مجھے جب پتا چلا کہ محب کو ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کرا دیا گیاہے تو سخت صدمہ ہوا۔ خود کو کمرےمیں بند کرکے خوب روئی۔ دو دن کھانا نہ کھا سکی، جانتی تھی مجھ سے منگنی ٹوٹنےکا اسے صدمہ پہنچا تھا۔ محب ایک خوبصورت ،تعلیم یافتہ، سچا اورکھرا انسان تھا مگر سادہ لوح تھا ۔جلد ہرایک پر اعتبار کرلیتا تھا۔
وہ میرا پھوپھی زاد تھا۔ ہماری منگنی بچپن میں دادی جان نےکرا دی تھی۔ وہ ہم دونوں سے بہت پیار کرتی تھیں ۔ کسےخبر تھی کہ ہمیں شادی کے بندھن میں باندھنے سےقبل ہی وہ اس دنیا سے چلی جائیں گی اور پھر حالات ہمیں جدا کردیں گے۔ میں نے تعلیم مکمل کرلی تو شادی کاسلسلہ چل پڑا ۔ والد صاحب میری شادی محب سے ہی کرنا چاہتے مگر امی نے اڑچن ڈال دی کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں کنول کی شادی ارسلان سے کروں گی۔
یہ مسئلہ میرےوالدین کےبیچ تنازع بن گیا آخرکار والدہ نے اپنی بات منوالی اور میری منگنی محب سے توڑ کر اپنےبھانجے ارسلان سے کردی۔ پھپھو کو پتاچلا توانہوں نے شور مچایا تب ابو نے کہا میری بہن صبر کرلو۔ تمہاری بھابھی ضدکی پکی ہے وہ اپنی سی کرکے رہتی ہے۔ اگر اس کی بات نہ مانی تو میکے جا بیٹھے گی تب بچو ں کیلئے اور زیادہ مسائل ہوں گے۔وعدہ کرتا ہوں کہ چھوٹی کا رشتہ تم کو ہی دوں گا ۔ تم کنول نہ سہی نسترن کو بہو بنا لینا۔ دونوں ہی میری بیٹیاں ہیں۔ شاید ابو میرے اور محب کےجذبات سے یکسر بے خبر تھے ورنہ وہ ایسافیصلہ نہیں کرتے۔
پھپھو، ابو کے فیصلےکومان گئیں۔ مجھے بھی لب کھولنے کی جرأت نہ ہوسکی یوں بھی اپنی ماں سے ڈرتی تھی کہ وہ ہم پر بہت رعب رکھتی تھیں۔ ابا کی نہ مانتی تھیں تو ہماری کیا سنتیں۔ محب کو پتا چلا تو صدمے سے نڈھال ہوگیا۔درحقیقت وہ مجھ سے دل کی گہرائیوں سے پیارکرنے لگا تھا۔ سب ہی ہمارے بارے میں یہی کہا کرتے کہ ان دونوں کی ساتھ شادی ہوگی۔ یہ بات اس کے ذہن میں برسوں سے رچ بس گئی تھی۔
پھپھو نے بھی بھائی کو مجبور پاکرصبر کرلیا مگر ان پر عجیب ردعمل ہوا کہ اب وہ کسی متوسط گھرانے کی لڑکی کو بہو بنانے سے گریز کرنےلگیں۔ ہر ایک سے کہتیں۔ میں بھائی کی چھوٹی لڑکی بھی نہ لوں گی۔ میں اپنے بیٹے کیلئے کسی بڑے گھر کی بہو لائوں گی جو کار بنگلہ اور ڈھیروں جہیز لائے گی۔ بھاوج دیکھے گی کہ بیٹیاں کس شان سے بیاہی جاتی ہیں اور بہوویں دولت مند گھرانوں سے کیسےدھوم دھام سےلائی جاتی ہیں۔ ماں کی ان باتوں سے بے نیاز محب جو کبھی بڑی سلجھی ہوئی اور شاندار گفتگو کرتا تھا اب ہر کسی سے اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگا ۔کوئی یقین نہ کرتا تھا کہ یہ وہی محب ہے۔ دراصل اس کی شخصیت ٹھکرائے جانے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی۔
