Be lazzat | Complete Urdu Story
کیا آپ میری باتیں سُننا پسند کریں گے؟
’’آپ سے آپ ہی مراد ہیں۔ آپ جو یہ سطور پڑھ رہے ہیں آپ جو کوئی بھی ہیں، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مرد ہیں، عورت ہیں، نوجوان ہیں یا بوڑھے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسان تو ہیں نا؟ میں کتنی پاگل ہوں، اگر آپ انسان نہ ہوتے تو یہ سطور کیوں پڑھتے۔ یہ بات میں نے یونہی کہہ دی ہے۔ میں پاگل واگل بالکل نہیں ہوں۔ اگر پاگل ہوتی تو اتنی صاف صاف باتیں کیسے لکھ سکتی تھی۔ آپ میری باتیں سن رہے ہیں نا؟ سن رہے ہیں یا پڑھ رہے ہیں، بات ایک ہی ہے۔ اگر آپ بور ہونا شروع ہوگئے ہیں تو چھوڑیں پھر۔ آگے بڑھ جائیں۔ ویسے میں بہت دلچسپ بات بتانا چاہتی ہوں۔ آپ پوچھیں گے کہ میں کون ہوں۔ میں ایک لڑکی ہوں۔ سیدھی سادی اللہ کی بندی۔ نام میرا ترنم ہے۔ لیکن مجھے گانا بجانا نہیں آتا۔ اب نام رکھنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آدمی کام بھی ویسا ہی شروع کر دے جیسے میرے ایک کزن کا نام ہے، فقیر حسین، لیکن وہ بھیک بالکل نہیں مانگتا۔ میں اسے چھیڑنے کے لیے صرف فقیر کہا کرتی تھی۔‘‘
ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ میرا نام ترنم ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ ہر وقت ہنستی رہتی ہوں۔ میں کیا، یہاں سب ہی ہنستے رہتے ہیں کبھی کبھی تو اتنے زور کے قہقہے پڑتے ہیں کہ دیواریں ہلنے لگتی ہیں۔ کیا کہا، یہ جگہ کون سی ہے؟ ارے! آپ نے یہ جگہ نہیں دیکھی! حیرت ہے۔ بڑی خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں ایک باغ بھی ہے۔ سرسبز، سایہ دار، نیچے بھی سبزہ اُوپر بھی سبزہ، رنگ برنگے پھول، لمبی لمبی کیاریاں، صاف ستھری روشیں۔ یہاں نہ دُھواں ہے، نہ شور، بڑی خاموشی ہے۔ اتنی خاموشی کہ انسان اپنے اندر کی آواز سن سکتا ہے۔ بلکہ اپنے آپ سے باتیں بھی کر سکتا ہے۔ اللہ، بس کیا بتائوں بڑی پیاری جگہ ہے۔ یہیں مر جانے کو جی چاہتا ہے، لیکن پتہ ہے کیا! میں کبھی کبھی اُداس بھی ہو جاتی ہوں۔ ہاں…! جیسے اب ہوں۔ میں غلط تھوڑا ہی کہہ رہی ہوں۔ ارے آپ تو خوامخواہ بحث کرنے لگے۔ ہاں ہاں، مجھے یاد ہے۔ میں نے ابھی ابھی کہا تھا کہ میں یہاں بہت خوش ہوں۔ انکار کب کر رہی ہوں میں۔ اب دیکھیں نا، میں تئیس گھنٹے خوش رہتی ہوں اور کبھی کبھی ایک گھنٹے کے لیے اُداس ہو جاتی ہوں۔ لہٰذا یہ تو نہیں کہوں گی کہ میں یہاں اُداس رہتی ہوں آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں۔ میرے ایک سوال کا جواب تو دیں ذرا اگر تئیس سیر دُودھ میں ایک سیر پانی ملا دیا جائے تو اسے کیا کہیں گے؟ دُودھ یا پانی؟ بالکل ٹھیک کہا آپ نے تئیس سیر دُودھ ایک سیر پانی کے محلول کو دُودھ ہی کہا جائے گا۔
سوری، میں ذرا پٹری سے اُتر گئی تھی۔ آپ تو بور نہیں ہو رہے؟ بھئی باتیں تو ایسے ہی کی جاتی ہیں۔ میری عمر؟ ٹھہریں، ذرا حساب کر لینے دیں، یہ اکتوبر کا مہینہ ہے۔ آئندہ موسم بہار میں، میں پورے بیس برس کی ہو جائوں گی۔ ابھی میں ٹین ایجر ہوں۔
ایک بات بتائوں؟ آپ ہنسیں گے تو نہیں؟ پتہ ہے کیا، ذرا کان آگے کریں، میری شادی ہو چکی ہے اور اس سے بھی دلچسپ بات پتہ ہے کیا۔ میں بیوہ بھی ہو چکی ہوں۔ ارے یہ آپ کا منہ کیوں لٹک گیا! مجھے تو کوئی افسوس نہیں ہے بیوہ ہونے کا۔ افسوس اس لیے نہیں ہے کہ میں اپنی مرضی سے بیوہ ہوئی ہوں… پھر وہی بات! بھئی کہا تو ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں۔ پاگل ایسی باتیں کیا کرتے ہیں؟
