شارق نے اطراف کا جائزہ لیا۔ چٹاگانگ کے شمال مغرب میں تاحدِ نگاہ کسی متنفس کا نام و نشان نہ تھا۔ خنک اور خوشگوار ہوا کے جھونکے جھرنا کے سیاہ ریشمیں بال اُڑا کر اس کے پھول سے چہرے کو اس طرح چوم رہے تھے جیسے شرارت پر اتر آئے ہوں۔
دونوں خاموش تھے لیکن ان کے دل والہانہ محبت کے جذبے سے سرشار تھے۔ انہیں کاکسس بازار میں سپنوں جیسی طمانیت سے بھرپور زندگی بسر کرتے ہوئے کئی ماہ بیت گئے تھے۔ شارق کو جھرنا کے سحر انگیز حسن نے دنیا کی تمام فکروں سے بے نیاز کردیا تھا۔ وہ محبت کا ایسا جھرنا تھی کہ شارق دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا تھا۔
شارق کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اسے جھرنا کی رفاقت سے اس لیے سرفراز تو نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کو یکسر فراموش کرکے بیٹھ جائے؟
شاید یہی سبب تھا کہ کئی روز سے اسے خواب میں کسی بزرگ کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ اس نورانی چہرے پر اتنا جلال اور آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ کوشش کے باوجود ان سے نظریں نہیں ملا سکا تھا۔ ایک آواز باربار اس کے ذہن میں گونج اٹھتی جو اس کے وجود کو ہلا دیتی تھی۔
’’کیا تو سمجھتا ہے کہ تجھے عیش و عشرت کے لیے تیری ماں نے جنم دیا ہے؟ او ناخلف! کیا تو نفس کی ہر خواہش پوری کرنے کو زندگی سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وسیع کائنات میں بکھری ہوئی علم کی لامحدود دولت تیری راہ دیکھ رہی ہے۔ زندگی تجسس اور تحقیق کا نام ہے۔ علم کی جستجو تیرا مقصدِ حیات ہے۔ اس کے لیے نفس کی دلدل سے باہر نکل۔ چل اٹھ۔ تجھے ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ ایک نئی دنیا تیری منتظر ہے۔‘‘ اور پھر اس رات اس نے جو سپنا دیکھا، وہ بڑا لرزا دینے والا تھا۔ وہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔ اس کا تمام جسم پسینے میں بری طرح بھیگ گیا تھا۔ کوئی نادیدہ ہستی اس کا دامن اپنی پوری قوت سے کھینچ رہی تھی۔ پھر اس نے بڑی سوچ بچار کے بعد ایک فیصلہ کیا۔ کیونکہ آنکھ کھلنے کے بعد بھی یہ آواز اس کے ذہن پر کسی ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی… لیکن وہ کہاں جائے؟ علم کو کہاں تلاش کرے؟ اسے کچھ پتا نہ تھا۔ اس نے فیصلہ کیا، وہ صبح ہوتے ہی جھرنا کو لے کر کاکسس بازار کی فضائوں سے نکل جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد اس کے قلب کو طمانیت ملی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے ایک نیا ولولہ، ایک نیا جذبہ اس کے ذہن میں جنم لے چکا ہے۔
جھرنا کو شارق کے اچانک فیصلے پر تعجب ضرور ہوا۔ لیکن چونکہ وہ خود بھی اس کے سنگ جارہی تھی اس لیے اسے ایک عجیب طرح خوشی اور راحت سی محسوس ہوئی۔ شارق کا طیارہ میدان میں تعمیر شدہ ہینگر میں محفوظ تھا۔ جب وہ کاکسس بازار سے روانہ ہوئے تو سہ پہر کا وقت تھا۔ مطلع صاف تھا اور موسم بھی خوشگوار…! ان کے طیارے میں ضرورت کا ہر سامان موجود تھا۔
شارق نے طیارے کو شمال مشرق کی جانب موڑ دیا۔ وہ حدِ نگاہ پھیلے ہوئے سمندر پر پرواز کرتے رہے۔
اب وہ سمندری حدود سے نکل کر ایک پہاڑی علاقے پر سفر کررہے تھے۔ اچانک فضا میں گہرے سیاہ بادلوں کا طوفان بڑے خوفناک انداز سے اس طرح بڑھتا دکھائی دیاجیسے وہ ہر چیز کا نام و نشان مٹا کر رکھ دے گا۔ شارق نے فوراً طیارہ اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔
جیسے جیسے وہ زمین کی سمت بڑھتے گئے، انہیں دور تک پھیلے ہوئے بلند خشک پہاڑ نظر آتے گئے۔ طیارے کو اتارنے کے لیے کہیں بھی ہموار جگہ نظر نہیں آرہی تھی۔ بادل اب اور گہرے ہوگئے تھے۔ تیز ہوائوں کے جھکڑ کے ساتھ ساتھ بجلی کی چمک سے آنکھیں چکا چوند ہورہی تھیں۔ اور پھر ایک نئی مصیبت یہ کھڑی ہوگئی کہ جہاز کے عقبی حصے سے دھواں نکلنا شروع ہوگیا۔ اس کی فوری وجہ شارق کی سمجھ میں نہیں آسکی۔ اب اس کے سامنے ایک ہی صورت رہ گئی تھی کہ وہ کسی بھی ہموار جگہ پر طیارے کو جلد از جلد اتار دے۔
