بھی مل لیں گے۔ چلتے چلتے میں نے پوچھا۔ اپنا نام بتایئے۔ ماہتاب … ! اس نے ایک آن سے بتایا۔ واقعی تم ماہتاب ہو۔ میں نے دل میں تصدیق کی۔ جب ہم گھر واپس آگئے۔ میری والدہ نے فرمایا۔ بیٹے اس گھرانے کا خیال دل سے نکال دو، یہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ کیوں اماں … آپ کو کیسے پتا؟ بیٹا ! میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ زمانہ سمجھتی ہوں اور تم تو ابھی بچے ہو۔ بھائی کا چہرہ اتر گیا، دل بجھ سا گیا۔ میں نے ان کو افسردہ دیکھ کر کہا۔ بھائی جان! ہو سکتا ہے کہ اس لڑکی کا رشتہ طے ہو گیا ہو یا کسی اور کو پسند کرتی ہو۔ منگنی شدہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ سب بھی نہ ہوا ہو تو بھی کیا عجب کہ یہ لوگ جو اتنے مالدار لگتے ہیں، ہم کورشتہ ہی نہ دیں۔ ضروری تو نہیں کہ وہ بھی ہمیں اس حوالے سے پسند کر لیں، رد بھی تو کر سکتے ہیں۔ بھائی نے کوئی جواب نہ دیا، سارا راستہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔

گھر آکر ہم نے فوری طور پر منصور سے کلام نہ کیا لیکن میں جان چکی تھی کہ میرے بھائی کا چین سکون کوئی لے گیا ہے۔ وہ تمام وقت بے چین مضطرب رہنے لگے تھے۔ انہوں نے اماں سے مزید اس بارے میں بات نہ کی، لیکن میری کہی ہوئی بات ذہن نشین ہو گئی کہ کیا خبر وہ بھی ہم کو پسند کریں یا نہ کریں… کیا خبر لڑکی کی منگنی ہو گئی ہو یا پھر کسی کو پسند کرتی ہو؟ دل کی لگی بری ہوتی ہے۔ بھائی جان دل کی لگی کو بجھانے کی خاطر دوبارہ اس فلیٹ پر گئے تاکہ ان سوالات کی تصدیق کرنے کی سعی کر لیں۔ فلیٹ پر آج بھی ماہتاب ہی تھی۔ اس نے در کھولا اور کہا۔ امی گھر پر نہیں ہیں۔ منصور ! تم ایسا کرو کہ ذرا دیر کو نیچے چلو۔ میں تیار ہو کر ابھی آتی ہوں۔ بھائی جان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، پھر بھی تابعداری کی اور فلیٹ کے نیچے فٹ پاتھ پر انتظار کرنے لگے۔ پندرہ منٹ بعد لڑکی برقعہ اوڑھ کر آگئی۔ وہ خود کو سنوارے رکھتی تھی۔ نک سک سے درست تھی۔ اس وقت بھی کپڑے بہت عمدہ تھے۔ اس نے بھائی سے کہا۔ گھر میں نہیں بیٹھتے اماں موجود نہیں ہیں۔ ایسے میں کوئی رشتہ دار آ جائے اور ہم کو اکیلا پائے تو لوگ باتیں بنانے لگتے ہیں۔ میں نے گھر کو تالا لگا دیا ہے، دوسری
چابی اماں کے پاس پرس میں ہوتی ہے۔ یوں وہ ابھی جلدی آنے کی نہیں، اپنی خالہ زاد بہن کے پاس گئی ہیں جو بہت دور رہتی ہیں۔ ہم کہیں باہر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ تم آئے ہو تو اب در سے تو لوٹا نہیں سکتی۔ دونوں نے ایک مہنگے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس دوران منصور نے پوچھا۔ آپ کے ابو اور والدہ ساتھ نہیں رہتے کیا؟ وہ لندن میں رہتے ہیں۔ ماہتاب نے بتایا۔ بھائی جان اپنی کار پر گئے تھے۔ پوچھا اب کہاں چلنا ہے ؟ اس نے کہا۔ دریا کنارے سیر کریں گے اور باتیں بھی کر لیں گے۔ دریا پر پہنچ کر کشتی کرائے پر لی اور دونوں نے دریا کی سیر کی۔ ماہتاب نے کچھ اس طرح گفتگو کی، جس سے واضح ہوا کہ وہ بھی منصور بھائی کو پسند کرنے لگی ہے۔ پہلی ہی نظر میں شیدائی ہو گئی تھی۔ بتایا کہ ابھی کہیں رشتہ ہوا ہے اور نہ منگنی وغیرہ … بھائی جان کے دل میں مسرت کے پھول کھل اٹھے ۔ توقع نہ تھی کہ یہ گوہر نایاب اتنی جلد ان کی مراد بر لائے گا اور جیون ساتھی بنانے کی امید روشن ہو جائے گی۔ دو گھنٹے بعد یہ واپس گھر لوٹ آئے۔ لڑکی نے میرے بھائی سے دوبارہ آنے کا وعدہ لیا۔

