لگن سچی ہو تو مراد مل جاتی ہے۔ طاہرہ باجی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ برسوں کی جدائی مٹ جائے گی اور محبت کا سرمدی نغمہ، بیس برس بعد مرجھائے ہوئے دِلوں کو پھر سے شاداب کر دے گا۔ مگر یہ سچ ہے کہ قدرت کو رحم آ جائے تو خزاں میں بھی خوشیوں کی کلیاں کِھل جاتی ہیں اور رُوح کی کیاری میں پھولوں کی نازک پنکھڑیاں گنگنانے لگتی ہیں۔
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب طاہرہ باجی کا گھرانہ ایک بڑی حویلی میں رہا کرتا تھا اور انہیں زندگی کی وہ تمام آسائشیں میسر تھیں جو اُس دور میں کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی تھیں۔ جب وہ بڑی سی شاندار گاڑی میں کالج آتیں تو لڑکیاں ان پر رشک کرتیں۔ ان کے شاہانہ ٹھاٹھ دیکھ کر سوچتیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں پر کس درجہ مہربان ہوتا ہے کہ بن مانگے انہیں دُنیا کی ہر نعمت مل جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے، باجی کی حویلی کے عقب میں ایک بڑا میدان ہوا کرتا تھا۔ جہاں لڑکے کرکٹ کھیلتے، لڑکیاں اُن کے لان میں آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے خوب ہلڑ مچاتی تھیں۔ میں اِملی کے درخت پر چڑھ کر اُس کے گھنے پتوں میں چھپ جاتی اور کبھی چور بننے والی لڑکی کے ہاتھ نہ آتی تھی۔
باجی کے گھر کے سامنے متوسط طبقے کے کچھ معمولی گھرانے آباد تھے۔ ہمارے خاور بھائی اُسی علاقے میں رہتے تھے۔ ان کے والد کی آمدنی بس اِسی قدر تھی کہ سفید پوشی سے گزر بسر ہورہی تھی۔ تبھی خاور بھائی کو کالج کے بعد جز وقتی ملازمت کرنا پڑتی تھی۔
انہیں کرکٹ کا شوق تھا، انہوں نے محلے کے لڑکوں کی دو ٹیمیں بنا رکھی تھیں۔ وہ خود امپائر ہوتے، البتہ جن دنوں ان کے امتحان ہو رہے ہوتے یہ سلسلہ موقوف ہو جاتا۔ کسی بچّے کو اجازت نہ ہوتی کہ ان کے گھر آئے اور ڈسٹرب کرے۔ اسی طرح جب ہمارے امتحان ہوتے تو سب کھیل بند ہو جاتے۔ ان کا حکم تھا کہ صرف پڑھائی پر دھیان دو، وہ باقاعدہ ہماری ماہانہ تعلیمی رپورٹ دیکھتے۔ اگر کوئی فیل ہو جاتا اُسے کھیلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ شام کو خود میدان میں جا کر چیک کرتے کہ امتحان کے دنوں میں لڑکے گرائونڈ میں تو نہیں ہیں۔
ہم لڑکیاں زیادہ تر میدان میں کھیلنے کی بجائے طاہرہ باجی کے عقبی لان میں کھیلا کرتیں۔ جب گرائونڈ میں کرکٹ کا میچ نہ ہوتا باجی طاہرہ اپنے گھر میں خاصی بے چین پھرا کرتیں کیونکہ چھت سے بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھنا اُن کا معمول تھا۔ شاید ٹیموں کا امپائر ان کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔
خاور بھائی محلے کے ہر لڑکے کو ’’پہلوان‘‘ اور ہر لڑکی کو ’’مُنّی‘‘ پکارتے تھے۔ وہ ان سے یوں گھل مل کر بات کرتے جیسے سب ان کے چھوٹے بھائی بہن ہوں۔ کسی کو بخار ہو جاتا تو وہ پریشان ہوجاتے۔ محلے کے کسی بچّے کو کسی شے کی ضرورت ہوتی تو کوشش کرتے کہ اس کی ضرورت فوری پوری کر دیں۔ غرض محلے کے ہم سب بچّے ان کا خاندان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ امتحان میں کم نمبر آنے پر ہر ’’پہلوان‘‘ اور ہر ’’مُنّی‘‘ کی وہ خاصی سرزنش کرتے اور کچھ عرصے کے لئے کرکٹ یا آنکھ مچولی کے کھیل میں شمولیت پر پابندی لگ جاتی تھی۔
ہم سبھی ان کی نظروں میں مقبول ہونے کے لئے خوب محنت سے پڑھا کرتے تھے۔ اس کے لئے ہم کو طاہرہ باجی کا سہارا لینا پڑتا۔ میں تو یہی کہوں گی کہ تعلیمی میدان میں ہماری نمایاں کامیابی کا سہرا خاور بھائی اور طاہرہ باجی کے سر تھا۔ لڑکیوں کے لئے طاہرہ باجی اور لڑکوں کے لئے خاور بھائی۔ محلے کے یہ دو کردار ہماری زندگیوں کا سرمایہ ہوا کرتے تھے اور ہماری معصوم خوشیوں کا گویا سرچشمہ تھے۔
خاور بھائی نے خصوصی طور پر جرمن زبان سیکھی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ جس جرمن فرم میں جزوقتی ملازمت کرتے تھے، اُسی نے ان کو اچھی ملازمت کی آفر دے کر جرمنی بھیج دیا۔ دو سال وہاں رہ کر وہ واپس آگئے۔ اب ان کی ترقی ہو گئی تھی۔
والدہ کو بیٹے کی شادی کی فکر نے ستایا۔ خاور کی بہن فریال جانتی تھی کہ وہ طاہرہ کو پسند کرتے ہیں، اُس نے ماں کو بیٹے کی پسند سے آگاہ کیا اور کہا کہ بھائی کو خوش دیکھنا ہے تو طاہرہ کا ہاتھ مانگ لیں۔
بھولی اماں یہ بھول گئی۔ طاہرہ ایک امیر کبیر گھرانے کی بیٹی ہے… اور ہمارے معاشرے میں طبقات کا فرق رشتوں کے معاملے میں کسی خلیج کی مانند ہوتا ہے۔ اس ماں کو یہ خوش فہمی تھی کہ اُس کا بیٹا تعلیم یافتہ، گولڈ میڈلسٹ ہے۔ خوبرو اور باصلاحیت ہے، باکردار اور ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ بھلا ایسے ہونہار لڑکے کو کون اپنی بیٹی دینے سے انکاری ہو سکتا ہے، مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ پشتنی رئیس زادوں نے کہا۔ تم لوگ حال ہی میں تھوڑا بہت خوشحال ہوئے ہو۔ اتنی اُونچی اُڑان اُڑنے لگے ہو کہ یہ بھی بھول گئے کہ ہم جو جہیز بیٹی کو دیں گے۔ اُس کے رکھنے کی جگہ تمہارے گھر میں نہیں ہے۔ تمہارے گھر میں تو اسکوٹر کھڑا کرنے کی جگہ نہیں ہے، پھر جو گاڑی بیٹی کو رُخصتی پر دیں گے اُسے کہاں کھڑا کرو گے۔ یہ رئیس باپ کی اکلوتی بیٹی اور ساتھ بھائیوں کی بہن ہے۔ ولیمے میں ہماری طرف سے جتنے مہمان آئیں گے، ان کو شربت تک پلانے کی سکت تم میں نہ ہوگی۔ اچھا ہے کہ اپنی اوقات میں رہ کر ہم پلہ رشتہ دیکھو اور اوقات میں رہنا سیکھو۔ غرض جس بے عزتی کی توقع ان شریف لوگوں کو نہ تھی، اس سے بڑھ کر ہوگئی اور خاور کی امی آنسو بہاتی ناکام لوٹ آئیں۔ یوں طاہرہ باجی اور خاور بھائی کی محبت سماج کے طبقاتی فرق کی چتا میں جل کر راکھ ہوگئی۔
