Thursday, October 10, 2024

Kushi Naseed Na Huwi

کئی برس ہماری شادی کو گزر گئے ، بچے بڑے ہو گئے۔ ایک روز ایک عجب حادثہ ہو گیا، جس نے میرے گزشتہ ، موجودہ اور مستقبل کے سکون کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا- میرے شوہر ایک ایسے شہر میں رہتے تھے جہاں کا ماحول گھٹن زدہ تھا۔ وہاں عورتوں پر پابند یاں بہت تھیں جبکہ میں شادی سے قبل نسبتا بڑے شہر کی پرور د واور آزاد ماحول کی عادی تھی، جہاں کو ایجو کیشن “ میں پڑھا، لہذا شادی ہو کر جب سُسرال آئی تو یہاں پابندیوں سے وحشت زدہ ہو کر بیمار پڑ گئی۔ جیون ساتھی نے میری بیماری کی وجہ کو بھانپ لیا۔ بولے۔ تم پریشان مت ہو، جہاں تم خوش رہو گی میں وہاں رہوں گا۔ اگر تم شہر شفٹ ہو نا چاہتی ہو تو وہاں رہائش اختیار کر لیتے ہیں ، میں اپنی اراضی فروخت کر دوں گا اور یہاں جو میرا کار خانہ ہے اس کو بند کر دیتا ہوں۔ چاہے قلاش ہو جائوں مگر تم کو ناشاد نہیں دیکھ سکتا۔اگر تمہارا نام تمہارے والدین نے وفا رکھا ہے تو میں بھی کم وفادار نہیں۔ میں دلہن تھی، خاموش ہو گئی۔ اتنی بڑی بڑی باتوں کا بھلا کیا جواب دیتی۔ روحیل میرے لئے اجنبی تھے۔ وہ پہاڑوں میں آباد ایک قبیلے کے فرد تھے لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد قدرے روشن خیال ہو گئے تھے ،تاہم میرے لئے بالکل اجنبی تھے۔ میں نے ان کو شادی سے قبل نہ دیکھا تھا۔ یہ شادی میرے والد کے ایک دوست نے اپنے دوست کے بیٹے سے کروائی تھی۔
یہ شادی کے بعد تیسرا ہفتہ تھا۔ ہمارے ساتھ کو عرصہ ہی کتنا گزرا تھا۔ گرچہ ہم عمر بھر کے ساتھی بن چکے تھے لیکن ابھی تک ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔ ان کی عادات کا مجھے علم نہ تھا اور میرے طور اطوار کو وہ جانتے نہ تھے۔ میں ایک تعلیم یافتہ ،روشن خیال گھرانے کی لڑکی تھی۔ شادی سے پہلے ملازمت بھی کر چکی تھی، جبکہ یہاں کے درودیوار تک جیل کے جیسے تھے۔ یہاں عور تیں اپنی مرضی سے کہیں باہر آتی جاتی نہیں تھیں۔ سیر و تفریح تو کجا یہاں تو ان کے مکانات پر پرند ہ پر نہ مار سکتا تھا۔ جب روحیل نے دل بڑھانے والی باتیں کہیں تو میں ٹھنڈے دل سے سوچنے لگی۔ کیا میں یہاں ساری زندگی بتا سکتی ہوں؟ روحیل اچھی عادات کے تھے لیکن پرانی روایات کی پابندی کرنے پر ، خاندانی وجوہ کے باعث مجبور تھے۔ابھی میں سوچوں کی بھول بھلیوں میں گم تھی کہ شوہر کی محبت میرے پیروں کی زنجیر بنتی گئی۔انہوں نے میرے لئے خادمائوں کا انتظام کر دیا کہ پلنگ سے اترنے پر ، میرے پیر میلے نہ ہو جائیں۔ انہوں نے مجھ کو اتنا اپنائیت بھر احساس دیا کہ جی چاہتا ان کے دل میں چھپ کر رہ جائوں ، بڑا شہر ، اس کی آزادیاں جائیں بھاڑ میں ، لیکن ماحول دیکھتی تو پھر وحشت ہونے لگتی۔ خاص طور پر جب یہ ہفتہ بھر کے لئے اپنے باغات کی فصل دیکھنے چلے جاتے ۔ابھی تو نئی زندگی کی شروعات تھیں ، زیادہ وقت گھر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جس نے میرا دل موہ لیا تھا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ہماری شادی کو چار ماہ ہوئے تھے ۔ ہم اوپر کی منزل کی چھت پر سورہے تھے ۔ وہ مجھ سے باتیں کر رہے تھے کہ تم مجھے بے حد اچھی لگتی ہو۔ سوچتا تھا کہ نجانے میری دلہن کیسی ہو گی ، لیکن اللہ تعالی نے تمہاری صورت میں مجھے زندگی بھر کے لئے خاص انعام دے دیا ہے ۔ وفا، مجھے کو اگر کسی سے محبت ہوئی ہے تو گھونگٹ اٹھاتے ہی اپنی دلہن سے ہوئی ہے ۔ یہ باتیں سُن کر مجھ کو ان کے محلے کی ایک عورت کی کہی بات یاد آگئی جو ایک روز میری نند سے ملنے آئی تھی مگر وہ گھر پر نہ تھیں۔ تب اس عورت نے ہولے سے کہا تھا کہ تمہارے شوہر اورشیریں گانا گانے والی کی خوب دوستی تھی ذرا بچ کر رہنا – اچھا۔ تو صاحب یہ تو بتائے کہ یہ شیریں ، کون ہے ؟ آج موقع اچھا تھا میں نے وہ سوال کر ہی دیاجو میرے دل میں تھا۔ وہ یک دم خاموش ہو گئے ۔ بو لیے نا جناب۔ کوئی نہیں۔ تم سے کسی نے غلط کہا ہے ۔ دراصل میں اپنے دوستوں کے ساتھ شادی سے پہلے شیر یں نامی ایک مغنیہ کا گانا سنے جایاکرتا تھا۔ تمہیں تو پتا ہے کہ ہم مر د لوگ ایسا کچھ شغل میلہ کرتے ہی ہیں ، لیکن اب جب سے شادی ہوئی ہے۔ میں اس جگہ بھی نہیں گیا۔ اچھا آ ئندہ اس عورت کا تذکرہ بھی مت کر ناورنہ مجھ کو برا لگے گا۔ میں نے کہا۔ وعدہ کرتی ہوں کبھی اس بارے پھر بات نہ کروں گی پر اس کے بارے میں سچ بتا دیں ۔ بتایا نا کہ ایک مغنیہ ہے۔ بہت اچھا گاتی ہے۔ اس کی ماں بھی بہت مشہور گانے والی تھی۔ دوست ایک روز ز بر دستی ان کے ٹھکانے پر لے گئے۔ بلا کی گائیکہ ہے ، کیا آواز پائی ہے ۔ بالکل کو ٹل کی سی ، درد بھری ، جب گاتی ہے سننے والے ساکت رہ جاتے ہیں ۔ مجھ کو موسیقی سے شغف ہے ، لہذا جب بوریت محسوس ہوتی تو میں کا گانا سنے چلا جاتا تھا۔ اتنا بتا کر وہ چپ ہو گئے۔ پھر کیا ہوا؟ میں نے اشتیاق سے پوچھا۔ بتایئے تا! آپ کو میری قسم ہے سچ سچ بتادیجئے۔ سچ سچ بتادوں ، تو سنو ۔ اس بچاری کو عشق ہو گیا مجھ سے ۔اگر کچھ دن زیادہ گزر جاتے اور میں نہ جا پا تا تواس کے قاصد آتے، سندیسے لاتے، میرے دوستوں سے التجائیں ہو تیں کہ روحیل سے کہو کہ دو گھڑی کو آکر اس صورت دکھا جائو۔ وہ آپ کو کیسی لگتی تھی؟ مجھے بھی اچھی لگتی تھی۔ سچ کہوں تو اگر مال زادی نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ میں اس سے شادی کر لیتا۔ اس نے بہت منتیں کیں کہ میں اس سے شادی کر لوں تو وہ عمر بھر کے لئے گانا چھوڑ دے گی اور پردے میں رہ کر زندگی گزارے گی۔ میں جیسے رکھوں گار ہے گی لیکن میں نے منع کر دیا کہ میں اپنی خاندانی ریت روایت سے مجبور ہوں۔اس کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔ اس نے وعد دلیا کہ اگر میری شادی ہو جاۓ تو کبھی میں ہمیشہ اس کے ساتھ رابطہ ضرور رکھوں گا۔ تو کیا آپ نے وعدہ کر لیا تھا؟ ہاں، اس کو ٹالنے کے لئے۔ یوں سمجھو کہ جان چھڑانے کو جھوٹا وعدہ کر لیا تھا لیکن شادی کے بعد میں اس کے پاس نہیں گیا۔ تو کیا اب اسے صبر آگیا ہے ؟ صبر کیا آنا ہے ، لوگ آ کر اس کے بارے میں بتاتے ہیں، یعنی میرے دوست کہتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس آ کر روتی ہے ، منتیں کرتی ہے کہ ایک بار روحیل کو میرے پاس لے آئو یا مجھ کو اس سے ملوادو۔ تو آپ کو دکھ نہیں ہوتا ہے ؟ ہاں اس بات پر کہ میرے کچھ دوست اس کا مذاق بناتے ہیں ،اس کو دھوکے سے لے جاتے ہیں کہ چلو روحیل فلاں جگہ ہے مگر وہاں لے جا کر وہ اس سے فائد ہ اٹھا لیتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے بہت رنج ہوا۔ کیا ہوا کہ وہ بیچاری حالات کے ہاتھوں غلط جگہ کی مکین ہوئی ،لیکن تھی تو ایک عورت ۔ مجھے کور نجید و دیکھ کر کہنے لگے ۔اسی لئے تو نہیں چاہتا تھا کہ یہ سب بتائوں۔ اچھا ہے کہ مزید ہم اس بارے بات نہ کر میں اور اس باب کو یہیں بند کر دیں۔ میں اس بات سے افسردہ نہیں کہ شادی سے قبل آپ گانا سننے جاتے تھے ، شادی سے قبل کے معاملات سے میرا کیا ، اچھا کیا سچ بتایا۔ اس بات سے تو میاں بیوی میں باہم اعتبار و اعتماد کارشتہ قائم دائم رہتا ہے۔ تو پھر کیوں ملول ہو گئی ہو ؟ یوں کہ مجھ کو آپ کی سنگ دلی پسند نہیں آئی۔ کاش وہ ا یک بار مجھے مل جاۓ تو میں اس کے آنسو پونچھ لوں گی۔ ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ میری نند کا بچہ بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا۔ روحیل ماما آپ سے ملنے ایک عورت آئی ہے ۔ وہ باہر دروازے پر کھڑی ہے۔ اس شہر میں رات کے وقت کوئی عورت کسی مرد سے ملنے نہیں آسکتی۔ آۓ گی تو گھر کی عورتوں کے پاس ہی جائے گی۔ روحیل نے نیچے جانے سے منع کر دیالیکن میرے دل نے گواہی دی ہو نہ ہو یہ شیر یں ہے۔ وہی روحیل سے ملنے اس وقت آسکتی ہے ، کیو نکہ دل کی لگی دیوانگی تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔ تبھی میں نے اصرار کیا آپ نیچے جایئے ، دیکھئے تو کون ہے ؟ بظاہر میرے کہنے سے وہ اٹھے۔ میں بھی ان کے پیچھے چل دی۔ انہوں نے ترنت بیٹھک کادروازہ کھولا ۔ وہ اندر سے باہر گئے تو میں بھی ان کے پیچھے بیٹھک میں داخل ہونے لگی۔ انہوں نے مجھے وہیں روک دیا، بولے۔ کیا خبر میرا کوئی دوست ہو ! تم بے دھڑک بیٹھک میں کیسے آسکتی ہو ؟ یہ کہ کر انہوں نے مجھے پیچھے کیا اور دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی چڑھادی۔ اس کے بعد بیٹھک کا وہ دروازہ کھولا جو باہر برآمدے میں کھلتا تھا۔ انہوں نے دربان کو آواز دی۔ کون مجھ سے ملنے آیا ہے ؟ اب میں بیٹھک کے ادھر گھر کے اندر راہداری میں بند دروازے کے پاس کھڑی تھی اور شیشے پر کان لگا کر اندر کی سر گوشیاں سُن سکتی تھی۔ مجھ کو قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی بیٹھک کے اندر آ یا پھر تھوڑی دیر میں عورت کی سسکیاں سنائی دیں۔ وہ روتے ہوۓ کچھ کہہ رہی تھی۔ دونوں کی گفتگو مد هم آواز میں تھی ، جس کو کان لگا کر سننے کے باوجود نہ سُن پارہی تھی۔ میرے پیر جیسے زمین نے جکڑ لئے تھے۔ وہاں سے ہٹنے کا نام نہ لوں اور ادھر یہ ڈر کہ گھر کے اندر سے کوئی راہداری میں نہ آ نکلے ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میری ساس اپنے کمرے سے نکل کر راہداری میں آئیں۔ مجھ کو اس طرح مشکوک انداز سے کھڑا پایا تو میری طرف آئیں ، پوچھا۔ کیا بات ہے دلہن ؟ انہوں نے بھی دروازے کے شیشے پر کان لگادیئے ۔ ان کی سماعت کی جس مجھ سے کہیں تیز تھی۔ عورت کی باتیں ان کی سمجھ میں آنے لگیں ، جو کہہ رہی تھی کہ تم نے تو شادی کے بعد بھی میرے پاس آتے رہنے کا وعدہ کیا تھا، پھر وعدہ کیوں وفانہ کیا؟ جانتے ہوۓ تمہارے دوستوں نے مجھ کو تمہارے نام پر کتناد ھو کا دیا ہے۔ اس کی سسکیوں کے ساتھ اس کی چوڑیوں کی کھنک عجب طرح کی آواز میں پیدا کر رہی تھی۔ میری ساس معاملے کو سمجھ گئیں۔ تبھی انہوں نے دروازے کے چوکھٹے پر لگے شیشے کو مکے مارے اور بولیں۔ کون ہے اندر روحیل نکالوا سے ۔ کھولو در وازہ ورنہ میں دروازہ توڑ دوں گی۔ ان کی گرج دار آواز سے روحیل ڈر گئے۔ ان کی آواز سنائی دی۔ شیر یں تم کو خدا کا واسطہ دیکھو میں ہاتھ جوڑتا ہوں ، تم اب جائو۔ یہ لو برقع اپنا۔ جلدی کرو ورنہ اماں تمہارا اور میر احشر کر دیں گی۔ چند سیکنڈ میں بیٹھک سے کسی کے باہر جانے کی آہٹ سنائی دی اور پھر روحیل نے بیٹھک کا دروازہ بند کر کے ہماری طرف کا دروازہ کھول دیا۔ کون تھی یہ ؟ کون آیا تھا ؟ اماں غصے سے پھنکار رہی تھیں۔ کوئی نہیں. میرا دوست تھا۔ پھر انہوں نے مدد طلب نظروں سے مجھے دیکھا تو میں نے ان کی والدہ کو بازو سے پکڑ کر کہا۔ چلیے تاں جی ۔ ادھر آیئے۔ میں ان کو ان کے کمرے کی طرف لے چلی۔ اماں آپ پر ایشان نہ ہوں۔ میں ابھی پوچھ لیتی ہوں ان سے ۔ وہ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتے ۔ بڑی مشکل سے ان کی والدہ کو میں نے سنبھالا۔ ان کے کمرے میں پہنچایا، پانی پلا یا پھر میں روحیل کی طرف آئی۔ وہ بیٹھک میں بستر پر لیٹے ہوۓ تھے۔ میں نے چند ٹوٹی ہوئی چوڑیاں بکھری دیکھی تھیں اور ایک چھوٹاسا زحم ان کی ہتھیلی پر بھی تھا جس میں سے خون رس رہا تھا۔ شاید انہوں نے اس دیوانی کو کلائی سے پکڑ کر بیٹھک سے باہر کر ناچاہا تھا کہ چوڑی ٹوٹ کر ان کی ہتھیلی کو زخمی کر گئی۔ میں نے الماری سے دوا اور پٹی نکالی اور زخم پر دوالگا کر پٹی باندھ دی۔ وہ خاموش لیٹے رہے ، فوری طور پر جواب طلبی کو میں نے بھی مناسب نہ جانا۔ معاملہ تو سمجھ میں آ ہی چکا تھا۔ میں چپ تھی مگر چند لمحے پہلے بیٹھک سے آتی سسکیاں میرے دل میں سوراخ ڈال گئی تھیں۔ وہ لڑ رہی تھی، جھگڑ رہی تھی کہ شکایت شکوے کر رہی تھی ، سب آواز میں گڈ مڈ ہو گئیں، میرے کان جیسے بند ہو گئے تھے لیکن بند کانوں کے پردوں سے بھی مجھ کو وہ بول سنائی دے رہے تھے جو آنسوئوں سے تر بتر تھے۔ میرے ہاتھوں اور بانہوں میں گجرے تھے اور میں نے سہاگ جوڑا پہنا ہوا تھا، روحیل کے نام کا۔ صبح تک میری ساس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا۔ وہ ہمارے کمرے میں آئیں اور کہا کہ کون تھی آخر وہ؟ یہاں آئی کیسے ؟ کیونکر جرآت ہوئی اس مال زادی کی۔ سن لو، روحیل اب اگر وہ دوبارہ یہاں آئی تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گی۔ آج بھی میں نے انہیں قابو کیا۔ مجھے انداز ہو گیا کہ روحیل کی والدہ کی اس گھر میں کتنی اہمیت اور رعب ہے کہ کنبے کے تمام افرادان کے سامنے نہیں بول سکتے تھے۔ وہ غصے کی بھی بہت تیز تھیں لیکن میرے ساتھ شفیق اور مہربان تھیں۔ میں نے اب گھر بسانے کی ٹھان لی تھی۔ روحیل کے سچ بتادینے سے میرے دل پر ان کا اعتبار قائم ہو گیا تھا۔ وود وشی تھے یانہیں؟ شادی سے قبل کے معاملات پر ہم دونوں کا کچھ اختیار نہ تھا کہ وہ ماضی کا حصہ تھے اور موسیقی کو میں جرم نہیں جانتی تھی۔ میں نے روحیل کو معاف کر دیا۔ دو بارہ اس واقعے کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا۔ میں نہ ان سے وضاحتیں طلب کر نا چاہتی تھی اور نہ ہی اپنی زندگی میں الجھنیں بڑھانا چاہتی تھی۔ جب وہ مجھ سے محبت بھراسلوک رکھتے تھے تو کیوں اپنی اور ان کی زندگی میں زہر گھولتی ؟ میں کوئی جاہل اجڈ تو نہ تھی، تعلیم یافتہ تھی۔ ہماری زندگی میں پہلے سے بڑھ کر اب سکون تھا۔ پہلے میں سوچتی تھی کہ ان بندشوں بھرے ماحول میں کیوں کر تمام عمر گزار پائوں گی لیکن شیر یں کے آنے کے بعد سے یہ بات مجھ پر واضح ہو گئی کہ مجھے بھی روحیل بن کہیں چین نہ آۓ گا۔ اگر سکون ملے گا تو یہیں اپنے شوہر کے پاس، انہی کے گھر میں ۔ دل نے حتمی فیصلہ کر دیا کہ اب عمر بھر اپنے سرتاج کے پاس ہی رہنا ہے۔ ایسانہ ہو میرے بغیر یہ کسی اور کے ہو جائیں۔ ہماری زندگی معمول کے ڈگر پر چل نکلی۔ بچے ہو گئے تو جیسے سونے چمن میں پھول کھل گئے ۔ میکے کو بھول کر بچوں کی محبت اور ان کی پرورش میں کھو گئی۔ روحیل کام کاج کے سلسلے میں ایک ایک ماہ نہیں آتے ،اپنے کاروبار میں مصروف سے مصروف تر ہوتے گئے۔ مجھے پروانہ تھی۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ سکھ سکون سے رور ہی تھی۔ روحیل مال خرید نے پشاور سے آگے گئے ہوئے تھے کہ ان کے ٹرک کو حادثہ پیش آ گیا۔ وہ جاں بحق ہو گئے۔ قیامت خیز خبر میرے دیور نے آکر سنائی۔ دودن تک ہوش نہ آیا۔ مجھے اسپتال لے گئے۔ یہ تو میری زندگی تھی کہ کوما سے نکل آئی ، ہوش آ گیا۔ میرے بچوں کی خاطر خدا نے مجھ کو دوبارہ نئی زندگی عطا کر دی۔ شوہر کا صدمہ تو سہنا ہی تھا کہ موت کی طرح یہ صدمہ بھی اٹل ہوتا ہے ، سہناہی پڑتا ہے لیکن میرے خالق نے ایک اور ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر شاید مجھ کو دوبارہ نئی زندگی عطا کی تھی اور وہ ذمہ داری تھی روحیل کی وفات کے بعد اس کی تین بیٹیوں کو ماں کی شفقت دینے کی۔ روحیل کی وفات کے صرف ایک ماہ بعد تین خوبصورت لڑکیاں ، عائشہ گل، فاطمہ گل اور فرح گل ، میرے دیور سہیل کے ہمراہ آ گئیں۔ سہیل نے کہا۔ بھائی ! میں آپ سے معذرت کا طلب گار ہوں۔ آپ صدمہ میں تھیں۔ صحیح صورت حال سے آگاہ نہ کر سکا۔ آپ سے شادی کے چند ماہ بعد بھائی روحیل نے شیریں نامی ایک عورت سے نکاح کر لیا تھا۔ اس راز سے میرے سوا کوئی واقف نہیں تھا۔ مجھے بھی بھائی صاحب نے کچھ ماہ پہلے ہی اپنی دوسری شادی کے بارے میں آگہی دی اور گھر بھی لے گئے۔ شاید ان کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے تھے ، تبھی خدا نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اپنے خاندان کے کسی فرد پر یہ راز کھول دیں کہ انہوں نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور ان کی تین بیٹیاں بھی ہیں۔ میں حیرت سے سہیل کا منہ تک رہی تھی۔ ان بچیوں کی ماں کہاں ہے ؟ بھابی ! در اصل بھائی کا جب ایکسیڈنٹ ہو اوہ اپنی کار چلارہے تھے اور بھابی شیریں ان کے ساتھ تھیں۔ دونوں ایک ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جب حواس سنبھلے ، جانے والوں کے لئے دعائے مغفرت کی اور شیریں کی بیٹیوں پر نظر گئی جو اپنے باپ جیسی خوبصورت تھیں۔ ان کی ماں کو تو میں نے دیکھا ہی نہ تھا۔ یقیناوہ بھی خوبصورت ہو گی تبھی تو میرے روحیل کو پسند تھی مرنے کے بعد بھی دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا۔ شاید ساتھ جینے مرنے کی قسم کھائی تھی کہ ایک دوسرے کے پہلو میں دفن ہوۓ اور میں… جس کو عمر بھر یہ گمان رہا کہ روحیل میرے ہیں ، وہ مجھ ہی سے سچی محبت کرتے ہیں ، میرے سوا کسی اور کو نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔ مجھ کو بچیوں سے کوئی عناد نہ تھا۔ یہ میرے شوہر کی بیٹیاں تھیں جبکہ میرے خدا نے مجھ کو کوئی بیٹی نہ دی۔ تین بیٹے تھے ۔ اللہ تعالی نے اپنی مصلحت کے تحت بھائیوں کے لئے بہنوں اور بہنوں کے لئے بھائیوں کا انتظام کر رکھا تھا۔ میں لاعلم تھی مگر وہ علم و حکمت والا تو جو چاہے کر سکتا ہے۔ میرے بیٹوں کی آرزو پوری ہو گئی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کاش ہماری بھی بہنیں ہو تیں۔ یوں ان کو بہنیں مل گئیں اورمجھے بیٹیاں مل گئیں۔ انہوں نے مجھے ماں پکارا، مجھ میں ماں کا پیار تلاش کیا تو میں نے بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا۔ ان کو گلے سے لگا کر ماں کا پیار دیا، ان کے رشتے تلاش کئے اور میرے بیٹوں نے وقت آنے پر اپنی بہنوں کو جہیز دے کرعزت کے ساتھ رخصت کیا۔ آج میرا کنبہ پورا ہے ۔ ماشاء اللہ ، بیٹے بہوئیں ، پوتے پوتیاں ، بیٹیاں داماد ، نواسے نواسیاں ، جب یہ سب عید تہوار پر میرے آنگن میں اکٹھے ہوتے ہیں تو گھر کا آنگن چہک اٹھتا ہے۔ سبھی خوش ہوتے ہیں ، جیسے کسی کی زندگی میں کوئی کمی نہ ہو۔ اگر کمی محسوس ہوتی ہے تور و حیل خان کی کہ جنہوں نے میری محبت کا بھرم رکھا اور اپنی محبت کا بھی۔ دونوں طرف وفا نبھا لیکن کسی کو کسی سے شکوے کا موقع نہ دیا۔ا گر وہ آج زندہ ہوتے تو اپنا بھراپرا چمن دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے ، لیکن یہ خوشی دیکھنا شاید ان کے نصیب میں نہ تھا

Latest Posts

Related POSTS