گھر کے بڑے کمرے میں خاندان کے سبھی افراد جمع تھے۔ گھر کا سربراہ رحمت دین گہری سوچ میں مستغرق تھا۔ اس کے اردگرد خاندان کے بیٹھے ہوئے دوسرے افراد بھی کچھ سوچ رہے تھے۔ ایک جگہ اتنے افراد ہونے کے باوجود خاموشی طاری تھی۔
رحمت دین نے کچھ دیر کے بعد اپنا سر اوپر اٹھایا اور اپنے دائیں جانب دیکھا۔ اس چارپائی پر اس کے تینوں بیٹے براجمان تھے۔ پھر اس نے بائیں جانب دیکھا جہاں اس کے تینوں بیٹوں کی بیویاں بیٹھی بظاہر سوچتی ہوئی نظر آرہی تھیں لیکن ان تینوں کو معلوم تھا کہ اگر انہوں نے کوئی بات اپنے سسر رحمت دین کو بتا بھی دی تو وہ سن کر چپ رہیں گے اور دھیان اس بات پر دیں گے جو ان کے بیٹوں نے کہی ہوگی۔ اور فیصلہ وہ کریں گے جو ان کو پسند ہوگا۔
ان کے سامنے بشیر بیٹھا تھا۔ وہ ان کا رشتے دار تھا۔ کچھ دیر قبل بشیر نے آکر رحمت دین سے کہا۔ ’’میں آپ کے پاس ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔‘‘
’’کیا کام ہے، پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘ رحمت دین نے مسکرا کر کہا۔
’’پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل مجھے نثار احمد نے بھیجا ہے۔‘‘ بشیر بغیر وقت ضائع کئے اصل بات کی طرف بڑھا۔
اس کی بات سن کر رحمت دین نے بشیر کی طرف دیکھا۔ بشیر جانتا تھا کہ رحمت دین کا غصہ پورے خاندان میں مشہور ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اگلی بات سننے سے قبل اسے یہاں سے چلے جانے کا حکم دے دے لیکن اس کی سوچ کے برعکس رحمت دین نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’کیوں بھیجا ہے اس نے…؟‘‘
’’نثار احمد آپ کا تایا زاد ہے۔ پانچ سالوں سے آپ کے درمیان شدید ناراضی چلی آرہی ہے، بول چال بند ہے…!‘‘
’’مجھے ماضی مت پڑھائو، کام کی بات کرو کہ اس نے کیوں بھیجا ہے؟‘‘ رحمت دین کو بشیر کی تمہید پسند نہیں آئی۔ اس نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
بشیر فوراً سنبھل کر بولا۔ ’’نثار احمد بیمار ہے۔ وہ اپنا قصور مانتے ہوئے آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے آپ کے ساتھ صلح ہوجائے۔‘‘
بشیر کی بات سن کر رحمت دین نے اپنے سر کو جنبش دی۔ ’’جب میں نے کہا تھا کہ اپنی غلطی مان لو اور معافی مانگ لو، میں ناراضی ختم کردوں گا، تب تو اس نے میری بات نہیں مانی تھی۔‘‘
’’اب انہیں احساس ہوگیا ہے اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہیں۔‘‘ بشیر نے کہا۔
’’اب میں نہیں مانوں گا۔ اسے کہو کہ بغیر صلح کئے مر جائو۔‘‘ رحمت دین نے سنگ دلی کا مظاہرہ کیا۔
’’ایسا نہ کہیں…! صلح کو اللہ پسند کرتا ہے۔‘‘ بشیر نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’مجھے سبق مت پڑھائو اور جو میں نے کہا ہے، اسے جاکر بتا دو۔‘‘ رحمت دین نے اتنا کہہ کر منہ دوسری طرف کرلیا۔
’’نثار احمد کا سارا خاندان آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔ وہ آپ کو اپنا بڑا مانتے ہیں اور آئندہ بھی بڑا مان کر چلنا چاہتے ہیں۔‘‘ بشیر نے کہا۔
رحمت دین دوسری طرف منہ کئے بیٹھا رہا۔ بشیر اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ جب دس منٹ گزر گئے تو بشیر سمجھ گیا کہ اب رحمت دین اس کی طرف چہرہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کی عادت تھی کہ جب اسے بات نہ کرنا ہوتی منہ پھیر کر بیٹھ جاتا اور سامنے والے کے جانے کا انتظار کرتا تھا۔ ناچار بشیر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا تو اچانک عقب سے رحمت دین کی آواز سنائی دی۔ ’’ٹھہرو…!‘‘
بشیر فوراً رک گیا اور اس نے پرامید نظروں سے رحمت دین کی طرف دیکھا۔ رحمت دین کچھ توقف کے بعد بولا۔ ’’بیٹھ جائو… میں بچوں سے اس بارے میں پوچھ لوں، وہ کیا کہتے ہیں۔‘‘
بشیر بہ خوشی بیٹھ گیا۔ رحمت دین نے اپنے بچوں اور ان کی بیویوں کو بلالیا۔ سب سے چھوٹا بیٹا گھر میں نہیں تھا اس لئے وہ اس مشورے میں شامل نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ غیر شادی شدہ تھا، اس لئے اسے گھر کے فیصلوں میں کم ہی شامل کیا جاتا تھا۔ وہ آمنے سامنے چارپائیوں پر بیٹھ گئے اور بشیر کی بات ان کے سامنے رکھ کر اس نے پوچھا۔ ’’سوچ کر بتائو مجھے اب کیا کرنا چاہئے؟‘‘
رحمت دین کی بات سن کر سب سوچنے لگے۔ اس طرح پندرہ منٹ گزر گئے۔
رحمت دین نے خاموشی توڑتے ہوئے اپنے بیٹوں سے پوچھا۔ ’’کیا سوچا ہے تم لوگوں نے…؟‘‘
بڑا بیٹا بولا۔ ’’ابا جی! میرا خیال ہے کہ آپ کو ان سے صلح کرلینی چاہئے۔ وہ ایک غلط فہمی تھی اور اس وجہ سے ہمارے خاندان ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ چچا نثار دل کے اچھے آدمی ہیں۔‘‘