اب آپ یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ میری شادی کب ہوئی اور میں بیوہ کیسے ہوئی۔ پلیز، مجھے ہمدردی کا خط نہیں لکھنا۔ مجھے کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ مرد حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ فوراً شادی کا پیغام نہ بھجوا دیں۔ ذرا ٹھہر کے بھی نہیں۔ مجھے مردوں سے چڑ سی ہوگئی ہے۔ اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ ہوا کیا۔ شادی کے صرف ساتویں دن مجھے اپنے شوہر سے نفرت ہوگئی۔ یہ بات نہیں ہے کہ میری شادی زبردستی کی گئی تھی یا میں نے اپنے شوہر کو شادی سے پہلے دیکھا نہیں تھا۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سہیل میرا آئیڈیل تھا، میری اُمیدوں، تمنّائوں اور خوابوں کا مرکز تھا۔ وہ کرکٹ کا مایہ ناز کھلاڑی تھا اور لاکھوں لڑکیوں کے دِلوں کی دھڑکن تھا۔ شادی سے پہلے ہی سوچا کرتی تھی کہ اگر سہیل سے میری شادی ہوگئی تو میں خود کو دُنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھوں گی۔ جب وہ بولنگ کے لیے میدان میں آتا اور بال کو چمکاتا ہوا اسٹارٹنگ پوائنٹ کی طرف جاتا تو ہر لڑکی یہ خواہش کرتی کہ کاش وہ بال ہوتی اور سہیل کی مٹھی میں ہوتی۔ آپ سہیل کو تو ضرور جانتے ہوں گے۔ جب وہ بولنگ کرتا تو اس کے لمبے بال ہوا کے زور سے اُچھل اُچھل کر اس کی کشادہ پیشانی کو چومنے لگتے تھے۔
پھر سب کچھ اچانک ہی ہوگیا۔ ایک صبح میں بیدار ہوئی تو مجھے ہر چیز بہت اچھی لگی کیونکہ میں اپنے آئیڈیل کو پانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ سہیل میرا بن چکا تھا، میں سہیل کی بن چکی تھی۔ میں نے لاکھوں لڑکیوں کو شکست دے دی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ گنگنا رہا ہے۔ لیکن تیسرے یا چوتھے روز میرے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ سہیل وہ نہیں تھا جو میں سمجھی تھی۔ پرائیویٹ زندگی میں وہ بہت بور اور غیر رومانوی شخص تھا۔ وہ کرکٹ کے سوا کسی موضوع پر بات نہیں کر سکتا تھا۔ وہ انسان کے لطیف احساسات اور نازک جذبات سے قطعی ناآشنا تھا۔ شادی کے بعد اس نے ایک بھی ایسی بات نہیں کی جس سے دل کے تاروں میں ارتعاش پیدا ہوتا یا فضا میں نغمے پھوٹ پڑتے۔
پانچویں روز میں نے اس سے کہا۔ ’’سہیل، تم بہت کم گو ہو۔‘‘
’’شاید۔‘‘ اس نے مختصر جواب دیا۔
’’اتنا کم گو ہونا بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔‘‘
’’بالکل ہی گونگا بھی نہیں ہوں۔‘‘
’’مجھے تو کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہماری شادی کو آج پانچواں دن ہے، تم نے نہ اپنے بارے میں کچھ بتایا ہے نہ میرے بارے میں کچھ پوچھا ہے۔‘‘
وہ مسکرایا۔ پھر بولا۔ ’’میرے بارے میں گاہے بگاہے مضامین اور انٹرویو چھپتے رہتے ہیں۔‘‘
مجھے اس کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔ یا تو وہ میرا مطلب نہیں سمجھا تھا یا مجھے ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اپنے غصے کو چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے انٹرویو بڑے شوق سے پڑھتی ہوں۔ لیکن…‘‘
’’پھر تو تمہیں میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہونا چاہیے۔‘‘ اس کے لہجے میں کچھ تکبر پایا جاتا تھا۔ ’’ایک عجیب بات یاد آئی کبھی کبھی میرے بارے میں بعض ایسی باتیں رسالوں میں چھپتی ہیں جو خود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتیں۔‘‘
’’جہالت!‘‘ میرے منہ سے نکل گیا۔
’’کیا کہا؟‘‘ شاید اس نے میری بات سنی نہیں تھی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں ذرا اُونچی آواز میں سوچ رہی تھی۔‘‘
’’پرسوں ہماری پریکٹس شروع ہونے والی ہے۔ آسٹریلیا کی ٹیم بہت فارم میں ہے۔ پچھلے مہینے انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پوری سیریز جیت لی ہے۔‘‘
’’ہم اپنی بات کر رہے تھے۔‘‘ میں نے اُسے یاد دلایا۔
’’کیا ہماری بات ختم نہیں ہوگئی؟‘‘
’’رسالوں میں تمہارے انٹرویو چھپتے ہیں میرے نہیں۔‘‘
’’اب تمہارا ذکر بھی چھپے گا، کیونکہ تم میری بیوی بن چکی ہو۔ میں آئندہ ٹیسٹ میچ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔‘‘
’’کیا تمہیں میرے بارے میں جاننے کی خواہش نہیں ہے؟‘‘
اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ ’’تمہارے بارے میں…! کیا کوئی خاص بات ہے؟‘‘
مجھے اس کا یہ سوال بہت ہی عجیب لگا بلکہ یوں محسوس ہوا جیسے اس نے مجھے گالی دی ہو۔ لیکن میں نے اپنے جوش کو دباتے ہوئے کہا۔ ’’سہیل، میرا اپنا ایک تشخص ہے۔ ایک انفرادیت ہے۔ میں ایک الگ وجود کی مالک ہوں، میرے احساسات و جذبات کی اپنی ایک دُنیا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں میرے بارے میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں؟… یا تم مجھے کچھ بھی نہیں سمجھتے۔‘‘
