صفیہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو پرانی روایات کا پابند تھا۔ مشرقی تہذیب کی پروردہ صفیہ کے خاندان میں شادیاں کم سنی میں کر دی جاتی تھیں۔ ان کا نکاح بھی ان کے چچا زاد قادر سے ہوگیا۔جب یہ نکاح ہوا، صفیہ کی عمر بارہ برس تھی اور رخصتی تین سال بعد ہونا قرار پائی تھی۔ قادر زیر تعلیم تھے۔ تین سال بعد جب رخصتی کا وقت آیا، قادر کے چچا نے اپنے بڑے بھائی کوخط تحریر کیا کہ قادر کو میرے پاس انگلینڈ بھجوا دو تاکہ یہاں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے، میں اس کے اخراجات کی ساری ذمہ داری لیتا ہوں۔
یہ چچا کافی عرصہ سے برطانیہ میں مقیم تھے اور وہاں خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی، زندگی کی دیگر سہولیات ان کو حاصل تھیں۔ جب قادر کو علم ہوا کہ چچا ان کو برطانیہ بلوانا چاہتے ہیں، وہ والد کے سر ہوگئے۔نوجوان تھے، لندن دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہاں ایک اچھی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کا موقع مل رہا تھا۔ باپ نے مخالفت بھی کی کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے اور بہو کی رخصتی ہونا باقی ہے۔ یہ مرحلہ طے ہو جائے تو چلے جانا لیکن وہ نہ مانے کہا کہ ابھی رخصتی کا معاملہ نہ اٹھایئے، پہلے میں ایک چکر برطانیہ کا لگاآئوں پھر صفیہ کو رخصت کرا کے گھر لے آئیں گے۔ یوں وہ اپنی منکوحہ کو چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ ان کے چچا نے وہاں بھتیجے کا ایک اچھی یونیورسٹی میں داخلہ کرا دیا اور اخراجات کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا موقع ملا تھا، اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانا بے وقوفی تھی۔ انہوںنے منکوحہ اور رخصتی والا قصہ بھلا دیا اور جی جان سے تعلیم کے حصول میں لگ گئے۔
صحیح کہتے ہیں جو وہاں آ جاتا ہے وہیں کا ہو رہتا ہے۔ برس پر برس گزرتے چلے گئے۔ انہوں نے تعلیم مکمل کی لیکن واپس لوٹنے کا نام نہ لیا۔ کبھی بھول کر بھی اپنی منکوحہ کا خیال نہ کیا۔ وہاں کی رنگینیوں میں پوری طرح گم ہو گئے۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ قادر ایک فرنگی حسینہ کی دوستی میں ایسے کھوئے کہ صفیہ کی یاد باقی نہ رہی۔ انہوں نے اس ہوش ربا سے شادی کر لی۔ قادر نے اپنی انگریز بیوی پر یہ آشکار نہ ہونے دیا کہ وطن میں ان کی تایازاد ان کے نکاح میں ہے اور انتظار کر رہی ہے کہ کب بالما آئے گا اور ان کو بیاہ کر اپنے گھر کے آنگن کا سنگھار بنائے گا۔ قادر نے اپنی شادی کو صفیہ کے گھر والوں سے چھپائے رکھا۔ والدین کو علم ہوا تو وہ بھی مصلحتاً چپ رہے کہ جانے فرنگی عورت سے شادی کب تک قائم رہتی ہے۔آخر لوٹ کر بدھو گھر کو آتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ صفیہ کے گھر والے جذبات میں آ کر نکاح ختم کرانے کا مطالبہ کردیں۔ حالانکہ ایسا نہ تھا، ان کے ہاں حالات جو بھی ہوں، بیٹی کو طلاق نہیں دلواتے تھے۔
اس واقعہ کے چھ برس بعد قادر والدین سے ملنے آئے لیکن ہوٹل میں ٹھہرے، ایک رات گھر آئے اور چلے گئے۔ عقلمندوں کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ یہ بات سب کی سمجھ میں آ گئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ دراصل وہ اپنی شادی کے راز کا افشا نہ چاہتے تھے اور ان کے والدین کو بھی ابھی تک یہی خوف لاحق تھا کہ دیکھئے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ایسا نہ ہو صفیہ کے والدین بگڑ جائیں۔