بڑے بیٹے کی رائے سن کر رحمت دین نے دوسرے بیٹوں کی طرف دیکھا۔ ان کی بھی یہی رائے تھی۔ اپنے شوہروں کے جواب سن کر ان کی بیویوں نے بھی وہی جواب دیئے۔ بشیر دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ پانچ سال کی جدائی اب ختم ہونے کو ہے۔
کچھ توقف کے بعد رحمت دین نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے بچوں کی یہ رائے ہے، تو میں سب کچھ بھلا کر صلح کرنے کو تیار ہوں۔‘‘
رحمت دین کے فیصلے نے سب کو خوشی سے نہال کردیا تھا۔ بشیر سب سے زیادہ خوش تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’تو پھر کب ان کی طرف چلنا ہے؟‘‘
’’ہم اس کی طرف نہیں جائیں گے۔ وہ چھوٹا ہے، وہ لوگ میرے پاس آئیں، میں کیوں جائوں؟‘‘ رحمت نے فیصلہ سنایا۔
’’لیکن نثار احمد بیمار ہے، چل پھر نہیں سکتا۔ چارپائی سے لگا ہوا ہے۔‘‘ بشیر نے اس کی مجبوری بتائی۔
رحمت دین سوچنے لگا تو بڑے بیٹے نے راہ دکھائی۔ ’’ابا جی…! کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم ان کی طرف چلتے ہیں… اس سے ہماری اور عزت ہوگی۔‘‘
’’جمال بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘ بشیر نے جلدی سے اس کی تائید کی۔
’’ایسی بات ہے تو پھر ہم نثار احمد کی طرف چلے چلتے ہیں۔‘‘ رحمت دین نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔
’’یہ ہوئی نا بات!‘‘ بشیر خوش ہوگیا تو رحمت دین کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
ان سے زیادہ خوش انور تھا جو کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ یہ جان کر اس کی خوشی دوچند ہوگئی تھی کہ چچا نثار سے صلح ہورہی ہے۔
انور کی خوشی کی وجہ دراصل چچا نثار کی بیٹی روبینہ تھی۔ دونوں خاندانوں میں ناراضی تھی، بول چال بند تھی، لیکن انور اور روبینہ میں بول چال بھی تھی اور دلوں میں محبت بھی تھی۔
انور کی روبینہ سے سال قبل ملاقات ہوئی تھی۔ انور ایک سرکاری محکمے میں کلرک بھرتی ہوا تھا۔ اس دن موسم نے اچانک انگڑائی لی تھی اور بادل اس تیزی سے آسمان پر چھائے کہ سارا آسمان انہوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔
آفس ٹائم ختم ہوچکا تھا اور انور اپنی بائیک پر براجمان گھر کی طرف جارہا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ اس نے جلدی سے ایک بند دکان کے شیڈ کے نیچے بائیک روک لی۔ وہاں روبینہ پہلے سے موجود تھی۔ وہ اکیڈمی سے واپس آرہی تھی۔
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چپ چاپ ایک طرف ہوکر کھڑے ہوگئے۔ بارش رفتہ رفتہ زور پکڑتی جارہی تھی۔ انور کو جانے اچانک کیا سوجھی کہ روبینہ سے مخاطب ہوا۔ ’’اگر ہمارے بڑوں میں ناچاقی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں، ہم بھی ایک دوسرے سے بات نہ کریں؟‘‘
روبینہ نے ایک نظر انور کی طرف دیکھا اور پھر بولی۔ ’’ہم بول کر کیا کریں گے؟‘‘
’’آپس میں باتیں کریں گے۔‘‘
’’اس کا فائدہ کیا ہوگا؟‘‘
’’ضروری نہیں ہے کہ ہر کام فائدے کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔‘‘ انور نے جواب دیا۔
’’بہتر ہوگا کہ ہم خاموشی سے بارش رکنے کا انتظار کریں اور پھر اپنے اپنے گھروں کا رخ کریں۔‘‘ روبینہ نے خشک لہجہ اپنا لیا۔
’’اس کی وجہ…؟‘‘
’’شاید آپ کو کوئی فرق نہ پڑے لیکن ہوسکتا ہے کہ میرے گھر والوں کو آپ سے بات کرنا اچھا نہ لگے اور وہ مجھے گھر بٹھا لیں اور میں پڑھائی سے بھی جائوں۔‘‘ روبینہ نے وجہ بتائی۔
’’کیا پڑھ رہی ہو؟‘‘ انور اس کے کچھ اور قریب ہوگیا۔
’’بی اے کی تیاری کررہی ہوں۔‘‘
’’کہاں سے آرہی ہو اس وقت…؟‘‘
’’اکیڈمی سے آرہی ہوں۔‘‘ روبینہ نے جواب دیا۔
’’اکیلی آتی جاتی ہو؟‘‘
’’یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر میرا گھر ہے اور وہ سامنے اکیڈمی ہے۔ اگر بارش نہ ہوتی تو میں یہاں نہ رکتی۔‘‘ روبینہ نے بتایا۔
’’چچا کیسے ہیں؟‘‘ انور نے پوچھا۔
’’ٹھیک ہیں… تایا ابا کی صحت تو ٹھیک ہے؟‘‘ روبینہ بولی۔
’’ہاں! وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اچھا ایک بات پوچھوں؟‘‘ انور نے بارش کی طرف دیکھتے ہوئے زیرلب مسکرا کر کہا۔
’’پوچھو…!‘‘
’’تم نے ایک بار ہمارے گھر روٹی بنائی تھی، ٹیڑھی سی…! اب بھی ویسی ہی بناتی ہو؟‘‘ انور نے پوچھا تو پہلے روبینہ نے انور کی طرف دیکھا پھر ہنسی۔ انور بھی ہنسنے لگا۔
یہ تھی دونوں کے درمیان خاندان میں ناراضی کے بعد پہلی ملاقات جو باتوں سے شروع ہوئی اور ایک دوسرے کے موبائل فون نمبرز کے تبادلے پر ختم ہوئی۔