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ہوگئی نا جذباتی، یہ لڑکیاں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔‘‘ پھر وہ ذرا سنجیدہ ہوتا ہوا بولا۔ ’’دیکھو ترنم، تم میری بیوی ہو اور یہ میرے لیے سب سے اہم بات ہے۔ تمہارے لیے بھی یہ بات اہم ہونی چاہیے۔ اب تم میرے نام سے پہچانی جائو گی۔ جہاں تک تمہارے بارے میں جاننے کا تعلق ہے، تو یقین کرو کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ تم اتنی پیچیدہ اور پراسرار بھی نہیں ہو۔ فی الحال مجھے آئندہ ہونے والے ٹیسٹ میچ کے بارے میں سوچنا ہے۔‘‘
یہ ساری گفتگو شادی کے پانچویں دن ہوئی تھی۔ جس شخص کو میں اپنا آئیڈیل سمجھتی تھی وہ انتہائی سرد مزاج اور خود پسند ثابت ہوا تھا۔ اس نے میری انفرادیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس روز مجھے کرکٹ سے نفرت ہوگئی کیونکہ وہ اچانک ہی میری رقیب بن گئی تھی۔ چھٹے روز میں نے سارا دن سہیل سے کوئی بات نہیں کی۔ کیوں کرتی میں اس کے ساتھ بات۔ اس نے میری توہین کی تھی۔ میری انانیت کو مجروح کیا تھا۔ اس کی نظر میں میری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ بڑا گھمنڈ تھا اسے اپنی شہرت پر۔ ہونہہ، تم میرے نام سے پہچانی جائو گی! میں نے غور کیا تو مجھے وہ ایک کھوکھلا انسان معلوم ہوا وہ اس شہتیر کی مانند تھا جسے دیمک نے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہو۔ پھر میں نے اور غور کیا تو مجھ پر عقدہ کھلا کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کرکٹ ہی تو کھیلتا تھا۔ کھیلنا تو کوئی کمال نہیں ہے۔ ہر بچہ کرکٹ کھیل سکتا ہے۔ زیادہ کھیلنے کو ہمیشہ بُرا سمجھا گیا ہے۔ بچّے گلیوں میں کھیلتے ہیں۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑتے ہیں اور ہر طرف سے ڈانٹ پھٹکار کھاتے ہیں۔ یہ بڑے بچّے بڑے میدان میں کھیلتے ہیں اور دلوں کے شیشے توڑتے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی ڈانٹ پھٹکار نہیں پڑتی۔ میں بھی کتنی نادان تھی ایک کھلنڈرے بچّے کو اپنا آئیڈیل سمجھنے لگی۔ مجھ سے پوچھتا تھا کہ میرے اندر کیا خاص بات ہے؟ حالانکہ خود اس کے اندر کوئی خاص بات نہیں۔
غالباً آپ یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ میں بیوہ کیسے ہوگئی۔ ذرا صبر سے کام لیں۔ ابھی تو بات چھٹے دن تک پہنچی ہے میرا سہاگ اتنی جلدی تو نہ چھینیں۔ ہاں تو ہوا یہ کہ چھٹے دن میں نے سہیل سے کوئی بات نہیں کی۔ لیکن اس نے مجھے منانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور جس بات پر مجھے زیادہ غصہ آیا وہ یہ تھی کہ اس نے میری ناراضگی کو محسوس تک نہیں کیا۔ ساتویں روز وہ پریکٹس کرنے چلا گیا اور میں سارا دن اپنے کمرے میں بند روتی رہی۔ شام کے وقت مجھے ڈرائنگ رُوم سے قہقہوں اور باتوں کی آواز سُنائی دی۔ میں اُٹھ کر دروازے کے قریب
گئی اور غور سے آوازیں سننے لگی۔ سہیل اپنی مداح لڑکیوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ لڑکیاں اس کی تعریف کر رہی تھیں اور وہ بڑی زندہ دلی کے ساتھ اپنے ٹیسٹ میچوں کی باتیں سُنا رہا تھا۔ یہ کیا بات تھی؟ کیسا تضاد تھا؟ بیوی کو تو اس نے ٹال دیا تھا، مکھی کی طرح اُڑا دیا تھا۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ اس کے بارے میں سب کچھ رسالوں میں چھپ چکا ہے۔ لیکن ان آوارہ لڑکیوں کو بتانے کے لیے اس کے پاس بہت کچھ تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اور سوچ کر مجھے سہیل سے نفرت ہوگئی، میری جگہ پر کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس کا بھی یہی ردعمل ہوتا۔