طاہرہ باجی نے مجھ سے کہا تھا… خاور ملیں تو کہنا کہ میرا اس فیصلے میں کوئی حصہ نہیں، مجھے معاف کر دینا۔ آج کل کا زمانہ ہوتا تو شاید خاور بھائی آہیں بھرتے یا پھر طاہرہ کو بدنام کرتے، مگر انہوں نے چپ سادھ لی، جو دل پر گزری سہہ گئے، اُف تک نہ کی مبادا… طاہرہ کے بارے میں کوئی چہ میگوئیاں کرے۔
محلے کے بچوں کا ہجوم اب بھی ان کے اطراف ہوتا، مگر اب انہوں نے سب لڑکیوں سے کہہ دیا کہ وہ طاہرہ باجی کے گیٹ کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے گرائونڈ میں آ کر جمع ہو جایا کریں، وہاں سے وہ سب کو ہمارے گھروں تک پہنچا دیا کریں گے۔ جب وہ مجھے گھر کے گیٹ پر چھوڑتے میں ہمیشہ ان سے پوچھتی کہ اب وہ طاہرہ باجی کو دیکھ کر مسکراتے کیوں نہیں ہیں۔ سلام بھی نہیں کرتے۔ تب وہ چوکیدار سے کہتے۔ اپنی بڑی بی بی سے کہنا۔ اسے چپ رہنا سکھا دیں یہ بولتی بہت ہے۔ پھر ایک دن انہوں نے خبر سنائی کہ وہ جرمنی جا رہے ہیں اور پھر وہ سچ مچ جرمنی چلے گئے۔
وقت گزرتا رہا۔ ہم بڑے ہوگئے اب ہمارا گھروں سے نکلنا متروک ہوا۔ بہت سے لوگوں نے ہمارا پرانا محلہ بھی چھوڑ دیا۔ نئے گھروں میں جا بسے۔ خاور بھائی کے والدین نے بیٹے کی کمائی سے ایک بہت اچھے علاقے میں شاندار گھر خرید لیا اور اپنا پرانا معمولی گھر فروخت کر دیا۔
جس شخص نے یہ مکان خریدا تھا، اس نے اُسے کرائے پر دے دیا۔ پھر اس علاقے کی قسمت بدلنے لگی، رہائشی املاک کمرشل ہونے لگیں۔ اکثر لوگوں نے اپنے بوسیدہ مکان توڑ کر وہاں اُونچی اُونچی بلڈنگیں کھڑی کرلیں۔ طاہرہ باجی والا گھر چونکہ کشادہ اور کارنر کا تھا، لہٰذا بہت سے بلڈر تاجروں کی نظریں اس پر لگی تھیں۔
ہر انسان کی طرح ہر کاروبار میں بھی کبھی نہ کبھی ایسا مقام آجاتا ہے، جب بام عروج پر پہنچنے کے بعد زوال شروع ہو جاتا ہے۔ طاہرہ کے والد نے کاروبار کو مزید وسیع کرنے کی خاطر دو ایسے اشخاص کو اپنے ساتھ شریک کرلیا جو بہت زیادہ شاطر تھے، ان کے فریب نے عروج کو زوال کی طرف لے جانا شروع کر دیا اور ترقی کا گراف گرتے گرتے صفر پر چلا گیا۔
پے دَر پے نقصان سے انکل بلڈپریشر جیسے مہلک مرض کی زَد میں آ گئے اور ایک دن ذہنی دبائو اتنا بڑھا کہ دماغ کی نس پھٹنے سے زندگی کی بازی ہار گئے۔
ساتوں بیٹوں کو جائداد کی فکر لگی تھی۔ وہ بیمار باپ کی بیماری کو نظرانداز کرکے زیادہ سے زیادہ روپیہ بٹورنے کی کوششوں میں لگے تھے۔ باپ کے مرتے ہی ان میں تفرقہ بڑھا۔ بدخواہوں نے فائدہ اُٹھایا اور طاہرہ کے بھائیوں کو باپ کا برسوں کا جما جمایا کاروبار اونے پونے فروخت کرنا پڑا، کیونکہ ہر ایک کو اپنا حصہ وصول کرنے کی جلدی تھی۔