اس کے بعد دونوں موبائل فون پر باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں دونوں کے بیچ محبت ہوگئی۔ دونوں موقع نکال کر باہر کھانا کھانے لگے اور اس بات سے پریشان بھی ہونے لگے کہ ان کی یہ ملاقاتیں فضول ہیں، کیونکہ دونوں کے خاندان میں خلیج ہے۔ اس کے باوجود ملاقاتیں اور محبت کم نہیں ہوئی اور ان دونوں کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ ان کے تعلق کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوسکا تھا۔
اب جو انور نے روبینہ کے گھر والوں کے ساتھ صلح کی بات سنی تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اسے امید ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے ہوجائیں گے اور ان کی محبت خاموشی سے جیت جائے گی۔
٭…٭…٭
ایک گھنٹے کے بعد رحمت دین اپنے سارے بیٹوں اور ان کی بیویوں کو لے کر نثار احمد کے گھر چلا گیا۔
نثار احمد نے دیکھا تو بیماری کی حالت میں بھی اس نے اٹھ کر اپنے بھائی کا استقبال کرنے کی کوشش کی لیکن رحمت دین نے اسے اٹھنے نہ دیا اور اسے لیٹے لیٹے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس طرح دونوں خاندانوں کا ملاپ ہوگیا۔
نثار احمد کے برادرنسبتی اکبر کو ان کی صلح بالکل پسند نہیں آئی۔ وہ نثار احمد کی دکان پر منشی تھا اور ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ وہ ہیرپھیر کا ماہر تھا۔ نثار احمد کا ایک ہی بیٹا تھا جو باپ کی بیماری کے بعد دکان پر جانے لگا تھا۔ سارا کام اکبر کرتا تھا۔ اب جو ان دونوں بھائیوں کے درمیان صلح ہوتی دکھائی دی تو اکبر نے سوچا کہ اب رحمت دین اسے کاروبار کے بارے میں مشورے بھی دے گا اور مداخلت بھی کرے گا۔ نثار احمد پہلے ہی رحمت دین کو اہمیت دیتا تھا۔ اگر اس نے دکان کی نگرانی اس کے سپرد
کردی تو اکبر جو ہیرپھیر کرتا تھا، وہ سلسلہ رک جائے گا۔
اکبر کے کانوں میں ابھی یہ خبر نہیں پڑی تھی کہ نثار احمد اور اس کی بیوی رحمت دین سے صلح کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں ورنہ وہ بشیر کو اس کے گھر تک جانے نہ دیتا۔
اس رات دونوں خاندانوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا اور ڈھیروں باتیں کیں اور رات گئے واپس آئے۔ واپس آکر رحمت دین نے اپنے بڑے بیٹے جمال اور بہو کو اپنے کمرے میں بلا کر کہا۔ ’’تم دونوں نے وہاں کچھ اور بھی دیکھا کہ بس ہنس کھیل کر ہی آگئے؟‘‘
’’ہم آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھے۔‘‘ جمال نے اپنی بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد دریافت کیا۔
’’نثار کی بیٹی بڑی ہوگئی ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ پڑھ رہی ہے۔‘‘ رحمت دین نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! میری باتیں ہوئی ہیں روبینہ سے!‘‘ بہو نے کہا۔
’’کیسی لگی…؟‘‘ رحمت دین نے پوچھا۔
’’اچھی ہے ابا جی!‘‘ بہو اپنے سسر کی بات کا مطلب سمجھ کر مسکرائی۔
’’میں راستے میں سوچ رہا تھا کہ اب اس تعلق کو اتنا مضبوط کردوں کہ کوئی دراڑ آنے ہی نہ پائے۔ کیوں نہ ہم انور کا رشتہ مانگ لیں؟‘‘ رحمت دین نے دونوں کی طرف باری باری دیکھ کر پوچھا۔
’’ابا جی…! یہ تو آپ نے بہت اچھا سوچا ہے۔‘‘ جمال نے کہا۔
’’تم ایک بار انور سے بات کرکے دیکھ لو پھر میں کل ہی بات کرتا ہوں۔‘‘ رحمت دین نے کہا۔
’’ابا جی! ابھی بات کروں؟‘‘ جمال نے پوچھا۔
’’ابھی کرلو بلکہ سب کو اس کے کمرے میں لے جاکر بات کرو۔ پھر جو بات ہو، مجھے صبح بتانا۔ میں اب سونے لگا ہوں، فجر کی نماز کے لئے مجھے وقت پر اٹھنا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘ رحمت دین نے کہا اور دونوں مسکراتے ہوئے کمرے سے چلے گئے۔
٭…٭…٭
انور جو چاہتا تھا، وہ آسانی سے ہوگیا تھا۔ جو بات اس کے دل میں تھی، وہ رحمت دین نے روبینہ کو دیکھ کر انور کا کام آسان کردیا تھا۔ جب اس کے بھائی اور بھابی نے روبینہ کے بارے میں بات کی تو اس نے مسکرا کر سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’جو ابا جی اور آپ لوگ چاہیں۔‘‘
اس جملے کے اندر انور اور روبینہ کے بیچ جو تھا، وہ بآسانی چھپ گیا تھا۔ اب انور بظاہر باپ کی خواہش پر روبینہ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوا تھا۔
صبح ناشتے کے دوران انور کی رضامندی رحمت دین تک پہنچا دی گئی۔ اسی دوپہر کو رحمت دین نے نثار احمد کے گھر کا رخ کرلیا۔ پھر جیسے ہی رحمت دین نے انور اور روبینہ کی بات چھیڑی، نثار احمد اور اس کی بیوی کے چہروں پر خوشی تیرنے لگی۔ وہ انکار کر ہی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے رحمت دین کا منہ ہی میٹھا نہیں کرایا بلکہ اسے مٹھائی دے کر واپس بھیجا اور یوں انور اور روبینہ کا رشتہ طے ہوگیا۔ دونوں گھرانے اب بہت خوش تھے۔