مشرقی لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جس گھر میں دُلہن بن کر جائو وہاں سے جنازہ ہی نکلے تو نکلے، خود نہیں نکلنا۔ شوہر کچھ بھی کرتا رہے، کوئی شکوہ نہ کرنا، ہونٹ سی لینا، زبان کاٹ لینا، کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال لینا، آنکھیں پھوڑ لینا پر اُف نہ کرنا۔ خداحافظ۔ ایسی مشرقی تہذیب کو جو مردوں پر کوئی گرفت نہ کرے۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ باپ نے رقم لے کر بیٹی کو کسی لولے لنگڑے، بڈھے ٹھڈے کے پلّے باندھ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی نصیحت کر دی کہ بیٹی اب اس گھر سے تیرا جنازہ ہی اُٹھنا چاہیے۔ آئے ہائے، ایسے ہی مفت میں جنازے اُٹھتے ہیں نا۔ یہ کوئی تہذیب تھوڑا ہی ہے کہ جب چاہے جنازہ اُٹھا دیا۔ خبردار، ہوشیار، مشرق کی بیٹیاں اب بیدار ہو رہی ہیں۔ اب یوں جنازے نہیں اُٹھیں گے۔ کہتے ہیں میں پاگل ہو گئی ہوں۔ آپ ہی ذرا انصاف کریں۔ کیا میری باتوں میں پاگل پن پایا جاتا ہے؟
پھر کیا ہوا؟ میں کیا بات کر رہی تھی؟ آں ہاں… یاد آیا، میں سہیل کی بات کر رہی تھی۔ ساتویں روز مجھے اس سے نفرت ہوگئی۔ اس نے کوئی پروا نہیں کی۔ میں نے بھی پروا نہیں کی۔ ’’تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی۔‘‘ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوگئے۔ اسی دوران میں بہت کچھ ہوا۔ میرے سسر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ واحد نند کی شادی ہوگئی۔ گھر میں صرف چار افراد رہ گئے۔ میں، میرا دیور، ساس اور میری جان کا دُشمن۔ ساس کو اپنے لاڈلے کی کوئی برائی، برائی نہیں معلوم ہوتی تھی کیونکہ وہ اس کی کمائی کھاتی تھی اگر وہ گھنٹوں کسی لڑکی کو لے کر کمرے میں گھسا ہوا ہے تو ساس کی نظروں میں کوئی بات نہیں تھی۔ دیور چھوٹا تھا۔ وہ بڑے بھائی کے سامنے آنکھیں نیچی کر کے بات کرتا تھا۔ رہ گئی میں تو میری اس گھر میں کوئی اوقات نہیں تھی۔ میں مفت کی خادمہ تھی گھر کے سارے کام میرے سپرد تھے۔
ایک روز میں نے سہیل سے کہا۔ ’’اس طرح گاڑی نہیں چلے گی۔‘‘
لاپروائی سے بولا۔ ’’کیا پیٹرول ختم ہوگیا ہے؟‘‘
’’یہ جو لڑکیاں تمہیں ملنے آتی ہیں وہ مجھے زہر لگتی ہیں اب میں انہیں برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘
’’بے چاری آٹوگراف لینے آ جاتی ہیں۔ تمہارا کیا جاتا ہے۔‘‘
’’کونسی روشنائی سے آٹو گراف دیتے ہو۔ بار بار آٹو گراف لینے آ جاتی ہیں۔ بہت سی چڑیلوں کی تو مجھے شکلیں بھی یاد ہوگئی ہیں ان کی وجہ سے میرا سکون برباد ہو رہا ہے۔‘‘
’’رفتہ رفتہ عادی ہو جائو گی، مشہور لوگوں کی بیویوں کو بڑے حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے۔‘‘
’’تم روزی کمانے کا کوئی باعزت طریقہ کیوں نہیں اختیار کرلیتے۔‘‘
وہ چونک کر میری طرف مڑا۔ اس کا چہرہ ظاہر کر رہا تھا کہ میری بات سے اسے سخت صدمہ پہنچا تھا۔
’’اس سے زیادہ باعزت کام کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ملک کا بچہ بچہ مجھے جانتا ہے۔ بیرونی ممالک میں بھی لوگ مجھے جانتے ہیں۔ اخبارات اور رسائل میرے بارے میں مضامین شائع کرتے ہیں۔ مجھے نزلہ بھی ہو جاتا ہے تو اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے۔‘‘
تم نے صرف اپنی شہرت کی بات کی ہے۔ ’’میں نے کہا۔‘‘ اپنی خوبیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
وہ ہنس کر بولا۔ ’’اگر کوئی خوبی نہ ہو تو شہرت کیوں ہوتی، میں اے کلاس کرکٹ کا کھلاڑی ہوں۔ لاکھوں لوگ بڑے شوق سے میرا کھیل دیکھتے ہیں۔‘‘
’’لوگ تو کٹھ پتلیوں کا تماشہ بھی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔‘‘
’’کرکٹ اور کٹھ پتلیوں کے تماشے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‘‘
’’مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کسی کام کا حاصل کیا ہے۔ کرکٹ اور کٹھ پتلیوں کے تماشے کا حاصل تفریح ہے۔ دونوں کھیل تفریح کے لیے دیکھے جاتے ہیں۔ تمہارے کھیل کو ذرا زیادہ لوگ دیکھتے ہیں اس لیے تم لوگوں کو کچھ زیادہ خیرات مل جاتی ہے۔‘‘
’’ترنم۔‘‘ وہ پہلی دفعہ غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ تم میری توہین کر رہی ہو۔
’’تمہارا المیہ یہ ہے کہ تم صرف کرکٹ کھیلنے کو اور شہرت کو خوبی سمجھتے ہو۔ جو انسان اپنی بیوی کے ساتھ مخلص نہیں ہے اس کی شہرت دو ٹکے کی اہمیت نہیں رکھتی۔ کرکٹ کھیلنا کونسا مشکل کام ہے۔ دو چار مہینے پریکٹس کرنے کے بعد میں بھی بلاّ پکڑ کر وکٹوں کے سامنے کھڑی ہوسکتی ہوں۔ تم اگر سو رنز بناتے ہو تو میں دس تو ضرور ہی بنا لوں گی۔ فیلڈنگ بھی کر لوں گی۔‘‘