شارق کے چہرے پر تردد کے آثار نظر آنے لگے تھے لیکن جلد ہی ایک پہاڑ کی چوٹی پر اسے ایک کافی چوڑی ہموار پٹی نظر آگئی۔ شارق نے بلا تامل طیارے کو وہاں اتار دیا۔ ہوائیں بہت تیز ہوگئی تھیں۔ تھوڑے فاصلے پر انہیں ایک غار کا دہانہ نظر آگیا تھا۔
شارق نے رات بسر کرنے کا تمام ضروری سامان طیارے سے نکال کر جھرنا کو دیا اور اسے غار میں لے جانے کے لیے کہا اور طیارے کو مضبوط درختوں کے نیچے کھڑا کیا اور رسیوں کے ذریعے پیڑ کے تنوں سے باندھ دیا تاکہ وہ محفوظ رہے۔
اس کے بعد وہ بستر وغیرہ لے کر بھاگتا ہوا غار کے دہانے میں گھسا۔ فوراً ہی تیز بارش شروع ہوگئی۔ جھرنا نے اس دوران آگ روشن کرلی تھی اس لیے غار میں ہلکی روشنی تھی۔ غیر متوقع طور پر غار کافی صاف ستھرا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ آرام کرنے کے لیے بستر پر دراز ہوگئے۔
روشنی اتنی تیز تھی کہ اس کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ شارق کی آنکھ جھرنا کی دلخراش چیخ سے کھلی تھی لیکن اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے بستر ٹٹول کر دیکھا۔ جھرنا وہاں موجود نہ تھی۔ اس نے آنکھ بند کررکھی تھی لیکن روشنی آنکھوں میں تیر کی طرح پیوست ہوئی جارہی تھی۔
’’جھرنا۔ تم کہاں ہو؟‘‘ وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ہذیانی انداز میں چلایا۔
لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے دیوانہ وار اٹھ کر آگے بڑھنا چاہا لیکن لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا۔
اگلے لمحے اسے یوں محسوس ہوا جیسے ساری دنیا گہری تاریکی میں ڈوب گئی ہو۔ اس نے گھبرا کے آنکھیں کھول دیں۔ ہر سمت تاریکی تھی۔ گہری اور مکمل تاریکی میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ کیا اس کی بینائی جاتی رہی ہے۔ وہ درد سے کراہ اٹھا اور آنکھیں بند کرکے کھڑا رہا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو خوشی سے اچھل پڑا۔ وہ اندھا نہیں ہوا تھا۔ کچھ فاصلے پر روشنی کے دھندلے آثار نظر آئے تھے۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ روشنی کیسی تھی اور وہ دلخراش چیخ…؟
’’خدایا… میری جھرنا کہاں ہے؟‘‘ اسے فوراً احساس ہوا۔ ایک بار پھر اس نے چیخ کر جھرنا کو آواز دی۔
لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا۔
مطلع صاف تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔ رات کی موسلادھار بارش نے ہر سمت پھیلے درختوں کی ہریالی مزید نمایاں کردی تھی لیکن جھرنا کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
ایک انجانا خیال آتے ہی وہ برقی سرعت سے بھاگتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں اس نے طیارہ کھڑا کیا تھا۔ اسے ڈر ہوا کہ کہیں طیارہ بھی جھرنا کی طرح غائب نہ ہوگیا ہو۔ لیکن طیارہ موجود تھا۔ اس نے طیارے کا دروازہ کھولا اور اندر جاکر دیکھا لیکن جھرنا وہاں موجود نہ تھی۔
پھر اسے خیال آیا کہ جہاں طیارہ اس نے کھڑا کیا تھا، وہاں نشیب میں ایک چھوٹی سی جھیل ناریل کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔ کہیں جھرنا وہاں آزادی سے نہا کر لطف نہ اٹھا رہی ہو۔ جب شارق جھیل پر پہنچا تو وہاں جھرنا کا لباس نظر آیا اور نہ وہ خود دکھائی دی۔ خوف سے اس کا بدن بری طرح کانپ رہا تھا۔ وہ چیخ یقیناً جھرنا کی تھی۔ اسے ضرور کوئی سنگین حادثہ پیش آگیا تھا؟
اور وہ روشنی…؟ کیسی تیز اور خیرہ کن تھی۔ جھرنا اس روشنی کے ساتھ ہی غائب ہوگئی تھی؟ لیکن کہاں؟ آخر یہ کیا اسرار تھا؟ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس کا ذہن جیسے مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ چند لمحوں کے بعد اس کے قدم آہستہ آہستہ پھر غار کی سمت بڑھ رہے تھے۔ وہ اپنی غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا۔ شاید تاریکی میں وہ دیکھ نہ پایا ہو؟ لیکن اب غار میں خاصا اجالا پھیل چکا تھا۔ غار خالی تھا۔ وہ دلبرداشتہ اور دکھی ہوکر اپنا سر پکڑ کے بستر پر بیٹھ گیا۔