ایسا کچھ نہ ہوا۔ فرنگن اور قادر صاحب کی خوب بن گئی اور نباہ ہوتا رہا۔ ان کے تین بچے ہو گئے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ بیٹوں کے نام شہزاد اور مراد تھے جبکہ بیٹی کا نام مریم رکھا گیا۔ باپ مریم پکارتے تھے مگر ماں اسے ماریہ کہتی تھی۔ قادر صاحب نے لندن میں بھی اپنی روایات کا خیال رکھا۔ بچوں کی پرورش مشرقی خطوط پر کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ یہ عمل ان کی نیک نیتی پر مبنی تھا کہ چاہتے تھے کہ بچے مغربی تہذیب کی وجہ سے بے راہ رو نہ ہو جائیں، وہ اپنی مشرقی اقدار سے بھی واقف ہوں، اس کے لیے بچوں پر روک ٹوک رکھتے۔
یہ بات ان کی بیوی ’’میری‘‘ کو قطعی پسند نہ آئی۔ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوتا تو بس اس بات پر کہ وہ بچوں کو فجر کے وقت جگا کر نماز کا طریقہ سکھاتے، اپنے ساتھ جائے نماز پر کھڑا کرتے۔ میری کہتی وہ ان کو سکون سے ان کی مرضی کی زندگی گزارنے نہیں دیتے۔ کچھ عرصہ انہوں نے بیوی کی مخالفت کی پروا نہ کی۔ جب بچوں کو بیزار ہوتے دیکھا تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
ادھر کچھ رشتہ داروں نے نانا اور نانی کو سمجھایا کہ کب تک جوان لڑکی کو بغیر رخصتی بٹھائے رکھو گے۔ بہتر ہوگا کہ طلاق لے لو اور کہیں اور رشتہ کر دو کیونکہ نکاح ہوا ہے، رخصتی تو نہیں ہوئی۔ وہ بے وفا لوٹ کر نہ آئے گا۔آیا بھی تو صفیہ کو نہ اپنائے گا کیونکہ وہاں وہ اپنے بچوں میں خوش وخرم زندگی گزار رہا ہے۔ بات تو صحیح تھی۔ والدین نے بیٹی سے رائے لی۔ صفیہ راضی نہ ہوئی، کہا کہ عمر بھر ایسے ہی رہوں گی۔ طلاق نہیں لوں گی۔ آپ لوگ مجھے میری قسمت کے حوالے کر دیں، اللہ تعالیٰ کوئی بہتر راہ نکال دے گا۔ والدین بیٹی کا فیصلہ سن کر خاموش رہنے پر مجبور ہو گئے۔
ادھر قادر لندن میں اپنی ا نگریز زوجہ کے ہمراہ خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔ ان کو یاد بھی نہ رہا کہ ایک معصوم لڑکی ان کے نکاح میں بندھی، ان کے نام پر زندگی کے دن گزار رہی ہے۔وقت پَر لگا کر اُڑتا رہا۔ قادر کا بیٹا شہزاد بارہ سال کا، مراد دس برس کا اور مریم آٹھ سال کی ہوگئی۔ جب تک بچے کم سن تھے، وہ باپ کا کہا مان لیتے تھے، اب ماحول کے رنگ نے اثر دکھانا شروع کر دیا اور بچوں نے فلک کی جانب پرواز کے لیے پَر تولنا شروع کر دیئے۔
یہ چار سال قادر کے لیے بڑے کٹھن تھے۔ جوں جوں ان کی اولاد جوان ہو رہی تھی، وہ آزادی کے متوالے ہوتے جا رہے تھے۔ ایک وہ دن آیا کہ بیٹے اور بیٹی بالکل ان کے اختیار میں نہ رہے۔ وہ جب چاہتے اپنے دوستوں کے ہمراہ چلے جاتے۔ لڑکوں نے لڑکیوںسے ایسی دوستیاں کر رکھی تھیں کہ جن کا تصور ہی ایک پاکستانی والد کے لیے سوہانِ روح تھا جبکہ بیٹی جو اب سولہ برس کی ہو گئی تھی، اپنے بوائے فرینڈ کو گھر لانے لگی۔ جی چاہتا تو اس کے ساتھ کسی نامعلوم تفریحی مقام پر چلی جاتی اور اپنی مرضی سے واپس آتی۔قادر نے بیوی سے شکوہ کیا کہ اس نے بچوں کے معاملے میں بہت نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے اور بعد میںجب بچے دکھوں کی گھاٹی میں اتر جائیں گے تو ماں باپ کو بھی دکھ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میری نے کہا۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ ہمارے بچوں کو خوشی کی زندگی بسر کرنے کا حق ہے، یہی عمر ہے دوستوں کے ہمراہ انجوائے کرنے کی۔ ہم نے بہت زیادہ روک ٹوک کی تو وہ باغی ہو جائیں گے۔ ہم سے متنفر ہو کر گھر چھوڑ دیں گے، تب آپ کیا کریں گے۔