’’تم!‘‘ اس نے اپنا ہاتھ بالکل میری ناک سے لگا دیا۔ ’’تم کرکٹ کھیلو گی۔ ہوہو… اے کلاس کرکٹ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔‘‘
’’اے کلاس نہ سہی، بی کلاس، سی کلاس یا ڈی کلاس کو تو کھیل ہی لوں گی۔ اسے بھی کرکٹ کہا جائے گا۔‘‘
’’تم پاگل ہوگئی ہو۔‘‘
’’ابھی نہیں ہوئی۔ اگر تمہارا یہی رویہ رہا تو جلدی تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی۔‘‘
’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘
’’آج کے بعد کوئی فالتو لڑکی اس گھر میں نہیں آئے گی۔‘‘
’’یہ گھر میرا ہے۔‘‘
’’میرا بھی اس گھر پر حق ہے، اگر اس گھر میں لڑکیاں آئیں گی تو لڑکے بھی آئیں گے۔‘‘
’’کیا؟… تم لڑکوں سے دوستی لگائو گی؟‘‘
’’کیا لڑکوں سے دوستی لگانا بُری بات ہے۔‘‘
’’شریف لڑکیوں کو ایسی بات بھی منہ سے نہیں نکالنی چاہیے۔ یہ گناہ ہے۔‘‘
’’گنہگار صرف لڑکی ہوتی ہے یا لڑکا بھی؟‘‘
’’دونوں گناہ گار بنتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ جلدی سے بولا۔ ’’لڑکی کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اسے ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ مردوں کے معاملے میں زیادہ خطرے کی بات نہیں ہے…‘‘
’’تم کچھ اُلجھ گئے ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’جب مرد اور عورت کی دوستی کا ذکر ہو تو اس میں ایک مرد ہوتا ہے اور ایک عورت۔ اگر یہ حرکت بُری ہے تو دونوں کے لیے بُری ہے۔ تمہارے نقطہ نظر کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلا کہ جو لڑکیاں مردوں سے دوستی لگاتی ہیں وہ شریف نہیں ہوتیں یعنی بُری ہوتی ہیں لہٰذا میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ کوئی بُری لڑکی اس گھر میں نہ آئے۔‘‘
اس موقع پر میری ساس آن موجود ہوئی اور بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی۔ تاہم لڑکیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ میں نے جو مردوں سے دوستی کی بات کی تھی وہ محض ایک دھمکی تھی۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن جب عورت ناآسودہ اور شوہر کی توجہ سے محروم ہو تو لغزش ہو ہی جاتی ہے۔
ایک روز میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوگئی، جس نے پہلی ہی ملاقات میں مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ عجیب شخص تھا۔ چپ بیٹھا ہوا غیر اہم اور گم سُم لگتا تھا۔ اس کا رنگ سانولا، قد درمیانہ اور جسم مضبوط تھا۔ اس کا نام مسعود تھا۔ اس نے میرا تعارف سہیل ہی نے کرایا تھا۔ صرف دو جملوں کا تعارف تھا۔ ’’مسعود ہے اور مسعود یہ میری بیوی ترنم ہے۔‘‘
یہ تعارف اسٹیڈیم میں ہوا تھا۔ سہیل تعارف کرانے کے بعد میچ کھیلنے چلا گیا اور مسعود میری ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دو گھنٹے تک ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ چائے کے وقفے کے دوران میں نے سہیل سے کہا کہ میں واپس جانا چاہتی ہوں۔ اس نے مسعود کو گاڑی کی چابی نکال کر دی اور کہا۔ ’’ترنم کو گھر چھوڑ آئو۔‘‘
مسعود نے ذرا سا سر کو خم کیا اور میری طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ’’آیئے۔‘‘
اُف! میں کیا بتائوں آپ کو۔ اس نے یہ لفظ اتنے شیریں اور دل نواز انداز میں کہا کہ بس دل ہی میں اُتر گیا۔ وہ پہلا لمحہ تھا کہ وہ شخص مجھے بہت اچھا لگا۔ اتنا اچھا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ جب ہم جانے لگے تو سہیل نے پیچھے سے آواز لگائی۔ ’’ترنم کو راستے میں ٹھنڈا پلا دینا، بہت بور نظر آ رہی ہے۔‘‘
کار کے قریب پہنچ کر مسعود نے میرے لیے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا اور میرے بیٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں عجیب سا احترام کا جذبہ تھا۔
’’آپ نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کیوں کھولا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’آپ کے بیٹھنے کے لیے۔‘‘