تب اس نے وہ آواز سنی۔ دھیمی دھیمی سحرخیز موسیقی کا طلسم جیسے فضا میں بکھر گیا۔ آواز بڑی مدھم اور سریلی تھی اور کہیں دور سے آرہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا بہت سی گلوکارائیں مل کر نغمہ کورس کی شکل میں گا رہی ہوں۔ موسیقی کے سحر نے اسے مدہوش کردیا تھا۔ وہ غار سے باہر نکلا۔ اس کے قدم بے ساختہ آواز کی سمت اٹھنے لگے۔
مشرق سے سورج طلوع ہونے والا تھا۔ دھندلکے اس روشنی میں ہم آغوش ہوکر اپنا وجود گم کرچکے تھے۔ ایک انتہائی روح پرور سماں اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ سفید لباس پہنے ان حسینائوں کے ریشمیں، چمکدار، گھنے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے پھولوں کے زیور پہن رکھے تھے اور ہر ایک کے ہاتھ میں پھولوں سے بھری ٹوکری تھی۔ وہ بڑے باوقار انداز میں سبک خرامی سے شہزادیوں کی طرح چل رہی تھیں اور ان کے شیریں و گداز لبوں سے روح پرور نغمہ بلند ہورہا تھا جس کی لے دل کو چھوتی تھی۔
شارق کے لیے نغمے کی زبان سمجھنا ممکن نہ تھا لیکن ان کی مسحورکن آواز اس کی روح کی گہرائیوں میں اتری جارہی تھی اور وہ اس سریلی موسیقی سے مسحور ہوا جارہا تھا۔
کچھ دیر بعد یہ دلربا دوشیزائیں پہاڑ کے دامن میں نظروں سے اوجھل ہوگئی تھیں لیکن من میں ان کا عکس نقش تھا۔ فضا میں ان کے نغموں کی مدھر آواز اب اتنی مدھم ہوگئی تھی کہ سرگوشیاں کرتی لگ رہی تھی۔ ہر سمت پھولوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔
غار میں داخل ہوکر اس نے ہر سمت دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ حیران رہ گیا۔ کیا یہ سب ایک سندر سپنا تھا؟ اگر غار میں پھولوں کی خوشبو نہ ہوتی تو وہ اسے سپنا ہی سمجھتا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے حقیقت اس پر واضح ہوگئی۔ وہ اختتام پر پہنچ کر رک گیا تھا۔ آگے ایسی تاریکی تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ اچانک غار میں ایک خلا نے جنم لیا اور ہلکی روشنی میں اسے نشیب میں جانے والی سیڑھیاں نظر آئیں۔ شارق نے آگے بڑھنے میں لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، اِک دم وہ خلا بند ہوگیا۔ شارق کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ جھرنا شاید یہاں موجود ہو۔ وہ جھرنا کی تلاش میں بے دھڑک تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔
سیڑھیوں کا سلسلہ طویل تر ہوتا چلا گیا اور ساتھ ہی نغمے کی آواز قریب آتی گئی یہاں تک کہ آخری سیڑھی آگئی۔
ایک عجیب منظر اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ یہ ایک بہت وسیع اور بے حد کشادہ ہال تھا۔ ہال میں سفید لباس میں ملبوس دوشیزائیں ایک چبوترے کے گرد کھڑی گیت گا رہی تھیں۔ چبوترہ خالی تھا۔ دیوار سے ملنے والے سرے پر ایک دروازے نما خلا نظر آرہا تھا جس کے اندر تاریکی تھی۔
نغمے کی لے آہستہ آہستہ تیز ہونے لگی۔ اس کے ساتھ نغمہ سر ادوشیزائوں کے جسم حرکت میں آنے لگے۔ ان کے چہرے گلاب کی طرح تروتازہ تھے اور ان کے بلوریں جسم، سفید لباس میں دمک رہے تھے۔ وہ شارق کی موجودگی سے بے خبر رقصِ کناں تھیں۔ ان کے رقص میں ایسی دلکشی اور سحر انگیزی تھی کہ جو دل کو بے ساختہ موہ رہی تھی۔
شارق اس طرح مبہوت کھڑا رہا جیسے اس پر کوئی سحر پھونک دیا گیا ہو اور پھر چبوترے کے عقب میں بنے ہوئے دروازے میں روشنی نمودار ہوئی۔ اس کی تحیرزدہ نگاہوں نے ایک بزرگ شخص کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ ان کے جسم پر سفید لباس تھا اور ان کی سفید داڑھی کے بال چاندی کی طرح چمک رہے تھے۔ ان کے سرخ و سپید چہرے پر ایک عجیب سا وقار تھا۔ ان کی آنکھوں میں بجلی کی سی چمک تھی۔ اچانک شارق کو ایسا لگا جیسے وہ واقعی کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ کیونکہ یہ وہ چہرہ تھا، جسے وہ کئی دن سے خواب میں دیکھ رہا تھا۔ آنے والے شخص کے پیچھے چار اور سفید پوش شخص نمودار ہوئے لیکن وہ چاروں بڑے ادب اور احترام سے بزرگ کے پیچھے کھڑے رہے۔
دلکش رقص اک دم تھم گیا۔ نغمہ ساکت ہوگیا۔ فضا اور ماحول پر ایک پراسرار سا سکوت طاری ہوگیا۔