جلد ہی اس کے گھر والوں نے جان لیا کہ محب کو ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔ پھوپھا بھاری فیس دے کر ڈاکٹر گھر لاتے جو محب کو بتائے بغیر اس کا علاج کرتے۔ علاج کے بعد اس کی حالت قدرے بہتر ہوگئی۔ اب وہ بےسروپا باتیں نہیں کرتا تھا۔ اسے گہری چپ لگ گئی جو اور زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ۔ یہ چپ دیمک کی طرح اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کرنے لگی۔ اس اثنا میں پھپھو نے ایک دولت مند گھرانے کی خوبصورت اور فیشن ایبل لڑکی پسند کرلی اور اس کی منگنی محب سے کردی۔
محب منگیتر سے فون پر باتیں کرنےلگا۔ اس لڑکی کوجلد احساس ہوگیا کہ اس آدمی کی شخصیت میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ اس نے شادی سےانکار کردیا اور جلد منگنی ٹوٹ گئی۔ سب ہی محب کو الزام دینے لگے ۔کسی نے نہ سوچا کہ اس کاکتنا نقصان ہوا ہے۔ ہمارے دلوں کے آئینے چکنا چور کرنےوالوں کو احساس ہی نہ تھا کہ منگنی کے ٹوٹنے سے ہم دونوں کے اندر ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا تھا جسے پرُ ہوتے ہوتے برسوں درکار تھے۔ میں لڑکی تھی … تربیت دی گئی تھی کہ بڑوں کے آگے سر جھکانا ہی شرافت ہے۔ والدین کی عزت رکھنی ہے چپ رہنا ہے، کیسی ہی قیامت گزرے اف نہیں کرنی۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
محب کو صدمے سے نکلنے کیلئے وقت چاہئےتھا ۔ بجائے اس کی دلجوئی کے اس کی منگنی کردی گئی ۔ امیر لڑکی سے منگنی ٹوٹ گئی تو پھپھو کو خیال آیا کہ ان سے جلدبازی میں غلطی ہوئی ہے۔ بھائی پھر بھائی ہے۔ بھاوج کو نیچادکھانے کی کوشش میں اپنے ماں جائے کا خیال نہ کیا جبکہ اس نے وعدہ کیا تھا چھوٹی لڑکی کا رشتہ آپا کو دوں گا۔ وہ دوبارہ ہمارے گھر آگئیں ابو سے التجا کی کہ کنول کی بجائے نسترن کا رشتہ دینے کی بات کی تھی اب وعدہ پورا کرو۔ میرے والد نے ماں کو یہ کہہ کر راضی کرلیا کہ میں نے کنول کےبارے میںتمہاری بات مانی تھی اب تم میری مانو اور نسترن کا رشتہ میرے بھانجےکو دےدو۔ ہم بہن بھائی جڑے رہیںگےورنہ آپا ہمیشہ کیلئےہم سےدور ہوجائیںگی۔
اس بار والدہ کو ان کی بات ماننا پڑی یوں انہوں نے نسترن کا رشتہ، دینے کی حامی بھرلی۔ امی کے اس فیصلے سے میں اور محب اور زیادہ دکھی ہوگئے کہ اگر پھپھو کےگھر رشتہ کرنا ہی تھا تو میرا محب اور نسترن کا ارسلان سے کرنےمیں کیا حرج تھا۔ کوئی میری ماں کی منطق نہ سمجھ سکا۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ ارسلان نے خود اماں پر شدید دبائو ڈالا تھا۔ وہ مجھ سے رشتہ کرنے کا آرزو مند تھا اسی لئے میری منگنی توڑی گئی تھی اور ارسلان کو نسترن پسند نہ تھی کہ وہ مجھ سےکم خوبصورت تھی۔ محب نے نسترن سے شادی سےانکار کردیا تو پھپھو نے دوسرے نمبر والے بیٹےسےاس کی شادی کی بات طےکردی۔ اس پر بھی محب سخت رنجیدہ ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ اب ماموں کی کسی بیٹی کا رشتہ نہیں لینا اور جو مجھ سےمحبت کرتا ہے اب وہ ان کے گھر قدم بھی نہ رکھے گا جبکہ پھپھو نسترن کو بیاہنے ہمارےگھر بارات لےکر آگئیں۔
محب اپنے چھوٹےبھائی کی شادی میں شریک نہ ہوا… شادی والےدن وہ اپنےایک دوست کے گھر چلا گیا۔ جب میری بہن نے پھپھو کےگھر محب کی بھابھی بن کر قدم رکھا تو اس نے اپنے کمرےکا دروازہ بندکرلیا۔ اب جب وہ نسترن کو دیکھتا منہ پھیر لیتا یا گھر سےنکل جاتا۔اپنے والد اور بھائی کے ساتھ کام پر جانا چھوڑدیا اور دنیا کی ہر شے سےبیگانہ ہوگیا۔ ایک دن نسترن نے محب کو سمجھانے کی کوشش کی تو اس کی بات سننے کی بجائے غصےمیں آکر گھر کی اشیا توڑنے لگا ،وہ سہم کر خاموشی ہوگئی۔
محب نے اپنی والدہ، بھائی حتیٰ کہ نسترن سےبھی کلام ترک کردیا تھا۔ اس نے گھر کے ہر فردسے بات کرنا چھوڑ دی سوائے اپنی چھوٹی بہن عفیفہ کے ۔اس سے وہ بہت پیارکرتا تھا۔ ایک روز ابو نے ان کےسب گھر والوں کی دعوت کی۔ جب سب جانے کو تیار ہوگئے تومحب کو اچانک غصے کا دورہ پڑ گیا۔ کہا کہ جو میرا دوست ہوگا وہ میرے دشمنوں کے گھر نہیں جائے گا۔ اس پر اس کی چھوٹی بہن عفیفہ بولی۔ میں نہیں جارہی ۔تمہارے ساتھ ہی گھر پر رکوں گی۔ اس کی والدہ بولیں۔ کیوں نہ جائو گی۔ تمہارے ماموں کا گھر ہے اور انہوں نے بلایا ہے۔ سب جائیں گے اگر محب کو نہیں جانا تو نہ جائے ۔آپ بھی نہیں جائیں گی امی، اگر میری ماں ہیں تو…
میں کیوں نہ جائوں! کیا تمہاری خاطر اپنے بھائی کو چھوڑ دوں؟ کیا بیٹے کی خاطر بھائی کو نہیں چھوڑ سکتیں۔ بیٹے کو چھوڑ دیں گی۔ ہاں… چھوڑ دوں گی۔ یہ کہہ کر پھپھو جانے لگیں تو محب نے عفیفہ کو روکا۔ تم مت جانا۔یہ بھی جائے گی، تم ذرا روک کر دکھائو۔ پھپھو غصےمیں آگئیں۔
محب کی حالت عجیب ہوگئی ۔وہ اپنےوالد کےکمرےسے بندوق اٹھا لایا اور چھوٹی بہن سے کہا۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ وہ بیچاری سہم کررونے لگی۔ ماں بیٹی کمرے میں چھپ گئیں اور اندر سے دروازہ
بند کرلیا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ ممانی اور عفیفہ کمرےمیں بند اور محب باہر کھڑا پہرہ دے رہا تھا۔ نسترن اور اس کا شوہر ہمارےگھر آگئے اوروالد کوبتایا کہ وہاں یہ صورت حال ہے۔ دعوت پر اب کوئی نہیں آسکے گا۔ ابو نے دادا کو فون کیا جو دوسرے بیٹے کے پاس رہتے تھے۔ وہ فوراً گھرپہنچے۔ کسی طرح سمجھا بجھا کرمحب سے بندوق لی اور اسے کمرےمیں لے گئے۔ اس دن کے بعد کئی روز نسترن اور شعیب گھر نہ گئے۔ وہ ہمارے گھر ہی رہے۔ تب والدہ نےمشورہ دیا کہ تم دونوں اب علیحدہ گھر میں رہو۔ محب تمہیں دیکھتا ہے تو اسے غصہ آجاتا ہے کہیں کسی دن کچھ کر نہ گزرے۔
