Friday, October 11, 2024

Lapervah Maan | لاپرواہ ماں

آج جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں وہ آپ کو اندر تک ہلا کررکھ دے گی – لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے نہیں بلکہ ان کے نصیب اور قسمت سے ڈرتے ہیں کسی بھی بیٹی کی ذرا سے لرزش اسے اندھے کوئیں میں دکھیل دیتی ہے- یہ کہانی میرے محلے کی ہے۔ پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن مہ پارہ ، انتہائی ناز و نعم میں پلی بڑھی تھی۔ اس کی والدہ ایک سمجھ دار خاتون تھیں لیکن ان میں ایک خامی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو پاس پڑوس میں جانے سے منع نہیں کرتی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی کو بہت محبت اور پیار سے رکھتی تھیں۔ مہ پارہ فطرتا خاموش طبع اور شریف لڑکی تھی۔ ہمارے محلے میں بہت سارے گھر تھے جو تقریبا سب ہی آپس میں رشتہ دار تھے ۔ جن دنوں یہ واقعہ پیش آیا، مہ پارہ ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ تقر یا اس کی عمر بارہ برس تھی۔ پڑوس میں ایک میاں بیوی اور ان کے چار بچے تھے۔ ان کے گھر اس لڑکی کا آنا جانا تھا ان کے گھر کے سر براہ کا نام سالار تھا جسے سب لالا، لالا کہتے تھے۔ لالا ایک دھوبی تھا۔ وہ مہ پارہ کارشتہ دار نہ تھا، صرف محلے دار تھا۔ لالا جب چھوٹا تھا تو اس کی تین خوبصورت بہنوں کو ستارہ کے تایا نے اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر بے آبرو کیا تھا۔ اب تو ان کی شادیاں ہو چکی تھیں اور ان کے بچے بھی کافی بڑے تھے۔لا لے کے ذہن میں کہیں کسی جگہ یہ نقش تھا کہ مہ پارہ کےتایا نے میری بہنوں کی عزتوں کو پامال کیا تھا مگر ان باتوں کو کافی عرصہ گزر گیا تھا۔ محلے والے بھی بھول بھال گئے تھے ۔ مہ پارہ کا لالے کے گھر بہت آنا جانا تھا۔ اس کی لاپر واماں بھی اسے نہ رو کتی کہ اکلوتی بیٹی ہے ، گھر میں کوئی بہن نہیں ہے ، اسی لئے لالے کے بچوں سے کھیلتی ہو گی۔ لا لے کی بیوی کو اپنی نندوں کی سابقہ زندگی کے بارے میں کچھ پتانہ تھا۔ وہ مہ پارہ کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے پیش آتی تھی لیکن لا لے کے دل میں کیا ہے کسی کو پتانہ تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ مہ پارہ کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا لیا جس کی کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ کہاں ایک کم عمر لڑ کی اور کہاں اٹھائیس سال کا مرد۔ مہ پارہ کی ماں کو محلے والے بھی کہتے تھے کہ اپنی بیٹی کو ان کے گھر اتنی دیر تک نہ جانے دیا کرو۔ کیا خبر اس کی بیوی سعدیہ گھر میں ہوتی ہے یا میکے گئی ہوتی ہے ؟سعدیہ ایک بھولی بھالی عورت تھی، جس کو لا لے جیسے یتیم لڑکے کے ساتھ بیاہ دیا گیا تھا۔ بہر حال مہ پارہ کی ماں نے اپنی بیٹی کونہ روکا۔ وہ کھلم کھلا سعدیہ کے گھر پر پائی جاتی تھی – ایک دن ہم سب اسکول سے واپس گھر آۓ تو دیکھا کہ مہ پارہ کی والدہ پر یشان سب لڑکیوں سے پو چھتی پھر رہی تھی کہ میری بیٹی ابھی تک اسکول سے نہیں آئی اللہ خیر کرے۔ ہم سب بھی پریشان ہو گئے کہ صبح تو وہ ہمارے ساتھ تھی مگر چھٹی کے وقت ساتھ نہیں آئی۔ کچھ دیر بعد پورے محلے میں چہ مگوئیاں ہو نا شروع ہو گئیں کہ مہ پارہ اسکول سے واپس گھر نہیں آئی۔ سب جگہ تلاش شروع ہو گئی۔ اسکول سے پتا کیا تو معلوم ہواوہ صبح گیٹ تک ساتھ آئی تھی پھر چپڑاسی سے کہا کہ میں یہ سامان اپنے کزن کو دینا بھول گئی ، ابھی آتی ہوں ، لیکن وہ واپس نہیں آئی۔اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ جس کے ساتھ بھی گئی ہے ، اپنی مرضی سے گئی ہے۔ محلے والوں نے مہ پارہ کی والد ہ کے کان میں بات ڈالی کہ بی بی لا لے کے گھر بھی پوچھ لو۔ شاید اس کی بیوی کو خبر ہو لیکن وہاں تو تالا تھا، پھر تھانے میں رپورٹ درج کروائی گئی۔ سب کا شک لا لے کی طرف گیا کہ وہ اس کی بیٹی کے آگے پیچھے پھرتا تھا، ضر ور دال میں کچھ کالا ہے۔ پولیس نے اس کے دوستوں کو پکڑ لیا۔ ان سے پوچھ گچھ کی گئی و پتا چلا کہ لا لا مہ پارہ کو لے کر ملتان چلا گیا ہے ، جدھر اس کی بہن کا گھر تھا۔ پولیس مہ پارہ کے بھائیوں کے ساتھ لا لے کی بہن کے گھر پہنچی تو دیکھا ، مہ پارہ دولہن بنی بیٹھی تھی اور نکاح خواں بھی آ چکا تھا۔ پولیس نے مہ پارہ کو بازیاب کروایا اور لالے کو تھانے پکڑ کر لے آۓ ۔ اس نے اقرار کیا کہ میں نے ہی مہ پارہ کو اپنے جال میں پھنسایا تھا تا کہ اپنی بہنوں کی عزت کا بدلہ لے سکوں تا کہ میرے دل کی آگ ٹھنڈی ہو ۔ مہ پارہ کو گھر واپس لے آئے۔ ہمارے علاقے میں جو بچیاں ایسا کام کرتی ہیں تو پورا خاندان ہر نام ہو جاتا ہے یہ بات تقریباً1992 کی ہے ۔ جب خاندان بد نام ہو غیرت کے نام پر قتل کرنافخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ سب خاندان والے مہ پارہ کی فیملی سے نفرت کرنے لگے ۔اس کے باپ بھائی بھی شر مند تھے۔ خاص طور پر مہ پارہ کی ماں کہ اے کاش میں اس وقت ہوش کے ناخن لے لیتی تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا- مہ پارہ خود حیران تھی کہ وہ اس حال میں کیسے پھنسی ۔ ادھر لالے پر کیس چلا اور اسے اغوا کے جرم میں جیل ہو گئی۔ بیوی اپنے بچے لے کر میکے جا بیٹھی اور کچھ عرصہ بعد شوہر کی بے وفائی کا غم سینے سے لگا کر فوت ہو گئی۔ لالے کی بچیاں اپنی پھوپھیوں کے گھر ایک ایک کر کے رہنے لگیں۔ ماں باپ کی شفقت سے محروم بیٹیاں پھوپھیوں نے آپس میں بانٹ لیں کہ ہم ان کی پرورش کریں گے کیو نکہ بچیوں کا ننھیال غریب تھا۔ وہ ان کا بوجھ نہ اٹھا سکتے تھے۔ ادھر مہ پارہ کے بھائی بہن کو گھر میں برداشت نہیں کرتے تھے۔ پورے خاندان میں کوئی بھی ایسانہ تھا جو مہ پارہ کو اپناتا۔ آخر کار اس کی خالہ جو جھنگ میں رہتی تھی اس نے قریبی گائوں میں ہی کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کرمہ پارہ کا نکاح کر واد یا۔۔ وہاں اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ مہ پارہ پانچ بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کا شوہر جب مہ پارہ کے میکے آتا تو کوئی نہ کوئی بھائی اس کے شوہر کے ساتھ ساتھ رہتا تھا کہ علاقے کے لوگ بھیمہ پارہ کاماضی نہ بتادیں لیکن کسی بد خواہ نے شوہر کو اکیلا پا کر مہ پارہ کا ماضی بتاہی دیا جسے سن کر وہ بہت و دل گرفتہ ہوا اور ستارہ کے ساتھ خوب جھگڑا کیا۔ روز ا سے ڈنڈوں سے خوب مارتا، اسے ذلیل کرتا اور وہ بچاری ظلم سہتی رہتی۔ مہ پارہ کے شوہر کو کسی بد بخت نے غموں سے نجات دلانے کے بہانے نشے کے لت لگا دی اور وہ مکمل طور پر نشئی بن گیا۔ کئی کئی دن گھر نہ آتا۔ ادھر بچوں کا خرچہ بھی مہ پارہ کی ماں بھجواتی تھی۔ آخر کار ایک دن شوہر نے اپنی بیوی کو خوب مارا اور طلاق دے دی۔ وہ پانچ بچوں کے ساتھ اپنی ماں کے گھر آ بیٹھی ۔۔ بھا بھیاں اور بھائی تو اسے پہلے ہی ناپسند کرتے تھے ،اب اس پر آسمان بھی ٹوٹ پڑا۔ ماں ، مہ پارہ اور اس کے بچوں کے ساتھ کرایے کے مکان میں رہنےلگی اور بوڑھا باپ اس کے بچوں کا خرچہ اٹھانے لگا کیونکہ گھر پر بھا بھیو ں کا قبضہ تھا۔ وہ کسی صورت بھی اس کو اپنے گھر میں جگہ دینے کو تیار نہ تھے۔ بوڑھا باپ اپنی زمین پر کاشت کاری کر کےمہ پارہ اور اس کے بچوں کا خرچہ پو را کرتا تھا۔ ادھر لالے کو جیل میں ہی پولیس تشدد سے کچھ ایسی کاری ضر میں لگیں کہ کچھ عرصے بعد وہ فوت ہو گیا۔ شاید اس المیہ میں زیادہ قصور مہ پارہ کی والد ہ کا ہے۔ اگر وہ اپنی بیٹی کو گھر پر رہنے کی تلقین کرتی، اس کو کنڑول کرتی تو شاید آج نہ ہی لالے کی بیٹیاں در بدر پھر رہی ہو تیں اور نہ مہ پارہ کے بچے بنا باپ کے پرورش پاتے۔ دونوں گھرانے یوں برباد ہوۓ کہ ان کے خاندان کی عزت تار تار ہو گئی ، سب ختم ہو گیا کیو نکہ آگے بھیمہ پارہ کی بچیوں کا کوئی مستقبل نہیں ، کون ان کو اپنائے گا ؟ سب ان پر طعنہ زنی کرتے ہیں کہ اگر تمہاری ماں غلط قدم نہ اٹھاتی تو آج تم کسی اچھے گھر میں پرورش پار ہے ہوتے ۔ عزت کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ اب تو ستارہ کو بھی اپنی کم عقلی ہے رونا آتا ہے ۔ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں ، ان کے چال چلن پر مکمل نظر رکھیں اور انہیں زیادہ ڈھیل نہ دیں۔ ماں کی لاپرواہی نےدو گھرانوں کی آنے والی نسلیں تباہ کر دیں-

Latest Posts

Related POSTS