ایک ایک کرکے تمام دوشیزائوں نے پھولوں کا نذرانہ چبوترے پر رکھنا شروع کیا۔ پھولوں کی مدہوش کن مہک دل و دماغ کو معطر کرنے لگی اور تب وہ نظریں شارق کی سمت اٹھیں اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ نظریں اس کی روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتی چلی گئی ہوں۔ پھر اس کے ذہن میں ایک مانوس سی آواز گونجنے لگی جسے وہ کبھی بھول نہیں سکتا تھا۔
’’حسن بلاشبہ ایک دولت ہے لیکن فانی ہے… حسن پھولوں کی مہک کی طرح پاکیزہ اور محبت کے جذبے کی طرح روح پرور ہے۔ لیکن علم وہ دولت ہے جو روشنی عطا کرتی ہے، تازگی بھی، پاکیزگی بھی اور رہنمائی بھی۔ انسان کا ذہن جہالت کی تاریکیوں اور نفس کی غلاظتوں سے بھرا رہتا ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے چشمے کا پانی گردوپیش کی غلاظتوں کو بہا کر کنارے پر پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح علم بھی ذہن کے جہل، نفس کی تاریکیوں اور آلائشوں سے پاک کرکے روشن اور تابندہ بنا دیتا ہے۔ ہم نے تجھے بکھرے ہوئے علم کو حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ ہم نے یہ انتخاب خود نہیں کیا بلکہ یہ کرشمہ تجھے اس سرزمین پر لے آیا ہے جو اب تک انسان کی پہنچ سے دور تھی۔ تو نے یہاں ظلم اور درندگی کے خلاف فتح حاصل کی ہے اور تو نے اس کا صلہ لازوال محبت کی شکل میں پایا۔ لیکن بدی کی قوتیں کارفرما ہیں۔ حرص و ہوس کے پجاری پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ اس لیے تجھے ایک بار پھر ان کے خلاف نبردآزما ہونا ہے۔ بدی کی قوتوں نے تیری محبت کو چرا لیا ہے لیکن غم نہ کر تیرا دامن پھر اس سے بھر جائے گا۔ وہ اس وقت تیری پہنچ سے دور جا چکی ہے لیکن وہ تجھے پھر ملے گی۔ ذہن کو اس کی محبت سے سرفراز رکھ لیکن عزم کو مضبوط کرلے۔ وہ لمحہ دور نہیں جب حرص و ہوس کے پجاری تیری راہ میں حائل ہوں گے لیکن کامرانی تیرا مقدر ہوگی۔ آگے بڑھ اور اس نئی دنیا کو مسخر کرلے جو تیری منتظر ہے۔‘‘
شارق سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ اس نے سامنے موجود بزرگ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔ ان کے عقب میں کھڑے ہوئے دو افراد آگے بڑھے۔ انہوں نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی تیز دھار تلواریں کھول کر شارق کی کمر سے باندھ دیں اور پھر اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ شارق نے نظریں اٹھائیں تو چبوترے پر صرف پھولوں کا ڈھیر پڑا تھا اور وہ بزرگ غائب ہوچکے تھے۔ وہ ان دونوں کے ہمراہ چبوترے کے عقب میں بنے ہوئے دروازے میں داخل ہوا اور سیڑھیوں سے اترتا ہوا آگے بڑھا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک اور دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گئے۔ دروازہ کھلا تو وہ ایک گنبد نما کمرے میں تھے اور اس کمرے کے درمیان ایک چھوٹا سا چبوترہ تھا جس سے روشنی کی تیز شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ شارق حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ ایک بلوری پیالے میں کوئی دمکتی ہوئی چیز تھی جس سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔
’’یہ وقت کے معبد کی کنجی ہے۔‘‘ ایک نے کہا۔
’’یہ تمہارے لیے ہے۔ اس کی روشنی تمہیں ان تمام پوشیدہ راستوں میں داخل ہونے کی دعوت عطا کرے گی جو ماضی اور مستقبل کی ہر چیز کو عیاں کرسکتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے بتایا۔
’’اسے اٹھا لو۔‘‘ پہلے نے کہا۔ ’’کیونکہ حرص و ہوس کے پجاری اس کی تلاش میں پہنچ چکے ہیں۔‘‘
شارق نے لپک کر اس چمکتے ہوئے پتھر کو اٹھا لیا اور دوسرے ہی لمحے ایک بار پھر وہی خیرہ کن روشنی چمکی جو اس نے جھرنا کے غائب ہونے سے پہلے دیکھی تھی اور اس کے ساتھ فضا میں چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں اور پھر شارق نے بھاری قدموں کی آوازیں سنیں۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو پندرہ بیس خونخوار شکل کے مسلح افراد سامنے تھے اور وہ اس کمرے میں تنہا تھا۔
’’خبردار! وقت کا پتھر فوراً ہمارے حوالے کردو۔‘‘ ان میں سے ایک نے میان سے تلوار کھینچ کر حکم دیا۔