٭…٭…٭
وہی ہوا جس کا اکبر کو ڈر تھا۔
جب رحمت دین تیسری بار نثار احمد سے ملنے آیا تو اکبر بھی وہاں موجود تھا۔ رحمت دین نے پوچھا۔ ’’اکبر کیا کرتا ہے آج کل…؟‘‘
’’جب سے میں بیمار ہوا ہوں، اکبر دکان پر جانے لگا ہے۔‘‘ نثار احمد نے بتایا۔
’’تمہاری دکان پر جاتا ہے؟‘‘ رحمت دین نے ایک نظر اکبر کی طرف دیکھا تو وہ گھبرا گیا۔
’’ساری دکان اس نے سنبھالی ہوئی ہے۔‘‘ نثار احمد نے بتایا۔ ’’بہت محنتی ہے، ہر کام اچھا کررہا ہے۔‘‘
’’دھیان رکھنا نثار احمد…! کہیں ساری دکان ہی نہ سنبھال لے۔‘‘
رحمت دین کی اس بات نے اکبر کے تن بدن میں آگ لگا دی اور نثار احمد نے ایک نظر اکبر کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا۔ ’’اکبر بہت اچھا ہے۔ ہمیں اکبر پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘
’’آج کل وہی نقصان پہنچاتے ہیں جن پر ہم بھروسہ زیادہ کرتے ہیں۔‘‘ رحمت دین نے کہا۔
’’بھائی صاحب! آپ نے میرے منہ پر یہ بات کہہ کر مجھے بھی بے ایمان لوگوں میں شامل کردیا ہے۔‘‘ اکبر نے مسکراتے ہوئے لیکن زخم خوردہ لہجے میں کہا۔
’’نثار احمد کیا، ساری دنیا جانتی ہے کہ میں سچی بات منہ پر کہنے کا عادی ہوں۔ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ تم بے ایمان ہو… میرا مطلب یہ تھا کہ اپنا ہو یا پرایا، اپنے کام اور مال پر نظر رکھنی چاہئے۔‘‘ رحمت دین نے وضاحت کی۔
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ نثار احمد نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’امجد نے بھی دکان پر جانا شروع کردیا ہے؟‘‘
’’امجد ابھی بچہ ہے۔ اسے سمجھانا کہ دکان پر نظریں اور کان کھول کر بیٹھا کرے۔ ماموں اپنی جگہ اور کاروبار الگ رکھے۔‘‘
اکبر کے دل میں چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ابھی اٹھ کر رحمت دین کا گلا دبا دے۔ فی الحال وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے رحمت دین کی زبان کو بند کرنے کا کوئی طریقہ سوچنا شروع کردیا تاکہ وہ زبان پھر کبھی اس کے خلاف زہر نہ اگلے۔
٭…٭…٭
اکبر کے لئے رحمت دین کی باتیں بہت اذیت ناک تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ دونوں گھرانوں کو دوبارہ ایک دوسرے سے دور کیسے کرے۔ اکبر نے ساری زندگی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ نثار احمد کے بیمار ہونے کی وجہ سے اسے بیٹھے بٹھائے کاروبار کرنے کا موقع مل گیا تھا اور اب وہ چاہتا تھا کہ جلد ازجلد جو سمیٹ سکتا تھا، سمیٹ کر اپنی دنیا بنا لے۔
اکبر جس دکان سے پان کھاتا تھا، اس نے اپنے بھائی سے الگ ہوکر ایک دوسرے محلے میں دکان کھول لی تھی۔ وہ اکثر اکبر کو کہتا تھا کہ اس کی دکان پر آئے۔ اکبر کا اس محلے میں آنا جانا تھا اس لئے وہ ایک شام اس کی دکان پر پہنچ گیا۔
اکبر کی نظر باربار ایک مکان کی طرف اٹھ رہی تھی۔ اس کا دکاندار دوست گاہکوں میں مصروف تھا۔ اچانک اکبر چونکا کیونکہ اس مکان سے انور باہر نکلا تھا۔ دروازے تک اسے ایک نوجوان چھوڑنے کے لئے آیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے مسکرا کر باتیں کررہے تھے۔ اس اثناء میں دکاندار گاہکوں سے فارغ ہوگیا تھا۔
’’تم اس مکان کے بارے میں جانتے ہو؟‘‘ اکبر نے جلدی سے مکان کی طرف اشارہ کیا۔
’’بالکل جانتا ہوں۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’کیا جانتے ہو؟‘‘ اکبر نے پوچھا۔
’’یہی کہ اس مکان میں ٹینا بائی رہتی تھی۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’رہتی تھی…؟‘‘ اکبر کو حیرت ہوئی۔
’’ہاں! رہتی تھی۔ ایک مہینہ پہلے وہ یہ مکان بیچ کر چلی گئی ہے۔ اب یہ ساری گلی شریفوں کی ہوگئی ہے۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر ہنسا۔
اکبر کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ ٹینا بائی نے اس محلے میں اس وقت مکان بنایا تھا جب یہاں خال خال مکان دکھائی دیتے تھے۔ وہ مکان اس قدر مشہور تھا کہ آس پاس کے لوگ بھی ٹینا بائی کے بارے میں جانتے تھے۔ پھر آبادی بڑھنے لگی۔ جن لوگوں کو ٹینا بائی کے بارے میں پتا چلا، انہوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی لیکن ٹینا بائی کے تعلقات نے شرافت کو دبا کر رکھ دیا۔ پھر اچانک ٹینا بائی وہ مکان بیچ کر چلی گئی۔
