ہم دیہاتی لوگ تھے لیکن خدا نے بے پناہ حسن سے نوازا تھا، اسی وجہ سے امیر گھرانوں اور زمیندار خاندان سے ہم بہنوں کے رشتے آرہے تھے ، تاہم ابو غیروں میں رشتے دینے کے خلاف تھے۔ انہوں نے میری بڑی بہن کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کر دی اور میری شادی دور کے رشتہ داروں میں، ایک ایسے کنبے میں کی جو برادری سے نکالے ہوئے تھے۔ والدہ اس رشتے پر خوش نہ تھیں لیکن والد اور دادا نے یہ ناتا اس لئے جوڑا تھا کہ کسی طرح واپس ان کو برادری میں لایا جائے۔ میرے شوہر عمر میں مجھ سے تیس برس بڑے تھے مگر دادا کہتے تھے ہمارے رشتہ دینے سے یہ لوگ پھر سے برادری سے جڑ جائیں گے تو ہم مضبوط ہو جائیں گے۔ اس پر ہمارے کچھ بزرگ ناراض ہو گئے اور انہوں نے میرے والد کو بھی سات سال کے لئے برادری سے نکال دیا۔ اب ہم سات برس تک کسی کی شادی میں جا سکتے تھے اور نہ ہی کوئی ہمارے گھر آسکتا تھا۔ میرے شوہر کا نام عثمان تھا۔ انہوں نے مجھے وہ پیار دیا جس کا میں تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ ان کی محبت نے عمر کے تمام فاصلے مٹا دیئے تھے۔ وہ بھی دیہاتی تھے۔ شروع میں میرے شوہر کے دو بھائی ان کے بیوی بچے، میری نند ، ہم سب کچے گھروں میں رہتے تھے۔ ہمارا گھر ایک طرح سے جنگل اور ویرانے میں تھا کیونکہ والد کی یہ تھوڑی سی زرعی اراضی تھی جس پر سارے خاندان کا گزارہ تھا اور ارد گرد دیگر کوئی مکانات وہاں نہ تھے۔ میں کسی اچھے گھر میں رہنا چاہتی تھی۔ ایک روز اپنے شوہر سے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھے ایک بہت بڑا، پختہ مکان بنوا کر دے دیا۔ اب میں بہت خوش تھی میری زندگی میں کوئی پریشانی یا الجھن نہیں تھی۔ ساری خوشیاں تھیں مگر ایک خلش بھی تھی کہ شادی کے دس سال بعد بھی اولاد کی نعمت سے محروم، میری نند جب تک اپنے گھر رہی ہماری زندگی میں کوئی الجھن پیدا نہ ہوئی۔ اچانک رضیہ اجڑ کر ہمارے گھر آگئی۔ اس کے شوہر نے رضیہ پر یہ الزام لگا کر طلاق دے دی تھی کہ اس نے اپنے خاوند کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ہے کیونکہ جونہی وہ کھانا کھانے بیٹھا کسی نے در بجایا۔ وہ دروازے پر چلا گیا۔ صحن میں کتا بیٹھا تھا شاید وہ بھوکا تھا اس نے چارپائی پر رکھے سالن کے کٹورے میں منہ مار کر بوٹی اٹھائی اور ہڑپ کر گیا۔ آدمی سے بات کر کے جب رضیہ کا خاوند واپس آیا اور چار پائی پر بیٹھنے لگا تو دفعتاً اس کی نظر صحن میں گرے ہوئے کتے پر پڑ گئی جس کی حالت غیر تھی اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ آنافانا کتے نے تڑپ کر جان دے دی۔ اس نے کھانے کو بغور دیکھا۔ کٹورے میں مرغے کی بڑی سی بوٹی غائب تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ کتا مرغ کی بوٹی کھا کر لقمہ اجل بنا ہے۔ بس اس نے تمام سالن گرایا اور بیوی کو چٹیا سے پکڑ لیا کہ یہ تیری کارستانی ہے، تو مجھ سے جان چھڑانا چاہتی تھی تبھی کھانے میں زہر ملادیا۔ خدا جانے اس بات میں صداقت تھی کہ محض بہتان تھا، تاہم یہ بات صحیح تھی کہ رضیہ ایک منفی سوچ رکھنے والی خاتون تھی۔ وہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی تھی کیونکہ اس کو زندگی میں کوئی خوشی نہیں ملی تھی۔ میرے شوہر مجھے بہت چاہتے تھے۔ وہ دولت مند بھی سب بہن بھائیوں سے زیادہ تھے۔ اس بات پر بھی رضیہ ہمیشہ مجھ سے حسد ر کھتی تھی۔ بلکہ کھلے من وہ مجھے بدعائیں دیتی تھی۔ میں اس کو ایک محروم عورت جان کر در گزر کر جاتی تھی، لیکن نہیں جانتی تھی کہ میرے دیور بھی در پردہ میرے خاوند کی دولت سے حسد کرتے تھے اور ان کی دولت پر نظر رکھتے تھے عثمان انتہائی محبت کرنے والے اور کھلے دل کے تھے۔ انہوں نے مجھے زندگی کی ہر خوشی دی تھی اور اپنے کنبے کے تیور بھی پہچان لئے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی جائیداد میں سے آدھی اپنی زندگی میں ہی میرے نام کر دی تھی اور اس کے کاغذات بھی میرے حوالے کر دیئے تھے۔ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ مجھ کو بھی ایک دن ممتا کی خوشی نصیب ہو گئی اور شادی کے پندرہ سال بعد خدا نے بیٹی دی۔ میں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھنے لگی لیکن اللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب میری بچی دو سال کی ہوئی تو بیمار رہنے لگی۔ بہت علاج کروایا مگر مرض کا پتا نہ چلا۔ بالآخر وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اب میری نند اور دیوروں کی بن آئی۔ انہوں نے میرے شوہر پر دوسری شادی کے لئے دبائو ڈالا لیکن وہ دوسری شادی کے لئے راضی نہ ہوئے کیونکہ ان کو مجھ سے بے حد پیار تھا۔ میں بھی قدرت کی نعمت سے ابھی نا امید نہیں تھی۔ جب اس نے مجھے پندرہ برس بعد ممتا کی خوشی سے آشنا کیا تھا تو دوبارہ بھی یہ خوشی میری جھولی میں ڈال سکتا ہے۔ امید اور آس میں زندگی کے دن گزرنے لگے اچانک ہی میرا ستارہ گردش میں آگیا۔ عثمان بیمار ہو گئے۔ وہ ٹھیک ہونے میں نہیں آتے تھے۔ ہم ان کو بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لے گئے۔ وقت گزرتا رہا اور وہ گھلتے گئے۔ آخر ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا۔ ان کی حالت روز بہ روز خراب ہوتی جاتی تھی۔ میں بھی ان کے ساتھ گھل رہی تھی۔ مجھے حقیقی معنوں میں ان سے محبت تھی۔ جب وہ بستر مرگ پر پڑ گئے تو انہوں نے میرے سامنے اپنے بھائیوں کو بلا کر کہا۔ یہ مجھ کو بہت پیاری ہے۔ میرے بعد اس کا خیال رکھنا۔ یہ میری ہی نہیں تمہاری بھی عزت ہے۔ میرے مرنے کے بعد اس کو کوئی دکھ نہ دینا ورنہ میں قیامت کے دن تمہارا دامن گیر رہوں گا۔ اسی دن رات کو میرے شریک زندگی نے اپنی بہت بھائیوں کی موجودگی میں دم توڑ دیا۔ ان کے انتقال والے دن ہی مجھے پتا چلا کہ ان کو کینسر تھا مگر میرے دیوروں اور نند نے یہ بات مجھ سے اور عثمان سے چھپائی تھی کہ کہیں ان کا بھائی اپنی باقی جائیداد بھی میرے نام نہ کر دے۔
عثمان کے بعد ایسا لگا جیسے میں اس بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ میں بے اولاد اور غریب والدین کی بیٹی تھی، اس لئے میری اہمیت اپنے سسرال میں کم ہوئی گئی۔ میرے دیور اور ان کی بیویوں، بچوں کے عمل سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ یہ گھر اب ان کی ملکیت ہے۔ میں اپنے ہی گھر میں مہمان جیسی لگنے لگی تھی۔ ان دنوں میری والدہ علاج کے سلسلے میں میرے گھر آئیں، ان کا آنا سبھی کو ناگوار گزرا۔ کسی نے ان سے سیدھے منہ بات نہ کی۔ میرے دیور کی بڑی بیٹی نے بہانے سے ان کی بے عزتی کر کے ان کو گھر سے ہی نکال دیا اور میں منہ دیکھتی رہ گئی۔ کس برتے پر کچھ کہتی۔ میرا خاوند ، جو میری طاقت تھا، منوں مٹی تلے سو رہا تھا۔ میری عدت پوری ہو گئی تو والدہ بہت بیمار پڑ گئیں۔ میں بھائی کے ساتھ ماں کو دیکھنے گائوں چلی گئی۔ ماں بے حد نڈھال نظر آتی تھیں۔ ایک تو ان کو میرے بیوہ ہو جانے کا صدمہ، پھر گائوں میں علاج بھی صحیح طرح نہ ہو پارہا تھا۔ پس، کچھ ہی دنوں میں وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جن دنوں میں اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے میکے میں تھی، میرے دیوروں اور ان کی بیویوں نے میرے گھر پر قبضہ جمالیا۔ وہ شاید اسی دن کا انتظار کر رہے تھے۔ سوچ بھی نہیں سکتی تھی، جو عثمان کے انتقال پر دھاڑیں مار کر رورہے تھے ، وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ والد صاحب کو برادری ایک بار سات سال کے لئے نکال چکی تھی۔ وہ ڈرتے تھے ، پھر بھی میرے حق کے لئے برادری کے پاس گئے۔ کچھ دن صلاح و مشورے کرتے رہے پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ میراگھر مجھے واپس کر دیا جائے لیکن میرے دیور جو حرص و ہوس میں ڈوبے تھے ، انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا بلکہ شرط یہ رکھی کہ اگر میں ان میں سے کسی سے نکاح کر لوں تو پھر حق دار ہو سکتی ہوں۔ یہ مجھے منظور نہ تھا، میکے چلی گئی۔ ان تمام کوششوں سے مایوس ہو کر جو برادری والوں نے کیں، میں نے قانون کا سہارا لینے کی ٹھان لی۔ میرا آن پڑھ بھائی کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے لگا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ قانون کے ذریعے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے عمر چاہیے تھی۔ روپیہ بھی بے انتہا درکار تھا، جو ہمارے پاس نہیں تھا۔ پانچ برس ہم ایسے ہی کچہریوں میں پھرتے رہے اور اس دوران والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ بھائی بھی تھک ہار گیا۔ اس نے کہا۔ میں کھیتوں میں ہل چلائوں یا کورٹ کچہری جائوں؟ وکیلوں کی فیسیں کب تک بھروں۔ ہر بار اس کو مقدمے کے سلسلے میں شہر جانا پڑتا تھا۔ پیاری بہن تم صبر کرو۔ مجھے ہل چلانے دو تاکہ ہم دو وقت کی روٹی کے لئے کسی کے در پر بھیک مانگنے والے نہ بن جائیں۔ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ مشقت لاحاصل ہے تو پھر تھک ہار کر ہم نے کیس کی پیروی چھوڑ دی۔ اب دیور اور ان کی بیوی بچے میرے نام کی گئی دولت پر عیش کی زندگی گزار رہے تھے اور میں اسی جھونپڑی میں آگئی جہاں سے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انسان جہاں ایک مدت رہتا ہے ، اس جگہ سے بھی پیار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ گھر اور وہ چیزیں میری اپنی تھیں، لیکن جب میں وہاں سے تین کپڑوں میں نکلی تو مجھے پتا چلا کہ اگر خاوند کا سایہ سر پر نہیں تو پھر کچھ بھی اپنا نہیں۔ آدم و حوا کار شتہ جتنا مضبوط اور پرانا ہے، اتنا ہی عارضی اور نا پائیدار بھی ہے۔ کہیں تقدیر جدائی ڈال دیتی ہے اور کہیں موت اپنا وار کر جاتی ہے۔ میں نے صبر کر لیا اور اپنے تمام فیصلے خدا پر چھوڑ دیئے۔ لوگ میری داستان سن کر کہتے ہیں، صبر کرو۔ خدا ضرور انصاف کرے گا کہ اس کی لاٹھی بے آواز ہے مگر بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے قانون میں اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ، صبر شاید ایسی منزل ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