قادر نے انگریز خاتون سے شادی تو کر لی تھی لیکن آج کے دن کا نہیں سوچا تھا۔ اب پتا چلا کہ جب اولاد جوان ہو جائے، خاص طور پر بچیاں تو والد کی غیرت اتنی آزادی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ انگریز کا معاشرہ زیادہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ سہی مگر ایک پاکستانی باپ کے لیے یہ بات ایک امتحان سے کم نہیں ہوتی کہ اس کی جوان بچی کسی غیر لڑکے کے ساتھ اکیلے گھر میں بغیر شادی کئے رات دن گزارے۔ یہ بات ان کو کسی صورت گوارا نہ تھی۔ اب اس بات پر میاں بیوی میں کھنچائو رہنے لگا۔ قادر بچوں کو وطن لے جانا چاہتے تھے اور ماں اس بات کے لیے آمادہ نہ تھی۔ ادھر بچے بھی آئے دن کی چخ چخ سے بیزار ہوتے جا رہے تھے۔ بالٓاخر اس کشاکش کا انجام ہوگیا۔ ’’میری‘‘ نے قادر کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے کہا۔ تمہارے ساتھ تمہاری حسب منشا زندگی صرف تمہارے دیس کی عورت ہی گزار سکتی ہے۔ میں نے سولہ برس گزار لیے، میری ہمت ہے لیکن میرے بچے اب تمہارے عجیب و غریب اور بیمار قسم کے خیالات کا دبائو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم سب نے تم کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کرلیا ہے، تاہم تم چاہو جو اولاد تمہارے ساتھ رہنا چاہے، وہ رہ سکتی ہے۔ اپنے ہر بچے سے پوچھ لو کہ کون تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔
قادر سکتے میں آ گئے کہ ’میری‘ نے اتنے برس ساتھ رہ کر بھی بالآخر علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔باوجود سمجھانے کے میری نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔ اس نے کہا اگر تم نے زیادہ مجبور کیا تو میں کورٹ سے رجوع کر لوں گی۔ بہتر ہے جو سچ ہے اسے قبول کر لو۔ میں جا رہی ہوں، بچے بھی میرے ساتھ جا رہے ہیں، تم نے ملنا ہو تو میری والدہ کے گھر آ کر مل جانا۔ قادر ساس کے گھر گئے۔ بہت منت کی، بچوں کو بھی سمجھایا کہ تم لوگ میرے ساتھ چلو مگر انہوں نے انکار کر دیا۔
میری نے کہا۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ہمارا نباہ نہیں ہو سکتا۔ قادر اس علیحدگی کے صدمے سے بری طرح ٹوٹ گئے۔ وہ بچوں پر زبردستی نہ کرسکتے تھے کیونکہ بچے اگر پولیس میں جا کر شکایت کر دیتے تو ان کی شامت آ سکتی تھی۔ دونوں لڑکوں نے برملا کہہ دیا کہ آپ ہماری خوشیوں سے حسد کرتے ہیں۔ ہر وقت گناہ، ثواب کی باتیں کرکے ہمارے دماغ کو اذیت پہنچاتے ہیں، آپ بہت ظالم ہیں، ہم آپ کے ساتھ نہیں ر ہ سکتے۔
قادر آنکھوں میں آنسو بھرے لوٹ رہے تھے کہ ان کی بیٹی مریم کو اپنے والد پر ترس آ گیا۔ ڈیڈی میں اس شرط پر آپ کے ساتھ چلوں گی کہ جب کہوں گی مجھے واپس یہاں لے آئیں گے۔ وہ اسے لے کر گھر آ گئے۔ لیکن لڑکی بہت پریشان تھی، وہ ماں کے زیادہ قریب تھی۔ دو دن بمشکل باپ کے پاس رہی۔ قادر نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے بیٹی کے ہمراہ نہیں رہ سکیں گے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ بچی کو کسی طرح راضی کرو اپنے وطن کے لئے اور اس کو لے کر پاکستان چلے جائو، بیٹوں کو لندن میں رہنے دو۔
