ایک غریب دھوبی کا گدھا برے حالوں زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ اس کی پیٹھ زخمی ، پیٹ خالی اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ بے چارہ بے آب و گیاہ پہاڑیوں کے درمیان پھر تا رہتا تھا۔ کہیں سبزہ آگیا تو منہ مار لیا ورنہ اللہ اللہ ۔ ان پہاڑیوں کے قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا۔ جس میں ایک خوفناک شیر رہتا تھا۔ ایک دفعہ اس شیر کا ایک جنگلی ہاتھی سے مقابلہ ہو گیا۔ اس مقابلے میں شیر سخت زخمی ہو گیا۔ چند دن میں وہ لوٹ پوٹ کر بچ گیا۔ لیکن شکار کرنے کے قابل نہ رہا۔ اپنی کچھار میں چپ چاپ پڑا رہتا۔
جب کئی دن اسی طرح گزر گئے تو جنگل کے دوسرے چھوٹے درندوں میں سخت تشویش پیدا ہوئی۔ کیونکہ وہ شیر کے پس خوردہ پر ہی گزر کرتے تھے۔ اب ان کو یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ اگر شیر کا یہی حال رہا تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ ایک دن شیر نے ایک لومڑی کو بلایا اور اس سے کہا کہ کسی گدھے یا گائے کو باتوں میں لگا کر میرے پاس لاتا کہ میں آسانی سے اس کا شکار کرلوں۔ جب اس کے گوشت سے میرے جسم میں کچھ توانائی آجائے گی تو پھر اچھا شکار کروں گا۔ تھوڑا سا میں کھاؤں گا اور باقی تم اور تمہارے بھائی بند کھائیں گے۔ لومڑی نے کہا بہت بہتر میں اپنی مکاری کے جال میں کسی نہ کسی کو پھانس ہی لوں گی۔ یہ کہہ کر لومڑی کسی شکار کی تلاش میں روانہ ہوئی۔ راستے میں اس کو وہ خستہ حال گدھا نظر آیا۔ اس نے بڑے ادب سے گدھے کو سلام کیا اور کہا کہ صاحب آپ ان چٹیل پہاڑوں کے درمیان کیسے گزر اوقات کرتے ہیں۔ گر ہے نے کہا کہ آسودہ حالی اور عسرت سب خدا کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں عسرت لکھ رکھی ہے اور میں اسی پر راضی ہوں۔ چرندوں، پرندوں، کیڑوں مکوڑوں غرض کا ئنات کی ہر چیز کا رازق اللہ ہی ہے۔ وہ مجھے جتنا رزق دیتا ہے اور جیسے بھی دیتا ہے میں اس پر شکوہ کیوں کروں۔ لومڑی نے کہا: حضرت لوگ توکل کا صحیح مفہوم نہیں سمجھتے اور گمراہ ہو جاتے ہیں۔ توکل کوشش کرنے میں ہر گز مانع نہیں ہے اور پھر یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات بھی نہیں۔ پیغمبر خدا نے اگر چہ فرمایا ہے کہ قناعت ایک خزانہ ہے مگر یہ خزانہ ہر ایک کو نہیں ملتا۔ آپ کو روزی حاصل کرنے کے لیے کوششن کرنی چاہیے۔ گدھے نے کہا میں نے آج تک نہیں سنا کہ کوئی شخص قناعت سے مر گیا ہو اور کوئی حریص آدمی محض اپنی کوشش سے بادشاہ بن گیا ہو۔ اگر کوئی ذی نفس تعجیل میں مبتلا نہ ہو تو رزق خود بخود اس کے پاس پہنچ جائے گا۔ لومڑی نے کہا کہ یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ کوشش کے بغیر کامیابی محال ہے۔
غرض لومڑی اور گدھے میں دیر تک اسی طرح بحث و تکرار ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دونوں تھک گئے۔ آخر لومڑی نے آخری پانسہ پھینکا اور کہا کہ حضرت اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑی۔ یہاں قریب ہی ایک وسیع سبزہ زار ہے جس میں ہر طرف چشمے اور ندیاں بہہ رہی ہیں اور کمر کمر تک گھاس اُگی ہوئی ہے۔ یہ سبزہ زار تمام جانوروں کے لیے بہشت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر آپ اس بیابان میں ایڑیاں رگڑتے رہیں تو اس کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ بیچارہ بھوکا پیاسا گدھا یہ دار نہ سہہ سکا اور لومڑی کے ساتھ چل پڑا۔ ابھی وہ شیر کی کچھاڑ سے کچھ دور تھے کہ شیر نے گدھے کو دیکھ لیا۔ گو وہ چلنے پھرنے سے عاجز تھا لیکن بھوک سے جان لبوں پر آئی ہوئی تھی صبر نہ کر سکا اور بلندی سے چھلانگ لگا دی۔ گدھے نے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو الٹے پاؤں بھاگا اور ہانپتا کانپتا اپنے بیابان میں پہنچ گیا۔ لومڑی نے شیر سے کہا کہ بادشاہ سلامت! آپ تھوڑی دیر صبر کرتے تو یہ گدھا کبھی بیچ کر نہ جاسکتا تھا۔ شیر نے کہا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھوک نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا۔ اے عقلمندوں کی سردار! اب پھر کوئی ترکیب کر کہ یہ گدھا پھر میرے پاس آجائے۔ لومڑی ۔ نے کہا جہاں پناہ! میں تو اپنی کر گزروں گی لیکن اب کی بار آپ جلد بازی نہ کیجئے گا۔ شیر نے کہا: میری تو بہ جب تک گدھا میری زد میں نہ آجائے میں کان تک نہ ہلاؤں گا۔
اب لومڑی دوڑتی ہوئی پھر گدھے کے پاس پہنچی۔ گدھے نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ اے حرافہ ! میرے ساتھ تجھے کیا دشمنی تھی جو تو مجھے شیر کا لقمہ بنانے لے گئی۔ لومڑی نے مسمسی صورت بنا کر کہا کہ واہ صاحب واہ ! آپ کو خوب دھوکا ہوا۔ بات یہ ہے کہ یہ محض آپ کی نظر کا واہمہ تھا۔ اس سبزہ زار میں جو بھی پہلی دفعہ جاتا ہے اس کو خیالی شیر نظر آتا ہے اور وہ خوفزدہ ہو کر اس میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتا۔ اگر یہ جادو کی ڈھٹ بندی نہ ہوتی تو یہ سبزہ زار کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔ حقیقت میں وہاں کوئی شیر و یر نہیں ہے۔ گدھے نے کہا: اری مکار! زیادہ بکواس نہ کر اور یہاں سے دفع ہو جا۔ تیری صورت پر جو لعنت برس رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تو جھوٹی ہے اور میرے خون کی پیاسی ہے۔ ایک دفعہ موت کے کنوئیں سے نکل کر میں دوبارہ اس میں نہ کو دوں گا۔ لومڑی نے کہا کہ آپ نا حق مجھ سے بد گمان ہو گئے ہیں۔ میرے دل میں آپ کے خلاف مطلق کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ آخر آپ نے میرا کیا بگاڑا ہے۔ دوستوں سے کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہیے۔ یقین کرو کہ وہ صرف جادو کی ڈھٹ بندی تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو اس جنگل میں دوسرے جانور کیسے سلامت رہ سکتے تھے۔ غرض لومڑی نے کچھ ایسی چکنی چپڑی باتیں کیں کہ نادان گدھا پھر اس کے فریب میں آگیا اور اس کے ساتھ پھر اپنے مقتل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب وہ شیر کے قریب پہنچا تو اس نے ایک ہی پنجہ مار کر بیچارے کو ڈھیر کر دیا۔ اتنی سی محنت سے معذور شیر کو پیاس لگ گئی اور وہ ایک چشمے پر پانی پینے چلا گیا۔ اس کی غیر حاضری میں لومڑی گدھے کا دل اور جگر مزے سے چٹ کر گئی۔ شیر واپس آکر اپنے شکار کے کھانے میں مشغول ہوا تو گدھے کے جسم سے دل اور جگر غائب پایا۔ لومڑی سے پوچھا کہ اس کا دل اور جگر کدھر گیا؟ لومڑی نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ جہاں پناہ اس کا دل اور جگر ہو تا تو دوبارہ آپ کا شکار بننے کے لیے یہاں کیسے آتا؟