جب اتفاق ختم ہو جاتا ہے تو لازم ہے کہ تباہی آ جاتی ہے۔ اِسی لالچ میں بھائیوں نے بہن کا حصہ بھی غصب کر لیا۔ اب وہ گھر باقی بچ گیا جس میں طاہرہ باجی اپنی والدہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ بھائیوں نے اپنے لئے الگ الگ شاندار گھر خرید لئے تھے، مگر بہن کے پاس حویلی کی مرمت تک کے پیسے نہ رہے تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ باجی کے رشتے آنے بند ہوگئے۔ یہ وہی امیرزادی تھی کہ جس کے والدین نے بڑے گھر کی بہو بنانے کے خواب میں اُس کا رشتہ خاور جیسے لائق آدمی سے نہ کیا تھا۔ صرف اپنی حیثیت کے گھمنڈ میں ان کے والدین کو یہ کہہ کر ٹکا سا جواب دے دیا تھا کہ آپ لوگ ہمارے لائق نہیں ہیں اور اب وہی نازوں پلی ملازمت کی خاطر بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے پر مجبور تھی۔
جس بھائی سے اُسے اپنے گھر رکھنے کا دعویٰ کیا تھا اب اُسی کا رویہ سب سے بُرا تھا اور اُس کی بیوی کا سلوک روز بہ روز خراب سے خراب تر ہوتا جاتا تھا۔ ماں بے بسی کی تصویر بنی بیٹوں کی بے حسی دیکھتی تھی اور کچھ نہ کر سکتی تھی۔
طاہرہ کی امی کے پاس کافی بھاری اور قیمتی زیورات تھے، جو انہوں نے بیٹی کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ بہوئوں کی نظریں اب اِسی متاع پر تھیں۔ ساس نے ان زیورات کا بٹوراہ نہ کیا تو طاہرہ باجی کے لئے ان کے دلوں میں بالکل جگہ باقی نہ رہی۔ کچھ رشتے آئے بھی تو انہوں نے ان کو چلتا کر دیا۔ تبھی ساس اور بہوئوں میں شدید تنائو پیدا ہوگیا۔ وہ تو چاہتی تھیں کہ جس آبائی گھر میں یہ ماں بیٹیاں قیام پذیر ہیں، اُسے بھی بیچ کر حصے بخرے کر دیئے جائیں، مگر ماں نے کہہ دیا جب تک میں زندہ ہوں کوئی اس گھر کو فروخت کرنے کا نہ سوچے۔
عورت ماں کے رُوپ میں ہو یا بہن کے… وہ کمزور ہی رہتی ہے۔ بیٹے یا بھائی ساتھ نہ دیں تو وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آخر لڑکے حویلی فروخت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ البتہ والدہ اور بہن کا کچھ حصہ ان کے نام بینک میں جمع کرا دیا کہ طاہرہ کی شادی پر کام آئے گا۔ وہ یہ بھول گئے کہ اب طاہرہ کی شادی کی عمر نکل گئی ہے۔ آبائی گھر بکا تو ماں بیٹی کو رہنے کے لئے مکان کی ضرورت پڑی۔
وہ پرانے محلے میں ہی رہنا چاہتی تھیں کہ یہاں کے چند گھرانے اب بھی ان کے ماضی کی شان و شوکت کو یاد رکھے ہوئے تھے، لیکن وہ شخص جس نے خاور بھائی کا گھر خریدا تھا، اس کی آنکھوں نے طاہرہ باجی کے خاندان کی شان و شوکت کو نہیں دیکھا تھا۔ انہی دنوں جبکہ ماں بیٹی کو مکان درکار تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ خاور کا سابقہ گھر کرائے کے لئے خالی ہے۔
محلے کے ایک پرانے بزرگ کی کوشش اور ضمانت پر بالآخر یہ گھر ان کو کرائے پر مل گیا۔ یہ وہی گھر تھا جس میں کبھی دُلہن بن کر آنے کا ارمان طاہرہ باجی کو تھا۔ آج کرایے دار کی حیثیت سے وہ اس میں داخل ہوئی تھیں۔ یہ وہی گھر تھا جس کے کونے کونے سے اُنہیں ان کے محبوب کی خوشبو آتی تھی۔ جہاں وہ خاور کے ہمراہ بچپن میں کھیلنے آیا کرتی تھیں اور خاورکی امی پیار سے اپنی گود میں بٹھا کر طاہرہ کے بالوں میں کنگا کرتیں اور دو چوٹیاں بنایا کرتی تھیں۔ آج طاہرہ حسرت بھری نگاہوں سے اس بوسیدہ مکان کے در و دیوار کو دیکھتی تھیں، جہاں ماضی کی پرچھائیاں باقی رہ گئی تھیں۔