’’لیکن پچھلی سیٹ ہی کیوں؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔
اس نے پچھلی سیٹ کا دروازہ بند کر دیا اور اگلی سیٹ کا کھول دیا۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔ میں سیٹ پر بیٹھ گئی تو اس نے دروازہ بند کر دیا اور اُوپر سے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ پھر اس نے انجن اسٹارٹ کیا اور کار کو گیئر میں ڈال دیا۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ ہماری کار مین روڈ پر پہنچ گئی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ بولے۔ وہ ایسا شخص تھا جس کے ساتھ بے اختیار باتیں کرنے کو جی چاہتا تھا لیکن وہ خاموشی کے ساتھ کار چلا رہا تھا۔ مجبوراً مجھے ہی خاموشی توڑنی پڑی۔
’’پتہ ہے میں پیچھے کیوں نہیں بیٹھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں اس نے مختصر جواب دیا۔‘‘
’’اگر ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہو تو مالک پیچھے بیٹھتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’لیکن چونکہ آپ ڈرائیور نہیں ہیں اس لیے میں نے پیچھے بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ جیسے میں ایک بچی تھی اور میں نے ایک ایسا لطیفہ سُنایا تھا جسے وہ کئی بار سن چکا تھا، پھر اس نے کہا۔ ’’جو بھی گاڑی چلاتا ہے اسے ڈرائیور ہی کہا جاتا ہے۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ … کہ ایک ڈرائیور ہوتا ہے اور ایک مالک ہوتا ہے۔ مالک کو ڈرائیور تو نہیں کہہ سکتے نا!‘‘
’’اور چونکہ میں مالک نہیں ہوں اس لیے مجھے ڈرائیور ہی کہا جائے گا۔‘‘
ڈرائیور اُسے کہتے ہیں جو… جو تنخواہ لیتا ہے۔ یعنی ملازم ہوتا ہے۔
وہ پھر چپ ہوگیا اور کچھ اُداس سا نظر آنے لگا۔
کچھ دُور جانے کے بعد میں نے کہا۔ ’’آپ کی بیوی تو بہت بور ہوتی ہوگی۔‘‘
اس نے تھوڑا سا سر گھما کر میری طرف دیکھا اور دوبارہ سڑک کی طرف
دیکھنے لگا۔ میں نے مزید کہا۔ ’’آپ کی خاموشی پر اسے بہت غصہ آتا ہوگا۔‘‘
’’آپ نے یہ کیسے فیصلہ کرلیا کہ میں شادی شدہ ہوں؟‘‘
’’سوری، میں سمجھی آپ شادی شدہ ہیں۔‘‘ پتہ نہیں کیوں مجھے اس کے غیر شادی شدہ ہونے پر خوشی سی ہوئی تھی۔
’’کیا آپ کو میری خاموشی پر غصہ آ رہا ہے؟‘‘ اس نے میری معذرت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن آپ میری بیوی تو نہیں ہیں۔‘‘
میں جھینپ سی گئی۔ پھر اپنی بات کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر دو آدمی اکٹھے سفر کر رہے ہوں تو انہیں وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ بات چیت کر ہی لینی چاہیے۔‘‘
’’کیا آپ کو میرے ساتھ باتیں کرنا اچھا لگتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
میں منہ سے توہاں نہ کہہ سکی البتہ اثبات میں سر ہلا دیا۔
کچھ دُور جانے کے بعد اس نے کار کو شہید روڈ پر موڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک ایئرکنڈیشنڈ ریستوران کے فیملی روم میں بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے آئس کریم سوڈا کے گلاس رکھے تھے۔
’’دراصل میں بہت عجیب قسم کا آدمی ہوں۔‘‘ مسعود نے کہا۔ ’’لڑکیوں کے معاملے میں بہت بزدل واقع ہوا ہوں۔ میں قاتلوں، چوروں اور ڈاکوئوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ لیکن لڑکیوں سے بہت ڈرتا ہوں۔ خصوصاً جو لڑکی مجھے پسند آ جاتی ہے اس سے تو بہت دُور بھاگتا ہوں۔‘‘
’’آپ تو واقعی عجیب آدمی ہیں۔‘‘
’’بات یہ ہے مسز سہیل۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ پھر ٹٹولنے والی نظروں سے میری طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ’’ہمارے درمیان جو بات چیت ہو رہی ہے اس کا سہیل کے سامنے ذکر تو نہیں کرو گی؟‘‘
’’آپ کہیں گے تو نہیں کروں گی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں تم پر بھروسہ کر لیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ اور ’’تم‘‘ کے لیے معذرت۔
بات یہ ہے، ترنم کہ میں بہت محتاط آدمی ہوں۔ اگر کوئی لڑکی مجھے بہت اچھی لگنے لگتی ہے تو میں اس کے قرب کی خواہش کرنے لگتا ہوں۔ لیکن اگر میں دیکھتا ہوں کہ اس سے قریب ہونا ممکن نہیں تو میں بہت دُور چلا جاتا ہوں۔