باپ نے بیٹی سے بات کی کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم کچھ عرصہ پاکستان چل کر رہیںکیونکہ تمہاری والدہ کی علیحدگی کے فیصلے سے بہت زیادہ مغموم اور ڈسٹرب ہوں۔ اگر تم کچھ دنوں کے لیے میرا ساتھ دو تو میں اس صدمے کی کیفیت سے نکل سکتا ہوں، نارمل ہو جائوں تو تم ماںکے پاس واپس آ نا چاہو تو لوٹ آنا۔ پاکستان میں تم اپنے ددھیالی رشتہ داروں، دادا، دادی، پھوپھی، چچا وغیرہ سب سے مل سکو گی۔ ان لوگوں سے ملو گی تو تم کو بے حد خوشی ہوگی کیونکہ وہ بھی تمہیں دیکھنا اور تم سے ملنا چاہتے ہیں۔
بچی تھی، وہ باپ کی باتوں میں آ گئی۔ اس نے ماں سے اجازت مانگی تو میری نے نہیں روکا۔ وہ سمجھتی تھی کہ بیٹی باپ سے اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا اس سے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ مریم اگر وہاں اداس ہوئی تو قادر بیٹی کو
واپس لے آئے گا۔ وہ بیٹی کو زبردستی اپنے وطن میں رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ددھیا ل سے ملنے اور پاکستان دیکھنے کے شوق میں مریم، قادر کے ہمراہ آ گئی۔ بچی کا سواگت ددھیالی رشتے داروں نے جوش و خروش سے کیا اور بہت پیار دیا۔ مریم یہاں آ کر خوش ہو گئی۔قادر نے تمام احوال اپنے والدین کے گوش گزار کر دیا، تب ان کی ماں نے یاد دلایا کہ پچیس برس سے بھی زیادہ کا عرصہ سے تمہاری منکوحہ یہاں تمہاری راہ دیکھ رہی ہے۔ اپنی خوشیوں میں ایسے کھوئے کہ اس معصوم لڑکی کا تم کو ایک بار بھی خیال نہ آیا جو اتنے عرصہ سے تمہارے نام پر بیٹھی ہے۔ اس کو طلاق دے کر آزاد بھی نہ کیا، کس بات کی سزا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ شاید اسی سبب آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو رخصت کرا کے گھر لے آئو اور اپنا گھر پھر سے بنا لو۔ اس فرنگن کو بھول جائو۔ بیٹی تو ہے تمہارے پاس، بیٹوں کی کیا فکر، وہ تو لڑکے ہیں۔
قادرنے خاموشی سے ماں کی باتیں سنیں اور بولے۔ ماں میری ہمت نہیں پڑتی کہ تایا ابو سے جا کر کچھ کہوں۔ آپ مناسب سمجھتی ہیں تو بات کر لیں۔
ماں اور باپ نے جا کر بڑے بھائی سے بات کی۔ وہ لوگ تو پہلے ہی راضی نہ تھے۔ جب صفیہ سے پوچھا تو وہ بولی۔ مجھے اسی دن کا انتظار تھا۔ اس نے سر تسلیم خم کر دیا تو اس کے صابر و شاکر والدین نے بھی بھتیجے کو معاف کر دیا اور سادگی سے بیٹی کو رخصت کر دیا۔
صفیہ نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی میں کبھی یہ دن بھی آئے گا لیکن اللہ ہر صبر کرنے والے کی ضرور سنتا ہے۔ اس نے صفیہ کے صبر کی بھی لاج رکھ لی۔بتاتی چلوں کہ صفیہ میری بڑی خالہ تھیں۔ وہ بیاہ کر قادرخالو کے ہمراہ لندن آ گئیں۔ پہلی بار خالو کو احساس ہوا کہ اصل جیون ساتھی کیا ہوتا ہے۔ گھر کا آرام اور دل کے سکون سے کیسی راحت ملتی ہے۔ مریم کے لئے یہ اچھا ہوا کہ اس نے نہ صرف ددھیال میں اچھا وقت گزارہ، بطور نئی ماں صفیہ کو بھی قبول کر لیا۔اب وہ کبھی اپنی حقیقی ماں کے پاس چلی جاتی اور کبھی باپ کے پاس لوٹ آتی۔
خالہ صفیہ سے قادر انکل کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہوئے۔ ان کا گھر پھر سے آباد ہو گیا۔ ’میری‘ نے بھی اپنے ایک پرانے دوست سے شادی کر لی، لڑکوں نے حالات کی پروا نہ کی۔ وہ اپنی زندگی میں کھوئے ہوئے ہیں۔ لیکن مریم نے بہت اثر قبول کیا۔ وہ ماں کے ساتھ خوش رہتی تھی اور نہ باپ کے پاس، اس کی زندگی دوحصوں میں بٹ گئی تھی۔