شارق چونک پڑا۔ اس کا داہنا ہاتھ بے ساختہ اپنی تلوار کے دستے پر گیا اور اس سے پہلے کہ آنے والا شخص وار کرتا، اس نے پھرتی کے ساتھ ہاتھ چلایا اور دشمن چیخ کر دور جاگرا۔ اس کے سینے سے خون کا فوارہ ابلنے لگا تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب بیک وقت شارق پر حملہ آور ہوئے۔ سب ماہر شمشیر زن تھے۔ شارق کا صرف ایک ہاتھ خالی تھا اور اسے ہر سمت سے دفاع کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ بڑی پھرتی اور دلیری سے مقابلہ کررہا تھا جیسے وہ کوئی ماہر شمشیر زن ہو۔ لیکن اتنے سارے دشمنوں سے تنہا نمٹنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ شارق پریشان ہوگیا۔ اس نے بڑی احتیاط سے سنبھل کر پیچھے ہٹتے ہوئے دیوار سے پشت لگا لی۔ اس تدبیر سے اس طرح وہ ایک سمت سے محفوظ ہوگیا لیکن تین جانب سے اس پر تابڑتوڑ حملے ہورہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر بڑی پھرتی کے ساتھ شارق پر وار کیا۔ اس نے وار روکنے کے لیے غیرارادی طور پر اپنا دوسرا ہاتھ تیزی سے آگے بڑھایا اور حملہ آور کا وار ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے وقت کے پتھر پر پڑا۔
ایک زبردست چھناکا ہوا جیسے کسی شیشے پر بھاری پتھر پڑنے سے ہوتا ہے۔ پتھر ریزہ ریزہ ہوکر زمین پر بکھر گیا۔ حملہ آوروں کے ہاتھ فضا میں اس طرح رک گئے جیسے مفلوج ہوگئے ہوں۔ وہ مایوسی اور خوف کے عالم میں فرش پر بکھرے ہوئے چمکیلے ذرّوں کو دیکھ رہے تھے۔ شارق سکتے میں آگیا تھا۔ اسے ملی ہوئی انمول اور نایاب دولت تباہ ہوگئی تھی۔
پھر اس نے تحیر زدہ ہوکر دیکھا۔ بکھرے ہوئے ریزوں سے پھوٹنے والی شعاعوں سے ہلکی ہلکی بھاپ اٹھ رہی تھی اور پھر یہ بھاپ کی طرح ہلکا دھواں شارق کی سمت بڑھنے لگا اور جیسے ہی اس کے جسم سے ٹکرایا، اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ اسے اپنے جسم میں تیز برقی رو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دھواں آہستہ آہستہ اس کے جسم میں جذب ہورہا تھا اور شارق کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا جسم ذرّے ذرّے ہوکر بکھر جائے گا۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔ آنکھوں میں تاریکی چھا رہی تھی۔ اگلے لمحے اسے کچھ یاد نہ رہا۔
٭…٭…٭
شارق جب بیدار ہوا تو اس نے خود کو شہر، زدتھیرا کے ایک سرسبز گلستان میں لیٹا ہوا پایا۔ اسے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سیارہ ڈالیکون سے اسے اپنے نئے سفر کا آغاز کرنا ہے اور زدتھیرا اس سیارے کا دارالحکومت تھا۔ شل غور کی زیر زمین تجربہ گاہ میں شارق نے حیرت انگیز سائنسی علوم کی تربیت حاصل کی تھی اور اب وہ خلائی دنیا کے جدید ترین علوم کا ماہر تھا۔ تین چار ماہ کی مسلسل تربیت اور علاج کے بعد شارق کا جسم فولاد کی طرح توانا اور مضبوط ہوگیا تھا۔ اس کا ذہن نئے علوم کی روشنی سے منور تھا۔
چشمے کے صاف و شفاف پانی میں غسل کرکے اپنا لباس پہنا۔ یہ سفید لباس ویسا ہی تھا جیسے اس نے شل غور کے غار میں اس بزرگ کو پہنے دیکھا تھا۔ نرم ملائم سفید کپڑے۔ اس لباس پر کمر کے ساتھ اس کی دونوں تلواریں لٹک رہی تھیں اور نیلی شعاعوں کا ایک انتہائی موثر پستول اس کے ساتھ لگا ہوا تھا۔
شام کا دھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ شارق اطمینان سے چلتا ہوا شہر کی فصیل کی سمت بڑھا۔ فصیل سے شہر کے اندر مندروں کے چمکتے ہوئے کلس نظر آرہے تھے۔ شارق دروازے سے شہر کے اندر داخل ہوا۔
شہر کی آبادی ایک بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ سڑکیں تنگ لیکن صاف و شفاف تھیں۔ ان کے دونوں طرف بنی ہوئی دکانوں پر کافی رونق تھی۔ بازار میں مردوں، لڑکیوں اور عورتوں کا ہجوم تھا جو اپنے بچوں کے ہمراہ خریداری کررہی تھیں۔ بیشتر عمارتیں پگوڈا کے طرز کی بنی ہوئی تھیں۔ لوگ خوش و خرم، بے فکر اور آسودہ حال نظر آتے تھے۔ رنگین لباس میں خوبصورت عورتیں اپنے ساتھی مردوں کے ساتھ آزادی سے گھوم رہی تھیں۔ ان کے چہرے دمک رہے تھے۔
