Monday, March 17, 2025

Lalach Ne Doboya

عارفہ میٹرک تک میری ہم جماعت رہی۔ ہماری دوستی تو کبھی نہ ہو سکی لیکن اتنی لمبی رفاقت دوستی سے بھی بڑھ کر تھی۔ وہ جب ملتی تو اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیتی۔ شروع میں وہ اچھے سوچ و چال کی حامل تھی لیکن زندگی کی کچھ محرومیوں نے اس کی شخصیت میں ایسی دراڑیں ڈال دیں کہ وہ دولت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگی۔ میں جانتی تھی کہ وہ میرے کزن بلال کو پسند کرتی ہے جس کا ہمارے گھر اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ بلال کی دوستی میرے بھائی ارسلان سے تھی ، وہ اُسی سے ملنے ہمارے گھر آیا کرتا تھا۔ عارفہ نے جان لیا کہ بلال تقر یبا روزانہ ہی ارسلان سے ملنے آتا ہے، تبھی وہ بھی مجھ سے ملنے کے بہانے اکثر و بیشتر آنے لگی۔ شروع میں یہی سمجھی کہ میرے لئے آتی ہے لیکن کچھ عرصے بعد اندازہ ہو گیا اس کی نگاہیں، ہمارے گھر میں بلال کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔ میں نے ایک دن اُسے سمجھایا تو وہ بولی کہ تم مجھے جانتی ہو کہ جو سوچ لیتی ہوں اس کو پانے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ میں چپ ہو رہی۔ میں نے اپنی سہیلی کا دل توڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ عارفہ نے جو کہا سچ کر دکھایا، جانے کیسے اس نے بلال کے بے پروا دِل کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر اپنے حُسن کے سحر میں مسحور کر لیا۔ وہ اس کے ساتھ شادی کے خواب بھی دیکھنے لگا لیکن افسوس آگے چل کر اس نے عورت کے تقدس، اس کی حرمت اور عظمت کو رسوا کر دیا۔ وہ صرف اپنے جذبات کی غلام نکلی۔ وہ صرف اپنی سرکش خواہشات کی تابع تھی، اس نے بلال سے بے وفائی کر کے ایک بے ضرر انسان کی زندگی دائو پر لگا دی۔ میں نے اس کی محبت کے چمن کو مہکانے کی خاطر بہت بڑاز خم کھا لیا اور بلال کی خوشی پورا کرنے کے لئے ، دونوں کی شادی کے لئے سب سے زیادہ کوشش میں نے ہی کی۔ جانتی تھی کہ اگر بلال اُسے ٹوٹ کر چاہنے لگا ہے تو مجھے از خود ان دونوں کے رستے سے ہٹ جانا چاہئے۔ خواہ اس کے لئے کتنا ہی درد سہنا پڑے کیونکہ جب کسی کا ہونے والا منگیتر کسی اور لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اپنی منگیتر سے شادی کر کے کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ دراصل ہمارے والدین کا یہی ارادہ تھا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ میری منگنی بلال سے کر دیں گے اور جب بلال کی ملازمت ہو جائے گی تب وہ ہماری شادی کے فرض   سے عہدہ بر آ ہو جائیں گے۔ یہ تو ہمارے والدین کی پلاننگ تھی مگر تقدیر کی پلاننگ تو کچھ اور تھی- مرد اگر ہمت و حوصلے کا پیکر ہے تو عورت بھی اُلفتوں کی پاس دار ہے۔ مجھے اگر بلال سے الفت تھی تو میں اس کی خوشی کی پاسدار بھی تو بن سکتی تھی۔ تبھی میں نے خود کے احساسات کو بھلا کر اس کی محبت اور اپنی سہیلی عارفہ کا ساتھ دیا تھا مگر اس نے بلال کے ساتھ بے وفائی کی، اس کے ساتھ منگنی کر کے نکاح سے صرف پندرہ روز پہلے محض دولت کی خاطر مقدس رشتے کی تحقیر کر کے عورت کی سچائی اور سادگی کو  بد نام کر دیا۔ بے شک محرومیاں انسان کی شخصیت میں خلا پیدا کر دیتی ہیں۔ تب یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اندر کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہے ، خواہ اس کے لئے اُسے کسی کے ارمانوں کو ہی سیڑھی کیوں نہ بنانا پڑے۔عارفہ کو میں بچپن سے جانتی تھی۔ وہ دوسروں کے دُکھ درد محسوس کرنے اور ایک حساس دل رکھنے والی لڑکی تھی۔دوسروں کی تکلیف میں ساتھ دینے والی نے پھر اچانک ایسا کیوں کیا۔ جب اس نے عزیر کی دولت کی جھلک دیکھی تو اپنے مفاد کی راہ ہموار کر لی۔ میں نے اُسے تب بھی بہت سمجھایا تھا کہ ایسا نہ کرو۔ اس طرح تم کسی کی زندگی برباد کر دو گی۔ تب وہ یہی جواب دیتی، مجھے کوئی اور اچھا مل گیا ہے تو اسے بھی کوئی مجھ سے اچھا مل ہی جائے گا۔وہ خُوبصورت تھی، اُسے اپنی خوبصورتی پر ناز تھا۔ تبھی فریب کاری اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ گویا اس کے سینےمیں دل نہیں لالچ سے بھری کوئی شے دھڑکتی تھی۔ بلال خوشحال گھرانے سے تھا لیکن مل اونر نہیں تھا جبکہ عذیر کے باپ کی کئی ملیں تھیں۔ دونوں ایک پارٹی میں ملے اور عزیر نے عارفہ کا ہاتھ تھام لیا اور دو چار ملاقاتوں میں اس کو شریک حیات بنانے کی پیش کش کر دی۔ عارفہ نے اس کا گھر ، شان و شوکت اور دولت دیکھی۔ اُسے لگا کہ اس نے بلال کو پسند کر کے غلطی کی ہے اور اب جلد بازی سے شادی کرنے جارہی ہے تو اور بڑی غلطی کر رہی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ کیا وہ واقعی سمجھتی ہے کہ بلال سے شادی کر کے غلطی کر رہی ہے ، اب جبکہ نکاح کی تاریخ بھی رکھ لی گئی ہے۔ وہ بولی۔ ہاں، عزیر کے ساتھ شادی کر کے اُسے زندگی کی اتنی آسائشیں مل جائیں گی جو بلال سے زندگی بھر نہیں مل سکتیں۔ اور وہ محبت جو تم کو بلال سے ہے ، اُس کا کیا ہو گا؟ محبت تصور تھا اور دولت حقیقت۔اُس نے جواب دیا۔ اور انسان کو تصور میں نہیں، حقیقت میں جینا چاہئے۔ تو جائو، حقیقت کی تلخ دنیا کی نذر ہو جائو، مجھے تمہاری فکر نہیں ، لیکن مجھے بلال کی فکر تو تھی ۔ عارفہ کا ارادہ بدلنے سے جس کی محبت،  عزت ہر شے دائو پر لگی ہوئی تھی۔ اس نے دوستوں کو زبانی اپنی شادی کی دعوت بھی دے ڈالی تھی۔ ایک دن میں نے یہ بات اپنے بھائی ارسلان کو بتائی اور کہا کہ تم بلال کو آگاہ کر دو کہ عارفہ اس سے محبت نہیں کرتی۔ اب وہ اس کے دھوکے میں نہ آئے کیونکہ وہ دولت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بھائی نے اسے آگاہ کیا لیکن بلال کی آنکھوں پر تو محبت کی پٹی بندھی تھی۔ وہ سادہ لوح عارفہ کے عہد و پیمان اور اس کی قسموں پر یقین کر چکا تھا۔ اس نے میرے بھائی کی بات کا یقین نہ کیا۔ عارفہ اُدھر عذیر سے دوستی پکی کر چکی تھی اور اب بلال سے جان چھڑانے کے چکروں میں تھی۔ اس نے بلال سے جان چھڑانے کا یہ بہانہ ڈھونڈا کہ شادی کے لئے ایسی شرائط پیش کر دیں جن کو پورا کرنا ہمارے چچا جان کے بس کی بات نہ تھی۔ بنگلہ ، کار اور اتنازیادہ بینک بیلنس کہ جس کو عارفہ کے نام منتقل کرنا ان کے لئے محال تھا لیکن عارفہ کی بذریعہ اس کے والد یہی ضد تھی۔ شادی تب ہی ہو گی جب سُسرال والے ان کی لڑکی کی ضمانت کو اتنا کچھ دیں گے۔معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ بلال کے والد نے کہا۔ یہ شرائط معقول نہیں ، ہمارے نزدیک تو یہ لالچ ہے مگر بلال کی تو جیسے عارفہ کو کھو دینے سے روح نکلی جارہی تھی۔ تاہم اس نے عارفہ سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کے حصے کی جائیداد اور سرمایہ تو اسے نہیں دے سکتا البتہ اپنے حصے میں جو اسے آتا ہے، بے شک وہ اپنے نام لکھوا لے۔ اس پر وہ بولی۔ یہ شرائط تو پوری کر نا پڑیں گی۔ والدین کو اپنی لڑکی کے لئے تحفظ چاہئے ہوتا ہے۔ بلال کو جب گھر والوں نے بہت ملول دیکھا تو ماں اور بھائیوں نے مل کر اپنا حصہ اس کو دے دیا تا کہ وہ عارفہ کے والدین کی شرائط پوری کر کے اس کے ساتھ شادی کرلے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ اسے دے دیا۔ بلال خوش ہو گیا اور یہ خوش خبری عارفہ کو سُنائی۔ وہ خوش ہونے کی بجائے بُجھ کر رہ گئی ، اس کے والدین بھی افسردہ ہو گئے۔ ان کا تیر خطا ہو گیا۔ ادھر عذیر مسلسل عارفہ سے شادی پر اصرار کر رہا تھا۔ آخر عارفہ نے بلال سے خود بات کرنے کا فیصلہ کیا اور نکاح کی تاریخ سے محض دو ہفتے قبل کھلے لفظوں میں اُس کو بتادیا کہ اس کے ماں باپ نے ایک بہت امیر لڑکے کو اس کے لئے پسند کر لیا ہے ، اس لئے وہ اپنے والدین کی بات مانتے ہوئے اس سے ناتا توڑ رہی ہے۔ یہ بات کہنے کے لئے اس نے بلال کو ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں بلایا اور جو نہی بات ختم کی، عزیر وہاں آ گیا۔ وہ بلال کے سامنے ہی اس کے ساتھ گاڑی بیٹھی ، اُسے خُدا حافظ کہہ کر چلی گئی ۔ بلال دم بخود رہ گیا۔ وہ تو چلی گئی لیکن اس کی ہستی بستی دُنیا کو اس کی خود غرضی اور لالچ نے پھونک ڈالا ، ایک ہنستے مسکراتے انسان کو زندہ در گور کر دیا۔ اب بلال کے لئے زندگی میں کوئی دلچسپی نہ رہی۔ عارفہ نے اپنی منشا سے عذیر سے شادی کر لی، لیکن میرا کزن بیچارہ عمر بھر کے لئے عورت پر اعتماد کھو بیٹھا۔ اس کے والدین نے بہت چاہا کہ وہ شادی کرلے ، وہ اپنے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ شادی کی خوشی کو نہیں جوڑ سکا۔ اب وہ اکثر کھو یا کھو یا رہتا، دُور خلائوں میں اپنی تحقیر کے اسباب ڈھونڈتا رہتا کہ آخر عارفہ نے اس سے وفا کیوں نہ کی جو اس پر جان نچھاور کیا کرتی تھی۔ دو سال اسی طرح گزر گئے۔ بالآ خر گھر والوں نے اس کی منگنی زبردستی مجھ سے کرنا چاہی تو وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ جانے سے پہلے اس نے مجھے فون کر کے کہا۔ نایاب ! مجھے معاف کر دینا، میں نے اس لئے تم سے شادی سے انکار کیا ہے کیونکہ تم میری اور عارفہ کی محبت کی شدت کی گواہ ہو ، اچھی طرح جانتی ہو کہ مجھے اس کے ساتھ کتنی محبت ہے، ایسے میں تم یا کوئی بھی عورت کسی مرد کو کیسے دل سے قبول کر سکتی ہے یا اس پر اعتبار کر سکتی ہے۔ میں تم کو اور خود کو دھوکا نہیں دینا چاہتا، اس لئے تمہاری زندگی میں داخل ہونے سے پہلے ہی جارہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتی، سمجھاتی یا خاندان کی خوشی کا واسطہ دیتی، اس نے فون بند کر دیا۔ میں اس روز پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ اسے کیا خبر کہ جو   پیار کرتے ہیں، وہ ایسی باتوں کی پروا نہیں کرتے۔ وہ چلا گیا۔ مایوس ہو کر میرے والدین نے خاندان میں کسی اور لڑکے سے میری شادی کرنے کا سوچا لیکن میں نے انکار کر دیا اور پڑھائی کا بہانہ کیا۔ یہ بہانہ پھر میری زندگی بن گیا۔ میں تعلیم کے حصول میں کھو گئی، فزکس میں ایم ایس سی میں ٹاپ کیا۔ مجھے یونیورسٹی کی طرف سے اسکالر شپ مل گیا اور میں مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ چلی گئی۔ اتفاق کہ وہاں اسی شہر کی یونیورسٹی میں داخلہ ملا جہاں بلال کا قیام تھا لیکن مجھے اس کا کوئی علم نہ تھا۔ اس نے جاتے ہوئے کسی کو نہ بتایا کہ کہاں جارہا ہے اور نہ ہی اس کا پتا کسی کے پاس تھا۔ میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور یہاں بھی ٹاپ پر رہی- تعلیم میرے ٹوٹے دل کا مرہم تھی۔ مجھے یونیورسٹی میں جاب مل گئی، اب میں دوسروں کو پڑھانے لگی۔ ایک روز شہر کی مارکیٹ میں ایک شاپ پر میرا بلال سے سامنا ہو گیا۔ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی اور مجھے سامنے پاکر وہ حیرت زدہ تھا۔ مدت بعد ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ میری تو مسرت کی انتہانہ تھی۔ وہ خوش ہوا کہ نہیں لیکن اس کے لبوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے پوچھا کیسے ہو ؟ ٹھیک ہوں، اس نے جواب دیا۔ آج کا دن میرے لئے تو بہت خاص ہے۔ اس پر اس نے مزید دلکش مسکراہٹ سے جواب دیا اور میرے لئے بھی خاص ہے۔اچھا چلو میرے ساتھ ، وہ دیکھو سامنے ہی میراگھر ہے۔ یہ کہ کر ایک ہاتھ سے اس نے میر ا تھیلا پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ تھام کر چلنے لگا۔ مجھ میں انکار کا حوصلہ کہاں تھا، میں تو ایسے گم صم تھی جیسے کسی مفلس کو اچانک اس کا کھویا ہوا خزانہ مل جاتا ہے۔ اس طرح کچھ دن ہم ملتے رہے۔ چھٹی کے دن میں اس کے اپارٹمنٹ جاتی۔ اس کے بہت سے کام کرتی، کھانا بناتی ، وہ منع کرتارہ جاتا لیکن میں ایک نہ سُنتی۔ ایک روز میں نے اُسے بتایا کہ میں پاکستان جارہی ہوں کیونکہ امی ابو اور سب گھر والے میرے لئے اُداس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں پردیس میں اکیلے رہنے اور جاب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ان کو بتا دو کہ اب تم اکیلی نہیں ہو۔ تو کیا بتائوں کہ کس کے ساتھ ہوں؟ میرے ساتھ ہو اور کس کے ساتھ ؟ ان سے چھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر میں ہنس دی۔ اس کی باتوں سے میں جان چکی تھی کہ اب اس کے سوچ کے دھارے مڑ گئے ہیں میری طرف۔ وہ واقعی ایک بھٹکی ہوئی روح کی طرح ہے اور اب مجھ میں قرار ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ بات میرے لئے زندگی کی نوید تھی۔ بہر حال قصہ مختصر وہ مقام آگیا کہ اس نے خود مجھ سے شادی کی خواہش ظاہر کی اور میں نے فون کر کے تمام احوال اپنی والدہ کو بتایا۔ یہ بھی کہ بلال کی شرط ہے کہ ہم شادی لندن میں کریں اور میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے آپ کے گھر اتریں۔ امی ابو ، چچا چی ، سبھی نے کہا کہ جیسے وہ کہتا ہے ، مان لو۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کو ساتھ لے کر آ جائو۔ یوں ہم دونوں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ ہماری ایک شادی لندن میں ہوئی اور جب پاکستان پہنچے تو ہمارے والدین نے ارمان نکالے ، بلال کا ولیمہ دھوم دھام سے ہوا اور ہم نے دل سے ایک دوسرے کو قبول کر لیا۔ مجھے میری منزل مل گئی اور بلال کو سکون چاہئے تھا۔ میں نے اس کی قدر کی تو اس نے بھی میری محبت کی قدر کی ، میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ تبھی تو ہم کو خوشیاں مل گئیں لیکن جو محبت کرنے والوں کی قدر نہیں کرتے ، دھوکا اور فریب کرتے ہیں، وہ کبھی نہ کبھی وقت کی چکی میں پھنس جاتے ہیں۔ عارفہ کے شوہر اور اس کے والد کی ملوں سے دولت کی اتنی فراوانی تھی کہ حساب رکھنا مشکل تھا۔ دولت انسان کو خوشیاں دیتی ہے تو غم بھی اس کی جھولی میں ڈال دیتی ہے۔ ایک انسان کو خوش رہنے کے لئے کتنی دولت چاہئے ، ایک اچھاگھر ، زندگی کی کچھ لازمی سہولیات اور معقول حد تک بینک بیلنس لیکن کروڑوں روپے بھی کچھ لوگوں کا دامن مراد نہیں بھر سکتے کیونکہ حرص و ہوس کے تیر ان کی جھولی میں چھید کرتے رہتے ہیں۔ عارفہ کا دامن بھی ایسا ہی تھا۔ عزیر کو دولت نے انسان نہیں رہنے دیا تھا۔ وہ چند ماہ مشکل سے بیوی کا پابند رہ سکا اور جب نئی نویلی دلہن پرانی ہو گئی تو اس نے اُسی سوسائٹی کا رخ کر لیا کہ جہاں ہر روز ایک نئی دلہن ان جیسے رئیس زادوں کے انتظار میں بنی سنوری چوباروں پر منتظر  رہتی تھیں۔ چند روز تو عارفہ کو اپنے شوہر کی سرگرمیوں کا علم نہ ہو سکا لیکن پھر ایک دن جب جھومتا ہوا گھر آیا تو اس نے خود ہی ترنگ میں آکر کچھ ایسی کہانیاں بیان کر دیں کہ عارفہ کے ہوش اُڑ گئے۔ جب اُس نے شوہر کو    بے راہ روی سے روکنا چاہا، زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا۔ اس کے ساتھ ہی بلال کے نام کا طعنہ دینے کے بعد اس نے کہا کہ تو کون ہوتی ہے مجھ کو میری خوشیوں کے رستے پر چلنے سے روکنے والی۔ تمہارا ماضی کون سا بے داغ ہے ، ذرا اپنے گریبان میں جھانکو، میں نے تو تم سے صرف اس لئے شادی کی کہ تم حسن میں بے مثال تھیں اور تم نے بلال کو کیوں چھوڑا میری محبت میں یا میری دولت کی خاطر ؟ اگر تم اتنی حسین نہ ہو تیں تو میں تم سے شادی نہ کرتا۔ یہ اس بات کا صاف اعلان تھا کہ عارفہ متوسط طبقے کی عورت کو وہ جس طرح چاہے گار کھے گا اور وہ اُف نہ کرے گی لیکن احتجاج کرے گی تو طلاق مل جائے گی۔عارفہ ایسی عورتوں میں سے نہ تھی جو چُپ چاپ ہر ستم سہتی ہیں، پھر بھی چُپ رہتی ہیں۔ وہ کچھ اور مزاج کی تھی۔ وہ شوہر کی بے راہ روی پر سراپا احتجاج بن گئی۔ عزیر نے بھی اس سے طلاق دے کر جان چھڑالی۔ اب اُسے بلال کی یاد نے ستایا اور اس کی قدر نے دل میں سو چراغ جلا دیئے۔ میں امی کے گھر تھی، اتفاق سے جب وہ آئی اس کو میری شادی کی خبر نہ تھی۔ اس نے رو رو کر میرا کندھا بھگو دیا۔ اب اُسے میرے سمجھانے کی قدر آئی۔ عزیر نے اُسے تین کپڑوں میں نکالا تھا۔ اس کے دامن میں کچھ بھی نہ رہا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ میں کسی طرح اس کی خاطر بلال کو منا کر اس کے سامنے لے آئوں مگر میں نے اس کا پیغام بلال تک نہ پہنچایا۔ اس کو خبر ہی نہ ہونے دی کہ عارفہ کے ساتھ کیا ہوا ہے یا کہ وہ اب مطلقہ ہو گئی ہے۔ ہم نے دوماہ بعد واپس انگلینڈ جانا تھا مگر اصرار کر کے میں نے ہفتے میں ہی تیاری کرلی اور ہم واپس لندن آگئے تاکہ میرا گھر آبادر ہے اور عارفہ کی کوئی چال میری چاہت کی دُنیا میں پھر سے آگ نہ لگا دے، کیونکہ منزل بار بار آسانی سے نہیں ملتی۔

Latest Posts

Related POSTS