میں نے ایک زمیندار گھرانے میں جنم لیا اور ہم ایک بڑی فیملی لیکن مشتر کہ خاندانی نظام کے تحت رہا کرتے تھے۔ دادا کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن میں میرے والد سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ دادا نے اپنی وفات سے قبل بیٹیوں کی شادیاں کر دیں، اب دادی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ بیمار رہتی تھیں اور ہم ان کی دل سے دیکھ بھال کرتے تھے۔ امی جان نے ہم کو یہی تربیت دی تھی لیکن ہماری چاچی ، ان کی پروانہ کرتی تھیں تب ہی ان کے بچے بھی دادی کو نظر انداز رکھتے تھے، تاہم وہ سب ہی سے پیار کرتیں۔ چاہتی تھیں کہ تمام زرعی زمینیں اور جائداد اپنی موت سے قبل اولاد میں انصاف سے تقسیم کر جائیں۔
والد صاحب سرکاری ملازم تھے اور وہ زمین داری کے بکھیڑوں میں پڑنا نہ چاہتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کو اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں سے وقت ہی نہ ملتا تھا۔ لہٰذاز مین داری کے امور ہمارے چچا ہی دیکھتے اور سنبھالتے تھے۔ زمینداری میں اکثر مقدمات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے اور کبھی کبھار اس قسم کے جھگڑے فساد بھی ہو جاتے ہیں کہ اثر و رسوخ سے کام لینا پڑتا ہے ور نہ جائز بات بھی تسلیم نہیں کی جاتی۔ چچا جان کوئی اور کام نہ کرتے تھے لہٰذا ان کو شروع سے دادا اپنے ساتھ رکھتے اور وہ زمینداری کے رموز سے واقف تھے جبکہ والد صاحب کو بالکل بھی ان رموز کی سمجھ نہ تھی۔ وہ بس اپنے کام سے کام رکھتے اور تعلیم کی جانب متوجہ رہے۔ دادا کی وفات کے بعد جب چچا کو زمینداری سے متعلق مختلف معاملات کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ دادی اور والد صاحب سے کہتے کہ مجھے مختیار نامہ لکھواد و تا کہ میں بغیر کسی دقت اور محتاجی کے پیچیدہ زرعی امور نمٹالیا کروں، کیونکہ کبھی زرعی قرضے کی حاجت در پیش ہوتی تو کبھی لگان کے معاملات آپڑتے تھے۔ سب کے بیانات و دستخط در کار ہوتے تب ہی دادی نے بابا اور چاروں بیٹیوں سے کہا کہ رمیز جیسا کہتا ہے ویسا کر دو تا کہ اسے مشکلات نہ ہوں اور پٹواری وغیرہ بھی گھپلا نہ کر سکیں۔ ایک جانب مزارعوں کو کنڑول کرنا، دوسری جانب زمین کو مکاوے پر دینا اور وصولی وقت پر لینا۔ غرض کئی طرح کے مرحلے تھے جن میں چچا کو بھائی اور بہنوں کے دستخطوں کی ضرورت پڑتی یا پھر ان کی رضا لینی ہوتی۔ بابا کو بھائی پر بھروسہ تھا۔ شروع میں چچا ان کی ہر بات مانتے تھے۔ میرے والد نے ماں کے کہنے پر چھوٹے بھائی رمیز کو کل اختیار دے دیا۔ ایسا ہی ہماری پھوپھیوں نے کیا جس سے ان کیلئے زمین داری کو سنبھالنا آسان ہو گیا۔ پیداوار میں اضافہ ہونے لگا۔ اور ”مٹے “، یعنی مکاوے کی رقم سب کو شرعی حساب سے ملنے لگی۔ شروع میں چچانے حق و انصاف سے کام لیا۔ بھائی بہن ان سے خوش تھے وہ اپنی باتوں اور اخلاق سے بھی سب کو اپنی طرف مائل رکھتے تھے۔ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ ان کی نیت کیا ہے اور وہ در پردہ کیسے منصوبے بنارہے ہیں۔ وہ ہمارے اپنے تھے اور اپنوں پر اعتماد تو کیا ہی جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے دادی مسلسل بیمار تھیں، یہاں تک کے بڑھاپے سے نڈھال رہنے لگیں تو بابا نے ان کو اسپتال میں داخل کرادیا۔ وہاں رہ کر ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ گھر آنے کی ضد کرنے لگیں۔ وہ گھر اور ہمارے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ بابا جان انہیں بھر لے آئے۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ زندگی کا چراغ بجھنے کو ہے تو بابا اور چچا کو بلا کر زبانی وصیت کی کہ .. اپنا اپنا حصہ خوشی اور شرعی حساب سے لے لینا اور زمین میں سے بہنوں کو بھی ان کا حصہ دینا۔ وہ زبانی ہی یہ وصیت کر سکیں لکھت پڑھت کی مہلت موت نے نہ دی اور جب دوبارہ وہ اسپتال گئیں تو وفات پا گئیں۔ دادی کی وفات کے چند دنوں بعد ہی ان کی اولاد میں اتفاق جاتا رہا۔ ہر کسی کا منہ دوسری طرف ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ چچا اپنی سی کرنے لگے ، بابا کچھ کہتے تو وہ منہ زوری کرتے۔
وقت گزرتارہا۔ چچا اور زیادہ خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک ہوتے گئے۔ ہم سب اپنے والد کی وجہ سے چپ رہتے رہے، جبکہ چاچی اور ان کے بچے ہم سے زیادتی بھی کر جاتے۔ والدہ برداشت کرتیں کہ ایک گھر میں رہنا تھا اور برداشت کرنا تو مشتر کہ فیملی سسٹم کا تقاضا ہوتا ہے ورنہ سب اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اکٹھے رہنا بھی ہماری مجبوری تھی کیونکہ زمینداری مشترکہ اور آبائی گھر بھی ایک تھا۔ کوئی اپنا گھر چھوڑ کر کہاں جاتا۔ ہم سب ہی صبر سے کام لے رہے تھے اور اس صبر و تحمل و تحمل کا فائدہ ہمارے چچا اور ان کی فیملی کو ہو رہا تھا۔ وہ چپکے سے زمین کا کوئی ٹکڑا بیچتے اور گاڑی خرید لیتے ، اپنے کمروں میں اے سی لگوا لیتے ۔ ان کے گھر کبھی کوئی شے اور کبھی کوئی چیز آجاتی۔ بچوں کو بھی مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے تھے کہ پیداوار کی آمدنی چچا کے کنڑول میں تھی، جتنا چاہتے بتاتے جس قدر چاہتے نہ بتاتے۔ زمین ٹھیکے پر دیتے لیکن ابو اور پھوپھیوں کو نہ بتاتے ۔ روپیہ خود رکھتے تھے اور اپنی فیملی کے آرام و آسائشوں پر خرچ کرتے رہتے۔ بابا ز مینوں پر نہ جاسکتے تھے ، وہاں تو چاچا کا حکم چلتا اور میرے والد کو کوئی پہچانتانہ تھا۔ چچا کے عیش و آرام بہت بڑھ گئے تو پیداواری آمدنی میں ہمارا اور پھو پھیوں کا حصہ کم سے کم ہونے لگا تب ہماری چاروں پھوپھیاں نے مل کر اس بات کا نوٹس لیا اور چچا سے اپنے حق کا مطالبہ کر دیا کہ زمین کا بٹوارہ کرواور ہمارا شر عی حصہ ہم کو دو۔ وہ ہاں ، ہاں کرتے لیکن عرصے تک اسی طرح ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ یہاں تک کہ والد صاحب سروس سے ریٹائر ہو گئے۔ میری والدہ اور پھوپھیوں کے کہنے پر اب وہ بھی اپنی زمینوں پر جانے لگے ۔ وہاں جا کر چچا جان کے گھپلوں کا پتہ چلا۔ انہوں نے دادا کی زمین کو پٹواری سے مل کر کافی ایکڑ فروخت کر دیئے تھے اور دوبارہ قریب کی زمینیں اپنے نام سے خرید لی تھیں۔ باباجان نے جھگڑا نہ کیا اور پھوپھیوں کو بھی جھگڑے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ باپ اور ماں کے ترکے اور وراثت کی زمینوں میں سے رمیز کا بھی حصہ ہے تو سمجھ لو کہ اس نے اپنے حصے کی زمین بیچ کر دوسری جگہ لے لی ہے۔ جب بٹوارہ ہو گا اس کا فروخت کردہ حصہ اس کے حق سے کٹ جائے گا اور باقی زمین ہم کو شرعی حق سے مل جائے گی۔ جب بٹوارے کا مرحلہ آیا۔ چاچا نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور زمین کے فروخت کردہ حصے کو شامل نہ کیا۔ بٹوارہ ساری زمین پر کرنے کی بجائے جو باقی تھی اس میں پورا شرعی حصہ لینے کا مطالبہ کر دیا، کہتے تھے دیکھ بھال تو میں کرتا ہوں۔ محنت میری ہوتی تو میں زیادہ کیوں نہ لوں گا۔ شرعی حصہ پورا کسی کو نہ ملے گا کیونکہ مختیار نامہ تو میرے پاس ہے۔ حصہ شرعی انصاف سے تو سب کو مل سکتا تھا لیکن اس کیلئے مقدمہ بازی لازمی تھی جو کہ بابا جان نہ چاہتے تھے کہ ایک گھر میں ساتھ رہتے ہیں تو بٹوارہ بھی اتفاق اور صلح سے ہو گا۔ زمین کی خاطر لڑیں گے بچوں میں دشمنیاں ہوں گی ہم کمزور ہوں گے ، دشمن فائدہ اور رشتہ دار انگلیاں اٹھائیں گے تو عزت گھٹے گی۔ خاندان کی خاطر والد تو سمجھ داری سے کام لے رہے تھے لیکن چچا پر لالچ غالب آچکا تھا۔ ان کا بس چلتا تو بھائی اور بہنوں سے ساری زمین اونے پونے خرید لیتے اور کسی کو ایک انچ اس کا حصہ نہ دیتے۔ جب بٹوارے پر انہوں نے کوئی سمجھو تہ قبول نہ کیا تو پھوپھیوں کو غصہ آیا اور وہ لڑنے آگئیں۔ انہوں نے مقدمے بازی کی بھی دھمکیاں دیں۔ چچا پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ جعل سازی سے اپنے ساتھ اندر خانہ مضبوط کر چکے تھے یوں چچار میز خفیہ طور پر زمین بیچتے رہے پھر انکار کر دیتے جبکہ قبضہ دار وہ لوگ ہو جاتے جو زمین خرید لیتے تھے۔ یہ باتیں رفتہ رفتہ میرے والد کے علم میں آنے لگیں تو وہ ششدر رہ گئے کہ سگا بھائی یہ کیا کر رہا ہے جس کا تصور بھی نہ کیا تھا۔ والد نے ریکارڈ نکلوایا، پتہ چلا کہ چھوٹے بھائی نے تمام زمین اپنے نام کرالی ہے اور بہنوں کے حصے اپنے قبضے میں کر لئے ہیں۔
ایسی بات ان کو کیسے برداشت ہوتی۔ وہ والد سے لڑنے آگئیں کہ تمہارے ٹھنڈے مزاج اور تسلیوں کی وجہ سے رمیز کو یہ موقع ملا ہے اور ہمارا حق اس نے غضب کیا ہے۔ اب تم ہی اس سے ہمارا حصہ دلوائو گے ۔ والد اپنا حصہ نہ لے پارہے تھے بہنوں کو کیونکر دلواتے۔ کاغذات سب چچا کے قبضے میں تھے ، جبکہ پھو پھیوں کا کہنا تھا کہ تم بھی چھوٹے بھائی سے مل گئے ہو۔ ایک روز چچا نے زمین کا ایک بڑار قبہ فروخت کیا ، رقم جیب میں ڈالی اور کراچی چلے گئے۔ وہ وہاں بنگلہ خرید نا چاہتے تھے تا کہ اپنی فیملی کو بڑے شہر شفٹ کر سکیں۔ قدرت بھی اتنی بے انصاف نہیں ہوتی۔ وہ بنگلہ دیکھ کر واپس آئے تو بیمار پڑ گئے۔ دوبارہ کراچی نہ جاسکے ۔ ادھر پھوپھیوں نے میرے والد کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ وہ بہت پریشان تھے بہنیں کہتی تھیں کہ رمیز پر مقدمہ کرواور جس گھر میں رہ رہے ہیں اس کا بھی بٹوارہ کرو۔ حالانکہ دادی نے کہہ دیا تھا کہ میرے گھر میں صرف بیٹے حصہ دار ہوں گے بیٹیوں کو زرعی اراضی سے انصاف کر دینا کیونکہ یہ شادی شدہ ہیں ، ان کے اپنے اپنے گھر ہیں، لیکن اب وہ غصے میں گھر بھی بکوانے کا کہتی تھیں۔ والد صاحب کی کمزوری کا چچانے خوب فائدہ اٹھایا اور زیادہ دیدہ دلیر ہوگئے۔علاقے کی پولیس ان کو مانتی اور سیاست میں بھی ان کا عمل دخل رہتا۔ والد زمینوں پر جاتے بھی تو ان کو کوئی نہ پوچھتا۔ چھوٹے بھائی نے نجانے کیسا جال بچھایا تھا کہ مزارعے بھی ان کو نہ گردانتے تھے۔ وہ زمین کے کاغذات نکلوانے کی تگ و دو کرتے رہے لیکن بہنوں سے صبر نہ ہو رہا تھا۔ وہ ہمارے گھر آکر دھر نا دے کر بیٹھ گئیں کہ مقدمہ کر دیا پھر اس آبائی گھر کا بٹوارہ کر دو۔ کیسے بٹوارہ کرتے اگر گھر بیچ دیتے تو ہم کہاں جاتے۔ خدا کی کرنی کہ چچار میز اس بار جب زمینوں پر گئے وہاں کسی سے ان کا جھگڑا ہو گیا ۔ تنازعہ پہلے سے چل رہا تھا۔ کچھ ایکٹر خفیہ زمین کسی کو بیچی تھی اور اب ان کو قبضہ نہ دیتے تھے۔ کیونکہ طبیعت میں لالچ آچکا تھا، پس وہاں اس تنازعے کی وجہ سے کچھ ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے انہیں رات کے وقت ڈیرے پر سوتے ہوئے گولیاں مار دیں اور اس طرح چچا جان جاں بحق ہو گئے۔ جب یہ اطلاع ہم کو ملی، دھچکا لگا۔ بے شک بٹوارے کا تنازعہ تھا لیکن کوئی بھی ان کی جان کا دشمن نہ تھا کہ ہم اس اطلاع پر شاد ہوتے۔ سب ہی رونے لگے ۔ پھوپھیاں بھی آنسو بہارہی تھیں اور چچی جو ہمارے درمیان اکڑ کر ایسے رہتی تھیں کہ جیسے یہ راج دھانی ان ہی کی ہو ، وہ بھی غم سے نڈھال امی جان سے لپٹ لپٹ کر رورہی تھیں کہ ان کا تخت و تاج سب کچھ چلا گیا تھا۔ شاید خدا کو یہ نظارہ دکھانا مقصود تھا۔ بہر حال والد نے ان کو بہت تسلی دی جبکہ خود بھی وہ غم سے نڈھال تھے۔ وقت ہر زخم مندمل کر دیا کرتا ہے ۔ ہم لوگ بھی چچا کے غم سے سنبھل گئے لیکن اب مسئلہ ان کی فیملی کا تھا۔ چچی خوفزدہ تھیں کہ سرتاج نہیں ہے تو یہ لوگ مجھ سے اور میرے بچوں سے ہمارے کئے کا بدلہ لیں گے لیکن کسی نے ایسانہ کیا اور والد نے سب کو ایک کنبے کی طرح سنبھال لیا۔ والد کو ساری زمین اور ملکیت کا اختیار مل گیا تو انہوں نے انصاف سے کام لیا۔ چچا اور ان کے بچوں کا حق ان کو دیا اور پھو پھیوں کا حصہ انہیں دے دیا۔ دو پھوپھیاں بہت امیر تھیں، انہوں نے اپنا حصہ نہ لیا اور یتیم بھتیجوں اور بیوہ بھابی کے حق میں وہ از خود دست بردار ہو گئیں۔ جبکہ دو پھو پھیوں نے اپنا حصہ لے لیا۔
والد نے چچا مر حوم کے یتیم بچوں اور بیوہ بھابی کے سر پر ہاتھ رکھا، اپنی سر پرستی میں ان کی زمینوں اور ترکے کی دیکھ بھال اس وقت تک کرتے رہے جب تک کہ وہ بالغ اور سمجھدار نہ ہو گئے۔ جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی وراثت کو سنبھال سکیں تو قبضہ واختیار ان کے حوالے کر دیا۔ چچی اس حسن اتفاق سے بہت مشکور تھیں۔ اپنے بچوں کے رشتے ہمارے ساتھ کرنے کی آرزومند ہو گئیں تو والد صاحب نے میر انکاح چچازاد طارق سے اور میری بہن فوزیہ کا نکاح چچا کے چھوٹے بیٹے سے کر دیا۔ ایسے ہی چچی کی اکلوتی بیٹی ماریہ میرے بھائی کے نکاح میں آگئی۔ یوں وہ زمین جس کے بٹوارے پر شدید نفاق پیدا ہوا تھا ختم ہو گیا اور زمین بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ گئی۔ ہمارا خاندان اب بھی ایک مثالی خاندان ہے اور ہم بہت سکون اور پیار سے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا گھر اتنا بڑا ہے کہ اس میں کئی فیملیاں سما سکتی ہیں۔ پھوپھیاں جب آتی ہیں خندہ پیشانی سے ملتی ہیں اور والد صاحب کی عزت کرتی ہیں۔