لوگ شارق کو دلچسپی اور تجسس بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اور جب شہر کے بارونق علاقے میں پہنچ کر اس کی نگاہ ایک بڑی ہوٹل نما سرائے پر پڑی تو وہ بلاتامل اس کے دروازے میں داخل ہوگیا۔
اندر ایک وسیع ہال تھا جس کے دونوں جانب بنے ہوئے کیبنوں پر پردے لٹک رہے تھے۔ ایک سرے پر بار کی طرح کائونٹر بنا ہوا تھا۔ ہال میں درمیانی حصے کو چھوڑ کر ہر جگہ میزیں لگی ہوئی تھیں لیکن شاید ابھی کھانے کا وقت نہیں ہوا تھا اس لیے زیادہ تر کیبن اور میزیں خالی تھیں۔
شارق نے ایک کیبن کا رخ کیا۔ کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے پردہ نہیں کھینچا اور انتظار کرنے لگا۔ کائونٹر پر بیٹھے ہوئے دیو کی سی جسامت نما شخص نے گھور کر شارق کی سمت دیکھا اور پھر کوئی مشروب پینے میں مصروف ہوگیا۔ شارق کے برابر والے کیبن پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ میزوں کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ اسے کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ سرگوشیاں کرنے لگے تھے۔ شارق کو شدید تنہائی کا احساس ہونے لگا تھا۔
اس نے اشارے سے ویٹر کو بلا کر کہا کہ پینے کے لیے کچھ لائے۔ ویٹر آرڈر لے کر کائونٹر کی طرف چلا گیا۔ شارق کے برابر والے کیبن سے ایک ہاتھ باہر نکلا۔ ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی پر ایک چمکدار نیلا پتھر چمک رہا تھا۔ ہاتھ نے کائونٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے دراز قد شخص کو اشارہ کیا اور پھر پردے کے پیچھے غائب ہوگیا۔ شارق کی پشت اس جانب تھی اس لیے وہ اشارہ اس کی نگاہوں میں نہ آسکا۔
ویٹر نے ایک سبز رنگ کا مشروب لا کر شارق کے سامنے رکھ دیا۔ مشروب ایک دھات کے بنے ہوئے مگ میں تھا۔ شارق نے ایک گھونٹ بھرا۔ مشروب بے حد لذیذ اور ٹھنڈا تھا۔ اس قدر فرحت بخش تھا کہ وہ مزے لے کر پینے لگا۔ ایسا مزیدار مشروب اس نے کبھی نہیں پیا تھا۔
شارق مشروب پیتے ہوئے ہال کا جائزہ لے رہا تھا تاکہ اپنی تنہائی کے احساس کو کم کرسکے۔ دلربا لڑکیوں اور حسین عورتوں کی موجودگی نے ماحول کو بڑا سندر بنا دیا تھا۔ معاً اس کی نگاہ کائونٹر کی سمت اٹھی۔ کائونٹر پر بیٹھا ہوا شخص اٹھا۔ شارق نے دیکھا کہ وہ ایک بے حد دراز قد شخص تھا۔ وہ اکڑ کر چلتا ہوا شارق کے کیبن کے بہت قریب سے گزرا۔ شارق نے باہر اپنے پیر پھیلا رکھے تھے۔ وہ دراز قد شخص اس کے پیر سے ٹکرایا اور گرتے گرتے بچا۔ اس نے غصے سے پلٹ کر شارق کو دیکھا۔ وہ چاہتا تھا کہ شارق اٹھ کر اس سے معافی مانگے لیکن شارق اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
’’جنگلی شخص…! تجھے بیٹھنے کی تمیز نہیں…‘‘ اس نے غراتے ہوئے کہا۔ ’’نالی کے کیڑے! تو کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو… میں تیرے ان کھروں کو کاٹ کر کتوں کے سامنے پھینک دوں گا۔‘‘
شارق نے اس کی بکواس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اطمینان سے بیٹھا مسکرانے لگا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ بدمعاش خواہ مخواہ اس سے الجھنا چاہتا ہے۔ اس کی خوں خوار آنکھوں سے ایسا ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اسے قتل کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرے گا۔
ہال میں اچانک ایک دہشت ناک سناٹا چھا گیا۔ لوگ خوف زدہ نگاہوں سے شارق کی طرف دیکھنے لگے جیسے انہیں اس کے درد ناک انجام کا یقین ہوگیا ہو۔ قریب بیٹھے ہوئے لوگ خوف سے آہستہ آہستہ دروازوں کی طرف کھسکنے لگے۔ شارق کی خاموشی نے اس دیو قامت کو مزید مشتعل کردیا تھا۔ اس نے تلوار کھینچ کر ہاتھ میں لے لی اور بولا۔ ’’تیرے زنانہ چہرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیری ماں نے تجھے کسی محل کا خواجہ سرا بنانے کے لیے جنا تھا لیکن میں…‘‘
شارق بڑے اطمینان سے اٹھ کر کیبن سے باہر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں نیلی شعاعوں والا پستول دیکھ کر دیوقامت کا جملہ اس کے حلق میں کسی گولے کی طرح پھنس گیا۔ اس کی ساری بہادری، بدمعاشی اور شیخی ہوا ہوگئی تھی۔ شارق اس کی طرف بڑھا تو وہ خائف ہوکر ایک قدم پیچھے ہٹا۔