جمعہ کے جمعہ آیا کرو، اس روز اماں کہیں نہیں جاتیں ، گھر ہوتی ہیں۔ تبھی اس نے بلڈنگ کے دروازے پر ہی منصور کو خداحافظ کہہ دیا اور فلیٹ پر چلنے کا نہ کہا۔ منصور بھائی سوچنے لگے ۔ لڑ کی احتیاط سے کام لینا چاہتی ہے اور مجھ سے ملنا بھی اس کے لئے خوشی کا باعث ہے، تبھی پبلک پلیس پر لے گئی اور تنہائی میں مجھے اپنے ساتھ گھر بٹھانے سے گریز کیا، حالانکہ وہ میرے بھولے بھالے بھائی پر یہ تاثر جمارہی تھی کہ جب گھر پر اکیلی ہو، کسی غیر مرد کو گھر کے اندر آنے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ ادھوری ملاقات دل کی لگی کو دو آتشہ کر گئی۔ وہ زیادہ بے چین و بے قرار ہو گئے۔ رات کو نیند نہ آتی اور کمرے سے نکل کر صحن میں ٹہلتے۔ اماں نے نوٹ کیا اور بولیں۔ بیٹا ! کیا مسئلہ ہے ، بتائو تو سہی۔ اماں ! آپ پہلے اصرار کرتی تھیں کہ شادی کرو اور اب جب میں چاہتا ہوں شادی کرنا تو نام نہیں لیتیں۔ بیٹا ! شادی ضرور کرانی ہے تمہاری اور بہت جلد چاہتی ہوں کہ ہو جائے۔ بہو گھر میں آجائے مگر ماہتاب ہرگز نہیں۔ اماں ! آخر اس میں کیا کمی ہے ؟ آپ کیوں ایک نظر دیکھ کر ہی اس سے چڑ گئی ہیں؟ ارے بیٹا ! اس لئے کہ یہ ٹھیک عورتیں نہیں لگیں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ دو نمبر عورتیں ہیں۔ ان کی سج دھج، انداز گفتگو اور پھر اکیلے رہنا۔ تم بچے ہو نا زمانے کو نہیں پر کھ سکتے۔ اماں ….! آپ بھی عجیب ہیں۔ شادی کروں گا تو ماہتاب سے اور آپ پر یہ ثابت کر دوں گا کہ یہ برے لوگ نہیں ہیں۔ آپ کے اندازے غلط ہوتے ہیں۔ اس کے بعد منصور امی سے بد گمان رہنے لگا۔ وہ دو تین بار ماہتاب سے ملا لیکن وہ فلیٹ میں نہ لے گئی بلکہ باہر ملتی اور گھر کے پاس پہنچ کر خدا حافظ کہہ دیتی۔ ایک روز منصور نے کہا کہ تم کل اپنی والدہ کو پابند رکھنا، میں اپنی ماں کو تمہاری امی کے پاس لائوں گا۔ وقت بھی بتادیا۔ اگلے روز شام کو وہ خودا کیلا ہی وہاں چلا گیا کیونکہ امی نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر لیا۔ دراصل وہ رشتہ ڈالنے سے پہلے کسی ذریعے سے ان لوگوں کے چال چلن اور خاندان کی تفصیل چاہتی تھیں۔ بھائی نے ماہتاب کو بتایا۔ امی آج نہیں آسکتی تھیں، ان کی طبیعت خراب ہے۔ اب بھائی کو کرید تھی کہ کسی طرح ماہتاب ان کو گھر کے اندر بلائے ۔ امی تو ساتھ چلنے پر تیار نہ تھیں، سوچ بچار کے بھنور میں پھنسی تھیں۔ ماہتاب نے کہا کہ ہم کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر جارہے ہیں، پندرہ دن بعد آنا ہو گا۔ وہ چاہتا تھا شاید اس دوران امی رشتے کے لئے مان جائیں۔ اس ملاقات کے دسویں روز بھائی جان پھر وہاں چلے گئے شاید دل پر قابو نہ رکھ سکے تھے۔ دروازہ بجایا تو ایک بزرگ باریش جس کے ہاتھ میں تسبیح تھی، باہر نکلے اور پوچھا۔ بیٹا! کس سے ملنا ہے؟

