Friday, March 21, 2025

Laparvahi Se Toba

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میری عمر نو سال تھی اور ہم شہر سے ملحقہ ایک کالونی میں رہتے تھے۔ نانا ابو اور نانی کا گھر بھی ہمارے مکان کے قریب ہی تھا تبھی مجھ کو وہاں جانا اچھا لگتا تھا کیونکہ ماموں کی بیٹیاں میری ہم عمر تھیں۔ میں روز ہی وہاں جاتی اور ان کے ساتھ کھیلتی یوں میرا زیادہ تر وقت نانی کے گھر ہی گزرتا تھا۔ امی جان تعلیم یافتہ تھیں، وہ سروس کرنا چاہتی تھیں لیکن والد ان کو منع کرتے تھے۔ کہتے، نعیمہ بیگم ! میں اتنا کما لیتا ہوں کہ گھر کا گزارہ بخوبی ہو رہا ہے۔ تم گھر پر ہی رہو، بچوں کی دیکھ بھال کرو۔ تمہارے گھر پر رہنے سے میں اور بچے بہت سکون سے ہیں۔ ملازمت کر کے کیوں اس سکون کو تہ و بالا کرتی ہو ۔ بچے بڑے ہو گئے ہیں، یہ خود کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ پاس ہی میری ماں کا گھر ہے ، اسکول سے آکر وہاں چلے جاتے ہیں، میری والدہ ان کا خیال رکھتی ہیں۔ ایسے میں اگر میں ملازمت کر کے کچھ روپیہ جوڑ لوں تو یہ ہمارے بچوں ہی کے کام آئے گا۔ سوچو میری تعلیم کا کیا فائدہ اگر میں ملازمت کرکے گھر کو فائدہ نہ پہنچائوں۔ ٹھیک ہے تمہاری بات. والد صاحب کا جواب ہوتا لیکن یہ تو سوچو کہ زیادہ فائدہ تمہارے کمائے چند روپوں سے ہے یا گھر میں رہ کر اپنے بچوں کو سکھ پہنچانے میں ہے ؟ روپیہ پھرکما لینا، ابھی ہمارے بچے اتنے بڑے نہیں ہوئے، تمہاری مسلسل اور روزانہ گھر میں غیر موجودگی سے یہ غیر محفوظ اور تتر بتر ہو جائیں گے۔ نہیں ہو گا ایسا کچھ ۔ ساری دنیا کی عورتیں نوکریاں کرتی ہیں اور گھر بار کو بھی دیکھتی ہیں۔ میں سروس کروں گی تو ایسا کیا برا ہو جائے گا۔ آپ کے ذہن میں جانے کیوں اس قدر منفی سوچیں آتی ہیں۔ غرض بہت دنوں کے اصرار کے بعد امی نے ابو سے ملازمت کرنے کی اجازت حاصل کرلی اور خوش قسمتی سے ان کو بہت جلد ملازمت مل بھی گئی۔ وہ اب صبح صادق کو اٹھ جاتیں، نماز پڑھنے کے بعد ناشتہ اور ساتھ ہی دو پہر کا کھانا بھی تیار کر لیتیں۔ ہم کو ناشتہ کروا کر اسکول روانہ کرتیں اس کے بعد خود تیار ہو تیں، والد صاحب بھی دفتر کے لئے تیار ہو جاتے ، یوں دونوں گھر سے ساتھ نگلتے۔ والد صاحب اپنے آفس جاتے ہوئے امی کو ان کے آفس ڈراپ کرتے جاتے۔ ان دنوں میں پانچویں میں، مجھ سے چھوٹی بہن چوتھی ہے جبکہ بھائی دوسری جماعت کا طالب تھا۔ والدہ کے بقول ہم بڑے ہو گئے تھے لیکن ہم ابھی اتنے بڑے بھی نہ ہوئے تھے کہ خود کو بخوبی سنبھال سکتے۔ میں بھی ایک لاابالی لڑکی تھی۔ مجھ کو تو اسکول سے آتے ہی ماموں کی بچیوں کے ساتھ کھیلنے کی پڑی رہتی تھی۔ خوش قسمتی سے ہم تینوں بہن بھائی ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ اسکول کا راستہ پیدل طے کرتے۔ چھٹی کے بعد واپس بھی پیدل گھر آتے۔ پڑوس سے گھر کی چابی لے کر تالا کھولتے۔ امی جو کھانا ہمارے لئے کچن میں رکھ جاتیں، میں پلیٹوں میں ڈالتی اور اپنی بہن اور بھائی کو کھلاتی۔ جھوٹے برتن سمیٹ کر باورچی خانے میں رکھتی۔ یونیفارم بدل کر گھر کو تالا لگاتی، چابی پڑوسن کو دے کر میں نویدہ اور شان کو لے کر نانی اماں کے گھر چلی جاتی ۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھا۔ ہم صرف چھٹی کے دن اپنے گھر میں رہتے کیونکہ اس روز ہمارے والدین کی بھی آفس سے چھٹی ہوتی تھی۔ امی سروس مل جانے سے خوش تھیں اور ہم یوں خوش تھے کہ آزادی ملی ہوئی تھی اور نانی اماں کے گھر جانے اور ان کے وہاں زیادہ وقت کھیل کود میں گزارنے کو ملتا تھا۔ جلد ہی نانی نے احساس کیا کہ اس طرح بچے تمام وقت کھیل میں مگن رہتے ہیں، پڑھائی ، لکھائی میں دھیان نہیں دے پاتے۔ انہوں نے امی سے کہا کہ شام کے چھ بجے بچوں کو گھر لے جانے کو آتی ہو ، ان کا تو سارا وقت کھیل کود میں گزرتا ہے۔ یہ نہ تو سپارہ پڑھ پاتے ہیں اور نہ اسکول کا کام کرنے کو ان کے پاس وقت بچتا ہے۔ ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر اکیڈمی ہے جہاں درس کلام پاک بھی دیتے ہیں اور اسکول کا کام بھی بچوں کو کراتے ہیں ۔ کیوں نہ ان کو میں وہاں داخل کروا دوں ؟ امی بولیں ۔ شان تو ابھی چھوٹا ہے اور نویدہ اس کو سنبھالتی ہے، وہ اکیڈمی گئی تو شان آپ کو تنگ کرے گا البتہ فریدہ کو آپ وہاں داخل کرا سکتی ہیں۔ یوں نانی اماں نے مجھ کو بچوں کی اکیڈمی میں داخل کرا دیا۔ امی، ابو دفتر سے تھکے آتے گھر آکر کچھ دیر آرام کرتے اور شام کو میری ماں، نانی کے گھر سے ہم کو لے جاتیں۔ یوں ہم صبح کا تھوڑا سا وقت اور شام کے چند گھنٹے ہی ماں، باپ کے پاس گزارتے تھے۔ جب میں اکیڈمی سے درس لے کر لوٹتی تو گلی کی بچیوں کے ساتھ کھیل میں مشغول ہو جاتی کیونکہ جانتی تھی امی دیر سے لینے آئیں گی۔ جس گلی میں ہم کھیلتے تھے ، وہاں ماموں کے دوست اصغر کی دکان تھی۔ بچوں کے کھانے پینے کی چیزیں مثلاً ٹافیاں، بسکٹ، میٹھی گولیاں، جگ وغیرہ یہاں ملتی تھیں۔ ماموں نے اصغر سے کہہ رکھا تھا کہ میری بھانجی فریدہ اگر بسکٹ، گجک وغیرہ لینے آئے تو دے دیا کرو اور حساب لکھ لیا کرو، میں پیسے ادا کر دیا کروں گا۔ اصغر کے سامنے والی گلی میں ہی ہم کھیلتے تھے اور وہ ہمارے خیال بھی رکھتے تھے۔ ہم کو دور جانے سے منع کرتے تھے۔ جہاں ہم کھیلتے ، اس گلی کے اختتام پر آگے ایک میدان تھا جس میں جھاڑیاں تھیں۔ اس جگہ کے متعلق بہت سی باتیں مشہور تھیں۔ اصغر ماموں بھی ہم کو اس طرف جانے نہیں دیتے تھے۔ ہم ساری لڑکیاں چھوٹی عمر کی تھیں لہذا از خود بھی ہم ادھر جانے سے ڈرتی تھیں۔ ایک روز جب سب لڑکیاں کھیل کر اپنے گھروں کو چلی گئیں تو میں بھی جانے کو ہوئی۔ شام کا وقت تھا، میں اکیلی رہ گئی تھی۔ اچانک میری نظر جھاڑیوں کی طرف اٹھی جہاں مجھے ایک بہت بھیانک شکل والا آدمی نظر آیا۔ اس نے میری طرف ایسے اشارہ کیا جیسے اپنی طرف بلا رہا ہو۔ میں ڈر گئی ، فورا بھاگ کر اصغر ماموں کی دکان کے تھلے پر چڑھ گئی۔ وہ بولے۔ کیا ہے گڑیا… کیا بسکٹ لینے ہیں ؟ میں نے نفی میں گردن ہلائی کیونکہ گھبرائی تھی۔ میں نے اس طرف اشارہ کیا تو وہ آدمی وہاں سے فوراً چلا گیا۔ اصغر ماموں اس کو نہ دیکھ سکے لیکن مجھ کو سہما ہوا دیکھ کر پوچھا۔ کیا ڈر گئی ہو ؟ میں نے اثبات میں گردن ہلا دی کیونکہ مجھ سے بولا نہ جا رہا تھا تبھی انہوں نے کہا کہ آئو تم کو گھر چھوڑ دوں۔ وہ نانی کے گھر تک میرے ساتھ آئے اور دروازے پر چھوڑ کر چلے گئے۔ گھر آکر میں نے اس بات کا ذکر نانی سے کیا کہ میں نے کچھ بھوت جیسا آدمی دیکھا تھا۔ وہ بولیں۔ بھوت سے مت ڈرا کر ، بھوت آبادی میں نہیں رہتے البتہ ویرانے میں مت جانا، تبھی تو منع کرتی ہوں کہ دیر تک لڑکیوں کے ساتھ مت کھیلا کرو اور جلدی سے گھر کو آجایا کرو۔ نانی تو اس بات کو بھول بھال گئیں لیکن میں نہ بھلا سکی۔ اس آدمی کی شکل سے جو خوف محسوس کیا کرتی، اس خوف کو میں نہ بھلا سکی تھی۔ یہ ڈر تو میرے دل میں بیٹھ گیا تھا۔ ہماری اکیڈمی یا اس کو مدرسہ کہہ لیں، اس کا وقت ظہر سے عصر تک تھا۔ اس روز اسکول سے آکر میرا وہاں جانے کا موڈ نہ تھا مگر نانی نے زبردستی بھیج دیا کہ یہاں گلی میں کھیلنے کے علاوہ کیا کروگی، کیوں سپارے کے سبق کا ناغہ کرتی ہو، چلو پڑھنے جائو۔ میں گئی تو مگر میرا چہرہ اترا ہوا تھا۔ استانی بھی بولیں۔ کیا ہوا ہے بھئی تم کو ؟ طبیعت خراب ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اچھا! تو آج تم جلدی گھر چلی جائو لیکن سامنے والے دروازے سے نہیں ورنہ ہیڈ ٹیچر ناراض ہوں گی۔ میں تم کو پچھلے دروازے تک پہنچا دیتی ہوں، تم ادھر سے چلی جائو۔ انہوں نے از راہ ہمدردی مجھے جلدی چھٹی دے دی تھی ورنہ جلدی چھٹی دینے کی اجازت نہ تھی۔ میں جب پچھلے دروازے سے نکلی، راستہ کچھ ویران سا تھا۔ مجھے ڈر بھی محسوس ہوا کیونکہ ہم ہمیشہ بڑے مرکزی دروازے سے باہر آتے جاتے تھے جو مین سٹرک کے سامنے کھلتا تھا اور یہ عقبی دروازہ پچھلی گلی میں کھلتا تھا۔ پہلی بار اس طرف سے جا رہی تھی۔ گلی بھی سنسان تھی۔ یہ دوپہر تین بجے کا وقت تھا۔ ابھی عمارت سے گھوم کر مین سڑک تک نہ پہنچی تھی کہ کسی نے پیچھے سے پکڑ لیا۔ مڑ کر دیکھا۔ یہ وہی شخص تھا جو دو دن پہلے مجھے جھاڑیوں کی طرف بلا رہا تھا۔ اس کی بھیانک صورت دیکھتے ہی میری چیخ نکل گئی۔ اس نے ایک ہاتھ سے مجھے پکڑا کیونکہ دوسرے ہاتھ میں چاقو تھا۔ کھلا چا تو دیکھ کر میری آواز گلے میں پھنس گئی پھر تو مارے خوف کے میری گھگی بندھ گئی۔ اس کے ہاتھ میں چاقو نہ بھی ہوتا تو اس کا بد صورت چہرہ دیکھ کر ہی میری زبان گنگ ہو جانی تھی۔ وہ چاقو میری کمر پر رکھ کر مجھے آگے کی طرف دھکیل رہا تھا۔ بار بار کہتا۔ خبر دار ! آواز نکالی تو چاقو کمر میں اتار دوں گا۔ وہ اسی طرح مجھے سڑک تک لا یا جہاں ایک ویگین کھڑی تھی۔ اس میں دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک تو ڈرائیور تھا، دوسرا موٹا سا آدمی اس کے ساتھ براجمان تھا۔ ہم کو دیکھتے ہی وہ دین سے اتر آیا اور آتے ہی اس بد شکل آدمی کو اشارہ کیا تبھی انہوں نے اٹھا کر مجھے سوزوکی وین میں ڈال دیا۔ موٹے آدمی نے کہا۔ لالے ! کیا اسے باندھ دیں؟ بد شکل بولا۔ نہیں ! انجکشن لگا دیتے ہیں۔ میں دیکھ رہی تھی کہ پانچ اور چھ برس کی دو بچیاں اور بھی تھیں جو بے ہوش پڑی تھیں۔ سمجھ گئی کہ انہوں نے ان کو بھی انجکشن لگا کر بے ہوش کیا ہے۔ اس کے بعد بد شکل نے انجکشن نکالا اور کوئی دوا بھر نے لگا لیکن شیشی میں تھوڑی سی دوا بچی ہوئی تھی۔ گاڑی تیز چل رہی تھی، اچانک اسپیڈ بریکر آیا، گاڑی زور سے اچھلی اور اس کے ہاتھ میں پکڑا انجکشن گر کر ٹوٹ گیا، دوا بھی گرگئی اور ضائع ہو گئی۔ اب لالے کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے ایک بڑے رومال سے میرا منہ باندھ دیا کیونکہ میں روئے جارہی تھی۔ اس نے میری آواز بند کر دی۔ بولا۔ اگر روئے گی تو چاقو سے ذبح کر ڈالوں گا۔ اس نے زور سے مجھ کو دوچار تھپڑ بھی رسید کئے اور وین میں ایک بندھی ہوئی بکری کی طرح بے بس ڈال دیا۔ گاڑی اب پوری رفتار سے چل رہی تھی۔ لالہ اونگھنے لگا۔ موٹا آدمی آگے جا بیٹھا تھا۔ لالے کی آنکھیں سرخ تھیں جیسے کہ وہ بہت گھنٹوں سے سویا نہ ہو۔ چلتے چلتے اچانک گاڑی کی رفتار آہستہ ہو گئی شاید آگے کوئی چیک کرنے والے ان کو دکھائی دیئے تھے یا کوئی پولیس چو کی تھی۔ بہر حال لمحے بھر کو ڈرائیور نے گاڑی روکی ۔ میں وین میں اس جگہ تھی جہاں سے چھلانگ لگاتی تو نیچے گر جاتی جبکہ میرے پیچھے دولڑکیاں بے ہوش پڑی تھیں اور کچھ سامان بھی رکھا ہوا تھا۔ میں نے سر اٹھا کے دیکھا۔ ہلکا سا اندھیرا تھا۔ سوزو کی ویگن رکی ہوئی تھی۔ میرا منہ انہوں نے کس کر باندھا تھا لیکن ہاتھ ، پیر آزاد تھے۔ میں نے ویگن کا پردہ ہٹایا اور بغیر سوچے سمجھے چھلانگ لگادی۔ میرے چھلانگ لگاتے ہی ویگن چل پڑی تھی۔ لالے کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس کو معلوم ہو گیا کہ میں نے چھلانگ لگائی ہے۔ میں مٹی والی زمین پر گری تھی۔ ایک لمحہ ضائع کیا بغیر پوری قوت سے اٹھ کر سامنے کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ سچ ہے جب انسان کی جان پر بنی ہو تو پھر اس کو کچھ نہیں سوجھتا اور اللہ نے بچانا ہو تو اسکو وہ اتنی طاقت بھی عطا کر دیتا ہے کہ اس کے بچنے کے اسباب پیدا ہو جائیں۔ اگرچہ مجھے کافی چوٹ آئی تھی لیکن زندگی بچانے اور آزادی کے احساس نے ہر چیز پر غالب آ گیا تھا۔ میرے گھٹنے درد کر رہے تھے ، پائوں بھی مڑ جانے سے لگتا تھا کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مگر ہمت نہ ہاری۔ بھاگنے کے سوا کچھ سمجھائی نہ دے رہا تھا۔ ان کی آواز میں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ انہوں نے گاڑی روک دی تھی۔ موٹا کہہ رہا تھا۔ لالہ ! پکڑو یہ بھاگنے نہ پائے۔ وہ پکار رہے تھے۔ رک جائو لڑکی ، ورنہ گولی مار دیں گے۔ میں نے سوچا گولی مارتے ہیں تو مار دیں۔ جب تک بھاگ سکتی ہوں، بھاگتی رہوں گی ۔ شاید ہی پھر کبھی میں اتنی تیز دوڑ سکوں کہ جس قدر تیز میں اس دن دوڑی تھی۔ آج سوچتی ہوں تو عجیب لگتا ہے کہ کیا میں اتنا تیز بھی دوڑ سکتی ہوں ؟ ہرگز نہیں، یہ موت کا خوف ہی تھا جو مجھ کو دوڑا رہا تھا۔ دراصل سامنے صاف میدان ہونے کی وجہ سے میں خود کو ان کی نظروں سے اوجھل بھی نہ کر سکتی تھی۔ ایک ہی بار مڑ کر دیکھا تھا۔ لالہ مجھ کو اپنے پیچھے آتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ علاقہ ویران اور کھلا تھا۔ کچھ پتا نہ تھا کہ میں کس جگہ جا رہی ہوں۔ گولی چلنے کی آواز سنائی دی تب لگا کہ انہوں نے مجھے ہی گولی ماری ہے مگر نہیں جب قدرت کسی کام کے ہونے کی منظوری دے دیتی ہے تو اس کے لئے اسباب بھی خود پیدا کر دیتی ہے۔ گولی کی آواز سن کر بھی میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور تیز بھاگی۔ گولیاں چلنے کی آواز آتی رہیں اور میں بھاگتی رہی۔ دراصل ان لوگوں کو کسی نے دیکھ لیا تھا غالبا پو لیس نے اور انہوں نے ان پر گولیاں چلائی تھیں، نہیں معلوم ! مگر میں کافی دور نکل آئی تھی تب رفتار دھیمی کر لی۔ ایک بار اور مڑ کر دیکھا۔ اب وہاں کوئی نہ تھا۔ مجھے وہ نظر نہ آ رہے تھے شاید میں ان کی حد نگاہ سے آگے نکل چکی تھی۔ اب آبادی دکھائی دے رہی تھی، مکانات نظر آنے لگے تھے پھر مجھ کو کچھ لوگ بھی نظر آئے۔ میں نے بھاگنا بند نہ کیا۔ سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ لڑکی دیوانوں کی طرح بھاگتی جا رہی ہے، بالآخر ایک جگہ تھک کر گر پڑی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو علاقہ جانا پہچان لگا۔ میری سانس اکھڑ چکی تھی اور دل کسی تیز رفتار انجن کی طرح دھک دھک کر رہا تھا۔ ایک عورت میرے قریب آئی۔ اس نے پیار سے پوچھا۔ بچی ! کیا بات ہے، کیا ہوا ہے تجھے ؟ اس کی آواز نے سکون دیا۔ آواز جانی پہچانی لگی۔ دماغ پر زور دیا۔ یہ میری خالہ تھی۔ اس نے کہا۔ فریدہ اس وقت ! ادھر اکیلی آئی ہو اور یہ کیا حالت تم نے بنائی ہوئی ہے۔ تیرا منہ کس نے باندھا ہے ؟ انہوں نے رومال کی گرہ کھول کر میرے منہ کو آزاد کیا تو میں خالہ انجو کہہ کر لپٹ گئی اور رونے لگی۔ انہوں نے مجھے بازو سے اٹھایا اور گلے سے لپٹا لیا۔ سہارا دے کر اپنے گھر لے گئیں جو قریب ہی تھا۔ یہ راستہ ، یہ گلی، یہ جگہ میرے لئے انجانی نہ تھی۔ کئی بار امی اور نانی کے ساتھ یہاں خالہ کے پاس آچکی تھی۔ گھر میں لا کر انہوں نے مجھے بستر پر لٹایا اور پانی کا گلاس دیا ۔ میں ایک گھونٹ لے سکی اور بے ہوش ہو گئی۔ نجانے کب تک ان کے یہاں بستر پر بے سدھ پڑی رہی۔ ہوش آیا تو خالہ اور خالو میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خالہ میرے بالوں کو سہلا رہی تھیں۔ خالہ نے حال پوچھا میں پھر سے رونے لگی۔ انہوں نے چپ کرایا، نیم گریم دودھ اصرار کر کے پلایا اور سکون دیا۔ میرے حواس بحال ہوئے تو ان کو تمام حال بتایا ۔ وہ حال سن کر رو رہی تھیں۔ انہوں نے خود روتے ہوئے مجھ کو دلاسا دیا کہ شکر ہے تم بچ گئیں۔ تم نے ہمت کی ورنہ بجائے اس وقت ان ظالموں کے چنگل میں پھنسی نجانے کہاں ہو تیں۔ خالہ اور خالو اپنی گاڑی میں مجھے گھر چھوڑنے آئے۔ امی ابو ، نانی، ماموں سبھی پریشان تھے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ ان چند گھنٹوں میں مجھ پر کیا بیتی ہے۔ ماموں مجھے ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے۔ مدرسے گئے ، وہ بھی بند ہو چکا تھا۔ جب خالہ نے تفصیل بتائی، امی رونے لگیں، ابو بھی آبدیدہ تھے۔ نانی نے تو پہلے سے رورو کر اپنا حال برا کر لیا تھا۔ اب والد کو موقع ملا، امی سے کہا۔ میں اس لئے منع کرتا تھا کہ ابھی بچے نادان ہیں، نوکری کچھ عرصے بعد کر لینا مگر تم کو تو روپوں کا لالچ پڑا ہوا تھا حالانکہ گھر میں اللہ کا دیا سبھی کچھ ہے۔ نانی نے بھی کہا۔ نعیمہ ! تم نے بچوں کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی ہے حالانکہ میری عمر ایسی نہیں کہ میں یہ ذمہ داریاں نباہ سکوں۔ اس نوکری کے چکر میں تم کسی نہ کسی روز ان بچوں کا نقصان کرو گی۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ بچی نے ہمت کی اور یہ کسی نہ کسی طرح ہم تک پہنچ گئی۔ اگر وہ لوگ لے ہی جاتے تب ہم کیا کرتے۔ سوچو تو ذرا اس بچی کا نجانے کیا حشر ہوتا۔ امی تو یوں بھی رو رہی تھیں، مجھے گلے سے لگا کر خوب پیار کیا اور آئندہ لاپروائی سے توبہ کرلی۔ ماموں اور ابو تھانے میں رپورٹ لکھوانے گئے تھے ان کو بتانے کہ ہماری بچی مل گئی ہے لیکن اور دو بچیاں بھی ان کی گاڑی میں تھیں۔ نہ جانے ان معصوم پھولوں کے ساتھ انہوں نے کیا برتائو کیا ہو گا۔ اس کے بعد تو امی بہت محتاط ہو گئیں۔ ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور چار سال تک دوبارہ نوکری کا نہ سوچا تب تک ہم باشعور نہ ہو گئے۔ وہ اب بھی ہر ملازمت کرنے والی ماں کو نصیحت کرتی ہیں کہ اپنے بچوں سے ذراسی بھی غفلت نہ کرنا۔

Latest Posts

Related POSTS