’’نوجوان! شاید تم میرے مذاق کا برا مان گئے۔‘‘ اس نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا۔ ’’لیکن تم اجنبی معلوم ہوتے ہو اور میں… میں ایسے مذاق کا عادی…‘‘
’’بزدل! اتنا بڑا جثہ ہوتے ہوئے بھی بزدلی کا مظاہرہ کررہا ہے۔‘‘ شارق نے کہا۔ ’’ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ تو مرد ہے تو آگے بڑھ… پیچھے کیوں ہٹ رہا ہے۔‘‘
’’لیکن تم…! تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔ میرا مقصد لڑائی کرنا نہیں… میں نے کہا نا کہ…‘‘
شارق نے اسے اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے پستول سے ایک نیلی شعاع نکل کر دراز قد کی تلوار سے ٹکرائی۔ تلوار کا پھل آگ کی طرح سرخ انگارہ بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تلوار کا پھل پگھل کر اس طرح فرش پر ٹپکنے لگا جیسے فولاد کا نہیں موم کا بنا ہوا ہو۔ اس دراز قد نے تڑپ کر تلوار کا دستہ ہاتھ سے الگ کرنا چاہا لیکن اتنی دیر میں وہ کسی دہکتے انگارے کی طرح سرخ ہوکر اس کے آہنی ہاتھ سے چپک گیا تھا۔ اس نے درد کی شدت سے بلبلاتے ہوئے چیخ کر اسے پھینک دیا۔ فضا میں جلے ہوئے گوشت کی بو پھیل گئی۔
شارق آگے بڑھا۔ وہ دیو قامت شخص شدید اذیت کے عالم میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا دلخراش چیخیں مار رہا تھا۔ شارق نے ایک بھرپور گھونسا اس کے جبڑے پر رسید کیا کہ اسے تارے نظر آگئے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا پلٹ کر برابر والے کیبن کے دروازے کی دہلیز پر گرا۔ شارق نے اسے گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور اس مرتبہ پیر کی زبردست ٹھوکر اس کے منہ پر رسید کی۔ اس دیو قامت کے منہ سے ایک دردناک چیخ ابھری۔ وہ دور جاگرا اور پھر ساکت ہوگیا۔
شارق ہاتھ جھاڑتا ہوا اپنے کیبن میں
آکر بیٹھ گیا۔ اسے اپنی بے پناہ طاقت کا اندازہ پہلی بار ہوا تھا۔ ہوٹل کے ملازم جو یہ تماشا دیکھ رہے تھے، ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اور بے ہوش دراز قد شخص کو گھسیٹتے ہوئے دروازے سے باہر لے گئے۔ ہال میں پھر گہرا سناٹا چھا گیا۔
’’کیا ایک لاکھ سونے کے سکّے کمانا پسند کرو گے جوان…؟‘‘
شارق نے چونک کر نگاہیں اٹھائیں۔ ایک لاکھ سونے کے سکّے اس کے دیش میں اتنی قیمت رکھتے تھے کہ ایک ہیلی کاپٹر خریدا جاسکتا تھا۔ اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے زرد چہرے والے بڈھے کو اندر آتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنی وضع قطع سے خبیث دکھائی دیتا تھا اور اپنے حلیے سے افریقہ کے تاریک جنگلوں کا باسی نظر آتا تھا۔
٭…٭…٭
شارق نے ناقدانہ نظروں سے اس مکروہ صورت بڈھے کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ وہ گنجا تھا اور آنکھیں چھوٹی اور کینہ توز تھیں۔ اس کے چہرے پر پڑی ہوئی بے پناہ جھریوں نے اسے مزید کریہہ صورت بنا دیا تھا۔
’’جائو… اپنے مالک سے کہہ دو کہ نہ مجھے طاقت کے بل بوتے پر قابو میں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی لاکھوں کے سونے کے سکوں سے خریدا جاسکتا ہے۔‘‘ شارق نے کہا تو اس کے لہجے میں بے خوفی اور تلخی تھی۔ ’’اس سے کہو کہ کیبن کے اندر عورتوں کی طرح چھپ کر بیٹھنے سے اس کا مکر و فریب نہیں چھپ سکتا۔ جائو… بڈھے! تمہارے بدن سے قبر کے مردے جیسی بو آرہی ہے۔‘‘
شارق کے درشت جواب نے بڈھے کو بھونچکا کردیا لیکن اس نے سانپ کی طرح چمکتی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’دو لاکھ…‘‘
’’دو لاکھ تو کیا خبیث بڈھے! دس لاکھ بھی نہیں… میں کوئی بکائو مال نہیں ہوں۔‘‘ شارق نے غصے سے کہا۔
’’بڑوں سے بات کرنے کی تمیز سیکھو نوجوان!‘‘ بڈھے نے کسی سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے کہا۔ ’’میں راجہ مندر کا پروہت ہوں۔ میرے ایک اشارے پر تم جل کر بھسم ہوجائو گے۔‘‘
’’بکواس بند کر خبیث بڈھے!‘‘ شارق گرجا۔ ’’میں یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو راجہ مندر سے کیوں فرار ہوا؟ مجھے تیری ساحرانہ قوتوں کا اچھی طرح علم ہے لیکن وہ مجھ پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ تو نے اپنے دیوتائوں سے فریب کیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ تو اب راجہ مندر کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔‘‘