اکبر کی نظریں انور پر مرکوز تھیں۔ اس نے دکاندار سے کہا۔ ’’تم اس لڑکے کو جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں! جانتا ہوں۔ اکثر اس گھر میں آتا جاتا ہے۔ اس کے دوست کا گھر ہے۔ کل رات یہاں دوستوں کی دعوت ہے۔‘‘ دکاندار نے ایک نظر انور کی طرف دیکھ کرکہا۔
’’کل یہاں دعوت ہے۔ تمہیں کیسے پتا؟‘‘ اکبر نے پوچھا۔
’’انہوں نے مجھے ٹھنڈی ٹھار بوتلوں کا آرڈر دیا ہے۔ دوستوں کی محفل جمے گی۔‘‘ اس نے بتایا۔
یہ سن کر اکبر کی آنکھیں گھوم گئیں اور وہ معنی خیز انداز میں مسکرا کر بولا۔ ’’پکی بات ہے کہ کل رات یہاں دعوت ہے اور سب دوست یہاں جمع ہوں گے؟‘‘
’’بتایا تو ہے کہ مجھے ٹھنڈی بوتلوں کا آرڈر دیا ہے لیکن تم کیوں باربار پوچھ رہے ہو؟‘‘ دکاندار بولا۔
’’آج تمہاری طرف آنا میرے لئے بڑا سودمند ثابت ہوا۔‘‘ اکبر مسکرایا۔
’’وہ کیسے…؟‘‘
’’اپنا کان میرے پاس لا!‘‘ اکبر بولا اور پھر اس نے اس کے کان میں کچھ کہہ کر اسے حیران کردیا۔
٭…٭…٭
نثار احمد اور اس کی بیوی متحیر نگاہوں سے اپنے سامنے براجمان اکبر کی طرف مسلسل دیکھے جارہے تھے۔
’’تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘ نثار احمد کی بیوی بولی۔
’’میری بات کا یقین نہیں ہے تو کل رات کو وہ پھر اس گھر میں جائے گا۔ وہ روز وہاں جاتا ہے۔ سارا شہر جانتا ہے کہ ٹینا بائی کون ہے۔‘‘ اکبر نے معصوم صورت بنا کرکہا۔
اکبر کی بات سن کر دونوں میاں، بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اکبر نے دونوں سے بات ہی ایسی کہی تھی کہ انور بدنام زمانہ ٹینا بائی کے گھر میں آتا جاتا ہے اور اسے یہ بات اس کے دوست نے بتائی ہے جس کی اس مکان کے پاس پان کی دکان ہے اور وہ انور کو جانتا ہے۔
دونوں میاں، بیوی کو چپ دیکھ کر اکبر نے کہا۔ ’’میں کہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ امجد کو بھیج دیں، وہ خود دیکھ لے۔ میرا دوست بتا رہا تھا کہ وہ کل رات پھر آئے گا، وہاں کوئی محفل ہے۔‘‘
’’تمہاری بات پر ہمیں یقین ہے، امجد کو بھیجنا ضروری تو نہیں ہے۔‘‘ نثار احمد نے کہا۔
’’پھر بھی آپ اس سے بات کریں، وہ میرے ساتھ کل چلے۔‘‘ اکبر نے اصرار کیا۔
’’میں تو کہتی ہوں کہ ایک بار خود دیکھ کر تسلی کرلیں۔ سنی ہوئی بات اور آنکھوں دیکھی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔‘‘ نثار احمد کی بیوی نے کہا۔
نثار احمد سوچتے ہوئے بولا۔ ’’کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ شاید اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو اور ہم اس غلط فہمی کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کربیٹھیں۔‘‘
’’میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ آپ ایک بار تسلی سے خود دیکھ لیں۔‘‘ اکبر نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، امجد تمہارے ساتھ چلا جائے گا۔‘‘ نثار احمد نے ہامی بھر لی۔
روبینہ یہ ساری باتیں دروازے کے پیچھے کھڑی سن رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ انور ایسا کرسکتا ہے۔ اسے انور پر بھروسہ تھا لیکن وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کا بھائی امجد کیا خبر لے کر آتا ہے۔
٭…٭…٭
اکبر نے بڑی ہوشیاری سے جال بنا تھا۔ وہ امجد کو اپنے دوست کی دکان پر لے گیا اور دونوں اندر بیٹھ گئے۔ جس جگہ وہ بیٹھے تھے، وہاں سے اس مکان کا دروازہ واضح دکھائی دیتا تھا۔ اس مکان کے باہر تین موٹرسائیکلیں کھڑی تھیں۔ وہ مکان دراصل انور کے دوست کے والد نے خریدا تھا۔ نئے مکان کی خوشی میں انور کے دوست نے اپنے دوستوں کی دعوت کی تھی۔ اکبر نے امجد اور اس کے گھر والوں پر یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ گھر بک چکا ہے۔ وہ اس بدنام مکان کو انور کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔
’’میں خود یہاں سے دکان چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں۔ جانے کون
لوگ یہاں آتے ہیں اور مجھ سے سگریٹ، پان مفت لے جاتے ہیں۔ پیسے مانگو تو مارنے کو دوڑتے ہیں۔‘‘ اکبر کے دوست نے اس کا پڑھایا ہوا سبق دہرانا شروع کیا۔
’’یاد کرو جب تم نے مجھ سے بات کی تھی تو میں نے کہا تھا کہ وہ بدنام گلی ہے، مت لو دکان…؟‘‘ اکبر نے فوراً لقمہ دیا۔
’’میں نے سوچا تھا کہ اس جگہ پان، سگریٹ کے گاہک زیادہ ہوتے ہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ سب مفت خورے اور بدمعاش لوگ ملیں گے۔‘‘ دکاندار بولا۔
’’بہتر یہی ہے کہ تم اب دکان چھوڑ دو۔‘‘ اکبر نے مشورہ دیا۔
’’ویسے ایک بات کہوں، اگر آپ برا محسوس نہ کریں؟‘‘ دکاندار نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات ہے، بولو…؟‘‘ اکبر بولا۔