’’کیا میں تمہیں اچھی لگی ہوں؟‘‘
اس نے ہولے سے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا۔ ’’بہت اچھی۔‘‘
اس کا انداز انتہائی والہانہ تھا۔ مجھ پر بے خودی سی طاری ہوگئی۔ ’’معاً میرے ذہن میں دو باتیں آئیں۔ پہلی یہ کہ میں اپنے شوہر کی امانت ہوں اور دُوسری یہ کہ سہیل سے انتقام لینے کا وہ بہترین موقع ہے۔ انتقام والی بات زیادہ زوردار ثابت ہوئی اور میں مسعود کی طرف جھکتی چلی گئی۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اور نہ ہی میں نے زیادہ جاننے کی ضرورت محسوس کی۔ ہم گاہے بہ گاہے ایک دُوسرے سے ملنے لگے۔ ہوٹلوں میں، کلبوں میں، تفریحی مقامات پر ۔ کئی مرتبہ وہ مجھے فلم دکھانے بھی لے گیا۔ شاید سہیل کو بھی ہماری ملاقاتوں کا علم تھا لیکن اس نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ جہاں تک مسعود کا تعلق تھا وہ انتہائی محتاط اور بااُصول آدمی تھا۔ اتنے قرب کے باوجود ایک اخلاقی حد کے اندر رہتا تھا۔ ہم گھنٹوں باتیں کرنے کے باوجود کبھی بور نہیں ہوتے تھے۔ ہر ہفتے میں ایک آدھ ملاقات ضرور کرتے۔ اگر کسی ہفتہ مسعود سے ملاقات نہ ہو پاتی تو میں اُداس ہو جاتی۔ تنہا اور کھوئی کھوئی سی نظر آنے لگتی۔ یوں محسوس ہوتا جیسے زندگی میں خلا سا پیدا ہوگیا ہے۔ مسعود اکثر کہا کرتا تھا کہ کاش میں شادی سے پہلے اس سے ملی ہوتی۔ میرے بھی کچھ ایسے ہی جذبات تھے۔ میں ہر وقت یہ سوچتی رہتی تھی کہ اگر میری شادی مسعود کے ساتھ ہو جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ سہیل دُور سے جتنا اچھا لگتا تھا قریب سے اتنا ہی بھیانک تھا۔ وہ ایک بور اور غیر دلچسپ شخص تھا۔ اسے کرکٹ کھیلنے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا۔ اکثر معاملات میں وہ کوئی ذاتی رائے نہیں رکھتا تھا۔ اس کے اندر حسد و رشک کے جذبات بھی نہیں تھے۔‘‘
ان احساسات کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سہیل سے دُور اور مسعود سے نزدیک تر ہوتی چلی گئی۔ شروع میں سہیل میری پروا نہیں کرتا تھا۔ بعد میں، میں نے اس کی پروا کرنی چھوڑ دی۔ اگر وہ کوئی بات کرتا تو میں بے رُخی کے ساتھ چڑ کر جواب دیتی۔ پھر ہمارے درمیان خوب جھگڑا ہوتا۔ دو تین مرتبہ اس نے میرے منہ پر تھپڑ بھی مار دیئے۔ تب میں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر اس نے آئندہ مجھ پر ہاتھ اُٹھایا تو میں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گی۔
پھر ایک روز میں اپنے ہی ہاتھوں سے بیوہ ہوگئی۔ یعنی سہیل میرے ہاتھوں سے قتل ہوگیا۔ اُن دنوں میری ساس اور دیور کسی شادی کے سلسلے میں فیصل آباد گئے ہوئے تھے۔ رات کے تقریباً نو بجے میرے اور سہیل کے درمیان سخت لڑائی ہوئی۔ اس نے طیش میں آ کر میرے منہ پر دو یا تین تھپڑ مار دیئے۔ تھپڑ کھانے کے بعد مجھ پر جنون سوار ہوگیا۔ میں نے ناخنوں سے اس کا منہ نوچنے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے میرے بال پکڑ کر اتنے زور سے جھٹکا دیا کہ میں زمین پر گر گئی۔ اس پر بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی اور اس نے مجھے ٹھوکریں مارنی شروع کریں اور میں بلبلا اُٹھی۔ کئی جگہوں سے خون بہنے لگا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے زخمی دیکھ کر اُسے مجھ پر رحم آ جائے گا، لیکن میرا خیال غلط نکلا۔
وہ یہ کہتا ہوا دُوسرے کمرے میں چلا گیا۔ ’’اپنا سامان پیک کر لو، تم اس گھر میں نہیں رہ سکتیں۔‘‘
میں نے اس فقرے سے سخت تذلیل محسوس کی۔ اس نے اتنی آسانی کے ساتھ میری قسمت کا فیصلہ کر دیا تھا گویا میں کوئی بکائو مال تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں تقریباً ایک گھنٹے تک کمرے کے فرش پر پڑی روتی رہی تھی، لیکن اس سنگدل انسان کو میرے زخموں کا خیال بھی نہیں آیا۔ تب میرے سینے میں انتقام کی آگ سُلگنے لگی۔ میں نے کونے میں پڑا ہوا بلّا اُٹھا لیا اور سہیل کے کمرے میں جھانکا۔ وہ بستر پر لیٹ کر کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا۔ میں دبے پائوں اندر داخل ہوئی اور دونوں ہاتھوں میں بلّا پکڑ کر پوری قوت سے وار کیا۔ اس نے آہٹ پا کر اُٹھنے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو چوٹ کندھے پر لگنی چاہیے تھی وہ سر پر لگی اور وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ میں کئی لمحوں تک اس کے اُٹھنے کا انتظار کرتی رہی، لیکن جو مر جاتا ہے وہ خود ہی نہیں اُٹھتا۔ اُسے لوگ اُٹھاتے ہیں۔