انہی دنوں، ایک روز کسی فقیر نے پھپھو کے در پر صدا لگائی۔ خیرات دینےمحب نکلا۔ اس فقیر نے دعا دی۔ اللہ کرےپھلو پھولو اور زندگی کی تمام خوشیاں دیکھو۔
یہ ممکن نہیں ہے بابا جی۔ کیوں ممکن نہیں ہےبچے، اگر رب چاہے تو سب خوشیاں واپس مل سکتی ہیں۔ صدقہ دو، خیرات کرو ۔
کس چیز کا صدقہ بابا۔ اس نے پوچھا۔
روزکسی بھوکے کو کھانا کھلا دیا کرو اور اگر تم پر کسی نے کالا جادو کیا ہے تواس کا اتار یہ ہے کہ روز کالی بلی کو ایک پائو گوشت ڈالا کرو ۔ان شاءاللہ مراد بر آئے گی۔ فقیر تو یہ کہہ کر چلا گیا مگر محب نے اس کی بات گرہ میں باندھ لی۔ وہ روز کسی بھوکے کو کھانا کھلاتا اور پھرایک پائو گوشت لے کر کالی بلی کو ڈھونڈنے نکل پڑتا۔ اگر کسی روز کالی بلی نہ ملتی تو سارا دن اس کی جستجو میں مارا مارا پھرتا۔
دوبارہ اس کا علاج ہونے لگا مگر گوشت کا صدقہ اور کالی بلی کی تلاش اس کے ذہن سے نہ نکلے یہاں تک کہ اس کی حالت دیوانوں جیسی ہوگئی۔ تب ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسے ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کرادیا جائے۔
افسوس اس کا درد میرےسوا کسی نے نہ جانا۔ میں اس کا دکھ سمجھتی تھی مگر اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ جب سے ہماری منگنی ٹوٹی تھی میں اس کےگھرنہ جاتی تھی اور نہ ہی وہ آتا تھا۔
بلاشبہ وہ ایک سچا اور کھرا انسان تھا اور بعض لوگ جو اپنے جذبوں میں حد درجہ مخلص ہوتے ہیں وہ دوسروں کو پاگل ہی لگتے ہیں۔ تاہم محب پڑھا لکھا تھا اور مجھے اس سے ایسی توقع نہ تھی کہ اس کے صبر کا پیمانہ اس طرح چھلک جائے۔ دکھ میں نے بھی سہا تھا مگر آپے سے باہر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اپنے حواس کھوئے تھے۔
اللہ جانے اس کی مجھ سے خاموش محبت کتنی گہری تھی کہ وہ اس سمندر میں ڈوبا تو پھر ابھرنہ سکا، ڈوبتا ہی چلا گیا۔ ذہنی امراض کے اسپتال میں اس کا علاج ہوتا رہا۔ جب وہ گھر آیا تو کچھ نارمل لگتا تھا مگر ابھی تک وہ کالی بلی کے چکر سے نہیں نکلا ہے۔ جہاں کہیں کالی بلی دیکھتا ہے دوڑ کرفریج سے گوشت نکالتا ہے اور بلی کو کھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ میری شادی ہوچکی ہے مگر محب کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ سارے خاندان میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ محب پاگل ہے۔ سوچتی ہوں کیا واقعی محب پاگل ہے۔
(مسز ۔ ق…راولپنڈی)