’’یہ جو آپ کا رشتے دار ہے…!‘‘ دکاندار کہتا ہوا رک گیا۔
’’بولو بولو کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ اکبر جلدی سے بولا۔
’’یہ اس جگہ کا کچھ زیادہ ہی دیوانہ ہے۔ شاید ہی کوئی رات ہو جب یہ یہاں نہ آیا ہو۔‘‘ اس نے آگ بھڑکائی۔
’’کل جب میں تمہاری دکان پر آیا تھا تو میں نے اچانک انور کو اس گھر سے نکلتے دیکھا تو میں تو دنگ رہ گیا تھا۔ بھئی ہماری تو بیٹی کا معاملہ ہے، ہم نے اس کے ساتھ رشتہ طے کیا ہے۔‘‘ اکبر نے تاسف سے کہا۔
’’برا نہ منانا اکبر بھائی! آپ کا یہ رشتے دار غلط ہے۔ اس کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ اس نے آگ بھڑکائی۔
’’ہماری بیٹی ہی جب اس کے ساتھ خوش نہیں رہے گی تو پھر ہم کس طرح چین پائیں گے۔‘‘ اکبر بولا۔
’’یہ بات تو ہے۔‘‘ دکاندار نے سر ہلایا۔
کافی وقت ہوگیا تھا اس لئے اب دوست باہر نکلنے لگے تھے۔ انور بھی باہر نکلا تو یہ محض اتفاق تھا کہ اس کا پیر پھسل گیا اور وہ گرتے گرتے بچا۔ اس بات کو بھی اکبر نے فوراً پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’لگتا ہے نشے میں ہے۔‘‘
’’آپ کو لگ رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ نشے میں ہے۔‘‘ دکاندار نے فوراً لقمہ دیا۔ امجد کی نگاہیں انور پر مرکوز تھیں۔
پھر وہ سب لوگ اپنی اپنی موٹرسائیکلوں پر بیٹھ کر چلے گئے۔ امجد نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔
’’اب کیا کہتے ہو؟‘‘ ان کے جانے کے بعد اکبر نے امجد کی طرف دیکھا۔
’’گھر چلتے ہیں۔‘‘ اکبر کی بات کا جواب دینے کی بجائے امجد اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس کے ساتھ اکبر بھی کھڑا ہوگیا۔
گھر پہنچ کر امجد نے بتایا کہ وہ واقعی اس مکان سے نکلا تھا اور یہ کہ وہ نشے میں تھا۔ امجد کی تصدیق سے نثار احمد اور اس کی بیوی کا دل بیٹھ گیا تھا۔ ان کے چہرے افسردگی سے لٹک گئے تھے۔
یہ سب کچھ روبینہ کا بھائی اپنی آنکھوں دیکھا حال سنا رہا تھا، کوئی ابہام نہیں تھا۔ روبینہ دکھی ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ انور ایسا نکلے گا۔ وہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس نے غصے میں موبائل فون پوری قوت سے دیوار پر دے مارا کہ وہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔
امجد نے یہ سستا سا موبائل فون اسے اس لئے لے کر دیا تھا تاکہ وہ کالج اور اکیڈمی آتے جاتے اگر کسی مسئلے سے دوچار ہوجائے تو اسے اطلاع کرسکے۔ اس کے علاوہ اسے موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ روبینہ اس موبائل فون پر انور سے باتیں کرنے لگی تھی اور اب اس نے وہ موبائل فون توڑ کر انور سے بات کرنے کا ذریعہ بھی ختم کردیا تھا۔
٭…٭…٭
نثار احمد اور اس کی بیوی سوچ رہے تھے کہ وہ رحمت دین سے کیسے بات کریں۔ اس سوچ بچار میں دو دن گزر گئے تھے۔ پھر اکبر نے کہا۔ ’’اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں بات کروں؟‘‘
’’تم کیا بات کرو گے؟‘‘ نثار احمد نے پوچھا۔
’’میں ان سے انور کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ ان کے علم میں لاتا ہوں کہ انور کیا کررہا ہے۔ پھر باتوں باتوں میں ان پر یہ واضح کردیتا ہوں کہ ہم روبینہ کی شادی انور سے کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔‘‘ اکبر بولا۔
’’اس طرح بات کرنا مناسب ہوگا؟‘‘ نثار احمد کے لہجے میں تشویش اور پریشانی تھی۔
’’بات تو کرنی ہے یا پھر چپ چاپ روبینہ کی شادی کردیتے ہیں۔ جو اس کا نصیب…!‘‘ اکبر نے کہا۔
’’ہم مکھی دیکھ کر کیسے نگل سکتے ہیں۔‘‘ روبینہ کی امی جلدی سے بولی۔
’’پھر مجھے اجازت دیں، میں بات کرتا ہوں۔ بلکہ جو موقع محل ہوگا، میں اس حساب سے بات کرلوں گا۔‘‘ اکبر نے دونوں کی طرف دیکھا۔ بات کرنی بھی ضروری تھی۔ اس بات کو زیادہ لٹکایا بھی نہیں جاسکتا تھا اس لئے روبینہ کے ماں، باپ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اکبر کو اجازت دے دی۔
٭…٭…٭
اکبر اسی دن رحمت دین کے پاس پہنچا۔ کچھ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اکبر نے کہا کہ وہ ان سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہے۔ رحمت دین اسے دوسرے کمرے میں لے گیا۔ کچھ توقف کے بعد اکبر بولا۔ ’’ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے؟‘‘ رحمت دین نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’یہ بات بھائی نثار اور آپا، آپ سے کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کے اندر ہمت نہیں ہورہی تھی۔‘‘ اکبر نے معصوم سی صورت بنا لی تھی اور آنکھیں بھی جھکا لی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے کسی بات پر شرمندگی ہو۔