ماہتاب کی والدہ خالہ بانو سے۔ بیٹا، اس نام کی خواتین یہاں نہیں رہتیں۔ ان کو مالک مکان نے نکال دیا ہے۔ اس گھر میں اب میں اور میری بیوی رہتے ہیں۔ ہم نے کرائے پر لے لیا ہے۔ پاس پڑوس والوں نے سابقہ کرائے داروں کے بارے میں اچھی رائے نہیں دی لیکن بیٹے تم کیوں ان کا پوچھ رہے ہو ؟ تم تو کسی شریف گھرانے کے چشم و چراغ لگتے ہو۔ بھائی جان پریشان ہو گئے۔ بزرگ سے کہا۔ کیا خبر ہے کہ کدھر گئے ہیں یہ لوگ ؟ میں نے کہانا کہ وہ ٹھیک نہیں تھیں۔ اڑوس پڑوس سے خود معلوم کر لو۔ پڑوس والوں کی شکایت پر ہی مالک فلیٹ نے نکالا ہے ۔ارے بیٹا بلڈ نگ میں کوئی ان سے ملنا جلنا پسند نہ کرتا تھا۔ پڑوسی رابطہ رکھنا نہ چاہتے تھے ، تو وہ کیسے ان کا اتا پتا لیتے ۔ تم شریف بچے لگتے ہو، ناتجربہ کار ہو۔ ان کا خیال اگر دل میں پال لیا ہے تو نکال دو۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے گھر کا دروازہ بھیٹر دیا۔ مردہ قدموں سے منصور بھائی زینہ اتر کر آگئے۔ گھر آتے ہی امی جان سے بولے ۔ ماں میری شادی کرادیں مگر ماہتاب سے نہیں۔ وہ کیوں ۔ تم کو تو وہ بہت پسند آگئی تھی۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا۔ وہ صحیح عورتیں نہ تھیں۔ ابھی ان کے پڑوسی سے ملاقات کر کے آرہا ہوں۔اس نے بتایا ہے کہ مالک مکان نے ان کو نکال دیا ہے ، ان کے خراب چال چلن کی وجہ سے …! ایسا کہتے ہوئے بھیانے میری جانب کن انکھیوں سے دیکھا۔ میں نے منہ پھیر لیا تا کہ وہ میرے چہرے کے تاثرات نہ دیکھ لیں اور ان کی خواہش تھی کہ میں یہ بات نہ سن سکوں۔ بھائی جان کافی دن افسردہ رہے تو میں بھی دکھی ہو گئی کہ اے کاش ! ماہتاب اچھی لڑکی ہوتی تو اس کے ساتھ رشتہ کروانے میں مدد کرتی۔ امی کو کسی طرح منالیتی۔ اس کے بعد میرے بھائی کی شادی ہماری چچازاد سمیرا سے ہو گئی، جس کے ساتھ وہ پہلے شادی سے انکار کرتے تھے۔

Latest Posts

Related POSTS