خالہ صفیہ نے اسے بہت پیار دیا اور کچھ اپنے ڈھب پر بھی لانے کی کوشش کی لیکن اس کی عادتیں پختہ ہو چکی تھیں۔ ماں اور باپ کی علیحدگی کے بعد وہ پہلی جیسی نہ رہی تھی۔ بے سکون رہتی تھی۔ اس بے سکونی کا اس نے یہ علاج ڈھونڈ لیا کہ دوبارہ اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے لگی۔ایک انگریز لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوگئی تو کم سنی میں ہی وہ پوری عورت بن گئی۔ اپنے فیصلے خود کرنے لگی۔ ایک دن وہ باپ کے گھر سے چلی گئی اور اپنے محبوب دوست کے ہمراہ رہنے لگی۔
وہ بغیر شادی کے اس کے ساتھ رہتی تھی۔ میرے خالو کی غیرت کا جنازہ نکل گیا۔ وہ صدمے سے نڈھال ہوگئے، تب خالہ صفیہ نے سمجھایا کہ وہ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے، گزارنے دو۔ آپ اس کو روک نہیں سکتے کیونکہ اس معاشرے کی روایات ہمارے معاشرے سے بہت مختلف ہیں۔ آپ اب اپنی چھوٹی بچی کا خیال کریں۔
جانتا ہوں کہ میری چھوٹی بیٹی صحیح راہ پر رہے گی کیونکہ اس کی ماں تم ہو لیکن بڑی کو بھی میں نہیں بھلا سکتا۔ اس کا غم مجھے مارے ڈالتا ہے۔
یہ پہلے سوچ لینا چاہیے تھا جب انگریز عورت سے شادی کی تھی۔ بچوں کو بھی تو اسی معاشرے میں پلنا تھا، اپنی اقدار کو اپنانا تھا۔ ان کو جوان بھی ہونا تھا، جوانی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بچپن سے والدین اپنے بچوں کو تربیت دیتے ہیں۔ وہ تربیت ان کو یہاں انگریز ماں نہیں دے سکتی۔ اب غم کرنے سے بچے واپس نہیں لوٹ سکتے۔
قادر خالو نے باقی ماندہ زندگی بہت سکون کے ساتھ خالہ صفیہ کے ساتھ گزاری۔ ان کے بچے جو خالہ صفیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، وہ مشرقی اقدار سے واقف تھے۔ جیسا ماں باپ چاہتے تھے ویسا کرتے۔ میری والے بچے ایسے قادر کے آشیانے سے اُڑ کر گئے کہ پھر کبھی پلٹ کر نہ آئے۔انہوں نے اپنی پسند کی دنیا آباد کر لی۔ قادر خالو کو اپنے بڑے تینوں بچوں کا بہت دکھ تھا۔ وہ کچھ ایسی زندگی جی رہے تھے جس کی اجازت ہمارا دین اور نہ اخلاق دیتا تھا۔ لڑکی نے بغیر شادی اولاد پیدا کر لی اور لڑکوں میں سے ایک نے اپنے جیسے لڑکے کے ہمراہ زندگی اختیار کر لی۔ ایسا کچھ سوچ کر بھی ہم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔
آجکل جو ہمارے ہم وطن وہاں رہتے ہیں، وہ پہلے جا کر آباد ہونے والوں سے یوں بہتر ہیں کہ انہوں نے پچھلے تجربات سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ وہ اب اپنے بچوں کی اخلاقیات پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ یہ کہانی ان دنوں کی رقم کی ہے جب ابھی پاکستان نیا نیا بنا تھا اور برطانیہ جانا نسبتاً آسان تھا، تب تارکین وطن کا وہاں جا کر بسنے کا شوق بھی نیا نیا تھا لہٰذا کچھ لوگوں نے اپنی اولاد کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں پیشگی نہ سوچا۔ تبھی ایسی کہانیوں نے جنم لیا۔ آج اللہ کا شکر ہے ہمارے ہم وطن دوراندیشی سے کام لے رہے ہیں اور مشرقی اقدار کو روشناس کروانے میںکم ہی کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ میں پھر بھی یہ بات ضرور کہوں گی کہ ہمارے ہم وطنوں کو دیارِغیر میں جیون ساتھی کا انتخاب کرتے وقت بہت زیادہ سوچنا سمجھنا چاہیے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں مزید پریشانیوں کا شکار نہ ہوں اور وہ بڑھاپے میں تنہائی کے عذاب سے بچ جائیں۔
( مسز ن۔ الف… کراچی)