’’بات کیا ہے؟‘‘ رحمت دین نے پوچھا۔
کچھ توقف کے بعد اکبر نے بولنا شروع کیا۔ ’’جب اولادیں اسکول سے کالج جاتی ہیں تو پھر ان کو پر لگ جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگ جاتی ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر اکبر چپ ہوگیا۔
’’آگے بولو۔‘‘ رحمت دین کو بے چینی ہونے لگی تھی۔
’’روبینہ… کچھ اور چاہتی ہے۔‘‘ اکبر نے کہا۔
’’کیا چاہتی ہے؟‘‘ رحمت دین نے جاننا چاہا۔
’’وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے اس رشتے سے صاف انکار کردیا ہے۔‘‘ اکبر بولا۔
یہ سن کر رحمت دین کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ ’’میں ابھی نثار کے پاس جاکر بات کرتا ہوں۔‘‘
’’وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘ اکبر نے جذباتی رحمت دین کے سامنے کھڑا ہوکر کہا۔
’’کیوں! کوئی فائدہ نہیں ہے؟‘‘
’’وہ دونوں بہت شرمندہ ہیں، وہ آپ کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ آپ وہاں چلے بھی گئے تو وہ آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔‘‘ اکبر نے پراطمینان لہجے میں بات کی۔
رحمت دین اسی جگہ رک گیا۔ ’’انکار روبینہ نے کیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘ اکبر نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’نثار نے روبینہ کے منہ سے ایسی بات سن کر اس کی گردن تن سے جدا کیوں نہیں کردی؟‘‘ رحمت دین کو سخت غصہ آرہا تھا۔ وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
’’ہم سے جتنا ہوسکا، ہم نے روبینہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر امجد نے کہا کہ وہ ویسا ہی کریں جیسا روبینہ چاہتی ہے۔ اب ہم جلاد تو ہیں نہیں کہ اپنی اولادوں کے سر کاٹ دیں۔ ہمارے دبائو کی وجہ سے اگر روبینہ گھر سے چلی جائے تو ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، یہ سوچ کر ہم روبینہ کی بات ماننے پر مجبور ہوگئے۔‘‘ اکبر بولا۔
رحمت دین سوچتا رہا کہ وہ کیا کرے۔ ابھی نثار کے پاس چلا جائے لیکن اکبر نے بتا دیا تھا کہ وہ اتنا شرمندہ ہے کہ وہ اس سے نہیں ملے گا۔ امجد کی رضامندی کا سن کر رحمت دین نے بھی فیصلہ کرلیا۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر وہ اپنی بیٹی کی بات ماننے پر راضی ہیں تو پھر مجھے فضول ضد نہیں کرنی چاہئے۔ جاکر نثار احمد کو بتا دینا کہ انور کے لئے رشتوں کی کمی نہیں ہے اور یہ بھی بتا دینا کہ ہم دونوں گھرانوں میں دوری ہی اچھی… مجھے معلوم نہیں تھا کہ نثار احمد کی بیٹی اتنی بے باک ہے کہ ماں، باپ کی عزت کا بھی خیال نہیں ہے اسے!‘‘
رحمت دین کی بات سن کر اکبر دل ہی دل میں مسکرایا۔ ’’آپ دوری قائم نہ کریں۔ جس طرح انہوں نے روبینہ کی بات کو قبول کرلیا ہے، آپ بھی قبول کرلیں۔‘‘
’’بہتر ہے کہ تم مجھے مشورہ دینے کی بجائے یہاں سے چلے جائو، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اندر کا سارا غصہ تم پر نکل جائے اور تم کو اپاہج ہوکر یہاں سے جانا پڑے۔‘‘ رحمت دین نے غصے سے اسے آنکھیں دکھائیں۔
اکبر نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ چلا جائے۔ اس نے اپنا کام کردیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ رحمت دین جتنا غصے کا تیز اور جذباتی ہے، وہ پلٹ کر بھی نثار احمد کی دہلیز پر قدم نہیں رکھے گا۔
اکبر کے جانے کے بعد رحمت دین نے جب گھر والوں کو بتایا کہ روبینہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور وہاں شادی کرنا چاہتی ہے تو سب نے اپنے اپنے ہونٹوں پر حیرت سے انگلیاں رکھ لیں، جبکہ انور کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی۔ اس نے دوسرے کمرے میں جاکر روبینہ کو فون کیا۔ اس کا فون مسلسل بند جارہا تھا۔ فون کا بند ہونا انور کو مشکوک کررہا تھا۔
٭…٭…٭
اکبر نے واپس جاکر نثار احمد اور اس کی بیوی اور امجد کو نئی کہانی سنائی۔ ’’جب میں نے ان سے بات کی کہ انور اس بدنام گھر میں جاتا ہے تو میری بات سن کر رحمت بھائی ہنسنے لگے اور لاپروائی سے بولے۔ اس میں کیا برائی ہے، جوانی میں ایسا ہوجاتا ہے۔‘‘
’’بھائی صاحب نے ایسا کہا؟‘‘ نثار احمد کی بیوی کو سن کر حیرت ہوئی۔
’’اور بھی بہت کچھ کہا جو میں یہاں کہنا نہیں چاہتا۔‘‘ اکبر نے جلدی سے ایسی شکل بنا لی جیسے اسے وہ تلخ باتیں مضطرب کرنے لگی ہوں۔
’’اور کیا کہا؟‘‘ نثار احمد نے کہا۔