اتنے میں اطلاعی گھنٹی کی آواز سُنائی دی۔ میں بُری طرح چونک گئی۔ میں نے بلّا پلنگ کے نیچے پھینک دیا۔ آئینے کے سامنے جا کر اپنا حلیہ ٹھیک کیا اور پھر دروازے کی طرف دوڑی۔ گھنٹی بجانے والا مسعود تھا۔ اُسے دیکھ کر میری ساری گھبراہٹ دُور ہو گئی۔ تاہم مجھے تھوڑا سا تعجب ضرور ہوا۔ وہ رات کے وقت کبھی ہمارے گھر نہیں آتا تھا۔
’’ترنم، تم خیریت سے تو ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’کہاں چوٹ لگی ہے؟ اور وہ سہیل کہاں ہے؟‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا کہ مجھے چوٹ لگی ہے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’تھوڑی دیر پہلے سہیل نے مجھے فون کیا تھا۔‘‘
’’سہیل نے فون کیا تھا!‘‘
’’اس نے کہا تھا کہ تمہارا موڈ ٹھیک نہیں ہے، تمہیں چوٹ بھی لگ گئی ہے اور میں تمہیں کہیں سیر کرانے لے جائوں۔‘‘
’’سہیل کہاں ہے؟‘‘
’’مسعود، سہیل نے آج مجھے بہت بُری طرح پیٹا ہے۔‘‘
’’لیکن وہ ہے کہاں؟‘‘
’’وہ… وہ مر گیا ہے۔‘‘
’’مم… مر گیا! کیا تم مذاق کر رہی ہو؟‘‘
میں نے اسے ساری بات سچ سچ بتا دی۔ وہ ایک طویل لمحے تک کچھ نہیں بولا۔ خالی نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے گہرا سانس لیا اور بولا۔ ’’ترنم، یہ اچھا نہیں ہوا۔‘‘
’’پلیز! میری مدد کرو مسعود۔ مم… میرا خیال ہے کہ ہم اس سانحے کو ڈکیتی کی واردات کا رنگ دے سکتے ہیں۔‘‘
اس نے رحم آلود مسکراہٹ سے میری طرف دیکھا۔ بولا ’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’پھر کوئی اور طریقہ بتائو۔ مم… میں جیل نہیں جانا چاہتی۔ مجھے پولیس والوں سے بہت خوف آتا ہے۔ میں… میں پھانسی پر نہیں لٹکنا چاہتی۔ جلدی کوئی ترکیب سوچو۔ میں ایسا کرتی ہوں کہ کہیں چلی جاتی ہوں۔ مثلاً فلم دیکھنے چلی جاتی ہوں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ واپس آ کر میں پولیس کو اطلاع کر دوں گی کہ میری عدم موجودگی میں کسی نے میرے شوہر کو…‘‘
’’پولیس کو اطلاع تو ہو چکی ہے۔‘‘ مسعود نے کہا۔
’’کک… کیا مطلب؟ کس نے اطلاع دی ہے پولیس کو؟‘‘
’’ترنم، جو بات میں تمہیں نہیں بتانا چاہتا تھا وہ آج بتانی ضروری ہوگئی ہے۔ میں اس علاقے کا ایس ایچ او ہوں۔‘‘
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ کسی طور پر تھانیدار نہیں لگتا تھا۔ وہ تو بہت ہی نرم مزاج اور خوش اخلاق شخص تھا۔ میں چند لمحوں تک آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورتی رہی۔ پھر مجھے اتنے زور کی ہنسی آئی کہ میں ہنستی چلی گئی اور آج تک ہنس رہی ہوں۔ پتہ نہیں کیا بات ہے جو شخص زیادہ ہنستا ہے اُسے لوگ یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ یہاں سب اچھے لوگ رہتے ہیں۔ پہلے مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ لیکن اب پتہ چل گیا ہے۔ ایک دن میں ٹہلتی ہوئی گیٹ پر چلی گئی وہ گیٹ دُوسری دُنیا والوں کا گیٹ تھا۔ بڑی اور وسیع دُنیا والوں کا گیٹ۔ پہلے میرا جی چاہا کہ اس گیٹ کے اندر داخل ہو جائوں۔ دُوسری دُنیا کے لوگوں سے ملوں۔ لیکن جب میں نے وہاں لگا ہوا بورڈ پڑھا تو جلدی واپس آ گئی۔ اس بورڈ پر لکھا تھا۔ دماغی امراض کا اسپتال، یعنی اس طرف سب پاگل بستے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے وہ بورڈ پڑھ لیا۔ ورنہ پاگلوں کی دُنیا میں پھنس جاتی۔ اس جنت سے محروم ہو جاتی جس میں، میں اب رہتی ہوں۔ یہاں میں بہت خوش رہتی ہوں۔ ہاں کبھی کبھی میں اُداس بھی ہو جاتی ہوں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب میرا دماغ دُوسری دُنیا کے لوگوں کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ پاگلوں کی طرح…