بڈھے پروہت کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس نے غصے میں شارق کو گھورنا شروع کردیا۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں سی نکل رہی تھیں لیکن اس کی مقناطیسی قوتوں نے شارق پر کوئی اثر نہیں کیا۔ شارق نے مسکراتے ہوئے پروہت کے چہرے پر پھونک ماری۔ وہ گھبرا کر کھڑا ہوگیا اور شعلہ بار نگاہوں سے گھورنے لگا۔
’’آج تک کسی نے سوامی سے مقابلے کی جرأت نہیں کی۔‘‘ اس نے غصے سے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا اور چلا گیا۔
شارق اطمینان سے مسکراتا رہا۔ اسے اب ان قوتوں کا اندازہ ہورہا تھا جو شل غور کے بزرگوں نے تربیت کے دوران اسے عطا کی تھیں۔ مشروب ختم کرکے وہ فاتحانہ انداز میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ سرائے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی سہمی ہوئی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں۔ شارق نے اپنے برابر والے کیبن کا پردہ ایک جھٹکے کے ساتھ الگ کیا۔ اندر بیٹھا ہوا دراز قد شخص اچھل پڑا۔ وہ کافی جسیم تھا۔ اس کے چہرے پر بلاکی کی رعونت تھی۔ اس کی کمر سے ایک خطرناک برقی کوڑا بندھا ہوا تھا۔
’’میرا خیال ہے تم نے اپنے دونوں حربے آزما لیے۔ کوئی اور باقی رہ گیا ہے تو اسے بھی آزما کر دیکھ لو۔‘‘ شارق نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
ایک لمحے کے لیے اس شخص کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے لیکن اس نے فوراً ہی خود پر قابو پا لیا۔ اور سرگوشی کی۔ ’’میں تمہیں منہ مانگی دولت دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’میں بکائو مال نہیں ہوں۔‘‘ شارق نے جواب دیا۔ ’’اور تم جس دولت پر اتنا تکبر کررہے ہو، اس کی میری نظر میں کوئی وقعت نہیں۔ تم جیسے گھٹیا لوگ مجھے خرید نہیں سکتے… پرنس شاہان!‘‘
’’تمہاری یہ جرأت؟‘‘پرنس شاہان نے کانپتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں میرے نام کا علم کیونکر ہوا؟‘‘
’’میرے علم میں یہ بات بھی ہے کہ تم چترا راج کے شہزادے ہو۔ تمہیں خطرناک ترین سفید ریچھ کا شکار کرنے کا شوق نہیں بلکہ جنون ہے۔ اسے تم دیوانگی کا نام بھی دے سکتے ہو۔‘‘ شارق نے کہا۔ ’’لیکن پرنس شاہان! کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ تم بزدل ہو؟‘‘
’’تم حد سے آگے بڑھ رہے ہو۔‘‘ پرنس شاہان کا ہاتھ سرعت سے بندھے ہوئے برقی کوڑے کی طرف بڑھا۔
’’اس سے پہلے کہ تم کوڑے کا دستہ پکڑ سکو، اتنے میں تمہاری کلائی کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے۔‘‘ شارق نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’پرنس شاہان! چاہو تو آزما لو۔‘‘
پرنس شاہان کا ہاتھ اک دم رک گیا۔ پھر وہ مسکرانے لگا اور چند لمحوں کے وقفے کے بعد اس نے کہا۔ ’’میں تمہاری اس دیدہ دلیری اور نڈر پن سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں تم سے دوستی کا خواہشمند ہوں۔ مجھے تم جیسے آدمی کی ضرورت ہے۔ بولو۔ کیا مانگتے ہو… میں تمہیں…‘‘
’’بزدل اور مکاروں سے دوستی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ شارق نے صاف گوئی سے کہا۔
’’گندے کیڑے… تو شاید اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔‘‘ پرنس شاہان اپنی توہین پر چراغ پا ہوگیا۔
پھر اس نے بڑی پھرتی سے برقی کوڑے کو کمر سے کھولا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے شارق کے فولادی ہاتھ کی گرفت نے اسے بے بس کردیا۔ پھر اس نے اس کی کلائی دبائی۔ پرنس شاہان نے درد سے چیخ مار کر کوڑا چھوڑ دیا۔ شارق نے لپک کر کوڑا اٹھایا تو پرنس شاہان سہم کر پیچھے ہٹا۔ شارق نے قہقہہ مار کر کوڑے کے ٹکڑے کردیے اور اسے زمین پر ڈال دیا۔ کوڑے کو توڑتے سمے اس سے چنگاریاں سی نکلیں۔ شارق کو اس برقی کوڑے کی اہمیت معلوم تھی۔ اس کی ایک برقی ضرب جس جگہ پڑ جاتی، وہ حصہ مفلوج ہوجاتا۔
(جاری ہے)