’’چھوڑیں اس بات کو…! اب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ انہوں نے اک بار پھر تعلق ختم کردیا ہے۔‘‘
’’وہ کیوں…؟‘‘ نثار احمد چونکا۔
’’ہم نے ان کے بیٹے کے عیب جو بتا دیئے، اس پر انہوں نے غصہ کیا اور مجھے ذلیل کرکے اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔‘‘
’’میں بھائی رحمت سے بات کرتا ہوں۔‘‘ نثار احمد نے کہا۔
’’اب آپ بھی اپنی بے عزتی کرائیں گے؟ بہتر نہیں ہے کہ چپ چاپ اپنے گھر بیٹھ جائیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ غصے کے کتنے تیز ہیں۔ جو میں سن آیا ہوں، وہ مجھ تک ہی رہنے دیں تو اچھا ہے۔‘‘ اکبر نے روک دیا۔
’’لیکن…!‘‘ نثار احمد نے کچھ کہنا چاہا۔
’’ماموں ٹھیک کہہ رہے ہیں ابا جی!‘‘ امجد متانت سے بولا۔ ’’ہم ان کے غلام نہیں ہیں کہ اپنی بے عزتی کرانے ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائیں۔ ہمیں ایسے رشتے داروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’بڑی مشکل سے صلح ہوئی تھی۔‘‘ نثار احمد کے لہجے میں تاسف تھا۔
’’جب ان کے ساتھ صلح نہیں تھی تو کیا ہمارے گھر میں روٹی نہیں پکتی تھی؟‘‘ اکبر نے غصے سے کہا۔ نثار احمد اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اکبر نے یکدم اپنے لہجے میں مٹھاس کا
رنگ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی جی! آپ کی بھی عزت ہے۔ کوئی آپ کو یہ کہہ دے کہ نثار کی جرأت نہیں ہے کہ وہ میرے سامنے آنکھ اٹھا سکے اور تم میرے سامنے میرے بیٹے کی شکایت لے کر آگئے ہو۔‘‘
’’ایسا رحمت بھائی نے کہا تھا؟‘‘ نثار احمد نے پوچھا۔
’’اس سے بھی زیادہ زہر اگلا ہے انہوں نے جو میں آپ کو بتانا نہیں چاہتا، اس لئے خاموشی ہی بھلی!‘‘
’’ابا جی…! ہم کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جلدی روبینہ کی شادی کہیں اور کردیں گے تاکہ وہ ہماری دہلیز پر قدم ہی نہ رکھیں۔‘‘ امجد نے کہا۔
امجد کی بات سن کر اکبر خوش ہوگیا۔ ’’امجد نے بڑی صحیح بات کی ہے۔‘‘
نثار احمد کا وہ بھائی تھا۔ اس اچانک دوری نے اسے اداس کردیا تھا لیکن وہ جوان بیٹے کے سامنے کچھ نہیں بول سکا۔ ویسے بھی وہ بیمار تھا، چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ کچھ کہہ کر وہ بیٹے کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نثار احمد نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا تو اس کی بیوی بولی۔ ’’امجد ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ نثار احمد نے بھی آہستہ سے رضامندی کا اظہار کردیا۔
اکبر کی چال کامیاب رہی۔ دونوں گھر ایک بار پھر ایک دوسرے سے دور ہوگئے تھے۔
٭…٭…٭
انور کے لئے یہ سب بہت حیران کن تھا لیکن روبینہ سے رابطہ نہیں ہورہا تھا۔ اس کا فون مسلسل بند جارہا تھا جس سے انور کو یقین ہورہا تھا کہ جو کچھ اکبر کہہ گیا ہے، وہ سچ ہی ہوگا۔
انور اس بات پر حیران تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ روبینہ ایسی نہیں ہوسکتی۔ اس نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی لیکن یہ بھی ممکن تھا کہ اسے کوئی ایسا لڑکا پسند آگیا ہو جو اس سے زیادہ اچھا ہو۔ پھر انسان کا دل اور سوچ بدلتے دیر کتنی لگتی ہے۔
ایک شام انور نے ڈرتے ڈرتے رحمت دین سے کہا۔ ’’میرا خیال ہے ابا جی! آپ کو ایک بار چچا نثار سے ملاقات کرنی چاہئے۔‘‘
’’وہ کیوں…؟‘‘ رحمت دین نے اسے گھور کر دیکھا۔
انور نے پھر ہمت پکڑی۔ ’’اصل بات کا تو چچا نثار سے ہی پتا چلے گا۔‘‘
’’میرے پاس جو آیا تھا، وہ کوئی غیر نہیں تھا، وہ روبینہ کا ماموں ہے۔ جو اسے کہا گیا تھا، وہ مجھے بتا کر چلا گیا۔‘‘ رحمت دین نے غصے سے کہا۔
’’کیوں نہ ہم بشیر چچا سے بات کریں؟‘‘ اس بار جمال نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’اب کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ میں اس تعلق کو ختم کرچکا ہوں، تم لوگ بھی ان سب کو بھول جائو، یہ میرا فیصلہ ہے۔‘‘ رحمت دین اتنا کہہ کر اُٹھ گیا۔
انور سوچتا رہا۔ وہ اپنے اور روبینہ کے تعلق کو اپنے والدین پر عیاں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان کو کیسے بتاتا کہ روبینہ ایسی نہیں ہے، آپ اچھی طرح تصدیق کرلیں۔ وہ مجبوراً چپ رہا۔
انور مسلسل روبینہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کا موبائل بند جارہا تھا۔ یہ بات انور کو شک میں مبتلا کررہی تھی۔
٭…٭…٭
دو ماہ کے اندر نثار احمد کے گھر والوں نے روبینہ کا رشتہ تلاش کیا اور اپنے مقدر پر روتی روبینہ اس گھر سے رخصت ہوگئی۔ روبینہ کی شادی کی خبر رحمت دین کے گھر والوں کو بھی مل گئی تھی۔ (جاری ہے)