وقت گزرتا رہا اور ماں سجدوں میں اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کے لئے اللہ سے دُعائیں مانگتی رہی۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے کہ انکل کے غرور کو معاف کر کے اس نے ان کی بیوہ ماں کی دُعا سُن لی۔ ایک روز خاور بھائی اپنے دیرینہ دوست سے ملنے پرانے محلے آئے تو ان کا جی چاہا کہ اپنے پرانے گھر کے مکینوں سے بھی ملتے جائیں۔ دوست نے بتایا کہ تمہارے فروخت کردہ گھر میں طاہرہ اور اس کی والدہ کرائے پر رہائش پذیر ہیں۔ یہ بات سُن کر خاور بھائی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ تصدیق کے لئے انہوں نے دروازے پر دستک دی۔ آنٹی نے درواز کھولا اور خاور کو پہچان کر ہکا بکا رہ گئیں۔ بت کی مانند ساکت رہیں اور اندر بُلانا بھی یاد نہ رہا۔ بالآخر خاور نے ہی خاموشی کو توڑا۔
خالہ جی کیا اندر آنے کا نہ کہیں گی۔ ہاں… کیوں نہیں۔ آئو بیٹا آئو۔ اندر آ جائو۔ یہ تمہارا ہی تو گھر ہے۔ تھا مگر اب نہیں ہے۔ کب آئے پاکستان۔
چند دنوں پہلے خالہ جی۔ پردیس سے جی بھر گیا ہے اپنوں کی وہاں بہت یاد آتی ہے۔
کیا شادی ہوگئی؟ کتنے بچّے ہیں تمہارے ماشاء اللہ۔ شادی نہیں کی خالہ جی، کوئی گوری پسند ہی نہیں آئی… اتنے میں طاہرہ بھی آفس سے آگئی اور خاور کو گھر میں بیٹھے دیکھ کر آنکھیں جھپکنے لگی، جیسے کوئی خواب دیکھ رہی ہو۔
کچھ دیر بیٹھ کر وہ چلا گیا۔ یہ معلوم ہوگیا کہ طاہرہ کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہے۔ ایک ہفتے بعد فریال اور اس کی امی آئیں۔ وہ طاہرہ کا ہاتھ خاور کے لئے مانگنے آئی تھیں۔ طاہرہ کی امی نے انکل کے اس روز کے رویئے کی معافی طلب کی۔ ظاہر ہے جو اس دُنیا میں نہ رہا ہو اُسے معاف کر دینا ہی احسن ہوتا ہے۔ اللہ نے دو محبت کرنے والوں کو ملانا تھا، سو بیس برس کے بن باس کے بعد بالآخر کھوئے ہوئوں کو راستہ مل گیا اور طاہرہ باجی اس چھوٹے سے گھر سے جہاں انہیں بہو بن کر آنا تھا، بیٹی بنا کر رُخصت کر دی گئیں۔
بہت سے سال گزر چکے تھے۔ میرے ذہن سے خاور بھائی اور طاہرہ باجی محو ہوگئے تھے۔ واشنگٹن کی ایک مسجد میں جمعے کاخطبہ تھا۔ باسط کی نومسلم بیوی ڈینس ان کا خطبہ سننے گئی تو مجھے بھی ساتھ لے گئی۔ نماز کے بعد خواتین بات چیت کر رہی تھیں، اس ہجوم میں مجھے ایک بہت باوقار سانولی سلونی سی خاتون نظر آئیں۔ قریب گئی تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔ ’’ارے مُنّی تو ہے‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ یہ طاہرہ باجی تھیں، پھر جب انہوں نے مجھے خاور بھائی سے شادی کی بات بتائی تو بے اختیار لبوں سے یہ الفاظ نکل گئے۔ طاہرہ باجی خاور بھائی سے شادی بیس سال بعد؟ شاید سچی لگن اِسی کو کہتے ہیں۔
(یاسمین چشتی… امریکا)